جانوروں کی زبان (حکایت مولانا رومؒ ) Janwaron ki Zuban – Rumi
مراسلہ: مسز عثمان صادق سروری قادری (لاہور)
ایک نو جوان حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور درخواست کی کہ’’ اے کلیم اللہ! مجھے جانوروں کی زبان سکھا دیں تاکہ میں ان کی گفتگو سے عبرت حاصل کروں۔ جب میں دیکھتا ہوں کہ انسان کی سب باتیں روٹی، پانی اور لالچ کے گرد گھومتی ہیں تو مجھے خیال آتاہے کہ حیوانوں کے سوچنے کا انداز یقینا کچھ اور ہوگا، اسی لیے میں اُن کی زبان سے واقفیت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا’’ اس لالچ سے بھری ہوئی خواہش سے ہاتھ اُٹھا لے، اس میں کئی خطرے پوشیدہ ہیں، اس کی بجائے تو اللہ سے عزت اور رحم کی دعا مانگ۔‘‘
یہ سن کر وہ نو جوان رنجیدہ ہو گیا اور اپنی بات پر اصرار کرنے لگا۔ یہ انسانی طبیعت کا خاصا ہے کہ جس بات سے منع کیا جائے، اُس کی طرف رغبت اور بڑھتی ہے۔ کہنے لگا ’’اے اللہ سے کلام کرنے والے! آپ کے سینے میں نور کا خزانہ چھپا ہوا ہے۔ ہر شخص نے اپنی قابلیت اورسوجھ بوجھ کے مطابق آپ سے فیض حاصل کیا ہے، اگر آپ نے میری درخواست قبول نہ کی تو مجھے سخت مایوسی ہو گی۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی’’ الٰہی! معلوم ہوتا ہے اس شخص پر شیطان نے اپنا اثر جما لیا ہے۔ اگر میں اس کی خواہش پوری کردوں تو اسے نقصان پہنچنے کا ڈر ہے اور اگر نہ سکھاؤں تو یہ مایوس اور پریشان ہو جائے گا۔‘‘
حکم ہوا،’’ اے موسیٰ (علیہ السلام)تم اسے جانوروں کی بولی سکھا دو، ہم کریم ہیں، کسی کی دُعا رَدّ نہیں کرتے۔ ‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی: یا اللہ! یہ محض پچھتائے گا، اپنے ہاتھ چبائے گا اور کپڑے پھاڑ ڈالے گا۔ یہ نہیں جانتا کہ اسکے لیے کون سی چیز بہتر ہے۔
بارگاہِ الٰہی سے پھرحکم ہوا’’ اے موسیٰ(علیہ السلام)! اس شخص کی تمنا پوری ہوگی تاکہ اس کے دل میں حسرت نہ رہے۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اب اس شخص کو بڑی نرمی اور محبت سے سمجھایا کہ ’’بھائی! اللہ تیری مراد پوری کر دے گا، لیکن اچھی طرح سمجھ لے کہ تو شیطان کے بہکاوے میں آگیا ہے اور جانوروں کی بولیاں سیکھنے سے تجھے فائدے کی بجائے نقصان پہنچنے کا ڈر ہے۔ ایسا سر دَردتوکیوں مول لیتا ہے۔‘‘
اس نوجوان نے کہا’’اچھا سارے جانوروں کی زبانیں نہ سہی صرف کتے کی بولی،جو میرے گھر کے درازے پررہتا ہے او رمرغ کی بولی، جو میرے گھر میں پلا ہے، سکھا دیں۔ فی الحال یہی کافی ہیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا’’اچھا اب زیادہ پریشان نہ ہو۔ جا، آج سے تو ان دونوں جانوروں کی بولی سمجھ سکے گا۔‘‘
یہ سن کر وہ نوجوان خوشی خوشی اپنے گھر لوٹا۔ صبح ہوئی تو آزمائش کے لیے اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔نوکرانی نے دسترخوان جھاڑا تو اُس میں سے رات کا بچا ہوا روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر گر پڑا۔ مرغ وہ ٹکڑا فوراً اٹھا کر لے گیا۔
کتے نے کہا: ’’ تو نے مجھ پر ظلم کیا ہے دوست، توُ تو گندم کا دانا چگ کر بھی اپنا پیٹ بھر سکتا ہے اور میں دانے دُنکے کی بجائے روٹی کے ٹکڑے ہی سے اپنے پیٹ کی آگ بجھا سکتا ہوں لیکن تو نے وہ بھی مجھ سے چھین لیا۔ ‘‘
مرغ نے کہا: میاں صبر کرو اور غم نہ کھاؤ، اللہ تجھے اس کا بدلہ دے گا، کل ہمارے مالک کا گھوڑا مر جائے گا، تم پیٹ بھر کر کھائیو۔گھوڑے کا مرنا کتوں کی عید ہے، کیوں کہ اس طرح انہیں بغیر کسی کوشش اور محنت کے پیٹ بھر کھانے کو مل جاتا ہے۔
نوجوان نے دونوں جانوروں کی گفتگوسنی تو فوراً گھوڑا تھان سے کھولا اور منڈی میں جا کر بیچ دیا۔ دوسرے دن دستر خوان بچھا تو مرغ پھر روٹی کا ٹکڑا لے آیا۔ کتے نے ناراض ہو کر مرغ سے کہا’’ اے فریبی مرغ! یہ جھوٹ کب تک چلے گا۔ تو سخت ظالم اور غلط بیان ہے، تو نے کل کہا تھا کہ مالک کا گھوڑا مر جائے گا لیکن مجھے تووہ مرا ہوا گھوڑا کہیں نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا ہے سچائی تجھے چھو کر بھی نہیں گزری۔‘‘
دانا مرغ نے جواب دیا: ’’مالک نے نقصان سے بچنے کے لیے گھوڑا بیچ ڈالا اور اپنا نقصان دوسروں پر ڈال دیا لیکن فکر نہ کر کل اس کا اونٹ مر جائے گا اور کتے خوب مزے اُڑائیں گے۔‘‘
یہ سن کر مالک جھٹ پٹ اُونٹ بھی بیچ آیا اور اس طرح دہرے نقصان سے اپنی جان بچائی۔ تیسرے دن پھر ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو کتے نے مرغ سے کہا: ’’ ابے او جھوٹوں کے شہنشاہ! کم بخت !آخر تو کب تک مجھے فریب دیتا رہے گا؟
مرغ نے کہا: ’’بھائی! اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مالک نے جلدی میں اونٹ بھی بیچ ڈالا اور نقصان سے بچ گیالیکن کل اس کا غلام مر جائے گا اور اس کے رشتہ دار، حاجت مندوں کو روٹیاں دیں گے اور کتوں کو بھی ڈالیں گے۔‘‘ مالک نے یہ سنا تو اُسی وقت غلام بھی بیچ ڈالا اور نقصان سے بچ گیا۔ وہ اپنی ہوشیاری پر بہت خوش تھا اور بار بار اللہ کا شکر ادا کرتاتھا کہ میں تین حادثوں سے بچ گیا ہوں۔ جب سے میں نے جانوروں کی بولی سیکھی ہے، تقدیر کا رُخ بدل گیا ہے۔
چوتھے دن کتا سخت غضبناک تھا۔ اُس نے مرغ کو سخت برا بھلا کہا: ’’ یہ تیری مکاری اور جھوٹ کب تک چلے گا؟‘‘
مرغ نے کہا’’ تو بہ توبہ! یہ ناممکن ہے کہ میں یا میرا کوئی ہم جنس جھوٹ بولے۔ ہماری قوم تو اذان دینے والے آدمیوں کی طرح نیک اور سچی ہے۔ ہم اگر غلطی سے بے وقت اذان دے بیٹھیں تو مارے جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ غلام خریدار کے پاس جا کر مر گیا۔ مالک نے اپنا مال تو بچا لیا، لیکن سمجھ لو کہ اس نے اپنا خون کر لیا۔ ایک نقصان سو نقصانات کو رفع کر دیتا ہے۔ جسم اور مال کا نقصان، جان کا صدقہ بن جاتا ہے۔ بادشاہوں کی عدالت سے سزا ملے تو مال کا جرمانہ ادا کر کے جان بچ جاتی ہے، لیکن قضائے الٰہی سے بے خبر ہوتے ہوئے بھی جو آدمی اپنامال بچاتا ہے، وہ محض نادان ہے۔ اگر وہی مال اس پر سے صدقہ ہو جاتا تو شاید اس سے بلاٹل جاتی۔ اب کل یقینا مالک خودمر جائے گا اور اس کے وارث اس کی وفات پر گائے ذبح کریں گے۔ بس پھر تمہارے وارے نیارے ہیں۔ گائے کا گوشت، پتلی پتلی روٹیاں اور طرح طرح کے لذیذ کھانے فقیروں کو اور بڑی بڑی ہڈیاں کتوں کو ملیں گی۔ گھوڑے، اونٹ اور غلام کی موت اس نادان کی جان کا صدقہ تھا۔ یہ مال کے نقصان سے تو بچ گیا، مگر اپنی جان گنوا بیٹھا۔‘‘
مالک مرغ کی باتیں غور سے سن رہا تھا۔ اپنی موت کی پیش گوئی سنی تو مارے خوف سے تھر تھر کانپنے لگا۔ گرتا پڑتا حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور روتے ہوئے عرض کی: اے موسیٰ (علیہ السلام)، میری مدد فرمائیے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا ’’ جا اب اپنے آپ کو بھی بیچ ڈال اور نقصان سے بچ جا۔ تو ایسی خرید و فروخت کا بڑا ماہر ہو گیا ہے۔ دوسرے لوگ مریں یا جئیں، تم اپنی تھیلیاں مال و دولت سے بھرے رکھو۔ تجھے یہ بات اب نظر آئی ہے، لیکن مجھے پہلے ہی اس کا علم تھا۔‘‘
نو جوان گڑ گڑا کر کہنے لگا’’مجھ پر پھٹکار! میں نالائق اور احمق تھا جو مجھ سے ایسی خطا ہوئی۔ آپ میری بری حرکت کا اچھا بدلہ دیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا’’ اے بیٹے! اب تیر کمان سے نکل چکا ہے اور اس کا لوٹ آنا اللہ کی مرضی کے خلاف ہے۔ ہاں!میں اللہ تعالیٰ سے دعا کروں گا کہ مرتے وقت تجھے ایمان نصیب کرے۔‘‘
نوجوان نے رو کر کہا: تو پھر ایسا ہی عرض کر دیں، میں نے اپنے ہاتھوں اپنی جڑ کاٹی ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ میں یہ دعا ضرور کروں گا۔‘‘
یہ سن کر اس شخص کی طبیعت دفعتاً بگڑ گئی اور وہ قے کرنے لگا۔ یہ قے کھانے پینے کی نہ تھی بلکہ موت کی تھی۔ چار آدمی اُسے چار پائی پر ڈال کر گھر لے گئے جہاں اس نے جان دے دی۔ دوسرے دن صبح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بارگاہ ِالٰہی میں عرض کی :
’’اے مالکِ کون و مکاں! اُسے ایمان سے محروم نہ فرما، تواپنی بادشاہی کے صدقے اسے بخش دے۔ اس نے یہ گستاخیاں غلطی سے کیں میں نے اسے بہت سمجھایا کہ وہ اس علم کے سیکھنے کا اہل نہیں ہے لیکن وہ سمجھا کہ میں اُسے ٹال رہا ہوں۔‘‘
حق تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعا قبول فرمالی۔ غیب سے آواز آئی کہ ’’ اے موسیٰ! ہم نے اُسے ایمان بخشا، اگر تم چاہو تو اسے زندہ کر دیں بلکہ سب مردے زندہ کر دیں۔‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی’’ یا اللہ! یہ دنیا تو فانی ہے۔ فنا کے اس گھر میں چند دنوں کے لیے لوٹ آنے سے کیا فائدہ! ہاں تو اُن سب پر اپنی رحمت کر اور انہیں بخش دے۔‘‘
اس حکایت میں مولانا رومؒ یہ سبق دیتے ہیں کہ دنیوی نقصان پر زیادہ غم نہیں کرنا چاہیے۔ ہر بیماری اور نقصان میں کوئی بھید ہوتاہے۔ جسم کی مصیبت یا مال کا نقصان کسی بڑی مصیبت کا صدقہ بن جاتاہے اور اُسے ٹال دیتا ہے۔