کلمہ طیب
لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللّٰہِ
احمد علی سروری قادری (اوچ شریف)
کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ مومنوں پر اللہ تعالیٰ کی خاص نعمت اور احسان ہے اور کروڑہا شکر اس ذات پاک کا جس نے یہ کلمہ ہمیں عطا فرمایا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا جس کا کلمہ ہم پڑھتے ہیں۔ مگر بہت کم لوگ اس کلمہ کی حقیقت اور اس کی روح سے آشنا ہیں۔ عام لوگ تو دور کی بات مسلمان بھی کلمے کی حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اپنے نفس کو خواہشات اور دنیا کو اپنا بت بنا لیا ہوتا ہے۔ ان کے بارے میں قرآنِ پاک میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ ثَالِثُ ثَلٰثَۃٍ (المائدہ۔ 73 )
ترجمہ: (جن لوگوں نے کہا) اللہ تین خداؤں میں سے تیسرا ہے (کیونکہ اللہ پاک ہمارے دلوں کو جانتا ہے۔ ہم نے دلوں میں جو اس کے شریک بنا رکھے ہیں)۔
اس آیت سے اسی بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے دلوں میں اور زندگیوں میں کتنے ہی خدا بنائے بیٹھے ہیں اور حقیقی خدا سے کتنے دور ہیں جس کی وہ خوداس آیت میں ہم کو تنبیہ فرما رہا ہے۔ یہ تو تمام لوگ کہتے ہیں کہ اللہ وحدہٗ لا شریک ہے لیکن اس کے ساتھ اس کے شریک بھی کھڑے کیے ہوئے ہیں۔ جب کلمہ طیب میں پڑھتے ہیں کہ لَآ اِلٰہَ کہ اے اللہ تیرے سوا کوئی نہیں۔ لَآ کی تلوار سے ہر محبت اور ہر رشتے کی نفی کی جارہی ہے یعنی کہ اے اللہ پاک میں تیرے لیے ہوں اور تیرے لیے میں ہر شے اور اپنے دل سے ہر اک بُت کو توڑتا ہوں اور تیرے مقابلے میں کسی اور چیز کو نہیں مانتا، تو ہی میرے لیے سب کچھ ہے اور مجھے سب کچھ عطا کرنے والا ہے اور سب سے زیادہ تومجھ سے محبت کرنے والا ہے اور تو ہی ہر وقت میری نگرانی کرنے والا ہے، اور ہر طرح کا رزق عطا کرنے والا ہے ہر مصیبت اور آفات سے نجات دینے والا ہے اور مجھے یہ زندگی بھی تیری ہی عطا کردہ ہے میرے ہر عمل کو تو دیکھنے والا اور میرے گناہوں اور غلطیوں سے درگزر کرنے والا ہے، اے اللہ پاک! میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں اپنے ہر معاملے میں صرف تجھے ہی کافی سمجھتا ہوں اور میری ہر عبادت صرف اور صرف تیرے ہی لئے ہے اور میں تیری اس امانت میں خیانت نہیں کروں گا اورکسی کو کبھی بھی تیرا شریک نہیں بناؤں گا ہر رشتے اور ہر شے کی اللہ کے مقابلے میں نفی کرنا ہی لَآ اِلٰہ ہے۔ جو ایسا نہیں کرسکتا وہ اللہ کے ساتھ ہر دعوے میں جھوٹا اور لاف زن ہے۔نفی پہلی اور اثبات دوسری منزل ہے یعنی لَآ اِلٰہَ کے بعد اِلَّا اللّٰہُ اثبات ہے اور اس منزل پر پہنچ کر ہم گواہی دیتے ہیں کہ اے اللہ تو اس قدر خوبصورت اور اپنی ذات اور اپنی تمام تر صفات میں اس قدر کامل ہے کہ تیرے سوا کوئی اورعبادت کے لائق نہیں اور ہر جگہ صرف تُو ہی تو موجود ہے، ہر ایک رنگ تیرا ہی رنگ ہے، ہر روپ تیرا ہی روپ ہے، ہر کوئی تجھ سے ہی زندہ ہے ہر ایک شے میں زندگی تیرے نور سے ہے اور ہر شے اپنی اصل صورت پر تیری وجہ سے قائم ہے ہر چیز میں تو خود ہی سمایا ہوا ہے ہر کوئی تیرا ہی دم بھرتا ہے چاہیے اسے اس کا شعور ہو یا نہ ہو۔ زمین و آسمان اور چودہ طبقات کی ہر ایک چیز پر صرف تیرا ہی احاطہ ہے کوئی چیز تیری قدرت سے باہر نہیں ہے تُو ہر شے پر قادر ہے، سب کچھ تیرے قبضے میں ہے۔ تیری موجودگی نے ہی ہر چیز کو زندگی بخشی ہوئی ہے۔ہر شے میں تیرے ہونے سے ہی زندگی ہے بظاہر پتھر اور پہاڑ بے جان نظر آتے ہیں لیکن مجھے تو تُو ان میں بھی نظر آرہا ہے اگر ان میں تیرا نور نہ ہوتا تو یہ پتھر اور پہاڑ تیرے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر درود و سلام نہ پڑھتے، تُو ہی ہر جگہ موجود ہے ہر سمت میں موجود ہے سورج، چاند، ستارے، زمین و آسمان، سمندر، دریا، جھرنے، پہاڑ، درخت، جنگل، صحرا، چرند پرند، ملائکہ اور تمام جن و انس اور تمام مخلوق جس کو تُو نے پیدا کیا ہے ہر شے میں فقط تیر اہی نور ہے۔ جیسا کہ تیرا ارشادِ مبارک ہے:
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ(النور۔35 )
ترجمہ: اللہ ہی تمام زمینوں اور آسمانوں کا نور ہے۔
کلمہ طیب کی تیسری اور آخری منزل مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ یعنی ’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں‘‘ بھی موجود کا ہی پیغام ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کی طرف سے آخری رسول بن کر اس فانی دنیا میں تشریف لائے اور تریسٹھ (63) سالہ زندگی اپنے ظاہری وجود کے ساتھ اس دنیا میں گزار ی اور اب بھی باطنی وجود کے ساتھ اس دنیا میں موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے کیونکہ آپ ہی کائنات کی روح ہیں اس کی مثال سب سے بڑا واقعہ معراج شریف ہے جب آپ نے سدرۃ المنتہیٰ جو کہ کائنات کی حد ہے‘ سے قدم بڑھایا تو زمانہ رُک گیا اور جب واپس تشریف لائے تو وہاں سے ہی زمانہ چل پڑا اس لیے کہ آپ ہی روحِ کائنات ہیں۔ آج بھی تمام مسلمان کلمہ طیب پڑھتے ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں کبھی بھی کسی مسلمان نے یہ نہیں پڑھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول تھے (نعوذ باللہ)۔ اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جو کہ مظہرِ ذاتِ الٰہی ہیں اور قرآن میں بھی آپ کو شاہد کہا گیا ہے۔ شاہد گواہی دینے والے کو کہتے ہیں اور گواہی اس بندے کی قبول کی جاتی ہے جس نے کوئی واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور جس نے وقوعہ نہیں دیکھا وہ شاہد نہیں ہوسکتا ۔اس لیے قرآن میں اللہ تعالیٰ کا آپ کو شاہد بتانا بھی حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی سب سے بڑی دلیل اور شہادت ہے۔
تو کلمہ طیب یہ ثابت کرتا ہے کہ محمدصلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی وہ ہستی ہیں جو کہ اللہ کی طرف سے ہماری کامل رہنمائی فرماتی ہیں اور ان کی بدولت ہی ہمیں اللہ کی معرفت اور پہچان نصیب ہوگی کیونکہ اللہ موجود ہے جب ہم اِلَّا اللّٰہُ کہتے ہیں تو ثابت ہو جاتا ہے کہ اللہ موجود ہے اور مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتے ہیں تو یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی موجود ہیں اگر اللہ موجود ہیں تو اس کے مظہرِ اُتّم اور اس کا آئینہ بھی موجود ہے ۔ کیونکہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حدیث مبارکہ ہے کہ:
* اَنَا مِرَّآۃُ الرَّحْمٰن
ترجمہ: میں رحمن کا آئینہ ہوں۔
* مَنْ رَانِیْ فَقَدْ رَایَ الْحَقْ
ترجمہ: جس نے مجھے دیکھا بیشک اس نے حق کو دیکھا۔
اور بھی بہت ساری آیات اور احادیثِ مبارکہ ہماری رہنمائی کرتی ہیں اور سب سے بڑھ کر کلمہ طیب خود گواہی دے رہا ہے کہ اے اللہ تیرے سوا کوئی موجود نہیں ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) تیرے رسول ہیں اور رسول رہبر کو کہتے ہیں اور رہبر راستہ سمجھانے اور دکھانے والا ہوتا ہے۔
نعوذ باللہ اگر آج کوئی راستہ دکھانے والا یعنی کہ ہمارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم موجود نہ ہوتے تو ہمیں راستے پر چلانے والی ذات کون ہے جس کو کلمہ طیب میں ہم مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہہ رہے ہیں۔ میر ے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میرے رہبر آج بھی اپنی اُمت کو راستہ دکھا رہے ہیں تو تب ہی یہ اُمت مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کہتی ہے اس کی سمجھ اگر سب کو نہیں بھی تو اس بات کا کوئی فرق نہیں پڑتا سمجھدار تو سمجھ رہا ہے اگر کسی کو اس بات کی سمجھ نہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ (نعوذ باللہ ) حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہی منکر ہو جائیں اگر کوئی ایسا کرے گا تو وہ کلمہ طیب اور اللہ تعالیٰ کا بھی منکر کہلوائے گا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :
قَاءِلُوْنَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کَثِےْرًا وَّالْمُخْلِصُوْنَ قَلِےْلاً۔
ترجمہ: زبان سے کلمہ پڑھنے والے بہت زیادہ ہیں لیکن ان میں مخلص کم ہی ہیں۔
جب کوئی ایسی ہستی جو کاملیت کے اس مرتبہ پر ہو کہ نہ صرف خود کلمہ طیبہ کی کنہہ سے آگاہ ہو بلکہ لوگوں کو کلمہ کی حقیقت سمجھانے کے لیے سرگرمِ عمل بھی ہو تو لوگ اس ہستی کا ہی انکار کر دیتے ہیں یعنی اپنے اندر موجود نفس و خود پرستی اور جہالت کے بُتوں کو توڑنا ہی نہیں چاہتے اور نہ ہی اس کلمہ کی حقیقت کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھو ؒ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو تصدیقِ دل حاصل نہیں تو اس کا محض زبان سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا اقرار کر لینا اسے کوئی فائدہ نہ دے گا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اِقْرَارٌ بِاللِّسَانِ وَتَصْدِےْقٌ بِالْقَلْبِ (عین الفقر)
ترجمہ: زبان سے اقرار کرو اور دل سے تصدیق کرو۔
پس ہر چیز کا دارومدار تصدیقِ قلب پر ہے۔ تصدیقِ قلب کہاں سے حاصل ہوتی ہے؟ واصل باللہ شیخ مرشد سے، شیخ مرشد کسے کہتے ہیں؟ جو طالب کے قلب کو زندہ کر دے اور نفس کو مار دے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ اپنے پنجابی کلام میں بھی اس بات کو بڑی خوبصورتی سے یوں بیان فرماتے ہیں:
زبانی کلمہ ہر کوئی پڑھدا، دِل دا پڑھدا کوئی ھُو
جتھے کلمہ دِل دا پڑھیئے، اُوتھے ملے زبان ناں ڈھوئی ھُو
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھُو
ایہہ کلمہ مینوں پیر پڑھایا باھُوؒ ، میں سدا سوہاگن ہوئی ھُو
اس بیت کے پہلے مصرعہ میں آپؒ ان لوگوں کے بارے میں فرما رہے ہیں جو زبان کے ساتھ تو ہر وقت کلمہ کا ورد کرتے ہیں لیکن تصدیقِ دل کے ساتھ بہت ہی کم اس کلمے کو پڑھتے ہیں۔ کلمہ طیب کی حقیقت کو کوئی بھی جاننے کی کوشش نہیں کر رہا جبکہ قلبی تصدیق بہت ضروری ہے۔ اس قلبی تصدیق سے کلمہ طیب کی حقیقت اور کنُہہ کو پا لینے کے بعد باطنی علوم اور سب سے بڑھ کر اللہ پاک کا قرب اور وصال حاصل ہوتا ہے، انسان کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے اور انسان ہمیشہ کے لیے گناہوں سے تائب ہو کر ہر وقت اللہ تعالیٰ اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حضوری میں حاضررہتا ہے اور دیگر انسانوں کے لیے بھلائی اور امن کا گہوارہ بن جاتا ہے۔ دنیاوی و ظاہری معاملات میں معاشرتی برائیاں مثلاً فسادات، فرقہ پرستی، دہشت گردی، انا پسندی، نفس پرستی، قتل و غارت اور نفسانی بیماریاں جھوٹ، حسد، تکبر، زنا، دھوکہ دہی، گلہ، غیبت اور شرک وغیرہ جیسے گناہِ کبیرہ اس کے وجود میں سے نکل جاتے ہیں اور انسان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک خصوصی تعلق قائم ہوجاتا ہے جس سے انسان صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے قرب کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرنے لگ جاتا ہے اور گناہوں سے باز رہتا ہے کیونکہ انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کے قرب اور دیدار سے بڑھ کر کوئی اور نعمت نہیں ہے۔
مذکور بالا بیت کے دوسرے مصرعے میں فرماتے ہیں:
جتھے کلمہ دِل دا پڑھیئے، اُوتھے ملے زبان ناں ڈھوئی ھُو
یعنی جس مقام اور مرتبے پر قلبی تصدیق سے کلمہ پڑھنے والے لوگ پہنچ جاتے ہیں وہاں صرف زبانی کلمہ پڑھنے والے کبھی نہیں پہنچ سکتے۔ کلمے کی حقیقت اور کنہہ تک پہنچنا ضروری ہے ورنہ انسان صرف قیل و قال تک ہی محدود رہے گا۔ اللہ پاک کا قرب اور وصال اسے نصیب نہیں ہوگا۔ اس بیت کے تیسرے مصرعے میں فرماتے ہیں:
دِل دا کلمہ عاشق پڑھدے، کی جانن یار گلوئی ھُو
یعنی تصدیق بالقلب عاشقوں کا مرتبہ ہے اس مرتبہ کو قیل و قال یعنی زبانی گفتگو کے ماہر لوگ جو کہ صرف اور صرف ظاہری علم تک محدود ہیں اور کلمے کی ظاہری صورت کو جانتے ہیں انہوں نے کبھی دلوں میں اللہ پاک کے عشق و معرفت اور قرب و وصال کی شمع ہی روشن نہیں کی، جو دل کے اندھے اور زبانوں کے تیز ہیں اور دین کو بیچ کر دنیا کما رہے ہیں وہ کسی عاشق کے مقام کو کبھی نہیں پہنچ سکتے کیونکہ عاشق کو تو بہت سارے مصائب اور تکلیفوں سے گزر کر عاشق کہلوانا پڑتا ہے کبھی کسی عاشق کو آگ میں کودنا پڑا اور کبھی چُھری کے نیچے لٹایا گیا، کبھی چند روپوں کی خاطر بازار میں بیچا گیا اور کبھی تختہ دار پر لٹکایا گیا۔ کبھی کر بلا کی تپتی ریت پر ذبح کیا گیا۔ وہ بھی عظیم عاشق ہیں جنہوں نے اپنا پورا خاندان اور اپنے سارے اصحاب اللہ کے عشق میں قربان کر دیئے اور خود بھی قربان ہو گئے اور نیزے پر قرآن پڑھتے ہوئے عشق کی انتہا کو پہنچے اور ہمیشہ کے لیے امر ہوئے۔
ظاہری علم اور زبانی کلمہ تو یزید اور اس کا پورا گروہ بھی پڑھتا تھا لیکن وہ سب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی باطنی حقیقت کی پہچان حاصل نہیں کرسکے جس نبی کا کلمہ پڑھتے تھے اس کی حقیقی پہچان نہیں کر سکے۔ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلَ اللّٰہِ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو ایک رسمی کلمہ سمجھ کر پڑھتے ہوئے زندگیاں گزار گئے، اگر پہچان کی ہوتی تو ایسا ظلم نہیں ہوتا۔ اور آخری مصرعے میں فرماتے ہیں:
ایہہ کلمہ مینوں پیر پڑھایا باھُوؒ ، میں سدا سوہاگن ہوئی ھُو
یعنی کہ دل کا کلمہ پڑھانے والا بھی کوئی ہوتا ہے انسان بغیر کسی کی راہنمائی کے تصدیق بالقلب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا اس کلمے کی حقیقت او ر کُنہہ تک پہنچنے کے لیے بھی کسی کامل ترین ہستی کی ضرورت ہے جو ہمیں اس کلمے کی کُنہہ اور حقیقت بتائے اور قلبی تصدیق کے ساتھ ہمیں یہ کلمہ پڑھائے اور وہ ہستی شیخِ کامل یعنی مرشد کامل اکمل کی ذات ہے جو اس راستے کا رفیق اور رہبر ہوتا ہے وہ نہ صرف خود پہلے اس راستے پر چل چکا ہوتا ہے بلکہ اس راستے کے تمام نشیب و فراز کے متعلق جاننے والا ہوتا ہے۔ ہمیں بحفاظت ہماری منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ اسی کے متعلق آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
* اَلرَّ فِےْقُ ثُمَّ الطَرِ ےْقُ
ترجمہ: پہلے رفیق تلاش کرو اور پھر راستہ چلو۔
اگر ہم آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری زمانے کو دیکھتے ہیں تو تمام اصحاب کے رفیق اور رہبر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات ہے اور تمام اصحاب نے جو بھی مقام اور مرتبے پائے وہ اپنے مرشدِ کامل انسانِ کامل، مظہرِ ذاتِ الٰہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہِ کامل سے ہی پائے آج بھی وہی طریقہ چلا آ رہا ہے دل کا کلمہ پڑھانے والی ہستی جو کہ قدمِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہوتی ہے‘ آج بھی موجود ہے لیکن دل کا کلمہ پڑھنے والے ہی اس کی ضرورت سے بے خبر ہیں۔ کلمہ کی جو حقیقت کو سمجھنا ہی نہیں چاہتا اور جوہری بننا ہی نہیں چا ہتا وہ اس سنگِ پارس کو کیا سمجھے گا، اس کی نظر میں مرشد کی کیا اہمیت ہوگی اور جس طرح ابو جہل کو مظہرِ ذاتِ ربانی، حقیقتِ حق جناب محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پہچان نہ ہوسکی وہ آپ کو جادوگر ہی سمجھتا رہا (نعوذ باللہ) اور سیّدنا حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہٗ غریب اور غلام ہو کر بازی جیت گئے۔ اسی طرح آج بھی جو لوگ اس دور کے انسانِ کامل کی پہچان اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر اس کی صحبت میں سلک سلوک کی منزل طے ہی نہیں کرنا چاہتے انہیں کلمہ طیب کی حقیقت کیا معلوم ہوگی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ لوگ اپنے نفس، انا، رشتوں اور ضروریات کے بتوں کو توڑنا ہی نہیں چاہتے ۔ ’لَآ‘ کی تلوار سے اپنے دنیاوی خداؤں کو قتل کرنا ہی نہیں چاہتے۔
تو میرے مسلمان بھائیو! آؤ ہم بھی اقرار باللسان سے اگلی منزل تصدیق بالقلب کی طرف بڑھیں۔ جس طرح اللہ ایک ہے اوراس کا خلیفہ بھی دنیا میں ایک ہی ہے خلیفہ سے مراد قطبِ زماں ہے اور وہ اپنے وقت کا سلطان ہے اور سلطان کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن میں یوں فرماتے ہیں:
ترجمہ: اے گروہِ جن وانس ! اگر تم میں ہمت ہے تو آسمانوں اور زمین کے کناروں سے باہر نکل کر دکھاؤ ہر گز نہ نکل سکو گے بغیر سلطان کے۔ (الرحمن۔ 33)
شیخ ابرہیم حضرت محیّ الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتابوں شرح فصوص الحکم و الایقان اور فتوحاتِ مکیہ میں فرماتے ہیں:
ہر زمانے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور کامل اکمل افراد کی صورت پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔
کیونکہ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں نہ رسول جو نئی شریعت لائے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بعد ہر زمانے میں ایک ایسا فردِ کامل ہوتا رہے گا جس میں حقیقتِ محمدیہ کا ظہور ہوگا اور وہ فنا فی الرسول کے مقام سے مشرف ہوگا وہ فردِ کامل قطبِ زمان ہے اور (وہی سلطان ہے) اور ہر زمانے میں ایک ولی اس منصب پر فائز کیا جاتا ہے۔
آج اس نفسانفسی کے دور میں اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر ہمارے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس منصبِ عالی پر فائز ہو کر مخلوقِ خدا کو خدا کی طرف تلقین کر رہے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اس زمانے کے لوگوں کو قلبی تصدیق کے ساتھ کلمہ طیب پڑھا کر انہیں کلمے کی حقیقت اور کنہہ تک پہنچا رہے ہیں بہت سارے لوگ آپ کے ازلی فیض سے فیض یاب ہوچکے ہیں اور یہ دعوت تمام مخلوقِ خدا کو ہے کہ وہ آئیں اور آپ مدظلہ الاقدس کے ازلی فیض سے اپنے سینوں کو منور کریں اور اللہ پاک کی بارگاہ میں سرخرو ہوسکیں ۔