بندگی–Bandagi

Spread the love

Rate this post

بندگی

تحریر: ڈاکٹر عبد الحسیب سرفراز سروری قادری (ساہیوال)

بندگی کیا ہے؟ یہ سوال ہر اس مسلمان یا ہر اس انسان کے ذہن میں ضرور جنم لیتا ہے جو بندگی کی حقیقت اور اس کے اسرار و رموز کو کھوجنا چاہتا ہے کیونکہ جو کوئی بھی چاہے وہ کسی بھی مذہب ، ذات پات یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو،اللہ پاک کی ذات کو پانے کے لئے سرگردان ہوتا ہے تو اللہ پاک خود اسے راستے دکھاتا جاتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ العنکبوت آیت 69 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
* وَالَّذِےْنَ جَاھَدُوْا فِےْنَا لَنَھْدِےَنَّھُمْ سُبُلَنَا
ترجمہ:اور جو لوگ ہماری طرف آنے کی جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنی طرف آنے کے راستے دکھادیتے ہیں۔
عرفِ عام میں بندگی سے مراد عبادت، آداب، تسلیم یا غلامی کے ہیں لیکن فقر میں بندگی سے مراد وہ عبادت و ریاضت ہے جس پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنا مقصدِ حیات یعنی اللہ کی پہچان اور معرفت حاصل کر لیتا ہے بندگی یا عبادت سے مراد انتہا درجے کی عاجزی و انکساری ہے یعنی بندہ اپنے ربّ کے سامنے اس قدر عاجزی و تعظیم کے ساتھ کھڑا ہو کہ جیسے خود اللہ پاک کی ذات اس کے سامنے ہو۔ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلاَّ لِےَعْبُدُوْنِ(الذاریٰت۔ 56 )
ترجمہ: اور میں نے جنات اور انسانوں کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت یعنی بندگی کریں۔
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں تخلیق کرنے کا مقصد بیان کر دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کونسی عبادت(بندگی) ہے جس کے لئے اللہ پاک نے یہ سارا نظام، یہ سارا جہان اور یہ ساری کائنات تخلیق فرمائی۔ اگر بندگی سے مراد صرف نمازیں، تسبیح، نوافل اور ظاہری عبادات ہی ہیں تو اس مقصد کے لئے اللہ پاک کے فرشتے ہی کافی تھے اور ہیں۔ اگر ایک فرشتہ قیام کی حالت میں ہے تو اس نے ستر ہزار سال (70000 ) تک قیام میں ہی رہنا ہے اور اگر کوئی رکوع میں ہے تو وہ ہزاروں سال رکوع میں ہی جھکا رہے گا الغرض ہر مخلوق چاہے وہ چرند پرند ہوں یا خونخوار جانور، درخت ہوں یا پہاڑ، سب اپنے اپنے انداز میں اللہ پاک کی پاکی بیان کر رہے ہیں یعنی جس طرح انہیں سکھایا گیا ہے اس طرح خدا پاک کی بندگی کر رہے ہیں۔
دوسری عام مخلوقات جو اس کائنات میں موجود ہیں ان کے بارے میں اللہ ربّ العزت فرماتا ہے:
* اَلَمْ تَرَاَنَّ اللّٰہَ ےُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالَارْضِ وَالطَّےْرُ صآفّٰتٍ کُلُّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتَہٗ تَسْبِیْحَہٗ وَاللّٰہُ عَلِےْمٌم بِمَا ےَفْعَلُوْنَ۔ (سورۃ النور۔ 41 )
ترجمہ: ’’کیا تم نے نہ دیکھا جو کوئی آسمانوں اور زمین میں ہیں اللہ کی تسبیح کرتے ہیں اور پرندے پر پھیلائے ہوئے، ہر ایک اپنی نماز اور اپنی تسبیح کو جانتا ہے اوراللہ ان کے کاموں سے آگاہ ہے جو وہ انجام دیتے ہیں۔‘‘
سورۃ الرحمن میں اللہ پاک فرماتا ہے:
* اَلشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانٍo وَالنَّجْمُ والشَّجَرُ ےَسْجُدٰنِo (الرحمن۔5-6)
ترجمہ: سورج اور چاند (اُسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں اور سبزے اور درخت (اسی کو) سجدہ کر رہے ہیں۔
ان آیات کریمہ سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر شے اللہ پاک کی عبادت و بندگی میں ہمہ وقت مشغول ہے۔
تو جب تمام کائنات اور اس کی مخلوقات اللہ کی پاکی بیان کر رہی ہے اس کی بندگی اور اطاعت میں مشغول ہے تو انسان کو کونسی بندگی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ پہلے مفسر ِ قرآن صحابی ہیں آپؓ نے اس آیت مبارکہ کی تفسیر کچھ یوں بیان فرمائی ہے:
* وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِ نْسَ اِلاَّ لِےَعْبُدُوْنِo اَیْ لِےَعْرِفُوْن
ترجمہ:اور میں نے جنوں اور انسانوں کو عبادت (بندگی) کیلئے پیدا کیا ہے یعنی معرفت کے لیے۔
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم نے اللہ پاک کی بندگی و عبادت اس طرح کرنی ہے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت و پہچان نصیب ہوجائے۔ اللہ پاک کے احکامات کی اس طرح پیروی کرتے جانا ہے کہ ہم بندگی کے اعلیٰ و ارفع مقام یعنی معرفتِ حق تعالیٰ پر پہنچ جائیں جہاں پہنچ کر ہم اللہ پاک کو دیکھ کر اس کا دیدار کر کے اس کی بندگی کریں۔
امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
’’اس عبادت میں کوئی بھلائی نہیں جس میں معرفت نہیں۔‘‘ (بحارالانوار)
آپ کرم اللہ وجہہ ایک اور موقع پر ارشاد فرماتے ہیں ’’جسے (اللہ کی) معرفت حاصل ہوجاتی ہے وہ (گناہوں) سے رک جاتا ہے۔‘‘

توحید اور بندگی
بہت سے لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ زبان سے کلمہ طیب پڑھ کر اور ارکانِ اسلام یعنی نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کی پیروی کر کے ہم بندگئ خدا تعالیٰ کا حق ادا کر دیتے ہیں لیکن فقر کی اصطلاح میں بندگی کا مطلب و مفہوم کچھ اورہے۔ اگر توحید کے پہلو سے بندگی کو دیکھیں تو ہم بظاہر اقرار باللسان کو توحید سمجھ بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے دل میں خواہشات کے بتوں کا ایک کعبہ موجود ہے۔ ہم نے اپنی خواہشات کو اپنا معبود بنایا ہوا ہے حالانکہ توحید کا اصل مطلب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ آج ہم نے صرف زبان سے کلمہ توحید ادا کرنے کو ہی اصل توحید مان لیا ہے جبکہ توحید کی حقیقت تو کچھ اور ہے۔ جب ہم نے توحید کے اصل مفہوم کو ہی نہیں سمجھا تو ہماری بندگی کی بھی کوئی وقعت نہیں رہتی کیونکہ اصل عبادت و بندگی کا مقام تب ہی حاصل ہوتا ہے جب صحیح معنوں میں توحید پر عمل پیرا ہوا جائے کیونکہ توحید دینِ اسلام کا سب سے اوّلین اور سب سے اہم رکن ہے جب توحید ہی حاصل نہ ہوئی تو پھر حقِ بندگی بھی ادا نہ ہوا۔
اللہ پاک کی ذات کے علاوہ اپنے دل سے ہر دوسری چیز، نفسانی خواہشات ،لالچ،طمع،حرص ،غرور،تکبر،جھوٹ سب کو نکال دینے کا نام توحید ہے کیونکہ جب ان تمام نفسانی خواہشات اور نفس کی بیماریوں کا دل سے خاتمہ ہو جاتا ہے تو انسان کو اپنے اندر صرف حق تعالیٰ کی ذات ہی باقی رہ جاتی ہے اور جب ہم اس ذات کو دیکھ کو سجدہ کرتے ہیں تو وہی اصل بندگی ہوتی ہے کیونکہ جب انسان اللہ کو دیکھ کر سجدہ کرے گا تو صحیح معنوں میں اس کے احکامات کو بجا لائے گا تب وہ اس مقام پر فائز ہو گا جہاں بندے کی رضا ہی ہوتی ہے جو اللہ کی رضا ہو۔
قرآنِ پاک میں اللہ پاک فرماتا ہے:
* وَمَنْ اَحْسَنُ دِےْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ (النسا۔125)
ترجمہ: اور اس شخص سے بہتر کون ہوسکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا وہ محسن (للہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا) ہے۔ اور یہی دیدار بندگی کی بنیاد ہے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا قول ہے ’’ میں اس وقت تک عبادت نہیں کرتا جب تک اللہ کی ذات کو دیکھ نہ لوں۔‘‘جب انسان یقین کے اس درجہ تک پہنچ جاتا ہے کہ جہاں وہ یہ خیال رکھتا ہے کہ کائنات میں موجود ہر شے اللہ کی طرف سے ہی آئی ہے اور اللہ پاک کے علاوہ کوئی بھی شے نہیں ہے تب وہ توحید کے رستے سے گزرتا ہوا بندگی کی حقیقت کو سمجھ لیتا ہے۔
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربیؒ اپنی تصنیفات فصوص الحکم اور فتوحاتِ مکیہ میں فرماتے ہیں:
* ’’ وجود اور احدیت میں تو سوائے حق تعالیٰ کے کوئی موجود رہا ہی نہیں پس یہاں نہ کوئی ملا ہوا ہے نہ ہی کوئی جد اہے یہاں تو ایک ہی ذات ہے جو عین وجود ہے دوئی کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔‘‘ (فصوص الحکم)
* پس عالمِ وجود میں خدا کے سوا اور کچھ نہیں اور خدا کو خدا کو سوا کوئی شناخت نہیں کرسکتا اور اس حقیقت کو وہی دیکھ سکتا ہے جس نے با یزید کی طرح ’’ان اللہ‘‘ اور ’’سبحانی‘‘ کہا ہو ۔ (فتوحاتِ مکیہ)
پس اگر کوئی صحیح معنوں میں اللہ پاک کی بندگی چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ سب سے پہلے توحید کا اقرار یعنی کلمہ طیبہ جوکہ اسلام کا سب سے بنیادی رکن ہے، کو اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب کے درجہ تک اپنے اندر اتارے۔اس کے لئے بندے کو اپنے آپ کو حق تعالیٰ کی ذات میں فنا کرنا ہوگا جب بندہ اپنے آپ کو اللہ پاک کی ذات میں فنا کر دیتا ہے تو اس کی اپنی ہستی ختم ہوجاتی ہے اللہ پاک اس کے دل سے تمام غیر اللہ کو نکال دیتا ہے تمام محبتیں، تمام رشتے ناتے، تمام نفسانی خواہشات کو اس کے وجود سے نکال کر خود اس کے اندر آکر جلوہ فرما ہوتا ہے اس مقام پر اسے اپنے اندر اللہ کی ذات جلوہ گر نظر آتی ہے اور اگر دنیا میں دیکھتا ہے تو وہاں بھی اسے وہی ایک ذات دکھائی دیتی ہے۔
* فَاَےْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہِ (البقرہ۔115)
ترجمہ:’’ پس تم جدھر دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ دکھائی دے گا۔‘‘
اس مقام پر وہ جو کچھ دیکھتا ہے اللہ کو، جو کچھ سنتا ہے اللہ کو، جو کچھ لیتا ہے اللہ سے اور جو کچھ کہتا ہے اللہ سے اور اس مقام پر پہنچ کر جو بھی عبادت کرتا ہے وہ خالصتاً اللہ کے لئے ہی ہوتی ہے اس میں اس کی خواہشات، رشتے دار ماں باپ یا بہن بھائی کا تصور تک نہیں پس یہی اصل بندگی ہے۔
اس مقام کے بارے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
احد جد دتی وکھالی، از خود ہویا فانی ھُو
قرب وصال مقام نہ منزل، ناں اوتھے جسم نہ جانی ھُو
نہ اوتھے عشق محبت کائی،نہ اوتھے کون مکانی ھُو
عینوں عین تھیوسے باھو،سِر وحدت سبحانی ھُو
حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
بیاں میں نکتہ توحید آ تو سکتا ہے
ترے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے

نماز اور بندگی
توحید کے بعد اسلام کا سب سے اہم رکن نماز ہے جو قربِ الٰہی کا سب سے اہم ذریعہ اور بندگی کا خوبصورت انداز ہے اور قرآنِ پاک میں بھی نماز کی تاکید سب سے زیادہ کی گئی ہے اور بارہا نماز کا ذکر آیا ہے لیکن آج کل کے لوگوں نے مقررہ اوقات میں ایک خاص ترتیب اور طریقے سے نماز ادا کرنے کو ہی بندگی تصور کر لیا ہے اور ہمیشہ اسی کے اہتمام میں سرگردان رہتے ہیں جبکہ حقیقت میں نماز اللہ کی بندگی و اطاعت وہ ذریعہ ہے جو بندے کو دائمی طور پر اطاعتِ الٰہی میں مشغول رکھتا ہے۔
اگر ہم یہ کہیں کہ نماز ہی بندگی کا بہترین ذریعہ ہے تو نماز کیسے اس کی اصل روح کے ساتھ ادا کی جائے کہ وہ واقعی ہی بندگی کا اظہار ہو تو اس کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
* قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَo الَّذِےْنَ ھُمْ فِیْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْن۔ (المومنون۔2-1 )
ترجمہ:فلاح پا گئے وہ مومن جو اپنی نماز خشوع(حضورِ قلب) سے ادا کرتے ہیں۔
حدیث مبارکہ ہے:
* اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنُ
ترجمہ: نماز مومن کی معراج ہے۔
معراج سے مراد دیدارِ الٰہی ہے یعنی ہماری نماز میں خشوع و خضوع (حضورِ قلب) کا ایسا مقام ہونا چاہیے کہ ہم حق تعالیٰ کو دیکھ کر سجدہ کر رہے ہوں یہی اصل بندگی ہے اسی سجدہ کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا:
وہ اِک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
لیکن ایسی نماز جس میں قلب و باطن اللہ کے حضور حاضر نہ ہو تو وہ نماز بندگی کا اظہار نہیں۔ اسی کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا صَلوٰۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ
ترجمہ: حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضورِ قلب سے مراد باطن کا مخلوق اور غیر اللہ سے ہٹ کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حضور اللہ پاک کی بارگاہ میں کھڑا ہونا ہے۔
پیرانِ پیر محبوبِ سبحانی سیّدنا غوث الاعظم حضر ت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے ہر اس عبادت کو ریاکاری قرار دیا ہے جس میں حضورِ قلب (خشوع) نہ ہو ۔جب تک ہماری نماز میں خشوع نہ ہوگا تب تک ہم بندگئ خدا کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ ہم نماز کسی بھی طریقہ سے ادا کریں لیکن نماز کی اصل روح ایک ہی ہے اور وہ حضورِ قلب اور خشوع ہے اور یہی مومن کی نماز ہے کہ کم ازکم نماز میں تو حق تعالیٰ کے حضور حاضر ہو تب ہی ہم بندگی کا حق ادا کر سکیں گے۔
اور اس کے لیے ہمیں ایسے کامل رہبر ، ہدایت یافتہ مرشد اور ایسی ہستی کی ضرورت ہے جو ہمارے دل و دماغ میں سے نفسانی خواہشات کے بتوں کو نکال پھینکے اور وہ ذریعہ بھی ہمیں عطا کرے جس کے ذریعے ہمیں اللہ پاک کا دیدار حاصل ہو اور اسی دیدار میں گم ہو کر ہم سجدۂ بندگی ادا کریں وہ ہستی وہ رہبر بلاشبہ مرشد کامل اکمل صاحب مسمّٰی کی ذات ہی ہے جو ذکر و تصور اسمِ اللہ اور اپنی نگاہِ کامل سے تمام روحانی و باطنی بیماریوں سے چھٹکارا دلا کر ہمیں حضورِ قلب کے ساتھ نماز ادا کرنا اور آدابِ بندگی سکھاتا ہے اور جب ایسی نماز قائم ہوجائے تو وہ دائمی نماز ہوتی ہے جو کسی مرشد کامل اکمل صاحبِ مسمّٰی کے علاوہ کوئی اور نہیں پڑھا سکتا۔
اسی نماز کے متعلق حضرت سلطان باھُوؒ اپنے پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
اندر وچ نماز اساڈی، ہکے جا نتیوے ھُو
نال قیام رکوع سجودے، کر تکرار پڑھیوے ھُو
ایہہ دل ہجر فراقوں سڑیا، ایہہ دم مرے نہ جیوے ھُو
سچا راہ محمدؐ والا باھُوؒ ، جیں وچ ربّ لبھیوے ھُو
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا راستہ فقر کا راستہ ہے اور فقر کے راستہ پر چل کر ہم اللہ پاک کی اطاعت، عبادت اور بندگی کرسکتے ہیں یہ فقر ہی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘ فقر ہی اصل میں وہ راہ ہے جس پر گامزن ہو کر انسان صرف اور صرف اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے ہی عبادت کرتا ہے اس کی رضا اور قرب ہی اس کے مدِ نظر ہوتا ہے اللہ کی منشا و رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے اور اس طرح وہ بندگی کے اعلی و ارفع فرض کو صحیح طریقے سے اد اکرتا ہے۔

اطاعتِ مرشد اور بندگی
اللہ پاک نے اپنے بندوں کی ہدایت و رہنمائی کیلئے ہر دور میں نبی پیغمبر بھیجے اور لگ بھگ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر اس دنیا میں تشریف لائے جو لوگوں کو راہِ ہدایت کی طرف بلا کر بندگی کا درس دیتے رہے۔ امام الانبیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام فقرکے مختارِ کُل ہیں تمام رسولوں اور انبیا نے فقر کی خواہش کی لیکن کسی کو عطا نہیں ہوا سوائے ہمارے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بدولت ہی یہ فقر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نائب اور خلیفہ کے ذریعے قیامت تک اُمت تک پہنچتا رہے گا۔ حدیث مبارکہ ہے :
* ترجمہ: اس کا دین ہی نہیں جس کا شیخ (مرشد کامل) نہیں۔
ایک اور حدیث مبارکہ ہے:
* ترجمہ: جس کا مرشد نہیں اس کا مرشد شیطان ہے۔
ان احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مرشد کامل اکمل کے بغیر دین کا وجود ہی نہیں ہوتا اور جب دین نہیں ہو گا تو بندگی بھلا کیونکر ہوگی اور پھر جو بھی عبادت و ریاضت کی جائے گی وہ سر اسر شرک کے زمرے میں آئے گی۔
اس کے علاوہ اس شخص کا مقصدِ حیات بندگئ خدا تعالیٰ اور دین مکمل ہوجاتا ہے جو اپنے آپ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ تک لے جاتا ہے ۔
حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں:
بہ مصطفیؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است
مفہوم: یعنی تو اپنے آپ کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک (ان کی مجلس) پہنچا کہ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی اصل اور مکمل دین ہیں اگر تو ایسا نہیں کرتا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے۔
لیکن آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام تک پہنچنے کیلئے ہمیں ایسی ہستی، ذات اور انسان کی ضرورت ہے جو قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتی ہے اور ہر دور میں اللہ پاک ایک ایسا انسان اس کائنات میں بھیجتا ہے جو انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز اور ظاہرو باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور اللہ کا مظہر ہوتا ہے جسے مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ اور امام الوقت اور عبداللہ کہتے ہیں جو شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بندگی خود بھی کرتا ہے اور اپنے ساتھیوں (مریدین) کو بھی اپنی نگاہِ کامل سے تزکےۂ نفس کرنے کے بعد اسی طریقہ پر شریعتِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا پیروکار بناتا ہے جس طرح آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے صحابہ کو بندگی کی اصل حقیقت اور روح سکھائی۔
اللہ پاک کا کروڑہا شکر کہ اس نے ہماری رہنمائی آج کے دور کے انسانِ کامل، مرشد کامل اکمل، صاحبِ مسمّٰی تک کروائی ہے بلاشبہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ہی آج کے دور کے انسانِ کامل کے مرتبہ پر فائز ہیں اور قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ہمارے مرشد کریم کی صحیح معنوں میں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ آپ مدظلہ الاقدس کی اطاعت ہی اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے اور اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اطاعتِ اللہ ہے اور یہی اصل بندگی ہے۔


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں