امامِ زمانہ کی معرفت ضروری کیوں؟ ( Imam e Zamana Ki Marifat Zarori kiun)
تحریر: مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری (اوکاڑہ)
خاتم النبیین سرکارِ دوعالم حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم امامت اور راہبری کو انسانی معاشرے کے لیے نہایت ضروری قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
من مات ولم یعرف امام زمانہ مات میتۃ جاہلیۃ
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو (ادراکِ قلبی) سے نہ پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔
ایک اور روایت کو ابنِ عمرؓ نے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے یوں نقل فرمایا ہے:
جو شخص مر جائے اور اس کے لئے کوئی امام نہ ہو تو وہ جاہلیت اور کفر کی موت مرا۔ (مسند احمد ۔12144)
من مات ولیس فی عنقہ بیتۃ مات میتۃ ما بعلیۃ (مسلم 4793)
ترجمہ: جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس کی گردن میں امامِ وقت (مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ) کی بیعت نہیں وہ جہالت کی موت مرا۔
مندرجہ بالا روایات سے ثابت ہے کہ اپنے وقت کے امام یعنی امامِ زمانہ کی معرفت، پہچان اور پہچان کے بعد بیعت کرنا لازم و ملزوم ہے۔
امام کون ہوتا ہے؟ ’’منصب ِامامت‘‘ میں شاہ اسماعیلؒ بیان کرتے ہیں:
و اقرب الیٰ اللہ باعتبار منزلت اوّل رسولؐاست بعد ازاں امام کہ نائب اوست۔
ترجمہ: اور مقام کے لحاظ سے اقرب الی اللہ سب سے پہلے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور ان کے بعد وہ اما م جو ان کے نائب ہیں۔
اس قول سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سب سے پہلے امام سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور پھر ہر زمانے میں وہ ہستی امام ِزمانہ کا درجہ رکھتی ہے جو نائبِ رسولؐ ہو۔
نائبِ رسولؐ کون ہوتا ہے؟ لفظ نائبِ رسولؐ کی وضاحت سے قبل یہ درج کیے دیتے ہیں کہ تصوف میں نائبِ رسولؐ کے لیے اولیا کرام یا صوفیا کرام حضرات نے مرشد کامل یا انسانِ کامل جیسے الفاظ کا استعمال اپنی تحریر میں کیا ہے۔ سید عبدالکریم بن ابر اہیم الجیلیؒ اپنی تصنیف’’ انسانِ کامل‘‘ میں لکھتے ہیں:
انسانِ کامل قطبِ عالم ہے جس سے اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اورجب وجود کی ابتدا ہوئی اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی شے ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبارِ لباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد ہے۔ اس کی کنیت ابوالقاسم اور اس کا وصف عبد اللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ پھر باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اسکا ایک نام ہے جو اس زمانہ کے لباس کے لائق ہوتا ہے۔ (صفحہ 388)
مندرجہ بالا فرمان میں پوشیدہ حقیقت کی وضاحت حضرت علامہ ابن ِ عربی’’ فصوص الحکم ‘‘میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
پس ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہے اور وہ صاحبِ لولاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کرعیسیٰ علیہ السلام تک تمام رسولوں، نبیوں، خلیفوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال، اولیا اللہ کی صورت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔(شرح فصوص الحکم والایقان۔صفحہ 165)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کا فرمان ہے ’’میں اس وقت بھی نبی تھا جب حضرت آدم علیہ السلام ابھی مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔‘‘
یعنی اُن کا خمیر تیار نہیں ہوا تھا جس سے ان کے جسد کو بنایا جاسکے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آپ ؐ اس وقت سے نبی ہیں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نور سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نور کو جدا کیا اور میم احمدی کا نقاب اوڑھ کر صورتِ احمدی اختیار کی۔ اس لیے بشری ولادت سے قبل بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نبی تھے اور نورِ محمد ی ہر نبی میں منتقل ہوتا رہایعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انبیا سابقین کے روپ میں کائنات میں موجود تھے۔ حالت بشریت میں ظہور کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کائنات میں ظاہری اور باطنی طور پر موجود رہے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہو گیا تو آپؐ اب بھی کامل حیات کے ساتھ کائنات میں موجود ہیں۔
اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ر سول کے طور پر دیکھا جائے تو کلمہ طیبہ لَآ اِلٰہَ اِلاَّ للّٰہُ
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ کا ترجمہ ذرا غور سے پڑھیے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اس کو ہم یوں لے سکتے ہیں کہ جو دور بھی گزر گیا اس کے بھی آپؐ رسول ہیں، جو گزررہا ہے اس کے بھی رسول ہیں اور جو گزرے گا اس کے بھی آپؐ رسول ہیں اور رسول وہ ہوتا ہے جو موجود ہو۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے :
میں اللہ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔‘‘
یہ نورِ محمدیہ ہی حقیقتِ محمدیہ ہے۔ انسان میں حقیقتِ محمدیہ دوسری مخلوق کی نسبت کامل اور مکمل جلوہ گر ہے اور جو انسان تمام مراتب کو طے کرتا ہوا وحدت یعنی حقیقت محمدیہ (نورِ محمدی ) تک پہنچ جاتا ہے اس میں حقیقتِ محمد یہ کامل مکمل ہو جاتی ہے اور وہ مظہر حقیقتِ محمدیہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے وقت کا عبد اللہ ہوتا ہے جسے فقر و تصوف کی رو سے انسانِ کامل کہا جاتا ہے۔(حقیقتِ محمدیہ)
تمام فرمودات سے پتہ چلتاہے کہ انسانِ کامل یا مرشد کا مل ہی درحقیقت نائب ِرسولؐ یا امام ِزمانہ کی حقیقت رکھتا ہے۔ یہ جان لینے کے بعد کہ حقیقتاً ہر زمانہ میں امام موجود ہوتا ہے، ضرورت اس امر کی در پیش ہوتی ہے کہ اُس امام کو پہچاناکیسے جائے ؟
ہر دور میں ایک ایسا انسان موجود ہوتاہے جو امانتِ الٰہیہ کا حامل یعنی خزانۂ فقر کا وارث ہوتاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خرانۂ فقر کے مالک اور مختارِ کُل ہیں اس لیے انہی سے امانت اور خزانۂ فقر منتقل ہوتا رہتا ہے۔ آپؐ کے اذن کے بغیر کسی انسان کو امانتِ الٰہیہ منتقل نہیں ہو سکتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خزانۂ فقر خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہر رضی اللہ عنہا کو منتقل ہوا۔ اور آپؓ امت محمدیہ میں فقر کی پہلی سلطان ہیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فقر کی وراثت پائی اور ان سے ہی فقرامت کو منتقل ہوا اس لیے آپؓ بابِ فقر ہیں۔ پھر یہ خزانہ منتقل در منتقل ہوتا ہوا شہسوارِ فقر غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ تک پہنچا پھر خزانۂ فقر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ تک پہنچا۔ (مرشد کامل اکمل)
فقرو تصوف کے انسائیکلوپیڈیا میں درج ہے کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ زمانہ کے اعتبار سے پچیسویں (25) امام ہیں اور آپؒ کے بعد امامِ زمانہ کی ترتیب کچھ یوں ہے:
26۔سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ
27۔سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ ہاشمی قریشیؒ
28۔شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیدّ محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدیؒ
29۔سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبدالعزیزؒ
30۔سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ
31۔موجودہ امام Imam زمانہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس۔(شمس الفقرا)
امام زمانہ کی پہچان کیسے ممکن ہے ؟
میرے مرشد کر یم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ مرشد کامل اکمل میں رقم طراز ہیں:
مرشد کامل کی ضرورت تسلیم کر لینے کے بعد انتخابِ مرشد میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ مرشد کامل اکمل کے باطنی کمالات کا اندازہ تو ایک مبتدی کسی صورت کر ہی نہیں سکتا اور اسکی ضرورت بھی نہیں۔ مگر طالب یا سالک کو انتخاب ِمرشد کے وقت ابتدائی طور پر درج ذیل امور پر نگاہ ڈال لینا کافی ہے:
ا) ان بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو اور یہ دیکھے کہ جتنی دیر وہاں بیٹھا کم از کم اتنی دیر دنیا کے خطرات و وساوس اس کے قلب میں کمی کے ساتھ آئے یا نہیں اور اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اس کے دل میں کچھ ذوق شوق بھی پیدا ہوا ؟ ان کے پاس سے اُٹھ آنے کے بعد اس کے قلب کی حالت خواہ ویسی ہی ہوگئی ہو جیسی کہ معمولاً تھی مگر جتنی دیر وہاں حاضر رہا اس قسم کا خفیف سا بھی تغیر اس نے اپنے اندر محسوس کیا یا نہیں۔
ب) ان بزرگ کے مریدین یا بعض مریدین کی حالت میں کوئی بہتر تغیر واقع ہوا یا نہیں۔ قبل مرید ہونے کے ان لوگوں کی کیا حالت تھی اور مرید ہونے کے کچھ عرصہ بعد ان میں کسی قسم کی تبدیلی واقع ہوئی۔
ج) جتنی دیران بزرگ کی خدمت میں بیٹھا ان کی زبان سے بعض الفاظ ایسے بھی نکلے یا نہیں جو اس کے حسبِ حال ہوں یا جن سے اس کو ہدایت یا تسکین حاصل ہوئی ہو یا اسکی کوئی الجھن رفع ہوئی ہو یا کوئی عقدہ حل ہوا ہو۔
د) سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کی تعلیمات کے مطابق مرشد کامل نہ صرف خود صاحبِ تصور اسم اللہ ذات ہو بلکہ بیعت کے فوراً بعد طالب کو ذکرِھو اور تصور اسمِ اللہ ذات عطا کرے اور طالب کے باطن میں ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات سے کوئی تبدیلی وقوع پذیر نہ ہو تو وہ مر شد کامل نہیں ہے۔ اگر طالب کے باطن میں تبدیلیاں وقوع پذیر ہونے لگیں اور نظریات اور خیالات میں تبدیلی آنے لگے اس کا باطن دنیا سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جائے تووہ مرشد کامل ہے۔
اگر ان امور میں اس کو اچھی رائے قائم کرنے کا موقع مل گیا تو وہ شخص آنکھیں بند کر کے اُن بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کرلے کیونکہ پھر اس کو(جہاں تک اسکی ہد ایت و اصلاح کا تعلق ہے)اْن سے بہترکوئی بزرگ دستیاب نہ ہوں گے۔
امامِ زمانہ کی معرفت و بیعت کے فوائد
وہ پاکیزہ اور کامل لوگ جو سلسلہ در سلسلہ بیعت ہوتے چلے آرہے ہیں ان کا شجرۂ فقر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک پہنچ جاتا ہے۔ ایسے برگزیدہ صفات لوگوں کو شیخِ اتصال کہتے ہیں اور ان کے درمیان کسی جگہ کا انقطاع نہیں ہوتا۔ ایسے کامل حضرات جس خوش بخت آدمی کو بیعت کر لیں اس کی روحانی نسبت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ قائم ہوجاتی ہے اور طریقت کی رو سے یہی سمجھا جاتا ہے گویا اس نے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کی اور آپ کے وسیلہ سے اللہ تک پہنچ گیا ہے۔
مرشد کامل کی زیرِ نگرانی طالب شیطان اور نفس کی چالبازیوں سے بچتا ہوا دار الامن(قربِ الٰہی) میں داخل ہو جاتا ہے مراد کہ اُسے تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے جس کے متعلق قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں(صادقین) کے ساتھ ہو جاؤ۔ (سورۃ توبہ ۔119)
تقویٰ کا اعلیٰ ترین مقام صدیقیت ہے۔ مزید فرمان باری تعالیٰ ہے:
اور جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حکم مانے تو اسے ان کا ساتھ ملے گاجن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیا،صدیقین، شہدا اور صالحین ۔(سورۃ النسا ئ۔69)
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد کامل اکمل باطن کی ہر منزل اور ہر راہ کا واقف ہوتاہے۔ باطن کی ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا نام ہے۔ جب تک توفیقِ الٰہی شاملِ حال نہ ہو کوئی کام سرانجام نہیں پاتا۔ مرشد کامل کے بغیر اگر تو تمام عمر بھی اپنا سرر یاضت کے پتھر سے ٹکراتا رہے تو کوئی فائدہ نہ ہو گا کہ بے مرشد او ربے پیر کوئی شخص خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ مرشد کامل اکمل جہاز کے دیدہ بان معلم کی طرح ہوتا ہے جو جہاز رانی کا ہر علم جانتا ہے اور ہر قسم کے طوفان و بلا سے جہاز کو نکال کر غرق ہونے سے بچالیتا ہے۔ مرشد خود جہاز،خودجہاز ران ہوتا ہے (سمجھ والا سمجھ گیا)۔ (عین الفقر)
تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ صاحبِ راز (مرشد کامل اکمل) کے سینے میں ہے کیونکہ قدرت توحید اور دریائے وحدت الٰہی مومن کے دل میں سمائی ہوتی ہے۔ اس لیے جو شخص حق حاصل کرنا چاہتا ہے اور واصل باللہ ہوناچاہتا ہے اسے چاہیے کہ سب سے پہلے مرشد کامل اکمل کی طلب کرے۔ اس لیے کہ مرشد کامل اکمل دل کے خزانوں کا مالک ہوتا ہے۔ جو شخص دل کا محرم ہو جاتا ہے وہ دیدارِ الٰہی کی نعمت سے محروم نہیں رہتا۔ (عین الفقر)
مرشد کامل طالب اللہ کو تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے معرفت و دیدار کا سبق دیتا ہے۔
امامِ زمانہ کی معرفت و بیعت کی اہمیت
سیدّنا غوث الاعظم محی الدّین شیخ عبد القادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
تونا بینا ہے، تو اس کو تلاش کر جو تیرا ہا تھ پکڑ لے۔ تو جاہل ہے تو ایسے علم والے کو تلا ش کراور جب تجھے ایسا قابل مل جائے تو پس اس کا دامن پکڑ لے اور اس کے قول اور رائے کو قبول کر اور اس سے سیدھا راستہ پوچھ۔ جب تو اس کی رہنمائی سے سیدھی راہ پر پہنچ جائے گا تو وہاں جا کر بیٹھ جاتا کہ تو اس کی معرفت حاصل کرلے۔ (الفتح الربانی۔ مجلس 4)
حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وسیلت(مرشد) بہتر ہے فضیلت (علم) سے۔ گناہ کرتے وقت (علم) فضیلت بندے کو گناہ سے نہیں روک سکتی جبکہ وسیلت بندے کو گناہ سے روک لیتی ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’شیخ اپنی قوم میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح نبی اپنی امت میں۔ ‘‘(عین الفقر)
شیخ احمد ابو زروقؒ فرماتے ہیں علم و عمل کا مشائخ عظام سے حاصل کرنا دوسرے لوگوں سے حاصل کرنے سے بہتر ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے’’ وہ روشن ہے جو ان کے سینوں میں محفوظ ہے جنہیں علم دیا گیا۔‘‘ (سورۃ العنکبوت ۔ 49)آپؒ فرماتے ہیں’’ تو اس راستے پر بغیر کسی راہبر کے نہ چل جسے تو جانتا نہیں وگرنہ اس کے نشیب و فراز میں گر جائے گا کیونکہ راہبر (مرشد کامل اکمل) ہی سالک کو امن وامان کے ساحل تک پہنچاتا ہے۔‘‘
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
پیر کامل کی صحبت اور غلامی کے بغیر کوئی شخص صوفی اور عارف باللہ نہیں بن سکتا۔
حضرت مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں :
اولیا کرام کا طریق صحابہ کرامؓ کا طریق ہے۔ کوئی کتنا بڑا پر ہیز گا رہی کیوں نہ ہو بزرگوں کی صحبت سے مستثنیٰ نہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے دو سال تک حضرت بہلول داناؒ کی صحبت اختیار کی اور فرمایا کرتے تھے اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو گیا تھا۔
حضرت عبدالعزیز دباغؒ فر ماتے ہیں:
ولی کامل (امامِ زمانہ/ مرشد کامل اکمل) کسی بھی انسان کو ایک عمر میں واصل بناسکتا ہے۔
حضرت شمس الدین سیالویؒ فرماتے ہیں:
پیر ِکامل کے بغیر روحانیت میں ترقی ممکن نہیں۔ آپؒ نے فرمایا: پیر کی صحبت سے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت نصیب ہوتی ہے۔ مرید کو چاہیے کہ خود کو مرشد میں محو کر دے تاکہ وہ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مظہر کو دیکھ سکے۔
یہی انسانِ کامل امانتِ الٰہیہ کا حامل ہے جس کے متعلق قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ہم نے اپنی امانت آسمانوں،زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو سب نے اس بارِ امانت کو اٹھانے سے عا جزی ظاہر کردی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور نادان ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم اس امانت کے مختار بھی ہیں اور اس کو اپنے حقیقی روحانی ورثا میں منتقل کرنے والے بھی ہیں۔ یہ ممکن نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بشری حیات کے بعد اس دنیا میں ایسی ہستی ہی موجود نہ رہے جو امانتِ الٰہیہ کو سنبھالنے والی اور اللہ کی ذات و صفات کے اظہار کا ذریعہ بنے کیونکہ اس کا ئنات کا مقصدہی اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کا اظہار ہے اس کے کامل محبوبین کے ذریعے۔ (سلطان العاشقین)
مختصراً اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ہستی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سلسلہ قادری، جسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا،کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل جامع نور الہدی اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام و سربراہ ہیں۔(سلطان العاشقین)
عزیز قارئین! شواہد کے طور پر آپ مدظلہ ا لاقدس کی ایک مرید کا مشاہدہ درج کیا جا رہا ہے ’’محترمہ نورین عبدالغفور کہتی ہیں کہ ان میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت کے بعد بہت تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ بیعت سے قبل معلوم نہ تھا کہ اللہ کی پہچان کیا ہوتی ہے اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کسی طرح ممکن ہے۔سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت کے بعد انہیں مجلسِ محمدیؐ کی حضوری نصیب ہوئی۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی اجازت سے جب محترمہ نورین نے رسالہ روحی شریف پڑھنا شروع کیا تو دوسرے ہی دن انہیں جاگتی آنکھوں سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت نصیب ہوئی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مسکرارہے تھے۔ محترمہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا نبی پاکؐ کیا یہ آپ ہی ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم نے فرمایا بیٹی تمہاری تسلی کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ جس نے مجھے دیکھا اُس نے بیشک مجھے ہی دیکھا کیونکہ شیطان کبھی بھی میری صورت اختیار نہیں کر سکتا ۔ (سلطان العاشقین)
الغرض مرشد کامل جسے امام الوقت یا امامِ زمانہ کہتے ہیں کی معرفت اور بیعت ہر مسلمان پر فرض ہے جسکی وجہ بخاری شریف اور مسلم شریف کی درج ذیل متفق علیہ حدیث مبارکہ ہے:
صحابہ کرامؓ نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کئی ایسے لوگ بھی ہیں کہ ہم ان جیسے عمل نہیں کر سکتے، یعنی اللہ کے ایسے محبوب مقرب بندے ہیں جن کے عمل بڑے اونچے ہوں گے ، ہم ان جیسے عمل نہیں کرسکتے، ان جیسا تقویٰ ہمارے پاس نہ ہو گا، ان جیسی ریاضت ہمارے پاس نہیں ہوگی، ان جیسا صدق و اخلاص ہمارے پاس نہیں ہو گا، ان جیسے اخلاق ہمارے نہیں ہوں گے۔ ہماری کمیاں ہیں جبکہ اُن کے اونچے اعمال اور درجات ہیں۔ تو کیا ہم اْن کے ساتھ مل سکتے ہیں جبکہ ہمارے اور ان کے اعمال میں بڑا فرق ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا’’ روز ِقیامت ہر شخص اْس کے ساتھ ہوگا جس سے محبت کرتا ہے اور اس کا عمل اُس کے ساتھ ہوگا۔‘‘ یعنی ایسا شخص جس کے اعمال کم تر ہیں،وہ کسی نیک اور صالح اعمال رکھنے والے کے ساتھ محبت کرے گا، انکی صحبت اورسنگت میں جڑ جائے گاتو یہ اللہ کا وعدہ ہے کہ اُن سنگت رکھنے والوں کونیک اور صالح افرادکی نسبت سے جنت میں لے جائے گا۔ معرفت اور بیعت کے بعد سب سے افضل فریضہ اپنے امام کے ساتھ خلوصِ دل سے وفا کرنا ہے۔
اختتام پر دعا گو ہوں کہ اللہ پاک کے کرم سے جن کو امامِ زمانہ کی بیعت نصیب ہو چکی ہے انہیں تاحیات انکا وفاداربنائے اور جن کو بیعت نصیب نہیں ہوئی انہیں امامِ زمانہ کی غلامی میں آنا نصیب ہو۔ (آمین)
استفادہ کتب:
۱۔عین الفقر: سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔شمس الفقرا: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ ا لاقدس
۳۔حقیقت محمدیہ : ایضاً
۴۔مرشد کامل اکمل: ایضاً
۵۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۶۔کشف المحجوب: حضرت علی ہجویری داتاگنج بخشؒ
Great article👍🏻
اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ہستی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سلسلہ قادری، جسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا،کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل جامع نور الہدی اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام و سربراہ ہیں۔(سلطان العاشقین)
جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو (ادراکِ قلبی) سے نہ پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔
Beautifuly written article
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
پیر کامل کی صحبت اور غلامی کے بغیر کوئی شخص صوفی اور عارف باللہ نہیں بن سکتا۔
المدد یاحضور سلطان العاشقین جی ❤
حضرت عبدالعزیز دباغؒ فر ماتے ہیں:
ولی کامل (امامِ زمانہ/ مرشد کامل اکمل) کسی بھی انسان کو ایک عمر میں واصل بناسکتا ہے۔
ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہے اور وہ صاحبِ لولاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے
Very informative topic
مندرجہ بالا فرمان میں پوشیدہ حقیقت کی وضاحت حضرت علامہ ابن ِ عربی’’ فصوص الحکم ‘‘میں کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
پس ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہے اور وہ صاحبِ لولاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کرعیسیٰ علیہ السلام تک تمام رسولوں، نبیوں، خلیفوں کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال، اولیا اللہ کی صورت میں اعلیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔(شرح فصوص الحکم والایقان۔صفحہ 165)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخ کامل ہیں
بہترین مضمون ہے
بیشک اللہ پاک ہم سب کو استقامت فرمائے
Great
بہترین مضمون ہے
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
پیر کامل کی صحبت اور غلامی کے بغیر کوئی شخص صوفی اور عارف باللہ نہیں بن سکتا۔
Behtreen mazmoon
Beshak Hazoor saw ki itabah zaroori hai isi liye waqt ke Imam ki bayat bhi zaroori hai
Very informative
بہت اچھا لکھا ہے
بہترین
سبحان اللہ ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے 💯❤❤❤❤
Beyshak Sultan ul Ashiqeen madzillah ul Aqdus mojuda dour k insan e Kamil aur Imam e waqt hain
جو شخص اس حالت میں مرا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو (ادراکِ قلبی) سے نہ پہچانا وہ جہالت کی موت مرا۔
بہت اچھا مضمون ہے۔
حضرت شمس الدین سیالویؒ فرماتے ہیں:
پیر ِکامل کے بغیر روحانیت میں ترقی ممکن نہیں۔ آپؒ نے فرمایا: پیر کی صحبت سے خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت نصیب ہوتی ہے۔ مرید کو چاہیے کہ خود کو مرشد میں محو کر دے تاکہ وہ خدا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مظہر کو دیکھ سکے
بہترین ارٹیکل ہے
انسانِ کامل یا مرشد کا مل ہی درحقیقت نائب ِرسولؐ یا امام ِزمانہ کی حقیقت رکھتا ہے۔
بہترین مضمون ہے
حضرت داتا گنج بخش علی ہجویریؒ فرماتے ہیں:
پیر کامل کی صحبت اور غلامی کے بغیر کوئی شخص صوفی اور عارف باللہ نہیں بن سکتا۔
حضرت عبدالعزیز دباغؒ فر ماتے ہیں:
ولی کامل (امامِ زمانہ/ مرشد کامل اکمل) کسی بھی انسان کو ایک عمر میں واصل بناسکتا ہے۔
حضرت مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں :
اولیا کرام کا طریق صحابہ کرامؓ کا طریق ہے۔ کوئی کتنا بڑا پر ہیز گا رہی کیوں نہ ہو بزرگوں کی صحبت سے مستثنیٰ نہیں۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ نے دو سال تک حضرت بہلول داناؒ کی صحبت اختیار کی اور فرمایا کرتے تھے اگر یہ دو سال نہ ہوتے تو میں ہلاک ہو گیا تھا۔
مختصراً اس دور کے طالبانِ مولیٰ نے اس زمانہ کے انسانِ کامل اور امام الوقت کو جس بابرکت ہستی کی صورت میں پہچانا وہ عظیم ہستی سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں جو سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سلسلہ قادری، جسے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے سلسلہ سروری قادری کے نام سے عروج عطا فرمایا،کے موجودہ شیخِ کامل ہیں اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد امانتِ الٰہیہ کے حامل مرشد کامل اکمل جامع نور الہدی اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام و سربراہ ہیں۔(سلطان العاشقین)