کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan – Urdu Translation


5/5 - (1 vote)

کلید التوحید (کلاں)  | Kaleed ul Tauheed Kalan 

قسط نمبر29                                                                 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

اکثر لوگ سانس کو روک کر ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکرِ حبسِ دم ہے۔ یہ ذکرِ حبسِ دم نہیں ہے۔ اس طرح سانس روکنا کفار کا طریقہ ہے جو کہ بیکار ہے۔ مسلمان اولیا کے طریقِ تحقیق کے مطابق ذکرِ حبسِ دم یہ ہے کہ جو شخص ذکرِ حبسِ دم کرتا ہے اس کا قلب زندہ ہو جاتا اور نفس مر جاتا ہے اور یہ ذکرِ حبسِ دم اپنے ذاکر کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری میں لے جاتا ہے اور نورِ وحدانیت میں غرق کر دیتا ہے جس سے ذاکر کے وجود میں دنیا کے غم، انا اور کچھ غلط چیز باقی نہیں رہتی۔ اس طریقے سے ذکرِ حبسِ دم کرنے والے ذاکر دنیا میں گمنام اور کم ہیں۔ یہ انتہائی ذکر‘ اسمِ اللہ ذات کا ذکر ہے جو کہ آفتاب کی مثل ہے۔ جب یہ وجود میں طلوع ہو کر روشنی بکھیرتا ہے تو نفس کی سیاہی اور شیطان وہاں موجود نہیں رہتے۔ جان لو کہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ فقر صلح کلُ(ہر شے کی سلامتی اور امن کا باعث) ہے اس لیے ہر دل عزیز ہے۔ یہ احمق لوگ جو کفر و اسلام، حلال و حرام اور علم و جہالت کے درمیان فرق نہیں کر سکتے یہ نہیں جانتے کہ صلح کلُ کے معنی کیا ہیں۔ صلح کلُ دونوں جہان اور اٹھارہ ہزار عالموں کی کلید ہے اور وہ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  ہے۔ جو اس کلیدِ کلمہ طیب کو اسمِ اللہ ذات کے حاضرات کی مدد سے آیاتِ نص و حدیث کے موافق اپنے ہاتھ میں لے آتا ہے تو شریعتِ محمدیؐ کی برکت سے دونوں جہان اس کے تصرف میں آ جاتے ہیں کیونکہ صاحبِ توفیق، فنا فی اللہ اور حق کے رفیق فقرا صلح کلُ ہیں نہ کہ اہلِ بدعت و زندیق۔ 

اَلزِّنْدِیْقُ ھُوَ الَّذِیْ یَخْفَیَ الْکُفْرَ 
ترجمہ: زندیق وہ ہے جو اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ میرا پیر خس (یعنی کم مرتبہ) ہے لیکن میرا اس پر کامل اعتقاد ہے۔ وہ غلط کہتے ہیں۔ کیونکہ مراتب تین ہیں عام، خاص اور خاص الخاص اخص۔ چونکہ میرا پیر معرفت اور فقر کی تمامیت اور انتہا پر ہے اور کامل و اخص ہے تو میرا اعتقاد بھی اسی وجہ سے کامل ہے۔

اکثر لوگ کہتے ہیں کہ حج کے لیے جانا دنیا کی سیر اور تماشا دیکھنا ہے اور نفلی روزے رکھنا رزق کی بچت ہے اور نوافل نمازیں ادا کرنا بیواؤں کا کام ہے اور دل کو قبضہ میں لے آنا مردوں کا کام ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ یہ مردہ دل اور خوار لوگوں کا گروہ ہے جو دل کی زندگی اور معرفتِ پروردگار سے بے خبر ہے۔ نہ ہر وجود کے اندر دل معرفت و وِصال اورنورِ الٰہی کے خزانوں سے پرُ ہوتا ہے اور نہ ہی ہر پتھر لعل ہوتا ہے اور نہ ہی ہر کوئی جمالِ ربوبیت کے مشاہدہ میں غرق ہوتا ہے اور نہ ہی ہر زبان پر باتاثیر تفسیر ہوتی ہے اور نہ ہر شخص روشن ضمیر اور نفس پر امیر فنا فی اللہ فقیر ہوتا ہے۔ میرا یہ قول ماضی، حال اور مستقبل کے لیے یکساں ہے۔ اے احمق اور گدھے سن! حج پر جانا سرمایۂ ایمان اور سلامتی ہے۔ نفل روزے رکھنا جان کی پاکی کا سبب ہے۔ نوافل نمازیں ادا کرنا خوشنودیٔ رحمن کا باعث ہے۔ جو اللہ رحمن کی طاعت سے روکے وہ دیو خبیث ابلیس اور راہزن شیطان ہے۔ مصنف کہتا ہے کہ اہلِ دنیا کے دل کو اپنے قبضہ میں لے آنا پریشان لوگوں کا کام ہے۔ کشف و کرامات میں مشغول رہنا نامکمل لوگوں کا کام ہے۔ رجوعاتِ خلق سے خوش ہونا نادان لوگوں کا کام ہے۔ نقش بنانا اور امرا و بادشاہوں کو اپنے سامنے حاضر کر لینا خام لوگوں کا کام ہے۔ جبکہ خود سے فنا ہونا اور عین بعین فنا فی اللہ بقا باللہ کے مراتب پر پہنچنا مردوں کا کام ہے۔ تیس حروف‘ جو عرشِ اکبر کے گرد لکھے ہیں‘ کے ہر حرف کے تصور سے کشف و کرامات کھلتی ہیں اور مذکورہ بالا تمام مراتب کا مشاہدہ ناخن کی پشت یا ہاتھ کی ہتھیلی پر ایک ساتھ دکھائی دیتا ہے اور اللہ کے کرم سے عمر بھر قائم رہتا ہے۔ پس جس مرشد کو یہ مراتب حاصل ہوں اسے ریاضت کرنے کی کیا ضرورت؟ صاحبِ محبت کو محنت کرنے کی کیا ضرورت؟ صاحبِ مشاہدہ کو مجاہدہ کی کیا ضرورت؟ وہ عارف جو صاحبِ فقر ہو اور معرفت میں مکمل اور کامل ہو اسے جنات اور مؤکلات سے الہام پانے کی کیا حاجت؟ سن اے خام و ناقص! مرشد کامل عارف باللہ معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ کی ابتدا و انتہا اور مجلسِ محمدی کی حضوری ایک ساعت میں بغیر کسی رنج اور طاعت کے جمعیت و آرام سے عطا کر دیتا ہے کیونکہ صاحبِ گنج کو محنت او ر رنج کی کیا ضرورت؟ پس مرشد طالبوں کو ایک ہفتہ میں ظاہری و باطنی مطالب کی انتہا تک پہنچا کر لایحتاج بنا دیتا ہے۔ جو مرشد اس سے زیادہ محنت و ریاضت کرائے تو معلوم ہوا کہ وہ مرشد راہِ معرفت و باطن اور اسمِ اللہ  ذات کے تصور کی قوت سے حاصل ہونے والی حضوری کے متعلق نہیں جانتا لہٰذا وہ خام ہے اور معرفتِ الٰہی اور وِصال سے بے خبر ہے۔ جو اسمِ اللہ ذات اور معرفتِاِلَّا اللّٰہُ کے درجات اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کا منکر ہو جائے اور اس پر اعتقاد نہ رکھے وہ مطلق کافر اور مردود ہو جاتا ہے کیونکہ مجلسِ محمدی کی حضوری کا طریق تحقیق شدہ ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ منافق اور اہلِ زندیق ہے۔ عارف باللہ صاحبِ نگاہ و بصیرت ہوتا ہے۔ وہ بے بصیرت اور بے چشم نہیں ہوتا اس لیے عارف باللہ سے کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں ہوتی۔یہ یقین ہے کہ جو راہِ محمدیؐ سے بے یقین ہو وہ نابینا، کور چشم، اہلِ خشم، حاسد، پرُ ہوس اور بے بصیرت ہوتا ہے۔ عارفین کو امتحان کی خاطر استخارہ کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ان سے حق طلب کرو کیونکہ وہ مراتبِ حق رکھتے ہیں اور باطل سے بیزار ہوتے ہیں ۔جو انہیں راضی کر لے وہ صاحبِ نظر ہو جاتا ہے اور دونوں جہان اس کے مدنظر ہوتے ہیں اور وہ صاحبِ دیدار ہوتا ہے۔ اللہ کے سوا اس کا دل دنیا کی ہر شے سے بیزار ہو جاتا ہے اور دنیا اس کے پاؤں تلے پتھر کی مثل ہوتی ہے۔

جان لو کہ مصنف کہتا ہے کہ علم کے تین حروف ہیں اور عمل کے تین حروف ہیں اور فقر کے بھی تین حروف ہیں اور فقہ کے بھی تین حروف ہیں۔ فیض کے بھی تین حروف ہیں، فضل کے بھی تین حروف ہیں، رحم کے بھی تین حروف ہیں، حلم کے بھی تین حروف ہیں، نفس کے بھی تین حروف ہیں، قلب کے بھی تین حروف ہیں، روح کے بھی تین حروف ہیں، راز کے بھی تین حروف ہیں، نور کے بھی تین حروف ہیں، غرق کے بھی تین حروف ہیں، فنا کے بھی تین حروف ہیں اور بقا کے بھی تین حروف ہیں۔ پس یہ اڑتالیس حروف کا مجموعہ ہے اور ہر حرف سے تہتر ہزار علوم اور ستر ہزار درجات منکشف ہوتے ہیں۔ جو مرشد روزِ اوّل طالبِ مولیٰ کو ہر علم اور درجات کا مشاہدہ اور تحقیق اسمِ اللہ ذات اور کلیدِکلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ   سے نہیں کراتا اور قرآن و حدیث کی ہر آیت کی خاصیت طالب کے اندر پیدا نہیں کرتا تو معلوم ہوا کہ وہ مرشد ناقص اور ناتمام ہے۔ تاہم تعلیمِ علم اور تلقینِ فقر بس ایک حرف میں ہے۔ 

ابیات:

علم یک نقطہ بود زاں دان حرف
باعلم عارف شوی صاحب شرف

ترجمہ: علم ایک نقطہ ہے اگر تو اس ایک حرف کو جان لے تو توُ صاحبِ علم اور صاحبِ شرف عارف ہو جائے گا۔

آں علم حرفی یافتم از مصطفیؐ
واقفِ اسرار گشتم از الہٰ

ترجمہ: اس ایک حرف کا علم میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سیکھا اور اس کی بدولت حق تعالیٰ کے اسرار سے واقف ہو گیا۔

جاہلاں را نیست جائے پیش حق
زیر پائی عالمان را ہر طبق

ترجمہ: حق تعالیٰ کے حضور جاہلوں کی گنجائش نہیں لیکن علمائے حق کے قدموں تلے تمام طبقات ہیں۔

عرش فرش خواب گاہِ ہر مقام
با خداوند غرق گشتم ہر دوام

ترجمہ: عرش، فرش یا خوابگاہ میں کسی بھی مقام پر ہوں میں ہمیشہ حق تعالیٰ کے ساتھ مشغول رہتا ہوں۔

جان لو کہ وہ کونسا سلک سلوک ہے جس میں شیطان تمام عمر انسان کے قریب بھی نہیں آ سکتا اور نفس ظاہری و باطنی عبادت سے فارغ نہیں ہوتا۔ دنیا اور اہلِ دنیا اس طریق کے غلام ہیں۔ تو نہیں جانتا کہ عارف فقیر کی زبان تیغِ برہنہ ہے جو سیف اللہ کی مثل قتل کرنے والی ہے ۔ تو نہیں جانتا کہ فقیر کی توجہ و دلیل جان بلب مردے کو دمِ عیسیٰؑ کی مانند حیاتِ ابدی عطا کرتی ہے۔ تو نہیں جانتا کہ وھم کے ذریعے فقیر نص و حدیث کے موافق علمِ واردات اور فتوحاتِ غیبی کا صحیح الہام بخشتا ہے۔
اَلْاِلْہَامُ اِلْقَآئُ الْخَیْرِ فِیْ قَلْبِ الْغَیْرِ بِلَا کَسَبٍ۔ اَلْاِلْہَامُ قَرِیْبٌ عَنِ الرَّحْمٰنِ وَ بَعِیْدٌ عَنِ الشَّیْطٰنِ   
ترجمہ: دوسروں کے دل میں بلا کسب بھلائی کا خیال ڈالنا الہام ہے۔ الہام رحمن کے قریب اور شیطان سے دور ہے۔

وہ الہام جو تصور اسمِ اللہ ذات اور ذکرِ نفی اثبات اور کلیدِکلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ   سے دل میں پیدا ہو اور پھر زبان پر آئے اس سے ماضی، حال اور مستقبل کے حقائق کھلتے ہیں۔ تو نہیں جانتا کہ فقیر کے خیال سے دل میں معرفتِ وصال پیدا ہوتی ہے اور طالب کی زبان پر اللہ اور اس کے رسول کا کلام آ جاتا ہے اور وہ قال کا معاملہ قال سے، حال کا معاملہ حال سے اور وصال کا معاملہ لازوال وصال سے کرتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
کُلُّ اِنَآئٍ یَتَرَشَّحُ بِمَا فِیْہِ 
ترجمہ: برتن سے وہی چیز برآمد ہوتی ہے جو اس کے اندر ہو۔

وہ کونسا سلک سلوک ہے جس میں طالب ہمیشہ اللہ کی نظر میں منظور اور مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری میں رہتا ہے جہاں وہ شعور کے ساتھ ذکرِ الٰہی میں مشغول رہتا ہے اور اپنی عرض پیش کرتا ہے۔ یہ تصور اسمِ  اللہ  ذات کی تلوار سے یہودی نفس کے ساتھ جہاد کرنے اور اسے قتل کرنے کے مراتب ہیں جس کی بدولت اُسے معبودِ برحق کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے جو کہ دونوں جہانوں کا مطلوب و مقصود ہے۔ یہ کل و جز مراتب اسمِ اللہ ذات کے حاضرات، تصور اسمِ محمد اور کلیدِکلمہ طیب سے کھلتے ہیں جو کہ تحقیق شدہ طریق ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ ملعون و زندیق ہے۔ جان لو کہ بندے اور اللہ کے درمیان کوئی پہاڑ، دیوار یا میلوں کی مسافت نہیں ہے بلکہ بندے اور خدا کے درمیان پیاز کے پردے جیسا حجاب ہے۔ اس پیاز کے پردے کو تصور اسمِ اللہ  ذات اور صاحبِ راز مرشد کامل کی نگاہ سے توڑنا بالکل مشکل نہیں۔ تو آئے تو دروازہ کھلا ہے اور اگر نہ آئے تو خدا بے نیاز ہے۔ جان لو کہ مرتبۂ فقر اور معرفت ہر دوسرے مرتبہ سے بلند تر، عظیم اور کریم ہے۔ یہ بدمذہب، بدعتی اور بدنظر لوگ فقیر نہیں ہیں جو کتوں کی مثل در در سے کھانا مانگتے ہیں۔ یہ تو تارک الصلوٰۃ، خبیث، ابلیس ثانی ہیں جو اُم الخبائث شراب پیتے ہیں اور معرفتِ الٰہی سے اندھے اور بے نصیب ہیں۔ جو ان کو محبوب رکھے گویا وہ شیطان کو محبوب رکھتا ہے۔ ان سے دوستی اللہ اور اس کے رسولؐ سے دشمنی ہے۔ یہ اہلِ بدعت، نفس پرست اور خواہشات کے غلام لوگوں کا گروہ ہے۔ 

فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ (سورۃ البقرہ۔268)
ترجمہ: شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا تَجْلَسُوْٓا مَعَ اَہْلَ الْبِدْعَۃِ 
ترجمہ: اہلِ بدعت کی ہم نشینی اختیار نہ کرو۔
جیسا کہ شیخ سعدی شیرازیؒ نے فرمایا:

خلافِ پیغمبرؐ کسی راہ گزید
کہ ہرگز بہ منزل نہ خواہد رسید

ترجمہ: جس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی راہ کے علاوہ کوئی دوسری راہ اختیار کی وہ ہرگز منزل تک نہیں پہنچے گا۔

جوابِ مصنف:

خلافِ شریعت بود چشم کور
کہ نورش نہ بیند رسد لب بگور

ترجمہ: خلافِ شریعت چلنے والا اندھا ہوتا ہے جو قبر تک پہنچ جاتا ہے لیکن نور سے محروم (اور اندھا) ہی رہتا ہے۔

فقر نور کی ایک صورت ہے جو ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت میں رہتی ہے۔ اس کا نام سلطان الفقر ہے اور وہ فیض بخش ہے۔ نورِ سلطان الفقر آفتاب سے بھی روشن تر ہے اور اس کی خوشبو مشک، گلاب اور عنبر سے بھی زیادہ خوشبودار ہے۔ جو سلطان الفقر کو خواب میں دیکھ لے وہ لایحتاج فقیر بن جاتا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے باطن میں دست ِ بیعت فرما کر تعلیم و تلقین کرتے ہیں۔ میرا یہ قول میرے حال کے عین مطابق ہے۔ جو فقر کی انتہا تک پہنچ جائے دنیا و عقبیٰ دونوں مکمل طور پر اس کے قدموں تلے آ جاتے ہیں۔  ابیات:

مرا ز پیر طریقت نصیحتی یاد است
کہ غیر یاد خدا ہر چہ ہست برباد است

ترجمہ: مجھے میرے پیر طریقت کی نصیحت یاد ہے کہ یادِ خدا کے سوا ہر شے برباد ہونے والی ہے۔

دولت بہ سگان دادند نعمت بخران
ما امن امانیم تماشا نگران

ترجمہ: دولت کتوں میں بانٹ دی گئی اور نعمتیں گدھوں کو اور ہم امن میں بیٹھے ان کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔

جان لو کہ کلمہ طیب کے چوبیس حروف ہیں اور رات دن میں چوبیس گھنٹے ہیں اور دن رات کے درمیان انسان چوبیس ہزار بار سانس لیتا ہے۔ جب فقیر خاص حضوری میں تصدیق ا ور اخلاص سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ    پڑھتا ہے تو کلمہ طیب کے ہر حرف سے اس کے ہر گھنٹے کے گناہ اس طرح جل جاتے ہیں جس طرح آگ خشک لکڑی کو جلا دیتی ہے اور کلمہ کے ہر حرف سے ہزار علم کھلتے ہیں اور ہر ایک علم سے ہزار عمل ظاہر ہوتے ہیں جو اللہ کی نظر میں مقبول ہوتے ہیں اور ان اعمال کے مجموعہ سے کلمہ طیب کا ذاکر عارف باللہ بن کر مقربِ حق ہو جاتا ہے اور اس پر حق ظاہر ہو جاتا ہے۔ مجھے ان احمق اور بے شعور لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو مردہ دل اورمغرور نفس کے حامل، بے باطن اور بے قوت ہیں اور انہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نہ دستِ بیعت فرمایا ہے نہ ہی تعلیم و تلقین کی ہے اور وہ کلیدِکلمہ طیب کی کنہ سے ناواقف ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم اور رخصت و اجازت کے بغیر راہِ تقلید سے طالبوں کو ذکر کی تعلیم اور تلقین کرتے ہیں لیکن ذکر اُن کے اپنے وجود میں تاثیر نہیں کرتا اور نہ ہی ان کا نفس خواہشات اور گناہوں سے باز آتا ہے اور نہ ہی راہِ توحید اور معرفتِ الٰہی کے احوال ان پر کھلتے ہیں۔ جب کامل مرشد طالبِ مولیٰ کو اصل ذکر عطا کرتا ہے جس کی اساس توحید ہے تو سب سے پہلے اپنی نگاہ سے اور تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے دریائے سرِّ میں غوطہ دیتا ہے جو توحید کے لیے سیپی(کی مثل) ہے اور طالب کا وجود پاک کر دیتا ہے۔ اس کے بعد مرشد ذکر ِ کلمہ کی اجازت عطا کرتا ہے جس پر طالب کہتا ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  ۔ جب طالب اس ترتیب سے کلمہ پڑھتا ہے تو اس کے دل کی آنکھ کھل جاتی ہے اور وہ مقامِ معرفت کے راز تک پہنچ جاتا ہے۔ پس اس طالب سے مقاماتِ ذات و صفات اور زمین و آسمان کے طبقات مخفی اور پوشیدہ نہیں رہتے ورنہ کلمہ تو جلاد، منافق اورمردہ دل بھی پڑھتے ہیں لیکن کلمہ کی کنہ اور حقیقت سے ناواقف رہتے ہیں۔ شریعت کی پیروی سے ہی کلمہ تاثیر کرتا ہے جبکہ بے شریعت ذکر ِ کلمہ سے رجعت خوردہ اور خراب حال ہو جاتا ہے۔ بیت:

راہ می باید مرا راہِ نبیؐ
ہر کہ راہی رفت دیگر شد شقی

ترجمہ: مجھے تو راہِ نبیؐ درکار ہے۔ جو کسی دوسری راہ پر چلا وہ بدبخت ہے۔

جان لو کہ علمِ توریت، علمِ انجیل، علمِ زبور اور علمِ قرآن اور علمِ حدیثِ قدسی و حدیثِ نبویؐ اور ایمان سے متعلق تمام علوم، ظاہر و پوشیدہ اسرارِ ربانی کا علم، علمِ نور، علمِ معراج و حضوری، علمِ مشاہدہ، علم قدس اور علمِ کل و جز سب کلمہ طیب کی طے میں ہیں۔ جیسے ہی کلمہ طیب کی کنہ کھلتی ہے تو تمام علوم شرح کے ساتھ اس پر منکشف ہو جاتے ہیں۔ کلمہ طیب پڑھنے والا جب اسے معنی و تحقیق سے پڑھتا ہے تو ہر علم کو کشف کے ذریعے جان لیتا ہے۔ ایسے بزرگ فقیر اور کلمہ طیب پڑھنے والے کو جو جاہل کہے اور کلمہ طیب پڑھنے سے روکے وہ کافر ہو جاتا ہے کیونکہ آوازِ کلمہ طیب سے کافر پریشان ہو جاتا ہے اور اس کی جان لبوں پر آ جاتی ہے وہ اس لیے کہ کلمہ طیب کی آواز کافر، منافق، حاسد اور سیاہ و مردہ دل کو پسند نہیں آتی۔ لیکن آوازِ کلمہ طیب مومن، مسلمان اور صاحبِ تصدیقِ قلب کو فرحت بخشتی ہے اور لذت و جمعیت عطا کرتی ہے جس سے حق تعالیٰ کے لیے شوق بڑھتا ہے اور وجود میں عزت اور شرف پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ذکرِ الٰہی کی اس نعمت کو تمام مومن اور مسلمان بھائیوں کا نصیب کرے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
ذِکْرُ اللّٰہِ فَرَضٌ مِنْ قَبْلِ کُلِّ فَرَضٍ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ   
ترجمہ: ذکرِ اللہ دیگر تمام فرائض سے اوّل فرض ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَلَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ (سورۃ العنکبوت۔45)
ترجمہ: اور اللہ کا ذکر سب سے اعلیٰ ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایاـ:
مَنْ قَالَ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  مَرَّۃً لَمْ یَبِقْ ذُنُوْبَہٗ ذَرَّۃٍ 
ترجمہ: جس نے ایک مرتبہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کہا تو اس کا ایک بھی گناہ باقی نہ رہا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ قَالَ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ دَخَلَ الْجَنَّۃَ بِلَا حِسَابٍ وَّ بِلَا عَذَابٍ 
ترجمہ: جس نے کہالَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  وہ حساب اور عذاب کے بغیر جنت میں داخل ہو گا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید ارشاد فرمایا:
قَائِلُوْنَ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ مُخْلِصُوْنَ قَلِیْلًا 
ترجمہ: لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ   کہنے والے تو کثیر ہیں لیکن مخلص قلیل ہیں۔

مصنف کہتا ہے کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ  کہنے سے کلمہ طیب کی عصمت کی بدولت کلمہ طیب پڑھنے والے کی جان، مال اور وجود پاک ہو جاتے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَفْضَلُ الذِّکْرِ  لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ 
ترجمہ: افضل ذکر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔

مصنف کہتا ہے کہ کلمہ طیب کا ذکر اولیا اللہ کو نصیب ہوتا ہے اسی لیے وہی اصل اُمتِ محمدیہ کہلاتے ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔  (سورۃ یونس۔62)
ترجمہ: خبردار! بیشک اولیا اللہ کو نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

وَ لَسَوْفَ یُعْطِیْکَ رَبُّکَ فَتَرَضٰی (سورۃ الضحیٰ۔5)
ترجمہ: اور عنقریب آپ کا ربّ آپ کو اس قدر عطا کرے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔

ابیات:

نجات   مردم   جان لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ
کلید  قفل   جنان  لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ

ترجمہ: لوگوں کی نجات لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ  میں ہے اور جنت کے قفل کی چابی بھی لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ ہے۔

چہ خوف آتش دوزخ چہ باک دیو لعین
او  را  کہ  کرد  بیان  لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ

ترجمہ: جو لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ  کا ورد کرتا ہو اسے آتشِ دوزخ کا کیا خوف اور شیطان لعین کا کیا ڈر؟

نبود ملک نہ عالم نہ دورِ چرخِ کبود
کہ  بود  دورِ  امان لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ

ترجمہ: جب نہ فرشتے تھے نہ عالم اور نہ نیلا آسمان، تب بھی لَآ  اِلٰہَ  اِلَّا  اللّٰہُ  کا دورِ امان تھا۔

کلمہ طیب پڑھنے والے کو چار چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اوّل جسے کلمہ طیب کے ذکر سے تصدیقِ قلب حاصل نہیں ہوتی وہ منافق ہے۔ دوم جسے کلمہ طیب سے پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی وہ فاسق ہے۔ سوم جسے کلمہ طیب سے حلاوت، لذت، جمعیت اور اخلاص حاصل نہیں ہوتا وہ ریاکار ہے۔ چہارم جو کلمہ طیب کی تعظیم نہیں کرتا وہ بدعتی ہے۔ کیا تو جانتا ہے کہ کلمہ طیب کو یہ نام کیوں دیا گیا؟ اس لیے کہ اس کلمہ طیب میں خدا عزّوجل کی پاکی کا ذکر ہے جس سے پلید لوگوں، مشرکوں، کافروں، منافقوں، حاسدوں، غافلوں اور مردہ دلوں پر غالب آیا جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ فِیْ ذِکْرِ الْجَلِیِّ عَشَرَ فَوَائِدَ صَفَآئُ الْقُلُوْبِ وَ تَنْبِیْہُ الْغَافِلِیْنِ وَ صِحْۃُ الْاَبْدَانِ وَ مُحَارَبَۃُ بِاَعْدَآئِ اللّٰہِ تَعَالٰی وَاِظْہَارُ الدِّیْنِ وَنَفِیُّ خَوَاطِرِ الشَّیْطَانِیَّۃِ وَ نَفِیُّ خَوَاطِرِ النَّفْسَانِیَّۃِ وَ تَوَجَّۃُ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَ الْاِعْرَاضُ عَنْ غَیْرِ اللّٰہِ وَ فِیْہِ یَرْفَعُ الْحِجَابِ بَیْنَہٗ وَ بَیْنَ اللّٰہِ 
ترجمہ: ذکرِ جلی میں دس فائدے ہیں قلوب کی پاکیزگی، غافلین کی تنبیہ، بدنوں کی صحت، اللہ کے دشمنوں سے جنگ، دین کا اظہار، شیطانی خیالات کی نفی، نفسانی خیالات کی نفی، اللہ کی طرف توجہ، غیر اللہ سے اعراض، اللہ اور ذاکر کے درمیان سے حجابات کا اٹھ جانا۔

 (جاری ہے)

 
 
 

اپنا تبصرہ بھیجیں