کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر28 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جان لو کہ تین طرح کے لوگوں کے وجود ہرگز پاک نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ ناپاک ہیں اور ہمیشہ نجاست میں رہتے ہیں جب تک وہ نجاست سے نہ نکلیں ہرگز پاک نہیں ہو سکتے۔ اوّل دیوث( بیوی کی دلالی سے کمائی کر کے کھانے والا)‘ جو ریچھ کی صفات کا حامل ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدَّیُّوْثُ لَا یَدْخُلِ الْجَنَّۃَ
ترجمہ: دیوث جنت میں داخل نہیں ہو سکتا۔
دوم طالبِ دنیا‘ جو کتے کی مثل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا جِیْفَۃٌ وَ طَالِبُھَا کِلَابٌ
ترجمہ: دنیا مردار ہے اور اس کے طلبگار کتے ہیں۔
سوم منافق و کاذب‘ جو کافروں کی مثل ہیں ان کے متعلق اللہ کا ارشاد ہے:
مُّذَبْذَبِیْنَ بَیْنَ ذٰلِکَ (سوۃ النسا۔143)
ترجمہ: وہ (ایمان اور کفر کے مابین) متذبذب ہوتے ہیں۔
ثُمَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ کَفَرُوْا (سورۃ النسا۔137)
ترجمہ: پھر وہ ایمان لائے پھر کافر ہو گئے۔
مشرک، مردود، اہلِ بدعت، تارکِ صلوٰۃ و جماعت، ظاہری حسن پرست، اہلِ سرود اور تارکِ شریعت معرفتِ الٰہی اور وصال سے محروم ہوتے ہیں۔
ابیات:
سرود سر لعنت بود از سر گناہ
آں بود شیطان کہ ایں گوید مباح
ترجمہ: سرود سراسر لعنت ہے اور گناہوں کا باعث ہے۔ جو اسے جائز کہے وہ شیطان ہے۔
آں خوش آوازے دیگر است مدح رسولؐ
قتل سازد نفس را اہل الوصول
ترجمہ: لیکن وہ خوش آواز جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تعریف بیان کرے وہ سرود نہیں ہے۔ اہلِ وصال (اس آواز کو سن کر) نفس کو قتل کرتے ہیں۔
جان لو کہ سرود کفر ہے۔ کافر بتوں کے سامنے گانا بجانا کرتے ہیں اور شیطان بھی دوزخ کے دروازے کے سامنے طرح طرح کے نعرے لگائے گا اور اہلِ سرود ان نعروں کو سنتے ہی مکمل طور پر مست ہو جائیں گے اور شیطان کی طرف دوڑیں گے اور شیطان اپنی اس قوم کے ساتھ جہنم میں جائے گا۔ عارفین کو سرود کی آواز گدھے کی آواز سے بھی بدتر محسوس ہوتی ہے۔ اسی لیے مسلمان، مومنین، انبیا اور اولیا اللہ کو آوازِ قرآن مجید، تلاوتِ قرآن، مطالعۂ کتاب و حدیث اور زبان سے خوشی آوازی کے ساتھ مد کو کھینچ کر کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے سے راحت ملتی ہے۔ جنت کے دروازے پر سب سے پہلے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے اصحابؓ کے ہمراہ مد کو کھینچ کر بلند آواز کے ساتھ زبانِ مبارک سے کلمہ طیب کا نعرہ لگائیں گے اور کلمہ طیب کی آواز سنتے ہی تمام مومن و مسلمان مست ہو کر بے اختیار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف دوڑیں گے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے منظورِ نظر اور اخلاص کے ساتھ کلمہ پڑھنے والے تمام امتی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اردگرد جمع ہو جائیں گے۔ تب جنت سے یہ آواز آئے گی:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ۔ ق صلے ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔ج فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ۔لا وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ۔ (سورۃ الفجر۔27-30)
ترجمہ: اے نفسِ مطمئنہ! اپنے ربّ کی طرف اس حالت میں لوٹ کہ تو اس سے راضی ہو اور وہ تجھ سے راضی۔ میرے بندوں میں شامل ہو جا اور میری جنت میں داخل ہو جا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام امت کے خاص الخاص لوگوں کے ہمراہ جنت میں داخل ہوں گے۔ ان مومنین اور مسلمانوں کو مبارکباد۔ سرود سے اخلاص کے ساتھ وہی رجوع کرتا ہے جو کلمہ طیب و قرآن اور دینِ محمدی سے برگشتہ ہو چکا ہو۔ فقیر جو کچھ کہتا ہے حساب سے کہتا ہے نہ کہ حسد سے۔ جو سرود کے ساتھ ذکر کرتا اور تالیاں بجاتا ہے اوریَا اَللّٰہُ ھُو کہتا ہے وہ سرود سراسر رسوائی ہے کیونکہ اللہ کا نام عزت، صفائی اور پاکی سے تعلق رکھتا ہے اور جو اللہ کے پاک نام کو پلید سرود سے پڑھے وہ مطلق کافر ہو جاتا ہے۔ پس نام اللہ اور ذکرِ اللہ جہر ہو یا خفی‘ دائمی پاکیزگی اور زندگیٔ دل کا سبب ہے اور یہ فرضِ عین اور بندگی ہے۔ سرود پلیدی، شرمندگی اور شرِشیطان ہے۔ انہیں اختیار کرنے والوں کا خاتمہ بھی شر اور گندگی میں ہوگا۔ پس معلوم ہوا کہ اہلِ بندگی اور اہلِ گندگی کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔
ابیات:
ذکر قلبی چیست خاص الخاص نور
از ذکر ذاکر بود دائم حضور
ترجمہ: ذکرِ قلبی کیا ہے؟ یہ خاص الخاص نور ہے اور اس ذکر کی بدولت ذاکر کو دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔
بے حضوری ذکر ذاکر سر ہوا
باحضوری ذکر حاضر مصطفیؐ
ترجمہ: حضورِ قلب کے بغیر کیا جانے والا ذکر ذاکر کو خواہشاتِ نفس کی طرف مائل کرتا ہے جبکہ حضورِ قلب کے ساتھ کیا جانے والا ذکر ذاکر کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضوری میں لے جاتا ہے۔
ہر کہ بامشغول ذکرش صبح شام
خاتمہ بالخیر ذاکر والسلام
ترجمہ: جو صبح شام ذکرِ قلبی میں مشغول رہتا ہو اس کا خاتمہ خیر اور سلامتی پر ہوتا ہے۔
خلق گوید ذاکران دیوانہ اند
بے ذکر مردہ دل ز حق بیگانہ اند
ترجمہ: لوگ ذاکرانِ قلبی کو دیوانہ سمجھتے ہیں جبکہ بے ذکر مردہ دل ہیں جو حق سے غافل ہیں۔
ہر کہ دیوانہ شود با ذکر حق
زیر پائش عرش و کرسی ہر طبق
ترجمہ: جو ذکرِ حق میں مشغول ہو کر مست ہو جائے تو عرش و کرسی اور تمام طبقات اس کے قدموں تلے ہوتے ہیں۔
غرق گردد نور فی اللہ ہر دوام
انتہائے ذاکران را ایں مقام
ترجمہ: ذاکروں کا انتہائی مقام یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نورِ الٰہی میں غرق رہتے ہیں۔
ہر کہ غافل میشود ذکر از خدا
نفس او فربہ شود کفر از ریا
ترجمہ: جو ذکرِ الٰہی سے غافل ہو جائے اس کا نفس کفر اور ریا کے باعث طاقتور ہو جاتا ہے۔
اس کے متعلق فرمایا گیا ہے:
اَلرِّیَائُ اَشَدُّ مِنَ الْکُفْرِ
ترجمہ: ریا کفر سے بھی بدتر ہے۔
ذاکروں پر ذکرِ اللہ تب تک قرار نہیں پکڑتا جب تک کلیدِ ذکر ان کے ہاتھ میں نہ ہو اور کلیدِ ذکر اسمِ اللہ ذات کا تصور ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات سے ایسے ذکر کھلتے ہیں جو شمار نہیں کیے جا سکتے۔ وجود پر جتنے بال ہیں وہ الگ الگ ذکرِ اللہ میں اس طرح نعرے لگاتے ہیں کہ سر سے قدم تک گوشت پوست، رگیں اور ہڈیاں سب ذکرِ اللہ کی بدولت جوش میں آ جاتے ہیں۔ یہ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات کے مراتب ہیں کہ اس کے ظاہر و باطن میں بس وہی ذات ہوتی ہے۔ نیز ذکر چار چیزوں کے بغیر اثبات نہیں پکڑتا اوّل غرق فنا فی اللہ کا مشاہدہ، دوم مجلسِ محمدیؐ کی حضوری، سوم ماسویٰ اللہ سے نجات، چہارم مراتبِ بقا باللہ پر پہنچنا۔ یہ چاروں مراتب درج ذیل ذکرِ ربانی سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ذکرِخفی جس سے چشمِ روشن نصیب ہوتی ہے۔ ذکرِ حامل جس سے نفس فنا ہو جاتا ہے۔ ذکرِ سلطانی جس سے روح فرحت یاب ہوتی ہے اور ذکرِ قربانی جس سے قلب کو حیات حاصل ہوتی ہے اور تمام علوم کے مجموعہ کا ذکر جو کہ ذکرِ حیّ و قیوم ہے اس سے پنہاں اسرارِ سبحانی کھلتے ہیں۔ ان مراتب کے حامل ذاکر کو تصور اسمِ اللہ ذات سے اس قدر ربوبیتِ رحمٰن کے مشاہدات اور کلماتِ ربانی کا علم حاصل ہوتا ہے کہ اس کا حساب نہیں کیا جا سکتا۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
قُلْ لَّوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّکَلِمٰتِ رَبِّیْ لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ کَلِمٰتُ رَبِّیْ وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِہٖ مَدَدًا۔ (سورۃ الکہف۔109)
ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیں کہ اگر تمام سمندر کلماتِ ربانی تحریر کرنے کے لیے سیاہی بن جائیں تو تمام کلماتِ ربانی لکھنے سے قبل وہ سمندر ختم ہو جائیں گے خواہ ان جیسے مزید سمندر مدد کے لیے ساتھ ملا لیے جائیں۔
یہ مراتب اس حدیثِ قدسی کے موافق ہیں:
مَنْ طَلَبَنِیْ فَقَدْ وَجَدَنِیْ وَمَنْ وَجَدَنِیْ عَرَفَنِیْ وَمَنْ عَرَفَنِیْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَحَبَّنِیْ عَشَقَنِیْ وَ مَنْ عَشَقَنِیْ قَتَلْتُہٗ وَمَنْ قَتَلْتُہٗ فَعَلَیَّ دِیَّتَہٗ وَاَنَا دِیَّتَہٗ
ترجمہ: جو میری طلب کرتا ہے پس تحقیق وہ مجھے پا لیتا ہے اور جو مجھے پا لیتا ہے وہ مجھے پہچان لیتا ہے اور جو مجھے پہچان لیتا ہے اسے مجھ سے محبت ہو جاتی ہے اور جسے مجھ سے محبت ہو جاتی ہے وہ مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اور جو مجھ سے عشق کرنے لگتا ہے اسے میں قتل کر دیتا ہوں اور جسے میں قتل کر دوں اس کی دیت میرے ذمے ہوتی ہے اور اس کی دیت میں خود ہوں۔ ـ
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: جسے مولیٰ مل گیا پس اسے سب کچھ مل گیا۔
بیت:
باھوؒ کشتگانِ دیدار دائم باوصال
باجمال و باوصال و لازوال
ترجمہ: اے باھوؒ! دیدارِ حق سے قتل ہونے والے ہمیشہ باوصال رہتے ہیں اور انہیں لازوال جمالِ حق کا دیدار حاصل ہوتا ہے۔
جو ان مراتب پر پہنچ جائے وہ معرفتِ فقر کی انتہا پر قدم رکھتا ہے اور اس پر پانچ مراتب کھلتے ہیں اوّل مرتبہ یہ ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ (سورۃ آلِ عمران۔92)
تم ہرگز اَلْبِرّ تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیز وں کو (اللہ کی راہ میں) خرچ نہ کر دو۔
اور وہ اس صفتِ کریم کو اختیار کر لیتا ہے۔ دوم مرتبہ یہ ہے:
فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ (سورۃ الذاریات۔50)
ترجمہ: پس دوڑو اللہ کی طرف۔
اس مقام پر انسان حق تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور کبھی رجا اور کبھی خوف کی کیفیت میں ہوتا ہے۔ سوم مرتبہ یہ ہے:
وَ نَحْنُ اَقْرَبُ اِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ(سورۃ ق۔16)
ترجمہ: اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے نزدیک ہیں۔
اس مقام پر انسان تصور اسمِ اللہ ذات کی تاثیر سے شہ رگ سے بھی نزدیک ذات کی تجلیات کا مشاہدہ کرتا ہے اور قدرتِ الٰہی کی بدولت حضوری سے دل میں دلیل، الہام اور وھم کے ذریعے پیغامات پاتا ہے۔ یہ شرف امتِ محمدیہ کے ولی اللہ کا ہے جس کا وجود کوہِ طور کی مثل ہے اور اس وجود میں ہی وہ ولی اللہ موسیٰؑ کی مثل اللہ سے ہم کلامی کرتا ہے۔ ایسے فقرا کو علما عامل کہتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْعُلَمَآئُ اُمَّتِیْ خَیْرٌ مِنْ نَّبِیِّ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ
ترجمہ: میری امت کے علما بنی اسرائیل کے انبیا سے بہتر ہیں۔
چہارم مرتبہ یہ ہے:
وَ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ (سورۃ الذاریات۔21)
ترجمہ: اور (میں) تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔
بیت:
چشم را بکشا بہ بین از اسم نور
اسم اللہ می برد با تو حضور
ترجمہ: اپنی آنکھیں کھول اور اسمِ اللہ ذات کے نور سے دیکھ۔ اسمِ اللہ ذات تمہیں حضوری میں لے جائے گا۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اور اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کریں کہ خود کو بھی فراموش کر دیں۔
جو شخص ذکر سے دیوانہ ہو کر خود سے بے خود ہو جائے تو اس کے وجود پر ہاتھ رکھ کر دیکھو۔ اگر اس کا وجود انگارے کی مثل آگ سے بھی گرم تر ہو تو وہ معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ کے مشاہدے میں غرق ہوتا ہے اور اگر اس کا وجود پانی سے بھی سرد ہو گویا کہ مردہ‘ تو وہ انبیا و اولیا کی مجلس میں اُن سے ملاقات کر رہا ہوتا ہے۔ پس یہ مراتبِ توحید ہیں۔ جو وجود نہ سرد ہو نہ گرم اور وہ گریہ زاری اور آہ و فغاں کر رہا ہو تو وہ اہلِ تقلید ہے۔ پنجم مرتبہ اس آیت کے مصداق ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (سورۃ النجم17)
ترجمہ: ان کی نگاہ نہ کسی اور طرف مائل ہوئی اور نہ حد سے بڑھی۔
قطعہ:
کونین را نہ بیند ہر کہ بینا باخدا
کونین را بہ بیند آنکس کہ باہوا
ترجمہ: جو صاحبِ بصیرت ہو اور حق کو دیکھتا ہو وہ دونوں جہان کی طرف نظر بھی نہیں ڈالتا۔ دونوں جہان کی طرف وہی متوجہ ہوتا ہے جو خواہشاتِ نفس کا اسیر ہو۔
نظری کہ بانظیر است روشن ضمیر پس
آں کبر را نہ بیند کہ برسد بکبریا
ترجمہ: جس کی نظر کو دیدار حاصل ہو وہ روشن ضمیر ہوتا ہے اور چونکہ وہ ذاتِ کبریا تک پہنچ چکا ہوتا ہے اس لیے وہ متکبر نہیں ہوتا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ
ترجمہ: جب فقر مکمل ہوتا ہے تو وہی اللہ ہے۔
مندرجہ بالا تمام مراتب اور نورِ الٰہی کی تجلیات کو عین بعین دیکھنے کے مراتب کلیدِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سے کھلتے ہیں اور یہ تحقیق شدہ طریق ہے جو برحق ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ کافر و زندیق ہے۔ بلکہ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور تصور اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے مندرجہ ذیل آیات کا علم کھلتا ہے اور آگاہی بخشتا ہے:
عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا (سورۃ البقر۔31)
ترجمہ: (اللہ نے) آدم ؑ کو تمام اسماء کا علم سکھایا۔
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْ (سورۃ العلق۔5)
ترجمہ: انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
عَالِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ (سورۃ الحشر۔22)
ترجمہ: وہ پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والا ہے۔
تب اس (طالب) کے وجود میں شرک، کفر، بدعت اور ذرہ برابر بھی گمراہی باقی نہیں رہتی۔ لہٰذا وجود پر لباسِ شریعت اوڑھ کر شرعی احکامات پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہے اور دریائے معرفت نوش کرتا ہے۔ یہ مراتب ہوشیار اور وسیع حوصلہ رکھنے والے کے ہیں جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ میں غرق مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں رہتا ہے۔
جان لو کہ مرشد تین قسم کے ہیں اور طالب بھی تین قسم کے ہیں۔ مرشدِ دنیا جس کے طالب دنیا اور اس کی عز و جاہ کے طلبگار ہوتے ہیں۔ یہ دونوں گمراہ ہیں۔ مرشدِعقبیٰ جس کے طالب عقبیٰ کے طلبگار ہوتے ہیں اور وہ صاحبِ تقویٰ ہوتے ہیں اور درد کے باعث آہ و زاری کرتے رہتے ہیں۔ مرشد عارف باللہ جس کے طالب نورِ الٰہ میں غرق ہونے کے طلبگار ہوتے ہیں۔ خاص طالب وہ ہے جو نیک اعمال کرنے والا باعمل عالم ہو اور رات دن معرفتِ الٰہی اور وصال کا طلبگار ہو لیکن مرشد کامل وہ ہے جو طالبِ مولیٰ کو ورد وظائف اور ذکر فکر میں مشغول نہ کرے کیونکہ ورد و وظائف اور ذکر فکر سے رجعت، سکر و سہو، لغو و لہو اور قبض و بسط پیدا ہوتے ہیں جو رجوعاتِ خلق، حوادثاتِ دنیا کی پریشانی، خواہشاتِ نفسانی اور خطراتِ شیطانی جیسی بے انتہا مصیبتوں اور تکلیفوں کا سبب بنتے ہیں۔ مرد مرشد وہ ہے جو طالبِ مولیٰ کو ہر ایک مصیبت سے نجات دلا دے اور ایک ہی بار میں اسمِ اللہ ذات کے حاضرات سے معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ میں غرق کر کے ہمیشہ کے لیے اللہ کی نظر میں منظور کرا دے اور نورِ الٰہی میں فنا کر کے مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری سے مشرف کر دے۔ مرشد کامل وہ ہے جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی کی حضوری کے علاوہ کوئی دوسرا سلک سلوک نہیں جانتا اور طالب صادق وہ ہے جو مرشد سے معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی کی حضوری کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرتا۔