کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation

Spread the love

Rate this post

کلید التوحید (کلاں)  | Kaleed ul Tauheed Kalan 

قسط نمبر26                                                                                         مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

آدمی کے وجود میں نفس یزید اور روح بایزید (کی مثل) ہوتی ہے۔ اگر صاحبِ روح حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول ہو اور اس کے ہاتھ میں اسمِ اللہ ذات، کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ    اور ذکرِ اللہ کی تلوار ہو تو گویا وہ رات دن شداد، نمرود، قارون، فرعون اور ہامان جیسے ملعون کافروں کو قتل کرتا ہے۔ اور اگر وجود میں نفس یزید کی مثل ہو تو وہ مردہ دل اور حق تعالیٰ سے غافل ہوتا ہے جس کے ہاتھ میں غفلت کی تلوار ہوتی ہے جس سے گویا انبیا کا قتل کرتا ہے۔ پس اہلِ نفس یزید اور اہلِ روح بایزید کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ تو ان میں سے خود کو کس گروہ میں سے سمجھتا ہے اہلِ بایزیدیا اہلِ یزید؟ پس یہ راہِ معرفت و قربِ الٰہی سر کو پاؤں بنانے بلکہ سر اور پاؤں (یعنی اپنی ہستی) کو بھول جانے کی راہ ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَشْیٌ عَنِ الرَّاسِ بِدُوْنِ الْاَقْدَامِ 
ترجمہ: (راہِ حق پر) قدموں کی بجائے سر کے بل چلنا پڑتا ہے۔
ابیات:

صاحب سِرّ بود بی سر مدام
سرّ را سر دیگر بود باحق کلام

ترجمہ: صاحبِ سرّ ہمیشہ سر کے بغیر ہوتا ہے۔ اور وہ ظاہری سر کے بغیر سرّ کے ساتھ ہمیشہ حق تعالیٰ سے کلام کرتا ہے۔

آں سر رازی غرق باہمدم خدا
عام را سر دیگر است با سر ہوا

ترجمہ: حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہنے والا سر پوشیدہ ہوتا ہے جبکہ عوام کا سر اس سے مختلف اور خواہشاتِ نفسانی سے بھرپور ہوتا ہے۔

گر بگویم سِرّ رازی آنچہ ہست
دفتری باید رقم از وے الست

ترجمہ: اگر میں اس پوشیدہ سرّ کی شرح بیان کرنے لگوں تو اس کے لیے کثیر دفاتر درکار ہیں کہ اس کا تعلق روزِ الست سے ہے۔

باھوؒ! بہر از خدا آں سرّ بگو
آنچہ باشد غیر حق از دل بشو

ترجمہ: اے باھوُ! خدا تعالیٰ کی خاطر وہ اسرار بیان کرو اور جو کچھ غیر حق دل میں ہے اسے دھو ڈالو۔

بعد ازاں لائق شوی سرّ راز راہ
ہر دمی جان و جگر سوزد آہ! آہ!

ترجمہ: اس کے بعد ہی کوئی اسرار کی اس راہ پر چلنے کے لائق بنتا ہے جب وہ ہر لمحہ اپنی جان و جگر کو جلاتا ہے۔

اس راہ پر جس کو درد حاصل نہیں وہ نامرد ہے کیونکہ اہلِ دل کے لیے دل کے درد کی دوا بھی درد ہے۔ 

احوالِ معرفتِ وصال، فنائے نفس، حیاتِ قلب و بقائے روح

معرفتِ وصال، فنائے نفس، حیاتِ قلب اور بقائے روح کے احوال کی شرح جان لے۔ مطلب یہ کہ ظلمات و غلاظت اور روشنی و باطنی پاکیزگی ایک دوسرے سے تبدیل ہوتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
تُوْلِجُ الَّیْلَ فِی النَّھَارِ وَ تُوْلِجُ النَّھَارَ فِی الَّیْلِ  (3:27)
ترجمہ: تو (اللہ) ہی رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے۔

سورج اگرچہ رات کی تاریکی میں پوشیدہ ہوتا ہے لیکن جب وہ اس تاریکی سے باہر نکلتا ہے تو اس کی روشنی کی بدولت تاریکی ختم ہو جاتی ہے۔ نفس کی تاریکی اور سیاہی سے روح کا سورج پوشیدہ نہیں رہتا کیونکہ سالک کو اس راہ اور منزل کی ہر خبر ہوتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ نفس پرست بندے کا کام ہی گناہ کرنا ہے اور عفو و درگزر اللہ کا کام ہے۔ لیکن اگر کوئی استغفار کرلے تو وہ گناہوں سے پاک ہو جاتا ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ انسان قطرۂ آب کی مثل ہے اور ایک قطرۂ آب سے پیدا ہوا ہے اور وجود میں قطرۂ آب سے پیدا ہونے والی شہوت انسان کو اس طرح خراب کرتی ہے کہ اسے عقل مند سے بیوقوف اور انسان سے حیوان بنا دیتی ہے۔ پس ان سخت احوال میں مرشد کامل دستگیر ہوتا ہے جو نفس کی شہوت اور شامت سے (طالب کو) باہر نکال لیتا ہے۔ عارفین کی شہوت نورِ حضور کے شوق اور قربِ الٰہی کی برکت سے ہوتی ہے جو شہوت کو قابو میں رکھتی ہے۔ جب تک تو نفسانی خواہشات کو قابو میں نہیں کر لیتا عرشِ اکبر پر قدم نہیں رکھ سکتا۔ بیت:

ترا گر ہوائے بہشت آرزو است
مرو درپے آرزوئے ہوا

ترجمہ: اگر تجھے جنت کی نعمتوں کی آرزو ہے تو نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کر۔ 

جو خواہشات کی نفی کرتا ہے وہ حق کو پسند کرنے والا عارف بن جاتا ہے۔ عارف چار قسم کے ہوتے ہیں جن کے چار اسم اور چار طرح کے جسم ہوتے ہیں جس کے باعث ان کو معرفت بھی چار قسم کی حاصل ہوتی ہے۔ معرفتِ ازل رکھنے والا عارف، معرفتِ ابد رکھنے والا عارف، معرفتِ دنیا رکھنے والا عارف اور معرفتِ عقبیٰ رکھنے والا عارف۔ یہ چاروں طرح کی معرفت حقیقی عارف کے لیے حجابِ اکبر ہے۔ خاص الخاص معرفت یہ ہے کہ عارف منتہی غرق فنا فی اللہ ذات ہو اور ان چاروں معرفتوں اور طبقات سے آزاد ہو جائے۔
ابیات:

مرد آں باشد کہ باشد غرق نور
کے رسد با نور ایں اہل غرور

ترجمہ: اصل مرد وہ ہوتا ہے جو نو رمیں غرق ہو۔ مغرور لوگ نور تک کیسے پہنچ سکتے ہیں!

فتنہ و فریاد دائم در طلب
ایں مراتبِ جیفہ اہل از کلب

ترجمہ: یہ مغرور لوگ ہمیشہ فتنہ (یعنی دنیا) کی طلب میں ہوتے ہیں اور اس کے لیے فریاد کرتے رہتے ہیں۔ یہ مردار مراتب کتوں کی مثل لوگوں کے ہیں۔

دعویٰ کردند قلب جیفہ ہمچو کلب دار
از میان عارفاں کلبش برآر

ترجمہ: وہ صاحبِ قلب ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے قلب کتوں کی مثل مردہ ہوتے ہیں۔ اس لیے ان کو عارفین میں شمار نہیں کرنا چاہیے۔

باھوؒ! بہر از خدا عارف نما
معرفت حاصل شود از مصطفیؐ

ترجمہ: اے باھوؒ! خدا کی خاطر عارف بنا دے۔ یہ معرفت حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حاصل ہوتی ہے۔

یہ مراتب مردانِ خدا کی مدد سے حاصل ہوتے ہیں جو شریعت کے پیروکار ہوتے ہیں۔ یہ دنیا کے طالب کتوں کی مثل ہیں جو دیدار کے لائق نہیں۔ جان لو کہ تجرید اور تفرید اسے حاصل ہوتی ہے جو تہتر کروڑ دس لاکھ اور تین ہزار بلکہ بے شمار مقامات کو ایک رات دن یا ایک ہفتہ میں طے کر لے یا اگر اس کا مرشد کامل ہو تو ایک دم اور ایک ہی قدم میں اُسے تمام مقامات کی طیر سیر کرا دے جس کی بدولت وجود دونوں جہان میں حیات پا لے۔ تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے دس لاکھ یا جتنے بھی وجود پر بال ہیں یعنی بے عدد و بے حساب صورتِ نور قدرتِ الٰہی سے طالب کے سامنے نمودار ہوتی ہیں ہوشیار طالب اس وقت ہر صورتِ نور میں غرق ہوتا رہتا ہے اور آخر معرفت میں محو ہو جاتا ہے جس سے اس کا وجود کامل ہو کر مخلوق کی راہنمائی اور ارشاد کے لائق بنتا ہے۔ یہ مراتب و مقامات، صورتِ نور، تجلیاتِ ذات‘ علمِ فقر اور معرفتِ الٰہی کا ابتدائی قاعدہ اور اس کے الف اور ب ہیں۔ جو شخص فقرِ الٰہی کا یہ ابتدائی قاعدہ نہیں پڑھتا وہ معرفتِ الٰہی کی انتہا کا ایک حرف بھی نہیں جان سکتا۔ جو اس قاعدہ کو ٹھیک سے پڑھ لیتا ہے وہ مقامِ ترک و توکل، تسلیم و رضا، تجرید و تفرید، توحید، فنا و بقا اور صفا کا مرتبہ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ مراقبہ و خواب میں مجلسِ انبیا و اولیا یا مجلسِ سلطان الفقر میں حاضر رہتا ہے۔ سلطان الفقر بھی نور ہے جو ہمیشہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر رہتا ہے یا پھر وہ طالب مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی انتہا دیکھتا ہے۔ تجرید یہ ہے کہ طالب ہر ایک مقام سے ہوتا ہوا گزر جائے اور نفس و شیطان سے خلاصی پا لے اور ہمیشہ اللہ کی بارگاہ اور مجلسِ محمدی میں منظور ہو اور اس کا نفس مطمئنہ کے مقام پر پہنچ کر باادب ہو جائے۔ شیطان کو یہ طاقت اور اختیار حاصل نہیں کہ مقامِ حضوری و منظوری پر پہنچ سکے۔ تفرید اسے کہتے ہیں کہ طالب باطنی طور پر تنہا ہو اگرچہ دن رات عوام میں رہتا ہو لیکن باطن میں ربوبیت میں غرق اور مقامِ یکتائی پر ہو۔ اس راہ کا تعلق گفتگو سے نہیں بلکہ مشاہدۂ احوال سے ہے۔ یہ راہ مرشد کامل کی عطا اور اللہ کا فیض و فضل ہے اللہ جسے چاہے بخشے۔ اس کے متعلق فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّکَ لَا تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ (سورۃ القصص۔56)
ترجمہ: بے شک اللہ اسے ہدایت نہیں دیتا جسے آپ چاہتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت عطا فرماتا ہے۔

اس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلسَّعْیُ مِنِّیْ وَ الْاِتْمَامُ مِنَ اللّٰہِ 
ترجمہ: کوشش میرے ذمہ ہے اور نتیجہ اللہ کے ذمہ ہے۔

جب عارف فقر، معرفت، توحید، تجرید، تفرید کے احوال کا علم مکمل طور پر حاصل کر لیتا ہے تو اسے ظاہر و باطن میں کسی چیز کی حاجت نہیں رہتی۔ ذات و صفات کے تمام مقامات اور احوال کا مجموعہ اس کے تصرف میں آ جاتا ہے اسے جوہرِ جمعیت کہتے ہیں۔ جوہرِ جمعیت حاصل ہونے کی دو نشانیاں ہیں کہ ظاہر میں طالب شریعت میں ہوشیار رہتا ہے اور باطن میں مراقبہ میں یوں غرق ہوتا ہے گویا کہ مردہ‘ اور وہ دیدار سے مشرف اور مشاہدۂ ربوبیت اور تجلیٔ انوار کو دیکھنے میں مشغول ہوتا ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ کافر ہو جاتا ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اگر تو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو حق بے نیاز ہے۔ جو اس کھلے دروازے میں آ جائے وہ شہباز عارف اور طالبِ دیدار بن جاتا ہے اور جو اس کھلے دروازے میں آنے سے گریز کرتے ہیں وہ طالبِ دنیا ہیں جو چیل کی مانند لالچی اور حریص ہوتے ہیں۔
ابیات:  

دیدہ باید لائق دیدار او
ایں نہ دیدہ در طلب مردار جو

ترجمہ: آنکھ وہ ہوتی ہے جو دیدار کے لائق ہو نہ کہ وہ جو مردار کی طلب اور تلاش میں ہو۔

کور چشمی کے بہ بیند آفتاب
کور را از آفتابش صد حجاب

ترجمہ: آنکھوں کا اندھا آفتاب کو کیسے دیکھ سکتا ہے کیونکہ اس اندھے کے لیے آفتاب سینکڑوں حجابات میں ہوتا ہے۔

صاحبِ بصیرت اہلِ روح ہوتے ہیں اور کور چشم اہلِ نفسِ امارہ۔ اہلِ ارواح کی مجلس مقدس ہوتی ہے اور اہلِ نفسِ امارہ کی مجلس ناپاک‘ اس لیے انہیں ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ جان لو کہ جہالت سے بدتر چیز دونوں جہان میں کوئی نہیں۔ مطلب یہ کہ علم عمل کرنے کی خاطر حاصل کیا جاتا ہے۔ عمل کے بغیر علم ایسے ہے جیسے بانجھ اور بغیر حمل کے عورت۔

یقین رکھو کہ ابتدا اور انتہا کے چودہ علوم کو اپنے قبضہ و تصرف میں لے آنا اور ان تمام علوم کا عالم بننا آسان کام ہے لیکن عالم عامل صاحبِ طاعت، متقی اور پرہیزگار بننا بہت ہی دشوار کام ہے۔ زندہ دل ذاکرِ خفیہ رات دن نفس کو ذکر کی تلوار سے قتل کرتا ہے۔ ذاکرِ خفیہ ہونا بھی آسان کام ہے لیکن صاحبِ الہامِ مذکور ہونا، حضورِ حق پانا اور فنا فی اللہ ہونا بہت مشکل کام ہے۔ صاحبِ الہامِ مذکور ہونا اور حضورِ حق پانا بھی آسان کام ہے لیکن معرفتِ الٰہی حاصل کرنا بہت دشوار کام ہے۔ معرفتِ الٰہی حاصل کرنا بھی آسان کام ہے لیکن اس معرفتِ الٰہی کے لیے وجود میں وسیع حوصلہ پیدا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں حاضر ہونا اور انوارِ رحمت کے توسط سے دیدار اور حضوری سے مشرف ہونا آسان کام ہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ولایت، ہدایت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اوصاف و اخلاق، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرح ترک و توکل اور تسلیم و رضا اختیار کرنا اور جامع فقرِ محمدیؐ حاصل ہونا بہت ہی دشوار کام ہے۔ ملکِ سلیمانیؑ مشرق سے مغرب تک اپنے تصرف میں لے آنا اور بادشاہ بننا آسان کام ہے لیکن عدل و احسان کرنا اور مسلمانوں کو حق تک پہنچانا بہت مشکل اور دشوار کام ہے۔ مرشد ہونا آسان کام ہے لیکن طالب و مرید کو اس کے مقصود، انتہائے معرفت اور مجلسِ محمدی کی حضوری تک پہنچانا اور نورِ وحدانیت میں غرق کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ طالب ہونا آسان کام ہے لیکن باادب و باحیا ہونا اور اپنے اختیار و مرضی کو مرشد کے سپرد کر دینا بہت دشوار کام ہے۔ پیر ہونا اور حجام کی مثل مریدوں کے بال کاٹنا آسان کام ہے لیکن مشکل وقت میں مرید کے پاس پہنچنا بہت دشوار کام ہے اور مردار کو ترک کرنا بھی نہایت مشکل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْمُرِیْدُ لَا یُرِیْدُ 
ترجمہ: مرید لایرید ہوتا ہے۔

مشائخ کا قول ہے:
اَلطَّالِبُ عِنْدَ الْمُرْشِدِ کَالْمَیِّتِ بَیْنَ یَدَیِ الْغَاسِلِ 
ترجمہ: طالب کو مرشد کے پاس اس طرح ہونا چاہیے جیسے غسل دینے والے کے ہاتھوں میں میت۔

مطلب یہ کہ جو بھی طالبِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوتا ہے تو اس کے وجود پر چار نظروں کی تاثیر ہوتی ہے حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نظر کی تاثیر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں صدق پیدا ہوتا ہے اور کذب اور نفاق اس کے وجود سے نکل جاتا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ کی نظر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں عدل اور محاسبۂ نفس کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اور اس کے وجود سے خطرات اور نفسانی خواہشات مکمل طور پر نکل جاتی ہیں۔ حضرت عثمان غنیؓ کی نظر کی تاثیر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں ادب اور حیا پیدا ہوتے ہیں اور اس کے وجود سے بے ادبی اور بے حیائی نکل جاتی ہے۔ حضرت علیؓ کی نظر سے طالبِ مولیٰ کے وجود میں علم، ہدایت اور فقر پیدا ہوتا ہے اور اس کے وجود سے جہالت اور حبِ دنیا نکل جاتی ہے۔ اس کے بعد طالب تلقین کے لائق بنتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے بیعت فرماتے ہیں اور مرشدی کے لازوال، لاتخف و لا تحزن اور لارجعت مراتب تک پہنچاتے ہیں۔ جو مرشد طالبِ مولیٰ کو روزِ اوّل مجلسِ محمدیؐ میں داخل نہیں کرتا اور اصحابِ کبارؓ سے نعمت نہیں دلاتا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دستِ مبارک پر بیعت سے سرفراز نہیں فرماتا اور تصور اسمِ اللہ ذات اور راہِ حضوری کے ذریعے بغیر ریاضت و طاعت کے ایک ساعت میں ولایت و ہدایت عطا نہیں کرتا اسے مرشد نہیں کہا جا سکتا۔

اگر راہِ باطن میں مجلسِ محمدی کا شرف، قربِ حق تعالیٰ اور فنا فی اللہ کے اعلیٰ مراتب نہ ہوتے تو راہِ باطن پر چلنے والے سب گمراہ ہو جاتے۔ درست باطن یہ ہے کہ طالب جو کچھ باطن میں دیکھتا ہے ظاہر میں بھی ویسے ہی وقوع پذیر ہوتا ہے اور شریعت اور قرآن و حدیث کے عین مطابق ہوتا ہے۔ ایسا باطن برحق ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو باطن باطل پر ہے کیونکہ شریعت باطن کا ہی اظہار ہے۔ جان لے کہ اگر کوئی تجھے باطن، خواب یا مراقبہ میں کسی نیک و بد کام یا دینی و دنیوی امور کی اجازت و حکم دے یا منع کرے اور پھر وہ اسی وقت باطن میں زبان سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ   پڑھے اور اس کے بعد درود شریف اور لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ  پڑھے اور اس کے ساتھ ارواح کی خیر کے لیے سورۃ فاتحہ پڑھے تو بے شک وہ (حکم دینے والا) انبیاؑ، اصحابِ کبارؓ، مجتہدین، اولیا، فقرا یا باطن صفا درویشوں اور فرشتوں میں سے ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ شیطانوں یا جنوں میں سے ہے۔ 

جان لو کہ مراقبہ کا تعلق چار چیزوں سے ہے جو کہ چار ’م‘ ہیں۔ اوّل ’م‘ مراقبۂ محبت ہے جس سے اسرارِ الٰہی کا مشاہدہ نصیب ہوتا ہے۔ یہ مراقبہ تصور اسمِ اللہ ذات سے کیا جاتا ہے۔ دوم ’م‘ مراقبۂ معرفت ہے جس سے نورِ توحید ِ الٰہی نمودار ہوتا ہے۔ یہ مراقبہ تصور اسمِ  لِلّٰہ ے کیا جاتا ہے۔ سوم ’م‘ مراقبۂ معراج الصلوٰۃ ہے جس سے مشاہدۂ دل کھل جاتا ہے اور ذکر جاری ہو جاتا ہے جو فرحت انگیز ذوق بخشتا ہے جس سے تمام وجود شکستہ ہو جاتا ہے اور ہر بال کی زبان سے یَا اَللّٰہُ  جاری ہو جاتا ہے۔ یہ مراقبہ تصور اسمِ لَہٗ  سے کیا جاتا ہے۔ چہارم ’م‘ مراقبہ مجموعۃ الوجود ہے جس سے وجود کے  ہفت اندام سر سے قدم تک نادر نور کے مشاہدہ میں مشغول ہو جاتے ہیں اور وہ نفس و شیطان پر غالب آ جاتا ہے اور جب تک صاحبِ مراقبہ مجلسِ انبیا اور اولیا میں ہر ایک سے ملاقات نہیں کر لیتا وہ مراقبہ سے باہر نہیں آتا اگرچہ باطن میں اسے مراقبہ میں ستر سال گزر جائیں لیکن عوام کی نظر سے ایک لمحہ یا ایک بات کرنے کے برابر وقت کے لیے پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس مراقبہ میں صاحبِ مراقبہ کے  ہفت اندام کامل اور انتہائی مراقبہ میں غرق ہو جاتے ہیں بلکہ وقتِ مراقبہ ہر  ہفت اندام میں سے ذکرِ الٰہی میں مشغول ستر ہزار نوری صورتیں برآمد ہوتی ہیں جیسے ہی صاحبِ مراقبہ باخبر ہوتا ہے تو ہر نورانی صورت دوبارہ وجود میں چلی جاتی ہے جن میں سے بعض کو صاحبِ مراقبہ جانتا ہے اور بعض کو نہیں۔ یہ مراقبہ تصور اسمِ ھُو سے کیا جاتا ہے۔ تصور اسمِ ھُوے چار انتہائی ذکر کھلتے ہیں جنہیں مطلق غرقِ نورِ حضور کہتے ہیں۔ اوّل ذکرِ حامل جو مرشد کامل سے حاصل ہوتا ہے۔ دوم ذکرِ سلطانی جس سے ذاکر نفسانی خواہشات سے آزاد ہو کر لاھوت لامکان میں پہنچ جاتا ہے۔ سوم ذکرِ قربانی جس سے ذاکر خطراتِ شیطانی سے نجات پا لیتا ہے۔ چہارم ذکرِ خفی جس سے ذاکر مجلسِ محمدی کی دائمی حضوری میں پہنچ جاتا ہے۔ جو یہ ذکر نہیں کرتا اس کا مراقبہ مردود ہے اور اس کی طلب مردار دنیا ہے جس کے خطرات کے باعث اس کا دل سیاہ ہو چکا ہوتا ہے۔ اہلِ دنیا ہرگز قربِ الٰہی نہیں پاتا اگرچہ دنیا میں وہ مراتبِ عز و جاہ کا حامل ہو یا صاحب روضہ و خانقاہ ہو۔ جس کی نظر آخرت کے عظیم جہان کی طرف ہو وہ نفس، دنیا اور شیطان مردود سے فارغ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ صفتِ کریم کا حامل ہوتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ 

 (جاری ہے)

 
 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں