کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

5/5 - (1 vote)

کلید التوحید (کلاں)

  Kaleed -ul- Tauheed Kalan

قسط نمبر17                                                                               مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

ابیات:

ہر کہ از خود گم شود بیند چہ چیز
نور با نورش رسد ای بے تمیز

ترجمہ: جو خود سے بیگانہ ہو جائے وہ اور کیا چیز دیکھ سکتا ہے؟ اے احمق! اس کا باطنی نور حق کے نور سے مل چکا ہوتا ہے۔

ہر کہ از خود گم شود از خود فنا
باخدا وحدت رسد گردد بقا

ترجمہ: جو خود سے بیگانہ ہو کر اپنی ذات سے فنا حاصل کر لے وہ وحدتِ الٰہی تک پہنچ کر بقا حاصل کر لیتا ہے۔

ہر کہ از خود گم شود آنجا چہ ہست
در مقامی غرق وحدت با الست

ترجمہ: جو خود سے بیگانہ ہو جائے تو اس میں کیا باقی رہ جاتا ہے؟ اس مقام پر تو وہ ازلی وحدت میں غرق ہوتا ہے۔

فقر را راہی بود زاں کنہ کن
عاقلاں را بس بود ایں یک سخن

ترجمہ: عقلمندوں کے لیے تو بس یہی نصیحت کافی ہوتی ہے کہ فقر کن کی حقیقت تک پہنچنے کی راہ ہے۔

دل فقر در نظر اللہ پاک ذات
دل کہ باشد نظر اللہ چاک چاک

ترجمہ: جس دل میں فقر ہو وہ اللہ کی پاک ذات کے مدنظر رہتا ہے اور ایسا دل اللہ کی نظر کی بدولت شکستہ ہوتا ہے۔

دل بگریان جان بریان جگر خون
بر زبان ہرگز نیاید حرفِ چون

ترجمہ: ایسا (شکستہ) دل گریہ و زاری کرتا ہے اور جان سوختہ ہو چکی ہوتی ہے اور جگر خون ریز لیکن زبان پر پھر بھی حرفِ شکایت نہیں آتا۔

فقر را ہر روز شد یوم الحشر
باحسابش عرصہ گاہی در نظر

ترجمہ: فقر میں ہر روز یومِ حشر ہوتا ہے جس میں حسابگاہ نظروں کے سامنے رہتی ہے۔

فقر را با سہ نشان باید شناخت
غرق وحدت رفتہ از خود بالباس

ترجمہ: صاحبِ فقر کی پہچان تین باتوں سے ہوتی ہے کہ وہ وحدت میں غرق ہوتا ہے، خود سے فنا حاصل کر چکا ہوتا ہے اور مخلوق سے پوشیدہ ہوتا ہے۔

فقر بار بس گران و ز جادوان
فقر را برداشتن فقرش بجان

ترجمہ: فقر ایک بارِ گراں اور جاوداں دولت ہے اس کے بوجھ کو صاحبِ فقر ہی اپنی جان سے اٹھا سکتا ہے۔

ہر کہ فقرش بار بر دلدار بر
فقر را احمق چہ داند گاؤخر

ترجمہ: جو فقر کے بار کو اٹھا لیتا ہے وہ اللہ کا دلدار بن جاتا ہے۔ فقر کی حقیقت کو احمق اور جانوروں کی مثل لوگ کیا جانیں۔

از ملامت فقر ملکی یافتہ
از ملامت فقر خلقی یافتہ

ترجمہ: راہِ فقر پر چلنے والوں کو ملامت سے طاقت اور اخلاق حاصل ہوتے ہیں۔

باھوؒ بردار تسلیم و رضا
دل سلیمی گشت حاضر مصطفیؐ

ترجمہ: اے باھوؒ! تسلیم و رضا اختیار کر جس سے دل سلامتی حاصل کر کے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل کرتا ہے۔

اسمِ اللہ ذات کی مشق کا یہ سلوک اگر ابتدا تا انتہا معرفت کی تمامیت کو کھولنا چاہے تو ایک لمحے میں کھول دے اور اگر نہ کھولے تو چاہے تمام عمر نہ کھولے۔ توجہ سے اسمِ اللہ  ذات کی مشق کرنا ایسی طاعت ہے کہ جو کوئی اس طاعت کو اختیار کر لے تو وہ معرفت کی انتہا تک پہنچ جاتا ہے اور بلاشبہ مرتے وقت واصل باللہ ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْمَوْتُ جِسْرٌ یُوْصِلُ الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْبِ   
ترجمہ: موت ایک ایسا پل ہے جو حبیب کو حبیب سے ملاتا ہے۔
مَنْ مَّاتَ فِیْ حُبِّ اللّٰہِ فَقَدْ مَاتَ شَہِیْدًا   
ترجمہ: جو اللہ کی محبت میں مرا پس تحقیق وہ شہادت کی موت مرا۔

جاننا چاہیے کہ ہر ایک مرتبہ کا نام ہے جیسا کہ مراتبِ عالم، مراتبِ اولیا، مراتبِ ذاکر، مراتبِ صاحبِ مراقبہ، مکاشفہ، محاسبہ، محاربہ، مراتبِ عارف، مراتبِ واصل، مراتبِ قرب، مراتبِ مشاہدہ، مراتبِ نور، مراتبِ حضور، مراتبِ دعوت، مراتبِ ابدال، مراتبِ اوتاد، مراتبِ اخیار، مراتبِ غوث، مراتبِ قطب اور مراتبِ درویش۔ یہ تمام مراتب طبقات کی طیر سیر اور خواہشاتِ نفس سے تعلق رکھتے ہیں اور مراتبِ فقیر کی ابتدا کو بھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ فقیر مراتبِ طبقات اور خواہشاتِ نفس کو پسِ پشت ڈال کر وحدانیتِ خدا میں غرق ہو جاتا ہے۔ یہ تمام مراتب عارف باللہ ولی اللہ کی نظر کے فیضِ اثر سے حاصل ہوتے ہیں۔ مراتبِ فقر کو صرف وہی جانتا ہے جو فقرِمحمدیؐ تک پہنچا ہو اور مکمل طور پر حضوری میں غرق ہو چکا ہو۔ ان تمام مراتب میں غرق صرف ایک ہی حرف سے حاصل ہوتی ہے (اور وہ حرف ہے الف یعنی اسمِ اللہ  ذات)۔ ابیات:

ازان حرفی بشرفِ مصطفیؐ است
نوشتہ در دلم سرِّ الٰہ است

ترجمہ: اسی ایک حرف سے مجلسِ محمدی کا شرف حاصل ہوتا ہے میرے دل پر اسی حرف کی بدولت اسرارِ الٰہی لکھے ہیں۔

نہ در دل کاغذ و قطرہ سیاہی
دلی پرُ نور از رحمت الٰہی

ترجمہ: دل میں نہ کاغذ ہے نہ سیاہی۔ دل بس رحمتِ الٰہی کی بدولت پرُنور ہے۔

اللہ کی رحمت اور فضل دل میں سمائے ہوتے ہیں۔ دل رحمت و فضل سے وسیع ہوتا ہے کہ فضل و رحمت میں نہیں سما سکتا۔ دل سے مراد یہ ناپاک خون سے بھرا گوشت کا لوتھڑا نہیں ہے بلکہ دل وہ ہے جو دونوں جہان کے احوال اور ان کی کیفیات سے واقف اور صاحبِ ادراک ہو۔
 ابیات:

ہر کہ طالب شد محمدؐ یافت حق
خاک بوسی او کند جملہ خلق

ترجمہ: جو کوئی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا طالب ہو وہ حق کو پا لیتا ہے اور تمام مخلوق اس کی قدم بوسی کرتی ہے۔

از محمدؐ یافت باھوؒ آنچہ یافت
روزِ ازلش جان تصرف خویش ساخت

ترجمہ: باھوؒ نے جو کچھ بھی پایا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہی پایا اور روزِ ازل سے ہی اپنی جان ان پر قربان کر دی۔

پیر مرشد آنکہ ببرد باحضور
پیر مرشد نیست ایں اہل الغرور

ترجمہ: پیر و مرشد وہ ہوتا ہے جو حضوری میں لے جائے۔ مغرور لوگ پیر و مرشد نہیں ہو سکتے۔

دانا اور باخبر رہ اور غیر ماسویٰ اللہ جو کچھ بھی دل میں ہے‘ اسے نکال دے۔ راہِ حضوری کی ابتدا اور انتہا میں نظر حق کی طرف ہی رہنی چاہیے جبکہ بے حضوری کی راہ سراسر خوف و خلل پر مبنی ہے کہ اس میں نفس و شیطان غالب ہوتے ہیں اور طالب حضوری کے مراتب سے بے خبر ہوتا ہے۔ تاہم راہِ حضوری مراتبِ حضوری کی طرف لے جاتی ہے اور جوہرِ جمعیت بخشتی ہے۔ 

تبرکاتِ قدرتِ سبحانی کی بدولت عارف باللہ محبوبِ ربانی پیر دستگیر حضرت شاہ عبدالقادر جیلانی قدس سرہُ العزیز اپنے دورِ حیات میں ہر روز پانچ ہزار طالبوں و مریدوں کو کفر و شرک سے نجات دلا کر فیض سے نوازتے رہے جن میں سے تین ہزار کو حضوری سے مشرف کر کے وحدانیتِ  اِلَّا اللّٰہُ  کے مشاہدات میں غرق کرتے رہے کہ ہر تین ہزار کو مراتب   اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ  پر پہنچا دیتے اور دو ہزار کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل فرماتے۔ اس طریقے میں مرشد کامل باطنی توجہ اور اسمِ اللہ ذات و کلمہ طیب کے حاضرات اور ذکر کی ضرب سے حضوری عطا کرتا ہے۔ ذوق، سخاوت، تصور اور تصرف کا یہ فیض طریقہ قادری میں سلسلہ در سلسلہ چلا آ رہا ہے اور قیامت تک نہ رکے گا۔ اور آفتاب کی مثل اس کی روشنی ہر دو جہان پر چمکتی اور اسے فیض یاب کرتی رہے گی۔ بیت:

شد مرید از جان باھوؒ دل صفا
خاک پا سرمہ کشد در چشم جا

ترجمہ: باھوؒ صاف دل اور جان سے سیدّنا غوث الاعظمؓ کا مرید ہوا اور ان کی خاکِ پا کا سرمہ اپنی آنکھوں میں لگایا۔

جان لو کہ ہر طریقہ ظاہری و باطنی اعمال میں مصروف ہے لیکن قادری طریقہ میں ظاہری و باطنی اعمال قرب، معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ  اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اور وصال پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس طریقہ میں طالب کو ظاہری مراتب (مرشد کے) ظاہر سے ملتے ہیں اور قلب کے قلب سے، روح کے روح سے، سرِّ کے سرِّ سے، مشاہدہ کے مشاہدہ سے، معرفت کے معرفت سے، نور کے نور سے، قرب کے قرب سے، جمعیت کے جمعیت سے اور حضوری کے حضوری سے ملتے ہیں۔ یہ مراتب قادری طالبوں اور مریدوں کے لیے توحید تک پہنچنے کی کلید ہیں کہ ان کے ہاتھ میں جاودانی کلید (مرشد) ہے۔ قادری طالب تقلید سے ہزار بار استغفار کرتا ہے کیونکہ مقلد اور تقلیدی دونوں طریقہ قادری میں نہیں آ سکتے کہ چڑیوں کی کیا مجال کہ وہ شہباز کے نزدیک بیٹھ سکیں۔ طالبِ مولیٰ کے لیے اپنی آنکھوں سے اس بے مثل و بے مثال ذات کا دیدار اور معرفت حاصل کرنا اور اوّل تا آخر علم حاصل کر کے واصل ہونا آسان کام ہے لیکن معرفتِ توحید کے سمندر میں غرق ہونا اور خود سے فنا حاصل کر کے اللہ کے ساتھ بقا حاصل کرنا نہایت مشکل اور دشوار کام ہے۔ بیت: 

غرق بہ دریائے محبت را چہ آرائی خطاب
چوں حباب از خود تہی شد گشت آب

ترجمہ: محبت کے سمندر میں غرق ہونے والے کو کیا خطاب دیا جائے گا کیونکہ جب بلبلہ ختم ہو جاتا ہے تو وہ پانی ہی بن جاتا ہے۔

فقیر مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ عارف باللہ وہ ہے جس کے پاس پانچ طرح کی عقل اور پانچ طرح کے علم ہوں اور ہر علم میں مزید پچاس ہزار علم ہوں اور اس کے پاس پانچ طرح کی حکمت ہو اور ہر حکمت میں مزید پچاس لاکھ حکمتیں ہوں اور پانچ اذکار کا حامل ہو اور ہر ذکر میں پانچ کروڑ اذکار ہوں اور اس کے پاس پانچ خزانے ہوں اور ہر خزانے میں مزید چالیس ہزار خزانے ہوں اور وہ پانچ مقامات پر تصرف رکھتا ہو اور ان پانچ مقامات پر طالبِ مولیٰ کو ابتدا تا انتہا سفر کرائے اور اسکے تمام مقصود پلک جھپکنے میں بغیر کسی ریاضت اور تکلیف کے اسمِ اللہ  ذات، آیاتِ قرآن، ننانوے متبرک اسمائے حسنہ، اسمِ اعظم، اسمِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی تاثیر اور قوت سے عطا کر دے اور تمام پانچ مقامات یعنی مقامِ ازل، مقامِ ابد، مقامِ دنیا، مقامِ عقبیٰ اور مقامِ معرفتِ مولیٰ دکھا دے۔ لیکن ان مقامات کو دیکھنے سے بعض طالب محبوب اور بعض دیوانے اور مجذوب بن جاتے ہیں اور بعض طالبوں کا مرتبہ سلب ہو جاتا ہے اور وہ مردود ہو جاتے ہیں اور بعض کو مرتبہ کشف القبور حاصل ہو جاتا ہے۔ سروری قادری مرشد ایسا راہنما ہوتا ہے کہ طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل ہی معرفتِ الٰہی تک پہنچا دیتا ہے اور گناہوں اور خواہشات سے باز رکھتا ہے۔ مرشد ایسا ہی کامل و مکمل ہونا چاہیے۔ ناقص مرشد سے تلقین لینا حرام ہے۔ اے خام! یہ عارفین کے مراتب ہیں۔ مصنف فرماتا ہے کہ صاحبِ قلب کے قلب میں سات طرح کے دروازے کھلتے ہیں کہ ہر ایک دروازے سے ستر ہزار طرح کے فیض کی تجلی چمکتی ہے جسے صرف وہی جانتا ہے جس نے اس سے فیض حاصل کیا ہو۔ اس مقام پر طالب کو قرار کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ نہ فرار چاہتا ہے نہ خوار و مسلوب ہوتا ہے۔ مصنف فرماتا ہے کہ ذاتی تجلی اور ہے اور اسماء کی تجلی اور ہے۔ حروف کی تجلی اور ہے اور ربانی تجلی اور ہے۔ یعنی تجلی چار اقسام کی ہے انہیں محض ذات کی عطا اور فیض کہا جاتا ہے۔ جو تجلی اسمِاللہ ذات سے ظاہر ہوتی ہے وہ مطلق توحیدِ وحدانیتِ الٰہی ہے کہ اسے قرب و معرفتِ الٰہی کا نور کہا جاتا ہے۔ جو تجلی اسمائے الٰہی سے دکھائی دیتی ہے اسے تجلی ذات کہتے ہیں نہ تجلی صفات‘ بلکہ وہ دونوں سے تعلق رکھتی ہے۔ جو تجلی آیاتِ قرآن و حدیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ نفس کے خلاف جہادِ اکبر سے تعلق رکھتی ہے اور جو تجلی تیس حروفِ تہجی سے ظاہر ہوتی ہے اس تجلی کو قلب الکشوف (یعنی قلب کو کھولنے والی) کہا جاتا ہے۔ ہر ایک تجلی تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق اور تفکر و یقین سے کھلتی ہے اور عین ذات کا دیدار عطا کرتی ہے اور طالب ان تجلیات کو دیکھنے سے آنکھیں بند کر لے تو وہ نامکمل رہتا ہے۔

مطلبِ کل کیا ہے؟ خود سے فنا حاصل کرنا اور حق سے واصل ہونا۔ یعنی نورِ الٰہی کا جام پینا اور جمعیت حاصل کرنا۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ جو مرشد طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل ہر مقامِ معرفتِ الٰہی کا سبق اسمِ اللہ ذات کی حضوری سے نہیں دیتا اور نہ ہی ان کی حقیقت سے آگاہی دیتا ہے وہ مرشد ناقص اور لافزن ہے۔
ابیات:  

در تجلی ذات سوزم سر بسر سرِّ اِلٰہ
ایں تجلی ذات رہبر باخدا راہنما

ترجمہ: میں تجلیٔ ذات میں جل کر مکمل طور پر اسرارِ الٰہی میں ڈھل چکا ہوں۔ یہی تجلیٔ ذات راہبر بن کر اللہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔

از ازل تا ابد بودم غرق نور
از ازل تا ابد باشم باحضور

ترجمہ: میں ازل سے نورِ ذات میں غرق صاحبِ حضور ہوں اور ابد تک ایسے ہی رہوں گا۔

از ازل تا ابد بودم مست حال
از ازل تا ابد دائم باوصال

ترجمہ: میں ازل سے مست حال ہوں اور دائمی وصالِ الٰہی سے مشرف ہوں اور ابد تک مست حال اور باوصال رہوں گا۔

از ازل تا ابد از خود شد جدا
از ازل تا ابد بودم باخدا

ترجمہ: میں ازل سے خود سے جدا اور اللہ کے ساتھ وابستہ ہوں اور ابد تک اللہ کے ساتھ رہوں گا۔

خلق را وہم است جان قالب قلب
جان از جان می برآید رازِ رب

ترجمہ: جان، قلب اور قالب کو الگ سمجھنا مخلوق کا وہم ہے۔ جان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ اللہ کی ذات سے ہے اور یہ اللہ کا راز ہے۔

ہر گناہی شد عبادت راہِ من
ہر ز راہی شد آگاہی جاہِ من

ترجمہ: میرے طریق میں ہر گناہ عبادت کی طرف لے جاتا ہے جو اس طریقے پر چلتا ہے وہ میرا مرتبہ جان لیتا ہے۔

پس مرا نیم از گناہی زاں طریق
عارفاں را راہ اینست از غریق

ترجمہ: میرا طریق گناہوں سے پاک ہے۔ اس راہ میں عارفین کو غرق نصیب ہوتا ہے۔

باھوؒا ہر گناہی را بہ سوزد آہ من
ہر کہ از حق غافل است آں راہزن

ترجمہ: اے باھوؒ! میری آہ ہر گناہ کو جلا دیتی ہے لیکن جو حق سے غافل ہو وہ راہزن ہے۔

عبادتِ ظاہری کے لیے باطنی ہوشیاری سراسر سعادت ہے۔ اس راہ میں غفلت اور دیوانگی سراسر گناہ ہے۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ قرآن و حدیث اور شریعتِ نبویؐ کو اپنا پیشوا بنائیں۔ جس راہ سے شریعت منع کرے وہ راہ کفر ہے جبکہ شریعت اور قرآن برحق ہیں۔ جس کو شریعت اور قرآن روا سمجھیں وہ راہِ اسلام ہے اور طریقۂ اسلام صبر میں ہے جیسا کہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ۔ (سورۃ البقرہ۔153)
ترجمہ: بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ابیات:

صبر کن صبر کہ جز صبر دوا نیست
چہ کند گر تسلیم و رضا ندارد پیش

ترجمہ: صبر کرو کہ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اگر تسلیم و رضا پر قائم نہیں رہو گے تو اسکے علاوہ کیا کرو گے؟

ہر کرا پنجہء عشق تو گریبان گیرد
ہر کرا دستِ غم عشق رگِ جانگیرد

ترجمہ: جو کوئی تیرے (اللہ) عشق کے پنجے میں گرفتار ہوا دردِعشق نے اس کا ہاتھ اور جان پکڑ لی۔

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ۔(سورۃ الزمر۔10)
ترجمہ: بے شک صبر کرنے والوں کو ان کا اجر بے حساب انداز سے دیا جائے گا۔                                  (جاری ہے)

 
 
 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں