جستجوئے حق Justuju-e-Haq


4.5/5 - (34 votes)

جستجوئے حق ۔  Justuju-e-Haq

تحریر:مسز عظمیٰ شکیل سروری قادری

انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنا راز قرار دیا ہے۔ اسی لیے یہ بڑی پیچیدہ مخلوق ہے۔انسان کی تمام زندگی اپنی ہی ذات سے متعلق رازوں کی گتھیاں سلجھانے میں گزر جاتی ہے۔ کوئی کائنات اور اس کی تخلیق کی تہہ تک پہنچنے کی جستجو میں مشغول ہے تو کوئی اس کرۂ ارض کی حدود سے باہر نکل کر ستاروں پر کمندیں ڈالنے کی جستجو میں مگن ہے۔ اس کاوش میں انسان جس قدر محنت اور لگن سے کام لیتا ہے تواللہ پاک اتنا ہی مہربان ہو کراپنے راز عیاں کردیتا ہے جس کے باعث نت نئی دریافتیں اور ایجادات منظرِ عام پر آتی رہتی ہیں۔ جاننا چاہیے کہ جب کوئی شخص ظاہری معاملات میں خلوصِ نیت، محنت اور لگن سے اپنی جستجو جاری رکھتا ہے تو کیا وہ شخص جو تمام تر نیک نیتی اور خلوص سے حق کی جستجومیں لگ جائے بے مقصد و بے مراد ہوگا؟؟؟ ہرگز نہیں!بلاشبہ بہترین جستجو حق کی جستجو ہے جس کا انعام خود حق تعالیٰ ہے اور جو شخص اس جستجو میں لگ جائے تو پھر اللہ پاک کی ذات بھی اسکی حامی و ناصر ہوتی ہے۔

درحقیقت انسان کے اندر موجود روح اللہ کو طلب کرتی ہے مگر انسان نفسانی دھوکے اور شیطانی وسوسوں میں پھنس کر یہ نہیں جان پاتا کہ اس کے اندر کی تڑپ کیا ہے اور خود کو گناہوں کی دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو وہ راہ دکھائی ہے جسکی بدولت انسان خود کو گناہوں سے بچانے کی کوشش کر سکتاہے۔انسان کا فریضہ تو اللہ کی جستجو کر نا ہے ۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کے حقیقی و روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
اس راہ (راہِ فقر)میں طالب کو جو بھی ملتا ہے وہ اس کی طلب کا عین ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

انسان کو سب سے پہلے اپنی طلب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی طلب ایک کٹھن راہ ہے۔ اس پر چلنے کے لیے طالب کا باہمت ہونا بہت ضروری ہے مگر اس راہ کے ساتھ مزید دو راہیں ہیں جو انسان کو اپنے اندرمشغول کر لیتی ہیں اور انسان اس گمان میں ہوتاہے کہ وہ اللہ کی جستجومیں مشغول ہے۔ اللہ کی راہ توالف کی مانند سیدھی ہے جس میں نہ تو دائیں جانب دیکھنے کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی بائیں جانب۔ جس نے حق کی جستجو کی اسے جنت کے عیش وآرام اور دوزخ کی آگ سے کوئی واسطہ نہیں۔

جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی
تے میں سکھ نوں چلھے ڈاواں
یار فریدا جے مِل پوے سوہنا
تے میں رَو رَو حال سناواں
(حضرت خواجہ غلام فرید)

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ عالیشان ہے:
خدایا میری عبادت تیرے عذاب کے خوف اور ثواب کے طمع و لالچ میں نہیں ہے بلکہ میں تیری عبادت اس لئے کرتا ہوں کہ تو اس کے لائق ہے۔

اصل دین یہی ہے کہ اللہ کی عبادت صرف اللہ کی ذات طلب کرنے کے لیے کی جائے اور اس بات کی گواہی انسان کے اندر کا وجود ہی دے سکتا ہے دوسرا کوئی بھی اس بات سے واقف نہیں ہو سکتا۔ہر انسان کو ضرورت ہے کہ وہ اپنے اندر جھانکے اور دیکھے کہ وہ کس مقصد کے لیے ربِّ عظیم کی بارگاہ میں موجود ہے۔ کیا اس کی عبادت کے عوض وہ دنیا میں عیش و عشرت چاہتا ہے؟ کیا وہ جنت اور اس کی آسائشوں کا طلبگارہے یا اس کے اندر محبتِ الٰہی ہے کہ جس کے اظہار کے لیے اس ربِّ کائنات کی بارگاہ میں سربسجودہے۔جب انسان یہ سمجھ جاتا ہے کہ اس کی طلب کیا ہے تب ہی وہ اپنی ظاہری و باطنی قوتوں کا استعمال مثبت اور حق کی جانب کرتا ہے۔ واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں :
آپ کا صحیح تشخص آپ کے اندر کا انسان کرتا ہے۔ اسی نے عبادت کرنی ہے اور اسی نے بغاوت۔ وہی دنیا والا بنتاہے اور وہی آخرت والا۔ اِسی اندر کے انسان نے آپ کو جزا و سزا کا مستحق بنانا ہے۔ فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ آپ کا باطن ہی آپ کا بہترین دوست ہے اور وہی بدترین دشمن۔ آپ خود ہی اپنے لیے دشواری ہو اور خود ہی شادابیٔ منزل۔ باطن محفوظ ہو گیا تو ظاہر بھی محفوظ ہو گیا۔ 

جستجوئے حق میں جب ایک طالبِ مولیٰ اپنی عبودیت اور اللہ کی ربوبیت، اپنی محتاجی اور اللہ کی کرم نوازی کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض کرتا ہے اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ  اے اللہ! ہمیں سیدھی راہ دکھا دے، تو اللہ سیدھی راہ کے متعلق آگاہی دیتے ہوئے فرماتا ہے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ   عَلَیْھِمْ  سیدھا راستہ اُن لوگوں کا ہے جن پر اللہ نے انعام کیا۔یعنی مانگنا ہے تو ان انعام یافتہ اور محبوب ہستیوں کا راستہ مانگو۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟بے شک وہ جن پر اللہ نے اپنا فضل کیا۔ قرآنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ تعالیٰ نے چار گروہوں کا ذکر کیاہے جن پر اس نے اپنا فضل نازل کیاہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور جوکوئی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)ان (ہستیوں)کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے(خاص)انعام فرمایا ہے جو کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ (سورۃ النساء ۔69)

قارئین کرام !یہاں تک دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں ؛ اوّل یہ کہ جب انسان اللہ پاک سے سیدھی راہ طلب کرتا ہے تو اللہ پاک اسے ان لوگوں کی راہ اختیار کرنے کی ہدایت کرتا ہے جو انعام یافتہ ہیں۔ دوم یہ کہ انعام یافتہ گروہ میں انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین شامل ہیں۔ اس کے بعد اگلا مرحلہ شروع ہوتا ہے وہ یہ کہ انعام یافتہ گروہ کی تعلیمات پر خلوصِ نیت سے عمل پیرا ہواجائے۔لہٰذاحق کی جستجو رکھنے والوں کے لیے اللہ پاک نے انبیا، فقراکاملین اور اولیا کرام کی بدولت انسانوں کو اپنی ذات کی پہچان کا درس دیا ہے کیونکہ جب انسان اپنے آپ کو پہچان لیتاہے تو اسی راستہ سے اللہ کی پہچان نصیب ہوتی ہے۔سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:

قربِ حق نزدیک من حبل الورید
تو جمالش را نہ بینی بے نظیر

ترجمہ: اللہ پاک کی ذات شہ رگ سے بھی قریب ہے مگر تو اندھا ہے کہ اس کے جمال کا دیدار نہیں کر سکتا۔ (دیوانِ باھوؒ)

آپؒ اللہ تعالیٰ کے فرمان ’’اور ہم تو انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں‘‘ (سورۃق۔16) کا حوالہ دے کر فرماتے ہیں کہ اس ہستی کی تلاش کے لیے پہلے اپنے اندر رسائی ضروری ہے۔ باطن میں اللہ پاک کی موجودگی پر زور دیتے ہوتے فرماتے ہیں کہ اس کے لیے لفظ ’’قریب‘‘ کااستعمال بھی موزوں نہیں ہے کیونکہ یہ لفظ بھی علیحدگی اور دوئی کا مظہرہے بلکہ وہی تو ہماری ہستی ہماری ذات ہے۔ (شمس الفقرا)

ایک بات جو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ کو دوسرے اولیا کرام سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ دیگر اولیا کرام انسان کو روح، قلب، من، دل، باطن، خودی اور ضمیر کی پہچان اور نورِ بصیرت حاصل کرنے کی تلقین تو کرتے ہیں مگر اس کی کلید کا ذکر نہیں کرتے جس سے باطن کا سفر کیا جا سکے۔ تاہم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ نے اپنی تصانیف میں اس کلید، اس کے فوائد اور اسرار و رموز کابھی ذکر کیا ہے۔ انسان کو روح، قلب، باطن، من، خودی اور ضمیر کا قفل کھولنے والی اور نورِ بصیرت عطا کرنے والی وہ کلید ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہے بشرطیکہ یہ کسی مرشد کامل اکمل صاحبِ مسمّٰی اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہو۔ ( شمس الفقرا)

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس کلید یعنی اسمِ اللہ ذات کی شان اور اس کے ذکر کے فوائدو ثمرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بندے اور مولیٰ کے درمیان وسیلہ اسمِ اللہ ہے۔ تمام اولیا، غوث، قطب اور اہلِ اللہ کو ذکر، فکر، الہامِ مذکور، استغراقِ توحید، مراقبہ اور کشف و کرامات کے سب مراتب اسمِ اللہ کی برکت سے حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر اسمِ اللہ ذات سے اس قدر علمِ لدنی ّکھلتا ہے کہ کوئی دوسرا علم پڑھنے کی حاجت نہیں رہتی۔

ہر کرا باسم اللہ شد قرار
ہر چہ باشد غیر اللہ زان فرار

ترجمہ: جسے اسمِ اللہ ذات کے ساتھ قرار نصیب ہو جاتا ہے وہ ہر غیر اللہ سے چھٹکارا حاصل کر لیتا ہے۔ (عین الفقر)

جب طالبِ مولیٰ کے وجودپر اسمِ اللہ ذات تاثیر کرتاہے تو اس پر معرفت کا رنگ چڑھ جاتا ہے۔ جس کی بدولت وہ کمال کو پہنچ جاتا ہے۔اس کے وجود سے دوئی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی مراد حاصل کر لیتا ہے۔ جب وہ اپنے دل کی طرف چشمِ عیاں سے نظر کرتاہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر سے پاؤں تک ہر بال پر اسمِ اللہ نقش ہے۔ اور اس کے تمام وجود پر اسمِ اللہ لکھا ہے۔ اس کے ہر بال، رنگ، پوست، مغز، سانس، قلب، روح اور سرّ میں اسمِ اللہ جاری ہو جاتا ہے اور بندے کے تمام اعضا اسمِ اللہ پکارتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:لَبَّیْکَ عَبْدِیْ  یہ فرمان سن کر فرشتے رشک کرنے لگتے ہیں کہ ہم نے تمام عمر تسبیح، رکوع و سجود میں گزار دی مگر ہمیں اللہ نے کبھی لبیک نہیں فرمایا کاش کہ ہم بھی عبد ہوتے۔ پس اے بندے! خود کو پہچان تاکہ توخواص میں شامل ہو سکے۔ (عین الفقر)

اسی لیے قرآن میں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بے شمار احادیث میں کثرت کے ساتھ ذکر کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور کثرت سے اسمِ اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ (سورۃ الجمعہ۔ 10)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا گیا کون سا بندہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن افضل اور بلند مرتبہ پر ہوگا؟ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ذکرِاللہ کثرت سے کرنے والے مرد اور خواتین۔ (جامع ترمذی 3376)

لہٰذا حق کی جانب بڑھنے کے لیے انسان کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کی راہ اپنانا پڑتی ہے جس کی تصدیق قرآنِ پاک سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
 اور جو کوئی اللہ( یعنی اسمِ اللہ ذات) کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے پس تحقیق وہ صراطِ مستقیم پر ہدایت پا جاتا ہے۔ (سورۃ آل عمران ۔ 101)

یہاں تک ہم نے راہِ حق میں کامیابی کی کلید یعنی اسمِ اللہ ذات کے بارے میں تو جان لیا لیکن یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ کلید کیسے اور کہاں سے حاصل کی جائے۔ کیا کوئی بھی متلاشیٔ حق اپنے دل میں حق کی جستجو کرکے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات شروع کردے تو منزلِ مقصود پالے گا؟ اسی راز سے پردہ اٹھاتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
 اسمِ اعظم بغیر نگاہِ کامل کے قرار نہیں پکڑتا۔

دراصل راہِ حق یا صراطِ مستقیم سے مرادنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ مبارک ہے اور اس کی جستجو کے بعد ان کے ہی بتائے ہوئے طریقہ پر چلنا کامیابی کی ضمانت ہے اور سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو راہ دکھائی، وہ ہے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کی بدولت کسی مرشد کامل اکمل کی زیرِنگرانی باطن کی صفائی میں کامیابی حاصل کر کے قرب و دیدار ِالٰہی حاصل کرنا اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری پانا۔ حق تک پہنچنا ہی آپ کی جستجو کا اصل ہے جو کہ قرآن و حدیث اور فقرائے کاملین کی تعلیمات سے واضح ہے مگر اس راہ پر صرف مرشدکامل اکمل کی زیرِنگرانی ہی چلا جا سکتا ہے جو اپنے مرید کوباطنی مشکلات، شیطانی وسوسوں اوردنیا کی فریب کاریوں سے محفوظ کر کے اس کے باطن سے تمام نفاق اورنفسانی برائیوں کو دور کرکے اسے پاک و صاف بنا دیتا ہے جس کی بدولت اس کے پاک وجود میں پاک ذات کا دیدار حاصل ہو جاتا ہے۔ دراصل اللہ پاک انسان کے باطن میں پوشیدہ ہے جب کوئی اسے اپنے اندر پا لیتاہے تو وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے۔حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
مرشد طبیب کی طرح ہے اور طالب مریض کی مثل ہے۔ طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اُسے کڑوی اور میٹھی دوائیاں دیتا ہے۔مریض کو چاہیے کہ وہ انہیں کھائے تاکہ صحت یاب ہو جائے۔ (عین الفقر)

مرشد کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ مرشد باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ مرشد جہاز کے تجربہ کار اور باخبر جہازران کی مانند ہوتا ہے جسے راستے میں آنے والی تمام آفات اور مشکلات (اور ان کے حل) کا علم ہوتا ہے۔ اگربحری جہازپر تجربہ کار جہازران نہ ہو تو جہاز ڈوب کر غرق ہو جاتا ہے۔ مرشد خود ہی جہاز ہے اور خود ہی جہازران ہے۔ فَھِمَ مَنْ فَھِمَ (جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا)۔ (عین الفقر)
صاحبِ علم کے لیے ضروری اور فرضِ عین ہے کہ وہ صاحبِ وصال مرشد سے تلقین طلب کرے۔ (نور الہدیٰ کلاں) 

دورِ حاضر میں ایسا مرشد کامل جو ان تمام صفات کا حامل ہو اور اس کے زیر ِتربیت مریدین کی کیفیات و حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں کہ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل و فقیر کامل صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں ۔جو ایک بار آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں آتا ہے خواہ وہ کسی بھی طلب سے آئے، اپنی مراد ضرور پا لیتا ہے۔جو کوئی خالصتاً اللہ کی طلب لے کر ان کی بارگاہ میں آ گیاتو اس کے باطن کے لطف و کرم سے وہی واقف ہے۔ اور وہ اپنی تمام کیفیات و حالات کا گواہ بذاتِ خود ہے۔یہ عاجزاس امر کو لازم سمجھتی ہے کہ متلاشیانِ حق اس بارگاہ میں جائیں اور حق پالیں۔
یہ عاجزدعاگو ہے کہ اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ عین الفقر: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ نور الہدیٰ کلاں: ایضاً

 
 

32 تبصرے “جستجوئے حق Justuju-e-Haq

  1. حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
    اس راہ (راہِ فقر)میں طالب کو جو بھی ملتا ہے وہ اس کی طلب کا عین ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

  2. اللہ پاک انسان کے باطن میں پوشیدہ ہے جب کوئی اسے اپنے اندر پا لیتاہے تو وہ کامیاب و کامران ہو جاتا ہے

  3. راہِ فقر میں طالب کو جو بھی ملتا ہے وہ اس کی طلب کا عین ہوتا ہے۔

  4. اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

  5. جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی
    تے میں سکھ نوں چلھے ڈاواں
    یار فریدا جے مِل پوے سوہنا
    تے میں رَو رَو حال سناواں
    (حضرت خواجہ غلام فرید)

  6. لہٰذا حق کی جانب بڑھنے کے لیے انسان کو ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کی راہ اپنانا پڑتی ہے جس کی تصدیق قرآنِ پاک سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
    اور جو کوئی اللہ( یعنی اسمِ اللہ ذات) کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے پس تحقیق وہ صراطِ مستقیم پر ہدایت پا جاتا ہے۔ (سورۃ آل عمران ۔ 101)

  7. اللّٰه پاک ہمیں بھی اپنی طلب عطا فرمائے آمین

  8. اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

  9. مرشد طبیب کی طرح ہے اور طالب مریض کی مثل ہے۔ طبیب جب کسی مریض کا علاج کرتا ہے تو اُسے کڑوی اور میٹھی دوائیاں دیتا ہے۔مریض کو چاہیے کہ وہ انہیں کھائے تاکہ صحت یاب ہو جائے۔ (عین الفقر)

  10. مرشد کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا

  11. حق کی جستجو کرنے والے بالآخر حق تک پہنچ جاتے ہیں

  12. اسمِ اعظم بغیر نگاہِ کامل کے قرار نہیں پکڑتا۔

  13. اس راہ (راہِ فقر)میں طالب کو جو بھی ملتا ہے وہ اس کی طلب کا عین ہوتا ہے۔ (سلطان العاشقین)

  14. دورِ حاضر میں ایسا مرشد کامل جو ان تمام صفات کا حامل ہو اور اس کے زیر ِتربیت مریدین کی کیفیات و حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں کوئی عذر نہیں کہ سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل و فقیر کامل صاحبِ مسمّٰی مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں ۔جو ایک بار آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں آتا ہے خواہ وہ کسی بھی طلب سے آئے، اپنی مراد ضرور پا لیتا ہے۔جو کوئی خالصتاً اللہ کی طلب لے کر ان کی بارگاہ میں آ گیاتو اس کے باطن کے لطف و کرم سے وہی واقف ہے۔ اور وہ اپنی تمام کیفیات و حالات کا گواہ بذاتِ خود ہے۔یہ عاجزاس امر کو لازم سمجھتی ہے کہ متلاشیانِ حق اس بارگاہ میں جائیں اور حق پالیں۔
    یہ عاجزدعاگو ہے کہ اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

  15. مرشد کامل کے بغیر اگر کوئی ساری عمر ریاضت کے پتھر سے سر پھوڑتا رہے پھر بھی اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ بغیر پیر و مرشد کوئی اللہ تک نہیں پہنچ سکتا کیونکہ مرشد باطن کی راہ کے تمام مقامات و منازل سے آگاہ ہوتا ہے اور ہر مشکل کا مشکل کشا ہوتا ہے۔ مرشد کامل توفیقِ الٰہی کا دوسرا نام ہے۔ توفیقِ الٰہی کے بغیر کوئی بھی کام سرانجام نہیں دیا جا سکتا۔ مرشد جہاز کے تجربہ کار اور باخبر جہازران کی مانند ہوتا ہے جسے راستے میں آنے والی تمام آفات اور مشکلات (اور ان کے حل) کا علم ہوتا ہے۔ اگربحری جہازپر تجربہ کار جہازران نہ ہو تو جہاز ڈوب کر غرق ہو جاتا ہے۔ مرشد خود ہی جہاز ہے اور خود ہی جہازران ہے۔ فَھِمَ مَنْ فَھِمَ (جو سمجھ گیا سو سمجھ گیا)۔ (عین الفقر)
    صاحبِ علم کے لیے ضروری اور فرضِ عین ہے کہ وہ صاحبِ وصال مرشد سے تلقین

  16. انسان کو سب سے پہلے اپنی طلب کا علم ہونا ضروری ہے۔ اللہ کی طلب ایک کٹھن راہ ہے۔ اس پر چلنے کے لیے طالب کا باہمت ہونا بہت ضروری ہے مگر اس راہ کے ساتھ مزید دو راہیں ہیں جو انسان کو اپنے اندرمشغول کر لیتی ہیں اور انسان اس گمان میں ہوتاہے کہ وہ اللہ کی جستجومیں مشغول ہے۔ اللہ کی راہ توالف کی مانند سیدھی ہے جس میں نہ تو دائیں جانب دیکھنے کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی بائیں جانب۔ جس نے حق کی جستجو کی اسے جنت کے عیش وآرام اور دوزخ کی آگ سے کوئی واسطہ نہیں۔

    جے سوہنا میرے دکھ وچ راضی
    تے میں سکھ نوں چلھے ڈاواں
    یار فریدا جے مِل پوے سوہنا
    تے میں رَو رَو حال سناواں
    (حضرت خواجہ غلام فرید)
    حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمانِ

  17. یہ عاجزدعاگو ہے کہ اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

  18. عاجزدعاگو ہے کہ اللہ پاک ہماری طلب اور ہماری جستجو اپنی ذات کو رکھے اور ہم پر اس راہ ِ فقرکو آسان بنائے۔ آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں