راز کی بات raaz ki baat
مراسلہ:عثمان صادق سروری قادری
میں نے ایک بزرگ سے پوچھا’’حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خدا کے محبوب ہیں، ان کی وجہ سے کائنات تخلیق کی گئی۔ دنیا کی ساری خوشیاں اُن کی وِلادت کے صدقے وجود میں آئیں، پھر باقی عبادتوں کی طرح میلادِ رسولؐ کو عین فرض کیوں نہیں کیا گیا؟ آخر ہر سال ربیع الاوّل کے آتے ہی یہ بحث کیوں شروع ہو جاتی ہے کہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آنے کی خوشی منانی چاہیے یا نہیں؟ ‘‘
وہ بزرگ میرا تذبذب بھانپ چکے تھے۔ اس سوال کے بعد وہ ایک لمحے کومسکرائے اور گویا ہوئے:
بیٹا! محبت ایک private (نجی)چیز کا نام ہے۔محبت کا آدھا حسن اُسے پوشیدہ رکھنے میں ہے۔اللہ سے بڑا سخی تو کوئی نہیں ہے ناں۔ اس لیے اپنامحبوب بھی، اُسکے جلوے بھی، اُسکی رحمت بھی اور اُسکی مسکان بھی ساری کائنات سے بانٹ لی۔ مگر پترّ، خدا بھی تو پھر خدا ہے ناں، ادھر بھی اُس نے ایک راز رکھ دیا، اُمتی سب کو بنادیا مگر عاشق کسی کسی کو۔۔۔ہر عاشق کی ایک نشانی ہے کہ وہ ہر رُکاوٹ اور فریب سے گزُر کر محبوب تک پہنچ ہی جاتا ہے۔ اِسی لیے اللہ پاک نے حج کو فرض کیا، کعبے کے گِرد طواف کوفرض کر دیا لیکن مدینے جانے کو فرض قرار نہیں دیا۔ اسکی وجہ صرف یہ ہے کہ عبادت میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں۔ایک فرض عبادت آپ کو مجبوراً کرنی ہی پڑتی ہے چاہے آپکا دل کرے یا نہ کرے، اس لیے حج عمرے کے فرائض مکہ تک ختم۔۔۔ اب مد ینہ صرف وہی جائے گا جس کا دل کرے گا، کوئی مجبوری نہیں۔
بیٹا! خدا نے سمجھا دیا کہ اُمتی کا تعلق مکہ سے ہے، عاشق کا تعلق مدینہ سے ہے۔ عبادت کا تعلق مکہ سے ہے، عشق کا تعلق مدینہ سے۔
اب اگر مدینہ کی حاضری بھی حج کارکن قرار دے دی جاتی تو با امر مجبوری،مدینہ ہر کسی کو ہی جانا پڑتا۔
اب خدا نے اپنی محبت اور محبوب کے پروٹوکول کا خیال بھی تو کرنا ہے ناں۔۔۔‘‘
میں انکی یہ بات سن کر نہ جانے کیوں خوشی سے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔
باباجی پھر فرمانے لگے’’ بیٹا! بالکل اِسی طرح خدا نے ہر اس عبادت کو فرض قرار دیا جس کا تعلق بس خدا سے ہے، اب اگر نماز پڑھنی ہے تو پڑھنی ہے، پھر چاہے محبت سے پڑھیں یا مجبوری سے۔ اِسی طرح روزہ ہے، اسی طرح زکوٰۃ۔ آپکو ہر حال میں یہ عبادتیں ادا کرنی ہیں، آپ کا دل چاہے یانہ چاہے۔ اب درود و سلام کو افضل ترین اور مقبول عبادت کا درجہ دیا۔وہ واحد عمل جو خدا بھی کرتا ہے، مگر اسکو فرض نہیں کیا۔ کیوں؟ تاکہ کوئی محبوری سے نہ پڑھے بلکہ جو بھی پڑھے محبت سے پڑھے۔ بیٹا! محبت ساری عبادتوں کا مرشد ہے۔اسی لیے میلادِ رسولؐ کو فرض قرار نہیں دیاتاکہ کوئی مجبوری سے یہ مقدس خوشی نہ منائے، جوبھی منائے جھوم کر منائے۔
اب سوچیں اگر یہ فرض عبادت ہوتی توکتنے لوگ ماتھے پہ بلَ چڑھا کر جیب سے پیسہ لگاتے؟ بیٹا! خدا کی بارگاہ میں سب کچھ گوارا ہے لیکن اُسکے محبوب( صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے نام پر دل کی تنگی اور ماتھے کی تیوری کسی صورت قبول نہیں۔خدانے ولادت کے سال ہر ماں کو نرینہ اولاد ایسے ہی تو عطا نہیں فرمادی ناں؟شام تک کے محلات روشن کرنا خدا کی حیثیت کے مطابق تھا۔اپنی گلی محلوں میں چراغاں کرنا ہماری حیثیت کے مطابق ہے۔۔مگر خوشی ایک ہے۔
جس طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وضو کا استعمال شدہ پانی زمین پر گِرنے نہ دینا فرض نہیں، مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے وضو کے استعمال شدہ پانی سے لیکر داڑھی اور سرِ مبارک کے بالوں تک کو بھی کبھی زمین پر نہیں گِرنے دیا، یہ فرائض نہیں یہ محبت ہے۔
بیٹا! محبت کا اصول سمجھ لیں، خدا نہیں چاہتا کہ کوئی مجبوری کے باعث اسکے محبوب کا نام لے، اُن کے آنے کی خوشی منائے۔
یہ راز کی باتیں ہیں۔۔ اللہ پاک ہر کسی کو درِ رسول ؐتک پہنچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین