قوتِ ارتکاز اور عشق۔ Quwwat-e-Irtikaaz Aur Ishq
تحریر:مسز فاطمہ برہان سروری قادری
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
جب تک خیال ایک مقام پر نہ ٹھہر جائے ہم کسی مقام پر نہیں ٹھہر سکتے۔ (دل دریا سمندر)
ارتکاز سے مراد مرکوزِ توجہ یا سوچ ہے۔ نفسیات کی رُو سے یہ ذہنی توجہ اور خیالات کی مرکزیت اور یکسوئی کا نام ہے۔ دانستہ طور پر اپنے شعور کی رَو صرف ایک طرف بہانا اور کوشش کرنا کہ صرف ایک نقطہ اور خیال پر ذہن کی تمام سرگرمیاں سمٹ آئیں یا اپنی تمام سوچوں کو صرف ایک ذات اورایک مرکز کے ساتھ اس طرح باندھ دینا کہ اس کے سواکوئی دوسرا خیال نہ آنے پائے ’’ارتکاز‘‘ کہلاتا ہے۔
ا گر ہم دینِ اسلام کا بغور جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسلام مرکوزِتوجہ یا ارتکاز پر بہت زور دیتا ہے۔ جو شخص سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے ہر وقت اپنی سوچ کو اللہ کی جانب مبذول رکھے اس شخص کا سوناجا گنا اٹھنا بیٹھنا سب عبادت بن جاتا ہے۔ صحیح معنوں میں عبادت کا حق بھی وہی ادا کر پاتے ہیں جو یکسوئی کے ساتھ اللہ کی جانب متوجہ ہو کر عبادت کرتے ہیں ورنہ وہ عبادت جس میں سوچ جانبِ اللہ نہ ہو وہ عبادت فقط ظاہری مشقت کی حیثیت رکھتی ہے۔ آج سائنس بھی اس بات پر متفق ہے کہ جب انسان کچھ سوچتا ہے تو اس کے دماغ میں ایک نیا سرکٹ بنتا ہے، سوچ مثبت ہے تو دماغی سیلز اور ہارمونز میں بہتری اور ابتری کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اگر سوچ میں یکسوئی ہو توقوتِ ارتکاز بہتر ہوتی ہے، مثبت سوچ رکھنے سے شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ایک نقطہ پر ذہن کی تمام فعالیت اور سرگرمی کو مرکوز کر دینے کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان میں استغراق یعنی ڈوب جانے کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور اس میں Extra Sensory Perception (E.S.P) یعنی ’’ادراک ماورائے حواس‘‘ کی صلاحیتیں بڑھتی ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دیگر مذاہب میں بھی ارتکاز کو بہتر بنانے کے لیے میڈیٹیشن یعنی مراقبہ (Meditation) اور یوگا(Yoga) جیسی تراکیب کو استعمال کیا جاتا ہے۔
کال نیوپورٹ (Cal Newport)نامی امریکی مصنف کے مطابق ’’اکیسویں صدی میں ارتکاز ایک ایسی کامیاب انسانی صلاحیت ہے جو سپرپاور کا درجہ رکھتی ہے۔‘‘
موجودہ دور میں ارتکاز اور تفکر جیسی صلاحیت کو پانا مشکل ہوتا جاتا رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا کا ضرورت سے زیادہ استعمال ہے۔ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈسٹریکشن، بے سکونی اور ذہنی خلفشارکی اہم وجہ ہے۔ سوشل میڈیا ایک آلہ ہے، یہ بندے پر منحصرہے کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو اپنے حق میں استعمال کرتا ہے یا مخالف سمت میں۔ ارتکاز کے دیگر بہت سے فوائد بھی ہیں اس سے زندگی میں نظم و ضبط پیدا ہوتا ہے، انسان ہر چیز اعتدال سے کرنا سیکھ جاتا ہے چاہے وہ سوشل میڈیا کا استعمال ہی کیوں نہ ہو، اس سے مائینڈ فل نیس (Mindfulness) جیسی صلاحیت حاصل ہوتی ہے یعنی جو بھی کام کریں وہ حاضر دماغی سے کیاجائے، بندہ ماضی و مستقبل کی فکر کی بجائے حال میں رہنا سیکھ جاتا ہے، اپنی تمام سوچوں کو ایک سمت میں بہانے سے ہمارے نروس سسٹم (Nervous System) پر بوجھ نہیں ڈلتا، نیند بہتر ہو تی ہے، تفکر یا مراقبہ کرنے سے قلبی و روحانی سکون ملتا ہے، زندگی میں سٹریس کم ہوتا ہے۔ انسان کی جتنی توجہ، سوچ اور خیالات یادِ الٰہی میں پیوست ہوں اتنا ہی اس کی قوتِ وَھم میں اضافہ ہو تا ہے۔ وَھم سے مراد اللہ تعالیٰ سے باطنی ہمکلامی ہے۔ شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی ؒ فصوص الحکم میں فرماتے ہیں :
دائمی فکر اور یکسوئی اور محویت ہی انسانِ کامل کی صورت میں سلطانِ اعظم ہے یعنی انسانِ کامل کو جو کمال حاصل ہوتاہے وہ اسی وَھم کی بدولت ہے ۔ وَھم سے مراد دائمی خیال اور محویت ہے جو عشقِ الٰہی کا ثمرہ ہے۔
راہِ فقر اور ارتکاز
کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لیے ارتکاز ( Focused Mind) کا ہونا انتہائی اہم ہے۔ اسی طرح راہِ فقر میں کامیابی کی کلید ارتکاز ہے۔ دنیاوی رغبتوں اور نفسانی خواہشات کی طرف مائل نہ ہونے کا بھی بہترین نسخہ یہی ہے کہ بندہ اپنے تمام تر دنیاوی امور سرانجام دے لیکن اپنی توجہ اور نگاہ اللہ کی جانب رکھے۔ حقیقی ترکِ دنیا بھی اسے ہی کہتے ہیں اور جہاد بالنفس کی صورت بھی یہی ہے۔ جیسا کہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔
انسان کے پاس سوچ کے سوا کچھ نہیں ۔
سوچ ہی انسان کی اصل ہے ۔ سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے ۔(سلطان العاشقین )
اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ راہِ فقر میں ارتکاز کی دولت کس طرح حاصل کی جا سکتی ہے۔ ارتکاز کی دولت عشقِ الٰہی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ عشق ایک ایسے جذبہ اور جنون کا نام ہے جو طالب کے دل اور دماغ کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ محبوبِ حقیقی کے سوا کوئی دوسرا خیال بھی آ جائے تو عاشق صادق کے نزدیک یہ شرک بن جاتا ہے۔ اپنی ہر سوچ کو اپنے محبوب کے لیے خاص کر دینے کا نام عشق ہے۔ اپنے ہر عمل کو محبوب کے لیے خالص کر دینے کا نام عشق ہے۔ جب عاشق عشق کے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس کی سوچ خود بخود ایک نقطہ (عشق) پر سمٹ آتی ہے ایسے جیسے پھیلی ہوئی روشنی ایک رخ میں آکر سمٹ جاتی ہے۔ قرآنِ کریم میں ایسے عاشق صادق کے متعلق ارشاد ہوا ہے :
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے۔ (سورۃ البقرہ ۔165)
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
عشق ایک ایسا شعلہ ہے کہ جب بھڑک اٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلا دیتا ہے ۔ (شمس الفقرا)
ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات
طالب کے اندر عشق کا پودا ذکر وتصورِ اسمِ اللہ ذات سے پروان چڑھتا ہے۔ تصورِ اسمِ اللہ ذات ہی اسے عشق کے لافانی سمندر میں فنا کر دیتا ہے جس سے میں اور توُ کا فرق مٹ جاتا ہے، دل و دماغ سے تمام غیر اللہ کے نقوش مٹ جاتے ہیں، دائمی طور پر سوچ اللہ سے منسلک ہو جاتی ہے۔ تاہم اُسی تصورِ اسمِ اللہ ذات سے نفس کمزوراور روح قوی ہوتی ہے جو مرشد کامل اکمل سے حاصل کیا گیا ہو۔ راہِ فقر میں بیعت کے پہلے روز ہی طالب کو سنہری حروف سے لکھا ہوا ’’اسمِ اللہ ذات ‘‘ تصور اور ذکر کرنے کے لیے عطا کیا جاتا ہے تصورِ اسمِ اللہ ذات کے حروف دل پر نقش کرنے سے طالب کو معرفت اور عشقِ الٰہی نصیب ہوتاہے۔سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس اپنے ہر مرید کو سب سے آخری اور انتہائی ذکر ’’ذکرِیاھو‘‘ عطا کرتے ہیں۔ ’ھو‘ سلطانُ الاذکار ہے۔ اس کی تجلیات سب سے زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جس کے وجود میں اسمِ ھوُ کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسے ھوُ سے اُنس ہو جاتا ہے اور پھر وہ غیر ماسویٰ اللہ تمام لوگوں سے وحشت کھاتا ہے۔ (عین الفقر)
ذکرِھوُ کرتے کرتے جب ذاکر کے وجود پر اسمِ ھوُ غالب آکر اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تو اس کے وجود میں ھوُ کے سوا کچھ نہیں رہتا ۔ (محک الفقر کلاں )
حاصل کلام یہ کہ راہِ فقر میں ارتکاز کی دولت پانے کے لیے مرشد کامل اکمل سے ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات حاصل کرنا ضروری ہے کیونکہ عشقِ حقیقی کے رنگ میں رنگنے کا اسمِ اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا مؤثر طریقہ نہیں ہے۔ ذکر اور تصور کا ہماری سوچ کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ جب ہم کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کا ذکر ہمارے لبوں پر جاری رہتا ہے۔ اگر کوئی طالب ذکرِخفی (سانسوں سے کیاجانے والا ذکر) کے ذریعے اللہ کو یاد کرتاہے تواس کی سوچ میں یکسوئی پیدا ہونے لگتی ہے۔ الغرض!جب بندہ ذکرِخفی میں پختہ ہو جاتا ہے تو تنہائی ہو یا محفل اس کی سوچ غیر اللہ سے پاک ہو کر صرف اللہ کے ساتھ محبت کے رشتہ میں بندھ جاتی ہے۔ وہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ہمہ وقت اپنی سانسوں کی حفاظت کرنے لگتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :
سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِ اللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ
سانس کے ذریعے ذکر کرنادرحقیقت انسان کو ’’حال ‘‘ میں رہنے کا فن سکھاتا ہے۔ جو شخص ماضی کی سوچوں میں گم رہتا ہو یا ہر وقت مستقبل کی سوچ میں فکر مند رہتا ہو ایسے شخص کے لیے ارتکاز کی نعمت پانا ممکن نہیں۔ ارتکاز انہی کو نصیب ہوتا ہے جو حال میں جینا جانتے ہیں۔ ’’حال‘‘ کا تعلق ہماری سانسوں کے ساتھ ہے۔ اگر توجہ کے ساتھ ہر سانس کے ساتھ ذکرِ ھوُ کیا جائے تو انسان ماضی اورمستقبل کی فکر سے آزاد ہو جاتا ہے اور ذکر میں پختہ ہو جاتا ہے۔
تصور کے لغوی معنی خیال، دھیان، تفکر اور مراقبہ کے ہیں۔ ذکر کے ساتھ اسمِ اللہ ذات کا تصور کرنا بھی ضروری ہے کیونکہ جس سے محبت ہو جائے اس کا تصور حیات بخش ثابت ہوتا ہے۔ جس سے محبت ہو اس کا ذکر اس کے تصور کے بغیر نامکمل ہوتا ہے۔ جس کا ہمہ وقت ذکر کیا جائے اس کو دیکھنے کی خواہش بھی گزرتے لمحہ کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے۔ اگر ذکرِ اسمِ اللہ کیا جائے اور باطن میں جلوۂ خدا روشن نہ ہو عارفین کے نزدیک یہ ذکر، ذکر نہیں کہلاتا۔ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
تصورِ اسمِ اللہ ذات کے بغیر ذکر اسمِ اللہ ذات بھی کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی اتنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جتنا کہ تصور کے ساتھ۔ (شمس الفقرا )
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
ذاکروں کا ذکر اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ذکر کی کلید حاصل نہ کر لیں ۔ ذکر کی کلید اسمِ اللہ ذات کا تصور ہے۔ (شمس العارفین)
مراقبہ اور تفکر،تصور ہی کی ایک قسم ہے۔فقر و تصوف کی اصطلاح میں مراقبہ سے مراد قلب کا اللہ کی طرف یکسوئی سے متوجہ ہو جانا ہے تاکہ غیر اللہ کے خیال اور فکر سے محفوظ رہاجاسکے ۔
اب جب کہ قارئین پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ ارتکاز کیا ہے، راہِ فقر میں فوکس مائینڈ یعنی ارتکاز کا ہونا کتنا اہم ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات کس قدر مؤثر ہے تو اب ضروری ہے کہ یہ بھی جان لیا جائے کہ ارتکاز ’’مرکز‘‘ کے بغیر حاصل نہیں ہوتا۔ جس طرح تمام سیارے ایک مرکز ’’سورج‘‘ کے گرد گھومتے ہیں، آسمان سے گرتی تمام اشیا ایک مرکز ’’زمین‘‘ کی طرف لپکتی ہیں، مادے میں موجود الیکٹران ایک مرکز ’’نیوکلئس‘‘ کے گرد گھومتا ہے، اسی طرح سوچ کا ایک نقطہ یا مقام پر ٹھہرنا ’’ایک مرکز‘‘ کے تعین سے ہی ممکن ہے۔ ایسامرکز جس کے حصار میں دیگر خیالات سمٹ آئیں۔ حضرت سلطان باھوؒ کے نزدیک تمام دنیا و مافیہا کا مرکز و محور ’’نورِ فقر‘‘ ہے۔
فقر کیا چیز ہے؟ فقر کسے کہتے ہیں اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ فقر نورِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ تمام عالم کا ظہور نورِ فقر سے ہوا ہے۔ فقر ہدایت ہے، فقر نورِ حق کی ایک صورت ہے جو اس درجہ خوبصورت ہے کہ دونوں عالم اس کے شیدا اور اس پر فریفتہ ہیں لیکن فقر کسی پر توجہ نہیں کرتا مگر حکمِ الٰہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے ۔ (توفیق الہدایت )
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
فقر ایک نقطہ ہے اوروہ نقطہ مرشد کامل ہے ۔(سلطان العاشقین)
مرکزِفقر اسی کو کہا جاتا ہے جسے امانتِ فقر عطا کی جاتی ہے۔ حقیقی مرکزِ فقر اور خزانۂ فقر کے مختارِ کل حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں ۔ آپؐ سے یہ امانتِ فقرحضرت علی کرم اللہ وجہہ کو عطا کی گئی۔ آپؓ سے یہ سلسلہ سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا اور حضرت سیدّنا شیخ عبد القادر جیلانیؓ اور پھرحضرت سخی سلطان باھوؒ تک پہنچا۔ موجودہ دور میں امانتِ فقر کے روحانی وارث، مرکزِفقر سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس موجودہ پرُ فتن دور میں طالبانِ مولیٰ کی اسی انداز میں روحانی تربیت فرما رہے ہیں جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت فرمائی۔
جو صاحبِ فقر ہوتا ہے مرکز ِفقر اسی کو کہا جاتا ہے۔ راہِ فقر میں وہی طالب کامیاب ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں اپنی توجہ صاحبِ فقر مرشد کامل اکمل کی جانب کر لیتا ہے۔ وہی ذات اس کی ہستی کا مرکز بن جاتی ہے۔ وہی قبلہ، وہی امام، وہی رہنما، وہی پیشوا، وہی ہادی، وہی راہِ شریعت، طریقت، معرفت اور حقیقت پر گامزن کرنے والا ہوتا ہے۔ وہی کل ہوتا ہے جو جز کو اپنے اندر سمیٹ لیتا ہے۔ جب ہر سوچ اسی کے عشق کے مدار میں چکر لگاتی ہے تو طالب کو’ ’ارتکاز‘‘ کی حقیقت بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ ظاہر و باطن میں اس کے سوا کوئی اور عین حقیقت ہی نہیں پھر کسی اور کے متعلق سوچ اور گمان کیسا؟ جب طالب عشق کی بھٹی میں جل کر کندن بن جاتاہے تو اس کی زندگی کا ایک ہی مرکز،ایک ہی زاویہ، ایک ہی رُخ ہو جاتاہے اور وہ اللہ کا عشق ہے۔
حضرت خواجہ غلام فریدؒ فرماتے ہیں :
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد منبر
مصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں
صوم صلوٰۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں دائمی فکر و تفکر اور ارتکاز کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنے اور اس کو راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا: تصنیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۳۔ عین الفقر : تصنیف حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ شمس العارفین :ایضاً
۵۔ فصوص الحکم: شیخِ اکبر محی الدین ابن عربیؒ
Very nicely explained today’s situation!
i like this artical 🌹🌹
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے :
سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِ اللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں :
ذاکروں کا ذکر اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ ذکر کی کلید حاصل نہ کر لیں ۔ ذکر کی کلید اسمِ اللہ ذات کا تصور ہے۔ (شمس العارفین)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
تصورِ اسمِ اللہ ذات کے بغیر ذکر اسمِ اللہ ذات بھی کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی اتنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جتنا کہ تصور کے ساتھ۔ (شمس الفقرا )
حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں:
جب تک خیال ایک مقام پر نہ ٹھہر جائے ہم کسی مقام پر نہیں ٹھہر سکتے۔ (دل دریا سمندر)
اچھا مضمون ہے
Bht khoob
Great 👍
خوب است
راہِ فقر میں وہی طالب کامیاب ہوتا ہے جو ظاہر و باطن میں اپنی توجہ صاحبِ فقر مرشد کامل اکمل کی جانب کر لیتا ہے۔
Very Beautiful ❤️ and Informative Article
عشقِ حقیقی کے رنگ میں رنگنے کا اسمِ اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا مؤثر طریقہ نہیں ہے
Ameen
حضرت خواجہ غلام فریدؒ فرماتے ہیں :
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد منبر
مصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں
صوم صلوٰۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
سوچ ہی انسان کی اصل ہے ۔ سوچ کو مثبت بنا لینا ہی فقر میں کمال ہے ۔(سلطان العاشقین )
Ye mazmon bohat hi zabardast likha Hy Fatima NY Masha Allah ❤️❤️❤️❤️ is mazmon ki har ek baat bohat hi khas Hy …bohat Gor o fikar sy parrhen to asar b ho ga insha’Allah… Allah ap KO Khush rakhy
حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں :
انسان کے پاس اصل طاقت سوچ ہے۔
میڈا عشق وی توں میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں ایمان وی توں
میڈا جسم وی توں میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں جند جان وی توں
میڈا کعبہ قبلہ مسجد منبر
مصحف تے قرآن وی توں
میڈے فرض فریضے حج زکوٰتاں
صوم صلوٰۃ اذان وی توں
میڈا ذکر وی توں میڈا فکر وی توں
میڈا ذوق وی توں وجدان وی توں
بہترین
جو دم غافل سو دم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ
بہت خوب بہترین مضمون تحریر کیا ہے ۔
بہترین بلاگ
عشقِ حقیقی کے رنگ میں رنگنے کا اسمِ اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا مؤثر طریقہ نہیں ہے
عشق حقیقی کے رنگ میں رنگنے کا اسم اللہ ذات کے سوا کوئی دوسرا طریقہ نہیں ہے
ماشاءاللہ بہت خوب
بہت اچھی وضاحت کی ہے
Bohot khoob Behtareen
Haq Haq Haq