انسان کا ازلی دشمن Insan Ka Azli Dushman
تحریر: محترمہ نورین سروری قادری
شیطان عربی زبان کا لفظ ہے۔ اہلِ عرب ہر اُس چیز کو شیطان بولتے ہیں جو انتہائی سرکش اور باغی ہو خواہ وہ انسان ہو یا جن ہو یا کوئی جانور وغیرہ۔انسانوں کی نسبت جنات چونکہ زیادہ سرکش اور باغی ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور قرآنِ پاک میں ایک ایسے جن کا ذکر ملتا ہے جو پہلے فرشتوں کے ساتھ مل کر اللہ پاک کی عبادت کرتا تھا مگر جب اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے اسے سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے صاف انکار کر دیا بلکہ اللہ پاک سے مطالبہ کیا ’’مجھے قیامت تک مہلت دے دی جائے تاکہ میں انسانوں کو گمراہ کر کے یہ ثابت کر دکھاؤں کہ ان کی اکثریت تیری نافرمان ہو گی۔ ‘‘اللہ پاک نے ازراہِ مصلحت اس کا یہ چیلنج قبول کیا اور اسے قیامت تک کے لیے زندگی دے دی۔ اس ’’جن‘‘ کے لیے قرآنِ مجید میں ’’ابلیس اور شیطان‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔چونکہ اس نے قیامت تک زندہ رہنا ہے اور اتنی لمبی زندگی اللہ کی نافرمانی و سرکشی میں گزارنی ہے اس لیے اس سے بڑا سرکش اللہ کی مخلوق میں اور کوئی نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اسے عام طور شیطان کہا جاتا ہے۔
قرآنِ پاک میں بھی سرکش اور باغی انسانوں اور جنوں کے لیے لفظ شیطان استعمال ہوا ہے۔جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ اسی طرح ہم نے شیطان صفت انسانوں اور جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا جو دھوکہ دینے کی غرض سے کچھ خوش آئند باتیں ایک دوسرے کے کانوں میں پھونکتے رہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الانعام۔112)
سورۃ البقرہ آیت نمبر 14 میں ارشاد ہے کہ:
ترجمہ: ’’ جب وہ ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم بھی ایمان والے ہیں اور جب وہ اپنے بڑوں (سرکش سرداروں) کے پاس جاتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ ہم تو تمہارے ساتھ ہیں اور ان سے تو ہم صرف مذاق کرتے ہیں۔‘‘
اللہ کی مخلوق میں سب سے سرکش، نافرمان اور خدا کا باغی چونکہ ’’شیطانِ اکبر‘‘ یعنی ابلیس ہے اس لیے یہ لفظ سب سے زیادہ ابلیس ہی کے لیے استعمال ہوا اور عرفِ عام میں بھی اس سے وہی مراد لیا جاتا ہے۔
انسانی شیاطین اور جناتی شیاطین
انسانی شیاطین سے مراد وہ لوگ ہیں جو ہماری طرح کے انسان ہیں مگر سرکشی و بغاوت اور راہِ حق سے دوری کی وجہ سے ان کے تمام اعمال شیطانِ اکبر کی رضامندی کے مطابق اور منشائے خداوندی کے خلاف وقوع پذیر ہوتے ہیں۔اگر ظلم و ستم کا مظاہرہ شیطان صفت انسانوں کی بجائے جنات کریں تو وہ جناتی شیاطین ہیں۔ جنات میں بھی انسانوں کی طرح بعض نیک و صالح اور مومن جن ہوتے ہیں اور بعض سرکش، باغی، نافرمان اور کافر، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اور یہ کہ بیشک ہم میں سے بعض (جنات) تو فرمانبردار (مومن) ہیں اور بعض ظالم ہیں۔ پس جو فرمانبردار ہو گئے انہوں نے تو راہِ راست کا قصد کیا اور جو ظالم ہیں وہ جہنم کا ایندھن بن گئے۔ (سورۃ الجن۔ 14-15)
اس لیے تمام جنات کو شیاطین نہیں کہا جا سکتا بلکہ جنات میں جو انتہائی سرکش، شریر اور اللہ پاک کا باغی ہو، اسے ہی شیطان کہا جائے گا۔ لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیطانِ اکبر (یعنی ابلیس) جس کا تذکرہ قصہ آدم و ابلیس میں ایک فرد کی حیثیت سے قرآنِ مجید میں کئی ایک مقامات پر بیان ہوا ہے ، اس میں اور دیگر جنات میں کیا فرق ہے؟
ابلیس جنات ہی کی جنس سے تعلق رکھتا ہے مگر اس نے اللہ کی نافرمانی و سرکشی کی راہ اختیار کی اور اللہ تعالیٰ نے بھی اسے قیامت تک کے لیے زندگی عطا کر دی۔ اب اس کا کام انسانوں کو گمراہ کرنا ہے جب کہ وہ بذاتِ خود مسلمان نہیں ہو سکتا اس لیے اس کا نام ہی شیطان رکھ دیا گیااور مسلمان نہ ہونے کی بنا پر وہ اللہ پاک کی رحمت اور اس کی جنت سے ناامید ہو گیا ہے، اس ناامیدی کی وجہ سے اسے ابلیس (یعنی نااُمید) بھی کہا جاتا ہے۔
جنات کے آگ سے پیدا کیے جانے کی دلیل یہ آیات ہیں:
ترجمہ: ’’اور اس (اللہ) نے جنات کو آگ کے شعلہ سے پیدا کیا ہے۔‘‘ (سورۃ الرحمٰن۔ 15)
ترجمہ: ’’اور جنوں کو ہم نے اس سے پہلے خالص آگ سے پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ الحجر۔27)
سورۃ الکہف میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ اور جس وقت ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے سامنے سجدہ ریز ہو جاؤ پس سب سجدے میں گر پڑے ماسوائے ابلیس کے۔ وہ جنات میں سے تھا سو اس نے اپنے ربّ کے حکم کی نافرمانی کی۔‘‘ (سورۃ الکہف۔50)
شیطان کا مقصدِ پیدائش
شیطان کو اللہ پاک نے اس لیے پیدا کیا تاکہ اس کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لے سکے کہ کون شیطانی راہ اختیار کرتا ہے اور کون اللہ کی فرمانبرداری پر قائم رہتا ہے۔ اللہ پاک نے نہ تو انسان کو زبردستی ہدایت کی راہ پر گامزن کیا ہے اور نہ ہی شیطان کو یہ اختیار دیا کہ وہ جبراً انسان کو گمراہی کی طرف کھینچ کر لے جائے۔
شیطان کی قوت و طاقت کی حقیقت
اللہ پاک نے جس مقصد کے لیے شیطان کو پیدا کیا ہے اسے اس کا مقصد پورا کرنے کے لیے مطلوبہ حد تک پورے ہتھیار بھی عطا کر دیے ہیں تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکے کہ میرے پاس تو اسلحہ ہی نہیں تو میں کیسے انسانوں کا مقابلہ کروں گا۔شیطان کی قوت و طاقت درج ذیل چیزوں پر مشتمل ہے:
یہ انسانوں کو نظر نہیں آتا۔
انسانوں کے دلوں میں برے خیالات القا کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔
انسانوں کے جسم میں داخل ہو سکتا ہے۔
برائی کو انسانوں کے لیے مزین کر سکتا ہے۔
ہر جگہ آنے جانے کی بے پناہ قوت اور سرعتِ رفتار بھی اسے حاصل ہے۔
شیطانِ اکبر (ابلیس) کہاں رہتا ہے؟
یہ ہر انسان کے ساتھ نہیں رہتا بلکہ اس کا اڈہ پانیوں پر ہے جہاں سے یہ اپنے چیلوں اور لشکروں کو لوگوں کو گمراہ کرنے کے لیے روانہ کرتا ہے۔اور کبھی کبھار اگر کوئی بڑا مشن ہو تو خود بھی میدان میں آجاتا ہے۔ تاہم زیادہ تر اس کا کام نگرانی ہے۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سنا ابلیس کا تخت سمندر پر ہوتا ہے، وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو فتنہ میں ڈالیں پس ان لشکروں میں سے اس کے نزدیک بڑے مقام والا وہی ہے جو ان میں سب سے زیادہ فتنہ ڈالنے والا ہو۔(صحیح مسلم۔7105)
حضرت جابرؓ سے روایت کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا بیشک ابلیس اپنا تخت پانی پر رکھتا ہے پھر وہ اپنے لشکروں کو بھیجتا ہے پس اس کے نزدیک مرتبے کے اعتبار سے وہی مقرب ہوتا ہے جو فتنہ ڈالنے میں ان سے بڑا ہو۔ ان میں سے ایک آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اس اس طرح کیا تو شیطان کہتا ہے تو نے کوئی بڑا کام سرانجام نہیں دیا، پھر ان میں ایک اور آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے فلاں آدمی کو اس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی نہ ڈلوا دی۔ شیطان اسے اپنے قریب کر کے کہتا ہے ہاں ! تو ہے جس نے بڑا کام کیا ہے۔ اعمش نے کہا میرا خیال ہے کہ انہوں نے کہا وہ اسے اپنے ساتھ چمٹا لیتا ہے۔ (صحیح مسلم۔7106)
حضرت ابوسعیدؓ سے روایت ہے کہ مدینہ کے ایک راستے میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کی اس (ابن صیاد) سے ملاقات ہوئی، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تو یہ گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: کیا آپ گواہی دیتے ہیں کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: میں اللہ پر ، اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر ایمان لایا ہوں تجھے کیا نظرآتا ہے ؟ اس نے کہا: مجھے پانی پر ایک تخت نظر آتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: تم سمندر پر ابلیس کا تخت دیکھ رہے ہو، تجھے اور کیا نظر آتا ہے؟ اس نے کہا: میں دو سچوں اور ایک جھوٹے کو یا دو جھوٹوں اور ایک سچے کو دیکھتا ہوں۔تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا (اس کا معاملہ خود) اس کے سامنے گڈمڈ کر دیا گیا ہے، اسے چھوڑ دو۔ (صحیح مسلم۔7346)
شیطان کا مقصد ہر انسان کو گمراہ کرنا ہے مگر شیطانِ اکبر ہر انسان کے ساتھ نہیں رہتا۔ اس کی اولاد اور دیگر سرکش جنات اس کے مددگار ہیں۔ ہر انسان کے ساتھ بھی ایک شیطان ہوتا ہے اور یہ شیطان ابلیس نہیں بلکہ کوئی سرکش جن ہوتا ہے جو شیطانِ اکبر ہی کے فرائض انجام دینے کے لیے ہمہ وقت انسان کے تعاقب میں رہتا ہے اور جہاں موقع ملتا ہے فوراً اپنا وار کرتا ہے۔یہ وار جسمانی اذیت کی صورت میں نہیں ہوتا بلکہ ارتکابِ گناہ اور خدا کی نافرمانی کی شکل میں ہوتا ہے۔
حضرت ابنِ مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’تم میں سے ہر شخص کے ساتھ اس کا ایک جن اور ایک فرشتہ ساتھی مامور کر دیا گیا ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’میرے ساتھ بھی لیکن اللہ نے اس کے خلاف میری اعانت کی تو وہ مطیع ہو گیا، وہ مجھے صرف خیر و بھلائی کی بات ہی کہتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح۔67)
شیطان کی انسان سے دشمنی کا آغاز
شیطان کی انسان سے دشمنی کی ابتدا ملائے اعلیٰ سے ہوئی اور اس کا ظہور دو معاملوں میں ہوا۔
پہلا معاملہ : بوجہ حسد
’’تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین‘‘ میں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کا حسد کے بارے میں فرمان مبارک درج ہے کہ:
حسد وجود میں آنے والی پہلی بیماری ہے جس کا اظہار سب سے پہلے آسمان پر شیطان لعین نے کیا۔اس نے حضرت آدمؑ سے حسد کیا کہ اُن کو ’’خلافتِ الٰہیہ ‘‘ کیوں ملی، اسی وجہ سے سرکش ہوا اور نافرمان ہوکر سجدہ نہ کیا۔پس راندۂ درگاہ ہوا اور فرشتوں کے استاد عزازیل کے درجے سے گر کر ابلیس اور شیطان بن گیا اور پہلا حاسد کہلایا۔ جبکہ فرشتوں نے انہیں سجدہ کیا ماسوا شیطان کے، کہ باوجود قدرت کے سجدہ سے منکر رہا اور کہا کہ ’’میں اس سے بہتر ہوں، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے پیدا کیا۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔ 12)
اور کہا کہ
ترجمہ: ’’ کیا دیکھا تو نے اس (آدم) کو جو مجھ پر بزرگی دی؟‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل۔62)
یعنی نہایت جرأت و تکبر سے اللہ پاک سے کہنے لگا کہ جب بہتر میں ہوں تو توُ نے اسے مجھ پر عزت کیوں بخشی؟ اس میں آدمؑ پر حسد کا اظہار بھی ہے، اللہ پاک کے فرمان کے مقابلے میں اپنے عقلی ڈھکوسلے قیاس سے تعمیلِ حکم کا انکار بھی اور تکبر و سرکشی کا اظہار بھی اور ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ کو گوارا نہیں۔
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا تو (اپنے رتبے یا بہشت سے) اتر جا یہ تو تیرے لائق ہی نہیں کہ تو آسمان میں رہ کر تکبر کرے سو نکل جا تو ذلیلوں میں سے ہے۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔13)
جب ملعون ابلیس نے یہ دیکھا کہ حضرت آدمؑ ہی اس کی بدبختی کا باعث بنے ہیں تو وہ ان سے انتقام کے لیے غور و فکر کرنے لگا اور ان کے خلاف موقع کی تلاش کرنے لگا کہ انہیں میرے مقابل یہ مقام و مرتبہ کیونکر حاصل ہو گیا ہے!
دوسرا معاملہ: وسوسہ ڈالنا
جب اللہ پاک نے حضرت آدمؑ و حوا کو جنت میں ٹھہرا دیا تو ان کے لئے جنت کے تمام پھل حلال قرار دئیے ، ماسوائے ایک درخت کے کہ آزمائش و امتحان کی خاطر اس کے قریب جانے سے منع کر دیا۔ جب ابلیس کو اس معاملے کی خبر ہوئی تو اس نے موقع کو غنیمت جانا اور وسوسے ڈالنے لگا اور انہیں معصیتِ الٰہی کی خاطر درخت سے کھانے کے لیے گمراہ کرنے لگا تاکہ انہیں ورغلا اور بہکا کر اللہ پاک کی حکم عدولی کروائی جائے اور ارتکابِ ظلم ہو۔شیطان لعین نے اتنی محنت شاید دنیا میں نہیں کی جتنی اس نے وہاں کی کیونکہ اپنی ناکامیوں سے وہ جان چکا تھا کہ جب تک یہ دونوں روحانی مدار سے نکل کر بشری مدار میں نہیں آئیں گے اس کا کام بننے والا نہیں۔ ہر ناکامی کے بعد اسکے انتقامی جذبے کی شدت میں خاطر خواہ اضافہ ہو جاتا۔یہاں اس بات کا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ جذبے ہمیشہ ایک ہی سطح پر نہیں رہتے بلکہ خارجی عوامل کے اشتعال سے ان کی سطح گھٹتی یا بڑھتی رہتی ہے۔ لہٰذا شیطان نے جھنجلا کر فیصلہ کیا اب میں کمینگی کی انتہا تک جاؤں اور ایسا وار کرو ں جو ان کے لیے ناقابلِ مزاحمت ہو۔ شیطانی تحریک و ترغیب کا ایسا غلبہ ہوا کہ ممنوعہ پھل کھانے کا ظلم سرزد ہو گیا۔
ترجمہ: ’’اور وہ (ابلیس) کہنے لگا کہ تم دونوں کے ربّ نے تم دونوں کو نہیں منع کیا مگر بسبب اس کے کہ تم کہیں فرشتے نہ بن جاؤ اور ہمیشہ رہنے والے نہ بن جاؤ۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔20)
یعنی شیطان نے دونوں کو یوں بہکایا کہ اللہ تعالیٰ کے تمہیں اس درخت سے منع کرنے کی وجہ یہ ہے کہ اس پھل کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے یعنی ان کی خصوصیات اور فطری کمالات تم میں بھی پیدا ہو جائیں گے۔
انسان کی جبلی خصوصیت ہے کہ اسے جس شے سے منع کیا جائے تو وہ مثبت انداز میں یہ نہیں سوچتا کہ اس پابندی میں میری خیر ہے لہٰذا اس سے اجتناب کیا جائے بلکہ متجسس ہو کر زیادہ شدت سے اس کی آرزو کرنے لگتا ہے۔
شیطان نے حضرت آدمؑ کے سامنے اتنا بڑا فائدہ رکھا کہ ان کی سوچوں کا دھارا اب اس رخ مڑ گیا لیکن خدا خوفی غالب رہی اور آپؑ اس طرف مائل نہ ہوئے۔لیکن شیطان انسان کو بھٹکانے کے لیے ایک لمحہ بھی غافل نہیں رہتا۔لہٰذا شیطان نے اپنے جھوٹ پر سچ کی ملمع سازی کرنے کے لیے اپنا آخری حربہ یعنی جھوٹی قسم کھائی۔
ترجمہ: ’’اور ان دونوں سے قسم کھا کر کہا کہ بے شک واقعی میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔20)
یوں شیطان‘اللہ پاک کی قسم کھا کر انتہائی جھوٹ کا مرتکب ہوا اور خود کو ان کا خیر خواہ ظاہر کر کے منافقت کا مرتکب بھی ہوا۔
اپنے مشن کی ابتدا میں شیطان لعین نے ہمارے جدِ اعلیٰ کو جنت سے نکلوایا لیکن اس کی عداوت صرف انہی کی ذات تک محدود نہ تھی بلکہ پوری انسانیت پر محیط ہے۔پہلے حضرت آدمؑ اور حضرت حواؑ کو جنت سے نکلوانا مقصود تھا اور اب ان کی جمیع اولاد کو جنت کی راہ سے بھٹکا کر جہنم کی راہ پر ڈال دینا اس کے مشن کا حصہ ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اے آدم کی اولاد! کہیں شیطان تمہیں فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے ماں باپ کو جنت سے نکال دیا۔‘‘ (سورۃ الاعراف۔27)
آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے پوری نوعِ انسانی کو متنبہ فرمادیا کہ جو طریقہ واردات شیطان مردود نے تمہارے جدِ امجد کو جنت سے نکلوانے میں اختیار کیا وہی مفسدانہ مکر و فریب تمہیں ورغلانے اور جنت کی راہ سے بھٹکانے میں اپنائے گا۔ حاسد و مغرور دشمن غلبہ پانے کے لیے کمینگی کی ہر حد پار کر جائے گا۔اسی مکروفریب کو اللہ پاک نے فتنہ اور آزمائش قرار دیا کہ اے آدم کی اولاد! شیطان تمہیں اسی طرح فتنے میں نہ ڈال دے جس طرح اس نے تمہارے جدِ اعلیٰ کو جنت سے نکلوایا۔
شیطان وسوسہ کیسے ڈالتا ہے؟
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’(اے نبیؐ!) کہہ دیجئے کہ میں لوگوں کے پروردگار کی پناہ میں آتا ہوں وسوسہ ڈالنے والے ،پیچھے ہٹ جانے والے کے شر سے جو لوگوں کے سینوں میں وسوسہ ڈالتا ہے خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔‘‘ (سورۃ الناس)
وسوسہ مخفی آواز کو کہتے ہیں چونکہ شیطان نہایت مخفی اور غیر محسوس انداز میں وسوسہ ڈالتا ہے اس لیے شیطان کو وَسواسْ کہا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں:
شیطان انسان کے دل پر چنگل مارے ہوئے ہے جہاں یہ بھولتا یا غافل ہوتا ہے وہاں فوراً شیطان وسوسہ ڈالتا ہے اور جب یہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے تو شیطان پیچھے ہٹ جاتا ہے۔
شیطان کا طریقہ اور معمول یہ ہے کہ اللہ کی یاد کے وقت پیچھے ہٹ جاتا ہے اس لیے اس کو خناس فرمایا۔ جب خناس کسی شخص کو اس کی طبیعت کے خلاف کسی کام پر اکساتا ہے تو اس کا پہلا ردِ عمل شدید ہوتا ہے اور وہ بڑی حقارت سے اس خیال کو جھٹک دیتا ہے۔ وسوسہ ڈالنے والا اصرار نہیں کرتا بلکہ پیچھے کھسک جاتا ہے۔ بظاہر پسپائی اختیار کرتا ہے، پھر موقع ملتے ہی وہی بات کانوں میں ڈالتا ہے۔ اگر پھر بھی وہ شخص تیوری چڑھائے تو خناس دبک جاتا ہے۔ یہ تسلسل جاری رہتا ہے۔ آہستہ آہستہ اس شخص کا ردِعمل کمزور ہونے لگتا ہے یہاں تک کہ وہ دن آجاتا ہے کہ یہ شخص جس بات پر پہلی بار آگ بگولہ ہو گیا تھا اب خود لپک کر اس کی طرف بڑھتا ہے۔ شیطان کا یہی طریقہ ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرتے تھکتا نہیں بلکہ لگاتار اپنی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی حملہ کرتا ہے، کبھی پسپائی اختیار کرتا ہے یہاں تک کہ بڑے سے بڑے زیرک انسان کو بھی اگر اپنے ربّ کی پناہ حاصل نہ ہو تو اُسے چاروں شانے چت کر دیتا ہے۔ اس کی ان دونوں چالوں کو وسواس اور خناس کے الفاظ استعمال کرکے بیان کیا گیا ہے۔
شیطان کا وسوسہ تمام گناہوں اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں کی جڑ ہے اوریہ وسوسہ ایک ایسا شر ہے جو خود انسان کے اندر موجود ہے اور اس کا تعلق انسان کے اپنے اختیار سے ہے۔ اس لیے اس سے بچنے کا بھی وہ خود ذمہ دار ہے کیونکہ شیطان کا وسوسہ اس وقت تک کچھ بھی شر نہیں پیدا کرتا جب تک انسان خود اسے قبول نہ کرے اور اس پر عمل پیرا نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نے شیطان کے اس عمل کو یوں بیان کیاہے کہ وہ انسان سے کہے گا:
ترجمہ: اور میرا تم پر کسی طرح کا زور نہیں تھا، ہاں میں نے تمہیں (گمراہی اور باطل کی طرف) بلایا تو تم نے (جلدی سے اور بے دلیل) میرا کہا مان لیا، پس (آج) مجھے ملامت نہ کرو بلکہ اپنے آپ ہی کو ملامت کرو۔ (سورۃابراہیم۔22)
شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کی قسم کھا رکھی ہے جس کا ذکر قرآنِ کریم میں کچھ اس طرح ہے:
ترجمہ: اس (ابلیس) نے کہا پس اس وجہ سے کہ تو نے مجھے گمراہ کیا (مجھے قسم ہے کہ) میں (بھی) ان (بنی آدم کو گمراہ کرنے) کے لیے تیرے صراطِ مستقیم پر ضرور بیٹھوں گا (تاکہ انہیں راہِ حق سے ہٹا دوں) پھر میں یقینا ان کے آگے سے اور ان کے پیچھے سے اور ان کے دائیں سے اور ان کے بائیں سے ان کے پاس آؤں گا اور (نتیجتاً) تو ان میں سے اکثر لوگوں کو شکرگزار نہ پائے گا۔ (سورۃ الاعراف 17-16)
دشمنی کی انتہا
انسان کے لئے شیطان کی دشمنی کی کوئی انتہا نہیں ہے نہ ہی دنیا میں اور نہ ہی آخرت میں، تاہم اس کی عداوت کی قسمیں ہیں:
پہلی قسم:ہر انسان کے لئے خاص دشمنی!
یہ اس کی روزِ پیدائش ہی سے شروع ہو جاتی ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
ترجمہ: ’’جو بچہ بھی پیدا ہوتا ہے تو شیطان اس کو مس کرتا (چھوتا) ہے تو شیطان کے چھونے سے وہ چیختا ہے سوائے مریم اور ان کے بیٹے عیسیٰؑ کے۔پھر ابوہریرہؓ نے بیان کیا کہ (اس کی وجہ مریمؑ کی والدہ کی یہ دعا ہے کہ اے اللہ!) میں اسے (مریم کو) اور اس کی اولاد کو شیطان رجیم سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔(صحیح بخاری۔3431)
شیطان انسان کے ساتھ اس وقت تک رہتا ہے جب تک اس کی روح اس کے جسم میں باقی رہتی ہے۔
دوسری قسم آخر زمانے میں آنے والوں کے لیے عمومی عداوت:
عنقریب وہ آخر زمانے میں سب کو گمراہ کر دے گا اور روئے زمین پر کوئی مسلمان باقی نہ رہے گا۔
رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’پس برے لوگ باقی رہ جائیں گے جو پرندوں کی مانند ہلکے اور درندوں کی مانند سخت ہوں گے، وہ کسی نیکی کو نہ پہچانیں گے اور نہ کسی برائی کا انکار کریں گے۔ ان کے پاس شیطان انسانی شکل میں آئے گا اور کہے گا:کیا تم حیا نہیں کرتے؟ وہ کہیں گے: تم ہمیں کیا حکم دیتے ہو؟ وہ ان کو بتوں کی عبادت کا حکم دے گا۔وہ اس حالت میں ہوں گے کہ ان کا رزق بہت ہو گا اور ان کی معیشت اچھی ہو گی، پھر صور پھونکا جائے گا۔(مسلم۔7381) (بحوالہ کتاب:شیطان کی انسان دشمنی)
شیطان کو قیامت تک مہلت دینے میں حکمت
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ابلیس نے کہا: میرے ربّ مجھے اس دن تک مہلت دے جب لوگ دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ پروردگار نے فرمایا: تجھے اس دن تک مہلت ہے جس کا وقت متعین ہے۔‘‘ (سورۃ ص۔81۔79)
شیطان کو رہتی دنیا تک مہلت دینے میں درج ذیل حکمتیں پنہاں ہیں:
تمام امتوں کی آزمائش و ابتلا مقصود ہے تاکہ اچھے اور برے کی تمیز ہو سکے۔اگر اسے ختم کر دیا جاتا تو یہ مقصد حاصل نہ ہو سکتا تھا۔
تاکہ اس کا گناہ پر گناہ بڑھتا ہی جائے اور اس کی سزا سخت ہو جائے اور وہ سزا اس کے لئے لازمی ہو جائے جس کا وہ مستحق ہے۔
تاکہ وہ تمام مجرموں کی سرپرستی کرتے ہوئے ان پر تسلط اختیار کرے۔فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اس کا غلبہ ان پر تو یقینی ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (اللہ کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں۔‘‘ (سورۃ النحل۔100)
اللہ پاک نے جب شیطان کو اپنی رحمت سے دور فرما دیا تواس نے اللہ کی قسم اٹھائی تھی کہ وہ تمام لوگوں کو گمراہ کرے گا ماسوا ان کے جنہیں اللہ پاک نے اپنے فرمان سے مستثنیٰ کر دیا ہے۔
ترجمہ: ’’کہنے لگا مجھے تیری عزت کی قسم میں ان سب کو بہکاتا رہوں گا، سوا ئے ان کے جو تیرے خالص بندے ہیں۔‘‘ (سورۃ ص۔ 83-82)
تو شیطان نے ان کو گمراہ کرنے کے لئے ہر شخص کے حسبِ حال طریقہ اپنا رکھا ہے۔ انسان کو گمراہ کرنے کے مختلف طریقے ہیں جیسا کہ وسوسہ، بھولنا، وعدے، آرزوئیں، ڈراوے، تزئینِ گناہ ، اللہ کے دین سے روکنا، نافرمانی کا حکم، شراب و جوا، مومنوں کے مابین پھوٹ ڈالنا، لغزش، شبہات پیدا کرنا، عورت اور دنیا سے محبت، انسانی شیطانوں سے مدد لینا، شریعت کی پابندی میں سستی، شیطان کا انسان کے نفس تک پہنچنے کا راستہ، جادوگروں اور کاہنوں کو تعلیم دینا، آواز سے بہکانا اور مال و اولاد میں شرکت وغیرہ ۔
علامہ ابن قیم الجوزیؒ اپنی کتاب ’’اغاثۃ اللھفان‘‘ میں لکھتے ہیں:
شیطان انسان کے جسم میں خون کی طرح گردش کرتا ہے یہاں تک کہ اسکی ملاقات نفس سے ہوتی ہے۔ شیطان نفس سے معلوم کرتا ہے کہ اسے کون سی چیز پسند ہے؟ جب اس کو نفس کی کمزوری معلوم ہو جاتی ہے تو وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لئے اس کمزوری سے مدد لیتا ہے اور انسان پر اس دروازے سے قابض ہو جاتا ہے۔ شیطان اپنے انسان دوستوں اور ساتھیوں کو بھی یہ سبق دیتا ہے کہ اگر انہیں اپنے ساتھیوں سے کوئی فاسد مقصد و مفاد حاصل کرنا ہو تو ان پر اسی دروازے سے قابض ہو جائیں جو ان کے نزدیک محبوب ہو کیونکہ اس دروازہ سے جانے والا اپنے مقصد میں ناکام نہیں ہو سکتا۔ جو شخص دوسرے دروازے سے جائے گا اس کے لئے وہ دروازہ بند ہو گا اور وہ منزل کو نہیں پہنچ سکتا۔ لہٰذا ہر شر کی ابتدا شیطان سے ہے اور سب سے بڑا گناہ شرک و کفر ہے جس کا نتیجہ اللہ اور اس کے رسولؐ سے دشمنی ہوتی ہے اور اس کا انجام آخرت میں جہنم ہے۔
شیطان اور نفسِ امارہ
نفسِ امارہ کا شمار شیطان کے سپاہیوں میں ہوتا ہے۔ شیطان اور نفسِ امارہ دونوں انسان کے دشمن ہیں اسی لئے قرآنِ مجید نے بھی شیطان کو انسان کا کھلم کھلا دشمن کہا ہے۔
نفسِ امارہ کے بارے میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’تیرا سب سے بڑا دشمن تیرا نفس ہے۔‘‘
نفس کا سب سے بڑا دشمن ہونے کا راز اس کا پوشیدہ ہونا ہے۔ ظاہری دشمن اور چور اس باطنی و پوشیدہ دشمن اور چور کی مدد کے بغیر کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ یہ باطنی دشمن (نفس) شیطان کا محرم راز ہے اور اس آگاہی سے استفادہ کر کے انسان کی خواہشات کی ہر خبر شیطان کو پہنچاتا ہے۔ دوسری جانب سے نفسِ امارہ ابلیس کے پیغام اور فر مان کو، جو ظاہری برائیوں پر مشتمل ہوتا ہے، پہنچاتا ہے۔ پس انسان میں موجود حیوانی رجحانات کے پیشِ نظر نفسِ امارہ شیطانی وسوسوں کے تحت قرار پاتا ہے اور مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھتا ہے یہاں تک کہ انسان بھی شیطان کی پارٹی کا رکن بن جاتا ہے۔
لہٰذا شیطان اور نفسِ امارہ سے بچنے کاذریعہ صرف صراطِ مستقیم ہے۔ صراطِ مستقیم ہی فقرِمحمدیؐ ہے جس سے معرفتِ حق تعالیٰ اور قرب و دیدارِ حق تعالیٰ نصیب ہوتا ہے۔ صراطِ مستقیم پر چلنا مرشد کامل اکمل کے بغیر ممکن نہیں۔ اسمِ اللہ ذات کے ذکر اور تصور سے ہی نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ ممکن ہے اور اسمِ اللہ ذات کی یہ نعمت امام الوقت مرشد کامل اکمل عطا فرماتا ہے جو زمین پر اللہ پاک اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نائب ہوتا ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس موجودہ زمانے کے مرشد کامل اکمل ہیں جو بیعت اور بغیر بیعت کے اسمِ اللہ ذات کی نعمت سے نوازتے ہیں۔ آپ بھی یہ عظیم نعمت حاصل کر کے شیطان کی تباہ کاریوں اور پھندوں سے بچ کر اللہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو ہو سکتے ہیں۔
استفادہ کتب:
۱۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین؛ ترتیب و تدوین مسز عنبرین مغیث سروری قادری
۲۔انسان اور شیطان، مصنف حافظ مبشر حسین
۳۔شیطان کی انسان دشمنی، مصنف عبدالعزیز بن صالح العبید