قربانی اور تسلیم و رضا Qurbani aur Tasleem-o-Raza

Spread the love

Rate this post

قربانی اور تسلیم و رضا
Qurbani aur Tasleem-o-Raza

تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری

قربانی کی کئی قسمیں ہیں۔ قربانی جانوروں کی بھی ہوتی ہے اور راہِ حق میں جان و مال قربان کرنے کو بھی قربانی کہا جاتا ہے۔نفس کی قربانی سے مراد خواہشاتِ نفسانی کو ترک کرنا اور جانی و مالی ہر لحاظ سے خود کو راہِ حق میں قربان کردینا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں قربانی کو آزمائش کہا ہے اور جو اس آزمائش میں کامیاب ہوجاتے ہیں وہ تسلیم و رضا کو پالیتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ ط وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ (سورۃ البقرہ۔ 155)
ترجمہ:اور ہم ضروربالضرور تمہیں آ زمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے اور (اے حبیبؐ!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ 

الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ لا قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ  (سورۃ البقرہ۔ 156)
ترجمہ: جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے توکہتے ہیں بیشک ہم بھی اللہ ہی کا مال ہیں اور ہم بھی اس کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔ 

ہر حال میں خود کو اللہ تعالیٰ کے سپرد وہی طالبانِ مولیٰ کرتے ہیں جو اپنی مرضی پر اللہ کی مرضی کو مقدم سمجھتے ہیں اوراللہ کی رضا پرسرِتسلیم خم کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی طالبانِ مولیٰ کے متعلق ارشاد ہوا ہے:
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَہُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ ط وَ اللّٰہُ رَئُ وْفٌ م بِالْعِبَادِ (سورۃ البقرہ۔207)
ترجمہ: اور( اس کے برعکس ) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اللہ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔ 

 راہِ حق میں قربانیاں دینا اور تسلیم و رضا ا ختیار کرنا دراصل انبیا کرام ؑکی سنت ہے۔ حضرت اسماعیلؑ کی قربانی ہمیں تسلیم و رضا کاہی درس دیتی ہے۔

قرآنِ کریم میں یہ واقعہ اس طرح بیان ہوا ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ السَّعْیَ قَالَ یٰبُنَیَّ اِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْٓ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَا ذَاتَرٰی ط قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ چ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ۔ فَلَمَّآ اَسْلَمَا وَ تَلَّہٗ لِلْجَبِیْنِ۔  (سورۃ الصافات۔ 102-103)
ترجمہ: پھر جب وہ اسماعیل (علیہ السلا م )ان کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچے تو (ابراہیمؑ) نے فرمایا: اے میرے بیٹے! میں خواب دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں، سو غور کرو کہ تمہاری کیا رائے ہے۔ (اسماعیل علیہ السلا م نے) کہا:ا با جان! وہ کام (فوراً) کر ڈالیے جس کا آپ کو حکم دیا جا رہا ہے۔ اگر اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ پھر جب دونوں (رضائے الٰہی کے سامنے) جھک گئے (یعنی دونوں نے مولیٰ کے حکم کو تسلیم کر لیا) اور ابراہیم (علیہ السلام) نے اسے پیشانی کے بل لٹا دیا۔ 

اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قوم سے نبی مبعوث کیا اسی لیے تسلیم و رضا اور قربانی کی یہ سنت امتِ محمدیہ کا خاصہ ہے۔یعنی اللہ اپنے ہر محبوب بندے کو آزمائش سے گزارتا ہے تاکہ وہ تسلیم و رضا کا پیکر بن سکے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی پوری زندگی قربانی اور تسلیم و رضا کا عملی نمونہ ہے۔ اگر ہم واقعۂ طائف کو ہی دیکھ لیں کہ آپؐ اللہ کے پیارے اور محبوب نبی طائف والوں کی طرف دینِ حق کا پیغام لے کر جاتے ہیں جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر پتھر برسائے جاتے ہیں یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں مبارک لہولہان ہو جاتے ہیں۔ قربان جائیں آقا پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صبر پر! حضرت جبرائیل علیہ السلام نازل ہوتے ہیں اور طائف والوں کو ختم کرنے کے متعلق رائے طلب کرتے ہیں لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کے متعلق صرف خیر اور بھلائی کی دعا فرماتے ہیں۔

اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اصحابؓ کی زندگی پر نظر ڈالی جائے تو انہوں نے بھی راہِ حق میں جو قربانیاں دیں ان کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔ چاہے وہ مالی قربانی ہو یا جانی، جہاد کرنا ہو یا ہجرت، ہر معرکہ میں اپنے مرشد و ہادی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وہ ساتھی ہیں جو مردوں میں سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر ایمان لائے، دعوت و تبلیغ کے سلسلہ میں بہت مشکلات برداشت کیں، واقعۂ معراج پر بغیر کسی تاخیر کے ایمان لے آئے۔ آپؓ وہ صحابیٔ رسول ہیں جن کی رضا اللہ پاک کو مطلوب ہوئی۔ 

غزوۂ تبوک کے موقعہ پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے تمام اصحاب ؓکو مالی طور پر تعاون کرنے کا حکم دیا جس پر حضرت عمرؓ اپنے گھر کا آدھا سامان لے آئے اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیقؓ سے دریافت کیا کہ گھر والوں کے لیے کیا چھوڑ کر آئے ہیںتو انہوں نے فرمایا’’اللہ اور اس کا رسولؐ۔‘‘ اس پر حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تشریف لاتے ہیں اور عرض کرتے ہیں اللہ پاک حضرت ابوبکر صدیقؓ سے راضی ہو چکا ہے جس طرح وہ اللہ سے راضی ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کا ایک اور واقعہ جو آپؓ کودیگر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر فضیلت دیتا ہے۔ ہجرت کے موقع پر یارِ غار حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جو جانثاری کی مثال قائم کی ہے وہ بھی اپنی جگہ بے مثال ہے۔جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور صدیقِ اکبرؓ دونوں غار کے قریب پہنچے تو پہلے صدیقِ اکبرؓغار کے اندر تشریف لے گئے، صفائی کی اور غار کے تمام سوراخوں کو بند کیا۔ ایک سوراخ کو بند کرنے کے لیے کوئی چیز نہ ملی تو آپ ؓنے اپنے پاؤں کا انگوٹھا ڈال کر اس سوراخ کو بند کر دیا۔ پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زانوں پر سر مبارک رکھ کر سوگئے۔ اتنے میں سوراخ میں سے سانپ نے صدیقِ اکبرؓ کے پاؤں پر ڈس لیا مگر آپؓ شدتِ الم کے باوجود محض اس خیال سے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے آرام میں خلل نہ واقع ہو، بدستور ساکن رہے۔ جب پیمانۂ صبر لبریز ہو گیا تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، جب آنسو کے قطرے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ اقدس پر گرے تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بیدار ہوئے اور صدیقِ اکبرؓ نے سارا واقعہ عرض کیا۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سانپ کے ڈسے ہوئے حصے پر اپنا لعابِ دہن لگا دیااور فوراً آرام مل گیا۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کی وجہ اسی سانپ کا زہر ہی تھا۔

حضرت بلالؓ وہ صحابیٔ رسول ہیں جن کو بالکل آغازِ اسلام میں مشرف بہ اسلام ہونے کا امتیاز حاصل ہے۔ ایسے خوفناک ماحول میں جب اسلام لانے کی پاداش میں سخت ترین مصائب و آلام سے دو چار ہونا پڑتا تھا، حضرت بلالؓ کو ان کا مالک سخت سے سخت اذیتیں دیتا۔ان کو پکڑ کر لے جاتا، دھوپ میں لٹا دیتا اور پتھر لا کر ان کے سینے پر رکھ دیتا۔ آپ ؓ تمام تکلیفیں برداشت کرتے اور زبان سے بس اَحد اَحد کا وِرد جاری رہتا۔

حضرت عثمانؓ نے راہِ حق میں انتہائی شانِ بے نیازی سے مالی خدمات سرانجام دیں۔ آپؓ کا مال ہمیشہ عوام کی فلاح و بہبود کے کاموں میں خرچ ہوتا تھا، خصوصاً غزوات کے موقع پر۔ مدینہ منورہ میں پانی کی شدید قلت تھی، آپؓ نے بیر رومہ نامی کنواں ایک یہودی سے تیس ہزار درہم میں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا۔ آپؓ کا لقب غنی آپؓ کی اسی فضیلت کی بنا پر تھا۔ آپؓ کا سخاوت میں بڑا مقام تھا۔

حضرت علیؓ کا شمار بھی انہی عاشقانِ رسولؐ میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی جان تک کو قربان کرنے میں کبھی دریغ نہ کیا۔ ہجرتِ مکہ سے ایک رات پہلے مشرکینِ مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو( نعوذباللہ) قتل کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اُس رات اپنے بستر پر حضرت علیؓ کو سونے کا حکم دیا اور لوگوں کی امانتیں واپس کرنے کا بھی اور خود آپؐ نے اللہ کے حکم سے مدینہ کی طرف ہجرت کر لی۔ حضرت علیؓ نے اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر آپؐ کے بستر پر رات گزاری اور امانتیں واپس کر کے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔

غزوۂ احد میں مسلمان جیتی ہوئی بازی ہار گئے، اس وقت آپؐ کی جانب دشمنوں نے پیش قدمی کی۔ حضرت علیؓ آپؐ کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ دشمنوں کے سرتن سے جدا کر دیئے اور انتہائی جوانمردی سے ان کا سامنا کیا۔ (صحابہ کرام ؓکا عشقِ رسولؐ)

 تصنیف’’ صحابہ کرامؓ کا عشقِ رسولؐ‘‘ میں صحابہ کرام ؓکی جانثاری کے بہت سے واقعات درج ہیں۔
غزوۂ احد کی ہل چل اور بدحواسی میں جب مہرِ رسالتؐ کو ہجومِ کفار نے گھیر لیا اور اس وقت سیدّ الکونینؓ نے فرمایا کہ کون ہے جو مجھ پر جان فدا کرے، توحضرت زیاد بن سکن رضی اللہ عنہٗ چند انصاریوں کو لے کر یہ خدمت ادا کرنے کے لیے بڑھے۔ ہر ایک نے جوانمردی سے لڑتے ہوئے اپنی جان نثار کر دی مگر ایک زخم بھی رحمت اللعالمین کو نہ لگنے دیا۔ حضرت زیاد بن سکنؓ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ زخموں سے چور چور ہو کر دم توڑ رہے تھے کہ رسالتِ مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حکم دیاکہ ان کا لاشہ میرے قریب لاؤ، لوگ لاشہ اٹھا کر لائے ابھی کچھ جان باقی تھی، آپؓ نے خود کو زمین پر گھسیٹ کر اپنا منہ محبوبِ خداؐ کے قدموںمیں رکھ دیا اور اِسی حالت میں آپؓ کی روح پرواز کر گئی۔

تیرے قدموں میں سر ہو اور تارِ زندگی ٹوٹے
یہی انجامِ الفت ہے یہی مرنے کا حاصل ہے

حضرت اُمِ عمارہؓ غزوۂ احد میں اپنے شوہر حضرت زیدؓ بن عاصم اور اپنے دو بیٹوں حضرت عمارہ اور حضرت عبداللہؓ کو ساتھ لے کر میدان میں کود پڑیں اور جب کفار نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام پر حملہ کر دیا تو یہ ایک خنجر لیکر کفار کے مقابلہ میں کھڑی ہو گئیں اور کفار کے تیر و تلوار کے ہر ایک وار کو روکتی رہیں۔ اس جنگ میں بی بی امِ عمارہؓ کے سراور گردن پر تیرہ زخم لگے تھے۔ (صحابہ کرامؓ کا عشقِ رسولؐ)

سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ کی قربانی

چرچا ہے جہاں میں تیری تسلیم و رضا کا
زیبا ہے لقب تجھ کو امام الشہدا کا

حضرت امام حسینؓ کو مقامِ تسلیم ورضا کا امام کہا جاتا ہے کیونکہ راہِ خدا میں آپؓ نے جو قربانی دی اور تسلیم ورضا کی مثال قائم کی اس کی نظیر رہتی دنیا تک نہیں ملے گی۔ جتنی قربانیاں کربلا کی گرم ریت پر دی گئیں اور خون بہایا گیا اس پر خود سر زمینِ کربلا دہل جاتی ہے۔ بہتر(72) نفوس کے لیے 22000 کی فوج بلائی جاتی ہے ، وہ قافلہ جو نہ تو جنگ کی نیت اور نہ ہی جنگی سازو سامان کے ساتھ نکلا تھا جن میں بچے، بوڑھے، بیمار سب شامل تھے، ان کو سخت گرمی میں تپتے ہوئے صحرا میں تین روز پیاسا رکھا گیا۔ دھوکہ دے کر کوفہ بلایا گیا اور واپسی کی راہ بند کر دی گئی، یزید جیسے بدبخت کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے مجبور کیا گیا۔ حضرت امام حسین ؓ نے اپنی چشمِ مبارک کے سامنے اپنے تمام گھرانہ اور ساتھیوں کو شہید ہوتے دیکھا۔ سیدّ الشہدا  حضرت امام حسینؓ پر لاکھوں سلام!

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اپنے پنجابی بیت میں آپؓ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عاشق سوئی حقیقی جیہڑا، قتل معشوق دے منے ھوُ
عشق نہ چھوڑے مکھ نہ موڑے، توڑے سَے تلواراں کھنے  ھوُ
جت ول دیکھے راز ماہی دے، لگے اوسے بنھے ھوُ
سچا عشق حسین ابنِ علیؓ دا باھوؒ، سر دیوے راز نہ بھنے ھوُ

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی تصنیفِ مبارکہ’’ سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت‘‘ میں اس بیت کی شرح فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
حضرت امام حسینؓ امامِ وقت اور اس دور کے انسانِ کامل تھے اور نائبِ رسولؐ کے منصب پر فائز تھے۔ انسانِ کامل کسی کی بیعت کر ہی نہیں سکتا۔ انسانِ کامل کی زبان کن کی زبان ہوتی ہے۔ اگر آپؓ دریائے فرات کو اشارہ کرتے تو وہ چل کر خیموں تک آ جاتا، آسمان کو اشارہ کرتے تو بارش برسنے لگتی، کربلا کی ریت کو اشارہ کرتے تو اس کا طوفان یزیدی لشکر کو غرق کر دیتا لیکن ایک طرف یہ سب کچھ تھا اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رضا کہ مقابلہ عام انسانوں کی طرح کرنا ہے لہٰذا کوئی باطنی طاقت استعمال نہیں کی۔ آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیا۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسی طرف اشارہ فرما رہے ہیں کہ عاشقِ حقیقی وہی ہوتا ہے جو معشوقِ حقیقی (اللہ تعالیٰ) کے ہاتھوں اپنا قتل ہونا قبول کر لے اور باوجود تکالیف اور مصائب کے نہ تو راہِ عشق سے منہ موڑے اور نہ ہی تسلیم و رضا کی راہ میں اس کے قدم متزلزل ہوں خواہ سینکڑوں تلواریں اس کے جسم کو چھلنی کر دیں۔ اصولِ عشق تو یہی ہے کہ اس کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا جائے۔ آپؒ فرماتے ہیں: ’’عشق کے اس میدان میں حضرت امام حسینؓ جیسا کوئی نہیں ہے جنہوں نے سر دے دیا لیکن اپنے محبوب کے راز کو آشکار نہیں کیا۔‘‘(سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت)

تسلیم و رضا اور نفسِ مطمئنہ

جب عاشقِ الٰہی رضائے الٰہی کو تسلیم کر کے اپنا تن، من، دھن سب راہِ خدا پر لٹا دیتا ہے، اندر سے خالی یعنی تمام خواہشاتِ نفسانی کے بت توڑ دیتا ہے تو اس کے باطن میں اللہ تعالیٰ کی ذات سما جاتی ہے۔ طالب پر وہ مقام آ جاتا ہے جہاں وہ اللہ سے راضی اور اللہ اس سے راضی ہو جاتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جب طالب کا نفس امارہ سے  لوامہ، ملہمہ اور پھر مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃُ ق صلے۔ارْجِعِیْ ٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً۔  (سورۃ الفجر27-28)

ترجمہ: اے نفسِ مطمئنہ! لوٹ اپنے ربّ کی طرف، اس حالت میں کہ وہ تجھ سے راضی ہو گیا اور تو اس سے راضی ہو گیا۔ 

مقامِ رضا فقر کی منازل میں سے بہت بڑی منزل ہے اور مقامِ رضا کے بعد ہی باطن کے دو انتہائی مقامات یعنی دیدارِ الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔ دیدارِ حق ان لوگوں کو نصیب ہوتا ہے جو اللہ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم کر دیتے ہیں۔قرآنِ مجید میں بھی ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ    (سورۃ النسائ۔125)
ترجمہ: اور اس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا سر اللہ کی رضا کے سامنے جھکا دیا، وہ محسن (مرتبۂ احسان تک پہنچنے والا یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا) ہے۔ 

اور ایک جگہ ارشاد ہوا ہے:
بَلٰی ژ مَنْ اَسْلَمَ وَجْھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَہٗ ٓ اَجْرُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ ص وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ    (سورۃ البقرہ۔112)
ترجمہ: ہاں جس نے اللہ تعالیٰ کی رضا کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دیا وہ محسن (مرتبۂ احسان تک پہنچنے والا یعنی اللہ تعالیٰ کا دیدار کرنے والا) ہے۔ اور اس کے لیے اپنے ربّ کی طرف سے اجرِعظیم ہے اوراس کے لیے نہ کچھ خوف ہے اور نہ کوئی غم۔

سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ فرماتے ہیں:
جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ اس کی قدر اور قضا پر راضی ہو کر صبر اختیار کرتا ہے اس کے لیے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بے شمار مدد ہے اور آخرت میں بے شمار نعمت۔ (الفتح الربانی)

قارئین کرام!

مقامِ رضا تک رسائی،خواہشاتِ نفس کی قربانی اور اصلاحِ نفس سے ممکن ہے اور اصلاحِ نفس کے لیے مرشد کامل اکمل کی رہبری لازم ہے۔ موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس انسانِ کامل کے مقام و مرتبہ پر فائز ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس طالب کو بیعت کے پہلے ہی روز اسمِ اللہ ذات کا ذکر و تصور عطا کر دیتے ہیں جس کے ذریعے طالب ترقی کرتے کرتے نفس کی مختلف حالتوں سے گزرتا ہے۔ طالب کا نفس پہلے امارہ سے لوامہ پھر لوامہ سے ملہمہ اور پھر نفسِ مطمئنہ ہو جاتا ہے۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کا فرمان مبارک ہے:

مرشد کامل اکمل کی اسمِ اللہ ذات کے تصور کے ذریعے تربیت طالبِ مولیٰ میں تسلیم رضا کی عادت کو اتنا پختہ کر دیتی ہے کہ اسے اللہ تعالیٰ کے ہر حکم اور فعل پر پیار آتا ہے۔ (تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین)

مقامِ رضا تک پہنچنے کے لیے دو عمل لازم ہیں: اوّل مرشد کامل کی رضا کو جاننے، پہچاننے کے لیے غور و فکر کیا جائے اور دوسرا جب جان لیا جائے تو اس پر ڈٹ جائے اور نفس، دنیا اور شیطان کے خلاف مجاہدہ کیا جائے۔ کیونکہ یہ عشق کی راہ ہے، عشق والے ہی اس پر چل سکتے ہیں۔ عشق والے وہ ہوتے ہیں جو جذبۂ جانثاری سے سرشار ہوتے ہیں۔ جلال و جمالِ یار دونوں کو محبوب رکھتے ہیں۔ مرشد طالب کو قبض و بسط کی حالت سے بھی گزارتا ہے اور جلال و جمال سے بھی آزماتا ہے۔ مجاہدہ سے مشاہدہ بھی عطا کرتا ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں ہمت والے ہی اس میں کامیاب ہوتے ہیں۔ کامیابی بھی یہی ہے کہ مرشد کی رضا مل جائے۔ مرشد کی رضا کامیابی کا وہ جھنڈا ہے جس کو لے کر طالب مجلسِ محمدیؐ اور دیدارِ الٰہی کے مقامات تک پہنچ سکتا ہے۔

استفادہ کتب:
۱۔شمس الفقرا: تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت :  ایضاً
۳۔تعلیمات و فرمودات سلطان العاشقین:  ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۴۔ذبحِ عظیم (ذبحِ اسماعیل ؑسے ذبحِ حسین ؓتک):  ڈاکٹر طاہر القادری
۵۔صحابہ کرام ؓکا عشقِ رسولؐ:  مؤلف مولانا محمد اکرم رضوی

 

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں