ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں | adab pehla qareena ha mohabat key qareeno mein


2.5/5 - (2 votes)

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں 

وقار احمد سروری قادری۔ لاہور

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒکے سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام اور اکتیسویں شیخ ِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں: ’’دنیا کا سب سے مشکل کام انسان کو انسان بنانا ہے۔‘‘ بظاہر یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اس کے معانی کتنے گہرے ہیں یہ وہی جان سکتا جو حقیقی انسان بننے کے مرحلے میں سے گزرا ہو یا گزر رہا ہو۔
چند ظاہری خصوصیات، شکل و صورت اور خدوخال کی بنا پر ہم انسان تو کہلاتے ہیں لیکن اسلام کے نزدیک انسان اور انسانیت کا معیار قدرے مختلف ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق اس وقت دنیا میں تقریباً آٹھ ارب انسان موجود ہیں۔ ان کا تعلق خواہ کسی بھی رنگ، نسل، مذہب یا قومیت سے ہو،لیکن سب انسان ہی کہلاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے جس مخلوق کو اپنا نائب اور خلیفہ قرار دیا اور اسے اشرف المخلوقات بنایا وہ محض چند ظاہری خصوصیات رکھنے کی بنا پر انسان کہلانے کی حقدار نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ حدیث ِ قدسی میں فرماتا ہے:
   خُلِقَتِ الْحِمَارُ بِصُوْرَۃِ الْبَشَرٍ
ترجمہ: (بہت سے انسان ایسے ہیں جو) انسان کی صورت میں گدھے تخلیق کئے گئے ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیکھنے میں تو وہ انسان ہی نظر آتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا مرتبہ گدھے سے زیادہ نہیں۔ یہ وہ بد نصیب ہیں جو ادب سے خالی ہیں۔ انسان چاہے کتنا ہی بڑا عالم کیوں نہ بن جائے  لیکن اگر ادب نہیں سیکھا تو وہ علم اس کے کسی کام کا نہیں کیونکہ 

ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

تسبی پھری تے دل نہیں پھریا، کی لیناں تسبی پھڑ کے ھُو
علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا، کی لیناں علم نوں پڑھ کے ھُو

انسان چاہے جتنی مرضی ڈگریاں حاصل کرلے، اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے، اپنے نام کے ساتھ عالم، فاضل، مفتی، علامہ، مولانا،  ڈاکٹر غرض کتنے ہی اعزازات و القابات لگا لے لیکن اگر اس نے ادب نہیں سیکھا تو اللہ کی نظر میں وہ بشری صورت کا حامل محض ایک گدھا ہی ہے۔ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ایک مسلّم حقیقت ہے کہ علم سے ادب نہیں سیکھا جا سکتا۔ ادب تو صحبت اور نسبت کا فیضان ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ انسان کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرے۔
 اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں بارہا اس بات کا تذکرہ فرمایا ہے کہ  اطیعوا اللّٰہ واطیعو الرسول  یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرو۔ اطاعت کے لئے محبت کا عنصر بہت ضروری ہے اور محبت کا سب سے پہلا قرینہ ہی ادب ہے۔ یہ بات تو دنیاوی رشتوں سے بھی ثابت ہے کہ جہاں محبت ہو گی وہاں ادب ضرور ہو گا۔ محبت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جس سے محبت کا دعویٰ کیا جائے اس کا ادب بھی کیا جائے، اسکی بات رَد نہ کی جائے، اس کی رائے کا احترام کیا جائے، اپنی خواہش پر محب کی خواہش کو فوقیت دی جائے۔ جب کبھی محب کا ذکر کیا جائے تو انتہائی ادب سے کیا جائے۔ یہ تو دنیاوی محبتوں کے تقاضے ہیں لیکن جو ذات ہمیں ستّر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرتی ہے اور جس کی محبت کا حق ہم پر سب سے زیادہ ہے کیا اس ذاتِ حق تعالیٰ سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے ادب کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھنا چاہئے؟ بالکل رکھنا چاہیے۔ جس کا تقاضا یہی ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں اللہ تعالیٰ کے احکامات، اس کی قائم کردہ حدود و قیود، اس کی رضا اور اس کی پسند و ناپسند کا خیال رکھا جائے۔ یہ سب اسی صورت میں ممکن ہے جب نہ صرف اللہ کے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کی جائے بلکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے محبوبین کی بھی اطاعت کی جائے۔ یہ محبوبین وہ فقرائے کاملین ہیں جن کی بدولت اللہ پاک اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لئے نبوت کا سلسلہ ختم ہو جانے کے باوجود بھی ہدایت کا چراغ روشن کئے ہوئے ہے ۔ انہی فقرائے کاملین کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ:
 اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرو اور اس کی جو تم میں اولی الامر ہے۔ (سورۃ النسا۔59)
اولی الامر یعنی صاحب ِ امرسے مرادانسانِ کامل یا فقیر ِ کامل ہے۔ حضرت سخی سلطان باھُوؒ نے اسے کئی ناموں سے موسوم کیا ہے جیسے فقیر ِ کامل، مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ، فقیر مالک الملکی، مرشد کامل اکمل۔
اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی راہنمائی کے لئے ہر دور میں ایک ایسی برگزیدہ ہستی ضرور بھیجتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا باطنی نائب ہوتا ہے اور قدمِ محمدؐ پر ہوتا ہے۔ وہی اُس دور کااُولی الامر، انسانِ کامل، فقیر ِ کامل اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ ہوتا ہے۔ قدمِ محمدؐ پر ہونے کی بنا پر وہ عظیم المرتبہ فقیر طالبانِ مولیٰ کی تربیت عین اسی طرز پر کرتا ہے جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت فرمائی لہٰذا اس فقیر ِ کامل، مرشد کامل اکمل کی اطاعت درحقیقت رسول ؐ کی اطاعت ہے اور رسول ؐ کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہے۔ ہم پر اِن فقرائے کاملین کا ادب حد درجہ لازم ہے اور ادب کا تقاضا یہ ہے کہ جب وہ مخلوقِ خدا کو دعوتِ حق دیں تو ادب سے ان کی بات سنی جائے اور دعوتِ حق پر لبیک کہا جائے۔ جب وہ طالبانِ مولیٰ کو تزکیۂ نفس کی خاطر مختلف آزمائشوں اور مجاہدات سے گزاریں تو ان کے اندازِ تربیت کا ادب کیا جائے اور اس بات پر یقین رکھا جائے کہ بے شک مرشد کامل اکمل کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ اپنے علم، عقل اور فہم و فراست کو پس ِ پشت ڈال کر باادب طریقے سے خلوصِ نیت کے ساتھ مرشد کی رضا اور خواہش کو تسلیم کیا جائے۔ جب اسکی بارگاہ میں حاضری دینے کی سعادت نصیب ہو تو انتہائی عاجزی اور مؤدبانہ طریقے سے حاضر ہوا جائے۔ مجلس میں جہاں جگہ ملے وہیں بیٹھ جانا چاہئے اور آدابِ محفل کو ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔ اس بات کا یقین رکھنا چاہئے کہ مرشد کامل اکمل دلوں کے حال سے واقف ہے اور اس کی محض ایک نگاہِ کرم ہی دل کی دنیا بدل دینے کی تاثیر رکھتی ہے۔ 

نگاہِ ولی میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی

اللہ تعالیٰ نے سورۃ حجرات میں آدابِ محفل کے متعلق کچھ یوں ارشاد فرمایاہے:
اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبی مکرم ؐ کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور ان کے ساتھ اس طرح بلند آواز سے بات (بھی) مت کیا کرو جس طرح تم ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو کہ) تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہونے کا) شعور تک نہ ہو۔ (حجرات ۔ 2)
 صحابہ کرامؓ جب بارگاہِ رسالت مآب ؐ میں حاضر ہوتے تواحترام، خاموشی اور انہماک سے دیدارِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں محو رہتے۔ جب نبی آخر زماںؐ گفتگو فرماتے تو انتہائی توجہ اور غور سے سنتے۔ کئی کئی گھنٹے مجلس ِ محمدیؐ میں ادب و احترام سے اس حد تک ساکت اور خاموش بیٹھتے کہ پرندے اکثر صحابہ کرامؓ کے سروں پر بیٹھ جاتے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زبانِ درّ فشاں سے جونہی کوئی ہدایت جاری ہوتی تو ہر ایک کی کوشش ہوتی کہ حکم کی بجا آوری میں دوسروں سے سبقت لے جائے۔
ادب کا یہی قرینہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے باطنی نائب، امام الوقت، انسانِ کامل ، فقیر ِ کامل، مرشد کامل اکمل کے لئے بھی اپنانا چاہئے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کی وہ نیک اور برگزیدہ ہستی ہے جو قدمِ محمد ؐ پر قائم ہے اور راہِ فقر پر امت ِ محمدیہ کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے۔ طالبانِ مولیٰ کو صحابہ کرامؓ کے عمل سے سیکھنا چاہئے کہ وہ کس طرح حکم ِ خداوندی کی روشنی میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتے تھے۔ عین اسی طرح طالبانِ حق کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ وہ مرشد کامل اکمل کی تعظیم میں ادب کا کوئی پہلو ہاتھ سے جانے نہ دیں۔ جو لوگ خلوصِ نیت سے اللہ، اس کے رسول ؐ اور اس کے رسولؐ کے نائب فقیر کامل کا ادب و احترام کرتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ سے تقویٰ جیسی نعمت پانے کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بے شک جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں (ادب و احترام کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجر ِ عظیم ہے۔‘‘ (حجرات ۔3)
جب اللہ جل شانہٗ ادب کی اتنی ترغیب دے رہا ہے اور ساتھ ہی باادب اور بے ادب کی جزا اور سزا بھی بتلا رہا ہے تو پھر اس اَمر کی اہمیت میں شک و شبہات باقی نہیں رہ جاتے۔ اپنے محبوبؐ کی بطور استاد اور مرشد کامل تعظیم کا نقشہ کھینچ کر اللہ تعالیٰ نے رہتی دنیا تک طالبانِ مولیٰ کے لئے یہ بات لازم و ملزوم کر دی کہ اگر تقویٰ یعنی اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے ادب کی سیڑھی پر قدم رکھنا ہو گا محبت، عشق، وفا اور قربانی تو بہت بعد کے معاملات ہیں۔ اسلام تو وہ دین ہے جس نے انسان کو انسانیت کا ادب کرنا سکھایا، ماں باپ کا ادب، بزرگوں کا ادب، اساتذہ کا ادب، رشتوں بالخصوص عورت کا ادب کرنا سکھایا۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب لڑکی کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا لیکن پھر شریعت ِ محمدیؐ نے اِس وحشیانہ رسم سمیت تمام باطل رسوم و رواج کا خاتمہ کیا۔ آج کا ترقی یافتہ معاشرہ اسلام کا ہی مرہونِ منت ہے کہ اگر دین ِ اسلام نے ادب و احترام کی بنیاد نہ رکھی ہوتی تو شاید انسانیت کرۂ ارض سے ناپید ہو چکی ہوتی کیونکہ جس نے ایک انسان کی جان بچائی اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔ اسلام تو وہ دین ہے جو ظاہری علوم سکھانے والے اساتذہ کرام کے ادب اور تعظیم و تکریم میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تو پھر اُس استادکے ادب کا کیا درجہ ہو گا جو انسان کو درحقیقت انسان بناتا ہے یعنی ایک مرشد کامل اکمل اپنی نگاہِ کاملہ سے انسان کے باطن کو پاک صاف کرتا ہے اور نفس کا تزکیہ کرکے اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور مجلس ِ محمدیؐ کی حضوری کی راہ کا مسافر بن سکے۔ مرشد کامل اکمل ایک طالب ِ دنیا کے دل سے دنیا اور اس کی خواہشات کو نکال کر دل میں معرفت ِ الٰہی کا نور روشن کرتا ہے، خصائل ِ بد اور باطنی بیماریوں سے طالب کو نجات دلا کر اسے ایک ایسا انسان بناتا ہے جو عارف، محبوبِ خدا اور محبوبِ مصطفی ؐ ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ کام ایک صاحب ِ تصرف مرشد کامل اکمل ہی سر انجام دے سکتا ہے۔
دورِ حاضر کے فقیر ِ کامل، انسانِ کامل، مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس دنیا بھر میں بے شمار طالبانِ مولیٰ کا تزکیہ ٔ نفس کرکے مقصد ِ حیات میں کامیاب و کامران کر چکے ہیں اور اَن گنت ایسے ہیں جو آپ مدظلہ الاقدس کی مجلس میں اپنے باطن کی تربیت کے مرحلہ سے گزر رہے ہیں اور روز بروز بلکہ لمحہ بہ لمحہ راہِ فقر کی منازل طے کر کے ترقی پا رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کے کامل تصرف کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس کے بے شمار مریدین ایسے بھی ہیں جو محض انٹرنیٹ پر آپ مدظلہ الاقدس کی کاوشوں اورفقر ِ محمدیؐ کی خدمات کے پیش ِ نظر آن لائن بیعت ہوئے۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو کبھی بھی ظاہری طور پر آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر نہیں ہو ئے مگر آپ مدظلہ الاقدس اپنے کامل تصرف سے اُن کی بھی باطنی تربیت فرما رہے ہیں۔ وہ طالبانِ مولیٰ آپ مدظلہ الاقدس کے بے پناہ باطنی تصرف کی زندہ مثال ہیں۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سات سمندر پار ہزاروں میل دور موجود اپنے مریدین پر بھی نگاہِ کرم فرماتے ہوئے انہیں حقیقی انسان بنارہے ہیں۔ 
بات خواہ ظاہر کی ہو یا باطن کی، ایک کامیاب طالب وہی ہوتا ہے جو اپنے استاد یعنی مرشد کا دل و جان سے ادب کرتا ہے۔ جو طالب جس قدر خلوص، عاجزی و انکساری اور ادب سے مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے اتنا ہی فیض یاب ہوتا ہے کیونکہ

با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ طالبانِ مولیٰ کی راہنمائی کرتے ہوئے پنجابی بیت میں فرماتے ہیں:

بے ادباں ناں سار ادب دی، گئے ادباں توں وانجے ھُو
جیہڑے ہون مٹی دے بھانڈے، کدی نہ ہوندے کانجے ھُو
جیہڑے مڈھ قدیم دے کھیڑے، کدی نہ ہوندے رانجھے ھُو
جیں دل حضور نہ منگیا باھُوؒ، گئے دوہیں جہانیں وانجے ھُو

مفہوم: بے ادب لوگوں کو مقامِ ادب کی خبر، پہچان اور شعور نہیں ہے۔ یہ وہ بد نصیب ہیں جو اپنی بے ادبی اور شقاوت کی وجہ سے وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر سکتے جو باادب حاصل کر لیتے ہیں اور پھر اسم ِ اللہ ذات کے ذکر، تصور، مشق ِ مرقومِ وجودیہ اور مرشد کامل اکمل کی راہبری اور راہنمائی کے بغیر ازلی فطرت کبھی تبدیل نہیں ہو سکتی۔ جو ازلی کھیڑے (شقی) ہیں وہ کبھی رانجھے (سعید) نہیں بن سکتے اور مٹی کے برتنوں کو کبھی کانچ کے برتن نہیں بنایا جا سکتا۔ بے ادب لوگ (خواہ وہ بے ادب ہوں اللہ تعالیٰ یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، صحابہ کرامؓ، اہل ِ بیتؓ، اولیا کرام، فقرا کاملین یا مرشد کامل کے) دونوں جہانوں میں معرفت ِ الٰہی سے محروم رہتے ہیں جیسا کہ مشہور ہے ’’باادب بانصیب، بے ادب بے نصیب‘‘۔ جس نے حق تعالیٰ کی حضوری طلب نہ کی وہ دونوں جہانوں میں خالی ہاتھ رہ گیا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ادب و احترام سے دورِ حاضر کے مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر فقر محمدیؐ سے مستفید ہونے اور ایک حقیقی انسان بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اپنا تبصرہ بھیجیں