خاموشی کی فضیلت | Khamoshi Ki Fazilat


Rate this post

خاموشی کی فضیلت (Khamoshi Ki Fazilat)

تحریر:فقیہہ صابر سروری قادری (رائیونڈ)

قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مومنین کی جو صفات بتائی ہیں ان میں سے ایک صفت خاموشی (Khamoshi) یعنی فضول اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔ الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ۔  (سورۃ المومنون 1-3)
ترجمہ:تحقیق فلاح پائی ان مومنین نے جو اپنی نماز میں خشوع اختیار کرنے والے ہیں اور جو فضول باتوں سے پرہیز کرنے والے ہیں۔

انسان کے اعضا میں زبان کو بہ نسبت دوسرے اعضا کے خاص اہمیت حاصل ہے۔ اعضائے انسانی میں زبان سب سے اچھی چیز بھی ہے اور سب سے بری چیز بھی۔
زبان سے اللہ ربّ العزت کانام لیا جاتا ہے، اسلام قبول کرنے کے لیے اقرار اسی سے ہوتا ہے، خیر کی دعوت اسی سے دی جاتی ہے اور دوسرے اعضا سے جو نیکیاں کی جاتی ہیں ان میں کسی نہ کسی طرح زبان کی شرکت بھی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس زبان سے کفر کا کلمہ بھی نکلتا ہے، غیبت بھی کی جاتی ہے، جھوٹ بھی بولا جاتا ہے اور فحش گوئی بھی کی جاتی ہے۔ پس زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ خاتم النبیین سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  (Prophet Mohammad pbuh)نے فرمایا:
بندہ اللہ کی رضا مندی کے لیے کوئی کلمہ زبان سے کہہ دیتا ہے اور وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا مگر اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے اور ایک دوسرا بندہ ایسا کلمہ زبان سے نکالتا ہے جو اللہ کی ناراضی کا باعث ہوتا ہے اور اسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی وجہ سے دوزخ میں چلا جاتا ہے۔ (صحیح بخاری6478)
ضرورت سے زیادہ بولنا اور فضول باتیں کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جن سے بہت بڑے بڑے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں اور شر و فساد کے طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
انسان اپنی زبان کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ پھسلتا ہے جتنا وہ اپنے قدم سے پھسلتا ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

بہت سے لوگوں کو بے جا بولنے کی عادت ہوتی ہے وہ خواہ مخواہ دنیا بھر کے فضول قصوں اور ایسی باتوں میں خود کو مگن رکھتے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہوتا۔ زیادہ بولنے والا اگر جائز بات بھی کر رہا ہو تو بولتے بولتے گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے یعنی اس کی زبان سے تھوڑی ہی دیر میں ایسی باتیں نکلنا شروع ہو جاتی ہیں جو بندے اور اللہ کے درمیان دوری کا باعث بنتی ہیں۔ اس لیے بھلائی اسی میں ہے کہ خاموش (Khamosh) رہا جائے۔

سیدّنا غوث الاعظمؓ  (Syedna Ghaus-Al-Azam Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jillani)الفتح الربانی میں فرماتے ہیں:
اے لوگو! بیہودہ آرزوؤں اور حرص کو چھوڑ دو، اللہ کی یاد میں لگ جاؤ، فائدہ دینے والوں سے بات کرو، نقصان دینے والوں سے چپ رہو، جب بات کرنا چاہو تو پہلے اس میں سوچ بچار کر لو، پھر نیک نیتی کے ساتھ بات کیا کرو، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جاہل کی زبان اس کے دل کے آگے ہے اور عاقل و عالم کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے۔
تو چپ سادھ لے۔ اللہ تعالیٰ جب تجھے بلوانا چاہے گا تو بلوائے گا۔ تجھ سے کام لینا چاہے گا تو اس کے لیے تجھے تیار کر دے گا۔
اس کی معیت اور محبت کے لیے گونگا ہونا شرط ہے۔ جب گونگائی کامل ہو جائے، اللہ چاہے تو گویائی مل جائے گی اور اگر وہ چاہے تو آخرت تک گونگا ہی رکھے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) کے درج ذیل ارشاد کا یہی مطلب ہے:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ فَقَدْ کَلَّ لِسَانُہٗ 
ترجمہ: جو اللہ کو پہچان لیتا ہے تحقیق اس کی زبان گونگی ہو جاتی ہے۔
یعنی ہر چیز میں اللہ پر اعتراض کرنے سے اس کے ظاہر و باطن کی زبان بند ہو جاتی ہے۔ جھگڑے کے بغیر وہ ہر کام میں موافق ہو جاتا ہے، ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہتا ہے۔

امام غزالیؒ نے منہاج العابدین میں فضول اور غیر ضروری گفتگو کی چار وجہ سے مذمت فرمائی ہے۔ آپؒ فرماتے ہیں:
فضول گفتگو کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے فرشتے) کو لکھنی پڑتی ہے تو انسان کو چاہیے کہ ان سے حیا کرے اور فضول باتیں لکھنے کی ان کو تکلیف نہ دے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ اچھی بات نہیں کہ فضول اور لغو باتوں سے بھرا ہوا نامۂ اعمال اللہ کی بارگا ہ میں پیش ہو اس لیے فضول اور لغو گفتگو سے بچیں۔
بندے کو قیامت کے روز کہا جائے گا کہ اپنے نامۂ اعمال کو اللہ عزوجل کے حضور تمام مخلوق کے روبرو پڑھ کر سنائے۔ اس وقت حشر کی خوفناک سختیاں انسان کے سامنے ہوں گی، وہ پیاس کی شدت سے تڑپ رہا ہو گا، جسم پر کپڑا تک نہیں ہوگا اور ہر طرح کی راحت اس پر بند کر دی گئی ہو گی۔ ایسے حالات میں اپنے نامۂ اعمال کو پڑھنا جو فضول اور بیہودہ گفتگو سے پُر ہو، کس قدر تکلیف دہ چیز ہو گی۔ اس لیے چاہیے کہ زبان سے سوائے اچھی بات کے کچھ نہ نکالے۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ بندے کو فضول اور غیر ضروری گفتگو پر ملامت کی جائے گی اور شرم دلائی جائے گی۔ بندے کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا اور اللہ تعالیٰ کے سامنے شرم و ندامت کی وجہ سے انسان پانی پانی ہو جائے گا۔ (منہاج العابدین)

لہٰذا فضول گوئی سے بچنا نہایت ضروری ہے کیونکہ بہت سی فضول باتیں بولنے والے کو جہنم میں پہنچا دیتی ہیں اس لیے بزرگوں نے فرمایا ہے کہ تین عادتوں کو لازم پکڑو؛ کم بولنا، کم سونااور کم کھانا۔
زیادہ بولنا، زیادہ کھانا اور زیادہ سونا یہ تینوں عادتیں انتہائی خطرناک ہیں اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) نے خاموشی (Khamoshi) کو پسند فرمایا ہے اور اپنی تصانیف میں خاموشی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپؒ خاموشی (Khamoshi) کی فضیلت کے بارے میں فرماتے ہیں:
جب قلب ذکر ِاللہ کی بدولت اللہ کا نام یااللّٰہ  پکارتا ہے تو اسے گویائی عطا ہوتی ہے اور اس کی ظاہری زبان گفتگو سے باز رہتی ہے۔ جو ہر لمحہ اللہ کے ساتھ محو ِگفتگو رہے وہ خواہشاتِ نفس سے گفتگو نہیں کرتا بلکہ اس کے لب خاموش (Khamosh) رہتے ہیں۔
عارف خاموش رہتے ہیں، خاموشی میں ستر ہزار حکمتیں ہیں اور ہر حکمت میں مزید ستر ہزار حکمتیں ہیں اور حکمت معرفتِ اِلَّا اللّٰہ  اور حکمِ الٰہی کو کہتے ہیں۔
آپؒ فرماتے ہیں کہ فقیر خاموش (Khamosh) رہتے ہیں وہ مراتب کُل پر ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث میں آیا ہے’’جسے اللہ مل گیا اسے کل (سب کچھ) مل گیا۔‘‘ (کلید التوحید کلاں)

خاموشی کی اقسام

حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں:
خاموشی مختلف قسم کی ہوتی ہے بعض مردہ دل والوں کی خاموشی مکرو فریب اور تقلید کی غرض سے ہوتی ہے اور بعض کی خاموشی (Khamoshi) معرفت اِلَّا اللّٰہ اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

خاموشی (Khamoshi) کی چار قسمیں ہیں؛ پہلی قسم کی خاموشی اہل ِدنیا، متکبر اور ظالم لوگوں کی ہے جو تکبر اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے غریب، عاجز، مظلوم، مسکین اور فقیروں سے ہمکلام نہیں ہوتے۔ خاموشی کی دوسری قسم وہ لوگ اختیار کرتے ہیں جن کا مقصد اپنے عیبوں کو چھپانا ہوتا ہے۔ وہ خاموشی (Khamoshi) کی آڑ میں خود فروشی اور دکانداری کرتے ہیں۔ ایسے دکاندار ظاہر میں جمعیت سے آراستہ نظر آتے ہیں لیکن ان کا باطن معرفت سے محروم اور پریشان حال ہوتا ہے۔ اس کی درویشی سراسر مکر و فریب ہوتی ہے۔ جان لو کہ ان کی خاموشی، حلیمی سلیمی اور علم درحقیقت لوگوں کو پھانسنے کا جال ہے اور ازروئے تکبر ہوتی ہے۔ تیسری قسم کی خاموشی ان لوگوں کی ہے جن کا قلب تفکر، ذکر، فکر، مراقبہ اور اللہ کی جانب متوجہ رہنے سے زندہ ہو جاتا ہے۔ یہ وہ قلب ہے جو اللہ سے پیوست ہے وہ اپنے قلب سے الہام اور روزِ الست کے کن فیکون کے پیغام حاصل کرتے ہیں ان کی خاموشی اس وجہ سے ہے کہ ان کی آنکھیں عین العیان دیدار میں مست ہیں اور وہ قربِ رحمن میں جڑے ہوتے ہیں۔ چہارم خاموشی (Khamoshi) ان لوگوں کی ہے جن کی جان بے حجاب دیدار کی وجہ سے کباب ہو گئی ہے اور وہ خونِ جگر پیتے ہیں۔ یہ لوگ نفس، دنیا اور شیطان کو فراموش کر کے معرفتِ الٰہیہ میں محو رہتے ہیں۔ جو طالب توحیدِالٰہی میں غرق اور نورِ ذات کے دیدار سے مشرف ہوتا ہے اس کے لیے اس طرح کی خاموشی فرضِ عین ہے اور اس کی یہ خاموشی اللہ کے ساتھ خلوت ہوتی ہے۔ بہت زیادہ بولنا اور بے معنی کلام رجعت کا پیش خیمہ ہے۔ (قربِ دیدار)

ظاہری خاموشی (Khamoshi) کی ایک قسم اور بھی ہے جو کہ بظاہر تو اتنی خطرناک نہیں لیکن باطنی ترقی میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ طالب بظاہر تو خاموش ہوتا ہے لیکن باطن میں اس کی سوچوں کا رخ مسلسل دنیا اور دنیاوی معاملات کی طرف رہتا ہے۔ اگر باطن میں اللہ سے گفتگو کر بھی رہا ہے تو صرف دنیاوی معاملات کے متعلق اور دنیا کے گلے شکوے چل رہے ہیں یا پھر دنیاوی خواہشات کا ذکر۔حضرت سخی سلطان باھوؒ  (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)فرماتے ہیں:

ہر کہ گوید غیر او شد خر آواز
خاموشی خلوت خانہ شد حق براز

ترجمہ: جو شخص غیر اللہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس کی آواز گدھے کی مثل ہے، تنہائی کے گوشے میں لب بستہ ہونا اللہ کے ساتھ راز داری ہے۔

سر ز تن گردد جدا سخنش مگو
عارفان ہمسخن با حق گفتگو

ترجمہ: عارفوں کا سر تن سے جدا کر دیا جائے تب بھی وہ غیر اللہ کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہم سخن رہتے ہیں اور اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔
زیادہ بولنے سے دل سخت ہو جاتا ہے جبکہ مومن کا دل نرم ہو تا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں:
خاموشی (Khamoshi) عبادت کی کلید ہے۔ خاموشی جنت کا مکان ہے۔ خاموشی (Khamoshi) اللہ کی رحمت ہے۔ خاموشی شیطان سے (بچاؤ کا) حصار ہے۔ خاموشی (Khamoshi) انسان کے لیے بھلائی ہے۔ خاموشی  انبیا کی سنت ہے۔ خاموشی آگ سے نجات کا باعث ہے۔خاموشی اللہ کے قرب کا باعث ہے۔ خاموشی نورِ توحید میں استغراق ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

حاصل تحریر

یونانی دانشور بقراط نے ایک شخص کو بہت زیادہ بولتے سنا تو کہا ’’اے فلاں! اللہ عزو جل نے انسان کے لیے زبان ایک اور کان دو بنائے ہیں تا کہ بولے کم اور سنے زیادہ۔‘‘
راہِ فقر میں خاموشی (Khamoshi) کو خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ بنیاد ہے کیونکہ خاموش رہنے سے ہی غوروفکر حاصل ہوتا ہے اور غورو فکر سے ہی مقصد ِ حیات کو پایا جا سکتا ہے۔
خاموشی (Khamoshi) ایک ایسی عبادت ہے جس کو فرشتے لکھ نہیں سکتے، شیطان اسے بگاڑ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کوئی جان نہیں سکتا۔ خاموشی (Khamoshi) کو ہی اپنا شعار بنانا چاہیے تاکہ انسان شرِزبان سے محفوظ رہے کیونکہ اگر لوگ اپنی گفتگو سے غیبت، بہتان، تہمت اور جھوٹ وغیرہ نکال دیں تو باقی صرف خاموشی رہ جاتی ہے جو کہ بہترین عبادت ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ہر حالت اور ہر صورت خاموشی اختیار کرنا بہتر اور نجات کا ذریعہ ہے کیونکہ زبان کی آفتیں اَن گنت ہیں اور ان سے بچنا سخت مشکل ہے۔ لہٰذا اس زبان کو بند ہی رکھا جائے تو بہتر ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
’’زبان کی جسامت تو بہت چھوٹی ہے مگر اس کے گناہ بڑے بڑے ہیں۔‘‘

اللہ پاک ہمیں اچھی باتیں کرنے اور فضول، لغو اور فحش گفتگو سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب:
۱۔الفتح الربانی؛ تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ (Syedna Ghaus-Al-Azam Hazrat Sheikh Abdul Qadir Jillani)
۲۔کلید التوحید کلاں؛ تصنیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra)
۳۔قربِ دیدار؛ ایضاً
۴۔منہاج العابدین؛ تصنیف امام غزالیؒ
۵۔زبان کی حفاظت؛ تصنیف محمد عاشق الٰہی


43 تبصرے “خاموشی کی فضیلت | Khamoshi Ki Fazilat

  1. خاموشی ایک ایسی عبادت ہے جس کو فرشتے لکھ نہیں سکتے، شیطان اسے بگاڑ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کوئی جان نہیں سکتا۔❤

  2. انسان اپنی زبان کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ پھسلتا ہے جتنا وہ اپنے قدم سے پھسلتا ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

  3. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام (Prophet Mohammad pbuh) نے فرمایا:
    انسان اپنی زبان کی وجہ سے اس سے بھی زیادہ پھسلتا ہے جتنا وہ اپنے قدم سے پھسلتا ہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان)

  4. حضرت سخی سلطان باھوؒ (Hazrat Sakhi Sultan Bahoo ra) فرماتے ہیں:
    خاموشی مختلف قسم کی ہوتی ہے بعض مردہ دل والوں کی خاموشی مکرو فریب اور تقلید کی غرض سے ہوتی ہے اور بعض کی خاموشی (Khamoshi) معرفت اِلَّا اللّٰہ اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

  5. ہر کہ گوید غیر او شد خر آواز
    خاموشی خلوت خانہ شد حق براز
    ترجمہ: جو شخص غیر اللہ کے بارے میں گفتگو کرتا ہے اس کی آواز گدھے کی مثل ہے، تنہائی کے گوشے میں لب بستہ ہونا اللہ کے ساتھ راز داری ہے۔

  6. سر ز تن گردد جدا سخنش مگو
    عارفان ہمسخن با حق گفتگو
    ترجمہ: عارفوں کا سر تن سے جدا کر دیا جائے تب بھی وہ غیر اللہ کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ ہم سخن رہتے ہیں اور اسی کے متعلق گفتگو کرتے ہیں۔
    زیادہ بولنے سے دل سخت ہو جاتا ہے جبکہ مومن کا دل نرم ہو تا ہے۔

  7. بہت پیارا مضمون ہے ماشاءاللہ❤❤❤🌹🌹🌹

  8. اعضائے انسانی میں زبان سب سے اچھی چیز بھی ہے اور سب سے بری چیز بھی۔

  9. زیادہ بولنا، زیادہ کھانا اور زیادہ سونا یہ تینوں
     عادتیں انتہائی خطرناک ہیں اور ان عادتوں کی وجہ سے انسان دین و دنیا میں ضرور نقصان اٹھاتا ہے۔ 

  10. خاموشی ایک ایسی عبادت ہے جس کو فرشتے لکھ نہیں سکتے، شیطان اسے بگاڑ نہیں سکتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا اسے کوئی جان نہیں سکتا۔

  11. المدد یا شبیہ غوث الاعظم دستگیر🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

  12. ماشااللہ انتہائی خوبصورت آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔🤲❤❤💝💝

  13. ضرورت سے زیادہ بولنا اور فضول باتیں کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی زبان سے نکل جاتی ہیں جن سے بہت بڑے بڑے فتنے پیدا ہو جاتے ہیں اور شر و فساد کے طوفان کھڑے ہو جاتے ہیں۔

  14. اللہ پاک ہم سب کو خاموشی کی توفیق عطا فرمائے

  15. زیادہ بولنے سے دل سخت ہو جاتا ہے جبکہ مومن کا دل نرم ہو تا ہے۔

  16. راہِ فقر میں خاموشی (Khamoshi) کو خاص اہمیت حاصل ہے بلکہ یہ بنیاد ہے کیونکہ خاموش رہنے سے ہی غوروفکر حاصل ہوتا ہے اور غورو فکر سے ہی مقصد ِ حیات کو پایا جا سکتا ہے۔

  17. خاموشی جنت کا مکان ہے۔
    خاموشی اللہ کی رحمت ہے۔

  18. قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے کامیاب مومنین کی جو صفات بتائی ہیں ان میں سے ایک صفت خاموشی یعنی فضول اور لغو باتوں سے پرہیز کرنا ہے۔ خاموشی جنت کا مکان ہے۔ خاموشی اللہ کی رحمت ہے۔ خاموشی شیطان سے بچاؤ کا حصار ہے۔ خاموشی انبیا کی سنت ہے۔ خاموشی آگ سے نجات کا باعث ہے۔ خاموشی اللہ کے قرب کا باعث ہے۔
    #sultanulashiqeen #sultan_ul_ashiqeen #mahnamasultanulfaqrlahore #markazefaqr #tehreekdawatefaqr #tdfblog #urdublog #spirituality #faqr #allah #prophetmohammad #quran #momin #khamoshi #khamoshikifazilat #khamoshi_ki_fazilat

  19. انسان اپنی بدکلامی کی وجہ سے اپنی اہمیت کھو دیتا ہے
    وہی زبان پر انسان اگر قابو پالے تو بہت سی برائیوں سے بچ سکتا ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں