کلید التوحید (کلاں) Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر36 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
کوئی بھی مادرزاد مفلس حق تک نہیں پہنچا کیونکہ فقرِ مکب سے اللہ کی محبت کے مرتبہ پر نہیں پہنچا جا سکتا۔ پس معلوم ہوا کہ عوام کا رزق کسبِ اعمال سے آتا ہے اور خواص کا رزق معرفتِ حق‘ جو کہ لم یزل اور لازوال ہے‘ سے آتا ہے۔ متوکل روزی معاش کی امید نہیں رکھتا اور نہ ہی ربیع و خریف فصل کا منتظر ہوتا ہے کیونکہ جب (روزِ ازل) رزق لکھا جا چکا تھا تو قلم ٹوٹ گئی۔ مردہ دل آدمی کا رزق حرص ہے اور حرص کا پیٹ نہیں ہوتا اور نہ ہی حرص کرنے والا مال و دولت سے کسی بھی حال میں سیر ہوتا ہے کیونکہ وہ غلط راستے پر ہوتا ہے اور عارفین کا رزق یہ ہے کہ رات دن حق تعالیٰ کے وصال میں مستغرق رہتے ہیں اور رزق رات دن ان کے پیچھے سرگردان اور پریشان رہتا ہے۔ اس حقیقت کو ناشائستہ، بے توکل، بے معرفت، بے عمل، بے دانش، بے مذہب اور جاہل لوگ کیا جانیں! جیسا کہ کیڑے کا رزق گوبر ہے اور وہ اسی میں خوش رہتا ہے اور عطار کا رزق عطر ہے وہ اس سے معطر رہتا ہے۔ جو مولیٰ کی طلب میں ہو رزق اس کی طلب میں ہوتا ہے۔
مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: جسے مولیٰ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔
عارفین، واصلین، عاشقین اور متوکلین کے لیے ہر روز نیا رزق آتا ہے۔ ان کی بازید صفت روح جمعیت پاتی ہے اور یزید صفت نفس پریشان رہتا ہے۔ انسان کا رزق موت کی مثل اس کی شہ رگ سے بھی نزدیک ہے جس طرح موت کسی جگہ بھی نہیں چھوڑتی اسی طرح رزق بھی انسان کے پاس ہر جگہ پہنچ جاتا ہے۔ بیت:
رزق گر بر آدمی عاشق نمی بودی چرا
از زمین گندم گریبان چاک می آمد برون
ترجمہ: رزق اگر انسان پر عاشق نہ ہوتا تو گندم زمین کا سینہ چیر کر باہر کیوں آتی۔
فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُھَا (سورۃ ھود۔6)
ترجمہ: اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) ایسا نہیں مگر (یہ کہ) اس کی روزی (کا ذمہ) اللہ پر ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ جو رزق، ایمان، یقین اور تصدیقِ قلب کو تو یاد رکھتا ہو لیکن ذکرِ اللہ سے غافل ہو تو یہ چاروں بھی اس سے بیزار رہتے ہیں اور جو رات دن اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہو رزق، ایمان، یقین اور تصدیقِ قلب اس سے جدا نہیں ہوتے اور اس سے شاد رہتے ہیں۔ رزق آدمی کی طلب میں اس طرح ہوتا ہے جس طرح عزرائیلؑ جان کی طلب میں۔ جس طرح ملک الموت عزرائیلؑ خشکی و تری میں لوگوں کو (جس کی موت کا وقت آ چکا ہو) نہیں چھوڑتے اسی طریق پر رزق کو بھی تحقیق کیا جا سکتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
طَلَبُ الرِّزْقِ اَشَدُّ مِنْ طَلَبِ اَجَلِہٖ
ترجمہ: رزق انسان کو اس کی موت سے بھی زیادہ شدت سے طلب کرتا ہے۔
پس رزق کا انحصار یقین اور نیت پر ہے۔ خاص کا رزق حلال اور بدکا رزق حرام ہوتا ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ آدمی کے وجود میں نفس، قلب، روح اور سِرّ کو تو کس طرح پہچان سکتا ہے؟ تصور اسمِ اللہ ذات کی حد درجہ کثرت سے باطن معمور ہو جاتا ہے جس میں توفیقِ الٰہی سے ایک نوری صورت پیدا ہوتی ہے جو ہمیشہ اس کے اندر رہ کر معاملات، عبادات اور محاسبات کے دوران نفس کو مقید رکھتی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
وہ صورتِ نور کبھی شوق اور فکر سے ذکرِکلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ میں مشغول رہتی ہے تو کبھی ورد و وظائف اور تلاوت و حفظِ قرآن پاک میں۔ اس نوری صورت کا حامل شخص جب سوتا ہے تو وہ نوری صورت اسے معرفتِ حق میں غرق کر کے بارگاہِ الٰہی میں منظور کرا دیتی ہے اور اگر وہ شخص مراقبہ میں جائے تو اُسے مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں پہنچا دیتی ہے اور اگر وہ گناہ کا ارادہ کرے تو وہ نوری صورت علمِ تفسیر، علمِ مسائلِ فقہ، فرض، واجب، سنت اور مستحبات کے وعظ و نصیحت کے ذریعے اسے کسی حال میں اللہ سے غافل نہیں رہنے دیتی اور اس کے قلب و قالب دونوں کو اپنے قبضہ و تصرف میں رکھتی ہے۔ یہ صورت زبان کی عالم ہے جو تصدیقِ قلب اور روح کی پاکیزگی عطا کرتی ہے۔ یہ عارفین کا سِرّ اور درجات کو طے کرنے کے لیے وسیلہ ہے۔ اور یہ رحمن کے موافق اور شیطان کے مخالف ہوتی ہے۔ اگر وہ شخص سونے لگے تو اسے سونے نہیں دیتی اور اگر وہ سرود، بدعت، شراب اور ترکِ صلوٰۃ میں مشغول ہونے لگے تو اسے پریشان اور بے آرام کر دیتی ہے۔
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ بِالْفَنَآئِ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ بِالْبَقَآئِ
جس نے اپنے نفس کو فنا سے پہچانا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو بقا سے پہچانا۔
یہ صورت سرِّ الٰہی ہے۔ ابیات:
صورت از اسرار وحدت راز ربّ
از حضوری نور باشد باادب
ترجمہ: وہ صورت وحدت کے اسرار میں سے اللہ کا ایک راز ہے جو باادب لوگوں کو حضوری میں نور بنا دیتی ہے۔
صورتی قلب است قالب بر لباس
می شناسد قلب را عارف شناس
ترجمہ: وہ صورت قلب ہے اور اس کا لباس وجود ہے۔ اس قلب کو صاحبِ بصیرت عارف ہی پہچانتے ہیں۔
اور اگر طالب غیر حق کی طلب کرے تو اسے عذاب سے تنبیہ کرتی ہے۔ یہ صورت راہنما ہے۔ توُ اس صورت کے متعلق کیا کہتا ہے؟ یہ بھی ابتدائے حال کے مراتب ہیں۔ اگرچہ یہ صورت تم سے ہمکلام ہو اور وہ تجھے ماضی، مستقبل اور حال کی حقیقت بتائے تب بھی تو مراتبِ خام پر ہے۔ توُ اس سے آگے کے مراتب یعنی معرفتِ الٰہی اور وصال کی طلب کر۔ معرفت اور وصال کس طرح حاصل ہو سکتا ہے؟ سن اے حیوان! حضوری و معرفت کے مراتب مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا ( مرنے سے پہلے مر جائو) سے تعلق رکھتے ہیں۔ غرض یہ کہ کوئی شخص خواب یا مراقبہ میں اس طرح غرق ہو گویا مر چکا ہو اور حشرگاہِ قیامت اور پل صراط کے تمام مقامات سے گزر کر جنت میں داخل ہو اور دیدارِ ربّ العالمین سے مشرف ہو کر جاودانی بقا پا لے۔ پس جس وقت بھی وہ مراقبہ میں حق تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس مراقبہ میں لقا کے مراتب سے مشرف ہوتا ہے اور اس پر مستی غالب آجاتی ہے جس سے وہ خود کو بھی بھول جاتا ہے۔ رات دن شریعت کی پیروی کرتے ہوئے اس کے امور میں کوشش کرتا ہے۔ اس کا باطن مست لیکن ظاہر میں وہ ہوشیار اور لائقِ دیدار ہوتا ہے اور مردار اور مردہ دل والوں سے بیزار رہتا ہے۔ اسے عارفِ دیدار کہتے ہیں۔ جو ان مراتب پر پہنچ جائے اس کی آنکھ دیدار کے لائق ہو جاتی ہے اور وہ حضورِ حق میں جو دیدار اور تجلیاتِ انوار کا مشاہدہ کرتا ہے اسے بخوبی سمجھتا ہے اور جب وہ مراقبہ یا خواب سے باہر آتا ہے تو جو کچھ دیکھا ہوتا ہے اس کی مثال بیان نہیں کر سکتا۔
مَنْ عَرَفَ رَبَّہٗ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ
ترجمہ: جس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا پس تحقیق اس کی زبان گونگی ہو گئی۔
بیت:
ہر کہ اینجا میرسد عارف تمام
خاک پائی گشت باھوؒ شد غلام
ترجمہ: جو اس مقام پر پہنچ جائے وہ کامل عارف بن جاتا ہے۔ باھوؒ ایسے عارفین کی خاکِ پا اور غلام ہے۔
اس راہ میں غلط کی گنجائش نہیں اور کور چشم نابینا معرفتِ حق سے آگاہ نہیں ہوتا۔ یہ اہلِ توحید کے مراتب ہیں جس کو اہلِ تقلید شرمندہ لوگ کیا سمجھیں؟ اہلِ توحید اور اہلِ تقلید کو ایک دوسرے کی مجلس پسند نہیں آتی۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ یہ باطن کی پاکیزگی کی انتہا ہے۔
وَ السَّلٰمُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (سورۃ طٰہٰ۔47)
ترجمہ: اور اس شخص پر سلامتی ہو جس نے ہدایت کی اتباع کی۔
اس راہ پر تجھے خوش آمدید۔ خام اگر تمام عمر بھی ریاضت کرتا رہے تو بے فائدہ ہے بلکہ اس سے اُسے تکلیف پہنچتی ہے اور معرفتِ الٰہی اور وصال کے خزانوں میں سے کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آتا۔ جان لو کہ راہِ معرفتِ مولیٰ ڈھائی قدم کا فاصلہ ہے جس میں نہ ریاضت ہے نہ غم۔ اگر ایک قدم میں وہ نفس اور اس کی خواہشات سے خلاصی پا لے تو دوسرے قدم میں مجلسِ محمدیؐ کی حضوری میں پہنچ جاتا ہے اور آدھے قدم سے فنا فی اللہ بقا باللہ ہو کر حق تعالیٰ کی ذات میں غرق ہو جاتا ہے۔ جو مر شد یہ ڈھائی قدم ڈھائی سانسوں میں طالبِ مولیٰ کو طے کرا کے ابتدا سے انتہا تک نہیں پہنچاتا تو اُس مرشد سے عورت بہتر ہے بلکہ وہ مرشد ہیجڑے سے بھی کمتر ہے۔ مرد وہ ہے جو مذکر انسان ہے اور جو ذات و صفات اور حضوری کے تمام مقامات اور تمام مطالب و درجات اسمِ اللہ ذات سے ایک گھڑی میں عطا کر دیتا ہے۔ جو یہ راہ نہیں جانتا وہ حضوری اور اسرار سے آگاہ نہیں اس لیے اس پر لوگوں کو طالب و مرید بنانا حرام ہے۔
حکایت:
ایک روز ایک مرید نے مرشد کی خدمت میں سوال پیش کیا کہ خلاصہ جس طرح کا بھی ہے قدرت (اثر) رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی چیز کا اثر نہیں اور نہ ہی کسی شے کو اس تک رسائی ہے اور موجوداتِ عالم کا وجود پانی اور مٹی سے بنا ہے اور یہ وجود اپنے خلاصہ کے بغیر جنبش نہیں کر سکتا۔ پس اس جہان اور اس کی تمام مخلوقات کی تخلیق کو کس چیز سے سمجھا جا سکتا ہے؟ مرشد نے جواب دیا کہ جس چیز سے اس کی ابتدا اور انتہا منسوب ہے درحقیقت اس کا کوئی وجود نہیں کہ جس پر اعتبار کیا جا سکے اور اگر توُ کہے کہ اس عالم کی جنبش اور حرکت کیا ہے؟ تو جان لو کہ یہ عالم موہوم صورت میں موجود ہے جو درحقیقت عدم کو وجود کی صورت میں ظاہر کرتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آئینہ جس میں صورت تو دیکھی جا سکتی ہے لیکن درحقیقت وہ موجود نہیں ہوتی۔ اسی معنوں میں وجودِ عالم محض انسان کی کم عقلی ہے کہ اسے عالم کا وجود دکھائی دیتا ہے جیسا کہ سونے سے بہت سی چیزیں بنائی جاتی ہیں لیکن کوئی بھی سونے کا نام زبان پر نہیں لاتا۔ اسی طرح خلاصہ نے میل ملاپ سے خود کو وجود میں اس طرح گم کر لیا ہے کہ انسان کی نظر اصل میں خلاصہ پر نہیں ہوتی اور وہ ظاہری وجود کے سوا کچھ نہیں دیکھتے۔ بلاشبہ اس کی جگہ صرف زندگی اور موت کی امید راستہ بنا لیتی ہے اور (موہوم) صورتِ عالم وجود کی شکل اختیار کر لیتی ہے لیکن جب خلاصہ باطن میں ظہور پذیر ہوتا ہے تب نہ وجود رہتا ہے نہ حواس، نہ عالم اور نہ آدم۔ بالکل اسی طرح جب لکڑی کو آگ لگتی ہے تو ساری لکڑی کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے۔
ابیات:
کالبد چوب است عشق آتش درو
از سر خامی نہ تابد اندرو
ترجمہ: وجود لکڑی کی مثل ہے جس میں عشق کی آگ لگتی ہے اگر وجود خام ہو تو اس کے اندر یہ آگ نہیں بھڑکتی۔
لیک از چوبی چو آتش شد پدید
در دمی چوب از دمش شد ناپدید
ترجمہ: جب اس لکڑی میں آگ بھڑکتی ہے تو دم بھر میں اسے راکھ کر دیتی ہے۔
آتشی را کشتہ سازد آب تر
کشت نفسی عارفان در یک نظر
ترجمہ: جس طرح آگ کو پانی سے بجھایا جاتا ہے اسی طرح عارفین ایک نظر سے نفس کو مار دیتے ہیں۔
جوابِ مصنف:
جان لو کہ آدمی کا وجود برتن کی مثل اور اس کا دل دودھ کی مثل ہے۔ اس دودھ میں دہی بھی ہوتا ہے لسی بھی، مکھن بھی اور گھی بھی۔ اسی طرح وجود میں نفس، قلب، روح اور سِرّ، اسرارِ پروردگار اور ہزاروں ہزار بے شمار تجلیاتِ انوار ہوتے ہیں لیکن مرشد عورت سے کمتر نہیں ہوتا کہ عورت دودھ میں تھوڑی سی لسی ڈالتی ہے جس کی وجہ سے دودھ سے دہی جم جاتا ہے اور جب اس دہی کو بلویا جاتا ہے تو مکھن الگ ہو جاتا ہے اور لسی الگ۔ جب مکھن کو آگ پر رکھ کر پکایا جاتا ہے تو گھی تیار ہو جاتا ہے۔ اسی طرح عارف مرشد کو بھی ہونا چاہیے جو طالب کے وجود میں ہر شے کو الگ الگ کر کے دکھائے اور ہر مقام کو کھول دے کہ وہ وجود میں ہر ایک کو الگ الگ دریافت کر کے شناخت کر لے کہ یہ میرا نفس ہے اور یہ اس کے مراتب ہیں اور یہ میرا قلب ہے اور یہ اس کے مراتب ہیں اور یہ میری روح ہے اور یہ اس کے مراتب ہیں اور یہ میرا سرّ ہے اور یہ اس کے مراتب ہیں۔ پس جو چیز وجود میں ہر ایک سے انصاف کرتی اور الگ الگ پہچان کرا کر خطاب دیتی ہے وہ توفیقِ الٰہی ہے جس کی آگاہی مرشد بخشتا ہے۔ دراصل ابتدا اور انتہا ایک ہی چیز ہیں لیکن طالب کے لیے تب تک ایک نہیں ہوتیں جب تک وہ دوئی میں رہتا ہے جس کے دو احوال ہیں اوّل زوال جس کا تعلق قال سے ہے اور دوم وصال جس کا تعلق مشاہدئہ جمال سے ہے۔ بیت:
کی بود آیا کہ شود بہرہ ور
دیدہ بہ دیدار چو گوش از خبر
ترجمہ: وہ وقت کب آئے گا جب آنکھیں دیدار سے بہرہ ور ہوں گی جیسے کان خبر سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔
پس ایک حالتِ دید ہے اور دوسری حالتِ شنید۔ جو اہلِ دید ہو وہ مسرور او رخوش و خرم رہتا ہے اور جو اہلِ شنید ہو وہ کسی مقام تک نہیں پہنچ سکتا اور نامکمل اور حیرت میں رہتا ہے۔ بیت:
حیرت اندر حیرت و حیرت چہ چیز
اہل حیرت از حضوری باعزیز
ترجمہ: (اس راہ میں) حیرت در حیرت ہے۔ حیرت کیا چیز ہے؟ اہل ِ حیرت حضوری کی بدولت محبوب ہوتے ہیں۔
یہ عظیم مراتب لامکان کے ہیں جہاں پہنچ کر طالب فنا سے بقا میں پہنچ جاتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ مجھے ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو ’’اللہ بس‘‘ کو چھوڑ کر ہوا و ہوس کو اختیار کرتے ہیں وہ نابینا بیل کی مثل ہیں (جو ایک جگہ گھومتا رہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ نہ جانے کس قدر فاصلہ طے کر لیا ہے)۔ یہ لوگ اپنے مقام و منزل سے دور ہوتے ہیں لیکن خود کو حضوری میں سمجھتے ہیں۔ یہ ان کا وہم اور خام خیالی ہے۔ یہ لوگ مخلوق کے ساتھ بخیل ہوتے ہیں اور خلل کو دوست رکھتے ہیں۔ جو حق کو دوست رکھتا ہو وہ ربّ جلیل کا ہم نشین ہوتا ہے۔ مرشد کامل سالہا سال کی ریاضت بھی کروا سکتا ہے اور لمحہ بھر میں بھی عطا کر سکتا ہے۔ تلقین و ارشاد کے یہ دونوں طریقے تحقیق شدہ ہیں۔ آدمی کے لیے تین سواریاں ہیں۔ خوف کی سواری جو زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ جب انسان خوف کی اس سواری سے زندگی گزار کر موت تک پہنچتا ہے تو وہ دوستی و دشمنی کے خوف سے آزاد ہو جاتا ہے اور رجا کی سواری تک پہنچ جاتا ہے۔ رجا کی سواری عقبیٰ تک لے جاتی ہے۔ اہلِ محبت و معرفت عقبیٰ تک لے جانے والی سواری سے الفت نہیں رکھتے بلکہ شوق کی سواری پر سوار ہو کر اپنا رُخ دیدارِ پروردگار کی طرف کر لیتے ہیں۔ جو اللہ کے دیدار کے سوا کسی اور چیز کی طلب کریں وہ درحقیقت مردار کی طلب کرتے ہیں۔ اہلِ دیدار کا مردار سے کیا واسطہ؟ عبادت میں انتشار اس لیے ہوتا ہے کہ عبادت کرنے والے کا دل مختلف امور میں مشغول ہونے کے باعث پراگندہ ہوتا ہے اور جمعیت یہ ہے کہ ان سب سے توجہ ہٹا کر واحدِ حقیقی کے مشاہدہ میں غرق ہوا جائے۔ بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جمعیت اسباب کو جمع کرنے میں ہے اس لیے وہ ہمیشہ تفرقہ میں رہتے ہیں اور ایک فرقہ یہ یقین رکھتا ہے کہ اسباب کا جمع کرنا ہی تفرقہ ہے اس لیے وہ اپنے ہاتھ ان سب سے جھاڑ لیتے ہیں۔ ابیات:
ای دل طلب کمال کن و در مدرسہ چند
تکمیل اصول و حکمت و ہندسہ چند
ترجمہ: اے دل! تو کمال کی طلب رکھ۔ کب تک مدرسہ میں اصول و حکمت اور حساب سیکھتے رہو گے۔
ہر فکر بجز ذکر خدا وسوسہ دان
شرمی ز خدا بدار ایں وسوسہ چند
ترجمہ: ذکرِ خدا کے سوا ہر فکر کو وسوسہ سمجھو اور ان وسوسوں کے باعث خدا سے شرم کرو۔
جوابِ مصنف:
باطن کی پاکیزگی اور خطرات سے جمعیت مرشد کامل اکمل اور تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مرشد کامل کا وجود چار چیزوں میں کامل ہوتا ہے بعض کی نظر کامل ہوتی ہے یعنی کیمیا نظر۔ بعض کی توجہ کامل ہوتی ہے کہ وہ توجہ سے چھ سمتیں طالب کے قبضہ و تصرف میں لے آتے ہیں۔ بعض کی زبان کامل ہوتی ہے وہ جس چیز کے لیے کہتے ہیں کہ ’ہو جا‘ وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اسی وقت ہو جاتی ہے۔ اور بعض کے قدم کامل ہوتے ہیں کہ جس جگہ وہ قدم ڈالتے ہیں اس جگہ کو عزت بخش دیتے ہیں۔
شَرْفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ
ترجمہ: مکان کی عزت اس کے مکین کی وجہ سے ہوتی ہے۔
ان کے قدم ہاتھوں کی طرح (مقدس) ہوتے ہیں جو ان کے قدموں پر بوسہ دیتا ہے اور ان کے ہاتھ پکڑ لیتا ہے تو ہاتھ پکڑتے ہی اس کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور دنیا و آخرت میں کبھی نہیں مرتا۔ کیا تو جانتا ہے کہ وقتِ نماز، وقتِ ذکر یا نیک کام کرتے وقت بہت سے خطرات، خلل، وہمات اور وسوسے پیدا ہوتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ جب طالب بندگی کی طرف مائل ہوتا ہے تو شیطان اس کے کانوں میں طمع و حرص اور اس جیسے دیگر ناشائستہ اور ناپاک چیزوں کا طبل بجا کر بندگی سے روکتا ہے اور اسے انتہائی طمع، حرص، حسد، غیبت، خواہشِ نفس، نفاق اور اس جیسی دیگر بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ آدمی کا دل پاک گھر کی مثل ہے اور ذکرِاللہ فرشتہ کی مثل پاک ہے اور خطرات کتے کی مثل ہیں۔ جس گھر میں کتا داخل ہو جائے فرشتہ اس گھر سے نکل جاتا ہے اور اگر کوئی اس پاک گھر کو مضبوطی سے بند کر لے اس میں خطرات کا کتا داخل نہیں ہو سکتا۔
لَا یَدْخُلِ الْمَلٰٓئِکَۃُ بَیْتًا فِیْہِ الْکَلْبِ
ترجمہ: جس گھر میں کتا ہو وہاں فرشتے داخل نہیں ہوتے۔
پس ان خطرات کا علاج یہ ہے کہ نظر اسمِ اللہ ذات پر رکھی جائے کیونکہ خطرات کو یہ قوت حاصل نہیں کہ وہ اہلِ ذات پر غالب آ سکیں۔ اہلِ صفات کے لیے ہزاروں حجابات ہوتے ہیں کیونکہ وہ ثواب کے طلبگار ہوتے ہیں اور باطن میں معرفتِ الٰہی، الہام اور جواب باصواب سے محروم ہوتے ہیں۔ بیت:
من کہ در ذات او شدم فانی
کی بسوئی صفات او بینم
ترجمہ: میں اس کی ذات میں فانی ہو چکا ہوں اس لیے اس کی صفات کی طرف کیوں دیکھوں؟
(جاری ہے)