Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat


4.2/5 - (20 votes)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ  کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

آخری قسط                                                      سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری

حضرت علیؓ کی شہادت

حضرت علی کرم اللہ وجہہ جمعہ کے روز17 رمضان المبارک 40 ہجری میں شہید ہوئے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ابنِ ملجم نے شہید کیا جو خارجیوں میں سے تھا۔ ابنِ ملجم کا تعلق مصر سے تھا۔ وہ حضرت علیؓ کو شہید کر نے کی غرض سے کوفہ آیا۔ اپنے دوستوں سے ملا لیکن کسی کو بتایا نہیں کہ کس مقصد سے آیا ہے۔ اس دوران اس کی نظر قطامہ نامی ایک عورت پر پڑی اور اس کے عشق میں مبتلا ہو گیا۔ قطامہ کے باپ اور بھائی خارجی تھے جن کو حضرت علیؓ کے لشکر نے قتل کیا تھا۔ قطامہ کو ابنِ ملجم نے پیغامِ نکاح بھیجا۔ اس عورت نے حق مہر مقرر کیا کہ اگر یہ ادا کر سکو تو نکاح کر لو۔ حق مہر میں اس نے تین ہزار درہم، ایک غلام اور حضرت علیؓ کی شہادت رکھی۔

ابنِ ملجم خوش ہو گیا کہ میں تو آیا ہی اس مقصد کے لیے تھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جمعہ کے روز نمازِ فجرپڑھانے آئے تو اس ملعون نے حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس کی تلوار زہر میں بھگوئی گئی تھی۔ اس کو لوگوں نے پکڑ لیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے وصیت کی:
اے بنی مطلب! کہیں تم میری وجہ سے مسلمانوں کے خون نہ بہا دینا۔اور یہ کہتے پھرو کہ امیرالمومنین قتل کر دئیے گئے ہیں۔ سوائے میرے قاتل کے کسی کو قتل نہ کرنا۔ اے حسنؓ! اگر میں اس وار سے جانبر نہ ہو سکا تو تم بھی قاتل کو ایک ہی وار سے ختم کرنا کیونکہ ایک وار کے بدلے میں ایک وار ہونا چاہیے اور اس شخص کا مثلہ نہ کرنا کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو فرماتے سنا ہے تم لوگ مثلہ سے احتراز کرو خواہ وہ پاگل کتے ہی کاکیوں نہ ہو۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 356)

جندبؓ بن عبداللہ کا بیان ہے کہ میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا اے امیر المومنین! اگر آپؓ ہم سے رُو پوش ہو جائیں اور خدا نہ کرے کہ ایسا ہو تو کیا ہم حضرت حسنؓ سے بیعت کر لیں ؟حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا نہ میں تمہیں اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ اس سے روکتا ہوں، تم لوگ زیادہ مناسب سمجھ سکتے ہو۔ (تاریخ طبری، جلد 3، حصہ دوم، صفحہ 354)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے جو کچھ حضرت مرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وصال کے بعد گزرا ہے آخر عمر تک تمام واقعات کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خبر دے دی تھی اور ان حوادث کے اصول سے مطلع فرما دیا تھا۔ (ازالتہ الخفا جلد چہارم، ص 502)

یہاں صرف ان روایات کو بیان کیا جائے گا جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت کے دوران پیش آنے والے اہم واقعات سے متعلق ہیں۔

خلافتِ علیؓ حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ وعثمانؓ کے بعد  احادیث کی روشنی میں

حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس امر سے بخوبی آگاہ تھے کہ آپؓ کو خلافت ملنا لکھا جا چکا ہے اور یہ بھی قضائے الٰہی ہے چنانچہ :
حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں خواب دیکھا گویا میں، ابوبکرؓ، عمرؓاور عثمانؓ بیٹھے ہوئے ہیں۔یکایک ہمارے اوپر آسمان سے ایک دسترخوان نازل ہوا حتیٰ کہ ابوبکرؓ کے ہاتھ میں آن لگا۔ انہوں نے اس سے تناول کیا اور پھر اپنی جگہ سے ہٹ گئے، پھر عمرؓ آئے انہوں نے کھایا اور اپنی جگہ سے ہٹ گئے پھر عثمانؓ آئے اور وہ بھی کھا کر ہٹ گئے پھر میں آگے بڑھا اور کھایا، اس دوران میری قوم آگئی انہوں نے مجھے پلٹ دیا۔ میں کھانے پر مسلسل ان سے لڑتا رہا لیکن وہ مجھ پر غالب آگئے اور کھانے لگے پھر یکایک میرے چچا عباسؓ کی اولاد آگئی اور اس نے قوم کا پانسہ پلٹ دیا اور خود دسترخوان سے کھانے بیٹھ گئے۔ میں نے اس کی تعبیر خلافت سے لی ہے اور یہ کہ میرے چچا کی اولاد ان کی خبر لے گی مجھ سے یہ حدیث یاد رکھو۔ (کنزالعمال 37352)

حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس وقت تک دنیا سے رخصت نہیں ہوئے جب تک کہ مجھے بتا نہیں دیا کہ ان کے بعد خلیفہ ابوبکرؓ ہوں گے پھر ان کے بعد عمرؓ اور ان کے بعد عثمانؓ۔ پھر عثمانؓ کے بعد خلافت کا بار میں اٹھاؤں گا۔ (کنزالعمال 36697)

حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرے بعد بارِ خلافت ابوبکرؓ اٹھائیں گے اور بس لوگ ان پر اکٹھے ہوجائیں گے پھر ان کے بعد عمر ؓ بارِ خلافت اٹھائیں گے اور سب لوگ ان پر اتفاق کرلیں گے پھر عثمانؓ بارِ خلافت اٹھائیں گے۔ (کنزالعمال 36703)

ابنِ عمرؓ کی روایت ہے کہ جب حضرت علیؓ نے خلافت کی ذمہ داری قبول فرمائی تو ایک شخص نے آپؓ سے کہا:اے امیر المومنین! مہاجرین و انصار نے آپؓ کو چھوڑ کر کس طرح ابوبکرؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی تھی حالانکہ آپؓ منقبت میں اکرم و اعلیٰ ہیں اور سبقت میں اقدام ہیں۔آپؓ نے اس شخص سے فرمایا: بخدا! اگر مومنین اللہ تعالیٰ کی پناہ میں نہ ہوتے میں تمہیں قتل کردیتا اور اگر تو زندہ رہا ضرور جرم کا مرتکب ہوگا، تیرا ناس ہو ابوبکرؓ مجھ سے چار چیزوں میں آگے بڑھ گئے ہیں: رفاقتِ غار، سبقتِ ہجرت، میں صغر سنی میں ایمان لایا جب کہ ابوبکرؓ کبرسنی میں ایمان لائے اور اقامتِ نماز میں مجھ سے آگے بڑھ گئے۔ (کنزالعمال 36150)

خلافت پر اتفاق نہ ہو گا

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اے علیؓ! میں نے اللہ تعالیٰ سے تمہارے بارے میں پانچ باتیں مانگیں ایک سے منع کردیا چار عطا کر دیں۔ میں نے درخواست کی آپ کی خلافت پر امت کا اتفاق ہو جائے یہ دعا قبول نہیں ہوئی۔ میری یہ دعا قبول ہوئی کہ قیامت کے روز سب سے پہلے میری اور آپ کی قبر شق ہو، آپ حمد کا جھنڈا اٹھا کر اوّلین اور آخرین کے سامنے چلیں اور یہ بھی قبول ہوئی کہ میرے بعد آپ مومنین کے ولی ہوں۔ (خطیب اور رافعی نے علیؓ سے نقل کیا) (کنزالعمال33047)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے مطلع فرمایا کہ امت کے لوگ میرے بعد تم سے غداری کریں گے۔ (کنزالعمال 31561)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایک بات ہو کر رہے گی کہ امت کے لوگ میرے بعد تم سے غداری کریں گے اور تم میرے طریقہ پر قائم رہو گے۔ (کنزالعمال 31562)

شہادت کے متعلق

فضالہ بن ابی فضالہ انصاری سے روایت ہے، ان کے والد سیدنا ابوفضالہ رضی اللہ عنہٗ بدری صحابی تھے، فضالہ کہتے ہیں: میں اپنے باپ کی معیت میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہٗ کی عیادت کے لیے گیا، وہ کافی بیمار تھے۔ میرے والد نے ان سے کہا: آپ اپنی جگہ پر کس لیے ٹھہرے ہوئے ہیں؟ اگر آپ کا آخری وقت آگیا تو بنو جہینہ کے چند بدو آپ کے پاس ہوں گے،آپ کو مدینہ منورہ لے چلیں، وہاں اگر آپ کو موت آئی تو آپ کے دوست احباب پاس ہوں گے اور آپ کی نمازِ جنازہ ادا کریں گے۔ یہ سن کر سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے فرما چکے ہیں کہ مجھے اس وقت تک موت نہ آئے گی جب تک کہ مجھے امارت نہ ملے، پھر میرے سر کے خون سے میری داڑھی رنگین نہ ہوجائے، چنانچہ ایسے ہی ہوا اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ قتل ہو گئے۔ سیدنا ابو فضالہ رضی اللہ عنہٗ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے ہمراہ صفین کی جنگ میں قتل ہو گئے تھے۔ (مسند احمد 802)

خصائص میں ہے کہ طبرانی اور ابو نعیم نے جابر بن سمرہؓ سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ تم خلیفہ بنائے جاؤ گے اور تم مقتول ہو گے اور تمہاری یہ داڑھی تمہارے سر کے خون سے رنگین ہو گی۔ 

حاکم میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ امت میرے بعد تجھ سے نفرت کرے گی۔ 

حاکم ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ آگاہ رہو تم میرے بعد مصیبت میں مبتلا ہو گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پوچھا میرے دین کی سلامتی رہے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں تمہارے دین کی سلامتی رہے گی۔ 

قاتل کے متعلق

عمار بن یاسررضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے، کہتے ہیں کہ میں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ غزوہ ذی العشیرہ میں ساتھی تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: اے ابو تراب! (علیؓ پر مٹی دیکھ کر فرمایا) : کیا میں تم دونوں کو دو بدبخت ترین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا: کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول!آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: قومِ ثمود کااُحیمرجس نے اونٹنی کی کونچیں کاٹ دی تھیں اور وہ شخص جو تمہیں یہاں ضرب لگائے گا۔ (یعنی علی کرم اللہ وجہہ کے سر پر) حتیٰ کہ یہ یعنی داڑھی خون سے تر ہو جائے گی۔ (السلسلتہ الصحیحہ 3633)

’’ مسند علیؓ ‘‘ کی روایت ہے کہ معاویہ بن جوین حضرمی کہتے ہیں: حضرت علیؓ ایک مرتبہ گھوڑوں کا معائنہ فرما رہے تھے، آپؓ کے پاس سے ابنِ ملجم گزرا۔ آپؓ نے اس سے اس کا نام دریافت کیا یا اس کے نسب کے متعلق پوچھا۔ اس نے اپنے آپ کو غیر باپ کی طرف منسوب کردیا۔ آپؓ نے فرمایا: تم نے جھوٹ بولا۔ پھر اس نے باپ کی طرف نسبت ظاہر کی تو فرمایا: تم نے سچ کہا۔ خبردار مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حدیث بیان فرمائی ہے کہ میرا قاتل یہودیوں کے مشابہ ہوگا۔ چنانچہ ابنِ ملجم یہودی تھا، یہ سن کر آگے چل پڑا۔ (کنزالعمال 36582)

ابو طفیل کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ میں حضرت علی بن ابی طالبؓ کے پاس تھا، آپؓ کے پاس عبد الرحمن بن ملجم آیا۔ آپؓ نے اس کے لیے عطا کا حکم دیا اور پھر فرمایا: اس داڑھی کا بدبخت نہیں رک پائے گا اور اسے اوپر سے خون آلود کرے گا اور آپؓ نے داڑھی کی طرف اشارہ کیا اور پھر یہ اشعار پڑھے:
 موت کے سامنے صبر کرلو اگر تجھے موت آجائے اور قتل سے گھبرانا نہیں جب تمہیں قتل سے پالا پڑے۔ (کنزالعمال 36557)

خوارج کے متعلق

طارق بن زیاد سے روایت ہے کہ ہم حضرت علی ؓ کے ساتھ خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے ان کو قتل کیا، اس کے بعد فرمایا کہ ان کو تلاش کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایک قوم کا ظہور ہوگا جو کلمہ حق کے ساتھ گفتگو کریں گے لیکن وہ حق ان کے سینہ سے نیچے نہ اترے گا اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکلتاہے۔ ان کی علامت یہ ہوگی کہ ان میں ایک شخص ہوگا رنگ اس کا سیاہ ہوگا اس کا ایک ہاتھ ناقص ہوگا، اس میں چند بال ہوں گے۔ دیکھو اگر مقتولین میں وہ موجود ہے تو تم نے بدترین شخص کو قتل کیا اگر وہ نہیں تم نے بہترین شخص کو قتل کیا ہم دوڑپڑے۔ پھر فرمایا کہ تلاش کرو تو ہم نے تلاش کیا تو ناقص ہاتھ والا شخص ان علامتوں کے ساتھ مل گیا تو ہم سجدہ میں گرپڑے۔ حضرت علی ؓ بھی ہمارے ساتھ تھے۔(کنزالعمال 31574)

طارق بن زیاد سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: ہم سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی معیت میں خوارج کے مقابلہ کے لیے نکلے، سیدنا علی کرم اللہ وجہہ نے ان کوقتل کیا اور پھر کہا: ذرادیکھو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا تھا کہ عنقریب ایک قوم نکلے گی کہ وہ بات تو حق کی کریں گے، لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی، وہ حق سے یوں نکل جائیں گے، جیسے تیر شکار میں سے گزر جاتا ہے، ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی سیاہ فام، ناقص ہاتھ والا ہوگا، اس کے ہاتھ پر سیاہ بال ہوں گے۔ اب دیکھو کہ اگر کوئی مقتول ایسا ہو تو تم نے بدترین لوگوں کو قتل کیا اور اگر کوئی مقتول ایسا نہ ہو تو تم نے نیک ترین لوگوں کو قتل کیا۔پھر ہم نے واقعی ناقص ہاتھ والے ایسے مقتول کو پا لیا، پھر ہم سب اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوگئے اور ہمارے ساتھ علی کرم اللہ وجہہ بھی سجدہ میں گر گئے۔ (مسند احمد 848)

جنگِ صفین

ابوالاسود دیلی سے روایت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ارشاد فرمایا: میرے پاس عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہٗ تشریف لائے، اس وقت میں عراق کی طرف روانگی کے لئے سواری پر سوار ہو چکا تھا، انہوں نے کہا: آپ عراق تشریف نہ لے جایئے۔ اس لئے کہ اگر آپ وہاں گئے تو جنگ میں مبتلا ہو جائیں گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا: خدا کی قسم! تم سے پہلے یہ بات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی مجھ سے فرما چکے ہیں۔ حضرت ابوالاسود فرماتے ہیں: میں نے اپنے دل ہی دل میں کہا: یا خدایا! میں نے اس جیسا جنگجو لوگوں سے یوں باتیں کرتا آج تک نہیں دیکھا۔ (مستدرک امام حاکم 4678)

تحکیم کے متعلق احادیث

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے کچھ روایات لکھی ہیں جو ان حَکم کے متعلق ہیں:
 خصائص میں بیہقی نے روایت کیا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل نے آپس میں اختلاف کیا اور ان کے آپس کا اختلاف جاری رہا، تاآنکہ انہوں نے دو حکم بنائے تو وہ دونوں گمراہ ہو گئے اور دونوں نے دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور یہ امت بھی اختلاف کرنے والی ہے۔ ان کا اختلاف باہمی جاری رہے گا یہاں تک کہ یہ بھی دو حکم مقرر کریں گے۔ دونوں گمراہ ہوں گے اور جو ان دونوں کی اتباع کرے گا وہ بھی گمراہ ہوگا۔ ضَلَّا سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے اجتہاد میں خطا کی اور ضَلَّ مَنِ اتَّبَعَھُمَا سے مراد یہ ہے کہ یہ خطا مفاسد کثیرہ کی موجب ہوگی۔ (ازالتہ الخفا، صفحہ 507)

بنی اسرائیل باہمی نزاع واختلاف کا شکار ہوگئے۔۔ پھر مسلسل اسی اختلاف و انتشار کی حالت میں تھے کہ آخر انہوں نے اختلاف کو رفع کرنے کے لیے اپنے دونمائندوں کو حکم وفیصل بنا کر بھیجا، مگر وہ دونوں خود بھی گمراہی کا شکار ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہی کے راستہ پر لٹکادیا۔ اور یقینا یہ امت بھی عنقریب افتراق و انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ اور یہ باہمی اختلاف ونزاع اسی طرح برقرار ہوگا کہ وہ دو فیصل بھیجیں گے لیکن وہ دونوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور اپنے متبعین کو بھی گمراہ کردیں گے۔ بخاری مسلم، بروایت علیؓ۔ (کنزالعمال 1088)

سوید بن غفلہ سے مروی ہے کہ فرمایا میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ دریائے فرات کے کنارے چلاجارہا تھا، تو آپؓ نے فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ بنی اسرائیل نے باہم اختلاف کیا۔ پھر وہ اسی اختلاف پر قائم رہے حتی کہ انہوں نے اپنے دو آدمیوں کو ثالث و فیصل بنایا لیکن وہ دونوں خود بھی گمراہ ہوگئے اور انہوں نے اپنے متبعین کو بھی گمراہ کردیا۔ اور عنقریب یہ امت بھی اختلاف و انتشار کا شکارہوگی اور ان کا اختلاف جاری ہوگا، کہ یہ دو آدمیوں کو فیصل وثالث بنا کر بھیجیں گے لیکن یہ دونوں خود بھی گمراہ ہوں گے اور اپنے متبعین کو گمراہ کریں گے۔ (کنزالعمال 1642)

حضرت حسنؓ کا خلافت سے دستبردار ہونا

حضرت علیؓ حضرت حسنؓ سے فرماتے تھے: یہ قمیص اتارنے والا ہے۔ یعنی خلافت سے دستبردار ہوگا۔ (کنزالعمال 37635)

استفادہ کتب:
۱۔ تاریخ طبریؒ:  مصنف علامہ ابی جعفر محمد بن جریر الطبری، ناشر نفیس اکیڈمی کراچی

 
 

23 تبصرے “حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat

  1. حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ایک بات ہو کر رہے گی کہ امت کے لوگ میرے بعد تم سے غداری کریں گے اور تم میرے طریقہ پر قائم رہو گے۔ (کنزالعمال 31562)

  2. حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے مطلع فرمایا کہ امت کے لوگ میرے بعد تم سے غداری کریں گے۔ (کنزالعمال 31561)

  3. حاکم ابنِ عباسؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے فرمایا کہ آگاہ رہو تم میرے بعد مصیبت میں مبتلا ہو گے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پوچھا میرے دین کی سلامتی رہے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہاں تمہارے دین کی سلامتی رہے گی۔

  4. حضرت علیؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرے بعد بارِ خلافت ابوبکرؓ اٹھائیں گے اور بس لوگ ان پر اکٹھے ہوجائیں گے پھر ان کے بعد عمر ؓ بارِ خلافت اٹھائیں گے اور سب لوگ ان پر اتفاق کرلیں گے پھر عثمانؓ بارِ خلافت اٹھائیں گے۔ (کنزالعمال 36703)

  5. بڑی تحقیق کے ساتھ لکھا گیا مضمون ہے۔ بہت شکریہ۔

  6. آسمانِ ولایت کا رہبر علیؓ❤️
    علم کا گھر علیؓ، علم کا در علیؓ❤️
    یا علیؓ، یا علیؓ، یا علیؓ❤️

  7. اللہ پاک ہمیں حضرت علیؓ کے نقش قدم پر چلاۓ آمین ❣️❣️

  8. یا علی مشکل کشا شیرِ خدا
    بھیک جلووں کی ہمیں بھی ہو عطا

  9. قسط وار مضمون پڑھنے کا نہایت بہترین سلسلہ ہے ۔۔۔۔

  10. بہت ہی عمدہ تحریر ،اللہ کاوش قبول فرمائیں۔

  11. بہترین آرٹیکل ہے اس سے پہلے اس طرح وضاحت سے بیان نہیں کیا گیا ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں