انفاق فی سبیل اللہ
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
٭ ترجمہ: اے مومنو! تمہارا مال اور اولاد تمہیں ذکر ِ اللہ سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کرے گا وہ خسارہ اٹھانے والا ہے۔ (المنافقون۔9)
یہاں یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اللہ کے ذکر کی مختلف صورتیں ہیں مثلاً نماز، تلاوتِ قرآنِ مجید اور ورد وظائف وغیرہ۔ لیکن انسان ہر وقت ان سب میں مصروف نہیں رہ سکتا اسے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے کوئی نہ کوئی ذریعہ معاش اپنانا پڑتا ہے۔ لین دین، شادی بیاہ اور دیگر روزمرہ معاملات میں جب وقت صرف کرنا پڑتا ہے تو یقینا ذکر کی کوئی ایسی صورت ہے جسے ان سب کاموں میں مشغول ہوتے ہوئے انسان اختیار کر سکتا ہے اور اسکا اپنانا فرض بھی ہے۔ ذکر کی وہ کونسی صورت ہے؟ اس کے متعلق سورۃ الاعراف کی آیت نمبر 205 میں اللہ ربّ العزت کا فرمان ہے:
ترجمہ: ’’اور صبح و شام ذکر کرو اپنے ربّ کا سانسوں کے ساتھ، عاجزی اور خوف سے، بغیر آواز نکالے اور صبح شام ذکر کرو اور غافلین میں سے مت بنو۔‘‘
مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
٭ ’’ اسمِ اللہ ذات کی طلب کرنا اور پھر اس کا ذکرو تصور کرنا ہر مومن اور مسلمان کے لیے لازم ہے اس کے بغیر نہ کوئی راستہ ہے اور نہ کوئی منزل۔ جب انسان ذکر و تصور ا سمِ اللہ ذات سے لاپرواہی کرتا ہے تو اس کے وجود پر نفس اور شیطان قبضہ جما لیتے ہیں اور دل و دماغ کو اپنے قبضے اور تصرف میں لے لیتے ہیں اور سارے وجود پر اس طرح غالب آ جاتے ہیں جس طرح ’’ آکاس بیل ‘‘ (عشق پیچاں کی بیل) پورے درخت کو گھیر لیتی ہے ۔ اس طرح انسان کے رگ و پے، ریشے ریشے اور نس نس میں شیطان دھنس جاتا ہے اور اسے حق نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی باطنی روزی (روح کی غذا) تنگ ہوجاتی ہے۔ (شمس الفقرا)
اللہ ربّ العزت جو اپنے بندوں سے بے حد محبت کرتا ہے اور ان پر بے حد و حساب احسانات اور نوازش فرمانے والا ہے اپنے فرمان مبارکہ سے تنبیہ فرما رہا ہے کہ مال اور اولاد کی محبت بہت بڑا فتنہ ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں بندے کو اپنے پروردگار کے ذکر سے غافل کر دیتی ہیں اور جب دل ذکر ِ اللہ سے غافل ہو جائے تو بدن دنیا کے کاموں میں اُلجھ جاتا ہے، رزق کم لگنے لگتا ہے، اپنے بڑھاپے کے لیے بچانے کی فکر بھی لاحق ہونے لگتی ہے اور اولاد کے مستقبل کی فکر بھی دامن گیر رہتی ہے۔ اولیا اللہ دل کی اس حالت کو ’’نفاق‘‘ کانام دیتے ہیں۔ اس کے برعکس جب بندہ دنیا کے کاموں میں بھی لگا رہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر میں بھی مشغول رہے تو مرشد کامل اکمل کی باطنی رہنمائی سے مال اور اولاد کی محبت اور خواہشاتِ نفس کے تقاضے کبھی بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی پر مجبور نہیں کرسکتے اور حال یہ ہوجاتا ہے کہ بندہ انہی دو چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرکے صدیقین کے اعلیٰ درجے میں پہنچ جاتا ہے۔ ہماری جان، مال، صحت، علم، صلاحیت اور اولاد غرض ہر چیز تو اللہ تعالیٰ کی عطا کی ہوئی ہے اور وہی اس بات کا زیادہ حق رکھتا ہے کہ ہرچیز کو اسی کی مرضی کے مطابق اس کی راہ میں استعمال کیا جائے اور کسی بھی چیز کو اپنی ذاتی ملکیت تصور نہ کیا جائے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَاَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ ۔(البقرہ۔195 )
ترجمہ: ’’اور راہ ِ خدا میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
’’انفاق‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’خرچ کرنا‘‘۔ عام طور پر خرچ کرنے کو صرف مال خرچ کرنے کے مفہوم میں ہی لیا جاتا ہے جبکہ کسی کام میں اپنی صلاحیتیں، مال، جان، وقت وغیرہ صرف کرنا بھی انفاق کے مفہوم میں آتا ہے۔ انفاق ایک ایسی صفت ہے جس کو اپنانے سے بندے میں ایثار، قربانی اور استغنا کی کیفیات بھی پیدا ہوتی ہیں جو بندے کو اللہ ربّ العزت کے مزید قریب کر دیتی ہیں۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’ تم ہرگز بھلائی کو نہ پہنچو گے جب تک راہ ِ خدا میں اپنی پیاری چیز خرچ نہ کرو اور تم جو کچھ خرچ کرو اللہ کو معلوم ہے۔‘‘( آلِ عمران۔ 92 )
پیاری تو انسان کو اپنی جان بھی بہت ہوتی ہے نازاں توا نسان اپنی صلاحیتوں پر بھی بہت ہوتا ہے۔ اپنی رقم کو اپنی اولاد اور اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے بے دریغ خرچ کرتا ہے اور جہاں معاملہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا آجائے تو اکثر قدم لڑکھڑانے لگتے ہیں اور حوصلے جواب دے جاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فرمان کے مطابق کوئی بھلائی کو نہیں پہنچ سکتا جب تک اپنی سب سے پیاری اور محبوب چیز کو اس کی راہ میں قربان نہ کر دے۔ مفسرین کے مطابق بھلائی سے مراد اللہ تعالیٰ کا قرب (تقویٰ)، فرمانبرداری اور اوصافِ حمیدہ ہیں۔ روایت ہے کہ حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہٗ مدینے میں بڑے مالدار تھے انہیں اپنے اموال میں ’’بَیْرُحاء‘‘ نامی ایک باغ بہت پسند تھا جب یہ آیت نازل ہوئی تو انہوں نے بارگاہ ِ رسالت میں کھڑے ہو کر عرض کی کہ مجھے اپنے اموال میں ’’بَیْرُحَاء‘‘ باغ سب سے زیادہ پیارا ہے میں اسی کو راہِ خدا میں صدقہ کرتا ہوں ۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس اعلان پر مسرت کا اظہار فرمایا اور پھر حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہٗ نے سرکارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اشارے پر وہ باغ اپنے رشتہ داروں میں تقسیم کردیا۔
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بارہا مومنوں کو انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔ سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ:’’ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائو اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اللہ نے تمہیں اپنا نائب (اور امین) بنایاہے۔ پس تم میں سے جو لوگ ایما ن لائے اور انہوں نے خرچ کیا ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔‘‘ (الحدید۔7)
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نے خود کو زمین و آسمان کا مالک قرار دے کر بڑے عمدہ انداز میں انفاق کی ترغیب دلائی :
ترجمہ: ’’ اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے۔ (الحدید۔ 10)
علامہ قرطبی رحمتہ اللہ علیہ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
٭ ’’ تمہیں کون سی چیز اللہ کے راستے میں خرچ کرنے سے روک رہی ہے حالانکہ تم مرنے والے ہو اور تم اپنا مال اپنے پیچھے چھوڑ جائو گے ۔اور یہ مال بھی اللہ ہی کی طرف لوٹ جائے گا۔‘‘
روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا :
٭ تم میں سے کون ہے جسے اپنے مال سے زیادہ اپنے وارث کا مال پیارا ہو؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)! ہم میں سے کوئی ایسا نہیں جسے اپنا مال زیادہ پیارا نہ ہو‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’پھر اس کا مال وہ ہے جو اس نے (موت سے) پہلے (اللہ کے راستے میں) خرچ کیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو وہ چھوڑ کر مرا۔‘‘ (صحیح بخاری)
انسان کو اپنی آنے والی نسل کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے اور وہ یہی چاہتا ہے کہ ان کے لیے جو کچھ ہو سکے کر لے جبکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان کے مطابق انسان کو فائدہ صرف اسی مال سے پہنچتا ہے جو وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اس کی رضا اور قرب پانے کے لیے خرچ کرتا ہے ۔ جو مال وہ اولاد یا رشتہ داروں کے لیے چھوڑ جاتا ہے اس سے صرف اسی صورت میں فائدہ پہنچے گا اگر اس کے ورثا اسے نیکی اور بھلائی میں خرچ کریں گے اور اگر صورتِ حال اس کے برعکس ہوئی تو اس کا مال اس کے لیے وبال بن جائے گا۔
آج ہمارے معاشرے میں جب انفاق فی سبیل اللہ کا لفظ بولا جاتا ہے تو عموماً لوگ یہ مراد لیتے ہیں کہ یہ مالداروں پر ضروری ہے، غریب افراد اس سے مستثنیٰ ہیں۔ حالانکہ اس لفظ میں غریب و امیر سب شامل ہیں اور یہ سوچ غلط ہے کہ ہم مال نہیں رکھتے تو انفاق کیسے کریں۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندوں کا عشق ہی دیکھنا چاہتا ہے کہ وہ اپنی ضروریات کے ہوتے ہوئے بھی کس طرح اس کی راہ میں خرچ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مقدار کو نہیں بلکہ اخلاص کو معیار بنایا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان مبارک ہے:
ترجمہ: جہنم کی آگ سے بچو خواہ ایک کھجور کے آدھے حصے کے ذریعے کیوں نہ ہو۔
ایک اور موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’روزانہ صبح کے وقت دو فرشتے اترتے ہیں ایک دعا کرتا ہے اے اللہ! خرچ کرنے والوں کو بدل عطا فرما۔ دوسرا دعا کرتا ہے اے اللہ! روک کے رکھنے والوں کا مال برباد کر۔‘‘(متفق علیہ، مشکوٰۃ المصابیح)
حضرت اسماء بنت ِ ابوبکر صدیق ؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان سے ارشاد فرمایا کہ (خوب) خرچ کیا کر (اللہ کی راہ میں) اور شمار نہ کر یعنی گنتی نہ کیا کر (اگر ایسا کرے گی) تو اللہ تعالیٰ تجھ پر بھی محفوظ کر کے رکھے گا (یعنی کم عطا کرے گا) خرچ کر جتنا بھی تجھ سے ہوسکے ۔ (کنزالعمال)
قرآن و حدیث میں اللہ کی راہ میں اس کی رضا اور خوشنودی کے لیے مال خرچ کرنے کا حکم بار بار آیا ہے بعض جگہ مال کمانے کے فضائل بھی آئے ہیں لیکن مال جمع کرنے کا حکم کہیں بھی نہیں آیا اور نہ ہی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مال جمع کرنے کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے کہ بلکہ ضرورت سے زائد مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اپنی اور اپنے اہل واعیال کی جائز ضروریات سے زائد مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو ’’ انفاق بالعفو‘‘ کہا گیا ہے۔ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
وَیَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَط قُلِ الْعَفُوَط(البقرہ۔ 219)
ترجمہ: ’’ اور جو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کتنا مال خرچ کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرما دیجئے جتنا (ضرورت سے) زائد ہو۔‘‘
قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے بخل کی مذمت انتہائی سخت الفاظ میں فرمائی ہے۔ سورۃ محمد میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’ ہاں تم لوگ ایسے ہو کہ تم کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے بلایا جاتا ہے پھر بعض تم میں سے وہ ہیں جو بخل کرتے ہیں اور جو شخص بخل کرتا ہے تو وہ خود اپنے سے بخل کرتا ہے اور اللہ تو بے نیاز ہے (یعنی کسی کا محتاج نہیں)اور تم سب محتاج ہو اور اگر تم (بخل کر کے اس کے حکم سے) روگردانی کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری جگہ دوسری قوموں کو پیدا فرما دے گا پھر وہ تم جیسے نہ ہوں گے۔‘‘
قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: (اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم!) آپ ( ان سے) فرما دیں کہ اگر تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے عزیز و اقارب، تمہارا کمایا ہوا مال، تمہارے وہ کاروبار جن کے کمزور ہوجانے کا تم کو خوف ہے اور تمہارے پسندیدہ مکانات و گھر تم کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اسکی راہ میں مجاہدہ و ریاضت سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ (عذاب) تمہارے سامنے لے آئے۔اورا للہ تعالیٰ فاسق لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔(التوبہ۔24)
مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس سلسلے میں فرماتے ہیں:
٭ کوئی مومن ایسا نہیں ہے جو یہ دعویٰ نہ کرتا ہو کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز سے زیادہ محبوب رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ واقعی اس پر عمل پیرا بھی ہے ۔ لہٰذا ان کے اس دعویٰ کے ثبوت کی ضرورت پیش آجاتی ہے تاکہ ہر کوئی اپنے بے حاصل دعویٰ پر مغرور و نازاں نہ ہو بیٹھے او ر مال و دولت چونکہ آدمی کے محبوبوں میں سے ایک محبوب ہے لہٰذا آدمی کو اس کے ذریعے آزمایا گیا ہے اور کہہ دیا گیا ہے ’’اگر تو اپنے دعویٰ ِ محبت میں سچا ہے تو آ! اور اللہ کی دوستی کی راہ میں اس ایک محبوب ہی کو قربان کر کے تو دکھا ۔‘‘ پس جو لوگ اس راز سے آگاہ ہوگئے وہ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے ۔ ایک گروہ صدیقوں کا ہے جو کچھ پاس تھا قربان کر دیا اورکہا کہ نصاب کے مطابق دو سو درہم میں سے صرف پانچ درہم دینا تو بخیلوں کا کام ہے، ہم پر تو یہی واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دوستی پر وہ سب کچھ قربان کردیں جو کچھ پاس ہے جیسا کہ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے کیا کہ سارا مال و اسباب اٹھا لائے اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا کہ اپنے بیوی بچوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو کہا’’ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔‘‘
اور ایک گروہ وہ تھا کہ جنہوں نے آدھا مال دیا جیسے کہ حضرت عمر فاروق ؓ آدھا مال لائے اور جب ان سے پوچھا گیا کہ بیوی بچوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ تو کہا اتنا ہی جتنا یہاں لایا ہوں۔ اس پر رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : ’’ تم دونوں کے درجوں میں بھی وہی فرق ہے جو تمہارے کلمات میں ہے۔‘‘اس دوسرے گروہ میں وہ لوگ آئے ہیں جو بیک وقت سب کچھ خرچ نہیں کرتے اور نہ اس کی طاقت ان میں ہوتی ہے لیکن وہ ہمیشہ خیال رکھتے ہیں اور فقرا کی حاجت روائی کے منتظر رہتے ہیں اور کسی نہ کسی وجہ سے خیرات کرتے رہتے ہیں اور اپنے آپ کو درویشوں کے برابر تصور کرتے ہیں اور صرف زکوٰۃ دینے پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ جو درویش بھی ان کے ہاں چلا آئے اسے اپنے بال بچوں کے برابر سمجھتے ہیں۔ اور ایک گروہ ان لوگوں کا ہے جن میں اس سے زیادہ استطاعت نہیں ہوتی کہ نصاب کے مطابق اپنے مال میں سے مقرر کردہ زکوٰۃ دیں۔ وہ صرف زکوٰۃ کے فریضہ کی ادائیگی پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور زکوٰۃ کے حکم کو خوشی خوشی بلاتا خیر بجا لاتے ہیں اور درویشوں پر کسی طرح کا احسان نہیں دھرتے۔ اگرچہ زکوٰۃ دینے والوں کا یہ آخری (یعنی کمترین) درجہ ہے۔ وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے صاحب ِنصاب بنایاہے لیکن اس کا دل دوسو درہم میں سے پانچ درہم بھی راہِ خدا میں دینے کی اجازت نہیں دیتا اللہ تعالیٰ کی دوستی اور محبت میں اس کا کوئی حصہ نہیں ہے وہ محبت ِالٰہی سے بالکل محروم ہے۔ ویسے جو شخص نصاب کے مطابق زکوٰۃ دینے سے زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرسکتا اس کی دوستی بھی بہت ضعیف ہے اور اللہ تعالیٰ کے دوستوں میں وہ سب سے بخیل دوست ہے۔
قرآنِ حکیم میں زکوٰۃ و صدقات ہم معنی الفاظ کے طور پر استعمال ہوئے ہیں یعنی صدقہ زکوٰۃ کو کہتے ہیں او ر زکوٰۃ کا دوسرا نام صدقہ ہے۔ زکوٰۃکی ادائیگی اللہ پاک نے فرض قرار دی ہے صدقہ کا دوسرا معنی خیرات ہے جو فرض نہیں نفل ہے۔ صدقہ خواہ فرض ہو یا نفل‘ جب اخلاص سے اللہ کے لئے دیا جاتا ہے تو خواہ ظاہر کر کے دیا گیا ہو یا چھپا کے‘ دونوں صورتوں میں جائز ہے ۔ لیکن فرض صدقہ ظاہر کر کے دینا افضل اور اعلیٰ ہے اور نفل صدقہ چھپا کر، لیکن اگر نفل صدقہ دینے والا دوسروں کو خیرات کی ترغیب دینے کے لیے ظاہر کر کے دے تو یہ اظہار بھی افضل ہے۔ جیسا کہ ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’اگر خیرات و صدقات اعلانیہ دو تو کیا اچھی بات ہے اور اگر چھپا کر فقرا کو دو تو یہ تمہارے لئے سب سے بہتر ہے اور اس سے تمہارے گناہ کم ہوجائیں گے اوراللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے۔‘‘
یہ حکم قرآنِ حکیم میں 14 جگہوں پر آیا ہے زکوٰۃ و صدقات کن لوگوں پر خرچ کرنا ہے اس کا اعلان بھی قرآنِ پاک میں ان الفاظ کی صورت میں موجود ہے:
ترجمہ: بے شک صدقات تو فقرا، مساکین اور عاملین (زکوٰۃ اکٹھا کرنے والے)، قلوب کی تالیف، گردنیں چھڑانے، قرض داروں کے قرض ادا کرنے میں، اللہ کی راہ اور مسافروں کے لیے ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے فرض کیے گئے ہیں اور اللہ علم حکمت والا ہے۔ (التوبہ۔60 )
اس حکم کے تحت زکوٰۃ و صدقات کے خرچ کی آٹھ مدیں بنتی ہیں:
لِلْفُقَرَآءِ ۔۔۔ فقراء فقیر کی جمع ہے اور اس سے مراد وہ ولی ٔ کامل ہے جو فنا فی اللہ ہو چکا ہو جیسا کہ سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 273 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:لِلْفُقَرَآءِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ ج یَحْسَبُھُمُ الْجَاھِلُ اَغْنِیَآءَ مِنَ التَّعَفُّفِ ج تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمٰھُمْ لَا یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًاط وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ ترجمہ:’’صدقات تو ان فقراء کے لیے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی اللہ کی راہ میں وقف کر دی ہے اور زمین میں چل پھر کر کسبِ معاش نہیں کرتے۔ تم نادان ہو جو انہیں صورت دیکھ کر پہچان نہیں سکتے (یعنی تمہارے پاس نورِ بصیرت نہیں ہے جس سے انہیں پہچان سکو) کہ وہ خوشحال ہیں۔ لوگوں سے لپٹ کر اور گڑگڑا کر سوال نہیں کرتے دراصل صدقہ و خیرا ت کے مستحق یہی لوگ ہیں اور اللہ اسے خوب جانتا ہے۔‘‘
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
٭ ’’ یہ فقرا فنا فی اللہ ہیں جو اللہ کی ذات میں فنا ہو کر مرنے سے پہلے مر جائو کے مرتبہ پر پہنچ چکے ہیں‘‘۔
انہی کے بارے میں سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کا قول ہے’’فقیر وہ نہیں جس کے پاس کچھ نہ ہو بلکہ فقیر وہ ہے جو کہے ہو جا تو ہو جائے۔‘‘
رسالہ قشیریہ میں ہے ’’فقر اللہ کے ولیوں کا شعار اور خواص کا زیور ہے۔ اسے اللہ نے اپنے خاص بندوں مثلاً اتقیا اور انبیا کے لیے پسندیدہ قرار دیا ہے اور فقرا وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں سے منتخب کر رکھا ہے۔ یہ لوگ مخلوق میں سے اللہ تعالیٰ کے راز کے متحمل ہوتے ہیں انہی کی بدولت اللہ تعالیٰ مخلوق کی حفاظت کرتا ہے اور انہی کی برکت سے اللہ انہیں رزق میں وسعت دیتا ہے اور صابر فقیر قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے ہم نشین ہوں گے۔
وَالْمَسٰکِیْنِ۔۔ مساکین سے مراد ساکن مع اللہ رہنے والے یعنی ہر وقت اللہ کی یاد میں رہنے والے لوگ۔ اس لئے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’اے اللہ ! مجھے مسکین بنا کر رکھ اور میرا حشر مسکینوں کے ساتھ ہو۔‘‘ قرآنِ مجید میں مسکینوں کا ذکر کم وبیش 23 مرتبہ آیا ہے ان میں مساکین کو صدقات دینے اور نیک سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْھَا۔۔ کسی اسلامی حکومت میں زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے عملہ پر زکوٰۃ کی رقم خرچ کرنا بھی جائز ہے یعنی اکٹھی ہونے والی زکوٰۃ و صدقات سے ان کی تنخواہیں ادا کی جائیں۔
وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُھُمْ۔۔ کسی غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اس کی تالیف ِ قلب کے لیے زکوٰۃ اور صدقات خرچ کرنے کا حکم ہے۔
وَ فِی الرِّقَابِ۔۔ گردنیں چھڑانے، غلام یا باندی کو آزاد کرنے کے لیے زکوٰۃ و صدقات خرچ کرنے کا حکم ہے۔ اس دور میں کسی قیدی کو چھڑانے کے لیے ایسا کیا جاسکتا ہے۔
وَالْغَارِمِیْنَ۔۔ اگر کوئی قرض میں مبتلا ہو تو زکوٰۃ کی رقم سے اس کا قرض ادا کر کے اس کی جان اس مصیبت سے چھڑائی جا سکتی ہے۔
وَفِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ۔۔اللہ کی راہ میں خرچ کرنا کسی بھی مد میں، جہاد میں، علم ِ حق کی اشاعت میں، دین ِ الٰہی کی تبلیغ میں، کسی کی مدد کے لیے، دین کی سربلندی کے لیے، اللہ کے دین کو غالب کرنے کے لیے، لوگوں کو صراطِ مستقیم کی طرف راغب کرنے کے لیے، اسی طرح کے کسی بھی شعبہ میں خرچ کرنے کا حکم ہے۔
وَابْنِ السَّبِیْلِ ط۔۔مسافروں کی امداد کے لیے خرچ کرنے کا حکم ہے۔
چنانچہ فقرا اور مساکین زکوٰۃ و صدقات کے اوّلین مستحق ہیں۔ فقرا کا ذکر قرآن میں 14 اور مساکین کا 23 مرتبہ آیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو بھی عبادتیں فرض کی ہیں ان سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ بندہ اپنے خالق و مالک کا قرب حاصل کرے ۔ ہر عبادت قربِ الٰہی کا ذریعہ تب ہی بنتی ہے جب اس کی روح کو سمجھ کر اسے دل سے ادا کیا جائے۔نماز کی ایک ظاہری صورت اور آداب ہیں اور ایک حقیقت ہے۔ نماز کی روح حضوریٔ قلب ہے یعنی تمام دنیاوی رشتوں اور علائق سے ٹوٹ کر صرف اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا۔ اسی طرح زکوٰۃ کی بھی ایک صورت اور روح ہے اور زکوٰۃ کی روح دنیاوی مال کی محبت سے آزادی ہے جو بیشک تزکیۂ نفس اور تصفیہ ٔ قلب میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ اگر زکوٰۃ، صدقات اور خیرات کی ادائیگی اس کے تمام ظاہری آداب کے ساتھ کی جائے لیکن اس کی روح کو شامل نہ کیا جائے تو فرض کی برائے نام ادائیگی تو ہوجائے گی لیکن نہ قلب کی پاکیزگی میں یہ عبادت کوئی کردار ادا کرے گی اور نہ ہی قربِ الٰہی کا باعث بن سکے گی۔ اگر زکوٰۃ کی ادئیگی میں اس کی روح بھی شامل ہوگی تو ہی اس کا حقیقی مقصد اور معنی پورے ہوں گے یعنی پاک ہونا، نشوونما پانا اور بڑھنا۔ اس طرح قربِ الٰہی حاصل ہوگا اور مسلمان مومن بن کر زکوٰۃ ِ حقیقی کے اسرار کو سمجھ کر ضرورت سے زیادہ مال اپنے پاس نہیں رکھے گا۔ بعض علمائے ظاہر زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی کی حقیقت یعنی ’’حب ِ مال‘‘ سے نجات کو قطعاً نظر انداز کر کے زکوٰۃ کے ان معنوں (یعنی پاک ہونا، نشوونما پانا، بڑھنا) کو یوں بیان کر تے ہیں کہ زکوٰۃ اور صدقات کی ادائیگی سے مال پاک ہوتا اور مزید بڑھتا ہے اور یوں عوام الناس کو مال کی محبت میں مزید گرفتار کرتے ہیں ۔ وہ زکوٰۃ اور صدقات بھی قربِ الٰہی کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دنیاوی مال کو بڑھانے اور ناپاک طریقے سے کمائے گئے مال کو پاک بنانے کی خاطر ادا کرتے ہیں۔ پس اس عظیم مالی عبادت کی روح کو مجروح کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے اللہ ہمیں زکوٰۃ ِ شرعی، حقیقی صدقہ، خیرات اور عطیات کی ادائیگی اس کی روح کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
عطیات،زکوٰۃ، صدقات اور تحریک دعوت فقر
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس نے 23 اکتوبر 2009ء کو تحریک دعوتِ فقر کا قیام عمل میں لا کر اس تاریک دور میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حقیقی ورثہ فقر کی نعمت عام کی ہے۔
تحریک دعوتِ فقر کا اصول ہے کہ اس میں عام لوگوں سے چندہ وصول نہیں کیا جاتا۔ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا کی ہے وہ خود بخود ہی اور نام نمود سے بے نیاز ہو کر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ اب عوام الناس سے عطیات اور زکوٰۃ کے حصول کے لیے درخواست کی جا رہی ہے اور آپ کو ہماری امداد دل کے مطمئن ہونے کے بعد کرنی ہے کیونکہ دل کے اطمینان کے بعد کیا جانے والا کام ہی اعلیٰ مراتب کا حامل ہوتا ہے۔ یہ یاد رکھیے کہ تحریک دعوتِ فقر کے کسی شعبہ میں اعانت یا مدد کرنا ’’صدقہ جاریہ‘‘ ہے یعنی آپ کسی بھی شعبہ میں جب اعانت یا امداد کریں گے تو آپ کو اس وقت تک اس کا ثواب ملتا رہے گا جب تک وہ چیز اس فانی دنیا میں موجود رہے گی۔ اس کی مثالیں درج ذیل ہیں:
تعمیر مسجد و خانقاہ
تحریک دعوتِ فقر کے تمام شعبہ جات کے دفاتر، مریدین اور عقیدتمندوں کی ظاہری و باطنی تربیت و رہائش کے لیے ایک وسیع و عریض خانقاہ اور مسجد کی ضرورت ہے۔ خانقاہ و مسجد کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فِیْ بُیُوْتٍ أَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ یُسَبِِّحُ لَہٗ فِیْھَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِo (سورۃ النور۔36)
ترجمہ:یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں اسم اللہ کا ذکر کیے جانے کا اللہ نے حکم دیا ہے۔ ان میں (اللہ والے) صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں۔
اس آیت ِ مبارکہ میں ـــ’’یہ وہ گھر ‘‘ سے مراد مسجد اور خانقاہ ہیں۔خانقاہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرشد کامل اکمل اپنی نگاہ ،صحبت اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے طالبانِ مولیٰ کے نفوس کا تزکیہ کرتے ہیں اور ان کی ارواح کو حیاتِ جاوداں عطا کرتے ہیں۔تاریخ ِاسلام کی پہلی خانقاہ اصحابِ صُفَّہ کاوہ مبارک چبوترہ ہے جہاں صحابہ کرامؓ قیام پذیر رہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت ِ پاک میں تزکیۂ نفس اور قربِ الٰہی کی دولت حاصل کرتے رہے۔
اس وسیع و عریض خانقاہ میں عورتوںاور مردوں کے لیے علیحدہ علیحدہ پورشن قائم کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ تحریک دعوتِ فقر کے دیگر شعبہ جات مثلاً نشرو اشاعت، شعبہ ڈیجیٹل پروڈکشن، آئی ٹی (I.T)ڈیپارٹمنٹ کے لیے علیحدہ علیحدہ دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ اس وسیع و عریض خانقاہ میں خانقاہ نشینوں کی رہائش گاہیں، جدید طرز کی لائبریری اور محافل کے لیے ایک بڑا ہال اور لنگر خانہ اور دیگر شہروں سے تشریف لانے والے مہمانوں کے لیے رہائشی کمرے بنائے جائیں گے۔ سب سے بڑھ کر خانقاہ سے ملحقہ ایک خوبصورت اور وسیع مسجد قائم کی جائے گی جس میں خانقاہ نشین اور مریدین عبادت ادا کر سکیں گے۔
اسمِ اللہ ذات
سلسلہ سروری قادری میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن بیعت کے بعد ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتے ہیں اور روحانی ترقی اور بلندی کے لیے اسم محمد عطا کیا جا تا ہے۔ یہ اسمِ اللہ ذات اور اسمِ محمد کثیر رقم سے تیار ہوتا ہے۔ صرف اس کے فریم اور شیشہ کی تیاری پر تین سو (300) روپے خرچ آتا ہے۔ اس کی تیاری میں مدد کرنا بھی صدقہ جاریہ اورعبادت ہے یعنی جو آدمی اسمِ اللہ ذات لے جائے گا وہ جب تک اس کا ذکر و تصور کرتا رہے گا اس کا ثواب آپ کو ملتا رہے گا اور جب تک وہ اسمِ اللہ ذات اس دنیا میں موجود رہے گا اس کا ثواب آپ کو پہنچتا رہے گا۔ اس کے علاوہ بغیر بیعت کے جو چھپا (Printed) ہوا اسمِ اللہ ذات عطا کیا جاتا ہے اس پر کم و بیش 200 روپے لاگت آتی ہے۔
مفت کتب کی تقسیم
ادارہ دعوت و تبلیغ اور تعلیماتِ فقر کو عام کرنے کے لیے اب تک تقریباً60 سے زائد کتب شائع کر چکا ہے جن کی قیمت لاگت سے بھی کم رکھی گئی ہے اور دو کتب ’’حقیقت ِ اسمِ اللہ ذات‘‘ اور ’’مرشد کامل اکمل‘‘ اس سلسلہ میں شائع ہو کر ہزاروں کی تعداد میں مفت تقسیم ہو چکی ہیں۔ ایک کتاب کا خرچہ تقریبا 125 روپے ہے۔ ان کتب کی اشاعت میں مدد بھی صدقہ جاریہ ہے۔ کیونکہ جب تک یہ کتاب موجود رہے گی اور اس کا مطالعہ ہوتا رہے گا اس کا ثواب آپ کو پہنچتا رہے گا۔ اس کے علاوہ ادارہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کی کتب اردو اور انگلش زبان میں بھی شائع کر چکا ہے جس کی قیمت اس کی لاگت کے برابر رکھی گئی ہے تا کہ علمِ معرفت عوام الناس تک پہنچ سکے۔ ان کی اشاعت میں تعاون بھی صدقہ جاریہ ہے۔ ان کے علاوہ بہت سے کتب مالی کمی کی وجہ سے ابھی چھپ نہیں ہوسکیں اور ابھی تیاری کے مراحل میں ہیں۔
ڈاک کے اخراجات:
ایک کتاب کی ترسیل پر تقریباً 55 روپے ڈاک خرچ آتا ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس شعبہ میں آپ کی مالی اعانت سے یہ روحانی کتب عوام الناس تک آسانی سے دستیاب ہوں گی۔
ماہنامہ سلطان الفقر
فقر اور دینِ حق کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے اگست 2006ء سے ماہنامہ سلطان الفقر کا اجرا کیا گیا ہے جس کی قیمت اور سالانہ چندہ لاگت سے بھی کم رکھا گیا ہے۔ یہ ’’جہاد بالقلم‘‘ ہے کیونکہ قلم کے ذریعے دین ِ حق کو عام کیا جا رہا ہے۔ اس کی اعانت اور امداد بھی صدقہ جاریہ ہے۔ اس رسالہ کی کثیر تعداد مختلف سکولز، کالجز، یونیورسٹیز، ریسرچ سینٹرز اور غریب و مفلس لوگوں کو اعزازی طور پر بھیجی جاتی ہے۔ اس میں بھی آپ کا تعاون صدقہ جاریہ ہے۔
مرکزی دفتر اور خانقاہ سلسلہ سروری قادری کے اخراجات
خانقاہ سلسلہ سروری قادری میں ہر وقت کثیر تعداد میں طالبانِ مولیٰ مقیم رہتے ہیں جو ہمہ وقت دین اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے مصروفِ عمل ہیں اور ملک بھر سے مہمانوں کی آمد کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔ مرکزی دفتر اور خانقاہ شریف میں لنگر ہر لمحہ جاری رہتا ہے اور ہر اتوار کو ملک بھر سے آنے والے مہمانوں کے لیے خصوصی لنگر تیار کیا جاتا ہے۔ محافل ِ میلادِ مصطفی، عرس پاک اور دیگر سالانہ تقریبات پر بھی وسیع اخراجات ہوتے ہیں۔ ان اخراجات میں امداد بھی بہت بڑا ثواب ہے۔
آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ
دنیا بھر میں انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں تک دعوتِ اسمِ اللہ ذات پہنچانے کے لیے اس شعبہ نے درج ویب سائٹس تیار کی ہیں:
www.sultan-ul-faqr-publicatiosn.com
www.sultan-ul-faqr-digital-productions.com
www.mahnama-sultan-ul-faqr-lahore.com
ان ویب سائٹس کی ہمہ وقت نگرانی اور ان کو اپ ڈیٹ رکھنے کے لیے ادارہ کو وسیع اخراجات برداشت کرنے پڑ رہے ہیں۔ اس شعبہ میں آپ کا مالی تعاون دین ِ اسلام کو دنیا بھر میں عام کرنے میں مددگار ہوگا۔
داعی
تحریک دعوتِ فقر میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مستقل طور پر اپنے آپ کو اللہ کے دین کے لیے وقف کر رکھا ہے اور ہر لمحہ ہر آن دین ِ حق کی تبلیغ اور دعوت میں مصروفِ کار ہیں اور وہ زمین پر چل پھر کر رزق تلاش نہیں کرتے نہ وہ کسی سے کچھ مانگتے ہیں ان کی امداد بھی صدقہ جاریہ ہے۔
دین کے لیے زندگی وقف کرنے والے
تحریک دعوتِ فقر میں کثیر تعداد میں ایسے لوگ شامل ہیں جنہوں نے دین کی تبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کی ہوئی ہے اور ان کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے ہر لمحہ دین کی خدمت کے لیے حاضر رہتے ہیں ان کی ضروریات کے لیے بھی ہر ماہ کثیر رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ ادارہ اپنی استطاعت کے مطابق ان کی امداد کرتا ہے ان کی امداد کے لیے بھی آپ حصہ ڈال سکتے ہیں۔
رمضان المبارک میں آپ زکوٰۃ، عطیات، صدقات اور فطرانہ جس کو آپ کا دل چاہے دیں یہ آپ کی مرضی، منشا اور آپ کے دل مطمئن ہونے پر منحصر ہے۔ لیکن اگر آپ اس کو تحریک دعوتِ فقر کے شعبہ جات میں لگانا چاہیں تو ہم آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ ان کو اپنے پسندیدہ شعبہ میں لگوائیں یا ادارہ کی مرضی پر چھوڑ دیں اللہ تعالیٰ اجر ِ عظیم عطا فرمائے گا۔ یاد رکھیں قطرہ قطرہ مل کر سمندر بنتا ہے۔
اپنی زکوٰۃ، عطیات اور صدقات منی آرڈر کے ذریعے سلطان الفقر پبلیکیشنز (رجسٹرڈ)کے نام مرکزی دفتر کے پتہ پر بھجوائیں۔
پتہ: سلطان الفقر ہاؤس، 4-5/A۔ ایکسٹینشن ایجوکیشن ٹاؤن وحدت روڈ لاہور پاکستان
آپ اپنے عطیات ایزی پیسہ (Easypaisa)یا موبی کیش (Mobicash) کے ذریعے بھی بھجوا سکتے ہیں اس کے لیے ادارہ کے مندرجہ ذیل نمبروں پر رابطہ کریں:
0321-4507000
0322-4722766
92-42-35436600
خانقاہ میں رمضان المبارک کے ماہ میں اتوار کے دن آپ براہِ راست عطیات ، صدقات اور زکوٰۃ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں پیش کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ فقرا کی خدمت کرنے اور راہِ حق میں مال خرچ کرنے کی زیادہ سے زیادہ توفیق عطا فرمائے تاکہ اللہ کا قرب پایا جا سکے۔ (آمین)
تحریر:فائزہ گلزار سروری قادری (لاہور)