موت کو سمجھے ہیں غافل اختتامِ زندگی
Maut Ko Samjhay Hain Ghafil Ikhtetaam-e-Zindagi
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
روح کے اس مادی جسم سے نکل جانے کا نام موت ہے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ ہر ذی روح نے اس کا ذائقہ چکھنا ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (سورۃ آلِ عمران۔185)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
کوئی جاندار وجود ایسا نہیں جس کے لیے موت نہ ہو۔ بطور مسلمان ہمارا یہ ایمان اور عقیدہ ہے کہ مرنے کے بعد ہم اُٹھائے جائیں گے اور اللہ کے حضور پیش ہوں گے جہاں انسان کی دنیوی زندگی کے نیک و بد اعمال کا حساب ہوگا۔تمام آسمانی ادیان مرنے کے بعد اُٹھائے جانے پر ایمان رکھتے ہیں سوائے ان مذاہب کے جو اس دنیا میں وجود میں آئے۔
تاہم موجودہ دور میں بھی صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت موت سے غافل ہو چکی ہے۔ دنیوی مال و اسباب کی محبت نے موت کو بھلا دیا ہے، مرنے کے بعد کی زندگی اور اس کی تیاری کا ادراک ہی نہیں جبکہ یہ دنیا کی زندگی چند روز کی ہے اور اصل حیات تو مرنے کے بعد ہی شروع ہوگی جس کا کوئی اختتام نہیں۔ البتہ اُخروی زندگی کا تمام تر انحصار اس دنیوی زندگی پر ہے۔ جس قدر یہ دنیوی زندگی اللہ اور اس کے رسولؐ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق گزرے گی، اُخروی زندگی بھی اُسی قدر بہتر ہوگی۔اسی لیے دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیا گیا۔
مرنے کے بعد انسان کی سب سے پہلی منزل اس کی قبر ہے۔ قبر بظاہر ایک مٹی کا گڑھا ہے لیکن درحقیقت یہ عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن کے مابین ایک برزخ اور پردہ ہے۔ انسان ظاہری طور پر دیکھتا ہے کہ میت کو غسل دیا جا رہا ہے، جنازہ پڑھایا جا رہا ہے، قبر میں لٹایا جا رہا ہے لیکن باطنی دنیا میں اس کے ساتھ کیا معاملہ ہو رہا ہے اس کے متعلق صرف وہ میت ہی آگاہ ہوتی ہے، انسانی آنکھ سے ان احوال کا مشاہدہ نہیں ہوسکتا۔ تاہم اللہ کے نیک و مقرب بندے جو اللہ کے اسرار سے واقف ہوتے ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں ان احوال پر مطلع فرما دیتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ جان کنی اور موت کے احوال کو اس طرح بیان فرماتے ہیں:
جان لے کہ جان کنی کے وقت حضرت عزرائیلؑ سر سے قدم تک وجود کے ساتوں اندام سے روحِ حیات کو اس طرح جھنجھوڑتے ہیں جس طرح کہ مکھن کو اکٹھا کرنے کے لیے لسی کو جھنجھوڑا جاتا ہے۔ بالکل اُسی طرح آدمی کی روح کو عزرائیل علیہ السلام اس کے سر میںاستخوان الابیض کے مقام میں جمع کرتے ہیں۔استخوان الابیض زمین و آسمان سے بھی زیادہ وسیع مقام ہے۔ اس مقام پر فرشتہ انسانی روح کو کھڑا کرکے اس سے تین سو ستر سوال کرتاہے۔ اُس کے بعد غسال مردے کوغسل دیتا ہے اور پھر اس کی نمازِجنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ قبر تک پہنچتے پہنچتے میت سے (مزید) تین سو ستر سوال پوچھے جاتے ہیں۔ اس کے بعد قبر میں اتارا جاتا ہے۔ وہاں منکر نکیر اس سے سوال جواب کرتے ہیں۔ جب وہ منکر نکیر کے سوال جواب سے فارغ ہو جاتا ہے تو رُمان نامی ایک فرشتہ قبر میں اس کی میت کے پاس آکر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی انگلی کو قلم، منہ کو دوات، لعابِ دہن کو سیاہی اور کفن کو کاغذ بنا کر اُس کے نیک و بد اعمال اس پر لکھتا ہے، پھر اس اعمالنامے کا تعویذ بنا کر اس کے گلے میں باندھ دیتا ہے، پھر وہ فرشتہ غائب ہوجاتا ہے۔ اگر روح صالح ہو تو مقامِ علّییّن میں چلی جاتی ہے اور اگر طالح و بدبخت ہو تو مقامِ سجّین میں چلی جاتی ہے۔ تین دِن کے بعد روح قبر میں واپس آتی ہے اور اپنے جسم کو دیکھتی ہے کہ اسے کیڑے کھارہے ہیں اور وہ گندہ و بدبو دار ہو رہا ہے۔ اپنے جسم کی یہ حالت دیکھ کر روح رونے لگتی ہے اور غمگین و اداس ہو کر نہایت افسوس سے کہتی ہے ’’اے دولت و نعمت میں پلے ہوئے جسم! میں تجھے اس گندگی و ہلاکت میں مبتلا دیکھ رہی ہوں‘‘ بارہ سال تک روح قبر میں اپنے جسم کے پاس آتی جاتی رہتی ہے جیسے کوئی کسی کی بیمار پرسی کے لیے آتا جاتا ہے۔
گر بہ بینی حال احوال از قبر
می شود مکشوف زیر و با زبر
بعد ازاں عبرت خوری باغم تمام
دِل سلیم و گشت واضح ہر مقام
ترجمہ: اگر تو قبر کے احوال کو دیکھ لے تو زیر و زبر کی سب کیفیت تجھ پر منکشف ہو جائے ۔ پھر تجھے انتہائی غم میں بھی عبرت حاصل ہو گی۔ تیرا دِل تسلیم و رضا اختیار کرلے گا اور جملہ مقامات کی حقیقت تجھ پر واضح ہوجائے گی ۔ (نورالہدیٰ کلاں)
موت وہ منزل ہے جس سے نجات کسی طور ممکن نہیں۔ جو اس عارضی قیام گاہ یعنی دنیا میں آیا ہے اسے واپس لوٹنا ہے اور اس کے لیے اسے موت کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
موت کے حوالے سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
ملک الموت عزرائیل علیہ السلام (انسانی شکل میں) موسیٰ علیہ السلام کے پاس بھیجے گئے۔ جب وہ آئے تو موسیٰ علیہ السلام نے انہیں ایک زور کا طمانچہ مارا اور ان کی آنکھ پھوڑ ڈالی۔ وہ واپس اپنے ربّ کے حضور پہنچے اور عرض کی یا اللہ! تو نے مجھے ایسے بندے کی طرف بھیجا جو مرنا نہیں چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھ پہلے کی طرح کر دی اور فرمایا کہ دوبارہ جا اور ان سے کہہ کہ آپ اپنا ہاتھ ایک بیل کی پیٹھ پر رکھیے اور پیٹھ کے جتنے بال آپ کے ہاتھ تلے آ جائیں اس ہر بال کے بدلے آپ کو ایک سال کی زندگی دی جاتی ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام تک جب اللہ کا یہ پیغام پہنچا) تو آپؑ نے کہا اے اللہ! اس کے بعد کیا ہو گا؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ پھر بھی موت آنی ہے۔ موسیٰ علیہ السلام بولے ’’تو ابھی کیوں نہ آ جائے۔‘‘ (صحیح بخاری۔1339)
لہٰذا کوئی بھی ذی روح ایسا نہیں جو موت کی تکلیف سے محفوظ رہ سکے۔ کوئی چاہے دنیا کے کسی بھی بلند مرتبے کا حامل ہویا چاہے اللہ کا کتنا ہی مقرب کیوں نہ ہو، کسی کو بھی دوام اور بقا نہیں سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔ (سورۃ الرحمن۔26-27)
ترجمہ: ہر کسی کے لیے فنا ہے۔ اور آپ کے ربّ کے چہرے کے لیے ہی بقا ہے جو صاحبِ عظمت و جلال اور صاحبِ اکرام ہے۔
یہ تو انسان ہے جو اس دنیا میں اس قدر مگن ہو جاتا ہے کہ موت کو فراموش کر دیتا ہے۔ کسی کو تکلیف دیتے ہوئے، دھوکا و فریب دیتے ہوئے انسان یہ سوچتا ہی نہیں کہ ہم نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے۔ حالانکہ بطور مسلمان ہمارا یہ ایمان ہے کہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں یہ کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
غیب کی پانچ چابیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ کسی کو معلوم نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ ماں کے پیٹ میں کیا ہے، کل کیا کرنا ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں، نہ ہی کوئی یہ جانتا ہے کہ اسے موت کس جگہ آئے گی اور نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ بارش کب ہوگی۔ (صحیح بخاری۔1039)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہٗ بخار میں مبتلا ہو گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ یہ شعر پڑھتے جس کا مفہوم یہ ہے ’ہر آدمی اپنے گھر والوں میں صبح کرتا ہے حالانکہ اس کی موت اس کی جوتی کے تسمہ سے بھی زیادہ قریب ہے‘۔ (صحیح بخاری۔1889)
انسان مال و دولت کی ہوس میں اس قدر پاگل ہے کہ وہ اس دنیا کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے جدوجہد کرتا رہتا ہے لیکن اپنی آخرت کی زندگی جو کہ ابدی و دائمی ہے، اس کے لیے ذرّہ برابر بھی فکر نہیں کرتا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے نصیب میں جو کچھ ہے وہ اس کی پیدائش سے قبل ہی تحریر کر دیا ہے اور اسے مل کر رہے گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے رحمِ مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا ہے کہ اے ربّ! یہ نطفہ قرار پایا ہے۔ اے ربّ! اب یہ جما ہوا خون بن گیا ہے۔ اے ربّ! اب یہ گوشت کا لوتھڑا بن گیا ہے۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے ربّ لڑکا یا لڑکی؟ نیک ہے یا برا؟ اس کی روزی کیا ہوگی؟ اس کی موت کب ہوگی؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ میں ہی لکھ دی جاتی ہیں۔ دنیا میں اسی کے مطابق ظاہر ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری۔6595)
اگر انسان کو معلوم ہو جائے کہ مرنے کے بعد اس کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا اور اس کے کس کس گناہ پر اسے کیا سزا ملے گی اور قبر میں اس کے ساتھ کیا معاملہ پیش آئے گا تو انسان ہر لمحہ خوف سے کپکپاتا رہے۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ جب کسی قبرستان پر ٹھہرتے تو اس قدر روتے کہ آپؓ کی داڑھی تر ہو جاتی۔ کسی نے ان سے کہا کہ جب آپ کے سامنے جنت و جہنم کا ذکر کیا جاتا ہے تو نہیں روتے اور قبر کو دیکھ کر اس قدر رو رہے ہیں؟ تو کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’آخرت کی منازل میں سے قبر پہلی منزل ہے۔ سو اگر کسی نے قبر کے عذاب سے نجات پائی تو اس کے بعد کے مراحل آسان ہوں گے اور جسے عذابِ قبر سے نجات نہ مل سکی تو اس کے بعد کی منازل سخت تر ہوں گی۔ ‘‘ (صحیح بخاری۔2308)
حضرت براء بن عازبؓ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ انصار کے ایک شخص کے جنازے میں نکلے، ہم قبر کے پاس پہنچے۔ وہ ابھی تک تیار نہ تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے گویا ہمارے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے سر اُٹھایا اور فرمایا کہ قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ طلب کرو اور اسے دو بار یا تین بار فرمایا۔ اور وہ ان کے جوتوں کی چاپ سن رہا ہوتا ہے جب وہ پیٹھ پھیر کر لوٹتے ہیں۔ اسی وقت اسے پوچھا جاتا ہے ’’تمہارا ربّ کون ہے؟ تمہارا دین کیا ہے؟ تمہارا نبی کون ہے؟‘‘ ہناد کی روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ پھر اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں تمہارا ربّ کون ہے؟ تو وہ کہتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ پھر پوچھتے ہیں یہ کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں۔ پھر وہ دونوں اس سے کہتے ہیں تمہیں یہ کہاں سے معلوم ہوا؟ وہ کہتا ہے میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اور اس پر ایمان لایا اور اس کو سچ سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا پھر ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے میرے بندے نے سچ کہا لہٰذا تم اس کے لیے جنت کا بچھونا بچھا دو اور اس کے لیے جنت کی طرف کا ایک دروازہ کھول دو اور اسے جنت کا لباس پہنا دو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں پھر جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آنے لگتی ہے اور تا حد ِ نگاہ اس کے لیے قبر کشادہ کر دی جاتی ہے اور رہا کافر تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کی موت کا ذکر کیا اور فرمایا اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جاتی ہے۔ اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں، اسے اٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تمہارا ربّ کون ہے؟ وہ کہتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں یہ آدمی کون ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا؟ وہ کہتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ پھر وہ دونوں اس سے پوچھتے ہیں تمہارا دین کیا ہے؟ وہ کہتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ تو پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے اس نے جھوٹ کہا، اس کے لیے جہنم کا بچھونا بچھا دو اور جہنم کا لباس پہنا دو اور اس کے لیے جہنم کی طرف دروازہ کھول دو تو اس کی تپش اور اس کی زہریلی ہوا آنے لگتی ہے اور اس کی قبر تنگ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ اس کی پسلیاں اِدھر سے اُدھر ہو جاتی ہیں۔ (سنن ابو داؤد۔4753)
مختصر یہ کہ قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا۔ اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام قبر کے عذاب سے اللہ کی پناہ مانگا کرتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عذابِ قبر کے بارے میں دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں عذابِ قبر برحق ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی ایسا نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کوئی نماز پڑھی ہو اور اس میں عذابِ قبر سے اللہ کی پناہ نہ مانگی ہو۔ (صحیح بخاری۔1372)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’اے اللہ! میں قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور دوزخ کے عذاب سے اور زندگی اور موت کی آزمائشوں سے اور کانے دجال کی بلا سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‘‘ (صحیح بخاری۔1377)
موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے یہ تو دور کی بات اگر انسان کو جان کنی کی تکلیف کا احساس ہو جائے تو وہ دوسری ہر تکلیف کو بھول جائے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ وفات کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے ایک بڑا پانی کا پیالہ رکھا ہوا تھا جس میں پانی تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا ہاتھ اس برتن میں ڈالتے اور پھر اس ہاتھ کو اپنے چہرہ پر ملتے اور فرماتے ’’اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ بلاشبہ موت میں تکلیف ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنا ہاتھ اٹھا کر فرمانے لگےاَللّٰہُ الرَّفِیْقُ الْاَعْلٰی (اللہ سب سے اعلیٰ رفیق ہے) یہاں تک کہ آپ کی روح قبض ہو گئی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔ (صحیح بخاری۔6510)
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ الرسالۃ الغوثیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
اے غوث الاعظمؓ! ’’اگر انسان جان لے کہ موت کے بعد اس کے ساتھ کیا ہونا ہے تو دنیا میں دنیوی زندگی کی تمنا نہ کرے اور ہر لمحہ یہ کہے مجھے مار ڈال مجھے مار ڈال۔
یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اس میں اللہ کی عطا کردہ زندگی کو مہلت تصور کرنا چاہیے اور ہر لمحہ موت کے لیے تیار رہنا چاہیے گویا ایک مسافر جو اپنی سواری کے انتظار میں تیار رہتا ہے۔ کیا معلوم کہ صبح سے شام بھی نہ ہو اور موت آن دبوچے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے میرا شانہ پکڑ کر فرمایا ’’دنیا میں اس طرح ہو جا جیسے تو مسافر یا راستہ چلنے والا ہو۔‘‘ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ فرمایا کرتے تھے ’’شام ہو جائے تو صبح کے منتظر نہ رہو اور صبح کے وقت شام کے منتظر نہ رہو۔ اپنی صحت کو مرض سے پہلے غنیمت جانو اور زندگی کو موت سے پہلے۔‘‘ (صحیح بخاری۔6416)
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا یہ امید ہے اور یہ موت ہے۔ انسان اسی حالت میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (یعنی موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری۔6418)
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ احیاء العلوم میں فرماتے ہیں:
جس شخص کو موت سے شکست کھانی ہے، جس کی آرام گاہ قبر ہوگی، جس کے مونس و دم ساز سانپ، بچھو، کیڑے مکوڑے ہوں گے، جسے منکر نکیر کی ہم نشینی ملے گی، قیامت اس کے وعدے کی جگہ ہوگی اور جس کا ٹھکانہ دوزخ یا جنت ہوگا اُس کے لیے اِس کے علاوہ کچھ مناسب نہیں کہ وہ صرف موت کے متعلق سوچے، صرف موت کا ذکر کرے، صرف اسی کی تیاری کرے، اسی میں تدبر کرے، اسی کا مشتاق ہو، اس کے علاوہ کسی چیز کا اہتمام نہ ہو، اس کے سوا کسی کا انتظار نہ ہو۔ ایسے شخص کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ زندگی میں ہی اپنے نفس کو مردہ تصور کرنے لگے اور خود کو قبر کے گہرے گڑھے میں لیٹا ہوا تصور کرے اس لیے کہ جو چیز آنے والی ہے وہ قریب ہے۔ بعید وہ ہے جسے آنا نہیں ہے۔ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے ’’عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کو دبائے اور موت کے بعد کی زندگی کے لیے عمل کرے‘‘۔ (احیاء العلوم جلد چہارم)
امام غزالیؒ نے اپنی تصنیف احیاء العلوم میں موت کے ذکر سے متعلق بزرگوں کے اقوال اور احوال تحریر فرمائے ہیں جن میں سے چند تحریر کیے جا رہے ہیں:
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں میں نے کوئی ایسا دانا نہیں دیکھا جو موت سے خوف زدہ اور دل گرفتہ نہ ہو۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہٗ ہر شب فقہا کو جمع کرتے اور سب مل کر موت، قیامت اور آخرت کا ذکر کرتے اور اس طرح روتے گویا ان کے سامنے جنازہ رکھا ہو۔
کعبؒ فرماتے ہیں کہ جو شخص موت کی معرفت رکھتا ہے اس پر دنیا کے مصائب اور پریشانیاں آسان ہو جاتی ہیں۔
حضرت خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’موت نے دنیا کو رسوا کر دیا کسی عقلمند کے لیے خوشی میں کوئی حصہ نہیں چھوڑا‘‘۔ اشعث کہتے ہیں کہ ہم جب بھی حضرت خواجہ حسن بصریؓ کی خدمت میں حاضر ہوتے وہ دوزخ، آخرت اور موت کا ذکر کرتے ہوئے ملتے۔
ابراہیم التیمیؒ کہتے ہیں کہ دو چیزوں نے مجھ سے دنیا کی لذت منقطع کر دی، موت کی یاد نے اور اللہ کے سامنے کھڑا ہونے کے خیال نے۔
حضرت داؤد علیہ السلام کی موت اور قیامت کے ذکر سے یہ کیفیت ہوتی کہ جسم کے جوڑ جوڑ اکھڑ جاتے۔ پھر جب رحمتِ الٰہی کا ذکر ہوتا تب اپنی حالت حقیقی روح حالت میں واپس آتے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے جب موت کا ذکر ہوتا تو خوف کی وجہ سے جِلد پھٹ جاتی اور خون بہنے لگتا۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ دنیا کی بے ثباتی اور موت سے متعلق ایک واقعہ اپنی تصنیف کلید التوحید کلاں میں تحریر فرماتے ہیں:
روایت ہے کہ حضرت عیسیٰؑ جنہوں نے اپنی زندگی سفر میں گزاری اور کسی ایک جگہ یا ایک مکان میں سکونت اختیار نہ کی، ایک روز برہنہ سر اور پاؤں جا رہے تھے کہ آپ کی امت کے چند لوگ آپ کے پاس آئے اور عرض کی یا عیسیٰؑ! ہم پر لازم ہے کہ دین کے قواعد اور شرائط سیکھیں اس لیے ہم آپ کی خدمت میں آئے ہیں۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ کی خاطر ایک مکان تعمیر کریں۔ جناب عیسیٰؑ نے فرمایا شرط یہ ہے کہ جو جگہ میں دکھاؤں وہاں مکان تعمیر کیا جائے۔ لوگوں نے یہ بات قبول کر لی۔ حضرت عیسیٰؑ نے اس جگہ اشارہ کیا جہاں دریا گہرا اور تیزی سے رواں تھا۔ یہ ماجرا دیکھتے ہی سب حیران رہ گئے اور بولے کہ اس بہتے دریا میں مکان کیسے تعمیر کیا جا سکتا ہے؟ جناب عیسیٰؑ نے فرمایا اے بے خبر اور نادانو! کیا تمہیں دریائے موت اس سے کمتر دکھائی دیتا ہے! (کلید التوحید کلاں)
اس عارضی اور چند روزہ زندگی میں حق تعالیٰ کی طاعت میں مشغول رہنا ہی باعثِ نجات ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کلید التوحید کلاں میں فرماتے ہیں:
دنیا یک دم بود یک ساعتش
آں دمی بہتر کہ باحق طاعتش
ترجمہ: دنیا ایک گھڑی بلکہ ایک لمحے کی ہے اور وہ لمحہ بہتر ہے جو حق کی طاعت میں گزرے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلدُّنْیَا سَاعَۃٌ فَجَعَلَ فِیْہَا طَاعَۃٌ
ترجمہ: دنیا ایک گھڑی کی ہے اور ہمیں اس میں طاعت کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
جو لوگ اس دنیا سے محبت کرتے ہیں وہ اسی میں مشغول رہتے ہیں اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ابھی اس دنیا سے جانے میں بہت وقت پڑا ہے اور اسی بنا پر طویل امیدیں بھی باندھ لیتے ہیں کہ آئندہ ایسا کریں گے، مستقبل میں یہ ہوگا وہ ہوگا وغیرہ وغیرہ یعنی مختلف طرح کی فکروں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور یہی طویل امیدیں اور فکریں موت کی یاد اور فکرِآخرت کو بھلا دیتی ہیں۔
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ اسامہ بن زیدؓ نے زید ابنِ ثابتؓ سے ایک مہینے کے وعدے پر باندی خریدی۔ میں نے سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ کیا تمہیں اسامہؓ پر حیرت نہیں ہوتی جس نے ایک مہینے کے وعدے پر باندی کی خریداری کی۔ بلاشبہ اسامہؓ طویل امیدیں رکھتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے میں نے جب بھی آنکھیں کھولیں اس گمان کے ساتھ کھولیں کہ پلکیں بند کرنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ میری روح قبض کر لے گا اور جب میں نے آنکھیں اوپر اٹھائیں تو یہ سوچ کر اُٹھائیں کہ انہیں نیچے کرنے سے پہلے موت آ جائے گی۔ اس کے بعد فرمایا ’’اے اولادِ آدم! اگر تم عقل رکھتے ہو تو تمہیں اپنے آپ کو مرُدوں میں شمار کرنا چاہیے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے جس چیز کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آنے والی ہے اور تم اسے عاجز نہ کر سکو گے۔‘‘ (طبرانی، بیہقی)
ایک صادق طالبِ مولیٰ اللہ تعالیٰ کی طلب میں رہتا ہے۔ وہ اس دنیا اور اس کی زینت و آرائش اور چکا چوند سے اعراض کرتا ہے کیونکہ مرشد کامل اکمل کی صحبت میں رہ کر اس پر اس دنیا کی بے ثباتی واضح ہو چکی ہوتی ہے اور وہ اللہ کے اس فرمان کی حقیقت سے خوب آشنا ہوتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ (سورۃ النسائ۔77)
ترجمہ: (اے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) فرما دیجئے کہ متاعِ دنیا قلیل ہے۔
حاصل تحریر:
موت زندگی کا اختتام نہیں ہے بلکہ ایک ایسا دروازہ ہے جو ابدی و دائمی زندگی کی طرف کھلتا ہے۔نہ ہماری پیدائش زندگی کی ابتدا ہے اور نہ ہماری موت زندگی کا اختتام ہے۔ ہماری پیدائش سے پہلے بھی حیات موجود تھی عالمِ ارواح میں اور ہماری موت کے بعد بھی حیات موجود رہے گی عالمِ برزخ میں۔جس نے اس دنیا کے جینے کو کل جینا سمجھا اور اس دنیا کے مرنے کو کل مرنا سمجھا اس نے آخرت کے لیے کچھ تیاری نہ کی کیونکہ اس نے نہ تو اپنے جینے کو سمجھا اور نہ اپنے مرنے کو۔موت تو حیات کے اگلے مرحلہ میں داخل ہونے کا نام ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔ اس دنیا سے دل وہی لوگ لگاتے ہیں جنہیں موت کے بعد والی زندگی پر یقین نہیں یا پھر وہ دنیا میں مشغول ہو کر اخروی زندگی سے غافل ہیں۔ مرنے کے بعد یہ لوگ جب اللہ کے حضور پیش ہوں گے تو التجا کریں گے کہ ایک موقع اور دے دیا جائے اور دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے مطابق زندگی گزار سکیں جو کہ ناممکن ہے۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ فکرِآخرت کی جائے اور اپنی اُخروی زندگی کی تیاری کی جائے جس کا کوئی اختتام نہیں اور اُس نہ ختم ہونے والی زندگی کا مکمل انحصار ہماری اس دنیوی زندگی پر ہے۔ اگر ہم محض اس دنیا کی زندگی کو ہی سب کچھ سمجھ کر اس میں مشغول رہیں گے اور اُخروی زندگی کے بارے میں نہیں سوچیں گے تو انجام دردناک ہوگا قبر میں بھی اور حشر میں بھی۔ اگر اس دنیا کی زندگی کو فانی سمجھ کر اپنی ابدی و دائمی اُخروی زندگی کی فکر کریں گے تو موت کے بعد کی زندگی پرُسکون ہوگی۔ جس نے دنیا میں ہی آخرت سنوار لی اس کی دنیا بھی سنور گئی۔ ایسے انسان کے لیے موت اللہ تعالیٰ سے قرب کا نام ہے۔
تاہم انسان کا دل جب تک دنیا سے بیزار اور سرد نہ ہوگا تب تک وہ آخرت کی زندگی کے بارے میں فکر نہیں کرے گا۔ دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ و نورانی صحبت ایسی بارگاہ ہے جہاں نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔ قلب سے دنیا کی محبت نکال کر عشقِ حقیقی سے نوازا جاتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل نفس کی میل اور زنگ اس طرح اُتارتی ہے جیسے دھوبی کپڑے سے میل نکالتا ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے دعوت ہے کہ اگر وہ اپنی اُخروی زندگی کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو ضرور سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوں اور اپنا تزکیہ نفس کروائیں۔
استفادہ کتب:
۱۔ الرسالۃ الغوثیہ: تصنیفِ لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔نور الہدیٰ کلاں: تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۳۔ کلید التوحید کلاں: ایضاً
۴۔احیا العلوم: تصنیفِ لطیف امام غزالیؒ
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
ہے اچھی تحریر ہے ماشااللہ۔
Very guiding and informative article
Superb
Beshak rooh ki haqeeqat bohot zaroori hai
موت وہ منزل ہے جس سے نجات کسی طور ممکن نہیں
دنیا ایک گھڑی بلکہ ایک لمحے کی ہے اور وہ لمحہ بہتر ہے جو حق کی طاعت میں گزرے۔(سلطان باھُوؒ )
بےشک سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی نگاہِ کامل نفس کی میل اور زنگ اس طرح اُتارتی ہے جیسے دھوبی کپڑے سے میل نکالتا ہے
مرنے کے بعد انسان کی سب سے پہلی منزل اس کی قبر ہے۔ قبر بظاہر ایک مٹی کا گڑھا ہے لیکن درحقیقت یہ عالمِ ظاہر اور عالمِ باطن کے مابین ایک برزخ اور پردہ ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا یہ امید ہے اور یہ موت ہے۔ انسان اسی حالت میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (یعنی موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری۔6418)
موت وہ منزل ہے جس سے نجات کسی طور ممکن نہیں۔ جو اس عارضی قیام گاہ یعنی دنیا میں آیا ہے اسے واپس لوٹنا ہے اور اس کے لیے اسے موت کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے یہ تو دور کی بات اگر انسان کو جان کنی کی تکلیف کا احساس ہو جائے تو وہ دوسری ہر تکلیف کو بھول جائے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ روایت فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے چند خطوط کھینچے اور فرمایا یہ امید ہے اور یہ موت ہے۔ انسان اسی حالت میں رہتا ہے کہ قریب والا خط (یعنی موت) اس تک پہنچ جاتا ہے۔ (صحیح بخاری۔6418)
دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی پاکیزہ و نورانی صحبت ایسی بارگاہ ہے جہاں نفس کا تزکیہ اور قلب کا تصفیہ کیا جاتا ہے۔
بہت عمدہ تحریر ہے۔
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ (سورۃ آلِ عمران۔185)
ترجمہ: ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔
Bohat alla
موت کے بعد کیا معاملہ ہونا ہے یہ تو دور کی بات اگر انسان کو جان کنی کی تکلیف کا احساس ہو جائے تو وہ دوسری ہر تکلیف کو بھول جائے۔