عرفانِ نفس
تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
جب سے انسان نے اس سیارہ جسے زمین کہتے ہیں پر قدم رکھا ہے۔ اس کے ذہن میں ہمیشہ ایسے سوالات جنم لیتے رہتے ہیں۔
♦ میں کون ہوں؟
♦ میری ابتدا کیا ہے؟
♦ میری انتہا کیا ہے؟
♦ میری حقیقت کیا ہے؟
♦ میری پہچان کیا ہے؟
♦ اگر مجھے تخلیق کرنے والا خالق کوئی ہے تو وہ کون ہے؟ اس کی پہچان کیا ہے؟
♦ میرا مقصدِ حیات کیا ہے؟
ان جوابات کی تلاش کے لیے انسان نے جب بھی کوشش کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی راہنمائی کے لیے ہر دور میں اور اس زمین کے ہر خطہ میں اپنے نبی اور رسول بھیجے۔ جو انسان کو ان سوالات کے جوابات سے مطلع فرماتے رہے۔حتیٰ کہ وہ زمانہ آپہنچا جب روئے زمین کے انسان ایک دوسرے کے اتنے قریب آگئے کہ دنیا کے ایک سرے پر بیٹھا ہواا نسان دنیا کے دوسرے سرے پر بیٹھے ہوئے انسان سے باخبر رہنے لگا۔ ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب، باعثِ تخلیقِ کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مبعوث فرما کر بنی نوع انسان پر اپنی راہنمائی کی حجت تمام کردی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پوری نسلِ انسانی کے لیے تا قیامِ قیامت ہادی ہیں۔ انسانوں کی ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے قرآنِ مجید کی صورت میں مکمل ضابطہ حیات عطا ہوا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ” آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اپنی خواہش سے بات نہیں کرتے ۔”تو قرآنِ مجید کے ساتھ ساتھ احادیثِ قدسی اور احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صورت میں یہ ضابطہ حیات قیامت تک کے لیے محفوظ کر لیا گیا۔ جس خوش قسمت نے اس ضابطہ حیات سے رجوع کیا اُسے راہنمائی ملی اور اس نے اپنا مقصدِ حیات حاصل کر لیا ۔
اللہ تعالیٰ نے اس حدیثِ قدسی میں انسان کی تخلیق کا مقصد بیان فرمایا ہے:کُنْتُ کَنْزاً مَخْفِیًا فَاَ حْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْق ترجمہ:”میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں اس لیے میں نے مخلوق کو پیدا کیا” اس حدیثِ قدسی سے واضح ہو گیا کہ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پہچان کیسے حاصل ہو گی۔تو اللہ کی پہچان کا طریقہ اس حدیث شریف میں بیان کیا گیا ہے:مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ ترجمہ:” جس نے اپنی ذات کو پہچانا اس نے یقیناًاپنے ربّ کو پہچانا۔”
اسکی شرح اس طرح سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح کو عالمِ لاھوت میں روحِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پیدا فرمایا اس مقام پر روح کو ”روحِ قدسی” کا نام دیا جاتا ہے اور یہی روح کی وہ حالت ہے’ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”انسان میرا راز ہے اور میں انسان کا راز ہوں۔” اس مقام پر ارواح اللہ تعالیٰ کے دیدار میں محوہیں۔ اور اسی عالم میں انسانی ارواح سے ”وعدہ بَلیٰ ” لیا گیا۔ سورہ الاعراف میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط (کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں) تمام ارواح نے جواب دیا :قَالُوْا بَلٰی(ہاں تو ہی ہمارا رب ہے۔)
علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں:
الست از خلوت نازے کہ برخاست
بلیٰ از پردۂ سازے کہ برخاست
ترجمہ: اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط آواز کس کے ناز کی خلوت سے بلند ہوئی اور قَالُوْا بَلٰی کا نغمہ کس کے ساز کے سُر سے بلند ہوا؟
عالمِ لاھوت وہ عالم ہے جہاں پر انسان (انسانی روح) کے سوا تمام مخلوق کا داخلہ ممنوع ہے۔ اسی عالم کی سرحد پر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے معراج کی رات فرمایا تھا کہ میں اگر اس مقام سے ذرا سا بھی آگے بڑھوں گا تو جل جاؤں گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے روح کو عالمِ جبروت میں اتارا اور اسے جبروتی لباس پہنایا کیونکہ روح جس جہان میں بھیجی جائے گی’ اُسے اس جہان کے لباس کی ضرورت ہوگی۔ یہاں پر روح کا نام ”روحِ سلطانی” ہوا پھر اُسے عالمِ ملکوت میں اتارا گیا اور اُسے ملکوتی لباس پہنایا گیا۔ یہاں پر روح کا نام ”روح نورانی” ہوا اور پھر اسے بشری جسم میں داخل کیا گیا اور لباسِ بشر پہنایا گیا’ جہاں پر روح کا نام ”روح جسمانی یا حیوانی” ہوا۔ اس لیے فرمایا ”روح امرِ ربی ہے ”اور اسی لیے کہا گیا ہے کہ ”ہر بچہ فطرتِ سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔” یعنی اس کی روح پاکیزہ اور نور سے منور ہوتی ہے اور لذتِ دنیا اور آلائشات دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوئی ہوتی۔ اب انسانی عروج یہ ہے کہ وہ روحانی طور پر ترقی کرتا ہوا اپنے اصلی وطن عالم لاھُوت کو لوٹ جائے اور اپنی اصل روح یعنی روحِ قدسی کو حاصل کرلے ، اسی مقام پر انسان کو عرفانِ نفس حاصل ہوجاتا ہے۔ اور یہی عروج انسان کا مقصدِ حیات ہے۔روحِ قدسی کو مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا ہے:
بعض صوفیاء کرام نے انسان کے اس روحانی وجود کو ”باطن”، ”اندر کا انسان” ،روحانی انسان یا انسان کا باطنی وجود کا نام دیا ہے۔
بعض احادیث میں، اور صوفیاء کرام نے بھی’ روح کو قلب’ دل یا من کا نام دیا ہے۔ دل’ قلب یا من گوشت کا وہ لوتھڑا نہیں ہے’ جو سینے کے اندر بائیں جانب رکھا ہوا ہے۔ گوشت کا یہ لوتھڑا تو جانوروں اور مُردوں کے سینے میں بھی موجود ہوتا ہے اور ظاہری آنکھ سے اسے دیکھا بھی جاسکتا ہے اور جس چیز کو ظاہری آنکھ دیکھ سکے اور اس کا تعلق ظاہری دنیا سے ہو اور جسے فنا بھی ہونا ہو اُسے عالمِ باطن کی کیا خبر ہوسکتی ہے۔ روح کو یہ نام اصطلاحی طور پر دیا گیا ہے۔
اقبالؒ نے اسے ”خودی” کا نام دیا ہے اور ”عرفانِ نفس” کو آپ رحمتہ اللہ علیہ ”خودی کی پہچان” کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اقبالؒ کے زیادہ تر مفسروں نے ”خودی” کو ”روح” سمجھنے کی بجائے ”اَنا” سمجھ کر بہت بڑی زیادتی اور غلطی کی ہے۔ انہیں شاید یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ”اَنا” سے انسان خدا تعالیٰ سے دور اور ”رُوح” سے قریب ہوتا ہے۔ویسے علامہ اقبالؒ نے من، دِل اور روح کی اصطلاحیں بھی استعمال کی ہیں۔
عام انسان اسے ضمیر کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ جب انسان کوئی گناہ یا غلط کام کرتا ہے’ تو روح ہی اسے ملامت کرتی ہے’ کیونکہ گناہ اس کی فطرت میں نہیں۔ انسان کہتا ہے کہ میرا ضمیر مجھے ملامت کر رہا ہے۔ روح کی پہچان کو ہی اصل میں عرفانِ نفس کہا جاتاہے اور یہی دین ہے۔
” دین” کے معنی ہیں ”جو ہرِ انسان ” یعنی روح کی شناخت اور اس کی تکمیل” یعنی مرتبہ انسان کی پہچان اور اس کے حصول کا نام دین ہے۔ دوسرے الفاظ میں خود شناسی وخودبینی وخود بانی کا نام دین ہے اور خود شناسی یہ ہے کہ انسان کی تخلیق دو چیزوں سے عمل میں لائی گئی ہے۔ ایک تو ظاہری وجود ہے جسے جسم یا تن بھی کہتے ہیں اور جسے آنکھ سے دیکھا اور ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ اور دوسری چیز باطن ہے جسے روح’ باطن یا دل کہتے ہیں۔ جس کا ذکر اوپر ہوا ہے اسے نہ تو ظاہری آنکھوں سے دیکھا جاسکتا ہے او رنہ ہی ظاہری ہاتھوں سے چھوا جاسکتا ہے۔ اسے صرف باطن ہی کی آنکھ سے دیکھا بھالا جاسکتا ہے۔ عارفوں کی اصطلاح میں انسان کے اس باطنی اور اصلی وجود کو دل، قلب، من یا روح کہتے ہیں۔ اور اس کا تعلق اس ظاہری جہان سے ہرگز نہیں بلکہ اس کا تعلق عالمِ غیب سے ہے۔ اس سے یہ ظاہری جسم چھن بھی جائے تو اس کو قائم رہنا ہے کہ اسے فنا نہیں ہے۔ معرفتِ الٰہی اور جمالِ خداوندی کا مشاہدہ اس کی خاص صفت ہے۔ عبادت کا حکم اسی کو ہے’ ثواب وعذاب اسی کے لئے ہے’ سعادت وشقاوت اسی کا مقدر ہے اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہونا ہی معرفتِ الٰہی کی چابی ہے اور یہی دین کی حقیقت ہے۔
موجودہ دور میں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جب علمِ باطن کا کوئی مسئلہ سامنے آتا ہے تو ان قرآنی آیات کو جن میں علمِ باطن کے متعلق واضح اور روشن ہدایات موجود ہیں کچھ لوگ متشابہات کہہ کر آگے گزر جاتے ہیں۔ اور آج کل کے دور میں یہی ہماری گمراہی کی بڑی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے ”باطن” کو فراموش کردیا ہے اور صرف ظاہر کی طرف متوجہ ہوگئے ہیں۔ اور یہی ہماری گمراہی کا سبب ہے کہ آج کا انسان آفاق میں گم ہے اور اگر وہ اپنی ہستی کو پہچان لے تو ”آفاق” اس کو اپنے اندر دکھائی دے گا۔
قرآنِ مجید میں بھی باربار انسان کے باطن کی طرف توجہ دلائی گئی ہے:وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِکُمۡ ؕ اَفَلَا تُبۡصِرُوۡنَ ترجمہ:اور میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔
وَ نَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ ترجمہ: اور ہم تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہیں۔(سورۃ ق۔16)
کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ ترجمہ: ان کے دلوں پر ایمان لکھا۔(سورۃ المجادلۃ -22)
اَفَرَءَیۡتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـہَہٗ ہَوٰىہُ ترجمہ۔ (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ نے ایسے شخص کو دیکھا جس نے اپنی نفسانی خواہشات کو ا لہٰ (معبود) بنا لیا ہے ۔(الجاثیہ۔23)
اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ ۟ ترجمہ : کیا وہ اپنے اندر فکر نہیں کرتے ۔ (سورہ الروم۔8)
حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ نے باطن کی طرف متوجہ کیا ہے:لَاْ یَسْعُنِیْ اَرْضِیْ وَ لَا سَمَآئِی وَلٰکِنْ یَسْعُنِی قَلْبُ عَبْدِالْمُؤ ِمن ترجمہ: نہ میں زمین میں سماتا ہوں اور نہ آسمانوں میں لیکن بندہ مومن کے دل میں سماجاتا ہوں۔
احادیثِ نبوی میں بھی باطن کی طرف اشارہ موجود ہے: بے شک ﷲ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اورنہ تمہارے اعمال کو بلکہ وہ تمہاری نیتوں اوردلوں کو دیکھتا ہے۔
اِنَّمَا الْعَمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔ ترجمہ : عمل کا دارومدار نیت پر ہے۔
قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشَ اللّٰہِ تَعَالیٰ۔ ترجمہ: مومن کادل ﷲ تعالیٰ کا عرش ہے۔
ایسی بے شمار آیات و احادیث موجود ہیں جن میں قلب و باطن کی طرف بندہ کی توجہ دلائی گئی ہے جو تخیل و تصور کا مرکزہے اوراسی قلب وباطن میں ایمان ٹھہرایا گیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کَتَبَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمُ الۡاِیۡمَانَ ترجمہ: ان کے دلوں پر ایمان لکھا۔(سورۃ المجادلۃ -22) شیطان لعین بھی اسی باطن میں وسوسے چھوڑ تا ہے۔الَّذِیۡ یُوَسۡوِسُ فِیۡ صُدُوۡرِ النَّاسِ ترجمہ: وہ لوگوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتا ہے۔ (الناس۔5)
دنیا میں جہاں کہیں بھی کوئی شنا سائے حقیقت’ راز پنہاں سے واقف ہستی یا کوئی مفکر پیدا ہوا ہے۔ اس نے اس حقیقت کا پردہ ضرور فاش کیا ہے کہ عرفانِ نفس سے ہی اصل آگہی حاصل ہوتی ہے۔ اور اس قرآنی حقیقت سے ضرور پردہ اٹھایا ہے کہ نہ صرف خدا اور اس کا تخلیق کردہ یہ عالم ہی بلکہ پوری کائنات (یعنی تمام عالمین) انسانی قلب میں لطیف صورت میں موجود ہے ۔یہ کوئی محض فلسفیانہ اصول نہیں جو ذہنی لطف یا دماغی کسرت کی تشفی کے لیے گھڑا گیا ہو یہ زندگی کی وہ حقیقت ہے جو قرآن و حدیث انبیاء کرام اور فقرائے کاملین کی تعلیمات اور تجربے کی مضبوط بنیاد پر کھڑی ہے۔
مولانا روم ؒ اس حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے انسان سے فرماتے ہیں کہ شکل سے تو جہانِ صغیر ہے مگر حقیقت میں تو جہانِ کبیر ہے۔
بس بصورت عَالَمِ صُغری توئی
پس بمعنی عَالَمِ کُبْری توئی
آپؒ مزید فرماتے ہیں:
آدمی راہست حِسِ تن سِقیم
لیک دو بَاطن یکے خلق عظیم
ترجمہ: انسان جسمانی حواس کے نظریہ سے حقیر و ہیچ ہے مگر باطن میں” عالمِ عظیم” ہے۔
خواجہ حافظ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یار باماست روز و شب حافظ
ہمچوں جانے کہ ہست در رگ وپے
ترجمہ: اے حافظ! یار دن رات ہمارے ساتھ ہے جیسے زندگی ہماری رگ وپے میں ہے۔
حضرت بو علی شاہ قلندر رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یار در تو پس چرائی بے خبر
ترجمہ: یار تیرے اندر ہے تو کیوں بے خبر ہے۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہمَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ کی شرح میں فرماتے ہیں:
اے انسان! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیز ہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اس لیے اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کوکیوں کر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا کہ ”یہ میرے ہاتھ ہیں یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے” اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے’ اتنی شناخت تو اپنے لیے دیگر جانور بھی رکھتے ہیں۔ یا فقط یہ جان لینا کہ بھوک لگے تو کچھ کھالینا چاہئے غصہ آجائے تو جھگڑا کر لینا چاہئے۔ شہوت کا غلبہ ہوجائے تو جماع کر لینا چاہئے یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تو ان سے اشرف و افضل کیوں کر ہوا؟ تیری اپنی ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تو جانے کہ تو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تو آیا ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے؟ اور کس چیز میں ہے؟ تیری بدبختی وشقاوت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کردی گئی ہیں اور ان میں سے بعض صفات حیوانی ہیں’ بعض وحشی درندوں کی، بعض شیطانی بعض جناتی اوربعض ملکوتی ہیں’ تو ذرا غور تو کر کہ تو ان میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تو ان میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت ان میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب واجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تو ان حقائق کو نہیں پہچانے گااپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گا۔اور اپنی نیک بختی وسعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی غذا علیحدہ علیحدہ ہے اورسعادت بھی الگ الگ ہے۔چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں ‘ پئیں’ سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں۔ اگرتو بھی یہی کچھ ہے تودن رات اسی کوشش میں لگارہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے۔ درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے مرنے مارنے اور غیظ وغضب میں ہے’ شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکروحیلہ سازی میں ہے اگر تو ان میں سے ہے تو ان ہی جیسے مشاغل اختیار کرلے تاکہ تو اپنی مطلوبہ راحت ونیک بختی حاصل کرلے۔ فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر وتسبیح وطواف میں ہے جب کہ انسان کی غذا اور سعادت قربِ الٰہی میں ﷲ تعالیٰ کے انوارِ جمال کا مشاہدہ ہے۔ اگر تو انسان ہے تو کوشش کر کہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے اور اس کے انوار و جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ او ر شہوت کے ہاتھ سے رہائی دلاسکے اور تو طلب کرے تو اس ذات یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے اندران حیوانی وبہیمی صفات کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجائے کہ پیدا کرنے والے نے ان صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اس لیے کہ وہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟یا اس لیے کہ تو ان کو اپنا اسیرو مسخر بنالے اور خود ان پر غالب آجائے او راپنے ان اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنالے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنالے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اس منزل گاہ فانی میں گزارنا ہیں۔ ان میں سے اپنے ان غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو تو ان کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا اپنی اس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہوسکے جسے خواص کی زبان میں ”حضورِ حق ٗ’ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں۔ جس نے ان کو نہ جانا وہ راہ دین سے دور رہا اور لامحالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا”۔ (کیمیائے سعادت )
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
”اے طالب تو پہچان اپنی ذات کو اور کون ہے تو اور کیا ہے حقیقت تیری اور کیا ہے تیری نسبت حق تعالیٰ کی طرف اورکس وجہ سے تو حق ہے اورکس وجہ سے تو عالم (جہان) ہے۔(شرح فصوص الحکم والایقان)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اور حقیقتِ انسان
تمام عارفین اور فقراء کی طرح حضرت سخی سلطان باھوؒ بھی انسان کو اپنے من میں جھانکنے اور اپنی ذات پر غور کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ چونکہ صوفیاء کرام میں عظیم مرتبہ کے حامل اور سلطان الفقر کے مرتبہ پر فائز ہیں اس لئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا انداز بھی سب سے منفرد اور جداگانہ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی تمام تر تعلیمات خواہ نثر کی شکل میں ہوں یا شاعری کی شکل میں قرآن وحدیث کی خوبصورت شرح ہیں۔ آپؒ قرآن پاک کی اس آیت کہ’ ﷲ شہ رگ سے نزدیک ہے ،کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اس ہستی کی تلاش کے لئے پہلے اپنے اندررسائی ضروری ہے۔ اپنے باطن کے اندر ﷲ پاک کی موجودگی پرزور دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کے لئے لفظ نزدیک کا استعمال بھی موزوں نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ بھی علیحدگی اور دوئی کا مظہر ہے بلکہ وہ ہی تو ہماری ہستی ہماری حقیقت ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
قربِ حق نزدیک من حبل الورید
تو جمالش رانہ بینی بے نظیر
ترجمہ: ﷲ پاک کی ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے مگر تو اندھا ہے اور لقائے خدا تیرا مقدر نہیں ہے۔(دیوانِ باھُو)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہمَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ کی شرح میں فرماتے ہیں: جان لے کہ نفسِ امارہ کی قوت وغذا گناہ و معصیت ہے ،بلکہ یوں کہیے کہ نفسِ امارہ کا تو پیشہ ہی گناہ و معصیت ہے۔ اگر آدمی رات دِن نماز و روزہ جیسی طاعت و بندگی میں مشغول رہے اور ہمیشہ قائم اللّیل و صائم الدہر رہے تو اِس کے باوجود بھی نفسِ امارہ گناہ سے باز نہیں آتا کہ اُس کی تو خصلت ہی گمراہی ہے۔ آدمی چاہے رات دِن مسائلِ فقہ کے مطالعہ میں مشغول رہے یا ریاضتِ تقویٰ و تلاوتِ قرآن اور نص و حدیث کے مطالعہ میں مصروف رہے نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا کہ اُس کا یار انہ نفس و شیاطین سے ہے۔آدمی چاہے خانہ کعبہ کا طواف و حج کرتا رہے یا میدانِ جنگ میں جہاد و قتال کرتا رہے یا ذکر فکر مراقبہ محاسبہ مکاشفہ کشف القلوب و کشف القبور کے مراتب حاصل کرکے غوث و قطب بن جائے نفسِ امارہ گناہوں سے باز نہیں آتا بلکہ ہر وقت گناہوں کی طرف مائل رہتا ہے کہ اُس کی نظر ہمیشہ مردارِ گناہ پر لگی رہتی ہے ۔لیکن جب تصورِ اسمِ اللہ ذات سے اُس کے دِل میں قرب و وصالِ الٰہی کی تجلّیات کا شعلہ بھڑکتا ہے تو وہ وحدانیتِ نُور حضور کے دریا میں غرق ہو کر عارف باللہ فنا فی اللہ کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتا ہے۔ اِس مقام پر نفسِ امارہ عاجز ہو کر گناہوں سے رک جاتا ہے اور اُسے قدرتِ الٰہی کی طرف سے بے کام و بے زبان الہامات کے ذریعے حکم ہوتا ہے کہ”اے نفسِ امارہ ! حیا کر اور باادب ہو جا۔ ”قدرتِ الٰہی کے اِن الہامات کو سن کر نفسِ امارہ تائب ہو جاتا ہے اور مسلمان ہو کر صحیح اقرار و قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘پڑھ لیتا ہے اور گناہوں سے توبہ کرکے نفسِ مطۂنہ بن جاتا ہے۔ پھر وہ طلبِ راستی میں دینِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قبول کرکے منتہی ولی اللہ بن جاتا ہے۔ معرفتِ الٰہی کے اس انتہائی مقام پر جب وہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ کا مصداق بن کر اپنے نفس کو پہچان لیتا ہے تو اُسے اپنے ربّ کی پہچان اس علامت سے ہو جاتی ہے کہ اُس کے نفس پر الہاماتِ ربانی کا نزول شروع ہو جاتا ہے کیونکہ مقامِ معرفت پر پہنچ کر نفس میں کوئی نفسانی و شیطانی باقی نہیں رہتی ۔ اس کے بعد اگر تمام حورو قصور ،نعمت ہائے بہشت و تمام زینتِ دنیا نفس کے گرد جمع ہو جائیں تو وہ اُسے اختیار نہیں کرتا۔(محک الفقر کلاں)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:مَنْ عَرَفَ نَفْسَہُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہُ(جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا بے شک اُس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا)
اُمتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ خطاب اِس لیے کیا گیا ہے کہ اِس سے آدمی کے احوال اُس کے سامنے آجاتے ہیں۔ پھر اُس کا نفس ہوا (نفسانی خواہشات) سے اور دِل گناہوں سے مطلق بیزار ہو جاتا ہے۔ بندے کو بندگی کے لیے پیدا کیا گیا ہے ، بندگی کے بغیر بندے کی ساری عمر محض شرمندگی ہے ۔(محک الفقر کلاں)
دل انسانی جسم میں ایک وسیع اور عظیم الشان نوری جوہر اور آئینہ حق نما ہے جو ﷲ تعالیٰ کے ذاتی نور سے منور ہوتا ہے اور تمام کائنات اس میں رائی کے دانے کے برابر نظر آتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کا نکتہ نظر یہ ہے کہ دل میں معرفتِ الٰہی سے ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے دونوں جہان کی کل کیفیات دل میں سما جاتی ہیں اور صاحبِ نظر دل کی آنکھوں سے اس کا صاف نظارہ کرتا ہے اور عاشقِ الٰہی تو ہمیشہ ہی اپنے دل کی جانب متوجہ رہتا ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
قلب ایک نہایت وسیع ولایت اور ملکِ عظیم ہے دونوں جہان اورتمام مخلوق اس میں سما سکتے ہیں لیکن قلب دونوں جہانوں میں نہیں سما سکتا۔(فضل اللقاء)
ہر کتابے نقطہ ازل دِل کتاب
دِل کتابے دفتر حق بے حساب
ترجمہ: ہر کتاب کتابِ دِل کا ایک نقطہ ہے کہ کتابِ دِل نے بے شمار دفاترِ حق کا احاطہ کر رکھا ہے۔(محک الفقر کلاں)
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ شرح دِل اور حقیقتِ دِل کے بارے میں فرماتے ہیں:
دِل کسے کہتے ہیں اور قلب کسے سمجھا جاتا ہے؟ جان لے کہ زمین کی وسعت آسمان کی وسعت کے مقابلے میں محض ایک قطرہ ہے، جملہ آسمان بلندی و فراخئ لوح کے مقابلے میں ایک قطرہ ہیں، لوح قلم کے مقابلے میں ایک قطرہ ہے۔عرشِ اکبر کے بے شمار کنگرے ہیں،ہر کنگرے پر کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘ لکھا ہو اہے، ہر کنگرے پر ایک قندیل لٹکی ہوئی ہے، ہر قندیل میں قدرتِ الٰہی سے زمین و آسمان کے چودہ طبق تہہ در تہہ رکھے ہوئے ہیں، ہر طبق میں اٹھارہ ہزار عالَم کی مخلوق آباد ہے، ہر مخلوق اپنی اپنی زبان سے کلمہ طیب ’’لَآ اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ‘‘کا ذکر کر رہی ہے۔ عرشِ اکبر اور تمام قندیلیں دِل کے مقابلے میں اسپند کے دانے کے برابر ایک قطرہ ہیں۔سن اے عزیز! ہو شمند ! جب کوئی آدمی اہلِ اسلام عارف باللہ کے دِل کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اٹھارہ ہزار عالم کی جملہ مخلوق بلکہ عرش و کرسی کی تمام مخلوق میں تہلکہ مچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے حاملانِ عرش و کرسی ! تم اِس طرح جنبش میں کیوں ہو؟وہ عرض کرتے ہیں کہ ایک مومن کا دِل کسی نے دکھایا ہے اور وہ جلالیت میں آکر جنبش کر رہا ہے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ کا قہر و غضب دکھ دینے والے پر نازل ہو نا شروع ہو جاتا ہے۔ میں اس سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔(محک الفقر کلاں)
جان لے کہ ذکر فکر ، مراقبہ محاسبہ مکاشفہ اور خلوتِ حجرہ سے اکتساب کرنا خام و ناقص لوگوں کا مرتبہ ہے کہ حجرہ و خلوتِ دِل بہتر ہے حجرہ و خلوتِ خاک سے کہ حجرہِ خاک دِل کے حجرے سے کمتر ہے۔ جس نے بھی رازِ حق کو پایا دِل ہی سے پایا اور جس نے دِل سے راز حق کو پا لیا اُس نے خود کو حجرہ و خلوتِ خاک سے آزاد کرالیا۔ (محک الفقر کلاں)
جو قلب ایک دفعہ بیدار ہو جاتا ہے وہ ہمیشہ روئیت الٰہی میں مستغرق ہونے کے لئے مشتاق، عاشق دیوانہ ، اور متوجہ رہتاہے۔(قربِ دیدار)
حقیقت تک پہنچنے کا راستہ انسانی قلب میں ہے اور انسانی جسم میںیہی وہ جگہ ہے جہاں ذاتِ الٰہی کے جلوے نظر آتے ہیں اور اگر قلبِ انسان پر سے زنگ اتر جائے اورحجابات کے دور ہونے کے بعد یہ صاف ہوجائے تو فطرتِ انسانی قلب کے واسطہ سے وجدانِ حقیقی تک جا پہنچتی ہے گویا قلب انسان کی روحانی کیفیات کا مرکز ہے۔ اگر یہ درست ہے تو جو اعمال بھی سرزد ہوں گے وہ درست ہوں گے اور اگر یہ مرکز سیاہ ہوجائے او راپنی جگہ سے ہل جائے تو روحانی اقدار تباہ ہوجاتی ہیں ۔انسانی جسم کے اندر دل ہی ہے جس میں ذاتِ حق جلوہ گر ہے۔ اور وہ ذات انسان میں پوشیدہ ہے جیسا کہ حدیثِ قدسی میں اِرشاد باری تعالیٰ ہے:اَلْاَنْسَانُ سِرِّیْ وَ اَنَا سِرُّہُ (انسان میرا بھید ہے اور میں انسان کا بھید ہوں)۔
اِس حقیقت سے واقفانِ حقیقت یا طالبِ صادق ہی واقف ہوتے ہیں۔
”عقل بیدار” میں حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ دل کی حقیقت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
میں نے اپنے دل میں قبلہ دیکھا اور حق کا دیدار کیا اور پھر خدا کے سامنے سربسجود ہو گیا۔
دل وجود کے اندر ﷲ کا ایک خزانہ ہے۔ اہل دل محمود ہیں اور اس کی نمود بھی محمود سے ہی ہے۔
خطرات کے باعث دل شیطان کا گھر بن جاتا ہے اور اہلِ معرفت کا دل پرنور ہوتا ہے
دل ایک لطیفہ ہے اور اپنی لطافت کے باعث خدا سے ملتا ہے اور دل وحدت اور حق کی بقاء کا ایک راز ہے۔
دنیا کے طالب اہلِ دل نہیں ہوتے وہ سراسر بے حیا’ روسیاہ اور شرمندہ ہوتے ہیں۔
باھوؒ اس شخص کا دل دم اور روح ایک ہو جاتے ہیں جو ایک ﷲ کا سجدہ اور نماز صبح شام ادا کرتا ہے۔
آدمی کا دِل گہرے سمندر کی مثل ہے اوراس کاجسم حباب کی مثل ۔(نور الہدیٰ)
جان لے کہ دِل جب سِرِّ اسرار کے خزانے سے ، انوارِ الٰہی کے مشاہدے سے ، ذکر اللہ سے اور معرفتِ الٰہی سے زندہ ہو جاتا ہے اور جب دِل کے حواسِ خمسہ کھل جاتے ہیں تو ظاہری نفسانی وجود کے حواسِ خمسہ بند ہوجاتے ہیں۔(مجالستہ النبیؐ)
آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے ابیات میں فرماتے ہیں:
چرادر زندگی اے دِل نہ کوشی
چرا زیں شربت شریں نہ نوشی
چو دِل زندہ شود ہر گز نہ میرد
دلے بیدار شد خوابش نہ گیرد
ترجمہ:اے دِل تو زندہ ہونے کی کوشش کیوں نہیں کرتا تو یہ میٹھا شربت (زندگی دِل) کیوں نہیں پیتا۔ دِل جب زندہ ہوجائے تو پھر یہ مرتا نہیں اور جب بیدار ہو جائے تو سوتا نہیں۔(مجالستہ النبیؐ)
چشمِ بند عینک بہ پیش چشمِ دِل
خوش بین دیدار را در جسمِ گل
ترجمہ: دِل کی آنکھ کے سامنے ظاہری آنکھ کو بند کرلے اور مٹی کے جسم میں دیدار کو اچھی طرح دیکھ۔(تیغِ برہنہ)
قلب کے تین حروف ہیں ”ق۔ل۔ب۔” حرف ”ق” سے مراد قُربِ الٰہی اور حرف”ل” سے مراد لقائے الٰہی ، حرف ”ب” سے مراد بقا باللہ۔ جو شخص اِن صفات سے متصف ہے وہ صاحبِ قلب ہے ورنہ وہ اہلِ کلب (کتا ) ہے۔(قربِ دیدار)
دِل کعبہ اعظم است بہ کن خالی از بتاں
بیت المقدس است مکن جائے بت گراں
ترجمہ: تیرا دِل کعبہ اعظم ہے اسے بتوں (غیر اللہ) سے پاک کر۔ تیرا دِل بیت المقدس ہے اسے بُت گروں کی دکان مت بنا۔(عین الفقر باب ہفتم)
آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
ایہہ تن رَب سچے دا حُجرا، وِچ پا فقیرا جھاتی ھُو
ناں کر مِنت خواج خضر دی، تیرے اندر آب حیاتی ھُو
شوق دا دِیوا بال ہَنیرے، مَتاں لبھی وَست کھڑاتی ھُو
مرن تھیں اگے مر رہے باھوؒ، جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھُو
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تیرا دل ﷲ پاک کی قیام گاہ ہے تو اپنے دِل کے اندر جھانک کر تو دیکھ اور اس خضر علیہ السلام کا محتاج نہ بن جس نے آبِ حیات پی کر حیاتِ جاودانی حاصل کر لی ہے بلکہ تیرے اندر تو عشقِ الٰہی کا آبِ حیات موجود ہے۔ اپنے دل کے اندر عشق کا چراغ روشن کر شاید تجھے کھوئی ہوئی امانتِ حقیقی مل جائے جو تیرے دِل کے اندر ازل سے پوشیدہ ہے۔ جنہوں نے اس راز کو پا لیا وہ موت سے پہلے مر گئے یعنی انہوں نے حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔
ایہہ تن رَب سچے دا حُجرا، دِل کھڑیا باغ بہاراں ھُو
وِچّے کُوزے وِچے مُصَلّے، وِچ سجدے دِیاں تھاراں ھُو
وِچے کعبہ وِچے قبلہ، وِچے اِلَّا اللّٰہُ پکاراں ھُو
کامل مرشد ملیا باھوؒ، اُوہ آپے لَیسی ساراں ھُو
جب سے ”باطن” کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوئی ہے کہ میرا دل تو ﷲ پاک کا گھر ہے میری خوشی اورمسرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ میرے اندر ہی کوزے ہیں کہ ان سے دل کی طہارت اور پاکیزگی کا وضو کر کے اور تزکیہ نفس کے مصلے پر کھڑے ہو کر جب محبوبِ حقیقی (اس بیت میں کعبہ قبلہ بطور استعارہ استعمال کیا گیا ہے) کے سامنے سجدہ ریز ہوا تو مجھ پر اِلَّا اللّٰہُ(اثبات) کی حقیت آشکارہوئی کہ کائنات میں سوائے ﷲ تعالیٰ کے کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سب کچھ مجھے اپنے مرشد کامل سے نصیب ہوا ہے اور میرا مرشد آئندہ بھی میرا نگہبان اور محافظ ہے۔
تمام فقرا اور اولیاء کرام نے انسانوں کو اپنی ذات کی پہچان کادرس دیا ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتا ہے تو اسی راستہ سے اللہ تعالیٰ کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔ لیکن ایک بات سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو دوسرے اولیاء کرام سے ممتاز کرتی ہے کہ دوسرے اولیاء کرام انسان کو روح، قلب ، من، دِل ، باطن ، خودی اور ضمیر کی پہچان اور نورِ بصیرت حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن اس کی ”کلید” کا ذکر نہیں کرتے جس سے باطن کے اندر کا سفر کیا جاسکے۔لیکن حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تمام تصانیف میں اس کلید اور اس کے فوائد ، اسرار و رموز کا ذکر کیا ہے اور انسان کی روح ، قلب ،من، باطن ، خودی اور ضمیر کا قفل کھولنے والی اور نورِ بصیرت حاصل کرنے والی وہ کلید ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشدِ کامل اکمل صاحبِ مسمّٰی اسمِ ذات سے حاصل ہوئی۔
Do you have any video of that? I’d care to find out some additional information. Also visit my blog: mobile legends
Great post. I used to be checking constantly this blog and I am inspired! Very useful info specially the closing section : ) I handle such information a lot. I used to be seeking this certain information for a very lengthy time. Thanks and best of luck. Also visit my web page – ge refrigerator water filter
Very informative blog article.Really thank you! Awesome.
https://elrelojantiguoxvi.blogspot.com