کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر27 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
مندرجہ ذیل علوم ہدایت کا مجموعہ ہیں علمِ انجیل، علمِ زبور، علمِ توریت، علمِ قرآن، علمِ حدیثِ قدسی، علمِ حدیثِ نبویؐ، علمِ ایمانِ مجمل، علمِ ایمانِ مفصل اور ان آیات کا علمسُبْحَانَ ذِی الْمُلْکِ وَالْمَلَکُوْتِ سُبْحَانَ ذِی الْعِزَّۃِ وَالْعَظْمَۃِ وَالْھَیْبَۃِ وَالْقُدْرَۃِ وَالْکِبْرِیَآئِ وَالْجَبَرُوْتِ سُبْحَانَ الْمَلِکِ الْحَیِّ الَّذِیْ لَا یَنَامُ وَ لَا یَمُوْتُ سُبُّوْحٌ قُدُّوْسٌ رَبُّنَا وَ رَبُّ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَالرُّوْحِ ، سُبْحَانَ اللّٰہِ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرْ وَ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ، علمِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ، علمِ کلمہ شہادت اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ اَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ ، دو نوں کلمے اقرار باللسان اور تصدیق بالقلب سے تعلق رکھتے ہیں، علمِ جفر جس میں نقش و دائرے کھینچے جاتے ہیں، علمِ واردات و فتوحاتِ غیبی جو رفاقتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں قدرتِ الٰہی سے بذریعہ الہام شہ رگ سے بھی نزدیک حاصل ہوتا ہے۔ اصل محمدی طالب کو حضورِ حق اور تجلیاتِ نور کا دیدار حاصل ہوتا ہے جو اُن تجلیات سے بہتر ہے جو جناب موسیٰ علیہ السلام کو کوہِ طور پر حاصل ہوتی تھیں۔ پس وہ طالب اللہ سے جواب باصواب پاتا اور اس کی صحبت سے مستفید ہوتا ہے۔ ابلیس لعنتی کو کونسا فائق علم حاصل ہے جس کی طاقت سے وہ عالموں، فاضلوں، فقیروں، درویشوں، عارفوں اور واصلوں پر غالب آ جاتا ہے؟ مصنف کہتا ہے کہ اس میں حکمت یہ ہے کہ شیطان ستر مرتبہ ہر آدم زاد کے وجود میں آتا جاتا ہے کیونکہ آدمی کے ہر بال میں شیطان کے لیے راستہ ہے۔ پس شیطان مردہ دل طالب ِ دنیا کے وجود میں داخل ہوتا ہے اور نفسِ امارہ کو دنیا کے طمع کا علم دیتا ہے اور طمع وجود میں خناس اور خرطوم کو وسوسہ اور خطرات سے زندہ کرتی ہے۔ اس طمع کے علم سے شیطان لوگوں پر غالب آتا ہے اور لوگ اس کے حکم کے تابعدار ہو جاتے ہیں اور طمع و حرص کو نہیں چھوڑتے کیونکہ یہ علمِ طمع ہی شیطان کی کلید ہے۔ تین طرح کے لوگوں کے وجود میں شیطان داخل نہیں ہو سکتا: جن کے وجود میں نورِ ایمان موجود ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ تصدیقِ دل سے کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتے ہیں۔ یا وہ جن کے دل پر اسمِ اللہ ذات نقش ہوتا ہے اور کلمہ طیب کے نورِ آتش سے وجود میں شیطان جل جاتا ہے یا باہر نکل جاتا ہے۔ یا وہ جن کے وجود کا ہر بال لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھتا ہے کہ یہ شیطان کے لیے تلوار ہے۔ لاحول پڑھنے سے ستر شیطان قتل ہو جاتے ہیں۔ دو گروہ‘ علما عامل اور فقرا کامل شیطان کے علم، مکر اور حیلے سے نجات یافتہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ اخلاص کے ساتھ اللہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔ جیسا کہ حدیثِ نبوی میں آیا ہے:
لِکُلِّ شَیْئٍ اٰفَۃٌ وَ اٰفَۃُ الْعِلْمِ طَمَعُ
ترجمہ: ہر شے کی ایک آفت ہے اور علم کی آفت طمع ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰنٌط وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلًا۔ (سورۃ بنی اسرائیل۔65)
ترجمہ: (اے شیطان) بے شک میرے بندوں پر تیرا کوئی زور نہ چلے گا اور تیرا ربّ ان کی کارسازی کے لیے کافی ہے۔
مندرجہ بالا دونوں گروہوں کے علاوہ دیگر لوگ جو اہلِ دنیا ہیں اور دنیا کی طلب رکھتے ہیں وہ شیطان کی گنتی میں اس طرح رہتے ہیں جس طرح چرواہا اپنی بکریوں کو ایک ایک کر کے گنتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطٰنَ ج اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ ۔ (سورۃ یٰسٓ60)
ترجمہ: اے بنی آدم! شیطان کی پیروی نہ کرو۔ بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
شَیْطٰنُ الْاِنْسِ اَشَدُّ مِنْ شَیْطٰنِ الْجِنِّ
ترجمہ: انسانی شیطان جن شیطان سے زیادہ خطرناک ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ۔ (سورۃ الفلق۔5)
ترجمہ: (میں پناہ چاہتا ہوں) حسد کرنے والے کے شر سے کہ جب وہ حسد کرے۔
چنانچہ کلماتِ معرفتِ ربانی، اسرارِ سبحانی، قرب و مشاہدات، دونوں جہانوں کو تسخیر کر کے اپنے تصرف میں لے آنا، عرش سے تحت الثریٰ تک ہر زمین اور ہر ملک کی سیر، جن و انس‘ تمام ملائکہ اور مؤکلات اور ملکِ سلیمانی ؑکو اپنے قبضہ میں لے آنا، ذات و صفات کے درجات اور تمام طبقات و مقامات کے علوم حاصل کرنا، تمام انبیا و اولیا کی ارواح سے مصافحہ اور ملاقات کرنا، جاودانی نظارہ، مقامِ ازل اور جو کچھ ازل سے متعلق ہے اور مقامِ ابد اور جو کچھ ابد سے متعلق ہے ان سب کا مشاہدہ، دنیا اور اس کا نظارہ اور مقامِ عقبیٰ اور ہر شے جو اس سے تعلق رکھتی ہے ان سب کا مشاہدہ، مقامِ معرفتِ مولیٰ اور تمام مقامات سے اعلیٰ و اولیٰ فنا فی اللہ بقا باللہ کا مرتبہ، کل و جز کے تمام مقامات کا مشاہدہ، سب تصور اسمِ اللہ ذات، تصور اسمِ محمد، تصور کلمہ طیبلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے حاضرات اور اس کے ساتھ اسمِ اعظم کا ورد کرنے، آیاتِ قرآن پڑھنے اور ننانوے اسمائے باری تعالیٰ کے تصور سے حاصل ہوتے ہیں اور یہ سب کامل توحیدِ ذات حاصل کرنے سے متعلق ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ ط (سورۃ فاطر۔10)
ترجمہ: پاکیزہ کلام اسی کی طرف چڑھتا ہے اور وہی ہر عمل ِ صالحہ کو بلند فرماتا ہے۔
وَاَلْزَمَھُمْ کَلِمَۃَ التَّقْوٰی وَکَانُوْٓا اَحَقَّ بِھَا وَاَھْلَھَاط وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا۔ (سورۃ الفتح۔26)
ترجمہ: اور انہیں کلمۂ تقویٰ پر مستحکم فرما دیا اور وہ اس کے زیادہ حقدار اور اہل تھے۔ اور اللہ ہر شے کو خوب جاننے والا ہے۔
ایمان، جمعیت، معرفتِ الٰہی، تصدیق اور ذکرلَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے نور کا مجموعہ دل میں ہے جو آفتاب کی مثل دل میں چمکتا ہے جس سے دل کی کلی کھل اٹھتی ہے اور پھر دل کا یہ پھول مشک سی خوشبو سے فرحت یاب کرتا ہے اور زبان فرحت سے حق کا اقرار کرتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پس تصدیقِ ایمان کی بنیاد قلب ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ لَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْط وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لَا یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًاط اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (سورۃ الحجرات۔14)
ترجمہ: اور تمہارے قلوب میں ایمان ابھی داخل نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کرو تو وہ تمہارے اعمال (کے اجر) میں سے کچھ بھی کم نہ کرے گا۔ بیشک اللہ بہت بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
علم مزید دو قسم کا ہے۔ علمِ ظاہر جو معاملات، رسوم اور اقرارِ زبان اور زبان سے گفتگو کرنے سے متعلق ہے۔ اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (سورۃ المجادلہ۔11)
ترجمہ: جنہیں درجوں کے اعتبار سے علم سے نوازا گیا۔
دوسرا علمِ باطن ہے جو حیّ و قیوم ذات کی معرفت سے متعلق ہے اور تصدیقِ قلب سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ عَلَّمْنٰہُ مِنْ لَّدُنَّا عِلْمًا۔ (سورۃ الکہف۔65)
ترجمہ: اور انہیں علمِ لدنیّ سکھایا۔
بیت:
علم رسمی سینہ صافان را نمی آید بہ کار
چوں شود آئینہ روشن بے نیاز از جوہر است
ترجمہ: رسمی علم باصفا قلوب کے حاملین کے لیے کسی کام کا نہیں۔ کیونکہ آئینہ جیسے ہی مکمل روشن ہو جاتا ہے اسے (چمکنے کے لیے) کسی شے کی ضرورت نہیں رہتی۔
جب تک علمِ ظاہر رفیق نہ ہو علمِ باطن کی توفیق حاصل نہیں ہوتی۔ علمِ ظاہر ابتدا ہے اور علمِ باطن انتہا ہے۔ ان دونوں علوم کے بغیر مرتبۂ عین تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ علم مونسِ جان ہے۔ علم کے بغیر زہد کرنے والا شیطان ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ روزِ ازل بعض ارواح نے جب آوازِ ازل اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ سنی تو قَالُوْا بَلٰی کہا اور بعض ارواح اس آوازِ ازل پر دوڑیں اور حضورِ حق میں پہنچیں اور اس آواز کے اسرار سے آگاہی حاصل کر کے اس کی لذت کو چکھا۔ جبکہ بعض ارواح آوازِ ازل سے قبل ہی ازل کے ان اسرار سے واقف تھیں اور دیدارِ پروردگار اور مشاہدۂ انوار میں روزِ الست سے ہی مست تھیں۔ انہوں نے کہا:
اَنَا الْمُشْتَاقُ الْمُدَبِّرِیْنَ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدِ
ترجمہ: ہم تیرے سب سے زیادہ مشتاق ہیں۔ کیا مزید کچھ ہے؟
انہوں نے ماسویٰ اللہ ہر شے سے خود کو الگ کر رکھا تھا۔ ان ارواح کے ظاہری وجود اسرارِ الٰہی ہیں اور یہ ربوبیت میں غرق دیدار میں مشغول ہیں۔ ان لوگوں کے دل زندہ اور بیدار ہیں اور ظاہر میں وہ شریعت اور اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں ہوشیار اور بدعت، شرک اور کفر سے بیزار ہیں اور یہ لوگ اللہ کی نافرمانی سے استغفار کرتے ہیں۔ پس ایسے صاحبِ مراتب کو محبوب کہتے ہیں کیونکہ وہ دیدار اور معرفتِ حق، مشاہد ۂ حق، معرفتِ نورِ حق، عرفانِ ذات اور تجلیاتِ ذات کے سوا کسی شے کے متلاشی نہیں ہوتے اور نہ ہی حرفِ حق کے سوا زبان سے کچھ کہتے ہیں۔ یہ مراتبِ حق الیقین ہیں جو علم الیقین اور عین الیقین کے مراتب طے کرنے کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔ اور یقین تب حاصل ہوتا ہے جب فنا فی اللہ ہوا جائے اور صاحبِ فنا فی اللہ اُسے کہتے ہیں جو مراتبِ بقا باللہ پر پہنچ جائے یعنیمُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا (ترجمہ: مرنے سے پہلے مر جاؤ) کے مرتبہ پر۔ جو روزِ ازل دیدارِ حق سے مشرف ہوا وہ دنیا میں بھی اسی طرح دیدار میں مستغرق رہے گا اور مردار دنیا سے بیزار ہو گا۔ ایسے ولی کو مادر زاد ولی اللہ کہتے ہیں جو دنیا میں دیدارِ الٰہی میں مستغرق ہوتا ہے اس کا دل ذکرِ اللہ کی بدولت زندہ ہوتا ہے اور اس کی آنکھیں ازل تا ابد بیدار رہتی ہیں۔ ان مراتب تک پہنچنا بھی آسان ہے لیکن نورِ الٰہی کے دیدار میں ایسے غرق ہونا جیسے ظاہری طور پر کتاب کے اوراق کے مطالعہ میں مشغول ہوں اور معرفتِ فنا فی اللہ میں محو ہونا بہت مشکل کام ہے۔ اسی لیے بعض لوگ مخلوق کی نظر میں تو مجذوب ہوتے ہیں لیکن باطن میں مراتبِ محبوبیت پر ہوتے ہیں۔ لیکن جسے نہ مراتبِ محبوب حاصل ہیں نہ مراتبِ مجذوب‘ وہ (اندرونی طور پر) اندھا اور محجوب ہے۔ جسے دل کی آنکھیں نصیب نہ ہوں وہ معرفتِ الٰہی کے لیے بینائی کہاں سے لائے؟ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَنْ کَانَ فِیْ ھٰذِہٖٓ اَعْمٰی فَھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ اَعْمٰی (سورۃ بنی اسرائیل۔72)
ترجمہ: جو اس (دنیا) میں (حق کے دیدار سے) اندھا رہا وہ آخرت میں بھی اندھا رہے گا۔
بیت:
عارفان را دیدہ ازلش با وصال
کورِ ازلش کے بہ بیند با زوال
ترجمہ: عارفین کی آنکھیں تو ازل سے دیدار میں محو ہیں اور انہیں ازل سے ہی وصال حاصل ہے جبکہ ازلی کورچشم کبھی کچھ نہیں دیکھ سکتے کیونکہ وہ زوال کا شکار ہیں۔
یہ درست ہے کہ صاحبِ حق الیقین جسے ازل سے ہی یہ مرتبہ حاصل ہو وہ دنیا میں بھی مراتبِ حق الیقین پر پہنچ جاتا ہے۔ صاحبِ حق الیقین چار چیزوں کے مجموعہ سے تعلق رکھتا ہے دو چیزیں ظاہر سے متعلق ہیں جن میں سے ایک توفیقِ الٰہی سے طاعت، دوم اتباعِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور شریعت کی پیروی۔ دو چیزیں باطن سے متعلق ہیں ایک نورِ معرفتِ الٰہی کے استغراق کا مشاہدہ، دوم حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو اشرف البشر ہیں‘ ان کی مجلس کی دائمی حضوری۔ یہ مراتبِ حق الیقین ہیں جن سے باطن معمور رہتا ہے۔ راہِ معرفتِ توحید اور راہِ فقر مشکل ہیں۔ بعض اہلِ تقلید جیسا کہ کوئی زمیندار کا بیٹا یا کاشتکار کا بھائی اگر فقر اختیار کرے اور لوگوں کی نظر میں خود کو پارسا، متقی اور صالح فقیر ظاہر کرے تاکہ اس کا باپ یا بھائی اس پر اعتماد کریں اور وہ انہیں فتنہ و فریب سے قتل کر دے اور خود دنیا میں عیش کرے۔ یا پھر کوئی شخص جو نوکر یا سپاہی کی مثل ہو فقیری کا دعویٰ کرے اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ منصبِ بادشاہی حاصل کرے یا بادشاہ کے منصب دار اس کے طالب و مرید بن جائیں یا اگر منصب دار فقیری کا دعویٰ کرے تو اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ امرا کے مراتب حاصل کرے یا بادشاہ کے امرا کو اپنا طالب و مرید بنا لے اور جو امیر شخص فقیری کا دعویٰ کرے اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ بادشاہ کے وزیر کا مرتبہ حاصل کر کے بادشاہ کا مقرب بن جائے اور جو وزیر فقیری کا دعویٰ کرے اور اس کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ بادشاہی کے مرتبہ پر پہنچے یا بادشاہ کو اپنے حکم کے تابع کر لے لیکن جو بادشاہ اللہ کی خاطر فقیر ہو جائے وہ جلد ہی اپنے مقصود معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری تک پہنچ جائے گا اور اسے ترک و توکل کے مراتب حاصل ہو جائیں گے اور وہ عارف باللہ واصل ہو جائے گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْفُقَرَآئِ الْاَغْنِیَآئِ
ترجمہ: بے شک اللہ غنی فقرا کو پسند کرتا ہے۔
مصنف فرماتا ہے کہ مرشد کامل کی نشانی یہ ہے کہ روزِ اوّل ہی طالبِ مولیٰ کو بادشاہی اور مکمل تصرف عطا کر دے جس سے وہ دنیا کے تمام مراتب سے سیری حاصل کر لے اور اس کا دل دنیا اور اہلِ دنیا سے بیزار ہو جائے۔ راہِ معرفتِ مولیٰ میں جو غنایت کی تمامیت تک پہنچ جائے وہ ہدایت میں مکمل ہو جاتا ہے لیکن مرد وہ ہے جو علمِ دنیا کو حاصل کرے اور دوسرے ہی ہاتھ اسے ترک کر دے۔ جو مرشد دل کی غنایت اور توفیقِ ہدایت کی خاطر علمِ دنیا عطا کرتا ہے وہ چار چیزوں پر مشتمل ہے۔ اوّل سنگِ پارس کا علم کہ اگر لوہے کو چھو جائے تو وہ تانبا بن جائے۔ انہی مراتب کی بنا پر فقیر دنیا میں لایحتاج ہوتا ہے۔ دوم وہ علم جس کی بنا پر زمین میں جتنے بھی اللہ کے غیبی خزانے ہیں وہ سب طالب کو معلوم ہو جائیں اور ان میں سے جس قدر چاہے استعمال کر لے۔ ان مراتب کی بدولت بھی فقیر دنیا میں لایحتاج ہوتا ہے۔ سوم علمِ کیمیا جو مؤکل بذریعہ الہام طالب کو عطا کرتے ہیں اور جب طالب اس کو درست سیکھتا ہے تو اپنے عمل میں لے آتا ہے۔ یہ مراتب بھی دنیا میں لایحتاج کر دیتے ہیں۔ چہارم وہ علم جس کے حصول کے بعد وہ نظر سے مٹی کو سونا بنا سکتا ہے اور جب وہ اسے سنار کے پاس لے جاتا ہے تو وہ سونا واپس مٹی نہیں بنتا اور جس قدر چاہتا ہے اسے استعمال کرتا ہے۔ اسمِ اعظم کی برکت سے یہ علوم فقیر کو دنیا میں لایحتاج بنا دیتے ہیں۔ مرشد طالبِ مولیٰ کو ابتدا میں ہی تصور اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے یہ علوم عطا کرتا ہے جس سے اس کا نفس جمعیت پاتا ہے اور خواہشاتِ نفس سے خلاصی پا لیتا ہے۔ اے طالب! اس کمتر مرتبہ پر مغرور نہ ہو بلکہ مرشد سے اس سے بھی آگے کے مقاماتِ قرب و معرفتِ الٰہی طلب کر تاکہ تو اللہ کی بارگاہ میں منظور ہو اور فنا فی اللہ ہو کر نور میں غرق ہو جائے اور مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری سے مشرف رہے جہاں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی گفتگو سن سکے اور اپنی عرض پیش کر سکے۔ وہ لوگ فقیر نہیں ہیں جو دنیا کے مال جیسے فتنہ و فضیحت کی طلب میں ہیں اور لوگوں کو اپنے جال میں پھنساتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
تَرْکُ الدُّنْیَا لِلدُّنْیَا
ترجمہ: (بعض لوگ) دنیا کو دنیا کی خاطر ترک کرتے ہیں۔
بعض لوگ نام و ناموس کی خاطر فقر اختیار کرتے ہیں اور عز و جاہ اور مال جمع کرنے کی خاطر لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں۔ جان لے کہ بعض نام نہاد فقیر کہتے ہیں کہ ہمیں دین اور دنیا دونوں عطا ہوئے ہیں۔ یہ نفسِ امارہ کا فریب اور حیلۂ شیطانی ہے جو کہ سراسر خطا ہے۔ ترکِ دنیا ہر عبادت کی بنیاد اور عطا ہے اور حبِ دنیا خطرات کی بنیاد اور خطا ہے۔ وہ عجیب احمق ہیں جو خطا کو عطا سمجھتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
تَرْکُ الدُّنْیَا رَاسُ کُلِّ عِبَادَۃٍ وَ حُبُّ الدُّنْیَا رَاسُ کُلِّ خَطِیْئَۃٍ
ترجمہ: ترکِ دنیا ہر عبادت کی بنیاد اور حبِ دنیا ہر برائی کی بنیاد ہے۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (سورۃ النسائ۔77)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجیے کہ متاعِ دنیا قلیل ہے۔
منافق اور بخیل مراتبِ دنیا کے طلبگار ہوتے ہیں اس لیے وہ ربِ جلیل کی معرفت سے محروم رہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
حُبُّ الدُّنْیَا وَ الدِّیْنِ لَا یَسْعَانِ فِیْ قَلْبِ عَبْدِ الْمُؤْمِنِ کَالْمَآئِ وَالنَّارِ فِی اِنَآئٍ وَّاحِدٍ
ترجمہ: مومن کے دل میں حب ِ دنیا اور حب ِ دین دونوں جمع نہیں ہو سکتے جیسے پانی اور آگ ایک برتن میں جمع نہیں ہو سکتے۔
وجود میں حرصِ دنیا کی آگ ایک مرض ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فِیْ قُلُوْبِھِمْ مَّرَضٌ لا فَزَادَھُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (سورۃ البقرہ۔10)
ترجمہ: ان کے دلوں میں بیماری ہے اور اللہ نے اس بیماری کو مزید بڑھا دیا ہے۔
توکل ایک نور ہے جو پانی کی مثل ہے اور فقرا اس سے سیراب ہوتے ہیں اور توکل کا یہ پانی وجود کو کامل صحت اور جمعیت بخشتا ہے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (سورۃ الطلاق۔3)
ترجمہ: اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو وہ اس کے لیے کافی ہے۔
بیت:
می نترسند عارفان دائم
لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃً لَّائِمِ
ترجمہ: عارفین کبھی بھی خوفزدہ نہیں ہوتے اور نہ ہی انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کا ڈر ہوتا ہے۔
اہلِ دنیا، منافق اور مشرک نفس پرست ہوتے ہیں جو نماز کو بھی ریاکاری سے پڑھتے ہیں۔ بیت:
نفس پلید باھوؒ! بر تن جامہ پاک چہ سود
در دل ہمہ شرک است سجدہ برخاک چہ سود
ترجمہ: اے باھوؒ! اگر نفس پلید ہو تو وجود پر پاک لباس کا کیا فائدہ؟ اسی طرح اگر دل میں شرک ہو تو خاک پر سجدہ کرنے کا کیا فائدہ؟
(جاری ہے)