علم و عمل(ilm-o-Amal)
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری ۔(سیالکوٹ)
خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
ilm-o-Amal. علم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ یہ وہ انعامِ الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے علم کے سبب حضرت آدم علیہ السلام کو مسجودِ ملائکہ بنا کر فرشتوں پر انسانی برتری اور عظمت کو واضح فرما دیا۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر جو پہلی وحی نازل فرمائی گئی اس میں ’’تعلیم‘‘ سے ابتدا کی گئی اور پہلی ہی وحی میں بطورِ احسان انسان کو دیئے گئے علم کا تذکرہ فرمایا گیا۔ یوں اسلام کا پہلا پیغام ہی علم ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اے حبیبؐ!) اپنے ربّ کے نام (اسمِ اللہ ذات) سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیا۔ پڑھئے اور آپ کا ربّ بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا۔ جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (سورۃ العلق۔1-5)
ilm-o-Amal. علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ جب غزوۂ بدر کی فتح کے نتیجہ میں قیدی بنائے جانے والے کفار کے لئے مسلمانوں کو لکھنا پڑھنا سکھانے کا فدیہ مقرر فرما کر ’’علم‘‘ کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا گیا۔ ہجرت کے بعد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجدِنبویؐ کے ایک حصہ میں صفہ کے نام سے مدرسہ کی بنیاد رکھی۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بطور طالبِ علم اس میں داخل فرما کر اور خود بطور معلم تدریس کی خدمات سرانجام دے کر علم کی روشنی پوری دنیا میں پھیلا دی۔ پھر اسی علم کی بدولت صحابہ کرامؓ وقت کے مفسر، محدث، فقیہ، مدرس، امام، خطیب، مجاہد، گورنر اور حکمران بنے۔
’علم‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جاننا، آگاہی، واقفیت، شعور یا باطنی روشنی کے ہیں۔ یعنی کسی بھی چیز کی صورت کا ذہن میں خاص ہو جانا علم کہلاتا ہے۔
معروف محدث، فقیہ اور مفسر ابو بکر محمد بن علی بن اسماعیل الکفال الکبیر الشاشی نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے :
کسی شے کو اس کی ماہیت کے مطابق ثابت کر دینا علم ہے۔
حضرت امام سیدّشریف جرجانیؒ علم کی تعریف یوں کرتے ہیں: یعنی وہ پختہ یقین جو واقع کے مطابق ہو۔
حضرت ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں :
علم سے مراد وہ مذہبی علم ہے جس کا حصول انسان کے لیے ضروری ہے جیسے اللہ تعالیٰ کوپہچاننا، اس کی توحید، رسولِ خدا کی رسالت و نبوت کی معرفت اور نماز ادا کرنے طریقہ وغیرہ۔
حکما نے کہا ’’کسی چیز کی شکل کا ذہن میں حاصل ہونا علم ہے۔‘‘
حضرت داتا گنج بخشؒ اپنی کتاب کشف المحجوب میں علم کے بارے میں لکھتے ہیں :
اے جانِ عزیز! جان لے کہ علوم زیادہ ہیں اور عمر بہت کم ہے۔ تمام علوم کا حاصل کرنا لوگوں پر فرض نہیں جیسا کہ علمِ نجوم، علمِ طب، علم ِحساب، عمدہ قسم کی صنعت اور اس کی مثل دیگر علوم بلکہ اتنی مقدار حاصل کرنا ضروری ہے جو شریعت کے معاملات سے تعلق رکھتا ہے۔ چنانچہ علمِ نجوم کی اتنی مقدار جاننا ضروری ہے جس سے رات کا وقت معلوم ہو جائے، طب سے اتنی مقدار جس سے نظامِ ہضم کو درست رکھا جا سکے، علمِ حساب سے اتنی مقدار جس سے وراثت اور عدت کی مدت معلوم ہو سکے۔ پس اتنا علم فرض ہے یعنی اس کی ذات یا کسی دوسرے علوم سے کوئی فائدہ نہ پہنچتا ہو تو ایسے علوم کی اللہ تعالیٰ نے مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ فرمایا: اور وہ ایسا علم سیکھتے ہیں جو ان کو ضرر دیتا ہے اور نہ نفع دیتا ہے۔ (کشف المحجوب)
قرآن کی روشنی میں علم کی فضیلت
ilm-o-Amal۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
اور تم عرض کرو اے میرے ربّ! مجھے علم زیادہ دے۔ (سورۃ طٰہٰ۔114)
آپ فرما دیں کیا اہلِ علم اور جاہل لوگ برابر ہو سکتے ہیں؟ (سورۃ الزمر۔9)
اللہ ان کے درجات بلند فرما دے گا جو تم میں سے ایمان لائے اور جنہیں علم سے نوازا گیا۔ (سورۃ المجادلہ۔11)
اس (اللہ) نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے علم سکھایا۔ (سورۃ الرحمن۔3-4)
اور بیشک ہم ان کے پاس ایسی کتاب (قرآن) لائے جسے ہم نے (اپنے) علم (کی بنا) پر مفصل (یعنی واضح) کیا، وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔ (سورۃالاعراف۔52)
ilm-o-Amal۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ مجید ہے۔ قرآنِ مجید کی سب سے بڑی شان اس کا مفصل علم ہے۔ جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور قرآن کے منکر ہیں اور اس کے بارے میں شک میں مبتلا ہیں ان کے لیے اللہ پاک نے قرآن کو علم کی مفصل کتاب بنا کر دلیل بنایا۔ یہ اس قدر عظیم کتاب ہے کہ اس جیسی ایک سورۃ بنانا بھی ساری انسانیت کے لیے ممکن نہیں۔ جیسا کہ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
اللہ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں، وہی غالب حکمت والا ہے۔ (سورۃ آل عمران۔18)
ilm-o-Amal۔مسلمانوں پر دنیا کی ہر ضرورت کا علم حاصل کرنا فرضِ کفایہ ہے تاکہ انہیں غیر مسلموں کا محتاج نہ ہونا پڑے اور وہ دنیا میں اسلام کو غالب رکھ سکیں مثلاً طب، زراعت، ہئیت، جغرافیہ، ہندسہ، سائنس، اسلحہ سازی، دفاع وغیرہ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو جو بھی نئی چیز معلوم ہوتی اس سے جہاد میں فائدہ اٹھایا کرتے تھے جیسا کہ غزوۂ احزاب میں خندق تیار فرمائی۔ صحابہ کرامؓ اور تابعین مجاہدین نے جنگوں میں منجنیق کا استعمال فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسلمانوں کے بحری جہاز کی خوشخبری دی اور امیر معاویہؓ نے بحری بیڑا تیار کیا جس کے نتیجے میں بحیرہ روم پر مسلمانوں کا غلبہ ہو گیا۔ جدید سے جدید ایجادات اور تدابیر کے نتیجے میں سلطان محمد الفاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ پاک نے زِرّہ سازی کا فن عطا کیا اور بطور احسان قرآنِ پاک میں ذکر فرمایا۔ قرآنِ مجید میں احکام کی آیات اتنی نہیں جتنی زمین و آسمان، سورج، چاند، بحر و بر، نباتات و جمادات و حیوانات اور اللہ پاک کی مخلوقات میں غور کرنے کی تاکید کی آیات ہیں۔ مسلمانوں نے اس میں غفلت کی جبکہ اغیار نے ان پر محنت کی اور جدید سے جدید ایجادات تیار کر کے مسلمانوں کو اپنا محتاج بلکہ غلام بنالیا۔ اب مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان تمام علوم میں مہارت حاصل کریں جو کفار کے ساتھ جہاد اور ہر میدان میں اسلام کے غلبے اورفتح کے لئے ضروری ہیں۔ اس طرح یہ دنیاوی علم،علم ِآخرت بن جائے گا۔
احادیث کی روشنی میں علم کی فضیلت
ilm-o-Amal۔حضرت معاذبن جبلؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علم حاصل کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے علم سیکھنا خوفِ الٰہی پیدا کرتا ہے، اس کا طلب کرنا عبادت ہے، اس کامذاکرہ تسبیح ہے اور اس کی جستجو میں لگے رہنا جہاد ہے۔ بے علم کو علم سکھانا صدقہ ہے اور جو اس کا اہل ہو اس پر خرچ کرنا (اللہ کی) قربت کا باعث ہے کیونکہ حلال و حرام کا فہم حاصل کرنے کے لیے علم نشانِ راہ ہے۔‘‘ (دیلمی)
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علم کی زیادتی عبادت کی زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی اصل پرہیزگاری ہے۔ (مشکوٰۃ) (فضائل علم و علما)
امام بخاریؒ نے کتاب العلم میں ترجمتہ الباب کے تحت بیان کیا ہے ’’بے شک علما انبیا کرام کے وارث ہیں۔ انہوں نے میراثِ علم چھوڑی ہے۔ پس جس نے اس (میراثِ علم) کو حاصل کیا اس نے بہت بڑا حصہ پا لیا۔ جو آدمی علم کی تلاش میں کسی راہ پر چلتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔‘‘
حضرت زِر بن حبیشؓ بیان کرتے ہیں ’’میں حضرت صفوان بن عسالؓ کی مجلس میں حاضر ہوا۔ انہوں نے مجھ سے دریافت کیا کیسے آنا ہوا؟ میں نے عرض کیا کہ علم کی تلاش میں آیا ہوں۔ انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جو کوئی اپنے گھر سے طلب ِعلم کی نیت سے نکلتا ہے فرشتے اس کے اس عمل سے خوش ہو کر اس کیلئے اپنے پَر بچھاتے ہیں۔‘‘ (امام احمد، ترمذی، نسائی)Ilm-o-Amal
امام شعرانی الطبقات الکبیر میں بیان کرتے ہیں :
امام حسن بن علی بن ابی طالبؓ اپنے صاحبزادوں اور بھتیجوں کو فرمایا کرتے کہ تم علم سیکھو۔ اگر اسے یاد نہ رکھ سکو تو اسے لکھ کر اپنے گھروں میں رکھ لو۔ (تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ سات وجوہات کی بنا پر علم مال سے افضل ہے:
اوّل: علم انبیا کی میراث ہے اور مال فرعونوں کی میراث ہے۔
دوم: علم خرچ کرنے سے گھٹتا نہیں ہے اور مال گھٹتا ہے۔
سوم: مال حفاظت کا محتاج ہے اور علم عالم کی حفاظت کرتا ہے۔
چہارم: جب آدمی مر جاتا ہے اس کا مال دنیا میں باقی رہ جاتا ہے اور علم اس کے ساتھ قبر میں جاتا ہے۔
پنجم: مال مومن و کافر دونوں کو حاصل ہوتا ہے اور علمِ دین صرف مومن کو۔
ششم:سب لوگ اپنے دینی معاملہ میں عالم کے محتاج ہیں اور مالدار کے محتاج نہیں۔
ہفتم: علم سے پل صراط پر گزرنے میں قوت حاصل ہو گی اور مال اس میں رکاوٹ پیدا کرے گا۔(تفسیر کبیر جلد اوّل) (فضائل علم و علما)
پس قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہو گئی کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو علم حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔ ilm-o-Amal
علم رکھتے ہوئے اپنے کہے پر عمل نہ کرنے کی تنبیہ
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتاہے:
اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔ اللہ کے نزدیک بہت سخت ناپسندیدہ بات یہ ہے کہ تم وہ بات کہو جو خود نہیں کرتے۔ (سورۃ الصف۔2-3)
حضرت جندبؓ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جو عالم لوگوں کو بھلائی کی تعلیم دیتا ہے اور اپنے آپ کو بھول جاتا ہے اس کی مثال اس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتا ہے لیکن خود کو جلاتا ہے۔‘‘ (طبرانی)
امام مالک بن دینارؒ فرمایا کرتے تھے جب آدمی عمل کرنے کی نیت سے علم حاصل کرے تو اس کا علم زیادہ ہوتا ہے اور جب عمل کی نیت کے بغیر علم حاصل کرے تو نافرمانی، تکبر اور عام لوگوں کو حقیر جاننے جیسے بُرے اعمال میں اضافہ کا سبب بن جاتا ہے۔ (امام شعرانیؒ)(علم اور مصادرِ علم)
علم اور عمل میں افضلیت
ilm-o-Amal. سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ علم و عمل کی شرح کرتے ہوئے اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’محک الفقر کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں :
حضرت وہب بن منبہ کا قول ہے ’’ایمان بے پردہ ہوتا ہے، تقویٰ اُس کا لباس ہے،حیا اُس کی زینت ہے اور علم اُس کا پھل ہے۔‘‘ آدمی کے لیے پارسائی اور علم کی کثرت فرض نہیں ہے لیکن علم پر عمل کرنا اور گناہوں سے بچنا لازم ہے۔ سستی اور غفلت، گناہ کرنا، ریا اور دکھاوا، منافقت اور دنیا کی محبت ایسے اسباب ہیں جن کی وجہ سے انسان اپنے علم پر عمل نہیں کرتا۔ اپنے علم پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے انسان انسانیت کے نچلے درجات پر رُک جاتا ہے، توفیقِ الٰہی چھن جاتی ہے، مناجات کی لذت سے محرومیت اور آخرت کا عذاب مقدر میں لکھ دیا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں علم کا رجحان نہ ہونے کا نقصان یہ ہے کہ اکثر لوگ ظن کو علم سمجھتے ہیں۔ اپنے خیالات کو ہی علم سمجھتے ہیں اسی وجہ سے خود سے اختلاف رکھنے والے کو جاہل سمجھتے ہیں۔ بہت سے علما، اساتذہ اور طلبہ میں یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ ’جو کچھ وہ جانتے ہیں کوئی دوسرا نہیں جانتا‘۔ معاشرے میں ہر شخص کی طبیعت کا یہ حصہ ہے کہ ’جو کچھ میں جانتا ہوں بس یہی علم ہے۔‘
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے روایت ہے کہ بنی اسرائیل کے ایک آدمی نے علم کے اسی (80) صندوق بنا رکھے تھے۔ ہر صندوق اسی گز لمبا تھا لیکن وہ اُس علم سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی کہ اُس جامع العلوم بندے سے کہو کہ اس علمی مجموعے نے تجھے کوئی فائدہ نہ دیا لیکن اگر توُ تین باتوں پر عمل کر لے تو توُ کامیاب ہو جائے گا۔ ایک یہ کہ تو دنیا سے دل نہ لگا کہ دنیا مومن کا گھر نہیں، دوسرے شیطان کا ساتھی نہ بن کہ شیطان مومن کا دوست نہیں، تیسرے کسی کو دکھ نہ دے کہ کسی کو بے جا تکلیف دینا مومن کا شیوہ نہیں۔ (محک الفقر کلاں)
ilm-o-Amal.حضرت داتا گنج بخشؒ نے علم اور عمل کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے اور ایسے علوم کو بے منفعت قرار دیا ہے جو علم والے کو عمل سے دور رکھے۔ اس سلسلے میں آپؒ کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
میں نے عوام میں ایک گروہ دیکھا کہ وہ علم پر عمل کو فضیلت دیتا ہے اور ایک جماعت دیکھی ہے جو عمل پر علم کو مقدم رکھتی ہے اور درحقیقت یہ دونوں باطل پر تھے کیونکہ علم کے بغیر عمل، درحقیقت عمل نہیں ہوتا۔ عمل اسی وقت عمل شمار ہوگا جب اس کے ساتھ علم بھی موجود ہو۔ جس کی بدولت انسان ثواب کا مستحق بنتا ہے جیسے نماز کے حوالے سے انسان کو طہارت کے احکام اور پانی کے پاک ہونے کا علم نہ ہو تو وضو صحیح نہیں ہوسکتا۔ قبلہ کی سمت کا اگر علم نہیں تو نماز درست نہیں۔ اسی طرح جب تک نیت کے معنی اور اس کی حقیقت کا علم نہ ہو تو نماز بے کار ہے۔ اسی طرح اگر ارکانِ نماز نہیں جانتا تو پھر نماز کیسے صحیح ہوسکتی ہے۔ تو ثابت ہوا کہ عمل، علم سے قریب ہوتا ہے۔ وہ جاہل جو علم کو عمل سے علیحدہ کررہا ہے اور عمل کو علم پر فضیلت دے رہا ہے، محض لغو اور اس کی بنیاد باطل پر ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ علم کا وجود بغیر عمل نہیں۔
بے عمل عالم کی مذمت
حضرت داتا گنج بخشؒ نے علم کے ساتھ ساتھ عمل پر زور دیا ہے۔ اگر کوئی عالم ہو اور وہ عمل سے عاری ہے تو اس کے بارے میں آپؒ نے فرمایا:
اس مسئلہ میں دو فرقے ہیں: ایک وہ ہے جو لوگوں کو علم کے باعث بلند مرتبے کا حامل سمجھتا ہے اور اعمال کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ لوگ علم کی تہہ تک پہنچے بغیر عمل کو اس سے الگ تصور کرتے ہیں۔ یہ لوگ درحقیقت نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ عمل کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک جاہل کہتا ہے ’’قال نہیں ہونا چاہیے بلکہ حال ہونا چاہیے۔‘‘ اور دوسرا فرقہ کہتا ہے ’’عمل ہونا چاہیے، علم کی کوئی بات نہیں۔‘‘
حضرت ابراہیم بن ادھمؒ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک پتھر پڑا دیکھا جس پر یہ تحریر تھا ’’مجھے پلٹ اور پڑھ‘‘ میں نے الٹا کر دیکھا تو اس پر یہ لکھا تھا:
انت لا تعمل بما تعلم فکیف تطلب عملا مالا تعلم
ترجمہ: تم جس چیز کا علم رکھتے ہو اس پر عمل نہیں کرتے تو پھر جس چیز کے بارے میں علم نہیں ہے تو اس عمل کی طلب کیوں کرتے ہو۔
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تم اپنے علم پر عمل نہیں کرتے تو یہ بات ناممکن ہے تم ایسی چیز کا عمل طلب کرو جس سے تم واقف نہیں ہو۔ یعنی سب سے پہلے تمہیں جس چیز کا علم ہے تم اس پر عمل کرو تاکہ اس کی برکت کی وجہ سے اس چیز کا بھی علم حاصل کرلو جو ابھی تمہاری معلومات کے دائرے سے باہر ہے۔
ilm-o-Amal. حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا’’اے حاملینِ قرآن! قرآنِ مجید پر عمل کرو کیونکہ عالم وہ شخص ہے جو اپنے علم پر عمل کرے اور اس کا عمل اس کے علم کے موافق ہو۔ عنقریب کچھ لوگ علم حاصل کریں گے لیکن وہ علم ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گا، ان کی خلوت ان کی جلوت کے خلاف ہوگی اور ان کا عمل ان کے علم کے خلاف ہوگا۔ وہ حلقوں میں بیٹھ کر ایک دوسرے پر فخر کریں گے حتیٰ کہ اگر ایک عالم کا حلقہ بگوش اس کو چھوڑ کر دوسرے عالم کے حلقہ میں بیٹھ جائے تو وہ اس پر غضبناک ہوگا اور اس کو چھوڑ دے گا، ان حلقوں سے ان لوگوں کے اعمال اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچیں گے۔ (کنزالعمال)
ilm-o-Amal.حضرت جابر رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جنت کے بعض لوگوں نے جہنم میں کچھ لوگوں کو دیکھا، انہوں نے کہا: تم جہنم میں کیسے چلے گئے؟ حالانکہ ہم تمہاری تعلیم کی وجہ سے جنت میں گئے ہیں۔ انہوں نے کہا: ہم لوگوں کو حکم دیتے تھے اور خود عمل نہیں کرتے تھے۔ ‘‘ (کنز العمال)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس عالم کو ہوگا جس کو اللہ نے اس کے علم سے نفع اندوز نہیں کیا۔‘‘ (کنز العمال)
حضرت جندب رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عمل کے عالم اس چراغ کی طرح ہے جو اپنے آپ کو جلاکر لوگوں کے لیے روشنی کرتا ہے (اور اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے)۔ (کنز العمال)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’لوگوں کی حیات روح سے ہے، روح کی حیات عقل سے ہے، عقل کی حیات علم سے ہے اور علم کی حیات عمل سے ہے۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
ilm-o-Amal.حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں علم بھی زیادہ تھا اور عمل بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرامؓ کا دور تھا اور اس دور میں عمل زیادہ تھا۔ تاہم دورِ حاضر میں علم و عمل کے فقدان کی وجہ سے معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ آج مسلمانوں کے جتنے بھی مسائل ہیں اگر ان کی تہہ میں جاکر دیکھا جائے تو تعلیم کی کمی دکھائی دے گی۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے دین و دنیا صحیح ہوں، عبادات صحیح معنوں میں مقبول ہوں، غربت و افلاس کا خاتمہ ہو، ذہنی، جسمانی اور روحانی بیماریوں سے نجات ملے، عدل و انصاف کا بول بالا ہو، آزادی و جمہوریت کو فروغ ملے، معاشرہ بیدار اور ہوشیار ہوجائے تو اس کا واحد ذریعہ تحصیلِ علم ہے اور تعلیم بھی ایسی جو عام ہو اور دین ِاسلام کی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔ موجودہ دور میں سب سے زیادہ اس بات کی ضرورت ہے کہ علم کے حصول کے ساتھ ساتھ اُس پر پوری طرح عمل کیا جائے اور جاہلوں والی سفلی حرکات سے پوری طرح اجتناب کیا جائے۔ یہی عمل دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کا باعث ہے۔
اُمتِ محمدیہ کے اولیا کی سب سے بڑی کرامت،کرامتِ علمیہ
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات اگر درخت ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں قیامت تک آنے والے جمیع اولیاکی کرامات حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے معجزات کے درخت کی شاخیں اور پتے ہیں۔ عام طور پر پانی پر چلنا، ہواؤں میں اڑنا، پتھر توڑ دینا، بیمار کو تندرست کر دینا وغیرہ بہت بڑی کرامات سمجھی جاتی ہیں مگر شیخ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ فرماتے ہیں:
یہ تمام اعمال بڑی کرامات نہیں ہیں، اس لیے اگر ہواؤں میں اڑنا بڑی کرامت ہوتی تو مکھیاں اور پرندے سب سے بڑے ولی ہوتے۔ پانی پر چلنا بڑی کرامت ہوتی تو مچھلیاں سب سے بڑی ولی ہوتیں۔ لہٰذا اولیا کی سب سے بڑی کرامات یہ نہیں بلکہ ان کی سب سے بڑی کرامت علمِ صحیح (علمِ نافع) ہے۔ (الفتوحات المکیہ)
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ قرآنِ مجید ہے جو کتابِ علم ہے تو اُمتِ محمدیہ کے اولیا کرام کی سب سے بڑی کرامت علمِ نافع ہے۔
حضرت جابر بن عبد اللہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’علم دو (طرح کے) ہیں ایک علم دل میں ہوتا ہے اور یہ علم ِ نافع ہے،ایک علم زبان پر ہوتا ہے اور یہ ابنِ آدم پر اللہ تعالیٰ کی حجت ہے۔‘‘
ilm-o-Amal.عام طور پر انہیں ظاہری اور باطنی علم کہہ سکتے ہیں۔اولیا کرام نے ظاہری اور باطنی علوم کو ہمیشہ جمع کیا ہے کیونکہ ہدایت تب ہی ملتی ہے جب ظاہری اور باطنی دونوں علوم یکجا ہوں۔ موجودہ دور کے ولیٔ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو ظاہری علم کے ساتھ ساتھ باطنی علم عطا فرما کر روح میں نکھار پیدا فرما دیتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے علم کے حوالے سے چند فرامین درج ذیل ہیں:
علمِ ظاہر اور علمِ باطن کو اکٹھا کرنے کا نام علمِ حقیقی، دین و ایمان ہے۔
اگر صرف علمِ ظاہر پر توجہ دی جائے تو جھگڑے پیدا ہوتے ہیں اور صرف علمِ باطن میں بھی کامل دین نہیں۔ دونوں کا اکٹھا ہونا ایمان کی تکمیل کے لیے ضروری ہے۔
موجودہ دور میں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب علمِ باطن کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ان قرآنی آیات کو، جن میں علمِ باطن کے متعلق واضح اور روشن ہدایات موجود ہیں، کچھ لوگ متشابہات کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ آج کل کے دور میں یہی ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ’’باطن‘‘ کو فراموش کردیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔
علم کی بے شمار اور لاتعداد اقسام ہیں لیکن بہترین علم وہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر شے فانی ہے اور فانی کا علم فانی ہے اور ’باقی‘ کا علم حیاتِ جاودانی ہے۔ اس لیے جو علم’باقی‘ کی پہچان اور معرفت نہ کرائے وہ جہالت ہے اور جو علم ’باقی‘ تک لے جائے وہی علمِ حقیقی ہے۔
علمِ باطن کے بغیر علمِ ظاہر فرقہ پرستی، مسلک پرستی اور جھگڑے پیدا کرتا ہے۔(سلطان العاشقین)
استفادہ کتب
۱۔محک الفقر کلاں؛ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔ سلطان العاشقین؛ ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۳۔ کشف المحجوب؛ تصنیف حضرت داتا گنج بخشؒ
۴۔ الفتوحات المکیہ؛ تصنیف محی الدین ابنِ عربیؒ
۵۔حکایات علم و علما: مولانا اِمداد اللہ انور
۶۔علم اور مصادرِ علم:طاہر القادری
۷۔تعلیم اور تعلم کی فضیلت و تکریم:طاہر القادری
بہت خوب
علم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ یہ وہ انعامِ الٰہی ہے جس کی بنیاد پر انسان دیگر مخلوقات سے افضل ہے
علمِ باطن کے بغیر علمِ ظاہر فرقہ پرستی، مسلک پرستی اور جھگڑے پیدا کرتا ہے۔(سلطان العاشقین)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا :
علم انبیا کی میراث ہے اور مال فرعونوں کی میراث ہے۔
علم اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔
اللہ پاک ہمیں حضور سلطان العاشقین کے صدقہ سے علمِ حقیقی عطا فرمائے آمین
Great Article
علمِ ظاہر اور علمِ باطن کو اکٹھا کرنے کا نام علمِ حقیقی، دین و ایمان ہے۔
بے شک! بہترین مضمون
Haq
بہت خوب
بہترین مضمون ہے سبحان اللہ
Bohat alla mazmoon hy Masha Allah
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے فرمایا ’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ علم کی زیادتی عبادت کی زیادتی سے بہتر ہے اور دین کی اصل پرہیزگاری ہے۔ (مشکوٰۃ) (فضائل علم و علما)
معروف محدث، فقیہ اور مفسر ابو بکر محمد بن علی بن اسماعیل الکفال الکبیر الشاشی نے علم کی تعریف یوں بیان کی ہے :
کسی شے کو اس کی ماہیت کے مطابق ثابت کر دینا علم ہے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ سات وجوہات کی بنا پر علم مال سے افضل ہے:
بہت وضاحت سے بیان کیا ہے
Bohat acche se bataya
بہت اچھا مضمون ہے ۔
بہترین مضمون
ماشاءاللہ بہت خوب صورت مضمون ھے
Bohat alla
علم کے ساتھ عمل انتہائی ضروری ہے۔۔۔۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’لوگوں کی حیات روح سے ہے، روح کی حیات عقل سے ہے، عقل کی حیات علم سے ہے اور علم کی حیات عمل سے ہے۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
حضرت جندب رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عمل کے عالم اس چراغ کی طرح ہے جو اپنے آپ کو جلاکر لوگوں کے لیے روشنی کرتا ہے (اور اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے)۔ (کنز العمال)
Beautiful 💯💯💯 💯💯💯💯💯💯
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دور میں علم بھی زیادہ تھا اور عمل بھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحلت کے بعد صحابہ کرامؓ کا دور تھا اور اس دور میں عمل زیادہ تھا۔ تاہم دورِ حاضر میں علم و عمل کے فقدان کی وجہ سے معاشرہ جہالت کے اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔
موجودہ دور کے ولیٔ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو ظاہری علم کے ساتھ ساتھ باطنی علم عطا فرما کر روح میں نکھار پیدا فرما دیتے ہیں
بے شک ہر مرد اور عورت کو علم سیکھنا چاہیے
💖💖💖
حضرت جندب رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ بغیر عمل کے عالم اس چراغ کی طرح ہے جو اپنے آپ کو جلاکر لوگوں کے لیے روشنی کرتا ہے (اور اپنی ذات کو نقصان پہنچاتا ہے)۔ (کنز العمال)
پس قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ بات عیاں ہو گئی کہ علم حاصل کرنا ایک بہت بڑی سعادت ہے لیکن اس سے بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ جو علم حاصل کیا جائے اس کے مطابق عمل بھی کیا جائے۔
بہترین مضمون ہے
علمِ باطن کے بغیر علمِ ظاہر فرقہ پرستی، مسلک پرستی اور جھگڑے پیدا کرتا ہے۔(سلطان العاشقین)
علم پر اگر عمل نہ کیا جائے تو وہ بیکار ہے
❤️❤️❤️❤️❤️
Very nice
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے امین 🤲❤❤❤🌹🌹🌹
بہترین مضمون علم کے بارے میں