قسط نمبر30 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
مصنف کہتا ہے کہ مرشد و طالب کے درمیان یہ سوال و جواب ہوتے ہیں۔
مرشد فرماتا ہے:
از زن و فرزند طالب جان عزیز
طلب کن طالب ترا مطلب چہ چیز
ترجمہ: اے طالب! تو مجھے میرے اہل و عیال سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ لہٰذا طلب کر تیرا مطلوب کیا ہے؟
طالب کہتا ہے:
ہر مطالب می کشاید باطلب
می نما کونین را بنمائے مارا در قلب
گر تو مرشد حق پرستی باخدا
کونین را بر پشت ناخن می نما
ترجمہ: اگر تمام مطالب آپ سے طلب کرنے پر پورے ہو سکتے ہیں تو مجھے میرے قلب میں کونین کی حقیقت دکھا دیں اور اگر آپ حق پرست اور واصل باخدا مرشد ہیں تو کونین کا نظارہ مجھے میرے ناخن کی پشت پر دکھائیں۔
مرشد باھوؒ فرماتا ہے:
ایں کمینہ مرتبہ کمتر مبین
تا ترا فی اللہ برم حق الیقین
جز خدا دیگر نماند یاد تو
طلب کن اللہ غیر از دل بشو
ترجمہ: (کونین کا نظارہ دیکھنا بھی) کمینہ مرتبہ ہے تو اس کمتر مرتبے کی طرف نہ دیکھ۔ میں تجھے اللہ تک لے جاؤں گا تاکہ تجھے حق الیقین حاصل ہو جائے پھر تجھے اللہ کے سوا کچھ یاد نہ رہے گا۔ لہٰذا اللہ کی طلب رکھ اور دل سے غیر اللہ کو دھو ڈال۔
جو فقرِ الٰہی کے مرتبہ پر پہنچ جائے پھر وہ بدعت اور گمراہی میں قدم نہیں رکھتا۔ یہ تصدیق القلب اور صدق کے مراتب ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
اَنَّ لَھُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّھِمْط قَالَ الْکٰفِرُوْنَ اِنَّ ھٰذَا لَسٰحِرٌ مُّبِیْنٌ۔ (سورۃ یونس۔2)
ترجمہ: ان کے لیے ان کے ربّ کے پاس بلند پایہ (یعنی مرتبہ) ہے کافر کہتے ہیں کہ بے شک یہ شخص تو کھلا جادوگر ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَکْثِرُوْا ذِکْرُ اللّٰہِ تَعَالٰی حَتّٰی یَقُوْلُوْنَ اِنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ
ترجمہ: ذکرِ اللہ اس قدر کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں دیوانہ کہنے لگیں۔
اَلنَّاسُ مُجْزِیُوْنَ بِاَعْمَالِھِمْ اِنْ خَیْرًا فَخَیْرٌ وَ اِنْ شَرًّا فَشَرٌّ
ترجمہ: لوگوں کو ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اگر خیر کریں گے تو بدلہ خیر ہوگا اور اگر برا کریں گے تو بدلہ برا ہوگا۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ۔ط وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَہٗ۔ (سورۃ الزلزال۔7-8)
ترجمہ: پس جو ذرّہ برابر بھی نیکی کرے گاوہ اسے بھی دیکھ لے گا اور جو ذرّہ برابر برائی کرے گا تو وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَ مَنْ اَسَآئَ فَعَلَیْھَا ط (سورۃ حٰمْ السجدہ۔46)
ترجمہ: جو اپنے نفس کے لیے نیک اعمال کرتا ہے اس کا وبال اس کی جان پر ہوگا۔
کافر، منافق اور حاسد انبیا اور اولیا اللہ کے قدیم دشمن ہیں۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ اصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ہَجْرًا جَمِیْلًا۔ وَ ذَرْنِیْ وَالْمُکَذِّبِیْنَ اُولِی النَّعْمَۃِ وَمَھِّلْھُمْ قَلِیْلًا (سورۃ المزمل۔10-11)
ترجمہ: (اے نبیؐ) یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں اس پر صبر کریں اور ان سے احسن طریقے سے الگ ہو جائیں۔ اور مجھے اور ان جھٹلانے والے سرمایہ داروں کو چھوڑ دیں اور انہیں تھوڑی سی مہلت دے دیں۔
ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا لا وَّ قَالُوْا ھٰذَآ اِفْکٌ مُّبِیْنٌ ۔ (سورۃ النور۔12)
ترجمہ: مومن مرد اور مومن عورتیں اپنوں کے بارے میں نیک گمان کر لیتے اور (یہ) کہہ دیتے کہ یہ کھلا بہتان ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایاـ:
ظَنُّ الْمُؤْمِنِیْنَ خَیْرًا
ترجمہ: مومنوں کا گمان اچھاہوتا ہے۔
ہر کہ ظن بد میبرد بر مومنان
نیست آں مومن بدان از کافران
ترجمہ: جو مومنوں کے بارے میں بدگمانی رکھتا ہے انہیں مومن نہ سمجھ بلکہ وہ کافروں میں سے ہیں۔
مومن وہ ہے جن کا قلب باصفا ہو۔
وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی پیروی کی۔
جو کچھ اوپر تحریر کیا گیا ہے اسے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے صحیح اقرار اورتصدیق سے شرک، کفر اور اہلِ زندیق سے الگ ہو کر تحقیق کر لو۔ جان لو کہ لَآ کلمہ طیب کی ابتدا میں اس لیے ہے کہ لَآ کی صورت قینچی سی ہے۔ لَآ کی قینچی گناہوں کو اس طرح کاٹتی ہے جس طرح قینچی کپڑوں کو کاٹتی ہے۔ یا پھر لَآ کی صورت ذوالفقار (تلوار) جیسی ہے جو کافر نفس کو قتل کرتی ہے۔ لَآ نفی کر کے ہر شے کو فنا کر دیتا ہے۔ اوّل لَآ سے ہر شے کی نفی ہوتی ہے تب طالب اِلٰہَ تک پہنچتا ہے اور اسے اِلَّا اللّٰہُ کا اثبات حاصل ہو جاتا ہے اور جب اِلَّا اللّٰہُ کا اثبات حاصل ہو جائے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے جمعیتِ ایمان پاتا ہے اور ایمان کو روح سے متفق کر کے اپنا رفیق بنا لیتا ہے۔ نفس کی موت (ایمان کی) تصدیق سے ہے۔ جسے یہ تصدیق حاصل نہیں وہ منافق ہے اور مسلمان ہونے کے لیے زبان سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار لازم ہے۔ جو زبان سے کلمہ کا اقرار نہیں کرتا وہ کافر ہے۔ زبان سے اقرار کرنے کے دو گواہ ہیں۔ زبان کے وہ دو گواہ یہ ہیں اوّل سختی اور آسانی ہر حال میں سچ بولنا، دوم حلال رزق کھانا اگرچہ خشک اور بے نمک ہو۔ وہ حرام کے فربہ و چرب لذیذ کھانے سے بہتر ہے۔ تصدیق یہ ہے اوّل قلب میں (اللہ کی) محبت ہو دوم معرفتِ الٰہی کی طلب ہو۔ ایسا صاحبِ تصدیق ہرگز سلب کا شکار نہیں ہوتا۔ اسلام اور مسلمانی کی بنیاد کے متعلق ایمانِ مجمل ایمانِ مفصلّ اور کلمہ شہادت میں مکمل بیان کیا گیا ہے جو اس میں کامل و مکمل ہو جائے اس کا خاتمہ بالخیر ہوتا ہے۔
تو نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ ستر ہزار نظرِ رحمت صاحبِ تصدیق پر فرماتا ہے اور وہ بارگاہِ حق میں منظور ہوتا ہے۔ تصدیقِ قلب کے تین لباس ہیں اوّل لباس نورِ ایمان، دوم لباس تقویِٰ روح، سوم لباس ذکرِقلبی۔ جس طرح زبان گوشت کا لوتھڑا ہے اسی طرح قلب بھی گوشت کا لوتھڑا ہے۔ تصدیق ِ قلب تب ثابت ہوتی ہے جب قلب زبان کھولتا ہے اور حرکت و جنبش میں آکر کہتا ہے یَااَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ، لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ قلب کا تعلق روح سے ہے اور جب قلب روح کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے وہ تصدیق میں لپٹا ہوتا ہے اور قلب آوازِ بلند سے گواہی دیتے ہوئے کہتا ہے :
قَبِلْتُ جَمِیْعَ اَحْکَامِہٖ
ترجمہ: (اے اللہ) میں تیرے سب احکامات قبول کرتا ہوں۔
کیا تم جانتے ہو کہ ایمان تصدیق میں ہے یا تصدیق ایمان میں ہے۔ تصدیق رحمتِ الٰہی میں ہے یا رحمتِ الٰہی تصدیق میں ہے۔ تصدیق توفیقِ الٰہی میں ہے یا توفیقِ الٰہی تصدیق میں ہے۔ تصدیق توحیدِ الٰہی کی معرفت میں ہے یا توحیدِ الٰہی کی معرفت تصدیق میں ہے۔ تصدیق قلب میں ہے اور قلب روح میں ہے اور روح سِرّ میں ہے اور سِرّ خفی میں ہے، خفی یخفیٰ میں ہے اور یخفیٰ لاتحزن میں ہے اور لا تحزن لا تخف میں ہے۔ جو صاحبِ تصدیق لامکان کے لاتخف و لا تحزن مراتب تک پہنچ جائے اس کا باطن معمور ہوتا ہے اور وہ شوقِ الٰہی میں مسرور رہتا ہے۔ وہ اہلِ قبور کی تمام ارواح سے ملاقات کرتا ہے، ہمیشہ اللہ کی بارگاہ میں منظور اور مجلسِ محمدی کی حضوری میں رہتا ہے۔ اس کا وجود مغفور ہوتا ہے اور اس کا قلب بیت المعمور کی مثل ہوتا ہے۔ جب صاحبِ تصدیق ان مراتب پر پہنچتا ہے تو تصدیق نور کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور وہ اسمِ اللہ ذات کے تصور و تصرف میں مشغول تجلیاتِ ربوبیت کے مشاہدہ میں غرق رہتا ہے۔ اس وقت وہ خناس اور خرطوم کے وسوسہ، وہمات اور خطرات سے نجات حاصل کر چکا ہوتا ہے اور اس کے گرد کلمہ طیب کا حصار ہوتا ہے کیونکہ وہ رات دن تصدیقِ قلب سے کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھنے میں مصروف رہتا ہے۔ جو تصدیق القلب کے ان مراتب تک پہنچ جائے وہ طریقِ تحقیق سے حقیقی مسلمان بن جاتا ہے۔ جو اس میں شک کرے وہ منافق و زندیق ہے۔ جو مرشد روزِ اوّل طالبِ مولیٰ کو باطن میں ذکرِقلبی سے تصدیق کے ان مراتب تک نہیں پہنچاتا وہ مرشد بے قوت، خام اور بے توفیق ہے۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جنہیں نہ تصدیق کی خبر ہوتی ہے نہ معرفتِ الٰہی کی توفیق کی اور نہ ہی وہ اپنے نفس کی ظاہر و باطن میں تحقیق کرتے ہیں بلکہ معرفت و بندگی سے بے خبر کیڑے کی مثل ہمیشہ دنیا کی گندگی کی آرزو میں رہتے ہیں۔ وہ صاحبِ نجس بن کر غلیظ دنیا کی نجاست میں ڈوبے ہوتے ہیں اور خواہشاتِ نفس کے دھوکے میں خود کو صاحبِ فراست سمجھتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ (ظاہری) علم سے رجعت خوردہ روزی معاش، لذت و ذائقہ اور عیش و عشرت میں مشغول رہتے ہیں اسی لیے وہ فقرِ محمدیؐ پر قدم نہیں رکھتے اور نہ ہی اپنے امور خدا کے سپرد کرتے ہیں۔ علما عامل کی جان فقر و فاقہ سے لبوں تک کیوں نہ آ جائے اور وہ مر کیوں نہ جائیں لیکن اپنے قدم اہلِ دنیا کے دروازے تک نہیں لے جاتے کیونکہ علما عامل خود غنی بادشاہ ہوتے ہیں وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وارث اور لایحتاج ولی اللہ ہوتے ہیں اور مخلوق ان کے حکم کے تابع ہوتی ہے۔ علما کی جماعت سعادت مند ہوتی ہے اور وہ دنیا کے مال کی خاطر پریشان نہیں ہوتے۔ یہ فقیر جو کچھ کہتا ہے حساب سے کہتا ہے نہ کہ حسد سے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمٰۃٍ
ترجمہ: علم کی طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔
ابیات:
علم دانی چیست راہبر راہنما
از علم حاصل میشود باطن صفا
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے کہ علم کیا ہے؟ یہ راہبر و راہنما ہے۔ علم سے ہی باطن کی صفائی حاصل ہوتی ہے۔
علم سہ حرف است ع ل م
از علم یابند راہِ مستقیم
ترجمہ: علم کے تین حروف ہیں ع، ل، م۔ علم سے صراطِ مستقیم حاصل ہوتی ہے۔
علم از عین است عین از عین بین
میشوی عارف خدا اہل از یقین
ترجمہ: علم عین ذات سے ہے اس لیے اس ذات کا دیدار اس علم سے حاصل کر تاکہ تو عارفِ خدا اور اہلِ یقین ہو جائے۔
علم را عزت بدہ ادب جزا
از جہل و کفر و شرک و کبر باز آ
ترجمہ: علم کو عزت دے تب ہی تجھے اس سے تہذیب حاصل ہوگی اور جہالت، کفر، شرک اور تکبر سے نجات حاصل کر۔
علم را بر چشم نہ نور خدا
از علم حاصل شود راہِ مصطفیؐ
ترجمہ: علم کو آنکھوں پر رکھو کیونکہ یہ نورِ خدا ہے اور اس علم سے ہی راہِ مصطفی ؐحاصل ہوتی ہے۔
باھوؒ را تعلیم علمش از حضور
از وجودش رفت غصہ ہم غرور
ترجمہ: باھوؒ کو اس علم کی تعلیم حضورِ حق سے حاصل ہوئی ہے جس کی بدولت اس کے وجود سے غصہ اور تکبر ختم ہو گیا ہے۔
علم تابع ذکر ذکرش خوش بخوان
از ذکر روشن میشود عین العیان
ترجمہ: علم ذکر کے تابع ہوتا ہے لہٰذا ذکر کو خوشدلی سے کر۔ اس ذکر سے تیری آنکھ روشن ہو جائے گی اور توُ اس ذات کو عیاں دیکھے گا۔
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں محمدؐ اللہ کے رسول ہیں۔ ذکر امرِ ربی ہے جس کا تعلق روح سے ہے اور علم ادب سے ہے جس کا تعلق نفسِ مطمئنہ سے ہے۔ مطلب یہ کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحابہؓ کے پاس ظاہری علم نہیں تھا لیکن کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے ذکر کی محبت اور تاثیر اورذکرِ خفی، قلبی، روحی، سرّی کی بدولت انہیں علمِ لدنیّ اور باتاثیر تفسیر کا روشن فیض حاصل تھا۔ اور ان کی زبان سے جو بات بھی نکلتی تھی وہ سب سے پہلے کلمہ طیب اور اللہ کا نام ہوتا تھا اس کے بعد کوئی دوسری بات کرتے تھے۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَا یَخْفٰی عَلَیْہِ شَیْئٌ
ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لے اس سے کوئی شے بھی پوشیدہ نہیں رہتی۔
پس ذکر کلُ ہے اور علم جز ہے۔ جز کلُ سے ہے لیکن جز سے کلُ حاصل نہیں ہوتا۔ جب تک کوئی کلیدِ کلُ کو ہاتھ میں نہ لے تب تک معرفتِ توحید کا قفل کھولنا مشکل ہے۔ کلُ سے دو علم واضح ہوتے ہیں علمِ سعادت اور علمِ ارادت۔ یہ تصدیقِ دل سے تعلق رکھتے ہیں اور مطلق مشاہدۂ نورِ الٰہی اور معرفتِ وصال ہیں۔ یہ علمِ غیب باطنی علم ہے جس کے متعلق اللہ نے فرمایا:
الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ (سورۃ البقرہ۔3)
ترجمہ: جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔
تین علوم کا تعلق زبان سے ہے علمِ عادت، علمِ اجازت اور علمِ عبادت۔ اور یہ تینوں محض قیل و قال سے تعلق رکھتے ہیں۔ جو علمِ کلُ اور جز دونوں کو اپنے عمل میں لے آئے وہ علما عامل اور فقیرِ کامل بن جاتا ہے۔ فقیرِ کامل اُسے کہتے ہیں جو مقامِ فنا فی اللہ پر پہنچ کر کامل معرفت حاصل کر چکا ہو اور بقا باللہ عارف اُسے کہتے ہیں جو نورِ ربوبیت کے دیدار میں غرق ہو۔ ایسے فقیرِ کامل کے لیے زندگی و موت برابر ہوتی ہے۔
ابیات:
مراتب موت با ایمان حیات است
ز دنیا رفتہ با ایمان نجات است
ترجمہ: اگر کوئی حالتِ ایمان میں مرے تو وہ موت اس کے لیے اصل حیات ہے۔ اس دنیا سے باایمان جانا ہی نجات کا باعث ہے۔
جسم اینجا است جانش آنجہانی
ملاقاتش مجالس با روحانی
ترجمہ: اُن کے جسم اِس دنیا میں لیکن روح اُس جہان میں ہوتی ہے اور وہ ارواح کی مجلس میں اُن سے ملاقات کرتے ہیں۔
فنا فی اﷲ عارف باوصالم
ز ہستی خویش رفتم لازوالم
ترجمہ: میں فنا فی اللہ اور باوصال عارف ہوں۔ میں نے اپنی ہستی سے فنا حاصل کر لی اس لیے لازوال ہو چکا ہوں۔
مقام خویش را من پیش دیدم
حضوری مصطفیؐ مجلس رسیدم
ترجمہ: میں اپنے مرتبہ کو اپنے سامنے دیکھتا ہوں کیونکہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری میں پہنچ چکا ہوں۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ۔ (سورۃ القصص۔24)
ترجمہ: اور تو جو خیر بھی میری طرف نازل کرے میں اس کا محتاج ہوں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
حُبُّ الْفُقَرَآئِ مِفْتَاحُ الْجَنَّۃِ
ترجمہ: فقرا کی محبت جنت کی چابی ہے۔
حُبُّ الْفُقَرَآئِ حُبُّ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ: فقرا کی محبت (دراصل) رحمن کی محبت ہے۔
یہ یقین ہے کہ کوئی جاہل بھی عارف ولی اللہ نہیں ہوا کیونکہ اس مرتبہ پر پہنچنے کے لیے علم ہونا چاہیے خواہ علمِ ظاہر خواہ علمِ باطن۔ اور کوئی بھی عالم شقی نہیں ہوا سوائے ابلیس کے۔
بیت:
علم باطن ہمچو مسکہ علم ظاہر ہمچو شیر
کے بود بے شیر مسکہ کے بود بے پیر پیر
ترجمہ: علمِ باطن مکھن کی مثل اور علمِ ظاہر دودھ کی مثل ہے۔ دودھ کے بغیر مکھن کہاں اور پیر کے بغیر بزرگی کہاں حاصل ہوتی ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا فَرَقَ بَیْنَ الْحَیْوَانِ وَ الْاِنْسَانِ اِلَّا بِا لْعِلْمِ
ترجمہ: انسان اور حیوان کے درمیان سوائے علم کے اور کوئی فرق نہیں۔
اَلْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْمُعَامَلَۃِ وَعِلْمُ الْمُکَاشِفَۃِ
ترجمہ: علم دو طرح کے ہیں علمِ معاملات اور علمِ مکاشفات۔
لَوْ لَا الْعُلَمَآئِ لَصَارُوا النَّاسَ کَالْبَھَآئِمِ
اگر علما نہ ہوتے تو تمام لوگ حیوان بن چکے ہوتے۔
(جاری ہے)