معراجِ مومن معراجِ مصطفیؐ کی روشنی میںMeraj-e-Momin — Meraj-e-Mustafa ki Roshni Main

Spread the love

Rate this post

معراجِ مومن- معراجِ مصطفیؐ کی روشنی میں
Meraj-e-Momin – Meraj-e-Mustafa ki Roshni Main

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

ہر عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور طالبِ مولیٰ کے لیے معراج کا واقعہ خاص اہمیت اور کشش کا حامل ہے اور تمام علما و صوفیا نے اسے اپنی اپنی محبت کے انداز سے بیان کیا ہے۔ کسی نے ظاہر ی حالاتِ معراج کو قرآن و احادیث کی روشنی میں لکھا ہے اور کسی نے باطنی معنوں اور حقائقِ معراج کو بیان کیا ہے۔غرض ہر کسی نے اپنے اپنے باطنی مقام کے مطابق معراج کو سمجھا اور بیان کیا ہے لیکن ساتھ ہی ہر ایک نے اس حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے کہ واقعۂ معراج اس قدر پراسراراور جامع ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نہ ظاہری جسمانی سفر کے حقائق کو بیان کرنے کے لیے الفاظ کافی ہیں نہ باطنی قرب و وصال کی حالت کو لفظوں کا جامہ پہنا کر مکمل طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ عاشق و معشوق کا وہ لامحدود وصال ہے جسے محدود شعور اور محدود قربِ الٰہی حاصل کرنے والے کبھی بیان کر ہی نہیں سکتے۔ جس انتہا تک شبِ معراج قرب و وصالِ الٰہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بحالتِ بیداری جسم و روح کے ساتھ حاصل ہوا اس انتہا تک نہ کوئی پہنچ پایا ہے اور نہ پہنچ پائے گا۔ 

معراج عربی لفظ عَرَجَ  سے ہے جس کا مطلب ہے بلند ہونا یا اونچا ہونا۔ معراج کا مفہوم ہے بلندی یا اونچائی کی جگہ، زینہ، سیڑھی۔ اصطلاحی معنوں میں معراج حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا وہ سفر ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کونین کی حدود سے نکل کر آسمانوں کی بلندیوں سے ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف عروج فرمایا اور اللہ تعالیٰ سے قرب کی اس انتہا پر پہنچ گئے جہاں تک نہ کوئی پہنچ سکا ہے اور نہ پہنچ سکے گا۔سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ الرسالۃ الغوثیہ میں فرماتے ہیں:
رَأَیْتُ الرَّبَّ ثُمَّ سَأَلْتُ عَنِ الْمِعْرَاجِ  قَالَ لِیْ یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ اَلْمِعْرَاجُ ھُوَ الْعَرُوْجُ عَنْ کُلِّ شَیْئٍ سَوَائِیْ وَ کَمَالُ الْمِعْرَاجِ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی   
ترجمہ: میں نے ربّ تعالیٰ کو دیکھا پس میں نے معراج کے متعلق پوچھا ۔ مجھ سے فرمایا ’’اے غوث الاعظمؓ! معراج میرے سوا ہر چیز سے بلند ہو جانا ہے اور معراج کا کمال ’نظر نہ بہکی اور نہ حد سے بڑھی‘ کا مصداق ہو جانا ہے۔  

سیدّنا غوث الاعظمؓ کا یہ فرمانا کہ میں نے ربّ تعالیٰ کو دیکھا آپؓ کی معراج اور عروج کو ظاہر کرتا ہے کہ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کا دیدار کرتے ہوئے دریافت فرمایا کہ معراج کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’معراج میرے سوا ہر چیز سے بلند ہو جانا ہے۔ ‘‘ہر شے میں عالمِ ناسوت، ملکوت اور جبروت بھی شامل ہیں اور عالمِ ناسوت میں واقع ہر مادی شے اور تعلق بھی۔ اس میں انسان کی اپنی ہستی بھی شمار ہوتی ہے۔ یعنی انسان سب سے پہلے اپنی ہستی سے بلند ہو، اس کے فکرو غم سے آزاد ہو جائے اور لذات و شہوات سے قطع تعلق کر لے۔ پھر اپنے سے وابستہ دیگر چیزوں اور تعلقات یا علائق سے بلند ہو جائے یعنی ان کی محبت سے بھی فراغت حاصل کر لے۔ عالمِ ناسوت کی حدود سے بلند ہو کر ملکوت میں پہنچ جائے اور پھر ملکوت کی طرف بھی توجہ نہ کرتے ہوئے جبروت کی طرف سفر کرے اور بالآخر جبروت کے بھی آخری کناروں کو چھو لے۔ تاہم یہ سب سفر اور علائق سے قطع تعلق باطنی طور پر واقع ہوتا ہے نہ کہ ظاہری طور پر۔ صرف محبوبِ ربِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی طرف بلندی اور عروج کا سفر ظاہری طور پر فرمایا۔ نہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پہلے یہ اعزاز کسی کو حاصل ہوا اور نہ آئندہ کسی کو حاصل ہوگا۔ 

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے ظاہری جسم کے ساتھ سفرِ معراج فرمایا اور اس کے لیے براق کو بطور سواری آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حضور بھیجا گیا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کی طرف عروج کے سفر کو ایک طالبِ مولیٰ کس سواری کے ذریعے طے کر سکتا ہے اسکے متعلق علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیفِ مبارکہ ’’شجرۃ الکون‘‘ میں فرماتے ہیں:
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر براق پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا ’’کیا یہ میرے لیے ہے؟‘‘ جبرائیل امینؑ نے فرمایا کہ یہ عشاق کی سواری ہے کہ عشاق برق کی سی تیز رفتاری سے اپنے پروردگار کے حریمِ قدس تک جا پہنچتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مجھے سواری کی کیا حاجت ہے کہ سواری تو منزل پر پہنچنے کا ذریعہ اور وسیلہ ہوتی ہے۔ اس کی ضرورت اُنہیں ہے جن کو قربِ الٰہی کے لیے کسی ذریعہ اور وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے لیے وہ ذریعہ اور وسیلہ تو میری ہی ذات ہے لیکن میرے اور میرے پروردگار کے درمیان تو کسی ذریعے اور وسیلے کی بھی گنجائش نہیں۔ میرا قرب ایسا اعلیٰ اور کامل ہے اگر میں اپنے اور اپنے ربّ کے درمیان کسی شے کو واسطہ بناؤں گا تو وہ میرا اس کے بے حجاب دیدار کا شدید شوق ہوگا، اس سے بلاواسطہ ہمکلامی کی آرزو ہوگی، اس کی ذات میں خود کو فنا کر دینے اور اس کو پا لینے کا پختہ ارادہ ہوگا اور اس رات کی تاریکی کا حجاب میری دلیل ہوگا کہ میرے اور میرے محبوب کے وصل کے لمحات میں کسی کی دخل اندازی کی گنجائش نہیں۔ مجھے کسی تیسرے کی حاجت نہیں۔ اوّل تو میرا ربّ خود میری راہنمائی فرمائے گا اور میری طرف سے اس تک پہنچنے کی کوشش میں یہی چیزیں میرے کام آئیں گی اور مجھے راستہ بتائیں گی کیونکہ یہ میری ذات سے وابستہ ہیں۔ جس طرح اللہ نے مجھے کمال عطا فرمایا ہے اسی طرح مجھ سے وابستہ ہر شے کو بھی کمال عطا فرمایا ہے۔ خواہ وہ میرا عشق ہو یا ارادہ ہو، آرزو ہو یا دلیل ان کی برق رفتاری کے سامنے براق کی کیا حیثیت، اس بے چارے کی کیا مجال کہ اس ہستی کا بوجھ اٹھا سکے جس نے امانتِ الٰہیہ کا وہ بوجھ اٹھا رکھا ہے جس کے اٹھانے سے روزِ اوّل زمین، آسمانوں اور پہاڑوں نے انکار کر دیا تھا اور جس کے سینے میں اللہ کے رازوں کے بے شمار خزانے دفن ہیں۔ اے جبرائیلؑ! آپ یا آپ کی لائی ہوئی سواری مجھے اللہ تک کیسے پہنچا سکتے ہیں کہ آپ تو خود صرف سدرۃ المنتہیٰ تک کے راہی ہیں جبکہ میری منزل تو لامحدود قرب و وِصال ہے۔ آپ کا مقام عالمِ جبروت کی حد تک ہے جبکہ میری منزل عالمِ لاھوت میں واحدانیت اور واحدیت ہے۔ آپ کی اور میری کیا نسبت کہ میرا اپنے ربّ کے ساتھ ایسا تعلق ہے جس میں کسی مخلوق کی گنجائش نہیں۔ جہاں نور علٰی نور  کی کیفیت ہوتی ہے وہاں مخلوق کا داخلہ ممکن نہیں۔ اگر میرے ربّ کی یہ شان ہے کہ لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ  ’’کوئی شے اس کی مثل نہیں‘‘، تو میں اس کا مظہر ہوں، کوئی شے میری مثل کیسے ہو سکتی ہے کہ مجھ میں تو اس کے سوا کچھ موجود نہیں لہٰذا میری آپ سے کیا نسبت ہے! سواری تو فاصلوں کو طے کرنے کے لیے ہوتی ہے جبکہ میرا ربّ تو میری ہی ذات میں میرے باطن میں میرے ظاہر میں ہر لمحہ میرے ساتھ ہے۔ راہنما تو اس کو درکار ہے جسے کسی انجان راستے پر سفر طے کرنا ہو اور راہنما اسے بتائے کہ دائیں جانا ہے یا بائیں اور یہ سب امور تو اس تخلیق کردہ عالمِ ناسوت سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ میرا محبوب تو ان سب باتوں سے ماورا ہے۔ اس کے قرب کے حصول کے لیے جسم کے ذریعے چل کر اس تک نہیں پہنچا جا سکتا اور اس کے قرب کی راہ دائیں، بائیں، آگے، پیچھے کے اشارات کے ذریعے ہرگز نہیں بتائی جا سکتی۔ یہ تو باطن کے اسرار ہیں جس نے باطن کی حقیقی راہ کے اصولوں کو جان لیا وہ ہی سمجھ سکتا ہے کہ اس راہ کا راہنما بھی وہی ہے جو اس راہ کی منزل ہے اور وہ تو شہ رگ سے بھی نزدیک ہے۔ (شجرۃ الکون)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت جبرائیلؑ اور براق کی خوشی کے لیے اور اللہ کے بھیجے ہوئے قاصد اور سواری کو عزت اور قبولیت بخشتے ہوئے براق پر سوار ہو کر بیت المقدس پہنچے۔ چنانچہ پہلا سفر عالمِ ناسوت میں بشری جسم کے ذریعے ہوا۔ بیت المقدس سے پہلے آسمان پر یعنی عالمِ ناسوت کی انتہا سے عالمِ ملکوت کی ابتدا تک سفر دوسرے مرکب (سواری) یعنی روحِ جسمانی کے ذریعے طے ہوا۔ پہلے آسمان سے ساتویں آسمان تک یعنی عالمِ ملکوت کی ابتدا سے انتہا تک جہاں سے عالمِ جبروت کی ابتدا ہوتی ہے، سفر تیسرے مرکب یعنی روحِ نورانی کے ذریعے طے ہوا۔ پھر عالمِ جبروت کی انتہا یعنی سدرۃ المنتہیٰ تک سفر روحِ سلطانی کے ذریعے طے ہوا۔ بباطن یہ سفر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی روحِ  پرُ نور نے طے کیے اور بظاہر ان سواریوں کی صورت کبھی براق کی تھی کبھی نورانی سیڑھی کی تھی کیونکہ یہ انوکھا سفر ایک ہی وقت میں ظاہر میں بھی طے ہو رہا تھا اور باطن میں بھی۔ سدرۃ المنتہیٰ پر پہنچ کر حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ایک قدم بھی آگے بڑھانے سے معذرت کر لی کیونکہ ان کی تخلیق عالمِ جبروت میں ہوئی، یہی ان کا مقام ہے یہی ان کی ابتدا ہے اور یہی انتہا۔ اس سے آگے قربِ حق کی تجلیات کی شدت سہنا سوائے انسانِ کامل کے کسی کے لیے ممکن نہیں چنانچہ آپ علیہ السلام نے یہ کہہ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے رخصت کی اجازت چاہی کہ وَمَا مِنَّا اِلَّا لَہٗ مَقَامٌ مَعْلُوْمٌ  ترجمہ:’’ہم میں سے ہر ایک کے لیے ایک مقررومعلوم مقام ہے جس سے آگے وہ نہیں جا سکتا۔‘ ‘

پس حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سفرِمعراج میں ہر شے سے بالا اور ارفع ہو گئے اور ہر ظاہری و باطنی مقام و مرتبہ سے گزرتے ہوئے قربِ حق میں پہنچے۔ اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ظاہر و باطن میں کسی طرف توجہ نہ کی کیونکہ جب انسان راستے کے مناظر میں کھو جائے تو منزل پر پہنچنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَ مَا طَغٰی (سورۃ النجم۔17)
ترجمہ: نظر نہ بہکی نہ حد سے بڑھی۔  

علامہ ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
یہی معراج کا کمال ہے کہ اس کی انتہا انسان کو اللہ کے قرب کی وسعتوں میں لے جاتی ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا مجھے آواز آئی ’’قریب ہو جا پھر میں قریب ہوا‘‘۔ اگرچہ اس قرب میں فاصلے اور مسافت کا کوئی دخل نہیں کیونکہ ’’فاصلہ‘‘ اور مسافت تو عالمِ خلق کی تخلیق ہے اور عالمِ امر میں جب وجود ہی ایک ہے تو فاصلہ اور مسافت کیا معنی رکھتے ہیں۔ پھر بھی ’’مزید قریب‘‘ ہونے کے حکم سے مراد ہے کہ ذات و صفات کی یکجائی میں عبد اور ھو کی کاملیت کو مزید اور لا محدود کاملیت حاصل ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ کے قول ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّی  ’’پھر وہ اور قریب ہوا‘‘ کے یہی معنی ہیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قابَ قوسین کے مقام تک پہنچے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قرب کی حالت کو الفاظ میں یوں بیان کیا جاسکتا ہے (اگرچہ اس لامحدود وصال کو محدود الفاظ میں سمونا نا ممکن ہے) کہ یہاں نہ مکان ہے نہ زمان ہے نہ وقت ہے نہ عالمِ مخلوقات جو عرش سے فرش تک پھیلا ہوا ہے۔ پس اَوْ اَدْنٰی کے مقام پر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اللہ نے فرمایا ’’آگے بڑھو‘‘ یعنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال ایسا پرُ کیف ہے کہ اللہ اَوْ اَدْنٰی  کا فاصلہ بھی برداشت نہیں کرتا اور ان کے قرب سے سیر نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں ’’اے میرے ربّ! جب آگے پیچھے اوپر نیچے کی جہات ہی ختم ہو چکیں تو میں اپنا قدم کہاں رکھوں۔جواب ملا قدم کو قدم پر رکھ تاکہ ہر کسی کو معلوم ہو جائے کہ میں وقت، زمانے، مکان، دن رات، دائیں بائیں کی جہات کی حدود اور کم زیادہ مقدار کی حدود سے پاک ہوں، نہ مجھے جسموں میں قید کیا جا سکتا ہے نہ بتوں یا مکانوں میں سمویا جا سکتا ہے۔ مجھے پانے کے لیے خود بشر کو جہانوں، زمانوں، مکانوں، جہات اور مقدارات کی حدود سے آزاد ہونا ہو گا ورنہ مجھے پانا ناممکن ہے۔ پھر بھی بشرمجھے نہیں پاتا نہ مجھ تک پہنچتا ہے بلکہ میں ہی اس میں ظاہر ہوکر اسے اپناتا ہوں اور اپنا قرب اسے عطا کرتا ہوں۔ بشر کی مجال نہیں کہ مجھے پا لے۔ وہ محدو د ہے میں لامحدود ۔ وہی مجھ میں فنا ہوتا ہے نہ کہ میں اس میں سماتا ہوں۔ اس کے ہاتھ، پائوں، زبان، جسم جب صرف میرے لیے ہو جاتے ہیں (یعنی بندے کے تمام اعمال،احوال و افعال صرف اللہ کے لیے ہو جاتے ہیں) تو میں اس کو حالتِ فنا دے کر خود اس میں ظاہر ہو جاتا ہوں۔ (شجرۃ الکون)

معراج کا کمال یہ ہے کہ جب انسان مخلوقات میں کسی بھی شے کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور اپنے قلب کو غیر ماسویٰ اللہ ہر شے سے آزاد کر لیتا ہے تب وہ اللہ تعالیٰ کے قرب کی انتہاؤں تک پہنچتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ سے قرب کی اس انتہا پر جب اللہ تعالیٰ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے پوچھا کہ آپ کو کیا تحفہ پیش کیا جائے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی امت کے لیے بھی معراج کا تحفہ مانگا جو کہ نماز کی صورت میں عطا ہوا اور اسی لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے نماز کو معراج سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا:
اَلصَّلٰوۃُ مِعْرَاجُ الْمُؤْمِنِیْنَ 
ترجمہ: نماز مومنین کی معراج ہے۔

 کیونکہ نماز عبد اور معبود کے درمیان رابطے اور ملاقات کا ذریعہ ہے۔ وہ رابطہ جس میں ظاہری حسیات عالمِ محسوسات سے منقطع ہو جاتی ہیں اور باطنی حواس غالب آ جاتے ہیں اور انسان ہر شے سے بلند ہو کر اللہ تعالیٰ کے دیدار میں محو ہو جاتا ہے کیونکہ مومنین کی معراج روحانی طور پر ہی ہوتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظمؓ سے فرمایا:
یَا غَوْثَ الْاَعْظَمْ لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَیْسَ لَہٗ مِعْرَاجٌ عِنْدِیْ وَ ھُوَ الْمَحْرُوْمُ عَنِ الصَّلٰوۃِ 
ترجمہ: اے غوث الاعظمؓ! اس کی نماز ہی نہیں ہوتی جس کی میرے نزدیک معراج نہ ہو اور وہ نماز سے محروم ہوتا ہے۔‘‘

حلف ابنِ ایوبؒ سے کسی نے کہا کہ کیا نماز میں آپ کو مکھی نہیں ستاتی کہ آپ اسے ہٹا دیں۔ فرمایا کہ میں اپنی نماز کو ایسی کسی چیز کا عادی نہیں بنانا چاہتا جو میری نماز کو فاسد بنا دے۔ پوچھنے والے نے کہا کہ پھر آپ اتنا صبر کیسے کر لیتے ہیں؟ فرمایا کہ میں نے سنا ہے کہ فاسق اور مجرم شاہی کوڑوں کے سامنے اُف نہیں کرتے۔ میں تو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑا ہوں (جو سب بادشاہوں کا بادشاہ ہے) تو کیا اس مکھی سے پریشان ہو جاؤں؟

مسلم ابنِ یسارؒ کے بارے میں مشہور ہے کہ جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اپنے گھر والوں سے کہہ دیتے کہ تم آپس میں باتیں کرو میں تمہاری بات چیت کا ایک لفظ بھی نہیں سنوں گا۔ انہی کے بارے میں ایک قصہ یہ بھی ہے کہ وہ شہر کی جامع مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے، نماز کے دوران مسجد کا ایک حصہ منہدم ہو گیا۔ آواز سن کر آس پاس کے لوگ جمع ہو گئے لیکن ان کی نماز میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تب انہیں معلوم ہوا۔

ایک بزرگ کے جسم کا کوئی عضو سڑ گیا۔ اطبا کا مشورہ یہ تھا کہ اس عضو کو کاٹ دیا جائے مگر ان کے لیے یہ تکلیف ناقابلِ برداشت تھی۔ کسی نے بتایا کہ نماز کے دوران چاہے کچھ بھی ہو جائے انہیں خبر نہیں ہوتی۔ چنانچہ نماز کے دوران ان کا وہ عضو کاٹ دیا گیا۔ 

بزرگوں کے مندرجہ بالا واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو نماز میں اس قدر خشوع و خضوع حاصل تھا کہ جب نماز قائم کرتے تھے تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے تھے۔ پس ایسے ہی لوگوں کی نماز معراج والی نماز تھی جس میں ان کا رابطہ و تعلق مخلوق سے قطع ہو کر خالق کے ساتھ جڑ جاتا تھا۔ 

کسی بھی مسلمان کی نماز تب تک معراج والی نماز نہیں بنتی جب تک وہ مومن نہیں بنتا اور حقیقی مومن بننے کے لیے راہِ فقر اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی معرفت اور پہچان حاصل کرنا اور دل میں عشقِ حقیقی کی شمع روشن کرنا ضروری ہے کیونکہ فقر ہی اللہ تعالیٰ کی پہچان اور دیدار کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا دیدار حاصل ہوگا تو نماز معراج والی بنے گی بصورتِ دیگر تو نماز خطرات اور وساوس میں ہی ادا ہوگی۔

دورِ حاضر کے مجدد اور مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے فیضِ فقر کو عام فرما دیا ہے۔ ہر خاص و عام کے لیے دعوت ہے کہ وہ خانقاہ سلطان العاشقین میں حاضر ہو کر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سے اسمِ اللہ ذات کا ذکر اور تصور حاصل کریں تاکہ ہم اللہ کی پہچان حاصل کر کے اپنی باطنی و روحانی معراج کا سفر مکمل کر سکیں۔

استفادہ کتب:
۱۔الرسالۃ الغوثیہ؛ تصنیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۲۔ شجرۃ الکون؛ تصنیف شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں