منافقت ۔ قربِ الٰہی سے دوری کا سبب
منافق نفق سے ماخوذ ہے۔ نفق کا مطلب سرنگ یا بِل ہے۔ منافق کو ’’نافق الیربوع‘‘ سے تشبیہ دی جاتی ہے ’’یربوع‘‘جنگلی چوہے کی ایک قسم ہے اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس چوہے کی بل کے دوسوراخ ہوتے ہیں وہ کبھی ایک سوراخ سے داخل ہوتا ہے اور دوسرے سے نکل جاتا ہے اور کبھی دوسرے سے داخل ہو کر پہلے سے نکل جاتا ہے۔ منافق کو بھی منافق اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ کفر یا اسلام میں سے ایک پر بھی قائم نہیں رہتا ۔ مسلمانوں کے درمیان ہوتا ہے تو خود کو مسلمان ظاہر کرتا ہے اور اگر کافروں کے درمیان ہو تو خود کو انہی میں سے کہتا ہے۔
حق کا راستہ چونکہ کٹھن ہوتا ہے اس لیے وہ زیادہ دیر اس راستہ پر قائم نہیں رہتا اور جہاں آزمائش آتی ہے اپنا رخ بد ل لیتا ہے۔ یقیناًوہ دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ اپنے مفاد کیلئے کام کرتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’منافق کی مثال ایسے ہے جیسے ایک بکری دو گلوں کے درمیان ہو کبھی ایک گلے میں جا گھسے اور کبھی دوسرے میں، حالانکہ وہ ان میں سے کسی کی بھی نہیں ہے اس لیے کہ یہ اجنبی بکری ان دونوں میں سے نہیں ہے۔ منافق کا یہی حال ہے وہ مسلمانوں کے ساتھ مکمل طور پر نہیں ٹھہرتا اور نہ ہی کافروں کے ساتھ ٹھہرتا ہے ۔ (مکاشفۃ القلوب)
سیّدنا غوث الاعظمؓ منافق کے عمل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* ’’ تجھ پر افسوس ہے تیری زبان مسلمان ہے مگر تیرا دل مسلمان نہیں، تیرا قول مسلمان ہے مگر تیر ا فعل مسلمان نہیں۔ تو جلسوں میں انجمنوں میں مسلمان ہے خلوت میں مسلمان نہیں۔ کیا تو نہیں جانتا جب نماز پڑھے گا اور روزہ رکھے گا اور تمام افعالِ خیر کرے گا اگر یہ تیرے اعمال خالص اللہ تعالیٰ کیلئے نہ ہوئے تو پس تو منافق ہے اوراللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور ہے۔‘‘ (الفتح الربانی مجلس3 )
منافقت ایسے طرزِ عمل کو کہا جاتا ہے جو قول و فعل کے تضاد سے عبارت ہو،جس میں انسان کا ظاہر باطن سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ منافقین کا آج کے دور میں موجود ہو ناکوئی بڑی بات نہیں بلکہ یہ سلسلہ ازل سے چلا آرہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور کے مفاد پرست منافق حق کی تحریک کو کامیابی سے ہم کنار ہوتا دیکھ کر بظاہر اس تحریک کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں لیکن اندر سے چھری کی طرح اس جماعت یا تحریک کی جڑیں کاٹ رہے ہوتے ہیں اور اس کی بنیاد کو مختلف چالوں اور منصوبوں سے نقصان پہنچا رہے ہوتے ہیں۔ منافقوں کا گروہ ان لوگوں پر مشتمل ہوتا ہے جو نہ دل سے اس تحریک کے حامی ہوتے ہیں اور نہ ہی کھلم کھلا مخالفت کرتے ہیں۔ اسطرح کے لوگ اپنی ذہنی اور قلبی وابستگی اپنے سابقہ عقائد و نظریات ہی کے ساتھ رکھتے ہیں لیکن جسمانی طور پر حامیانِ تحریک کی صفوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنا لیتے ہیں۔ ایسے منافقین کی پہچان کیلئے اللہ پاک سورۃ البقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ:’’ اور لوگوں میں سے بعض وہ (بھی) ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لائے حالانکہ وہ (ہرگز) مومن نہیں ہیں۔ وہ اللہ کو (اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو) اور ایمان والوں کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں مگر (در حقیقت) وہ اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں اس کا شعور نہیں ہے۔ (البقرہ۔8-9)
منافق کو کبھی بھی اللہ، اس کے رسول اور تمام اولیا کرام اپنا دوست نہیں رکھتے کیونکہ وہ دومنہ رکھتا ہے اور اسکا رخ اللہ کی بجائے دنیا کی طرف ہوتا ہے اور اپنے ذاتی مفاد کیلئے گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیتا ہے اور لوگوں کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنا رہا ہوتا ہے حقیقتاً وہ خود بہت بڑا بیوقوف ہوتا ہے کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے اِنَّہُ عَلِےْمٌ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ یعنی بیشک وہ سینوں کے بھید کو جاننے والا ہے۔
جیسا کہ حدیث مبارکہ میں بھی بیان ہے:
ترجمہ:’’ اللہ کی نظر میں قیامت کے دن سب سے بُرا وہ شخص ہوگا جو دو چہرے رکھتا ہو (یعنی منافق) جو ایک گروہ کے پاس ایک چہرہ لے کر جائے اور دوسرے گروہ کے سامنے دوسرا۔ (صحیح بخاری)
جب اسلام پھیلنے لگا اور برسر اقتدار آگیا اور اسلام کا بول بالا ہوا تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو بھی منافقین کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر انسانِ کامل کے دور میں منافقین موجود رہے اور مومنین کو بھٹکانے کے نت نئے طریقے بھی استعمال کرتے رہے۔ اللہ پاک اپنے محبوبین کو منافقین کی پہچان کروانا چاہتا تھا تاکہ مسلمانوں کی صفوں میں موجود رہ کر اپنے ناپاک عزائم کو عملی جامہ نہ پہنا سکیں۔ اس لیے سورۃ البقرہ، سورۃ المنافقون اور دیگر سورتوں میں 134 آیات منافقین کے اخلاق و کردار پر روشنی ڈالتی ہیں۔مثلاً گیارہ (11) آیات یہ بتاتی ہیں کہ منافقین موقع پرست ہو تے ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں اس کو دل سے نہیں مانتے۔ چار (4) آیات میں مذکور ہے کہ منافقین سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ اور مومنین کو دھوکہ دے رہے ہیں درحقیقت وہ اپنے آپ کو ہی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور وہ اسکا شعور بھی نہیں رکھتے۔ پانچ (5) آیات یہ بتاتی ہیں کہ منافقین جس شے کا دعویٰ کرتے ہیں دراصل اس کا الٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ دو (2) آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافقین دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو عقلمند حالانکہ وہ خود بیوقوف ہوتے ہیں۔ چار (4) آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ منافقین اگر کسی چیز کو مانتے ہیں تو بھی اسے پوری طرح تسلیم نہیں کرتے۔ دس (10) آیات ہمیں بتاتی ہیں کہ منافق جھوٹ بولتے ہیں اور ان کو ان کے جھوٹ اور منافقت کی سزا ضرور ملے گی۔ نو (9) آیات ہمیں مطلع کرتی ہیں کہ منافقین مسلمانوں کو حاصل ہونے والے فائدوں میں تو شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن ان کے نقصان میں حصہ دار نہیں بننا چاہتے۔ اٹھارہ (18)آیات میں مومنین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ منافقین سے بچ کر رہیں اور ان پر اعتبار نہ کریں۔ دو (2) آیات اس پر روشنی ڈالتی ہیں کہ منافقین آپس میں بھی مخلص نہیں ہوتے ہیں۔ ایک (1)آیت ہمیں بتاتی ہے کہ منافقین اللہ سے چھپ نہیں سکتے اور یہ کہ وہ خود ظالم ہیں اور حزبِ شیطان (شیطان کی جماعت) کے رکن ہیں۔
قرآنِ کریم میں اکتالیس (41) آیات میں منافقین کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی ہے مثلاً یہ کہ جھوٹی قسمیں‘ مومنین کی تضحیک، وعدہ خلافی‘ بے جااعتراضات ،طعنہ زنی، بہانہ بازی اور افواہیں پھیلانا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ منافقین مومنین کے بدخواہ ہیں۔ ان کی بھلائی سے پریشان ہوتے ہیں اور ان کی مصیبت سے خوش۔ برے کام کرتے ہیں، جہاد سے گریزاں رہتے ہیں، نماز میں سستی اور کاہلی سے آتے ہیں، اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا ان پر گراں گزرتا ہے، نصرت میں مسلمانوں کا ساتھ جتلاتے ہیں اور ان کی مشکلات میں ان سے دور بھاگتے ہیں۔ منافقوں کے بظاہر نیک کام بھی مومنوں کیلئے خطرے سے خالی نہیں ہوتے۔ منافقین کے دلوں میں کھوٹ اور روگ ہوتا ہے اور وہ فتنہ پرور ہوتے ہیں ان کا ایک مخصوص اندازِ گفتگو ہوتا ہے وہ قانون اور مو شگافیوں کے ماہر ہوتے ہیں مگر جب گھمسان کا رن پڑے تو اُلٹے پاؤں بھاگ کھڑے ہوتے ہیں ۔
قرآنِ مجید کی پچیس(25) آیات میں منافقین کی سزا کا ذکر کیا گیا ہے ۔منافقین کی سزا کافروں سے کہیں بڑھ کر ہے اور وہ جہنم میں سب سے نچلے درجے میں ہونگے۔ اللہ تعالیٰ ان سے اتنی نفرت کرتا ہے کہ وہ اپنے حبیب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرماتا ہے کہ اگر ان کیلئے ستربار بھی مغفرت مانگیں گے تو بھی اللہ انہیں نہیں بخشے گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کسی بھی منافق کی نمازِ جنازہ پڑھانے اور اس کی قبر پر دعا کرنے کیلئے کھڑے ہونے سے منع فرما دیا گیا۔
اللہ پاک نے اپنے محبوب کیلئے قرآنی آیات میں منافقین اور ان کے شیطانی ہتھکنڈوں کو کھول کھول کر بیان فرمایا ہے تاکہ وہ ان کی شیطانی چالوں سے واقف رہیں۔ اگرچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کی باطنی کیفیت سے آگاہ تھے تاہم بعض مصلحتوں کی بنا پر ابتدا میں ان کے خلاف کسی قولی یا عملی کاروائی سے اعراض فرماتے رہے لیکن اللہ پاک نے منافقین کے اندازِ فکر و طرزِ عمل اور فتنہ پردار ذہنیت کو شرح و بسط کے ساتھ اہلِ ایمان کے سامنے رکھ دیا تاکہ وہ ان کی ذہنیت ،قول و عمل کے تضاد اور مذموم عزائم سے باخبر رہیں اور اسطرح ان کی شیطانی سرگرمیوں کا معلوم ہوتا رہے۔
مدنی دور میں منافقین کا طبقہ بھر پور طور پر سب کے سامنے نمایاں ہوگیا۔ اسلام کو کھلی مخالفت و مزاحمت کا سامنا تو آغازِ دعوت کے وقت سے ہی تھا اور اہلِ اسلام اس سلسلے میں بے شمار مصائب جھیلتے چلے آرہے تھے لیکن ہجرتِ مدینہ کے بعد ایک نئی طرز کی مخالفت بھی زورو شور سے شروع ہوگئی اور وہ تھی منافقت۔
اہلِ مدینہ کے قبیلہ خزرج کا ایک بہت بڑا سرد ار عبدا للہ ابن ابی تھا۔ اسے اس کے اثرورسوخ کے باعث مدینہ کا حکمران بنایا جا رہا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہجرت سے صورتحال میں زبردست تبدیلی آگئی۔ یہودیوں سمیت تمام اقوام نے متفقہ طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مدینہ کا حاکم تسلیم کرلیا جس سے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھیوں کے مفادات کو سخت نقصان پہنچا چنانچہ وہ اس دن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کاروائیوں اور پس پردہ سازشوں میں مصروف ہوگیا۔ یہ طبقہ اسلام کے خلاف کھلی مخالفت و مزاحمت کی جرأت تو نہ کرسکا اس لیے بظاہر اسلام سے وابستگی کا لبادہ اوڑھ کر مختلف قسم کی فتنہ انگیزیوں کا جال بچھانے لگا۔ اس کی یہ جلن ابتدائے ہجرت ہی سے واضح تھی جبکہ ابھی اس نے اسلام کا اظہار بھی نہیں کیا تھا پھر اسلام کا اظہار کرنے کے بعد بھی اس کی یہی روش رہی۔اس کے اظہارِ اسلام سے قبل ایک بار رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سواری پر حضرت سعدبن عبادہؓ کی عیادت کے لئے تشریف لے جارہے تھے کہ راستہ میں ایک مجلس سے گزر ہوا جس میں عبداللہ بن ابی بھی تھا اس نے اپنی ناک ڈھانپ لی اور بولا ہم پر غبار نہ اڑاؤ۔ پھر جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اہلِ مجلس پر قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگا ’’آپ اپنے گھر میں بیٹھئے ہماری مجلس میں قرآن سنا سنا کر ہمیں تنگ نہ کیجئے۔‘‘ (الرحیق المختوم)
لیکن اظہارِ اسلام کے بعد بھی وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا دشمن ہی رہا اور وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو نقصان ہی پہنچاتا رہا چاہے وہ غزوۂ احد، غزوۂ خندق اور دیگر جنگیں ہی کیوں نہ ہوں‘ اپنی چھپی چالوں سے باز نہ آیا۔ اس منافق کے مکروفریب کا یہ عالم تھا کہ اپنے اظہارِ اسلام کے بعد ہر جمعہ کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خطبہ دینے کے لئے تشریف لاتے تو پہلے کھڑا ہو جاتا اور کہتا ’’لوگو!یہ تمہارے درمیان اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ہیں اللہ نے ان کے ذریعے تمہیں عز ت و احترام بخشا ہے لہٰذا ان کی مدد کرو انہیں قوت پہنچاؤ اور ان کی بات سنو اور مانو۔‘‘ اس کے بعد بیٹھ جاتا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اُٹھ کر خطبہ دیتے۔ اس کی ڈھٹائی اور بے حیائی کی یہ انتہا تھی کہ وہ غداری اور منافقانہ حرکتیں کرتا اور مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا تھا۔ ایسے منافقین کیلئے اللہ پاک فرماتا ہے:
اِنَّ الْمُنَافِقےْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَھُمْ نَصِےْرًا (النساء۔ 145 )
ترجمہ: بے شک منافق دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہونگے اور آپ ان کے لیے ہر گز کوئی مدد گار نہ پائیں گے۔
اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنَافِقِےْنَ وَالْکٰفِرِےْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعًا۔ (النساء۔ 140 )
ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں کو جہنم میں جمع کرنے والا ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ منافق کی چار علامتیں ہیں:
۱۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۲۔ وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے۔
۳۔ امانت دی جائے تو خیانت کرے۔
۴۔ اور فحش گوئی کرے۔
یہودیوں کی ایسی منافقانہ سازش کا تذکرہ سورۃ آلِ عمران میں کیا گیا ہے:
* وَقَالَتِ طَّآءِفَۃٌ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اٰمَنُوْا بالَّذِیْٓ اُنْزِلَ عَلَی الَّذِےْنَ اٰمَنُوْا وَجْہَ النَّھَارِ وَاکْفُرُوْٓا اٰخِرَہٗ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ۔ (سورۃ آل عمران۔72 )
ترجمہ: ’’اور اہلِ کتاب کا ایک گروہ (لوگوں سے) کہتا ہے کہ تم اس کتاب (قرآن) پر جو مسلمانوں پر نازل کی گئی ہے دن چڑھے (یعنی صبح) ایمان لایا کرو اور شام کو انکار کر دیا کرو تا کہ (تمہیں دیکھ کر) وہ بھی پلٹ ہو جائیں۔‘‘
یہودیوں نے مل کر مسلمانوں کے خلاف ایک سازش رچی تھی۔ ان کو اس بات سے سخت تکلیف تھی کہ جب بھی کوئی دائرہ اسلام میں داخل ہوتا ہے ایسا سکون پاتا ہے کہ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ اس ساکھ کو خراب کرنے کیلئے انہوں نے ایک ترکیب سوچی کہ صبح کو ان کے بڑے بڑے علما اور امرا نے اعلان کر دیا کہ ہم مسلمان ہوگئے اور سارا دن نہایت ادب کے ساتھ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں گزارتے اور شام کو کہہ دیتے کہ ہم نے دیکھ لیا اس مذہب میں کچھ نہیں رکھا اور دینِ اسلام سے منکر ہوجاتے۔ اس عمل سے سادہ لوح ایمان والوں کے قدم ڈگمگا گئے۔
درحقیقت مومنوں میں منافقین کی موجودگی مومنین اور متقین کا امتحان لینے کیلئے ہوتی ہے۔ اللہ پاک کے متقین کو آزمانے کے بھی کئی طریقے ہو تے ہیں کہ کون اس کے عشق کے دعوے میں کھرا ہے اور اس کا ایمان منافقوں کی چالوں سے ذرا بھی نہیں ڈگمگا تا۔ منافق اپنی شیطانی کاروائیوں اور منصوبوں میں اتنا ماہر ہوتا ہے کہ ایمان اور یقین کو ہلانے کی بھرپور سازش کرتا رہتا ہے مگر جس طالب کا یقین کامل ہوتا ہے وہ اس کے چنگل سے بڑی آسانی سے نکل جاتا ہے کیونکہ راہِ فقر میں کامیابی کیلئے استقامت سے چلنا پہلی شرط ہے۔ دعویِٰ ایمان صرف زبانی حد تک ہو اور باطن اس کی تصدیق سے خالی ہو یہ بھی دوغلے پن کی نشانی ہے ۔دوغلا شخص معرفتِ الٰہی سے ہمیشہ محروم رہتا ہے۔ اللہ پاک ایسے شخص کے بارے میں فرماتا ہے:
ےَآیُّھَاالَّذِےْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَالاَ تَفْعَلُوْنَ۔ (سورۃ الصف۔2)
ترجمہ: اے ایمان والو! تم وہ باتیں کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علیؒ اخلاص نیت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں :
* ’’اخلاص بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ جس نے اخلاص کو پا لیا اس نے گویا نفس کو قابوکر لیااور جس نے نفس کو قابو کر لیا اس نے اللہ کو راضی کر لیا اور اللہ تعالیٰ کی رضا کائنات کی سب سے بڑی نعمت ہے۔‘‘
منافق ہمیشہ اخلاص سے بے خبر رہتا ہے اس کے نزدیک اس کی ذات ہی اس کی خدائی ہے اور اس کے شیطانی مقاصد میں کامیابی اس کی عبادت ہے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے:
اِنَّمَا الشَّےْطٰنُ یَصِےْرُ مُسْتَوْلِےًا عَلَی الْاِنْسَانِ
ترجمہ: ’’بے شک شیطان ہر وقت انسان پر غالب آنے کی کوشش میں رہتا ہے۔‘‘
جس دل میں دنیا کی محبت ہوتی ہے وہ شیطان کی نشست گاہ (گھر) بن جاتا ہے۔ تاریخ میں مسجد ضرار کا واقع اس بات کی دلیل ہے کہ منافقین نے اپنے ناپاک مقاصد کے حصول کیلئے مسجد ضرار تعمیر کروائی جس کا مقصد اسلام کو فروغ دینا نہیں بلکہ مسلمانوں میں اختلافات و فتنہ پیدا کرنا تھا۔ اعلانیہ مخالفت تو کرنہیں سکتے تھے مگر وہ پس پردہ ہمیشہ مسلمانوں کو نقصان پہچانے میں مصروف رہتے چنانچہ اس مقصد کی تکمیل کے لیے ان بے ایمانوں نے اس بات کا سہارا لیا کہ جو لوگ مسجد نبویؐ نہ جا سکیں وہ قریب ہی مسجد ضرار میں نماز ادا کر لیں مگر اصل میں یہ خطرناک سازش تھی جس کا مقصد مسلمانوں کا رخ اللہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پھیرنا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس مسجد میں کی جانے والی سازشوں کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو جمع کرکے حکم فرمایا کہ وہاں جائیں اور مسجد کو آگ لگا کر خاکستر کردیں۔سورہ التوبہ میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ان منافقین کے بارے میں آگاہی فرمائی اور فرمایا:
ترجمہ: اور (منافقین میں سے وہ بھی ہیں) جنہوں نے ایک مسجد تیار کی ہے (مسلمانوں کو) نقصان پہنچانے اور کفر (کو تقویت دینے) اور اہلِ ایمان میں تفرقہ پیدا کرنے اور اس شخص کی گھات کی جگہ بنانے کی غرض سے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے ہی سے جنگ کر رہا ہے اور وہ ضرور قسمیں کھائیں گے کہ ہم نے (اس مسجد بنانے سے) سوائے بھلائی کے اور کوئی ارادہ نہیں کیا اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ یقیناًجھوٹے ہیں۔ (سورہ التوبہ۔107)
ترجمہ: منافق مرد اور منافق عورتیں ایک دوسرے (کی جنس) سے ہیں یہ لوگ بُری باتوں کا حکم دیتے ہیں اور اچھی باتوں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھ (اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے) بند رکھتے ہیں انہوں نے اللہ کو فراموش کر دیا تو اللہ نے انہیں فراموش کر دیا بیشک منافقین ہی نافرمان ہیں۔ (سورۃ التوبہ۔67)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے:
* منافقوں کی ایک پہچان یہ ہے کہ وہ اپنے لیے تو راستہ بنا لیتے ہیں لیکن دوسروں کیلئے پریشانیاں پیدا کرتے ہیں منافق شیطانوں کا گروہ اور آگ کا شعلہ ہے۔(نہج البلاغہ۔خطبہ192)
میرے مرشد کریم شانِ فقر، آفتابِ فقر، شبیہ غوث الاعظم، سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس منافقت کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں:
* سب سے بڑا بد کرد اروہ ہے جو اللہ کے دین کو اپنے ذاتی مفاد کیلئے استعمال کرے۔
* شیطان علم اور عبادت کی صفت میں ماہر تھا اور یہی منافقوں کی بھی صفت ہوتی ہے۔
* منافق ظاہر میں بڑا متقی ہوتاہے اور اندر سے کافر۔
* دنیا دار منافقوں کو نہیں پہچان سکتے منافق کو وہی پہچان سکتا ہے جس کے اندر نورِ اسم اللہ ذات ہو۔ (سلطان العاشقین)
منافق اپنی پارسائی کا ڈھنڈورا ہر جگہ اور ہر کسی کے سامنے پیٹنا پسند کرتا ہے اور ریاکاری کا سہار الیتا ہے۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کا اصل مقصد تو معرفتِ الٰہی ہے تاکہ جو بھی عمل کیا جائے اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے اور اس کی پہچان اور معرفت حاصل ہوجائے ۔ اگر نیک مقصد میں لوگوں کے لیے دکھاوے اور شہرت کی نیت شامل ہو جائے تو وہ عمل خالص اللہ پاک کیلئے نہ رہے گا اور اسے ریاکاری کہا جائے گا۔ منافق کو اپنی ذات اور لوگوں کی خوشنودی چاہئے ہوتی ہے جبکہ متقی کا ہر عمل یعنی سانس بھی اپنے اللہ کی رضا کیلئے ہوتاہے۔ وہ اپنے عشق اور پختہ ایمان کی بدولت اپنے نفس پر حاوی آجاتا ہے اور اپنی ہر چیز یہاں تک کہ اپنی ہستی بھی اللہ کی راہ میں وقف کر دیتا ہے۔
منافقت، ریاکاری، جھوٹ، تکبر، فخروغرور، خودپسندی جیسی دیگر باطنی بیماریوں کا علاج کامل مرشد کی نگاہ اور تصورِ اسم g ذات سے ممکن ہے۔ جیسے بظاہر بیماریوں کا علاج خود کوئی نہیں کر سکتا ویسے ہی باطنی بیماریوں کے علاج کیلئے بھی معالج کی رہنمائی ضروری ہے وہی تزکےۂ نفس فرماتا ہے اور بیماریوں اور بُری خصلتوں سے پاک کرتا ہے۔ وہی عشق کا پودا لگاتا ہے اور معرفتِ الٰہی تک پہنچاتا ہے اور اللہ پاک کا قرب عطا فرماتا ہے۔ میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے تمام مریدین اور طالبانِ مولیٰ اس بات کے گواہ ہیں کہ آپ مدظلہ الاقدس ہی اس دور میں فقر کے سلطان، انسانِ کامل مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں ۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ مرشد کامل اکمل کی صحبت کو ایک عام مسلمان کی زندگی میں اتنا اہم تصور کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
ترجمہ: بدکار وہ ہے جو آخر کار مرشد کی خدمت میں بے ادب اور مدعی ہو خدمت کے سال، مہینے اور دن گنے اور عمر بھر با ادب نہ رہے۔ (عقلِ بیدار)
* میں حیران ہوتا ہوں ان لوگوں پر جو فقیر (مرشد کامل) سے اخلاص رکھنے کی بجائے اسے منافقت کے پتھر مارتے ہیں ۔ (شمس الفقرا)
معلوم ہوا کہ مرشد کامل (جو اسم اللہ ذات عطا کرے) وہ ذات پاک ہے جو صدق اور اخلاص پیدا کرتی ہے، منافق سے متقی، طالبِ دنیا سے طالبِ مولیٰ، دنیادار سے عاشق بناتی ہے۔ دعاہے کہ اللہ پاک ہمیشہ ہمیں مرشد کامل اکمل کی صحبت میں رکھے کیونکہ صحبتِ مرشد سے ہی اللہ پاک کا قرب نصیب ہوتا ہے۔