لاشعور کی وسعتیں۔ Laa-Sha’uur Ki Wus’atain
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری
انسانی ذہن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے، شعور اور لاشعور۔ شعور ذہن کا وہ حصہ ہے جس میں وہ سوچ اور ارادے موجود ہوتے ہیں جن کے متعلق ہم جانتے ہیں، شعور رکھتے ہیں یا وہ ہمیں یاد ہوتے ہیں جبکہ لاشعور انسانی ذہن کا سب سے زیادہ طاقتور حصہ ہے۔ لاشعور یعنی وہ شعور یا ماضی جو ’’لا‘‘ ہے اور ابھی ظاہر نہیں ہوا بلکہ چھپا ہوا ہے یا بھول چکا ہے۔ حقیقت ’’لا‘‘ رکھنے کے باوجود اس کا انسانی شخصیت پر اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ انسان کی مکمل ظاہری و باطنی شخصیت اس کی گرفت میں ہوتی ہے۔ جیسے جیسے انسان کا لاشعور اس کے شعور پر ظاہر ہوتا جاتا ہے ویسے ویسے اس کی شخصیت اس کے سانچے میں ڈھلتی جاتی ہے۔
انسانی وجود کے بھی دو حصے ہیں ایک ظاہر اور دوسرا باطن۔ ظاہر کا تعلق اس کے شعور کے ساتھ ہے جبکہ باطن اور روح کا تعلق اس کے لاشعور کے ساتھ ہے۔ مصنف ڈاکٹر جوزف مرفی اپنی کتاب ’’ذہن کی پوشیدہ طاقت‘‘ میں لکھتے ہیں:
آپ کے پاس صرف ایک دماغ ہے لیکن آپ کا دماغ دو مخصوص خصوصیات کا حامل ہے۔ آپ کے دماغ کے دو افعال جذبانی طور پر مختلف ہیں۔ ہر ایک کو الگ الگ صفات اور اختیارات سے نوازا گیا ہے۔ عام طور پر آپ کے ذہن کے دو افعال کو الگ کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے نام کچھ یوں ہیں: معروفی اور موضوعی ذہن، شعوری اور لاشعوری ذہن، جاگتا اور سوتا ہوا ذہن، سطحی نفس اور گہرا نفس۔ (نفس کی پوشیدہ طاقت)
اس مضمون کا مقصد ہمارے لاشعور ذہن کی وسعتوں کو بیان کرنا ہے۔ ہمارے لاشعور میں ہمارا گزرا ہوا کل، بچپن کی یادیں، جوانی کی بہاریں، کئی تلخ لمحات، کئی خوشگوار یادیں، کئی پچھتاوے، افسوس، ملامت، محبت و نفرت کے جذبات، روز مرہ کے معمولات اور خصوصاً زندگی کا وہ سفر جس کا آغاز ماں کے پیٹ سے شروع ہو کر بچے کی آٹھ سال کی عمر تک ہوتاہے، شامل ہیں۔ بچہ لاشعوری طور پر اپنے ماحول سے سیکھتا ہے۔ اس کابچپن اس کی ابتدائی تربیت کا اہم حصہ ہے اور اس کے کردار اور شخصیت میں منفی یا مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔ اکثر ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے لاشعور میں خاندانی جینز (Genes) بھی شامل ہوتے ہیں۔
ہمارے دماغ کا لاشعور حصہ زندگی میں انتہائی خوشگوار نتائج مرتب کر سکتا ہے کیونکہ لاشعور میں ہمارے عقائد، نظریات، سوچ اور ارادے شامل ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگرہم خود کو یہ کہتے ہیں کہ ’’میں یہ کام کر سکتا ہوں‘‘ ’’I am the best, I can do it‘‘ یہ سب ہم اپنے لاشعور کو مثبت سوچ دے رہے ہوتے ہیں۔ لاشعور دماغ کا اتنا مضبوط حصہ ہے کہ ہمارا دماغ تمام اندرونی اور بیرونی طاقتوں کو بروئے کار لا کر خوشگوار نتائج فراہم کرنے کی دھن میں لگ جاتا ہے۔
مصنف ’جوزف مرفی‘ ہمارے لاشعور ذہن کی کرشماتی طاقت کے متعلق لکھتے ہیں ’’ آپ ایک کپتان کی طرح ہیں جو جہاز پر سوار ہو رہے ہیں، اسے صحیح احکامات دینے چاہئیں اور اسی طرح آپ کو اپنے لاشعور دماغ کو صحیح احکامات (خیالات اور تصاویر) دینے چاہئیں جو آپ کے تمام جذبات کو کنٹرول کرتا ہے۔‘‘ (ذہن کی پوشیدہ طاقت)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ماہرِنفسیات بتاتے ہیں کہ جب خیالات آپ کے لاشعور دماغ تک پہنچتے ہیں تو دماغ کے خلیوں پر اثرات بنتے ہیں۔ جیسے ہی آپ کا لاشعور کسی خیال کو قبول کرتا ہے وہ اسے فوری طور پر نافذ کرنے کے لیے آگے بڑھتا ہے۔ یہ خیالات کی انجمن کے ذریعے کام کرتا ہے اور ہر وہ علم استعمال کرتا ہے جو آپ نے اپنی زندگی میں جمع کیا ہے تاکہ اس مقصد کو حاصل کیا جا سکے۔ یہ آپ کی اندرونی لامحدود طاقت، توانائی اور حکمت کو کھینچتا ہے، یہ اپنے راستے کو حاصل کرنے کے لیے فطرت کے تمام قوانین کو ترتیب دیتا ہے۔ (ذہن کی پوشیدہ طاقت)
یہاں ایک اور دلچسپ حقیقت جاننا اہم ہے کہ انسان کے لاشعور کا تعلق نہ صرف اس ظاہری دنیا کے ساتھ ہے بلکہ عالمِ امر اورعالمِ خلق کی یادوں کے نقوش بھی اس میں موجود ہوتے ہیں۔ عالمِ امر اور عالمِ خلق کے کُل چھ عالم ہیں جن میں تنزل فرما کر ذاتِ حق تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق کی اور اسے قائم رکھا ہوا ہے۔ ان چھ عوالم کو تنزلاتِ ستہ بھی کہا جاتا ہے۔ ان چھ عوالم کو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے اپنی تصنیف مبارکہ’’شمس الفقرا‘‘ میں یوں بیان کیا ہے:
ھاھویت (احدیت): یہ وہ مرتبہ ہے جس کے متعلق فرمایا گیا ہے کَانَ اللّٰہُ وَلَمْ یَکُنْ مَّعَہٗ شَیْئٌ ترجمہ: ’’اللہ تھا اور اس کے ساتھ کوئی شے نہ تھی۔‘‘ اس مرتبہ پر اللہ کی ذات تنہا اور بطون در بطون تھی جسے جاننا اور پہچاننا کسی کے لیے ممکن نہیں کیونکہ یہاں نہ ذات کا اظہار ہوا نہ اس کی صفات کا۔ محض سمجھانے کی خاطر یہاں ذاتِ حق تعالیٰ کو ’’ھوُ‘‘ کہتے ہیں۔
یاھوت (وحدت): یہ اللہ کا ظہورِ اوّل ہے جہاں ذات ’’م‘‘ احمدی کا نقاب اوڑھ کر نورِ محمدی کی صورت میں ظاہری ہوئی۔
لاھوت (واحدیت): یہاں ذاتِ حق تعالیٰ نے نورِ محمدی سے روحِ قدسی کی صورت اختیار کی۔ اس مرتبہ کو حقیقتِ انسانیہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں سے انسان کی تخلیق کا آغاز ہوا۔ یہی عالم انسان کا حقیقی وطن ہے۔یہ تین مراتب (عالمِ ھاھویت، یاھوت، لاھوت) مشترکہ طور پر عالمِ امر، مراتبِ الٰہیہ یامراتبِ حقی کہلاتے ہیں۔
جبروت (عالمِ ارواح):اس عالم میں روحِ قدسی سے تمام ارواحِ انسانی کی تخلیق ہوئی۔ فرشتوں کی تخلیق بھی اسی عالم میں ہوئی۔ یہاں روح کی وہی صفات ہیں جو فرشتوں کی ہیں۔
ملکوت (عالمِ مثال):یہاں ارواح کا اظہار مثالی صورتوں میں ہوا جو دیکھی تو جا سکتی ہیں لیکن چھوئی یا پکڑی نہیں جا سکتیں۔
ناسوت ( عالمِ اجسام): ارواح کو جسم عطا کر کے اس مادی دنیا میں بھیج دیا گیا جسے عالمِ ناسوت کہتے ہیں۔
جبروت، ملکوت، ناسوت تخلیق کے مراتب ہیں اور مشترکہ طور پر عالمِ خلق، مراتبِ خلقی یا مراتبِ کونیہ کہلاتے ہیں۔
یعنی انسان کے لاشعور میں اس کی روح کا ماضی بھی شامل ہے۔ ارواح کی تخلیق ہوئی، اللہ پاک نے خود کو اسمِ اللہ ذات کی صورت میں جلوہ گر فرمایا۔ تمام ارواح اللہ تعالیٰ کے حسنِ بے مثال و لا محدود کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور حسنِ مطلق کی حمد و ذکر میں محو ہو گئیں۔ یہی حمد، ذکرِاسمِ اللہ ذات کا نور اور دیدارِ الٰہی جملہ ارواح کا رزق بنا اور وہ اسی رزق پر پلنے لگیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کے لاشعور میں فطری اور قدرتی طور پر دیدارِ الٰہی کے لیے کشش اور عشق کا جذبہ موجود ہے۔ انسان اس ظاہری دنیا میں خود کو جتنا بھی مصروف کر لے، مادیت کے اس دور میں جتنا مرضی تیز بھاگ لے، اس کے لاشعور سے ایک درد بھرا جذبہ اور ایک لطیف سی کشش اٹھتی ہے جو دنیا بھر کی تمام نعمتیں ہونے کے باوجود اُسے بے چین اور بے قرار کر دیتی ہے۔انسان کی اس حالت کو Nostalgia بھی کہتے ہیں۔یہ اس لیے کہ روح اپنے ازلی وطن کو یاد کرتی ہے۔ ارواح دیدارِ الٰہی کے لطف کو یاد کرتی ہیں۔ انسان کے لاشعور میں وصالِ الٰہی کا لطف بھی موجود ہے اور ہجر کا درد بھی۔ لاشعور سے جب وصال کا لطف ہمارے شعور میں اُبھرتا ہے تو بندہ خود کو انجانی خوشی میں مسرور پاتا ہے۔ الغرض ہر انسان شعوری اور لاشعوری طور پر وصل اور ہجر کی کیفیات سے گزرتا رہتا ہے اور اس کا مشاہدہ اسے زندگی میں بارہا ہوتا بھی ہے۔حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ پنجابی بیت میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:
کُنْ فَیَکُوْن جدوں فرمایا، اساں وی کولے ہاسے ھوُ
ہکے ذات ربّ دی آہی، ہکے جگ وچ ڈھنڈیاسے ھوُ
ہکے لامکان مکان اساں ڈا، ہکے آن بتاں وچ پھاسے ھوُ
نفس پلیت پلیتی کیتی باھوؒ، کوئی اصل پلیت تاں ناسے ھوُ
مفہوم: جب اللہ تعالیٰ نے ’’کن‘‘ کہہ کر کائنات کو تخلیق فرمایا تو ہم بھی ساتھ ہی موجود تھے۔ ایک وہ وقت تھا جب اللہ تعالیٰ کی ذات ہمارے سامنے موجود تھی اور ایک یہ وقت ہے کہ ہم لباسِ بشر میں قید اس ذات کو ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ’’لامکان‘‘ میں ہمارا بسیرا تھا اور اب عنصری اجسام میں قید ہیں۔ ہماری ارواح کو نفس نے آلودہ اور ناپاک کر دیا ہے ورنہ ہم اصل میں تو ایسے نہیں ہیں۔ (ابیاتِ باھو کامل)
ہمارے لاشعور میں ایک ایسے واقعہ کی یاد موجود ہے جو ہماری فطرت کی بنیاد ہے۔ وہ واقعہ ’’عہدِ الست‘‘ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارواح کو اپنا دیدار عطا کرنے کے بعد ان سے ’’ عہدِ الست‘‘ لیا تھا۔ اس واقعہ کے نقوش نہ صرف ہمارے لاشعور میں موجود ہیں بلکہ قرآنِ حکیم نے بھی اس واقعہ کی شہادت دی ہے۔ فرمایا گیا:
اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ (سورۃ الاعراف۔172)
ترجمہ:کیا میں تمہارا ربّ (پالنے والا) نہیں ہوں؟
یعنی کیا تم میرے حسن و جمال کے جلوؤں، دیدار اور میرے ذکر پر پل نہیں رہے ہو؟
اس وقت تمام ارواح کی آنکھیں نورِ اسمِ اللہ ذات سے منور اور مدہوش تھیں اور ہر کدورت و آلائش سے پاک تھیں اس لیے سب نے یک زبان ہو کر جواب دیا قَالُوْا بَلٰی (سورۃ الاعراف۔172)
ترجمہ: کہا، ہاں کیوں نہیں! (توہی ہمارا پالنے والا ہے۔)
اس واقعہ کی بنا پر ہر انسان لاشعوری طور پر اپنے دل و دماغ میں ’’خالقِ حقیقی‘‘ کا تصور رکھتا ہے، پھر وہ چاہے ملحد ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا دل و دماغ تصورِ خدا سے خالی نہیں ہو سکتا۔
اللہ نے بھی انسان کے ساتھ کمال عشق کا کھیل رچایا ہے جو اس کا ہم پر فضل اور احسان بھی ہے کہ ہمیں لاشعور کی نعمت سے نوازا اور اس واقعہ کا علم یاد کی صورت میں ہمارے لاشعور میں پیوست کر دیا تاکہ حق کی راہ میں تفکر کرنے والے حق کو پالیں۔ حق کا راز ہمارے اندر ہی موجود ہے اور اس راز تک پہنچنے کے لیے ہمارا ’’لاشعور‘‘ وسیلہ ہے۔ ہمارے لاشعور میں عہد ِ الست کا واقعہ اس طرح درج ہے کہ نہ وہ ہمیں مکمل یاد ہے اور نہ ہی وہ بھول چکا ہے۔
علامہ اقبالؒ اپنی تصنیف ’’تجدیدِ فکریاتِ اسلام‘‘ میں لکھتے ہیں:
ہر زمانے اور تمام مذہبی ممالک کے مذہبی تجربے کے ماہرین کی شہادت ہے کہ ہمارے عمومی شعور سے بالکل وابستہ ایک ایسا شعور بھی ہے جس میں بڑی صلاحیتیں موجود ہیں۔ اگر اس قسم کے حیات بخش شعور اور علم افروز تجربے کے امکانات کو کھول دیں تو مذہب کے امکان کا سوال بطور ایک اعلیٰ تجربے کے بالکل جائز ہو جائے گا اور ہماری سنجیدہ توجہ کا مرکز بن سکے گا۔
کیا عجب وسعت ہے ہمارے لاشعور کی!
کیا غضب کا لطف ہے ہمارے لاشعور میں!
لاشعوری طور پر انسیت و نفرت کے جذبات
ہمیں اکثر اس بات کا مشاہدہ ہوتا ہے کہ ایک شخص جسے ہم کبھی ملے نہیں مگر پہلی ہی ملاقات میں وہ دل کے قریب معلوم ہوتا ہے۔ جیسے اسے ایک عرصہ سے جانتے ہوں اور کبھی ایسا ہو تا ہے بغیر کسی وجہ کے کسی بندے سے کھنچنے لگتے ہیں۔ یہ سب اس لیے کہ عالمِ ارواح میں کچھ ارواح ایک دوسرے کے قریب ہو گئیں تھیں۔ اس لگاؤ کے باعث وہ اس دنیا میں بھی ایک دوسرے کے قریب رہنا پسند کرتی ہیں۔ حدیثِ مبارکہ ہے:
حضرت ابوہریرہؓ مرفوعاً (نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے) بیان فرماتے ہیں ’’روحیں (ازل میں) مجتمع لشکر تھیں، جن کا(وہاں) آپس میں تعارف ہو گیا (دنیا میں) ان کے اندر الفت ہو جاتی ہے اور جن کی (وہاں) آپس میں ناواقفیت رہی ہو وہ اس دنیا میں بھی جدا جدا رہتی ہیں۔ (سنن ابو داؤد۔ 4834)
جنت اور جہنم کا تصور
ہم لاشعوری طور پر جنت و جہنم، صحیح اور غلط(Evil or Good) کا تصور رکھتے ہیں کیونکہ عالمِ ارواح میں اللہ نے ارواح کو حق و باطل کی راہ کو اختیار کرنے کی آزادی عطا کی اور انہیں آزمائش سے گزارا تھا۔ ارواح کی اس آزمائش کے واقعہ کو حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے یوں بیان کیا ہے:
جب اللہ تعالیٰ نے ارواح سے عہدِ الست لے لیا اور سب نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کر لیا تو اللہ نے اس کے بعد ان سے فرمایا ’’اے ارواح! مانگ لو مجھ سے جو تم مانگنا چاہتی ہو تاکہ میں تمہیں وہ عطا کردوں۔‘‘ ان تمام ارواح نے عرض کیا’’یا اللہ! ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں‘‘۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ارواح کی بائیں طرف دنیا اور دنیا کی زینت کو پیش کیا تو شیطان نمرود نفسِ امارہ کی مدد سے اس دنیا میں داخل ہو گیا۔ نو(۹) حصہ ارواح ایسی تھیں جنہوں نے شیطان کی پیروی کی، طلبِ مولیٰ چھوڑ کر اپنے لیے دنیا کو پسند کیا اور اسی میں غرق ہو گئیں۔ ان نو(۹) حصہ کے علاوہ ایک حصہ ارواح اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم سے فرمایا ’’اے ارواح! مانگ لو مجھ سے جو تم مانگنا چاہتی ہو تاکہ میں تمہیں وہ عطا کردوں۔‘‘ ان ایک حصہ باقی رہنے والی ارواح نے عرض کی ’’یااللہ ہم تجھ سے تجھی کو مانگتے ہیں۔‘‘ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان ارواح کی دائیں طرف جنت ،اس کی لذت اور نعمتیں، حور و قصور اور تمام زینت و زیبائش ظاہر کی۔ ان ارواح میں سے نو (۹) حصہ ارواح جنت کی طرف چلی گئیں۔ باقی ایک حصہ ارواح اللہ تعالیٰ کے رُوبرو کھڑی رہیں۔ ان کے کانوں نے نہ دنیا کی بانگ سنی اور نہ ہی جنت کی بانگ۔ یہ ارواح عارف باللہ فقرا کی تھیں۔ (کلید التوحید کلاں)
ہم اس دنیا میں جو بھی فیصلہ یا ارادہ کرتے ہیں اس کے پسِ پردہ ہماری روح کا فیصلہ جو اس نے عالمِ ارواح میں لیا تھا، کارفرما ہوتا ہے۔ جس نے دنیا اور اس کی زینت و آرائش کو اپنے لیے پسند کیا تھا وہ شعوری اور لاشعوری طور پر آج بھی دنیاوی و نفسانی خواہشات کی جانب مبذول رہتا ہے۔ جس نے جنت کو پسند کیا وہ اسی کو پانے کی خواہش میں رہتا ہے جبکہ طلبِ مولیٰ میں صادق رہنے والے اپنے مولیٰ ہی کی طلب اور جستجو میں لگے رہتے ہیں۔
اسما کا علم اور لاشعور
اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ قرآنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآئَ کُلَّھَا (سورۃالبقرہ۔31)
ترجمہ: اور (اللہ نے) آدم ؑکو تمام اشیا کے نام سکھا دیئے۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ
مَالَمْ یَعْلَمْ (سورۃالعلق۔5)
ترجمہ: (اللہ تعالیٰ نے) انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ پہلے نہیں جانتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس عالمِ ناسوت میں بھیجنے سے قبل تمام اسما کا علم سکھا دیا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ ’’علم ‘‘انسان کی تخلیق نہیں بلکہ انسان خود اپنے لاشعور سے اسے دریافت کرتا ہے اوریہ علم زمانے کی ضرورت اور ترقی کے تقاضوں کی بنا پر ظاہر ہوتا جاتا ہے۔ جتنی بھی بڑی دریافتیں ہوئیں ہیں وہ سب اسی طرز پر ہوئیں۔ مثال کے طور پر کششِ ثقل کا قانون (Law of Gravity)، نیوٹن کے شعور میں اچانک یہ نکتہ روشن ہونا کہ اشیا آسمان سے زمین کی جانب آتی ہیں جبکہ یہ عمل ازل سے ہوتا آرہا ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ علم اس کے لاشعور میں موجود تھا بس اپنے مقررہ وقت پر تفکر کے ذریعے وہ لاشعور سے شعور میں منتقل ہو گیا۔
حاصلِ کلام:
انسان کا لاشعور بہت سی وسعتیں اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے۔ یوں کہنا غلط نہ ہو گا کہ انسان اللہ تعالیٰ کی سب سے پیچیدہ مخلوق ہے۔ انسان کے اندر کا بھید وہی جان سکتا ہے جو خود انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہو، جو انسانی شخصیت کی تمام پیچیدگیوں اور روح کی حقیقت سے واقف ہو، لاشعور کے علم کو شعور میں لانے کے فن میں ماہر ہو۔ موجودہ دور میں انسانِ کامل سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کو بیعت کے پہلے روز ہی ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات عطا کر دیتے ہیں ۔ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرنے سے انسان کے اندر کی تمام پیچیدہ گرہیں کھلتی جاتی ہیں۔ معمات حل ہوتے جاتے ہیں اور انسان روح کی حقیقت اور اس کے ازلی مقام و مرتبہ سے واقف ہوتا جاتا ہے۔ انسان کے لاشعور میں جو عالمِ امر اور عالمِ خلق کی یادیں موجود ہیں،ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے ان یادوں میں کشش اور تڑپ کی لہر اٹھتی ہے جو اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور انسان باطن کے روحانی سفر کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی زیرِنگرانی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے روحانی منازل طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ ابیاتِ باھو کامل: تحقیق، ترتیب و شرح سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۳۔ کلید التوحید کلاں: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ ذہن کی پوشیدہ طاقت: مصنف جوزف مرفی
۵۔ تجدیدِ فکریاتِ اسلام: مصنف علامہ محمد اقبالؒ، مترجم ڈاکٹر وحید عشرت
بہترمضمون ہے۔
جبروت، ملکوت، ناسوت تخلیق کے مراتب ہیں اور مشترکہ طور پر عالمِ خلق، مراتبِ خلقی یا مراتبِ کونیہ کہلاتے ہیں۔
Very good blog
جبروت، ملکوت، ناسوت تخلیق کے مراتب ہیں اور مشترکہ طور پر عالمِ خلق، مراتبِ خلقی یا مراتبِ کونیہ کہلاتے ہیں
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
کیا عجب وسعت ہے ہمارے لاشعور کی!
کیا غضب کا لطف ہے ہمارے لاشعور میں!
Bohot khoob Behtareen
کیا عجب وسعت ہے ہمارے لاشعور کی!
کیا غضب کا لطف ہے ہمارے لاشعور میں!
خوبصورت اور دلچسپ تحریر
انسان کے لاشعور میں جو عالمِ امر اور عالمِ خلق کی یادیں موجود ہیں،ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے ان یادوں میں کشش اور تڑپ کی لہر اٹھتی ہے جو اس کے پورے وجود کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور انسان باطن کے روحانی سفر کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔
بہت خوب۔
بہترین
Very interesting and guiding article
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مرشد کامل اکمل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی زیرِنگرانی ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے روحانی منازل طے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہترین مضمون
ہم اس دنیا میں جو بھی فیصلہ یا ارادہ کرتے ہیں اس کے پسِ پردہ ہماری روح کا فیصلہ جو اس نے عالمِ ارواح میں لیا تھا، کارفرما ہوتا ہے۔
منفرد اور بہترین مضمون❤
Bethareen blog
Great 👍
ہمارے دماغ کا لاشعور حصہ زندگی میں انتہائی خوشگوار نتائج مرتب کر سکتا ہے کیونکہ لاشعور میں ہمارے عقائد، نظریات، سوچ اور ارادے شامل ہوتے ہیں
کمال کا آرٹیکل ہے
Ameen
Thats amazing
انسان کے لاشعور میں اس کی روح کا ماضی بھی شامل ہے۔
ما شاء اللہ بہت ہی منفرد اور کمال مضمون ہے واللہ
Acha article hai ye