محبت ِ رسولؐ اور نصرتِ دین Mohabbat-e-Rasool aur Nusrat-e-Deen


4.7/5 - (27 votes)

محبتِ رسولؐ اور نصرتِ دین
 Mohabbat-e-Rasool aur Nusrat-e-Deen

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری۔15)

ابو عقیل زہرہ بن معبد نے اپنے جدِامجد حضرت عبداللہؓ بن ہشام کو فرماتے ہوئے سنا کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمر بن خطابؓ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ عرض گزار ہوئے ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! آپ مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں سوائے اپنی جان کے۔‘‘ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
’’نہیں ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جب تک میں تمہیں تمہاری جان سے بھی محبوب نہ ہو جاؤں تمہارا ایمان مکمل نہیں۔‘‘

اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ عرض گزار ہوئے: ’’اللہ کی قسم! اب آپؐ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:’’اے عمرؓ! اب تمہارا ایمان پورا ہوا۔‘‘ (بخاری۔6632)

حدیثِ مبارکہ سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک صحابہ کرامؓ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے اپنے مال و اولاد، عزت و آبرو، والدین اور اپنی جان سے بڑھ کر محبت نہیں کرتے تھے تو وہ اپنے ایمان کو مکمل ہی نہیں سمجھتے تھے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے لازوال محبت کی وجہ یہ ہے کہ آپؐ کی ذاتِ اقدس ایمان کا بنیادی جزو ہے۔ اس وقت تک کسی مسلمان کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا جب تک وہ نسبت، محبت، تعلق، اطاعت و اتباع، توقیر و تعظیمِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں کامل نہیں ہو جاتا۔ کامل ایمان کا تقاضا یہی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے شدید محبت کرتے ہوئے مادی رشتے ناتے اور فائدے پسِ پشت ڈال کر آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذاتِ اقدس میں فنا ہوا جائے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ (سورۃالاحزاب۔6)
ترجمہـ: یہ نبی (مکرمؐ) مومنوں کے ساتھ اُن کی جانوں سے زیادہ قریب اور حقدار ہیں۔ 

اللہ ربّ العزت نے مزید ایک جگہ فرمایا:
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہ  (سورۃالنسا۔ 80)
ترجمہ: جس نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی اطاعت کی بیشک اس نے اللہ کی اطاعت کی۔
یعنی محبتِ مصطفیؐ محبتِ الٰہی ہے اور اطاعتِ مصطفیؐ اطاعتِ ربانی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ
اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ 
(سورۃ آلِ عمران۔ 31)
ترجمہ:(اے حبیبؐ!) آپؐ فرما دیں اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا۔ 

اتباعِ مصطفیؐ محبتِ الٰہی کا پہلا زینہ ہے۔ اتباعِ مصطفیؐ سے ہی ربّ کی رضا ملتی ہے۔

محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت ، اللہ پاک سے محبت کی دلیل ہے نیز یہ سچے ایمان اور محکم یقین کی علامت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت قلبِ انسانی کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے اور روح کو مادی بیماریوں سے شفا بخشتی ہے۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا تقاضا

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کرنے کی پہلی اور سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ ربّ العزت کے بھی محبوب ہیں۔جب خالقِ کون و مکاں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت ہے تو پھر مومن کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کیوں نہ ہو۔ ایسی مبارک ہستی سے محبت ہونا ایک فطری تقاضا ہے۔ اللہ پاک نے اپنے محبوب کو ایسی قدرو منزلت عطا فرمائی جس کا ثبوت قرآنِ مجید میں جا بجا ملتا ہے۔قرآنِ مجید میں اللہ پاک نے جب اپنے انبیا کرام سے گفتگو فرمائی تو انہیں نام سے مخاطب فرمایا۔مثلاً یَاآدَمْ، یَانُوحْ ، یَااِبرَاھِیمْ لیکن اپنے محبوبؐ کو ان خوبصورت ناموں سے مخاطب فرمایا:
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیْ ، یٰٓاَیُّھَا الرَّسُوْل ، یٰٓاَیُّھَا المْزَمَّلْ۔ 
اللہ پاک نے اپنے محبوبؐ کا بہت زیادہ اکرام فرمایا۔ربِّ کائنات نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاذکر اتنا بلند کیا کہ کلمے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا تذکرہ کیا۔اذان میں بھی اپنے محبوب کا تذکرہ شامل فرمایا۔اسی طرح نماز میں بھی اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کاتذکرہ شامل فرمایا یہی وجہ ہے کہ آج مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک کوئی ملک ایسا نہیں جہاں اذان و اقامت کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ذکر مبارک نہ ہوتا ہو۔اللہ پاک نے اپنے محبوب کو رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا۔ہر مومن زندگی کے ہر موڑ پر نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رحمت کا محتاج نظر آتاہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ساری کائنات کے سردار، سیدّ الاولین و آخرین اور سیدّ الانبیا ہیں۔حضرت جامیؒ نے فرمایا:

یا صاحب الجمال و یا سیدّ البشر
من وجھک المنیر لقد نور القمر
لا یمکن الثنا کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

ترجمہ:اے جمال والے اور سیدّ البشر! تیرے نورانی چہرے سے چاند نور حاصل کرتا ہے۔جیسے تیری حمد و ثنا کا حق ہے ایسی حمد و ثنا کرنا ممکن نہیں بعد اللہ کے سب سے زیادہ بزرگی آپ ہی کے لئے ہے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَ عَزَّرُوْہُ وَ نَصَرُوْہُ وَ اتَّبُعُوا النُّوْرَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ مَعَہٗٓ لا اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃالاعراف۔ 157)
ترجمہ: پس جو لوگ اس (برگزیدہ رسولؐ) پر ایمان لائیں گے اور ان کی تعظیم و توقیر کریں گے اور ان (کے دین) کی مدد و نصرت کریں گے اور اس نور (قرآن) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا ہے وہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ 

اُمتِ محمدیہ کی کامیابی اور فلاح کے لیے اللہ پاک نے اس آیتِ مبارکہ میں چار باتوں کا ذکر فرمایا ہے:
۱۔ حضور نبی کریمؐ پر ایمان لانا
۲۔ حضور نبی کریمؐ کی تعزیر و توقیر بجا لانا
۳۔آپؐ کے دین کی مدد و نصرت کرنا
۴۔قرآنِ مجید کے بتائے گئے طریقہ کار پر پوری طرح کاربند رہنا

 حضور نبی کریمؐ پر ایمان لانا

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لانے کے دو تقاضے ہیں۔پہلا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اطاعت کی جائے، دوسرا تقاضایہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے سب سے بڑھ کر محبت کی جائے۔ پہلی شرط کے مطابق جو احکامِ شریعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لائے ہیں جب تک ان پر دل سے عمل پیرا نہ ہو ا جائے،بندہ مومن نہیں ہو سکتا۔ دوسری شرط محبت ہے کہ کو ئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنی جان سے بھی زیادہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت نہ کرے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے کامل محبت کو کبھی زوال نہیں۔ یہ حیات و ممات سے بے نیاز ہوتی ہے کیونکہ یہ ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔بقول اقبالؐ:

بہ مصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است

ترجمہ: تو محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک خود کو پہنچا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی مکمل دین ہیں۔ اگر تو ان تک نہیں پہنچا تو تیرا سارا دین ابو لہب کا دین ہے۔ (ارمغانِ حجاز)

صحابہ کرامؓ فرماتے ہیں کہ ہم تو صحراؤں میں بھٹکتے پھرتے تھے۔ اللہ پاک نے ہم پر کرم فرمایا کہ ہمیں اپنا محبوب عطا فرما دیا۔ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام جو بھی عمل کرتے تو ہم ان کی پیروی کرتے چلے گئے۔ یوں ہمارا اسلام کامل سے کامل تر ہوتا چلا گیا۔ ہمیں نہ کعبہ کی خبر تھی نہ نماز و روزہ کی، نہ ہی کسی اور شے کا علم تھا۔ ہم نے تو سب کچھ چھوڑ کر صرف دامنِ مصطفیؐ تھام لیا اور جو کچھ مصطفیؐ کرتے رہے ، وہی کچھ ہم کرتے رہے۔اس طرح ہمارا ایمان مکمل ہوتا چلا گیا۔

صحابہ کرامؓ کے ایمان کو اعلیٰ ترین مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تعلقِ عشق کی بنیاد پر ملا ہے۔جو صحابی جس قدر تعظیم و توقیر کرتا ہوا جمالِ نبویؐ پر نثار ہوا اُسی قدر اس کے ایمان کو کمال اور عظمت نصیب ہوئی۔

حضور نبی کریمؐ کی تعزیر و توقیر

ایمان لانے کے بعد سب سے اہم چیز محبوب کی حد درجہ تعظیم و تکریم بجا لانا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَ تُعَزِّرُوْہُ وَ تُوَقِّرُوْہُ ط وَ تُسَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا (سورۃ الفتح۔9)
ترجمہ :تاکہ (اے لوگو) تم اللہ اور اس کے رسولؐ پر ایمان لاؤ اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم )کے دین کی مدد کرو اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی بے حد تعظیم و تکریم کرو اور اللہ کی صبح و شام تسبیح کرو۔

اس آیت میں تُعَزِّرُوْہُ  کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب ہے نصرت و اعانت کرنا، تعظیم و تکریم کرنا۔ 

امام راغب اصفہانی فرماتے ہیں:
’’تعظیم کے ساتھ نصرت کو تعزیر کہا جاتا ہے۔‘‘

ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کی کتاب ’’محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تقاضے اور نصرتِ دین‘‘ میں درج ہے کہ امام راغب اصفہانی کے نزدیک تعزیر سے مراد آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی عظمت میں مبالغہ ہے کہ جتنی بیان کرو اس کی کوئی حد نہیں ہے یہ تعزیرِمصطفیؐ ہے۔یہاں تعظیم اس لیے نہیں کہا کہ تعظیم والدین،اساتذہ اور مشائخ کی بھی کی جاتی ہے۔ایسی تعظیم مصطفیؐ کے لیے جائز نہیں بلکہ ہر شے سے بڑھ کر، ہر احترام سے بڑھ کر، ہر تکریم سے بڑھ کر جو کچھ ہو گا وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعزیر ہو گی۔ تعظیم کے ساتھ ساتھ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ناموس، عصمت اور عظمت کی خاطر میدانِ کارزار میں اُترنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نسبت کا اور آل کا محافظ بن جانا اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعظیم کے ساتھ نصرت کا ڈنکا بجانا تعزیر ہے۔ 

ابنِ منظور افریقی تعزیر کے متعلق بیان کرتے ہیں :
تلوار کے ذریعے کسی کی مدد کیلئے نکل آنا تعزیر کہلاتا ہے۔(بحوالہ کتاب محبتِ رسولؐ کے تقاضے اور نصرتِ دین)

 یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اللہ پاک نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے تعظیم کی جگہ تعزیر کا ارشاد فرمایا ہے۔ اس لیے کہ عرب کی جاہلیت کا دور تھا اور مسلمان کمزور تھے جو نہ حبشہ جانے کے قابل تھے اور نہ ہی مدینہ۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں ہمت اور جرأت عطا فرمائی جس سے انہوں نے ابوجہل و ابولہب کی طاقت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ہجرت کر کے حبشہ بھی گئے اور مدینہ بھی پہنچے۔اسلام کے لیے آواز بھی بلند کی، صحنِ کعبہ میں جا کر نماز بھی ادا کی اور دارِ ارقم میں بیٹھ کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت کے جام بھی نوش کئے۔ابنِ منظور نے واضح کر دیا کہ تعظیم وہ ہے جو ہر کوئی کرتا ہے مگر تعزیر وہ ہے جو محبوب کی محبت میں اپنا سب کچھ لٹا دے، ہر کسی کی ملامت برداشت کرے، ہر حال میں دینِ الٰہی کی نصرت و اعانت کرے اور اس مقصد کی تکمیل میں رکاوٹ بننے والوں کی سرزنش کرے۔ 

صحابہ کرامؓ کی تعزیرِ مصطفیؐ کے مظاہر:

جب اللہ العزت نے ہجرتِ مدینہ کا حکم فرمایا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت علیؓ کو اپنے بستر پر لیٹنے کا حکم فرمایا۔یوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اپنی جان کا نذرانہ آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خاطر بسترِمصطفی پر لیٹ کر پیش کیا۔ تعزیرِمصطفیؐ محض بات نہیں بلکہ حضورؐ کی خاطر دشمنوں کے حصار میں بسترِمصطفیؐ پر جان نثار کر دینے کے لیے لیٹ جانے والی بات ہے۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ غارِ ثور کی طرف جا رہے تھے تو کبھی دائیں طرف ہو جاتے اور کبھی بائیں طرف۔ کبھی سامنے آجاتے تو کبھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیچھے چلنے لگتے۔حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پوچھا ابوبکرؓ کیا بات ہے؟ جواب دیا:
’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! جب مجھے خیال آتا ہے کہ کہیں دشمن دائیں طرف سے نہ آجائیں تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دائیں طرف ہو جاتا ہوں اور جب خیال آتا ہے کوئی دشمن بائیں طرف سے نہ آجائے تو میں اسی وقت بائیں طرف ہو جاتا ہوں۔ جب خیال آتا ہے کہ دشمن سامنے سے نہ آجائیں تو میں سامنے آجاتا ہوں اور جب خیال آتا ہے کہ دشمن پیچھے سے نہ آجائے تو میں مڑ کر پیچھے آجاتا ہوں۔‘‘ یعنی حضرت ابوبکرؓ تعظیم والے نہیں تعزیر والے تھے۔ محض تعظیم والے ہوتے تو ادب کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے صرف پیچھے چلتے۔ 

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دورانِ ہجرت جب غارِ ثور میں آرام فرما رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا سرِ اقدس حضرت ابوبکر صدیقؓ کی گود میں تھا۔صدیقِ اکبرؓ نے وہاں ایک سوراخ دیکھ کر اپنے پاؤں کے انگوٹھے سے اسے بند کر دیا تا کہ کوئی موذی جانور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ اس سوراخ میں ایک سانپ تھا جو آپؓ کو پے در پے کاٹتا رہا لیکن آپؓ نے اپنا پاؤں پیچھے نہیں ہٹایابلکہ استقامت کے ساتھ سانپ کے ڈسنے کی تکلیف برداشت کرتے رہے اور اپنے جسم کو ہلنے تک نہ دیا، مبادا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آرام میں کوئی خلل نہ پڑ جائے۔ یہ تھی تعزیر کہ محبوب کو ہر تکلیف سے بچانے کا جذبہ پیدا ہو جائے۔جو کوئی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دے وہ تعزیر مصطفیؐ والا ہوتا ہے۔ 

توقیرِ مصطفیؐ کیا ہے؟

توقیر سے مراد حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی قدر اور احترام بجا لانا ہے۔لفظ توقیر’’ وَقر‘‘ سے نکلاہے جس کا مطلب ہے سنجیدگی ، متانت ، وقار ،حلم اور بردباری۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توقیر سنجیدگی، وقار، حلم اور بردباری سے کرنی چاہیے تاکہ جس کے سامنے آپؐ کاذکر کر رہے ہوں اس کی طبیعت میں وہی بردباری پیدا ہو جائے۔

صحابہ کرامؓ کی توقیرِ مصطفیؐ:

صحابہ کرامؓ کے شب و روز حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی توقیر اور تعزیر میں گزرتے تھے۔اس کی ایک جھلک حضرت ابو جحیفہ کے الفاظ سے یوں بیان ہوئی ہے:
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ابطح کے مقام پر چمڑے کے ایک سرخ خیمے میں دیکھا اور حضرت بلالؓ کو آپؐ کا استعمال شدہ پانی لیتے دیکھا اور پھر میں نے دیکھا کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے استعمال شدہ پانی کی طرف لپک رہے ہیں۔ جسے اس پانی سے کچھ مل گیا اس نے اسے اپنے اوپر مل لیا اور جسے اس میں سے کچھ نہ مل سکا اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ پر ہاتھ مل کر اس سے تری حاصل کی اور اسے اپنے جسم پر مل لیا۔ (صحیح مسلم ۔1119)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضو کے استعمال شدہ پانی کیساتھ عقیدت کایہ عالم ہے تو پھر ذاتِ مصطفیؐ کا ادب کیا ہو گا۔

حضرت اسماء بنتِ ابی بکرؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت عبداللہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماءؓ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جبہّ مبارک کے متعلق بتایا:
یہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا جبہّ مبارک ہے اور پھرانہوں نے ایک جبہّ نکال کر دکھایا جو موٹا دھاری دار کسروانی (کسریٰ کے عہد میں پہنا جانے والا) جبہّ تھا جس پر ریشم کے نقش و نگار بنے ہوئے تھے اور اس کے دونوں پہلوؤں پر دیباج لگا ہوا تھا۔ حضرت اسماؓ نے فرمایا: یہ جبہّ مبارک حضرت عائشہؓ کے پاس ان کی وفات تک محفوظ رہا جب ان کی وفات ہوئی تو یہ میں نے لے لیا۔ یہی وہ مبارک جبہّ ہے جسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہنا کرتے تھے سو ہم اسے دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے ہیں اور اس کے ذریعے شفا طلب کی جاتی ہے۔(صحیح مسلم۔5409)

 نصرتِ دین

سورۃ الاعراف کی آیت مبارکہ 157 میں ’’نَصَرُوْہُ‘‘ کا استعمال ہوا ہے جس کے معنی مدد کے ہیں۔اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو کس کام میں مدد درکار تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اس مقصد کی تکمیل کے لئے مدد درکار تھی جس کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مبعوث فرمایا گیااور وہ مقصد اقامتِ دین تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف سے مَنْ اَنْصَارِ اللّٰہ  کی صدا عام تھی مجھے اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے۔کون ہے جو اس مقصد میں میرا مددگاراور جان نثار بننے کے لیے تیارہے لہٰذا توفیقِ الٰہی کی بدولت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے شبانہ روز جدوجہد اور صحابہ کرامؓ کی لازوال قربانیوں کے طفیل سرزمینِ عرب پر اللہ پاک کے دین کو غالب فرمایا اور مختصر عرصہ میں ایسا انقلاب برپا کیا جس کا تاریخِ انسانی میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔محبتِ رسولؐ کا تقاضا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مشن کو آگے بڑھایا جائے اور اس کی خاطر کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے دریغ نہ کیا جائے۔ لوگوں کو کفر و شرک کے اندھیروں سے نکال کر ایمان و اسلام کی طرف لایا جائے۔ انہیں توحید کا درس دیا جائے۔آباؤ اجداد کی اندھی تقلید اور زمانۂ جاہلیت کے رسوم ورواج سے نکال کر اللہ پاک کی حقیقی عبادت پر لگایا جائے۔ اس مقصد کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دن رات ایک کر رکھے تھے اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا تھا۔

آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دین کی ہر طرح سے مدد کرنا امتِ مسلمہ پر قیامت تک فرض ہے۔خدمتِ دین اللہ پاک کی عطا کردہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔اس پرُفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس عظیم فریضہ کو بخوبی سرانجام دے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے قلوب کے ساتھ ساتھ اعمال کا مرکز بھی آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کو رکھیں۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور کامل اتباع ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضامن ہے۔

دورِ حاضر کی چکا چوند سے آج کا مسلمان حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے محروم ہو کر دنیا و نفس پرستی کا شکار ہو گیاہے۔ دنیاکی ناپائیدار محبت میں کھو کر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جلوۂ حسن کا مشتاق نہیں رہا۔ لہٰذا آج کے دور میں نصرتِ دینِ مصطفی ؐکا تقاضا ہے کہ احیائے سنتِ مصطفیؐ کے لیے اُمت کو پھر سے بیدار کیا جائے۔موجودہ دور میں احیائے سنتِ مصطفی کا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سرانجام دے رہے ہیں۔آپ مدظلہ الاقدس ایسے امام ہیں جن کی ذات، ذاتِ مصطفیؐ میں فنا ہے۔ جن کا عرفان عرفانِ مصطفیؐ، جن کی ترجیحات ترجیحاتِ مصطفیؐ اور جن کا انتخاب انتخابِ مصطفیؐ میں فنا ہوناہے۔ آپ مدظلہ الاقدس خدمتِ دینِ مصطفی ؐکے لیےنَصَرُوْہُ کا مصداق ہیں۔

قرآنِ مجید پر عمل پیرا ہونا

سورۃ الاعراف کی آیت 157 میں ایک نکتہ یہ بیان کیا گیا ہے ’’اور اس نور ( قرآنِ مجید ) کی پیروی کریں گے جو ان کے ساتھ اتارا گیا۔‘‘
قرآنِ مجید زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا چارٹر ہے جسے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے قلبِ انور پر نازل کیاگیالہٰذااس نورِ محمدی سے تاریک دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے کی ضرورت ہے۔جو پیغمبر اللہ پاک کی کتاب کی تعلیم دینے کے لیے مبعوث ہوئے ہوں اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اہم فریضہ نبوت ہو توکیسے ممکن ہے کہ اُمت اس کتابِ اللہ کے علم اور اور اس پر عمل کیے بغیر دنیوی و اخروی فلاح حاصل کر لے۔آج ہم محکوم و مغلوب اسی لیے ہیں کہ ہم نے قرآنِ مجید کو چھوڑ دیا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے:
میں تمہارے پاس دو اہم چیزیں چھوڑ رہا ہوں اگر تم انہیں تھامے رکھو گے (یعنی ان پر عمل پیرا رہو گے) تو کبھی گمراہ نہ ہو گے وہ اللہ کی کتاب اور اس کے نبی کی سنت ہے۔(مشکوٰۃ المصابیح۔186) 

قرآنِ مجید سراسر خیر و برکت اور رشد و ہدایت کا مثالی سرچشمہ ہے۔ اس پر ایمان لانا ،اس کی تلاوت کرنا اور اس کے احکام پرعمل پیرا ہونا اور صاحبِ قرآن ، پیغمبر آخرالزماںؐ کی لائی ہوئی شریعت یعنی قرآن و حدیث کی اتباع کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں اور نجات کا ذریعہ ہے۔ لیکن امتِ مسلمہ قرآنِ مجید سے دوری کے سبب ذلت کا شکار ہے۔ امتِ مسلمہ کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لانا اور ان کے دلوں میں منزل کی تڑپ پیدا کرنا ہی حقیقی نصرتِ دین ہے۔اور اس کا واحد حل قرآن اور صاحبِ قرآن سے ہمارا منسلک ہونا ہے۔

صرف زبان سے یہ کہہ دینا کہ ہم اللہ تعالیٰ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دل وجان سے محبت کرتے ہیں ، کافی نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان احکامِ خداوندی کو بجا لائیں جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیااور ان چیزوں سے رک جائیں جن سے ذاتِ باری تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔قرآنِ کریم کی ہدایات کو اپنے سینے سے لگائیں اور آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنتوں پر عمل کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کو اپنے لیے نمونہ بنالیں اور اسی کے مطابق ہر کام انجام دیں۔ مختصر یہ کہ ایک مسلمان قرآن و سنت کی اتباع میں ہی اپنی کامیابی سمجھے۔ 

استفادہ کتب:
شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس
 محبتِ رسولؐ کے تقاضے اور نصرتِ دین:  تصنیف ڈاکٹر حسن محی الدین قادری 

 

24 تبصرے “محبت ِ رسولؐ اور نصرتِ دین Mohabbat-e-Rasool aur Nusrat-e-Deen

  1. حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری۔15)

  2. آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت ، اللہ پاک سے محبت کی دلیل ہے نیز یہ سچے ایمان اور محکم یقین کی علامت ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت قلبِ انسانی کو آلائشوں سے پاک کرتی ہے اور روح کو مادی بیماریوں سے شفا بخشتی ہے۔

  3. اتباعِ مصطفیؐ محبتِ الٰہی کا پہلا زینہ ہے۔ اتباعِ مصطفیؐ سے ہی ربّ کی رضا ملتی ہے

  4. اس پرُفتن دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اس عظیم فریضہ کو بخوبی سرانجام دے رہے ہیں تاکہ ہم اپنے قلوب کے ساتھ ساتھ اعمال کا مرکز بھی آپؐ کی ذاتِ مبارکہ کو رکھیں۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اور کامل اتباع ہی دنیا وآخرت میں کامیابی کی ضامن ہے۔

  5. حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری۔15)

  6. محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
    اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

  7. یا صاحب الجمال و یا سید البشر
    من وجه المنیر لقد نور القمر
    لا یمکن الثناء کما کان حقہ
    بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

    اے صاحبِ جمال صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور اےانسانوں کے سردار! آپ ﷺ کے رخِ انور سے چاند کو روشنی بخشی گئی ہے۔ جیسا آپ ﷺ کی تعریف کا حق ہےایسی تعریف ممکن ہی نہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ الله کے بعد سب بزرگی آپ ﷺ ہی کے لئے ہے۔

  8. امتِ مسلمہ کو جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لانا اور ان کے دلوں میں منزل کی تڑپ پیدا کرنا ہی حقیقی نصرتِ دین ہے

  9. موجودہ دور میں احیائے سنتِ مصطفی کا فریضہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے روحانی وارث سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس سرانجام دے رہے ہیں

  10. اتباعِ مصطفیؐ محبتِ الٰہی کا پہلا زینہ ہے۔ اتباعِ مصطفیؐ سے ہی ربّ کی رضا ملتی ہے۔

  11. بہ مصطفیٰؐ برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
    اگر بہ او نہ رسیدی، تمام بولہبی است

  12. صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم

  13. حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
    تم میں سے کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والد (یعنی والدین)، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔(بخاری۔15)

  14. حمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اوّل ہے
    اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

  15. اتباعِ مصطفیؐ محبتِ الٰہی کا پہلا زینہ ہے۔ اتباعِ مصطفیؐ سے ہی ربّ کی رضا ملتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں