مناسک ِحج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)
تحریر: سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
(Manasik-e-hajj ki Haqiqat)
جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat) -حج دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج کے لغوی معنی ’’زیارت کرنا‘‘ اور ’’ارادہ کرنا‘‘ کے ہیں لیکن اصطلاحِ شریعت میں یہ وہ مخصوص عبادت ہے جو اسلامی ماہ ذوالحج کے چھ دنوں 8 ذوالحج سے 13 ذوالحج تک منیٰ، میدانِ عرفات، مزدلفہ، بیت اللہ شریف میں ادا کی جاتی ہے۔ حج 9 ھ میں فرض ہوا اور ہر اُس صاحبِ استطاعت مسلمان مرد اور عورت پر زندگی میں ایک بار فرض ہے جو عاقل، بالغ، تندرست اور آزاد ہو اور مالی لحاظ سے حج ِبیت اللہ کے سفر کے اخراجات برداشت کر سکتا ہو۔ حج کا منکر دینِ اسلام سے خارج ہے اور اس کا تارک اور شرعی عذر کے بغیر دیر کرنے والا سخت گناہ گار، فاسق اور فاجر ہے۔حکم ہے کہ اس کی شہادت بھی قبول نہ کی جائے۔ قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور اللہ (Allah | Hoo) کی طرف سے اُن لوگوں پر اس گھر (بیت اللہ) کا حج فرض کر دیا گیا ہے جو وہاں تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور جو کوئی اسے نہ مانے تو جان لے کہ بیشک اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔ (سورہ آلِ عمران۔ 97)
حج (Hajj)کے جانے پہچانے چند مہینے ہیں تو جو شخص ان میں حج (Hajj) کی نیت کر لے تو دورانِ حج نہ تو وہ کوئی بے حیائی کی بات کرے اور نہ کوئی گناہ کرے اور نہ کسی سے لڑائی جھگڑا کرے، تم جو کوئی بھی خیر کا کام کرو تو اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے اور تم اپنا زادِ راہ ساتھ لے کر چلو لیکن (خوب یاد رکھو) بہترین زادِ راہ ’’تقویٰ‘‘ ہے۔ اس لیے اے اہلِ شعور !مجھ سے ڈرتے رہو۔ (سورۃ البقرہ۔ 197)
اور لوگوں کو حج (Hajj) کے لیے پکارو‘ پیدل چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر چلے آئیں۔ (سورۃ الحج۔ 27)
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 197 میں بہترین زادِ راہ تقویٰ کو قرار دیا گیا ہے۔ تقویٰ کے لغوی معنی پرہیز گاری یا کسی چیز سے بچنا اور محفوظ رہنا ہے لیکن اصطلاحِ فقر میں قلب (باطن) کا خلق سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کا نام تقویٰ ہے۔ جتنا کسی انسان کا قلب اللہ تعالیٰ کے قریب ہوگا وہ اتنا ہی متقی یا صاحبِ تقویٰ ہوگا اس سے معلوم ہوا کہ تقویٰ دل (باطن) میں ہوتا ہے۔ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کسی نے تقویٰ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) نے انگلی سے قلب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا تقویٰ یہاں ہوتا ہے۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)–سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) ’سلطان الوھم‘ میں فرماتے ہیں:
’’دِل کو ماسویٰ اللہ سے پاک کرنے کا نام تقویٰ ہے۔‘
عام اصطلاح میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی عمل کو کرتے وقت جو دل کی کیفیت اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتی ہے وہی تقویٰ ہے۔ عمل سے مخلوق کے سامنے ریاکاری ہو سکتی ہے‘ لیکن قلب سے اللہ تعالیٰ (Allah | Hoo) کے حضور ریاکاری ممکن نہیں ہے اس لیے احادیث مبارکہ ہیں ’’اللہ تعالیٰ نیتوں کو دیکھتا ہے اعمال کو نہیں‘‘ یا ’’اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتیں دیکھتا ہے اور نہ اعمال بلکہ وہ تمہاری نیتوں اور دلوں کو دیکھتا ہے‘‘ اور ’’منافق کا عمل اعلیٰ ہوتا ہے اس کی نیت سے اور مومن کی نیت اعلیٰ ہوتی ہے اس کے عمل سے۔‘‘Manasik-e-hajj ki Haqiqat
حج (Hajj) کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے:
جو شخص اس حالت میں مرے کہ استطاعت کے باوجود اُس نے حج نہ کیا ہو تو اُسے کہہ دو کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
جس نے حج کیا اور پھر جسم کو فسق و فجور سے آلودہ نہ ہونے دیا، زبان کو بے ہودہ اور ناشائستہ باتوں سے پاک رکھا تو وہ تمام گناہوں سے ایسے ہی پاک ہوگیا جیسے کہ پیدا ہونے کے دن پاک تھا۔
بہت سے گناہ گار ایسے ہیں کہ اُن کا کفارہ سوائے عرفات میں کھڑا ہونے کے ادا نہیں ہو سکتا۔
شیطان کو کسی دن اتنا ذلیل و خوار نہ پاؤ گے جتنا کہ وہ روزِ عرفات ذلیل اور حقیر ہوتا ہے کیونکہ اُس دن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر رحمت کے دروازے کھول دیتاہے اور بڑے بڑے کبیرہ گناہوں کو بخش دیتا ہے۔
اس سے بڑھ کر شدید گناہ کوئی اور نہیں کہ کوئی میدانِ عرفات میں کھڑا ہو کر یہ سوچے کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔
حج کی اقسام
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)-
حج (Hajj) تین قسم کا ہوتا ہے:
جس کے ساتھ عمرہ نہ ملایا جائے وہ حجِ افراد کہلاتا ہے۔
حج اور عمرہ ایک ہی احرام سے ادا کرنے کو حجِ قران کہتے ہیں۔
عمرہ اور حج (Hajj) ایک ساتھ کرے لیکن عمرہ کا احرام الگ باندھا جائے اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد کھول دیا جائے پھر 8 ذوالحج کو دوبارہ احرام باندھ کر حج کرے تو اس حج (Hajj) کو حجِ تمتع کہتے ہیں۔
حج (Hajj) میں تمام عبادات کی خصوصیات شامل ہیں۔ اس میں نمازوں کی طرح دعا اور مناجات، روزوں کی طرح بھوک، نفسانی خواہشات سے پرہیز اور زکوٰۃ کی طرح مالی قربانی اور جہاد کی طرح بدنی اور جسمانی مشقت شامل ہے۔ حج (Hajj) کی عبادات کا تعلق ظاہر سے زیادہ باطن کے ساتھ ہے جس کا ذکر آگے آرہا ہے۔
حجِ شریعت
حجِ شریعت یہ ہے کہ شرائط کی پابندی کے ساتھ حجِ بیت اللہ کے ارکان ادا کرے حتیٰ کہ ثوابِ حج (Hajj)حاصل ہو جائے۔ اگر شرائط کی ادائیگی میں کوئی نقص واقع ہو جائے تو حج (Hajj) بھی ناقص اور فاسد ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ (Allah | Hoo) نے قرآنِ مجید میں ہمیں کامل حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَاَتِمُّوْا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ (سورۃ البقرہ۔196)
ترجمہ: اور اللہ (Allah | Hoo) (کو راضی کرنے) کے لیے حج اور عمرہ کا اتمام کرو۔
اس کی شرائط یہ ہیں کہ پہلے احرام باندھ کر مکہ مکرمہ میں داخل ہو، پھر طوافِ قدوم، پھر منیٰ میں قیام، عرفات میں وقوف، پھر مزدلفہ میں شب بسری، رمی جمرات اور منیٰ میں قربانی پھر بیت الحرام میں داخلہ، پھر طوافِ کعبہ اور پھر مقامِ ابراہیم پر دو رکعت واجب الطواف پڑھنا۔ اس کے بعد وہ تمام باتیں حلال ہوجاتی ہیں جن کا کرنا اللہ تعالیٰ نے احرام کی حالت میں حرام قرار دیا ہے۔
حجِ باطن
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)– حج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ حاجی بیت اللہ کا دیدار اور مقدس جگہوں کی زیارت کر کے گھر واپس آجائے بلکہ حج کا مقصد ’’صاحبِ خانہ کی حضوری، مشاہدہ اور مکاشفہ‘‘ ہے۔
حج (Hajj)کیا ہے؟ …یہ خالصتاً اللہ کیلئے سفر کرنا ہے۔ اپنا وقت اور مال خرچ کرکے وہاں پر پہنچنا ہے جہاں اللہ کی نشانیاں ہیں۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا پر سرِتسلیم خم کر دیا اور دنیا کا نفع نقصان نہ دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے اِن مقامات کو اپنی نشانیاں بنا لیا اور اب بار بار اپنے محبوب بندوں کا عمل لوگوں سے کروا کر اُن کی محبت کے انداز کو دیکھ رہا ہے۔ حج کی تمام رسومات اسی بات کا عملی اظہار ہیں۔ بندہ اپنے ربّ کی رضا کیلئے مصروفِ عمل ہے۔ وہ اللہ کے دوستوں کا دوست اور اللہ کے دشمنوں کا دشمن ہے۔ روزِ قیامت حشر کے میدان میں اپنے اللہ کے سامنے حاضری کی کیفیت کو آج ہی اس نے اپنے اوپر طاری کر لیا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اپنے اللہ کو یاد کرنے والا ہے۔
حج… بظاہر ایک وقتی عبادت ہے مگر دراصل یہ ایک بندۂ مومن کی پوری زندگی کی تصویر ہے۔ یہ بندے کا اپنے ربّ کی ربوبیت ا ور اپنی عبدیت کا اقرار نامہ ہے۔ حج مومن کی زندگی کی تعبیر بھی ہے اور اس کی موت کی تعبیر بھی۔ حج ،حق تعالیٰ کے دیدار کا نام ہے۔ یہ دنیا کی زندگی میں اپنے ربّ سے قریب ہونے کی انتہائی شکل ہے۔ دوسری عبادتیں اگر اللہ کی یاد ہیں تو حج بارگاہِ قدس تک بندے کا پہنچ جانا ہے۔
کعبہ کے سامنے کھڑا ہو کر آدمی محسوس کرتا ہے گویا وہ خود اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہے، طواف اس حقیقت کا مظہر ہے کہ بندہ اپنے ربّ کے گرد پروانہ وار گھوم رہا ہے… وہ ملتزم کو پکڑ کر دعا کرتا ہے تو اسے یوں محسوس ہوتا ہے گویااپنے ربّ کا دامن ہاتھ آگیا ہے جس سے وہ بے تابانہ لپٹ گیا ہے اور اپنی ساری بات اس سے کہہ دینا چاہتا ہے۔ قلبِ انسانی پر مذکورہ کیفیات کا نزول تب ہی ممکن ہے جب قلب میں تقویٰ ہو۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ (Ghous-al-Azam Sayyiduna Hazrat Abdul Qadir Jilani) حجِ شریعت اور طریقت کے بارے میں فرماتے ہیں:
حجِ شریعت: حجِ شریعت یہ ہے کہ تمام شرائط اور ارکان کے ساتھ بیت اللہ کا حج کیا جائے یہاں تک کہ (حاجی کو ) حج (Hajj) کا ثواب حاصل ہو جائے۔لیکن اگر شرائط (کی ادائیگی) میں کسی قسم کا نقص واقع ہو جائے تو حج کا ثواب ناقص اور (حج) باطل ہو جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرمان میں حج (Hajj) کو ( بغیر کسی نقص کے) کامل کرنے کا حکم فرمایا ہے:
وَ اَتِمُّواالْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَلِلّٰہِ ط (البقرہ۔196)
ترجمہ: اور اللہ (کو راضی کرنے)کے لیے حج اور عمرہ کا اتمام کرو۔
حج کی شرائط یہ ہیں: سب سے پہلے احرام باندھنا، مکہ میں داخل ہونا، طوافِ قدوم کرنا(مسجد حرام میں داخل ہونے کے وقت جو طواف کیا جاتا ہے۔) ، عرفات میں وقوف(میدانِ عرفات میں رک کر حج (Hajj) کا خطبہ سننا جہاں ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے پڑھی جاتی ہے۔) کرنا، مزدلفہ میں رات گزارنا، منیٰ میں قربانی کرنا ، حرم میں داخل ہونا، کعبہ کے گرد سات مرتبہ طواف کرنا، آب ِ زم زم پینا اور مقامِ ابراہیم خلیلؑ اللہ پر دو رکعتیں واجب الطّواف پڑھنا۔
ان (شرائط کی ادائیگی) کے بعد وہ سب چیزیں حلال ہو جاتی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے احرام (کی حالت) میں حرام قرار دی تھیں۔ پس (حاجی کے لیے) اس حج کی جزا جہنم سے رہائی اور اللہ تعالیٰ کے قہر سے امان پانا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰ مِنًا (سورۃ آل عمران۔ 97)
ترجمہ: اور جو اس ( کے حرم) میں داخل ہو ا وہ امان پا گیا۔
اس کے بعد طوافِ صدر (مسجد حرام سے رخصت ہونے کے وقت بیت اللہ کا آخری الوداعی طواف) اور پھر اپنے وطن واپسی ہے ۔ اللہ تعالیٰ (Allah | Hoo) ہمیں اور آپ کو اس (حج ِ شریعت) کی توفیق عطا فرمائے۔
حجِ طریقت: حجِ طریقت میں زادِ راہ اور سواری سب سے پہلے صاحبِ تلقین کی تلاش اور اس سے تلقین حاصل کرنا ہے اور پھر (ذکر کے) معنی پر نظر رکھتے ہوئے زبان سے دائمی ذکر کرنا ہے اور ذکر سے مراد زبان سے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کا ذکر کرنا ہے۔ جب قلب کو (دائمی) حیات حاصل ہوجائے تو باطن میں ذکرِ حق تعالیٰ میں مشغول ہوجانا چاہیے یہاں تک کہ سب سے پہلے اسمائے صفات کے دائمی ذکر سے ( قلب کا) تصفیہ ہو جائے جس کے باعث جمالِ حق تعالیٰ کی صفات کے انوار سے (باطن میں) کعبہ ٔ سرّ ظاہر ہو جائے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کو حکم فرمایا:
اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ (سورۃ البقرہ۔125)
ترجمہ: میرے گھر ( بیت اللہ ) کو طواف کرنے والوں کے لیے پاکیزہ رکھو۔۔۔آخر تک ۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- پس ظاہری کعبہ مخلوقات میں سے طواف کرنے والوں کے لیے صاف کیا جاتا ہے اور باطنی کعبہ خالق کے مشاہدہ کے لیے ہے۔ اس (ذاتِ حق تعالیٰ) کا جلوہ دیکھنے کے لیے کعبہ ٔ باطن کو ماسویٰ اللہ سے طہارت دی جائے ، پھر روحِ قدسی کے نور سے احرام باندھا جائے اور قلب کے کعبہ میں داخل ہوا جائے اور پھر اسم’’ اَللّٰہُ ‘‘ کے دائمی ذکر کے ساتھ طوافِ قدوم کیا جائے اور عرفاتِ قلب جو کہ مناجات کا مقام ہے ‘ میں تیسرے اسم ’’ ھوُ‘‘ اور چوتھے اسم ’’حق‘‘ کے ذکر کے ساتھ وقوف کیا جائے اور پھر فواد کے مزدلفہ میں آئے اور پانچویں اسم ’’ حیّ‘‘ اور چھٹے اسم ’’ قیوم‘‘ کو (ذکر میں ) جمع کرے اور منیٰ یعنی مقامِ سرِّ میں آئے جو حرمین کے درمیان ہے اور اس کے مابین وقوف کرے اور ساتویں اسم ’’قہار‘‘ کے دائمی ذکر سے ( منیٰ یعنی مقامِ سرِّ میں ) نفسِ مطمئنہ کی قربانی کرے کہ یہ اسم فنا کا باعث اور کفر کے حجاب کھولنے والا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
اَلْکُفْرُ وَالْاِیْمَانُ مَقَامَانِ مِنْ وَّرَآئِ الْعَرْشِ وَھُمَا حِجَابَانِ بَیْنِ الْعَبْدِ وَرَبِّہٖ عَزَّ شَانُہٗ اَحَدُ ھُمَا اَسْوَدُوَالْاٰخَرُ اَبْیَضُ
ترجمہ: کفر اور ایمان عرش سے آگے کے دو مقامات ہیں اور یہ دونوں (مقامات) بندے اور اس کے ربّ کے درمیان حجاب ہیں اور دونوں میں سے ایک کا رنگ سیاہ اور دوسرے کا سفید ہے۔ اس (قربانی کے) بعد حلق ہے یعنی آٹھویں اسم کے ذکر سے روحِ قدسی کا صفاتِ بشریت سے حلق کرے ( یعنی ان سے نجات حاصل کرے) اور پھر نویں اسم کے ذکر سے حرمِ سرِّ میں داخل ہو جائے اور اعتکاف کرنے والوں کا دیدار کرے اور دسویں اسم کے ذکر سے مقامِ قرب اور انسیت (محبت) میں اعتکاف کرے اور بلا کیف و تشبیہ پاک و بے نیاز اور بلند شان والے ربّ کے جمال کا دیدار کرے اور پھر گیارھویں اسم مع چھ اسما فروعات کے دائمی ذکر سے سات طواف کرے اور ( طواف کرنے کے بعد) بارھویں اسم کے ذکر پیالے میں بدستِ قدرت (پاکیزہ) شراب پیئے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا:
وَسَقَاھُمْ رَبُّھُمْ شَرَاباً طَھُوْرًا (سورۃ الدھر۔21)
ترجمہ: اور ان کا ربّ انہیں پاکیزہ شراب پلائے گا۔
اور پھر چہرۂ حق تعالیٰ سے نقاب اٹھ جاتا ہے اور (کسی بھی قسم کی) تشبیہہ سے پاک ذات ( یعنی اللہ تعالیٰ) کو اسی کے نور سے دیکھتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے مطلب ہے:
مَاعَیْنٌ رَاَتْ وَلاَاُذُنٌ سَمِعَتْ وَلاَخَطَرَ عَلیٰ قَلْبِ بَشَرٍ
ترجمہ: جو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی کے قلب پر اس کا خیال گزرا۔ (بخاری۔ 4782)
یعنی بغیر حروف اور آواز کے واسطہ کے اللہ تعالیٰ سے کلام کرتا ہے اور کسی بشر کے قلب پر (ان کیفیات کا ) خیال نہ گزرنے سے مراد اللہ تعالیٰ (Allah | Hoo) کا دیدار اور اس سے خطاب کا ذوق ہے۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- پس اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا تھا وہ حلال ہو جاتی ہیں (قربِ حق کے سفر میں طالبِ حق کو تصفیہ قلب کے لیے بہت سی حلال چیزوں کو بھی ترک کرنا پڑتا ہے تاکہ قلب میں کسی قسم کی لذت اور خواہش باقی نہ رہے۔ قربِ حق میں پہنچ کر وہ سب چیزیں جو پہلے ترک کی گئیں تھیں، حلال ہو جاتی ہیں۔) اور اسمائے توحید کی تکرار سے برائیاں نیکیوں میں بدل جاتی ہیں جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحًا فَاُولٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰ تِھِمْ حَسَنَاتٍ (سورۃ الفرقان۔70)
ترجمہ: جو (سچی) توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک اعمال کرے پس اللہ اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔ ( یعنی جو قربِ حق تعالیٰ کی طلب کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ کر کے تصدیق بالقلب سے ایمان لائے جو کہ معرفت ِ حق تعالیٰ سے ہی ممکن ہے تب ہی برائیاں نیکیوں میں بدلتی ہیں ورنہ زبانی اقرار اور ظاہری توبہ سے اللہ پاک (Allah | Hoo) اگر چاہے تو گناہوں کو تو بخش دیتا ہے مگر برائیاں نیکیوں میں نہیں بدلتیں۔)
اور پھر وہ نفسانی تصرفات سے آزاد ہو جاتا ہے اور خوف و غم سے امان پا لیتا ہے جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَاخَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔ (یونس۔62)
ترجمہ: بے شک اللہ کے ولیوں کو نہ تو کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی غم۔
اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور جو دو کرم سے ہمیں بھی یہ (حجِ طریقت) نصیب فرمائے۔
پھر تمام اسماء کی تکرار سے طوافِ صدر ہے اور بارھویں اسم کے ذکر سے اپنے اصلی وطن عالمِ قدس اور عالمِ احسن تقویم میں لوٹنا ہے۔ یہ (مقام) عالمِ یقین سے متعلق ہے اور یہ تاویلات دائرہ زبان اور عقل کے اندر ہیں اور جو (مقامات) اس سے آگے ہیں اس کی خبر دینا (کسی بشر کے لیے) ممکن نہیں اور نہ کسی (عام انسان کے) فہم اور ذہن کو ان کا ادراک ہو سکتا ہے اور نہ ہی حوصلے ان (مقامات کے انوار و تجلیات کو برداشت کرنے) کی طاقت رکھتے ہیں جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
اَنَّ مِنْ الْعُلُوْمِ کَھَیْئَۃِ الْمَکْنُوْنِ لاَیَعْلَمُھَا اِلاَّ الْعُلَمَآ ئُ بِاللّٰہِ
ترجمہ: بے شک علوم میں ایک علم ہے جسے پوشیدہ رکھا گیا ہے اور اسے علمائے ربانی کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- پس جب وہ (علمائے ربانی) اس (پوشیدہ و باطنی علم) کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو اہلِ عزت اس کا انکار نہیں کرتے کیونکہ عارف جو بات بھی کرتا ہے وہ حقیقی (اور باطنی) ہوتی ہے اور عالم جو بات بھی کرتا ہے وہ سطحی (اور ظاہری) ہوتی ہے ۔ پس عارف کا علم اللہ تعالیٰ کا سرِّ ہے جس کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآئَ (سورۃ البقرہ۔255)
ترجمہ: اور وہ اس کے علم میں کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ (اللہ ) چاہتا ہے۔
یعنی وہ انبیا اور اولیا ہیں(جن کو وہ اپنے علم تک رسائی دیتا ہے)۔
فَاِنَّہُ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی ۔ اَللّٰہُ لَآ اَلٰہَ اِلَّا ھُو ط لَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی ۔ (طٰہٰ۔ 7۔8)
ترجمہ: پس وہ (اللہ) ہر مخفی اور پوشیدہ چیز کو جانتا ہے اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور تمام اچھے نام اس کے ہیں۔
اور اللہ ہی (سب) جانتا ہے۔
(Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- حجۃ الاسلام حضرت امام محمد غزالی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
آدمی کو پیدا ہی اس طرز پر کیا گیا ہے کہ وہ جب تک اپنے تمام اختیارات اللہ تعالیٰ کے حوالے نہ کر دے اپنی سعادت کے کمال کو نہیں پہنچ سکتا۔ اپنے نفس کی پیروی میں اپنے اختیارات کو استعمال کرنا اُس کی ہلاکت کا سبب ہے کیونکہ آدمی جب تک اپنے اختیارات پر رہتا ہے‘ اُس کا کوئی عمل بھی شریعت کے مطابق نہیں ہوتا بلکہ نفس کی موافقت اور مطابقت میں ہوتا ہے اور اُس کا کوئی معاملہ بھی بندے کی طرح نہیں ہوتا حالانکہ اُس کی سعادت اطاعت و بندگی ہی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگلی امتوں کو رہبانیت اور سیاحت کا حکم دیا گیا تھا یہاں تک کہ اُن کے امتی لوگوں سے علیحدہ ہو کر دور کہیں پہاڑوں پر نکل جاتے تھے اور ریاضت و مجاہدہ میں مستغرق رہتے تھے۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لوگوں نے پوچھا کہ ہمارے دین میں رہبانیت و سیاحت کیوں نہیں ہے؟ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
’’ہمیں اس کے بدلے جہاد اور حج کا حکم دیا گیا ہے‘‘۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- پس اللہ تعالیٰ نے رہبانیت کے بدلے جو اس امت کو حج کا حکم دیا ہے تو اسی لیے کہ اس سے بھی مقصود مجاہدہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کعبہ شریف کو اپنے ساتھ نسبت کا شرفِ عظیم بخشا اور دنیاوی بادشاہوں کے دربار کی مثل بنا کر اس کے اطراف و جوانب کو قابلِ احترام قرار دیا۔ وہاں پر شکار کرنے یا درخت کاٹنے کو حرام قرار دیا اور اُس کی عظمت و حرمت کے لیے شاہی درباروں کے میدانوں کی طرح میدانِ عرفات کو حرم کے بالکل سامنے بنا دیا تاکہ چار دانگِ عالم سے لوگ جوق در جوق خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے آیا کریں حالانکہ وہ اس حقیقت کو خوب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ مکان اور گھر میں رہنے سے پاک و منزّہ ہے۔ لیکن آد می کی فطرت ہے کہ جب اُس پر دوست کی محبت کا جذبہ غالب آتا ہے تو اُسے دوست سے نسبت رکھنے والی ہر چیز پیاری لگنے لگتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ اللہ سے محبت کرنے والے اُس سے منسوب خانہ کعبہ کو پیار کرنے لگتے ہیں اور اُسی شوق اور آرزو میں اپنے اہل و عیال،مال اور وطن کو پسِ پشت ڈال کر جنگل و بیابان کے خطرات کو برداشت کرتے ہوئے عاجزانہ طور پر اس سے نسبت رکھنے والے خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکل پڑتے ہیں۔ اس عبادت میں ان کو ایسے افعال کا حکم دیا گیا ہے جنہیں عقل نہیں سمجھ سکتی۔ مثال کے طور پر عقل کو کیا خبر کہ کنکریاں پھینکنا یا صفا و مروہ کے درمیان دوڑتے پھرنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اور یہ اس لیے ہے کہ جو بات عقل میں آسکتی ہے اُس کے ساتھ نفس کو برابر تعلق رہتا ہے۔ نفس کو معلوم ہوتا ہے کہ عقل کیا کام کر رہی ہے؟ اور کس غرض سے کر رہی ہے؟ لیکن کمالِ بندگی یہ ہے کہ بندہ اپنے مالک کے حکم کا پابند ہو چاہے وہ حکم اُس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ چنانچہ پتھر پھینکنا اور سعی کرنا بلاچوں و چرا اسی تعمیلِ حکم کی زندہ مثال ہے۔ ان احکام کا بجا لانا صرف بندگی کی بنا پر ہوتا ہے ورنہ عقل کے بس میں ہو تو دلیلوں میں الجھا کر رکھ دے۔ لہٰذا حج سے اس بات کی تربیت حاصل ہوتی ہے کہ بندہ اپنے مولیٰ کے سامنے اس حالت میں رہے کہ اُس کے وجود میں طلبِ مولیٰ کے سوا کسی اور چیز کا نام و نشان موجود نہ ہو اور احکامِ خداوندی کی بجا آوری میں اُس کی عقل اور طبیعت کو بالکل دخل نہ ہو۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Sultan-ul-Arifeen Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) ’’حاجی‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں:
حاجی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ حاجی صاحبِ کرم اہلِ باطن اور حاجی صاحبِ حرم اہلِ بطن۔جب حاجی ولی اللہ حرمِ کعبہ میں اعتقاد کے ساتھ داخل ہوتا ہے تو تمام حرمِ کعبہ اس پر قربِ حضور کے انوار کی تجلی کرتا ہے اور جب وہ خانہ کعبہ میں داخل ہو کر اس کا طواف کرتا ہے تو مشرفِ دیدار ہوجاتا ہے۔ حاجیٔ باطن دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوئے بغیر ہرگز خانہ کعبہ سے باہر نہیں آتا۔ اہلِ کعبۂ دیدار دنیائے مردار کی طلب سے بیزار ہو کر اس سے ہزار بار استغفار کرتا ہے۔ لیکن حاجی صاحبِ بطن ہر وقت روٹی کے لیے پریشان اور شکایت کرتا رہتا ہے۔ حاجی ولی اللہ جب میدانِ عرفات میں لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ پکارتا ہے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے تو اس وقت اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجا ب باقی نہیں رہتا۔ جب وہ مدینہ منورہ میں روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Roza e Rasool Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) میں داخل ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Prophet Mohammad pbuh) بے شک قبر مبارک سے باہر تشریف لاکر اس سے دست مصافحہ فرماتے ہیں اور دست گیری کرتے ہیں، اسے منصب و مراتب اور تعلیم و تلقین سے نوازتے ہیں اور سرفراز و ممتاز فرما کر رخصت کرتے ہیں۔ ایسا حاجی فرمانبردار، دنیائے جیفہ مردار سے تارک فارغ ، باطن میں مست اور ظاہر میں ہوشیار رہتا ہے اور کبھی دنیا کی طرف نظر نہیں کرتا۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (نور الہدی کلاں)
مقامِ غور
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- آج کے دور میں 50 یا 60 لاکھ سے زائد مسلمان حج (Hajj) کی سعادت ہر سال حاصل کرتے ہیں لیکن امتِ مسلمہ ہے کہ دن بدن کمزور ہو رہی ہے اور نفاق بڑھ رہا ہے۔ اغیار کے مطیع ہو رہے ہیں، دل تقویٰ سے خالی اور ہر لمحہ دنیا سے محبت اور اس کے بارے میں تفکر میں مبتلا اور موت کے خوف سے لرزاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دل میں تقویٰ نہیں ہے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa-Aalihi Wasallam) کا فرمان ہے:
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب مالدار لوگ تفریح کیلئے حج (Hajj) کریں گے اور ان کے علما دکھاوے اور شہرت کیلئے حج کریں گے اور ان کے غریب لوگ مانگنے کیلئے حج کریں گے۔
مناسکِ حج کی حقیقت (Manasik-e-hajj ki Haqiqat)- مذکورہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو خاص طور پر اپنا احتساب کرنا چاہیے اور انہیں غور کرنا چاہیے کہ ان کا حج واقعی اس روایت کا مصداق تو نہیں بن گیا؟ مالدار حضرات سوچیں کہ ان کے حج میں تقویٰ کی روح ہے یا سیر و تفریح کی روح، عام لوگ یہ سوچیں کہ وہ دیدار کیلئے حج کرنے جاتے ہیں یا تجارتی فائدے کیلئے۔ علما غور کریں کہ وہ عبدیت کا سبق لینے کیلئے بیت اللہ جاتے ہیں یا اپنی پیشوایانہ حیثیت و مرتبہ کو بلند کرنے کیلئے۔ اسی طرح غریب لوگ سوچیں کہ حج کو انہوں نے مانگنے کا ذریعہ بنایا یا مقصد کوئی دینی و اُخروی بھلائی ہے؟
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی حج (Hajj) ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(نوٹ: یہ مضمون سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیف مبارکہ ’’حقیقتِ حج‘‘ سے اخذ کیا گیا ہے۔)
(Manasik-e-hajj ki Haqiqat)
حج پر بہترین مضمون ہے
MashaAllah
Well Explained
جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا❤
ماشااللہ بہت ہی خوبصورت آرٹیکل ہے 💯❤❤❤❤❤
ترجمہ: بے شک اللہ کے ولیوں کو نہ تو کوئی خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی غم۔
ماشاءاللہ بہت وضاحت سے بیان کیا گیا ہے
حج… بظاہر ایک وقتی عبادت ہے مگر دراصل یہ ایک بندۂ مومن کی پوری زندگی کی تصویر ہے۔ یہ بندے کا اپنے ربّ کی ربوبیت ا ور اپنی عبدیت کا اقرار نامہ ہے۔
ماشاءاللہ بہت خوب صورت مضمون ھے کیوں نہ ہو لکھنے والے سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہیں
Haq he yeh
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی حج (Hajj) ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی حج (Hajj) ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حج کی حقیقت پر بہترین مضمون ہے ماشاءاللہ❤
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی حج (Hajj) ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
حدیث مبارکہ ہے
جو شخص اس حالت میں مرے کہ استطاعت کے باوجود اُس نے حج نہ کیا ہو تو اُسے کہہ دو کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
حج (Hajj) کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے:
جو شخص اس حالت میں مرے کہ استطاعت کے باوجود اُس نے حج نہ کیا ہو تو اُسے کہہ دو کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی حج (Hajj) ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
اس سے بڑھ کر شدید گناہ کوئی اور نہیں کہ کوئی میدانِ عرفات میں کھڑا ہو کر یہ سوچے کہ اس کی مغفرت نہیں ہوئی۔
بہترین آرٹیکل
حج دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے
حج… بظاہر ایک وقتی عبادت ہے مگر دراصل یہ ایک بندۂ مومن کی پوری زندگی کی تصویر ہے
بہترین مضمون جس میں حج کا ظاہر و باطن واضح فرما دیا گیا۔۔۔👌❤️
Beshak Hajj ko samjha a zaroori hai
جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
Mashaallah
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل، وہ آرزو باقی نہیں ہے
نماز و روزہ و قربانی و حج
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے
لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جب
مالدار لوگ تفریح کیلئے حج (Hajj) کریں گے اور ان کے علما دکھاوے اور شہرت کیلئے حج کریں گے اور ان کے غریب لوگ مانگنے کیلئے حج کریں گے۔
جسے چاہا در پہ بلا لیا جسے چاہا اپنا بنا لیا
یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے
اچھا مضمون ہے
حج کی اہمیت کا اندازہ ان احادیث مبارکہ سے ہو جاتا ہے:
جو شخص اس حالت میں مرے کہ استطاعت کے باوجود اُس نے حج نہ کیا ہو تو اُسے کہہ دو کہ یہودی ہو کر مرے یا نصرانی۔ اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی غرض نہیں۔
حج کی سعادت خوش نصیب لوگوں کو ہی حاصل ہوتی ہے ان میں سے بھی اصل کامیاب وہ ہیں جو حج کو اس کے ظاہری اور باطنی ارکان کے ساتھ ادا کرتے ہیں
Behtreen
اور لوگوں کو حج (Hajj) کے لیے پکارو‘ پیدل چل کر اور دبلے اونٹوں پر سوار ہو کر چلے آئیں۔ (سورۃ الحج۔ 27)
بہترین مضمون ہے
Very informative
بہت خوبصورت تحریر ہے ماشااللّہ حج کا مقصد اور باطن انتہائی اچھے انداز میں سمجھایا گیا ہے۔ بہت خوب۔
Behtereen article