سورۃفاتحہ خلاصۂ قرآن
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری ۔لاہور
سورۃ فاتحہ قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ ہے۔ یہ کل سات آیات پر مشتمل ہے۔ امام خازن ؒ کے قول کے مطابق اس میں ستائیس (۲۷) کلمات اور ایک سوچالیس (۱۴۰) حروف ہیں۔ اس کی کسی آیت کے بارے میں ناسخ یا منسوخ ہونے کا کوئی قول موجود نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی سورۃ ہے جس کے کئی نام خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے بیان فرمائے اور ہر ایک نام اس سورۃ کی اہمیت و افادیت پر دلالت کرتا ہے۔ (بحوالہ سورۃ فاتحہ اور تعمیر ِشخصیت)
سورۃ فاتحہ کے اسما مبارک
اس سورۃ کے مندرجہ ذیل اسما ہیں:
سورۃ الفاتحہ:
اس سورۃکا سب سے مشہور و معروف نام ’’ الفاتحہ ‘‘ ہی ہے۔ فاتحہ کے معنی کھولنے کے ہیں ۔ امام راغب اصفہانی ؒ فرماتے ہیں :
’’کسی بندش اور مشکل کو دور کر دینا فتح کہلاتا ہے۔‘‘ (المفردات:370)
اس لحاظ سے فاتحہ کے معنی ہوئے کسی مشکل اور رکاوٹ یا بندش کا دور ہو جانا، رابطہ بحال ہو جانا، سلسلہ یا تعلق قائم ہو جانا۔
امام راغب اصفہانی ؒ مزید فرماتے ہیں ’’فتح کا استعمال دو طرح ہوتا ہے ۔ فتح ظاہری و فتح باطنی۔
ایک (فتح) آنکھ سے معلوم ہوتی ہے جیسے دروازہ کھولنا، تالہ، گانٹھ اور سامان وغیرہ کھولنا۔ دوسری نورِ بصیرت سے معلوم ہوتی جیسے غم و الم کو کھولنا یعنی از الہ کرنا۔‘‘ (المفردات 370)
فتح کا لفظ حق و باطل کے فرق کو واضح کرنے کے لیے بھی استعمال ہو تا ہے جیسا کہ روزِ قیامت کے لیے ’’یوم الفتح‘‘ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے۔ روزِ قیامت نیکی و بدی کا فیصلہ کیا جائے گا، اہل ِحق ذاتِ حق تعالیٰ سے جا ملیں گے اور اہل ِباطل اپنے انجام کا مزہ چکھیں گے۔ یعنی حق و باطل میں واضح امتیاز کر دیا جائے گا۔
سورۃ فاتحہ کی تعریف میں آئمہ محققین لکھتے ہیں :
ہر شے کا فاتحہ اس کا مبدا ہوتا ہے یعنی وہ نقطہ جس سے وہ شروع ہوتی ہے اور اس کا مابعد اسی مبدا سے کھلتا ہے۔ (المفردات 370)
قرآنِ کریم کا آغاز جس سورۃ سے ہوتا ہے وہ الفاتحہ ہے یعنی قرآنِ کریم کا خلاصہ اور تمام اسرار و رموز الفاتحہ میں موجود ہیں۔ یا یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ سورۃ فاتحہ قرآنِ کریم کی تمام تر تعلیمات کا نچوڑ ہے۔ دیگر اسما جو سورۃ الفاتحہ کے لیے استعمال کیے گئے ہیں ان میں سے چند کا ذکر مندرجہ ذیل ہے :
فاتحہ الکتاب،فاتحہ القرآن، ام الکتاب، ام القرآن، سورۃ الکنز (کنز خزانے کو کہتے ہیں)، سورۃ النور، السبع المثانی (اس سے مراد ’’ دہرائی جانے والی یا بار بار پڑھی جانے والی سات آیتیں ‘‘ہے)، اساس قرآن، سورۃ الحمد، سورۃ المناجاۃ، سورۃ الشکر، سورۃ الصلوٰۃ، سورۃ التفویض (تفویض سے مراد سپرد کر دینا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی آیات ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں‘‘ اور ’’ اے اللہ !ہمیں سیدھی راہ چلا‘‘ میں اسی پہلو کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یعنی خود کو رب تعالیٰ کی ذات کے حوالے کر دینا اور اسی سے طلب کرنا)،سورۃ الدعا، سورۃ السوال (یعنی یہ سورۃ بندے کو بارگاہِ ربوبیت میں آدابِ دعا و سوال سیکھا دیتی ہے)، سورۃ الکافیہ (سورۃ الفاتحہ کو سورۃ الکافیہ اس لیے کہا جا تا ہے کہ یہ سورۃ ہر ایک کا بدل ہو کر کفایت کر سکتی ہے لیکن کوئی اور سورۃ اس کی جگہ پر کافی نہیں ہو سکتی۔ اس کو الکافیہ کہنے کی ایک وجہ تسمیہ یہ بھی ہے کہ یہ سورۃ اسلام کے تمام بنیادی عقائد و تعلیمات کی روح ہے اور جامعیت کے اعتبار سے کافی ہے)، سورۃ الشفا، سورۃ الشافیہ۔ (بحوالہ سورۃ فاتحہ اور تعمیر ِشخصیت)
سورۃ فاتحہ کو ہر مرض کے لیے شفا قرار دیا گیا ہے ۔حضرت عبد اللہ بن جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ روایت کرتے ہیں :
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں قرآن کی ایک اعلیٰ اور افضل سورۃ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ضرور فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا وہ فاتحہ الکتاب ہے اور میں اسے کافی سمجھتا ہوں۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ اس میں ہر مرض کے لیے دوا ہے۔‘‘ (ابن ِکثیر ،۱:۱۰)
سورۃ فاتحہ خلاصہ ٔ قرآن
اللہ تعالیٰ نے نوعِ انسانی کی ہدایت کے لیے قرآن کو وسیلہ ٔ ہدایت بنا کر بھیجا۔ قرآن میں جو احکامات اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے بیان کیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کا عملی نمونہ دکھا کر امت ِمسلمہ کو تحفۂ عظیم عطا کیا۔ اگر ہم قرآنی تعلیمات کا ا جمالی جائزہ لیں تو تمام قرآن توحید، رسالت اور آخرت کے موضوع کو بیان کرتا نظر آتاہے یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ تمام قرآن کی بنیاد ربّ تعالیٰ کی ربوبیت، صراطِ مستقیم اور دنیاوی زندگی کیسی گزاری جائے جو اُخروی زندگی کے لیے کامیابی کی ضمانت بن سکے یعنی ’’آخرت ‘‘پر ہے۔ ربّ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا اظہار انسان کو پیدا کر کے ہی کیا، انسان کو صراطِ مستقیم پر گامزن کرنے کے لیے اپنے محبوب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو دنیا میں مبعوث کیا، انسان کی آخرت سنور سکے اس کے لیے جابجا قرآن میں عذابِ الٰہی سے دلوں کو لرزایا تو کبھی رحمت ِ الٰہی، جنت اور حو رو قصور جیسی نعمتوں کی نوید سنائی۔ الغرض قرآن کے جتنے بھی احکامات یا موضوعات ہیں ان کا مرکزانسان ہے یعنی قرآن کو انسانِ کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلب پر اتارا گیا محض نوعِ انسانی کی فلاح و بہبود کے لیے۔ انسان کو انسان بنانا، ربّ تعالیٰ سے ملانا، عبودیت کے تقاضے سکھانا اور صراطِ مستقیم پر گامزن کرنا یہی تعلیماتِ قرآن ہیں اور سورۃ فاتحہ کا درس بھی۔
سورۃ فاتحہ ام الکتاب ہے اور اس میں جو کچھ بیان ہوا ہے وہ درحقیقت تمام تر قرآن کا خلاصہ ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے جب ہم کوئی کتاب لکھنا شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے اس کا مرکزی خیال یا پیش لفظ لکھا جا تاہے۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ:
تمام تعریفیں اور حمدوثنا کے لائق صرف اللہ ہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو ربّ پکارنا اور حمد وثنا کے لائق سمجھنا یہی بندگی کی شرطِ اوّل ہے۔ روزِ الست ارواح سے جس چیز کا سب سے پہلے اقرار لیا گیا وہ یہی تھا یعنی اللہ کی ربوبیت کا اقرار اور بندے کا اپنی عبودیت کا اظہار۔ یہی تخلیق ِ کائنات کا پہلا عنوان ہے اور یہی سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت کا ترجمہ بھی۔ ’’ الحمدللہ‘‘ یہ اللہ کی حمد و ثنا بھی ہے اور وحدانیت کا اظہار بھی۔ جس طرح اللہ واحد ہے اسی طرح اسم ’’اللہ‘‘ بھی واحد ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اسم ِاللہ اسم ِذات ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علما راسخین کا قول ہے کہ یہ اسم مبارک نہ تو مصدر ہے نہ تو مشتق یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے اور نہ اس سے کوئی لفظ بنتا ہے اور نہ اس اسم پاک کا مجازاََ اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاََ اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسم پاک اس قسم کے کسی بھی اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزہ و مبرا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسم ِاللہ بھی احد، واحد اور’ لَمْ َیلِدْ وَلَمْ یُلَدْ‘ ہے۔ (حقیقت اسم ِاللہ ذات)
قرآن کی پہلی آیت میں اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اپنا تعارف اپنی تعریف اور خود کو واحد کہہ کر کیا ہے۔ ’’الحمد للہ‘‘ کا مطلب ہوا تمام تعریفیں صرف اللہ کے لیے ہیں یعنی تعریفوں میں بھی واحد ہے اور ذات میں بھی۔ اور یہی اللہ کی ربوبیت کا اظہار بھی ہے۔
ذکر اور حمد الٰہی
تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی جامع حمد ہے اور لفظ اللہ کا ہونا خود بہترین ذکر ہے۔ تمام اسمائے الٰہی کی صفات جو ایک اسم میں جمع ہیں وہ خود ’’اللہ‘‘ ہے۔اللہ کو اللہ پکارنا یہی بہترین ذکر ِالٰہی ہے۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
خبردار!ذکرِ اللہ (ذکرِ اسم اللہ ذات) سے ہی دلوں کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔ (سورۃ الرعد۔ 28)
اے ایمان والو! ذکر اللہ کثرت سے کیا کرو۔ (سورۃ الاحزاب ۔41)
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
ترجمہ: بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور بہترین ذکر اللہ (یعنی اسم ِاللہ ذات) کا ذکر ہے۔
تمام قرآن کا مقصد ذکر اور حمد ِالٰہی کو بلند کرنا ہے۔ قرآن کی پہلی سورۃ الفاتحہ میں کتنی خوبصورتی سے یہ مقصد اداکیا گیا ہے ایسے جیسے سورۃ فاتحہ کی ایک ایک آیت اور حرف قرآن کے موضوعات کا عنوان ہے اور باقی قرآن ان عنوانات کی تفصیل۔
رَبُّ الْعَالَمِیْنَ
’’رَبُّ الْعَالَمِیْنَ‘‘سے مراد تمام جہانوں کا ربّ ہے۔ یہاں ایک بات قابل ِغور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف ایک جہان کی بات نہیں کی بلکہ جہانوں کی بات کی ہے وہ تمام جہان جو انسان کے علم میں بھی نہیں یعنی انسان کا علم محدود ہے اور اللہ کا علم لامحدود۔ انسان کون و مکان کی گرفت میں قید ہے لیکن اللہ کا مقام تو لامکان ہے۔ ہر مسلمان دن میں پانچ مرتبہ نماز ادا کرتا ہے، ہر رکعت میں اللہ کو ربّ العالمین کہہ کر پکارتا ہے لیکن ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جو اللہ کو تمام جہانوں کا ربّ ماننے کے ساتھ ساتھ اپنا ربّ بھی مانتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان بنائے، انسان کو وجود عطا کیا یہ تو سب مانتے ہیں لیکن تصدیق ِقلب سے ربّ کوئی کوئی پکارتا ہے۔ اللہ کو ربّ پکارنے سے مراد اپنے تمام اختیارات اللہ کے حوالے کر کے خود دستبردار ہو جانا ہے۔ اس نے نہ صرف ہمیں پیدا کیا بلکہ ہر خوشی، ہر غم، مال و متاع، ظاہر و باطن، غرض ہر شے پر اس کا ہی اختیار ِ کُل ہے۔ اسی کے سامنے روزِ قیامت اپنے تمام اعمال کے لیے جواب دہ ہونا ہے اور وہ کسی لمحہ ہمارے باطن کے حال سے بے خبر نہیں۔ ہمارا اٹھنا، بیٹھنا، سونا حتیٰ کہ سوچ بھی سب اس کے سامنے عیاں ہے۔ جب بندہ اس نیت سے اپنا ہر عمل کرتا ہے تو وہ اپنے قلب کو ہر آلائش و کثافت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور خلوصِ نیت کے ساتھ اپنا ہر عمل بجا لاتا ہے۔ یہی احساس کہ ہمارا ربّ ہمیں دیکھ رہا ہے‘ بندے کے لیے خوف کا سبب بھی ہے اور راحت و آسودگی کا بھی۔ یہی احساس بندے کو اللہ کے قریب کر دیتا ہے اور یہی احساس اپنے اعمال پر شرمندہ بھی۔ اس لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’ایمان خوف و امید کے مابین ہے۔‘‘
صفت ِرحمن و رحیم:
رحمن اوررحیم اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں۔ سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت میں اللہ کی ذات کا ذکر ہے۔ دوسری آیت میں ’’اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم‘‘ کے الفاظ سے اللہ کی صفات کا ذکر ہے۔ عالم ِامر میں جب اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کا اظہار چاہا تو سب سے پہلے اپنی ذات کا اظہار کیا پھر اپنی صفات کا یعنی پہلی تجلی ذات کی ہوئی اور دوسری تجلی صفات کی بالکل اسی مناسبت سے سمجھا جائے تو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیت میں ذات کا ذکر ہے اور پھر دوسری آیت میں صفات کا۔ صفات کے اظہار کے لیے کسی نہ کسی وجود کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کواپنی ذات و صفات کے اظہار کے لیے پیدا فرمایا جیسا کہ حدیث ِقدسی ہے ’’میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں اس لیے کائنات کو پیدا فرمایا۔‘‘
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مختلف صفات کا ذکر کیا کہیں پر خود کو قہار کہا تو کہیں جبار، کہیں علیم پکارا تو کہیں بصیر۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے خود کو الرحمن پکارا تو یہ کلی طور پر تمام صفات کا اظہار ہوا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے میری صفت رحمن ہر شے پر حاوی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے ہر شے کو وجود عطا کیا۔ مرآۃ العارفین کی شرح میں رحمت کی دو اقسام کو بیان کیا گیا ہے:
رحمت دو طرح کی ہے رحمت ِعامہ اور رحمت ِخاصہ۔ رحمت ِ عامہ تمام مخلوقات کے لیے عام ہے اور اس کا مظہر اسم ِرحمن ہے جبکہ رحمت ِخاصہ خاص الخاص بندوں کے لیے ہے یعنی مومنین کے لیے اور اس کا مظہر اسم ِرحیم ہے۔ رحمت ِعامہ میں چرند پرند، حیوانات، نباتات، مسلم و غیر مسلم سب شامل ہو تے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سب کا رازق و مالک ہے۔ سب کو پیدا فرمانے والا ہے۔ چاہے اسے کوئی مانے یا نہ مانے وہ سب کے دلوں کے راز جاننے والا ہے، سب کی دعائیں اور التجائیں سننے والا ہے، سب کو عطا کرنے والاانتہائی مہربان اور احسان فرمانے والا ہے۔ اسی لیے اس رحمت کو رحمت ِ امتنائی کہتے ہیں۔ امتنان کے معنی احسان کے ہیں۔ صفت ِرحیمی اللہ کے خاص بندوں کے لیے ہے یعنی مومنین کے لیے۔ مومنین وہ ہوتے ہیں جن کے قلوب اخلاص سے لبریز، وفا ان کا شعار، نگاہیں دیدارِ الٰہی کے لیے دائمی متمنی، معرفت کی راہ طے کر کے عالم ِناسوت سے عالم ِلاھوت کا سفر طے کرکے فلاح و کامیابی حاصل کرنے والے۔ اللہ پر ان کی رحمت ِخاص ہوتی ہے کہ وہ انہیں اپنی پہچان و دیدارِ الٰہی کی نعمت عطا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت ِرحیمی کی بدولت ہی طالب مولیٰ ان تجلیات کو برداشت کر پاتا ہے جنہوں نے کوہِ طور ریزہ ریزہ کردیا تھا۔ یہ اللہ کی رحمت ِ خاص ہے جو مومنین کی محبت کا وہ بدل ہے جسے اللہ نے خود پر واجب کر لیا ہے اسی لیے اس رحمت کو رحمت ِوجوبی بھی کہتے ہیں۔
مِالِکِ یَوْمِ الدِّیْن:
مِالِکِ یَوْمِ الدِّیْن سے مراد ’’مالک ہے روزِ جزا کا‘‘۔ روزِ جزاسے مراد قیامت کا دن ہے۔ قیامت کے روز ہر شخص اپنے نامہ اعمال کا وزن اٹھائے حاضر ہو گا اور جزا و سزا کا فیصلہ سنایا جائے گا۔ اس آیت میں درحقیقت اللہ کی قدرت کا اظہار ہے یعنی وہ قدرت رکھتا ہے جزا و سزا عطا کرنے پر۔ اللہ نے ’’مالک‘‘ کا لفظ استعمال کرکے کلی طور اپنی قدرت اور حاکمیت کا اظہار کیا ہے۔ جو شخص جتنا اللہ کی قربت اور معرفت حاصل کرے گا اتنا ہی اس پر قدرتِ الٰہی کی تجلیات کا نزول ہو گا۔ جس قدر معرفت ِالٰہی اور اللہ کی قدرت کا مشاہدہ کیا ہو گا اسی قدر وہ اس آیت ’’مِالِکِ یَوْمِ الدِّیْن‘‘ کا تصدیق ِ قلب کے ساتھ اقرار کرے گا۔ یعنی اس آیت کا اقرار بندے کے احوالِ باطن پر زیادہ منحصر کرتاہے کیونکہ معرفت اور مشاہدۂ قدرت کا تعلق باطن سے ہے۔
صوفیا کرام ’’یوم‘‘ سے تجلی بھی مراد لیتے ہیں اور ’’دین‘‘ سے مراد ظاہری اعمال ہیں اس لحاظ سے مِالِکِ یَوْمِ الدِّیْنکو سمجھا جائے تو اس سے مراد مالک ہے تجلیات کا یعنی باطن کا اور مالک ہے دین کا یعنی ظاہر کا۔ یہاں سے وحدت الوجود کا نظریہ کھلتاہے جس کا مطلب ہے ہر شے کے ظاہر و باطن میں اللہ ہے یا ہر شے اللہ کی تجلیات کی مظہر ہے۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن:
’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ یہ آیت اللہ اور بندے کے تعلق کا اظہار ہے۔ ربّ اور عبد کو جوڑتی ہے۔ سیّد محمد نعیم الدین مراد آبادیاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’پہلی تین آیات میں ذکر ِذات و صفات کے بعد اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن اشارہ ہے کہ اعتقاد عمل پر مقدم ہے اور عبادت کی مقبولیت عقیدے کی صحت پر موقوف ہے۔ نَعْبُدُ (ہم تیری عبادت کرتے ہیں) کے صیغہ جمع (ہم) سے ادا بجماعت بھی مستفاد ہوتی ہے اور یہ بھی کہ عوام کی عبادتیں محبوبوں اور مقربوں کی عبادت کے ساتھ درجۂ قبول پاتی ہیں۔ اس میں ردِ شرک بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا عبادت کسی کے لیے نہیں ہو سکتی۔وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن میں یہ تعلیم فرمائی کہ استعانت (مدد) خواہ بواسطہ ہو یا بے واسطہ ہر طرح اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔ حقیقی مستعان (مدد کرنے والا) وہی ہے باقی آلات و خدام و احباب وغیرہ سب عون (مدد) الٰہی کے مظہر ہیں۔ بندے کو چاہیے کہ اس پر نظر رکھے اور ہر چیز میں دست ِقدرت کو کارکن دیکھے۔
اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لئے ہے وہ چیز جس کا اس نے سوال کیا۔ یعنی بندہ جس چیز کے متعلق اللہ کی بارگاہ میں سوال کرتا ہے چاہے طلب ِجنت و حور وقصور ہو، عذابِ جہنم سے نجات ہو، طلب ِہدایت ہو یا طلب ِمولیٰ یا طلب ِدنیا‘ اللہ بندے کو اس کی طلب کے مطابق عطا کرتاہے۔ اگر بندہ اپنی طلب میں اللہ کے ساتھ مخلص ہو تو اللہ اسے اپنے تک پہنچنے کا وسیلہ عطا کردیتا ہے۔ اگر طلب میں دنیاوی خواہشات کی غلامی ہو تو بندہ بالآخر اسی کو اپنا خدا بنا لیتا ہے۔ قیامت کے روز کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ اس کے ساتھ نا انصافی ہوئی یا اسے کیوں اللہ نے اپنے قرب یا خود سے دور رکھا۔ اللہ بندے کو وہی کچھ عطا کرتا ہے جس کا اس نے اللہ سے تقاضا کیا ہو۔
سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات اللہ کے لیے ہیں۔ ان کو مراتب ِحقی کہتے ہیں کیونکہ ان آیات میں حق تعالیٰ کی ذات وصفات کا ذکر کیا گیا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی آخری تین آیات عبد یعنی مخلوق سے متعلق ہیں اس لیے ان کو مراتب ِخلقی کہتے ہیں۔ وہ آیت جو مراتب ِحقی (سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات) اور مراتب ِخلقی (سورۃ فاتحہ کی آخری تین آیات) کو جوڑتی ہے وہ آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن ہے۔ اس واسطہ اس آیت کو جبروت کہا گیا ہے۔ جبروت کے معنی ’’جوڑنے والا یا جڑا ہوا کے ہیں۔ یہ آیت بندے کو اللہ سے عبادت اور توکل کے ذریعہ جڑ جانے کا درس دیتی ہے۔ ’’ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔‘‘ یعنی عبادت کی جائے تو صرف اللہ کی اور توکل قائم کیا جائے تو صرف اللہ پر۔ یہی وہ طریقہ ہے جو عبد کو ربّ سے ملا تا ہے اورا خروی زندگی میں کامیابی کی ضمانت بھی ہے۔
عبد کو ربّ سے جوڑنے کا وسیلہ انسانِ کامل ہے۔ انسانِ کامل ہی وہ ہستی ہے جو تربیت ِنفس کر کے بندے کو عبودیت اور توکل کے صحیح معنوں سے روشناس کرواتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات جنہیں ’’مراتب ِحقی‘‘ کہا گیا ہے ربوبیت ِحق تعالیٰ کا اظہار ہیں اور آخری تین آیات عبودیت کا۔ انسانِ کامل جو ان دونوں کو آپس میں ملاتا ہے اس واسطہ سے اس کا ایک رخ ربوبیت ہے اور دوسرا رخ عبودیت۔ سورۃ فاتحہ کی پہلی تین آیات حقائق ِالٰہیہ سے متعلق ہیں اور آخری تین آیات حقائق ِکونیہ یعنی مخلوق کے اعمال و افعال سے متعلق ہیں۔ چوتھی آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن برزخ ہے یعنی ان دونوں کو جوڑتی ہے ‘حقائق ِالٰہیہ اور حقائق ِکونیہ دونوں سے ہے اور یہی انسانِ کامل کی حقیقت ہے یعنی انسانِ کامل حقائق ِالٰہیہ اور حقائق ِکونیہ دونوں کا مرکب ہے۔
الرسالۃ الغوثیہ میں اللہ تعالیٰ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے فرماتا ہے ’’اے غوث الاعظمؓ! انسان (کامل) کوئی چیز نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے، نہ کھڑا ہوتا ہے نہ بیٹھتا ہے، نہ بولتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ کوئی کام کرتا ہے، نہ کسی چیز کی طرف متوجہ اور نہ اس سے روگردان ہوتا ہے مگر یہ کہ اس میں مَیں ہوتا ہوں۔ میں ہی اس کو حرکت میں لاتا ہوں اور میں ہی اس کو ساکن رکھتا ہوں‘‘ پھر فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! انسان (کامل) کا جسم، اس کا نفس، اس کا دل، اس کی روح، اس کے کان، اس کی آنکھ اور اس کے ہاتھ پاؤں ہر ایک چیز کو میں نے اپنی ذات سے اپنے لیے ظاہر کیا ہے ۔ وہ نہیں مگر میں ہی ہوں اور میں اس سے غیر نہیں ہوں۔‘‘
حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ مرآۃ العارفین میں فرماتے ہیں ’’پورا قرآنِ مجید ام الکتاب (سورۃ فاتحہ) میں ہے اور سورۃ فاتحہ بسم اللہ میں اور اسم اللہ ’انسانِ کامل ‘ کے دل میں جلوہ گر ہے۔ اس لیے انسانِ کامل تمام صفات و ذات کے لیے مجمل اور مفصّل ہے۔‘‘
اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ:
اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے لیکر سورۃکے آخری حصے تک حقائق ِکونیہ یعنی عالم ِخلق اور مخلوق کا بیان ہے۔ اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ یعنی ’’اے اللہ! ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ اس کادعائیہ صورت میں ہونا ظاہر کرتا ہے کہ بندہ عاجز ہے۔ بندے کو ہدایت طلب کرنے کا کہا گیا ہے بندہ از خود ہدایت حاصل نہیں کرسکتا۔ طلب ِ دنیا یا طلب ِمولیٰ رکھنا یہ بندے کے اختیار میں ہے۔ اگر بندہ اللہ سے ہدایت طلب کرتا ہے، صراطِ مستقیم مانگتا ہے تو اللہ اسے ضرور سیدھا راستہ دکھا دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ’’اور جو ہماری راہ میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں خود تک پہنچنے کا راستہ (صراطِ مستقیم ) سجھا دیتے ہیں۔‘‘ (سورۃ العنکبوت ۔ 69)
سیدھا راستہ کو نسا ہے اگلی آیات میں اس کا بیان کیا گیا ہے ۔ صراطِ مستقیم وہ راستہ ہے جس پر چل کر اللہ کا قرب اور رحمت ِالٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ صراط ِ مستقیم درحقیقت انبیا و اولیا اللہ کا راستہ ہے۔ یہی متبرک ہستیاں جمالِ الٰہی کی مظہر ہیں اور انہی کی راہ کی پیروی کی تلقین کی گئی ہے۔ اکثر لوگ صراطِ مستقیم سے صرف انبیا کا راستہ مراد لیتے ہیں جبکہ اس آیت میں واضح طور پر انعام یافتہ گروہ کی پیروی کی بات کی گئی ہے۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ ’’اے اللہ! ان لوگوں کے راستے پر چلاجن پر تیرا انعام نازل ہوا ہے‘‘۔ انعام یافتہ گروہ میں انبیا،صدیقین، صالحین اور شہدا کا شمار ہوتا ہے۔ صدیقین اور اولیا اللہ کی راہ انبیا کرام کی راہ سے جدا نہیں ۔ انہی کی پیروی کر کے ہی تو قربِ الٰہی کی تمام منازل طے ہوتی ہیں۔ علامہ ابن ِعربی ؒ فصوص الحکم میں فرماتے ہیں:
قیامت کے روز ہر کسی پر رازِ توحید فاش کردیا جائے گا کہ درست عقیدہ وہی ہے جو اولیا اللہ کا ہے۔
اگلی اور آخری آیت میں ان لوگوں کے راستے پر چلنے سے منع کیا گیا ہے جن پر قہر اورعذابِ الٰہی نازل ہوا ہے۔ جنہوں نے صراطِ مستقیم کے خلاف راستہ اختیار کیا۔ مغضوبین اور ضالین غضب یافتہ گروہ ہیں جو جلالِ الٰہی کا مظہر ہیں۔ سورۃ فاتحہ کی ان آخری آیات میں کامیابی و کامرانی سے زندگی گزارنے کا سنہری اصول بیان کیا گیا ہے کہ ہدایت یافتہ گروہ کی پیروی کی جائے اور مغضوبین کے گروہ سے اپنا دامن بچایا جائے۔ سورۃ فاتحہ میں آیات کی ترتیب انتہائی شاندار ہے پہلی تین آیات میں اللہ کی ذات و صفات کا ذکر ہے ایسے جیسے پورا قرآن اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی حمد وثنا اور ذکر کے لیے اتارا گیا ہو۔ آخری تین آیات بندے سے متعلق ہیں اور دیکھا جائے تو تمام قرآنی تعلیمات کا موضوع بھی انسان ہے۔ صراطِ مستقیم کی پیروی کرنے سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، اصحابِ رسولؐ، انبیا و اولیا اللہ کی پیروی کرنا ہے۔ تمام قرآن تکمیل ِایمان کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ کو اپنا نے کا حکم دیتا ہے۔ سورۃ فاتحہ کی درمیانی آیت اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن مسلمانوں اور مومنوں کے لیے رحمت و نعمت ہے۔ یہی آیت وسیلہ ہے جو بندے کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ اللہ کی ربوبیت کو ظاہر کرتی ہے اور بندے کو دنیا میں آنے کا مقصد سمجھاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے میں نے بندے کو اپنی عبادت کے لیے پیدا فرمایا۔ عبادت توکل کے ساتھ کی جائے تب ہی درجۂ قبولیت پاتی ہے۔ ایمان کی تکمیل اللہ پر توکل اختیار کرنے میں ہے۔ توکل یہی ہے کہ ہر حال میں اللہ سے ہی مدد طلب کی جائے۔ یہی عبادت کا اصل تقاضا ہے اور یہی بندگی ہے، یہی مقصد حیات ہے، یہی کامیابی و کامرانی کا راز ہے۔
حضرت امام حسینؓ مرآۃ العارفین میں فرماتے ہیں ’’پس جس وقت بندہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبُّ الْعَالَمِیْن کہتا ہے تو اللہ کہتا ہے میرے بندے نے میری تعریف کی اور جب کہتا ہے اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم تو اللہ کہتا ہے کہ میرے بندے نے میری صفت بیان کی اور جب کہتا ہے مٰلِکِ یَوَمِ الدِّیْن تو اللہ کہتا ہے میرے بندے نے میری عزت کی ہے اور جب بندہ کہتا ہے کہاِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن تو اللہ کہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے اور میرے بندے کے لیے (ہر) وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے۔ اور جب وہ کہتا ہے اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَا الضَّآلِیْن تو اللہ کہتا ہے کہ یہ میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے واسطے وہ چیز ہے جس کا وہ سوال کرے پس فاتحہ اپنے آغاز سے لے کر مٰلِکِ یَوَمِ الدِّیْن تک محض اللہ سے متعلق ہے اور اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن اللہ اور بندے (دونوں) سے متعلق ہے اور اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ سے آخر تک صرف بندے سے متعلق ہے‘‘۔
سورۃ فاتحہ اپنے اندر قرآن کے تما م اسرار و رموز کو سمیٹے ہوئے ہے۔ تمام محققین اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس سورۃ کی شرح کرتے آئے ہیں۔ اس سورۃ کے تما م ظاہری و باطنی حقائق کو قلم بند کرنا ناممکنات میں سے ہے۔ حضرت علی ؓ کا فرمان ہے ’’اگر میں سورۃ فاتحہ کی شرح لکھوں تو ستر کتابوں میں لکھی جائے‘‘۔ ستر کتابوں کا استعمال کثرت کو ظاہر کرتا ہے ورنہ حضرت علی ؓ نے بسم اللہ کی شرح بیان کرتے ہوئے رات سے صبح کر دی تھی۔
یہ سورۃ تکمیل ِایمان کا سنہری وسیلہ ہے۔ جس طرح سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی بالکل اسی طرح ایمان کی تکمیل اور باطنی نشوونما کے لیے سورۃ فاتحہ کی ہر آیت اور ہر حرف کو دل کی گہرائی سے سمجھنا ضروری ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو اس عظیم سورۃ کے حقیقی معنوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب :
۱۔ مرآۃ العارفین تصنیف سیّد الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ، ترجمہ و شرح عنبرین مغیث سروری قادری
۲۔ الرسالۃ الغوثیہ تصنیف لطیف سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۳۔ الفتح ربانی تصنیف لطیف سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
۴۔ فصوص الحکم تصنیف علامہ ابن ِ عربیؒ
۵۔ حقیقت اسم ِاللہ ذات تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
۶۔ سورۃ فاتحہ اور تعمیر ِشخصیت
سورہ فاتحہ قرآن کا دل ہے
بے شک
سورۃ فاتحہ قرآنِ کریم کی پہلی سورۃ ہے۔
Masha Allah
Great
سورہ فاتحہ قرآن کا دل ہے
Masha’Allah ❤
Mashallah
Very informative
بےشک میرے مرشد پاک سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ اقدس ( سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور سلطان باھُوؒ کے حقیقی و روحانی وارث, انسان کامل اکمل نور الہدی ) کے عطا کردہ اسم اللہ ذات مشق مرقوم وجودیہ اور خفی ذکر یاھو سے اللہ پاک اور حضرت محمد ﷺ کا دیدار (ملاقات) اور پہچان ہوتی ہے
اس طرح انسان کا مقصد حیات حاصل ہوتا ہے
تحریک دعوت فقر پاکستان لاہور ذندہ باد
MashAllah
اس میں قرآن کا خلاصہ اور تمام اسرار ہیں۔
Subhan Allah
Bht acha artcle hai Excellent work👌👌
Ma Sha Allah very inspiring and informative
سبحان اللہ
#sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #surah #fatiha #quran
ماشائ اللہ
#sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #surah #fatiha #quran
MashaAllah
Subhan ALLAH ♥️♥️💫💫
MashaAllah
سبحان اللہ
#sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #surah #fatiha #quran
ماشائ اللہ
#sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #surah #fatiha #quran
Yah surah Quran k khulasa ha
mashallah
MashaAllah ♥️👌👌👌👌
MashaAllah
Masha Allah
سبحان اللہ
SubhanAllah ♥️♥️👍
بہت عمدہ تحریر ہے
SubhanAllah
MashaAllah