سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
اور
سلطان العاشقین
حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کا روحانی تعلق
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس سلسلہ سروری قادری کے اکتیسویں شیخِ کامل ہیں آپ مدظلہ الاقدس اپنی تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں سلسلہ سروری قادری کے متعلق فرماتے ہیں:
* سلسلہ سروری قادری کو سروری قادری اس لیے کہا جاتا ہے کہ سروری کا مطلب ہے سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دستِ مبارک پر بیعت ہونا اور قادری کا مطلب ہے غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر رضی اللہ عنہٗ کی اتباع کرنا یعنی ان کے طریقہ پر چلنا ۔(شمس الفقرا۔679)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے بارے میں فرماتے ہیں:
* سروری قادری اسے کہتے ہیں جسے خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام دستِ بیعت فرماتے ہیں اور اس کے وجود سے بد خلقی کی خوبو ختم ہو جاتی ہے اور اسے شرعِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی راہ پر گامزن ہونے کی توفیق نصیب ہو جاتی ہے ۔(محک الفقر کلاں)
* ایک اس مرتبہ کے بھی سروری قادری ہوتے ہیں جنہیں خاتم النبیین رسول ربّ العالمین سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنی مہربانی سے نواز کر باطن میں حضرت محی الدین شاہ عبد القادر جیلانی قدس سرہُ العزیز کے سپرد کر دیں اور حضرت پیر دستگیرؓ بھی اسے اس طرح نوازتے ہیں کہ اُسے خود سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ (محک الفقر کلاں)
سلسلہ سروری قادری وہ روحانی سلسلہ ہے جس کی ابتدا سرورِ کائنات حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ہوئی اور جس میں انہوں نے اپنا فخر اور ورثہ فقر منتقل فرمایا جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان مبارک ہے:
* اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّی
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
* اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ بِہٖ عَلٰی سَاءِرِ الْاَنْبِےَآءِ وَالْمُرْسَلِیْنَo
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
* اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کَنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی۔
ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
سلسلہ سروری قادری کو فقر کی بدولت ہی دیگر تمام سلا سل پر برتری حاصل ہے اور تا قیامت فقر کا یہ خزانہ اسی سلسلہ میں رہے گا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فقر کی یہ امانت اور ورثہ بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل فرمایا جن سے یہ سلسلہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک اس ترتیب سے پہنچا:
1۔حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم
2۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ
3۔ حضرت اما م خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ
4۔ حضرت شیخ حبیب عجمی رحمتہ اللہ علیہ
5۔ حضرت شیخ داؤ د طائی رحمتہ اللہ علیہ
6۔ حضرت شیخ معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ
7۔ حضرت شیخ سری سقطی رحمتہ اللہ علیہ
8۔ حضرت شیخ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ
9۔ حضرت شیخ جعفر ابوبکر شبلی رحمتہ اللہ علیہ
10۔ حضرت شیخ عبد العز یز بن حرث بن اسد تمیمی رحمتہ اللہ علیہ
11۔ حضرت شیخ ابو الفضل عبد الواحد تمیمی رحمتہ اللہ علیہ
12۔ حضرت شیخ محمد یوسف ابو الفرح طر طوسی رحمتہ اللہ علیہ
13۔ حضرت شیخ ابو الحسن علی بن محمد قرشی ہنکاری رحمتہ اللہ علیہ
14۔ حضرت شیخ ابو سعید مبارک مخزومی رحمتہ اللہ علیہ
15۔ غوث الاعظم سیّدنا حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ
16۔ حضرت شیخ تاج الدین ابو بکر سیّد عبد الرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
17۔ حضرت شیخ سیّد عبد الجبار جیلانی رحمتہ اللہ علیہ
18۔ حضرت شیخ سیّد محمد صادق یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ
19۔ حضرت شیخ سیّد نجم الدین برہان پوری رحمتہ اللہ علیہ
20۔ حضرت شیخ سیّد عبد الفتاح رحمتہ اللہ علیہ
21۔ حضرت شیخ سیّد عبد الستار رحمتہ اللہ علیہ
22۔ حضرت شیخ سیّد عبد البقاء رحمتہ اللہ علیہ
23۔ حضرت شیخ سیّد عبد الجلیل رحمتہ اللہ علیہ
24۔ حضرت شیخ سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ
25۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ تک تو سلسلہ سروری قادری مصدقہ اور غیر متنازعہ ہے ، ہر سلسلہ میں اس کو درست و صحیح مانا جاتا ہے۔ لیکن حضرت سلطان باھُوؒ کے بعد اس سلسلہ کی بہت سی متنازعہ شاخیں بن گئیں ۔ حضرت سلطان باھُوؒ کی اولاد کے علاوہ دیگر دعویداروں نے بھی اس سلسلے کو خود سے منسوب کرکے اسے نئے نئے رخ دے دئیے اور خود کو حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی امانتِ فقر کا وارث قرار دے دیا حالانکہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ خود اپنی کتب میں واضح طور پر فرماتے ہیں کہ انہیں ایک بھی ایسا لائق طالب نہ ملا جسے وہ امانتِ فقر منتقل کرسکتے ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* سالہاسال سے میں طالبانِ مولیٰ کی تلاش میں ہوں لیکن ابھی تک مجھے وسیع حوصلے اور ہمت والا لائقِ تلقین طالب صادق نہیں ملا جسے معرفت و توحیدِ الٰہی کے ظاہری وباطنی خزانوں کی نعمت اور دولت (ورثۂ فقر، امانتِ الٰہیہ) کا نصاب بے حساب عطا کرکے تبرکاتِ الٰہی کی زکوٰۃ کے فرض سے سبکدوش ہو کر اللہ تعالیٰ کے حق سے اپنی گردن چھڑالوں ۔ (نور الہدیٰ)
در طلب طالب بہ طلبم سالہا
کس نہ یابم طالبے لائق لقا
ترجمہ:میں سالہا سال سے ایسے طالب کو تلاش کرتا پھر رہا ہوں جو دیدارِ الٰہی کے لائق ہو لیکن افسوس مجھے ایسا طالب نہیں ملا۔(نور الہدیٰ کلاں)
دِل دا محرم کوئی نہ ملیا، جو ملیا سو غرضی ھُو
اسی طرز کے بہت سے اقوال حضرت سخی سلطان باھُو کی تمام کتب میں ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ امانتِ فقر منتقل کیے بغیر ہی اس دنیا سے تشریف لے گئے۔لہٰذا وہ تمام جو حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے بعد سلسلہ سروری قادری کو خود سے منسوب کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں جھوٹے اور کذاب ہیں کیونکہ سلسلہ قادری کا طالب و مرشد کبھی دعویٰ نہیں کرتے نہ ہی خودنمائی کرتے ہوئے دنیا کو اپنے مقام و مرتبہ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ اسی بات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جھوٹے دعویداروں نے میدان کو خالی سمجھا اور خود کو سلسلہ سروری قادری کا وارث قرار دینے لگے ۔ ظاہر پرست دنیا کے سامنے ظاہری جعلی سلسلہ سروری قادری رہا لیکن حقیقی سلسلہ سروری قادری پس پردہ اپنی پوری آن بان سے جاری و ساری رہا البتہ اس تک رسائی صرف سچے اور چنے ہوئے طالبانِ مولیٰ کی رہی کہ حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے امانتِ فقر اپنے وصال کے تقریباً 139سال بعد سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد فرمائی جیسا کہ سلسلہ سروری قادری کے ستائیسویں شیخِ کامل اور حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محرم راز اور روحانی وارث سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ پیر سیّد محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہکی شان میں لکھی گئی منقبت میں فرماتے ہیں:
اللہ محمدؐ پیر نوازیا، یا غوثِ اعظم جیلانیؓ
واہ حضرت سلطان باھُوؒ ، تینوں کیتی مہربانی
پیر عبد اللہ شاہ معظم آل رسولؐ نشانی
ایک اور منقبت میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
نور اللہ کر آیا تجلٰی جوڑ شکل شاھانی
پیر عبد اللہ شاہؒ گل کِھڑیا، باغوں شاہِ جیلانیؓ
اس طویل منقبت کے علاوہ بھی سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے جتنی بھی منقبتیں پیر عبد اللہ شاہؒ کی شان میں لکھیں ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی سلسلہ سروری قادری کے حقیقی شیخ اور امانتِ الٰہیہ کے وارث ہیں۔ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی اولاد پاک ہیں اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے مرشد حضرت شیخ سیّد عبد الرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے پڑپوتے بھی ہیں۔ حقیقی سلسلہ سروری قادری کے خاص طالبانِ مولیٰ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو امانتِ فقر منتقل ہونے کے روحانی واقعہ سے بھی بخوبی واقف ہیں جس کا ذکر اگلے صفحات میں آئے گا۔ یہ واقعہ نسل در نسل طالبانِ مولیٰ میں منتقل ہوتا آیا ہے اور اسی طرح وہ تمام منقبتیں بھی سلسلہ سروری قادری کے حلقہ میں پڑھی جاتی رہی ہیں جن سے حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے وارث ہونے کے واضح ثبوت ملتے ہیں البتہ انہیں ایک جگہ جمع کرکے شائع کروانے کا سہرہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے مقدس سر پر ہے۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے وراثتِ فقرسلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل ہوئی اور انہوں نے اس امانت کو اپنے طالبِ کامل اور محبوبِ خاص شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے حوالہ کیا ۔ حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے امانتِ فقر ملنے کا تذکرہ ایک طویل منقبت میں ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
حمد الٰہی ہر دم ہووے شامل جاودانی
لا محدود درود نبیؐ نوں ہر ویلے ورد زبانی
آل اصحاب رسول اﷲ تے ہے رحمت رحمانی
حضرت پیر پیارا رب دا مظہر فیض ربانی
منور سارا عالم نوروں شمس صحیح فیضانی
سلطان الفقر فیاض دو عالم ہو محبوب سبحانیؒ
علمِ جمال اعلیٰ فرمایوس فیض باھُو سلطانیؒ
تریاق مزار حضور انور دا زہر ونجے نفسانی
حمد الٰہی ہووے ہر دم شامل جاودانی
سلطان سخی عبداﷲ شاہؒ دی واہ واہ فیض رسانی
(یہ تمام منقبتیں مکمل طور پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تصنیفِ مبارکہ ’’کلام مشائخ سروری قادری‘‘ سے پڑھی جا سکتی ہیں)
اس منقبت کا یہ مصرعہ
تریاق مزار حضور انور دا زہر ونجے نفسانی
یعنی ’’سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار انور سے حاصل ہونے والا فیض تریاق بن کر نفس کے زہر کوختم کر دیتا ہے‘‘
اس حقیقت کا غماز ہے کہ شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ بھی سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار انور پر حاضری دیتے اور ان سے فیض حاصل کرتے رہے۔ حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمد بہادر شاہ رحمتہ اللہ علیہ سے امانتِ فقر سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل ہوئی جس کا سلسلہ نسب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے آٹھویں پشت پر جا ملتا ہے۔ سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ یہی وہ مبارک ہستی ہیں جن کی صورت میں امانتِ فقر ایک بار دوبارہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے خاندان میں لوٹ آئی تاکہ وہ سلطان الفقر پنجم سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کا خزانۂ فقر سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد کریں جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد پاک بھی ہیں اور روحانی وارث بھی چنانچہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ تک امانتِ فقر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ، سلطان الصابرین حضرت سخی سلطان پیر محمد عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ، شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمدبہادر شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ سے ہوتی ہوئی پہنچی۔ یہ تمام سروری قادری مشائخ طالبانِ مولیٰ کو بیعت کرتے وقت جو سلسلہ عالیہ پڑھتے رہے ہیں ان میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کے بعد سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا نام مبارک آتا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ ہی سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کے حقیقی وارثِ فقر ہیں۔ سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کا سلسلہ سروری قادری کی صحیح ترتیب کے متعلق فرمان مبارکہ ہے:
* سلسلہ سروری قادری ہی حقیقی قادری سلسلہ ہے جس میں اب تک پیر دستگیر سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کا فیض جاری ہے اور چونکہ سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ہیں اس لیے سلسلہ سروری قادری بھی قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر اور اسی طریق پر ہے۔ اسی لیے جب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو امانت کے لیے کوئی محرمِ راز نہ ملا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو منتخب کر کے بھجوایا۔ جب سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو کوئی محرمِ راز نہ ملا تو پیر عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منتخب کر کے ان کے پاس بھیجا۔ پیر عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے محرمِ راز پیر سیّد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، پیرانِ پیر سیّدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ اور خصوصاً سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے منتخب شدہ تھے۔ اسی طرح میرے حضور (سلطان عبد العزیزؒ ) کی ولادت ازلی انتخاب تھا اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے خود مزار مبارک سے نکل کر پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک پر بیعت کروایا۔ اس لیے جو حقیقی سروری قادری مشائخ اور سلسلہ سروری قادری کا منکر ہے وہ مردار دنیا کا طالب ہے اور مردار دنیا ہی اس کی پناہ گاہ ہے اللہ تعالیٰ نہیں۔
سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیرحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے جب مسندِ تلقین و ارشاد سنبھالی تو طالبانِ مولیٰ کی اللہ تک رہنمائی کے ساتھ ساتھ انہیں مجلسِ محمدی سے یہ ذمہ داری بھی سونپی گئی کہ مسخ شدہ سلسلہ سروری قادری کی صحیح ترتیب سے دنیا بھر کو آگاہ کیا جائے تاکہ جھوٹے مدعیان کا قلع قمع ہو سکے اور سچے طالبانِ مولیٰ اپنے حقیقی بزرگان اور امانتِ الٰہیہ و فقر کے ورثا کو جان سکیں جو ان کے لیے فیض کا منبع ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ ضروری تھا کہ دنیا کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کے حقیقی وارث یعنی سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں آگاہ کیا جائے کیونکہ سلسلہ سروری قادری کی ترتیب سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کے بعد سے ہی مسخ کی گئی ہے۔ اس ذمہ داری کو احسن ترین طریقے سے نبھاتے ہوئے آپ مدظلہ الاقدس نے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنے والے تمام سروری قادری مشائخ کی سوانحِ حیات ، تعلیمات ، کرامات ، کلام ، القاب وغیرہ پر خوب تحقیق فرمائی اور سات سال کی عرق ریزی اور شدید محنت کے بعد اس تحقیق کو اپنی مبارک تصنیف ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ کی صورت میں جنوری2013ء میں شائع کروایا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ اور ان کے بعد آنے والے تمام مشائخ کے متعلق جو تحقیقی معلومات ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ میں موجود ہیں وہ کسی اور کتاب میں موجود نہیں اور نہ ہی ان کی صداقت کو کسی طرح بھی چیلنج کیا جا سکتا ہے کیونکہ تمام حقائق کے ساتھ ساتھ ان ذرائع کے حوالہ جات بھی موجود ہیں جہاں سے انہیں حاصل کیا گیا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے صرف ’’مجتبیٰ آخر زمانی‘‘ کے اُردو ایڈیشن پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ دنیا بھر کو سلسلہ سروری قادری کی صحیح ترتیب اور مشائخ سروری قادری کی روشن حیات سے روشناس کروانے کے لیے اس اہم تاریخی و روحانی کتاب کا انگریزی میں بھی ترجمہ کروایا ۔ چنانچہ دسمبر2015ء کو مجتبیٰ آخر زمانی کا انگریزی ترجمہ The Spiritual Guides of Sarwari Qadri Orderکے نام سے شائع ہوا۔ مزید برآں دنیا بھر کو سلسلہ سروری قادری کی حقیقت ، شان ، اہمیت اور صحیح ترتیب سے آگاہ کرنے کے لیے آپ مدظلہ الاقدس نے سوشل میڈیا(Social Media)اور ملٹی میڈیا(Multimedia ) کے ذرائع سے بھی بھرپور استفادہ کیا اور ویب سائٹس ، تقاریر و بیانات اور منقبتوں کی آڈیو اور ویڈیو کے ذریعے اسے عام کیا۔
روحانی سلاسل کی تاریخ میں آپ مدظلہ الاقدس کی یہ ایک انتہائی قابلِ قدر خدمت ہے کیونکہ ایک سلسلہ کا مسخ ہو جانا اس سلسلے کے پیروکاروں کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا ہے، وہ اس سلسلے کے حقیقی اور کامل مشائخ کو نہ پہچاننے کے باعث ان سے دور ہو جاتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ وہ ان کے فیض سے محروم رہتے ہیں بلکہ جعلی پیروں کے ہتھے چڑھ کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’جن لوگوں کا واسطہ تصوف کے بُرے لوگوں سے پڑتا ہے وہ تصوف کے اچھے لوگوں سے بھی دور ہو جاتے ہیں۔‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے جس وقت تلقین و ارشاد کی مسند سنبھالی تو جعلی پیروں کے کردار کی وجہ سے امت مسلمہ اور خاص کر نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ تصوف کی اچھی اور حقیقی شخصیات سے دور ہو کر خارجی و رافضی عقائد اختیار کر چکا تھا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ کی اصلاح کے لیے فقر کے حقیقی لوگوں کو ظاہر کرنے کا بیڑا اٹھایا اس سلسلہ میںآپ مدظلہ الاقدس نے خصوصاً سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی حیات مبارکہ پر ایک علیحدہ کتاب بھی شائع فرمائی تاکہ ان کے معتقدین ان کے متعلق ہر پہلو تفصیل سے جان سکیں۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ تمام عمر دنیا اور دنیا والوں سے دور رہے ۔ ان کے مقام و مرتبہ سے نہ ان کی حیات میں ان کے مریدین کے علاوہ زیادہ لوگ واقف تھے نہ ہی ان کے بعد لوگ ان کے بارے میں آگاہ ہو سکے کیونکہ آپ کا مزار پاک بھی دنیا کی نظر سے اوجھل ہی رہا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا لقب سلطان التارکین اسی لیے ہے کیونکہ آپؒ نے اپنی حیات مبارکہ میں بھی دنیا کو ترک کیے رکھا اور وصال کے بعد بھی دنیا کی نگاہ سے اوجھل رہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی مبارک تصنیف ’’مجتبیٰ آخر زمانی ‘‘ سے سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی سوانحِ حیات کے متعلق چند اقتباسات پیش کیے جارہے ہیں تاکہ ان کے بارے میں اہم معلومات حاصل کی جاسکیں۔
ولادت و حسب نسب
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ 29 رمضان المبارک 1186ھ (24 دسمبر 1772ء) جمعتہ المبارک کی شب مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور نواب بہاول خان سوئم کے دور میں 29 رمضان المبارک 1241ھ (6 مئی 1826ء) بروز ہفتہ احمد پور شرقیہ بہاولپور تشریف لائے۔ آپؒ سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلوی ؒ کے پڑپوتے ہیں۔ آپؒ کا شجرہ نسب غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ سے اس طرح ملتا ہے:
سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ بن سیّد عبدالرحیم ؒ بن سیّد عبدالعزیز ؒ بن سیّد عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ بن سیّد عبدالقادر بن سیّد شرف الدین بن سیّد احمد بن سیّد علاؤ الدین ثانی بن سیّد شہاب الدین ثانی بن سیّد شرف الدین قاسم بن سیّد محی الدین یحییٰ بن سیّد بدر الدین حسین بن علاؤ الدین بن شمس الدین بن سیف الدین یحییٰ بن ظہیر الدین مسعود بن ابی نصر محمد بن ابو صالح نصر بن سیّدنا عبدالرزاق جیلانی رحمتہ اللہ علیہ بن غوث الاعظم سیّدنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ سیّدہ مومنہ امام سیّد محمد تقی علیہ السلام کی اولاد پاک میں سے تھیں اس لیے آپ ؒ والدہ محترمہ کی طرف سے حسینی سیّد ہیں۔
* نانا سیّد زکی الدین نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کا نام اپنے والد کے نام پر عبداللہ رکھا۔ بچپن سے ہی نورِ حق پیشانی میں درخشاں تھا۔ جو بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھتا دیوانہ ہوجاتا ۔(صفحہ190)
* دل کی بے چینی اور بے سکونی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ دل زندگی سے مکمل اچاٹ ہو چکا تھا۔ جیسے ہی بے چینی اور بے سکونی بڑھتی فوراً عبادت اور تلاوتِ قرآن شروع کر دیتے تھے لیکن جیسے ہی فارغ ہوتے وہی حالت پھر طاری ہوجاتی۔ آہستہ آہستہ یہ دیوانگی بڑھتی جارہی تھی، ایسا لگتا تھا کہ سکون دینے والی چیز کوئی اور ہی ہے جس کی تلاش میں آپ رحمتہ اللہ علیہ آگ برساتے سورج میں دیوانوں کی طرح دوڑتے پھرتے۔ پیدل مدینہ سے مکہ پہنچ جاتے‘ خانہ کعبہ میں معتکف ہوجاتے‘ دن رات دیوانہ وار طواف کرتے‘ خانہ کعبہ کی دیواروں کے ساتھ گریہ زاری کرتے اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے۔ کبھی ہفتوں غارِ حرا اور کبھی غارِ ثور میں بھوکے پیاسے معتکف رہتے، گزارہ گھاس پھونس پر ہوتا ۔جب آپ ؒ کی حالت زیادہ خراب ہوجاتی تو اللہ تعالیٰ مدد کے لیے کسی نہ کسی کوبھیج دیتا وہ آپ ؒ کو کھانا کھلاتا اور پانی پلاتا۔ اسی حالت میں 9 سال گزرگئے۔ شعبان کے مہینہ میں ایک دن آپ ؒ جنت البقیع کے پاس کھڑے روضۂ رسول ؐ کو عالمِ عشق و دیوانگی میں دیکھ رہے تھے کہ پیچھے سے ایک شخص نے آپ ؒ کے دائیں کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا’’ کیسے ہو عبداللہ؟‘‘
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا’’ تم کون ہو؟‘‘
اس نے جواب دیا’’ میں خضر ہوں! راہ دکھاتا ہوں۔‘‘
آپ ؒ نے فرمایا ’’مجھے کیا راہ دکھاؤ گے؟‘‘
حضرت خضر ؑ نے جواب دیا ’’اپنے نانا سے وراثت طلب کرو۔‘‘
سیّد محمد عبداللہ شاہ ؒ نے حیرانی سے جواب دیا ’’میرے نانا کا وصال ہوچکا ہے۔ میرے نانا اور والد کی وراثت میرے ماموں کے پاس ہے اور مجھے اس سے کوئی غرض بھی نہیں ہے۔ ‘‘
حضرت خضر ؑ نے روضۂ رسول ؐ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ’’میں آپ کے نانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اُن کی وراثتِ فقر کی بات کر رہا ہوں۔‘‘
حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا ’’ جا کر نانا کے قدموں میں بیٹھ جاؤ اور جب تک وراثتِ فقر عطا نہ کریں مسجد نبوی سے باہر نہ نکلنا خواہ موت آجائے۔‘‘ یہ کہہ کر خضر ؑ غائب ہوگئے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ 40 سال کی عمر میں 27 شعبان 1226ھ (15 ستمبر 1811ء) اتوار کے دِن مسجد نبوی میں وراثتِ فقر کا سوال لے کر بیٹھ گئے اور مسجد نبوی ؐ کی خدمت شروع فرما دی۔ نہ تو آپ رحمتہ اللہ علیہکسی سے کوئی غرض رکھتے اور نہ سوال کرتے چپ چاپ اپنے کام میں مگن وراثتِ فقر کی التجا کرتے رہتے۔ یہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بے قراری کو قرار بھی آگیا اور دل کو سکون بھی مل گیا تھا۔ عرصہ چھ سال کی خدمت اور غلامی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں دیدار کی نعمت عطا کی اور پوچھا! تو اس خدمت کے بدلے میں کیا چاہتا ہے؟ سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی حضور ؐ جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے۔ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ فقر کے لیے تجھے ہند سلطان العارفین سخی سلطان باھُو کے پاس جانا ہوگا۔‘‘
جب سیّد محمد عبداللہ شاہ ؒ خواب سے بیدار ہوئے تو بہت حیران اور پریشان ہوئے کہ رشد و ہدایت کا منبع تو آپ ؐ خود ہیں پھر مجھے سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کیوں بھیجا جارہا ہے؟ لہٰذا دوبارہ خدمت اور غلامی کا سلسلہ شروع فرما دیا۔ مزید چھ سال کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیدار سے مستفید فرمایا اور پھر پوچھا کہ اس خدمت کے بدلہ میں کیا چاہتے ہو؟ تو آپ ؒ ے پھر عرض کیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ تجھے فقر سخی سلطان باھُو سے ہی ملے گا۔ اس مرتبہ سیّد محمد عبداللہ شاہ نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں تو اُس علاقے کی زبان‘ رسم رواج‘ رہن سہن اور کھانے پینے تک سے ناواقف ہوں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم تجھے اپنے محبوب شیخ عبدالقادر جیلانیؓ کے سپرد کرتے ہیں تمہاری تربیت کرنا اور وہاں تک پہنچانا اب اُن کی ذمہ داری ہے آپ رحمتہ اللہ علیہ خواب سے بیدار ہوئے اور اپنے 12 سالہ قیام کے بعد 23 رمضان المبارک 1238ھ (2 جون 1823ء) سوموار کے دِن مسجد نبوی ؐ سے باہر تشریف لائے۔
سفرِ حق
مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے باہر آکر29 رمضان المبارک تک محنت مزدوری کر کے آپ رحمتہ اللہ علیہنے کچھ رقم جمع کی اور ایک گھوڑا خریدا۔ 29 رمضان المبارک 1238ھ (8 جون 1823ء) بروز اتوار جب لوگ مدینہ شریف میں عید کی تیاریوں میں مصروف تھے آپ رحمتہ اللہ علیہ گھوڑے پر سوار ہو کر بغداد شریف روانہ ہوگئے۔
28 شوال 1238ھ (7 جولائی 1823ء) بروز سوموار آپ رحمتہ اللہ علیہ غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھتے ہی غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ تو نہ صرف ہمارا حسبی نسبی بلکہ نوری حضوری فرزند بھی ہے اور پھر تقریباً دو سال تک پیرانِ پیر حضرت غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی تربیت فرمائی اور پھر باطنی طور پر اپنے فرزند حضرت شیخ سیّد عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ کا فرزند ہے اور آگے پہنچانا اب آپؒ کی ذمہ داری ہے اور سیّد عبد اللہ شاہ سے فرمایا کہ سروری قادری سلسلہ کے ہر شیخ سے ترتیب سے ملتے ہوئے ہمارے محبوب حضرت سخی سلطان باھُو کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ وہی تمہاری منزل ہے اور وہیں سے تمہیں فقر ملے گا اور امانتِ الٰہیہ منتقل ہوگی۔ چنانچہ سیّد محمد عبداللہ شاہ ؒ نے سیّد عبدالرزاق رحمتہ اللہ علیہ سے باطنی فیض کے حصول کے بعد 11 جمادی الثانی 1240ھ (30 جنوری 1825ء) بروز اتوارکو اسی ترتیب سے سفر کا آغاز کیا۔
حضرت سیّد عبدالجباررحمتہ اللہ علیہ ‘حضرت سیّد محمد صادق یحییٰ رحمتہ اللہ علیہ‘ حضرت سیّد نجم الدین برہان پوری رحمتہ اللہ علیہ‘ حضرت شیخ سیّد عبد الفتاح رحمتہ اللہ علیہ‘ حضرت شیخ سیّد عبدالستاررحمتہ اللہ علیہ‘حضرت شیخ سیّد عبدالبقاء رحمتہ اللہ علیہ‘ حضرت شیخ سیّد عبدالجلیل رحمتہ اللہ علیہ اور اپنے جد حضرت شیخ سیّد عبدالرحمن دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سے باطنی ملاقات اور فیض کے حصول کے بعد 12 ربیع الاول 1241ھ (24 اکتوبر 1825ء) سوموار کے دِن سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ اقدس پر حاضر ہوئے اور دیکھا کہ آپؒ مزار سے باہر تشریف فرما ہیں اور انتظار میں ہیں۔ دیکھتے ہی فرمایا ’’آئیے عبداللہ شاہ صاحب ہم تو آپ ہی کا انتظار کر رہے ہیں۔‘‘ سلسلہ کے ہر شیخ سے ملاقات کے بعد سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ پر رازِ پنہاں ظاہر ہوچکا تھا۔ جب سیّد محمدعبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کی صورت مبارک کا دیدار کیا اور جلوۂ حق دیکھا تو دیوانہ وار مجذوبیت میں سلطان العارفینرحمتہ اللہ علیہ کے گرد چکر لگانا شروع کر دیئے۔ اس پر سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے آپ ؒ کو بیٹھنے کو کہا لیکن آپ رحمتہ اللہ علیہ بے خودی اور مستی میں چکر لگاتے رہے۔ آخر حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے ان کے دونوں گھٹنوں پر اپنے دستِ مبارک زور سے مارے جس سے سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ بیٹھ گئے۔ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے ان دستِ مبارک کے نشانات ساری عمر نہ صرف ان کے گھٹنوں پر موجود رہے بلکہ ان کی اولاد کے گھٹنوں پر بھی۔ ان کی اولاد ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ اُن کے دونوں گھٹنوں پر سلطان العارفینرحمتہ اللہ علیہ کے دستِ مبارک کے نشانات دیکھ لیے جائیں،گھٹنوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں۔
منتقلی امانتِ الٰہیہ۔ امانتِ فقر
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے امانتِ فقر‘ امانتِ الٰہیہ سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل فرمائی اور امانتِ الٰہیہ کا سلسلہ جہاں پر رکا تھا وہیں سے تقریباً139سال بعد دوبارہ شروع ہوگیا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے چھ ماہ تک سیّد محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی باطنی تربیت فرمائی اور پھر شورکوٹ میں نکاح کا حکم فرمایا اور حکم دیا کہ نکاح کے بعد اپنی زوجہ کے ساتھ ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ چلے جائیں اور اپنے آپ کو مخفی و پوشیدہ رکھیں، طالبانِ مولیٰ خودبخود آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس پہنچ جائیں گے۔ آپ ؒ طالبانِ مولیٰ کو اسمِ اللہ ذات کا فیض عطا فرمائیں۔
آپؒ دربار حضرت سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ سے روانہ ہو کر شورکوٹ پہنچے اور وہاں حسبِ حکم نکاح فرمایا اور ریاست بہاولپور تشریف لے گئے۔
احمدپور شرقیہ (ریاست بہاولپور) آمد
سیّد محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نواب بہاول خان سوئم مرحوم و مغفور کے عہد میں 29 رمضان المبارک 1241ھ (6 مئی 1826ء) بروز ہفتہ ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ تشریف لائے اور جہاں آج آپ ؒ کے مزار مبارک کے ساتھ مسجد ہے، وہاں ٹیلہ پر قیام فرمایا۔ نواب صاحب کو معلوم ہوا تو شرفِ زیارت کے لیے حاضر ہوئے اور آپ کی مجلس اور صحبت سے فیض یاب ہو کر آپ ؒ کی رہائش کے لیے مکان اور درویشوں کی رہائش کے لیے حجرے تعمیر کرائے اور خانقاہ‘ درویشوں اور زائرین کے لنگر‘ خوراک اور دیگر تمام اخراجات اپنے ذمہ لے لیے۔جب بھی نواب صاحب کو کوئی مشکل پیش آتی بصد ادب و نیاز اور دست بستہ طالبِ دعا ہوتے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی دعا سے اُن کی پریشانی اور مشکلات کا خاتمہ ہو جاتا۔(مجتبیٰ آخر زمانی صفحہ194-198)
حلیہ اور لباس مبارک
ملفوظات پیر محمد عبدالغفورشاہ رحمتہ اللہ علیہ میں پیر عبدالحق رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں ’’ آپؒ بالکل سادہ مزاج تھے اور سادہ لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ پیراہن وکلاہ پاجامہ شرعی اکثر آپ ؒ کا لباس ہوتا تھا۔ آپ ؒ نے سبز‘ نیلی اور سفید دستار استعمال فرمائی ہے۔ سفید دستار کا دو تین ہاتھ شملہ اوپر نکلا ہوتا تھا۔ ‘‘
خوشی یا عید وغیرہ کے موقع پر تہمد اور کرتہ زیبِ تن فرمایا کرتے تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نہایت ہی حسین اور حسن و جمال میں بے نظیر تھے بلکہ احسن الصورت ‘چہرہ فراخ‘ نورانی اور درخشاں معلوم ہوتا تھا اور کشادہ پیشانی تھے چشمان مبارک بہت موٹی تھیں۔ اکثر مراقبہ میں مشغول رہتے تھے اور کمالِ استغراق کی وجہ سے آنکھوں میں سرخی معلوم ہوتی تھی۔ آپؒ کا بینی (ناک)مبارک بلند تھا۔ سر کے بال کانوں تک رکھتے تھے۔ ریش مبارک بالکل سفید، منور، گھنی، طول و عرض میں نہایت خوشنما تھی، قد درمیانہ تھا۔ جولوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت عالیہ میں خواہ کسی غرض سے حاضر ہوتے تھے وہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دیدار مبارک میں ایسے بے خود ہو جاتے تھے کہ اُن کو گھربار اور سب کام بھول جاتا تھا۔ حتیٰ کہ جو لڑکے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمتِ عالیہ میں اگر کسی وقت حاضر ہو جاتے تھے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دیدار میں محو ہو جاتے تھے اور اُن کو کھیلنا کودنا بھول جاتا تھا۔پیرعبدالحق رحمتہ اللہ علیہ اپنے والد پیر محمد عبد الغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ’’ ظاہری صورت میں حسین اور حسن و جمال میں بے مثال اپنے پیر صاحب حضرت پیر سیّد عبداللہ شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے برابر ہم نے اپنی تمام عمر میں کوئی آدمی نہیں دیکھا اور ان کی خوش اخلاقی کمال درجہ کی تھی۔‘‘(صفحہ201-200)
* آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ایک طالبِ خاص حاجی محمد بخش نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں عرض کی کہ بعدِ وصال حضور شاہ صاحب ؒ اپنا مزار مبارک تعمیر کرانے کی اُسے اجازت عنایت فرمائیں۔ آپ ؒ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں مزار کی کوئی حاجت نہیں ہے۔ حاجی محمد بخش صاحب طالبِ صادق اور اہلِ محبت واردات تھے اس لیے اس انکار سے زار و قطار رو کر کہنے لگے کہ ظاہر (زندگی) میں بھی آپ ؒ نے اپنے آپ کو شہرۂ عالم سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے اور بعد وصال بھی چاہتے ہیں کہ جہان میں نام و نشان تک چُھپا رہے۔ میرا تو یہ شوق ہے کہ حضور کا شاندار مزار مبارک بنوا کر نقش و نگار سے مزین کروں تاکہ زیارت گاہِ ہر خاص و عام ہو جیسا کہ دوسرے بزرگوں کے مزارات ہیں۔ آپ ؒ نے فرمایا کہ ابھی تعمیر کا حکم نہیں ہے یہ شہر ہمارے وصال کے بعد ویران ہو جائے گا اور عرصہ کثیر کے بعد آباد ہوگا اور ہمارا مزار وہی بنوائے گا جو ہماری مانند ہوگا۔ اور(بعد ازاں) اسی طرح ظہور پذیر ہوا۔ احمد پور شرقیہ ویران ہوا اور ویرانی کے بعد آپ ؒ کے خلیفہ اکبر اور امانتِ الٰہیہ کے وارث حضرت پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مزار مبارک کی تعمیر 1327ھ (1909ء) میں شروع فرمائی اور ایک سال کے اندر اندر اپنے وصال کے وقت 1328ھ (1910ء) میں مزار شریف کی تعمیر مکمل ہوئی۔ (صفحہ203)
وصال اور مزار مبارک
چھ ماہ علیل رہنے کے بعدسیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے 29 رمضان المبارک 1276ھ (20 اپریل 1860ء) بروز جمعتہ المبارک بعد نمازِ عصر وصال فرمایا اس وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کے محرمِ راز اور خلیفہ اکبر حضرت پیرمحمد عبدالغفور شاہ رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کی صحت یابی کی دعا کے لیے تشریف لے گئے تھے۔29 رمضان المبارک کے دن کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اسی دن ولادت اور اسی دِن وصال ہوا‘ اسی دِن مدینہ سے بغداد شریف روانہ ہوئے اور اِسی دن احمد پور شرقیہ بہاولپور تشریف لائے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہکو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی حویلی میں ہی دفن کیا گیا۔ پہلے آپ رحمتہ اللہ علیہکی تربت مبارک کچی تھی اور اس پر آپ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ حاجی محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مٹی اور گارے کا کمرہ تعمیر کرایا۔ پھر پیر محمد عبدالغفور شاہ ؒ نے اپنے وصال سے ایک سال قبل 1327ھ (1909ء) میں آپ رحمتہ اللہ علیہکا مزار مبارک اور ساتھ ایک مسجد کی تعمیر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو ؒ کے مزار اور مسجد کی طرز پر شروع کرائی اور جب صفر 1328ھ (فروری 1910ء) میں مزار اور مسجد مبارک مکمل ہوئی تو بالکل سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کا عکس معلوم ہوتا تھا۔ مزارمیں قدیم طرز پر کاشی کاری اور ٹائل پر سونے کے پانی کا کام ہوا تھا جبکہ سنگِ مرمر کا ایک بہت بڑا اور خوبصورت اور نایاب دروازہ اس وقت ریاست بہاولپور کے نواب صادق محمد خان پنجم کی بیگم نے ہدیہ کیا تھا۔1999 ء میں دربار اور مسجد کو سیم کی وجہ سے خراب ہونے پر شہید کر دیا گیا اور 2000 ء سے 2002 ء کے عرصہ کے دوران مزار کے اوپر ایک سادہ کمرہ تعمیر کیا گیا جس کا صرف ایک مینار تھا اور ساتھ چھوٹی سی مسجد تعمیر کی گئی۔(صفحہ209-210)
(سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہکی تفصیلی سوانحِ حیات کے لیے ’’مجتبیٰ آخر زمانی ‘‘باب دوم کا مطالعہ فرمائیں)
ان اقتباسات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ سلطان العاشقین حضر ت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے ان معلومات کے حصول کے لیے کس قدر تحقیق فرمائی ہے۔
سلسلہ سروری قادری میں تمام مشائخ کی یہ ترتیب رہی ہے کہ ان کے لیے مجلسِ محمدی سے فقر کا ایک مرکز مقرر کر دیا جاتا ہے جہاں سے انہیں اور ان کی جماعت کو فیضِ فقر جاری کیا جاتا ہے۔وہ مرکز سروری قادری سلسلہ کے ہی شیخ کا مزار مبارک ہوتا ہے فیضِ فقر کا اصل منبع تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی ہیں لیکن وہ ہر زمانے کے سروری قادری شیخ کے لیے اس کے وطن میں ہی فیض کا ایک مرکز مقرر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے ظاہری باطنی مسائل کے حل اور فیضِ فقر کے حصول کے لیے جب چاہے اس مرکز کا رخ کر سکے۔جہاں فقر کا مرکز ہوتا ہے وہیں صاحبِ فقر جاتا ہے اسی مرکز سے دنیا بھر کے طالبانِ مولیٰ کے متعلق فیصلے صادر ہوتے ہیں، سروری قادری مرشد کامل اور ان کی جماعت کی راہ میں آنے والے ظاہری باطنی مسائل کو حل کیا جاتا ہے ، اللہ کی اس جماعت کے فروغ کے لیے مختلف نوعیت کی ڈیوٹیاں نافذ کی جاتی ہیں اور اسی نوع کے دیگر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ یہ مرکز مجلسِ محمدی کے فیصلے کے مطابق تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے۔سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے لیے فقر کا مرکز شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمدبہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک رہا۔ سلطان الاولیا حضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ اکثرشہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمدبہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر حاضری دیا کرتے تھے بلکہ راتوں کو قیام بھی فرماتے تھے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ جب بھی پیر بہادر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک پر تشریف لے جاتے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ارد گرد سائلین کے جمگھٹے لگ جاتے آپؒ سب کے لیے دعا فرماتے اور تمام سائلین اپنے من کی مرادیں پاتے۔ سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے بعد جب امانتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کو منتقل ہوئی تو آپ مدظلہ الاقدس کے لیے بھی فقر کا مرکز حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمدبہادر علی شاہ ؒ کا محل پاک ہی قرار دیا گیا۔ آپ مدظلہ الاقدس2011ء تک اپنے مریدین کے ہمراہ حضرت سخی سلطان سیّد پیر محمدبہادر علی شاہ ؒ کے محل پاک پر ہی حاضری دیتے رہے۔2011ء میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُورحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے آپ مدظلہ الاقدس کو سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک سے فیض کے سلسلہ کو دوبارہ سے جاری کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی کیونکہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے لوگوں کی طلبِ دنیا اور حبِ دنیا کی وجہ سے اپنے مزار سے فیض کا سلسلہ 1942ء سے بند کر رکھا تھا۔ جب لوگ مادہ پرست ہو جاتے ہیں اور روحانی فیض کی کسی کو طلب ہی نہیں رہتی تو ولئ کامل بھی اپنا روحانی فیض روک لیتا ہے۔
فقر کے مرکز کی دربار سیّد محمد بہادر علی شاہ ؒ سے
دربار سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ پر منتقلی
سلطان الاولیاحضرت سخی سلطان محمد عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ اور سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ کے بعد فقر کا مرکز شہبازِ عارفاں حضرت سخی سلطان سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی المشہدی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پاک سے بدل کر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزارِ اقدس بنانا اس لیے بہت ضروری تھا کیونکہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دور میں نظام کو بالکل بدل دیا جانا تھا۔ گزشتہ ادوار میں فقر کی تبلیغ کا طریقہ بھی مختلف تھا اور مرشد کامل کا اپنے مریدوں کی تربیت کا طریقہ بھی مختلف تھا۔ اس دور میں فقر کو بڑے پیمانے پر پھیلانے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور اسی کے لیے نیا نظام وضع کرنے کی ضرورت تھی چونکہ نظام کی تبدیلی ہمیشہ مدینہ سے ہوتی ہے اور حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ مدینہ سے ہی بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مکمل باطنی تربیت لے کر پاکستان (اس وقت ہندوستان) تشریف لائے تھے اس لیے نظام میں تبدیلی کی یہ خصوصیت صرف آپ رحمتہ اللہ علیہ ہی کے پاس تھی کیونکہ وقت آ چکا تھا جس میں سلسلہ سروری قادری سے نقلی، جعلی، جھوٹے مشائخ کا خاتمہ ہونا تھا اس لیے مرکز مشائخ سروری قادری میں اُس شخصیت کے پاس منتقل ہونا ضروری تھا جن سے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی امانتِ فقر کا دوبارہ اجرا ہوا۔ اسی لیے اب فقر کا مرکز سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار پاک بحکمِ آقائے فقر صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے بنا دیا گیا ہے۔
اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے ستمبر2011ء میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے پہلی بار پیر عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کا دورہ فرمایا اور اس کی خستہ حالی دیکھ کر آپ مدظلہ الاقدس کو بہت دکھ ہوا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے سب سے پہلے سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے محل پاک کی تعمیر مئی2012ء میں دوبارہ شروع کروائی۔ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک کی طرح چاروں مینار تعمیر کیے گئے اور ان پر رنگ و روغن کا کام کیا گیا اور کاشی کاری والی ٹائلیں لگائی گئیں۔ میناروں کے درمیان میں چاروں طرف گمٹیاں تعمیر کی گئیں اور اُن پر بھی کاشی کاری اور رنگ و روغن کا کام کیا گیا۔ صحن میں بھی ٹائلیں لگائی گئیں۔ تربت مبارک پر سنگِ مرمر لگایا گیا۔ اس طرح مزار مبارک کی تعمیر دوبارہ سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی طرح 30اگست 2012ء کو مکمل ہوئی۔ لاہور سے تعمیر کے کام کی نگرانی محمد اسد خان سروری قادری نے اور مقامی طور پر تعمیراتی کام کی مکمل نگرانی عبدالرزاق سروری قادری اور نعیم حسین سروری قادری (اوچ شریف) نے کی۔ رنگ و روغن اور کاشی کاری کا کام محمد ذاکر سروری قادری (پاک پتن) نے اور اُن کی معاونت عبدالقیوم سروری قادری (اوچ شریف) نے کی۔
مزار پاک کی تعمیر مکمل ہو جانے پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے2ستمبر2012ء کو مزار مبارک پر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا شاندار عرس منعقد فرمایا ۔ اس عرس پاک پر حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی شان میں منقبتیں پڑھی گئی اور ان کی حیات و تعلیمات اور اعلیٰ ترین روحانی مقام پر پر روشنی ڈالی گئی ۔ حاضرین کو آگاہ کیا گیا کہ سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے روحانی وارث اور ان کے بعد سلسلہ سروری قادری کے مرشد کامل ہیں۔ عرس پاک کے اختتام پر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلا نی رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں ان کے روحانی فیض کو دوبارہ جاری کرنے کی عرض کی حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے جو سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی تمام تر کاوشوں سے بہت راضی تھے، باطنی طور پر نہ صرف اپنے روحانی فیض کو دوبارہ جاری کرنے کی حامی بھر لی بلکہ یہ بھی فرمایا کہ چونکہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس نے ہی اس روحانی فیض کے احیا کے لیے تمام تر کوشش فرمائی ہیں اس لیے یہ فیض صرف ان کی ہی جماعت کے لیے مخصوص ہے۔
اس کے ساتھ ہی آپ مدظلہ الاقدس کی روحانی قوتوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا گیا جو روز بروز عروج کی جانب گامزن ہیں دنیا بھر سے طالبانِ مولیٰ آپ کی طرف کھنچے چلے آنے لگے ، آپ کو اس قدر قوت عطا کر دی گئی کہ آپ طالبانِ دنیا کو بھی نگاہ سے عشقِ حقیقی عطا کرکے ان کے دِل کی حالت بدل سکیں اور انہیں طالبِ مولیٰ بنا دیں، مجلسِ محمدی کے دروازے آپ کے خاص چنے ہوئے طالبوں کے لیے کھول دئیے گئے، آپ مدظلہ الاقدس کو اجازت دے دی گئی کہ آپ جس طالب کو چاہیں قوتِ وھم اور علمِ دعوت عطا کر دیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے ان قوتوں کو اللہ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کے لیے انتہائی بصیرت سے استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر سے طالبانِ مولیٰ خصوصاً نوجوان نسل کو منتخب کیا اور انہیں عشقِ حقیقی کی قوت اور اپنی نگاہِ کرم سے روحانی بلندی عطا کرکے اس لائق بنایا گیا کہ وہ فقر کی اشاعت کے لیے ڈیوٹیاں کر سکیں۔ آج آپ مدظلہ الاقدس کی جماعت زیادہ تر نوجوان نسل پر مشتمل ہے کیونکہ وہی ہمارا مستقبل ہیں۔ یہی نوجوان جو آج سے پہلے دنیاوی بیہودہ مشاغل میں مصروف تھے اور دین سے یکسر غافل تھے آج دینِ حق کے کاموں میں مصروف ہیں۔
2012ء کے بعد سے آپ مدظلہ الاقدس ہر سال پیر عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا عرس شاندار طریقے سے مناتے ہیں۔ ہر سال جیسے جیسے عرس کی شان میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے اسی طرح ہر سال آپ مدظلہ الاقدس کی قوتوں میں بھی مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جو ہر سال آپ کو اپنے گذشتہ اہداف کامیابی سے مکمل کرنے پر حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ اور مجلسِ محمدی کی طرف سے بطور انعام اور تحفہ عطا کیے جاتے ہیں۔
2012ء کے بعد آپ مدظلہ الاقدس نے فقر کو پھیلانے کے لیے اپنی جدو جہد کو بھی مزید تیز کردیا۔ اس مقصد کے لیے آپ نے جو لاتعداد اقدامات کیے ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
ز تحریک دعوتِ فقر جو جنوری2010ء میں قائم ہو چکی تھی ، کو مزید منظم کیا اور رجسٹرڈ کروایا۔
ز 2011سے قبل صرف ماہنامہ سلطان الفقر لاہور کے ذریعے فقر کی تبلیغ کی جارہی تھی۔2011ء کے بعد آپ مدظلہ الاقدس کی اپنی تصانیف بھی منظرِ عام پر آنے لگیں اور آپ نے اپنے مریدین پر بھی باطنی مہربانی کرکے ان سے کتابیں لکھوائیں۔
ز سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کی تمام کتب کا انگریزی اور اردو میں ترجمہ شروع کر وایا۔
ز انٹرنیٹ کے ذریعہ دنیا بھر میں فقر کو پھیلانے کے لیے یہ ویب سائٹس بنوائیں:
www.tehreekdawatefaqr.com
www.sultanulfaqr.com
www.sultan-bahoo.com
www.sultan-ul-arifeen.com
www.sultan-ul-ashiqeen.com
www.sultan-ul-faqr-publications.com
www.mahnama-sultan-ul-faqr-lahore.com
www.sultanulfaqrdigitalproductions.com
sultanulfaqr.tv(video)
ملک بھر میں تبلیغی دوروں کا آغاز فرمایا۔
ز دنیا بھر میں طالبانِ مولیٰ کو گھر بیٹھے آپ مدظلہ الاقدس نے اپنی روحانی قوت کی بنا پر علمِ دعوت عطا فرمایا جو اس دور سے پہلے صرف مردوں کو عطا کیا جاتا تھا اور لازمی تھا کہ کسی ولی کے مزا ر پر ہی جاکر پڑھا جائے۔
ز سوشل میڈیا پرآفیشل پیجز اور بلاگز( Official Pages and Blogs) کے ذریعے فقر کی تبلیغ کی جانے لگی۔
ز یوٹیوب(Youtube) اور ڈیلی موشن (Daily motion) پر ویڈیو چینل بنوائے جن پر نعتوں اور منقبتوں کی آڈیوز ، ویڈیوز اور محفلِ میلاد اور عرس پاک کی تقریبات کی ویڈیوز بنا کر نیٹ پر اپ لوڈ(Upload) کی جانے لگیں۔
ز وکی پیڈیا(Wikipedia)پر آرٹیکل(Articles) کے ذریعے فقر کی تعلیمات عام کی گئیں۔
لہٰذا 2012ء کے بعد سے پیر عبد اللہ شاہ صاحب ؒ کا مزار پاک فقر کا مرکز قرار دے دیا گیا اور اسی مقام سے صاحبِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی جماعت کے لیے فیصلے جاری ہونے لگے۔ ستمبر2012ء کے اس عرس پاک پر ہی آپ مدظلہ الاقدس کو مجلسِ محمدی سے ’’سلطان العاشقین‘‘ کے لقب سے بھی نوازا گیا، جسے اس وقت تو مخفی رکھا گیا لیکن مجتبیٰ آخر زمانی کے انگریزی ترجمہ’’The Spiritual Guides of Sarwari Qadri Order‘‘کی اشاعت سے قبل مترجم (Translator) مسز عنبرین مغیث سروری قادری صاحبہ کو اس لقب سے باطنی طور پر آگاہ کر دیا گیا تھا۔
ستمبر2012ء سے تاحال ہر سال سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس احمد پو ر شرقیہ میں سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا شاندار عرس پاک منعقدکرواتے ہیں جس کی شان میں ہر سال اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔عرس پاک کی تیاریاں کئی ماہ پہلے شروع کر دی جاتی ہیں۔ حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی تربت مبارک کے لیے خصوصی چادر اور تاج بنوایا جاتا ہے جن پر اسمِ اللہ ذات سنہری تاروں اور موتیوں سے مزین کرکے کندہ کروایا جاتا ہے۔ عرس مبارک میں شرکت کے لیے پاکستان بھر میں طالبانِ مولیٰ کو دعوت نامے بھیجے جاتے ہیں ۔ عرس مبارک کی تقریبات دو دن تک جاری رہتی ہیں ۔ عرس پاک سے ایک دِن قبل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی سربراہی میں لاہور سے مریدین و معتقدین کے قافلے احمدپور شرقیہ کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔اوچ شریف میں موجود تحریک دعوتِ فقر کی جماعت کے علاقائی صدر نعیم حسین سروری قادری احمد پور شرقیہ کی جماعت اور دیگر اراکین کے ہمراہ آپ مدظلہ الاقدس اور ساتھیوں کا شاندار استقبال کرتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی زیرِ پرستی بوقتِ مغرب محل پاک حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو عرقِ گلاب اور آبِ زم زم سے غسل دیا جاتا ہے ، خوشبو لگائی جاتی ہے اور پھر چادر پوشی اور تاج پوشی کی رسم ادا کی جاتی ہے اور اس کے بعد گلاب کے پھول کی پتیاں تربت مبارک پر نچھاور کی جاتی ہیں اس دوران مسلسل درود و سلام اور نعت و منقبت کی خوبصورت آوازیں فضا میں گونجتی رہتی ہیں اس موقع پر لاہور ، اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ کے علاوہ پاکستان بھر سے آئے ہوئے زائرین بھی بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ۔ اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ میں موجود تحریک دعوتِ فقر کی جماعت نے دربار پاک اور اس سے متصل علاقے کو دلہن کی طرح برقی قمقموں ،جھنڈیوں اور خوبصورت بینز اور فلیکسوں سے آراستہ کیا ہوتاہے اور ایک جشن کا سماں ہوتا ہے۔ لاہور اور پاکستان بھر سے جانے والے قافلوں اور سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی میزبانی کا شرف اوچ شریف میں مقیم نعیم حسین سروری قادری ان کے والد محترم عبد الرزاق سروری قادری، بھائی محمد راشد سروری قادری اور محمد امین سروری قادری مرحوم کے بیٹوں تصور حسین سروری قادری، تنزیل الرحمن سروری قادر ی اور عتیق الرحمن سروری قادری کو حاصل ہوتا ہے جو تمام ساتھیوں کی رہائش اور خوردونوش کے انتظامات انتہائی احسن طریقے سے کرتے ہیں۔ دوسرے دِن علی الاصبح پاکستان بھر سے مزید مریدین و معتقدین کی کثیر تعداد قافلوں کی صورت میں دربار پاک پر پہنچنا شروع ہو جاتی ہے ۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی آمد پر درود و سلام پڑھا جاتا ہے آپ مدظلہ الاقدس کے محل پاک پر حاضری دینے کے بعد سٹیج پر تشریف فرما ہوتے ہی عرس پاک کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ کلام پاک سے شروع کیا جاتا ہے ۔ تقاریر و بیانات اور منقبتوں کے ذریعے پیر عبد اللہ شاہ مدنی جیلانیکی شان سے حاضرینِ محفل کو آگاہ کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی راہِ فقرِ محمدی کی حقیقت بیان کرکے لوگوں کو اس راہ پر چلنے کی دعوت دی جاتی ہے اس موقع پر شاندار اور وسیع لنگر کا اہتمام کیا جاتا ہے جو ہر خاص و عام کے لیے ہوتا ہے ۔ اس عظیم الشان لنگر کا اہتمام ابتدائی سالوں میں تحریک دعوتِ فقر کے مرکزی اور علاقائی ساتھی مل کر کرتے رہے اور سال 2016ء سے اس لنگر پاک کی تمام ذمہ داری اوچ شریف سے تحریک دعوتِ فقر کے سرپرست حاجی محمد طارق سروری قادری نے مرشد پاک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے عرض کرکے اپنے ذمہ لے لی۔عرس کے بعد طالبانِ مولیٰ کی ایک بڑی تعداد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے دستِ اقدس پر بیعت کی سعادت حاصل کرتی ہے مریدین و زائرین اپنی مشکلات کے حل کے لیے آپ مدظلہ الاقدس سے دعائیں کرواتے ہیں سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے عرس پاک کی برکت سے تمام زائرین کی دعائیں قبول اور مشکلات حل ہوتی ہیں ۔ عرس پاک کے اگلے دِن سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ میں مقیم خاص ساتھیوں کی دعوت پر ان کے گھر تشریف لے جاتے ہیں اور ان کے لیے دعا فرماتے ہیں۔
آپ مدظلہ الاقدس کی مرید خواتین بھی لاہور میں آپ مدظلہ الاقدس کی رہائش گاہ پر باجی صاحبہ کی زیرِ صدارت سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی کا عرس اسی دِن نہایت جوش و خروش اور عقیدت و احترام سے مناتی ہیں ۔ یوں روحانی طور پر ان کی حاضری بھی محفل عرس پاک میں ہو جاتی ہے۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پاک پر لنگر شریف جاری و ساری رہے اس سلسلہ میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے تحریک دعوتِ فقر احمد پور شرقیہ اور اوچ شریف کے ممبران کو ہر ماہ گیارہویں شریف کے انعقاد کا حکم فرمایا جو یہ ممبران انتہائی جوش و جذبہ سے اکتوبر 2013ء سے تاحال باقاعدگی سے محل پاک کے صحن میں منعقد کررہے ہیں۔ اس مبارک محفل میں سیّدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؓ، سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ اور سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ کی حیات و تعلیمات اور شان سے عوام الناس کو آگاہی دی جاتی ہے۔ اس محفل میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہوتی ہے اور لنگر پاک کا بھی خصوصی انتظام کیا جاتا ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس عرس کے علاوہ بھی محل پاک پر حاضری دیتے رہتے ہیں اور مزار کے انتظامات میں خصوصی دلچسپی لیتے ہیں ۔ اس سال 2017ء میں بھی 14-15 اکتوبر کو سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا عظیم الشان عرس مبارک منعقد کیا جا رہا ہے۔سیّد محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار بارک وہ مقدس جگہ ہے جہاں تمام ظاہری و باطنی مسائل و مشکلات سے متعلق دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ جب سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس مزار پاک پر موجود ہوتے ہیں تب تو فیض کی کوئی انتہا نہیں رہتی۔ ہر خاص و عام کو شرکت کی دعوت ہے۔