سبق آموز حکایات Sabaq Amoz Hikayat
مراسلہ: عثمان صادق سروری قادری
ایک قصاب کا قصہ
بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر عاشق ہوگیا۔ اتفاق سے ایک دن کنیز کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں کسی کام سے بھیجا۔ قصاب کو موقع مل گیا اور وہ بھی اس کنیز کے پیچھے ہولیا۔ جب وہ جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آکر اسے پکڑ لیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا۔ جب اس کنیز نے دیکھا کہ اس قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا:
’’اے نوجوان !توُ اس گناہ میں نہ پڑ، حقیقت یہ ہے کہ جتنا توُ مجھ سے محبت کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالکِ حقیقی عزوجل کا خوف اس گناہ کے اِرتکاب سے روک رہا ہے۔‘‘
اس نیک سیرت اور خوفِ خدا عزوجل رکھنے والی کنیز کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ تاثیر کا تیر بن کر اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا:
’’جب تواللہ عزوجل سے اِس قدر ڈر رہی ہے تو میں اپنے پاک پروردگار عزوجل سے کیوں نہ ڈروں؟ میں بھی تو اسی مالک عزوجل کا بندہ ہوں، جا۔۔۔تو بے خوف ہو کر چلی جا۔‘‘
اتناکہنے کے بعد اس قصاب نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی اور واپس پلٹ گیا۔
راستے میں اسے شدید پیاس محسوس ہوئی لیکن اس ویران جنگل میں کہیں پانی کا دور دور تک کوئی نام ونشان نہ تھا۔ قریب تھا کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے اس کا دَم نکل جائے۔اتنے میں اسے اس زمانے کے نبی کا ایک قاصد ملا۔ جب اس نے قصاب کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا:
تجھے کیا پریشانی ہے؟
قصاب نے کہا ’’ مجھے سخت پیاس لگی ہے۔‘‘
یہ سن کر قاصدنے کہا: ہم دونوں مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل ہم پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے اور ہمیں سیراب کرے یہاں تک کہ ہم اپنی بستی میں داخل ہوجائیں۔
قصاب نے جب یہ سنا توکہنے لگا:
میرے پاس تو کوئی ایسا نیک عمل نہیں جس کا وسیلہ دے کر دعا کروں، آپ نیک شخص ہیں آپ ہی دعا فرمائیں۔
اس قاصد نے کہا:
ٹھیک ہے میں دعا کرتا ہوں، تم آمین کہنا۔
پھر قاصد نے دعا کرنا شروع کی اور وہ قصاب آمین کہتا رہا،تھوڑی ہی دیر میں بادل کے ایک ٹکڑے نے ان دونوں کو ڈھانپ لیا اور وہ بادل کا ٹکڑا ان پر سایہ فگن ہوکر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا۔
جب وہ دونوں بستی میں پہنچے تو قصاب اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا اور وہ قاصد اپنی منزل کی طرف جانے لگا۔
بادل بھی قصاب کے ساتھ ساتھ رہا ۔جب اس قاصد نے یہ ماجرا دیکھا توقصاب کو بلایا اور کہنے لگا:
تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نیکی نہیں اور تم نے دعا کرنے سے اِنکار کردیا تھا۔ پھر میں نے دعا کی اورتم آمین کہتے رہے لیکن اب حال یہ ہے کہ بادل تمہارے ساتھ ہو لیاہے اور تمہارے سر پر سایہ فگن ہے، سچ سچ بتاؤ تم نے ایسی کون سی عظیم نیکی کی ہے جس کی وجہ سے تم پر یہ خاص کرم ہوا؟
یہ سن کر قصاب نے اپنا سارا واقعہ سنایا۔اس پر اس قاصد نے کہا:
’’اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ دوسرے لوگوں کا نہیں۔‘‘
بے شک گناہ سرزد ہونا انسان ہونے کی دلیل ہے مگر ان پر توبہ کر لینا مومن ہونے کی نشانی ہے۔(حکایاتِ سعدی رحمتہ اللہ علیہ سے انتخاب)
پختہ ایمان
حضرت انس رضی اللہ عنہٗ کے مہمان خانے میں چند مہمانوں نے کھانا کھایا۔ کھانا کھا چکنے کے بعد حضرت انسؓ نے دیکھا کہ دستر خوان شوربہ لگ جانے سے زرد ہو گیا ہے۔ آپؓ نے خادمہ کو بلایا اور اسے دستر خوان دے کر فرمایا کہ اس کو جلتے ہوئے تندور میں ڈال دو۔ خادمہ نے حسبِ حکم ایسا ہی کیا۔ جملہ مہمانوں کو حیرت ہوئی اور دستر خوان کے جلنے اور اس سے دھواں اٹھنے کا انتظار کرنے لگے لیکن وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ آگ نے دستر خوان کو چھوا تک نہیں۔ خادمہ نے اسے صحیح سلامت تندور سے نکالا۔اس وقت وہ نہایت سفید اور صاف ہو چکا تھا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے دھو کر اس کی میل نکال دی ہے۔
دوست احباب نے جب یہ ماجرا دیکھا تو حضرت انسؓ سے پوچھا: ’’اے صاحبِ رسول!یہ کیا وجہ ہے کہ دستر خوان آگ سے محفوظ رہا اور پھر صاف بھی ہو گیا؟‘‘
حضرت انسؓ نے فرمایا ’’اس کا سبب یہ ہے کہ حضور پرُنور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس دستر خوان سے بارہا اپنے دستِ مبارک اور لب مبارک کو صاف کیا تھا اس لئے اسے آگ نہیں جلا سکی۔‘‘
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:
اے دل! اگر تجھے آتش ِدوزخ سے نجات پانے کی فکر ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قرب حاصل کر، جب آپؐ کے دستِ مبارک لگنے سے بے جان چیز کو جلنے سے بچا لیا گیا تو جو آپؐ کا عاشق ِزار ہوگا، جس کی آپؐ سے نسبت ہو گی وہ کیسے جلے گا۔
پھر مہمانوں نے خادمہ سے پوچھا کہ تو نے بلا تامل حضرت انسؓ کے کہنے پر بغیر سوچے سمجھے دستر خوان کو آگ میں ڈال دیا ۔کیا تو ڈری نہیں کہ اتنا قیمتی دستر خوان جل جائے گا؟ اس نے جواب دیا:
’’ میں حکم کی غلام ہوں اور مجھے یہ یقین ہے کہ آپؓ جو حکم فرمائیں گے وہ نقصان رساں نہ ہوگا۔‘‘
مولانا رومؒ نصیحت فرماتے ہیں’’وہ شخص جس کا دل جہنم کی آگ اور عذاب سے خوفزدہ ہو اس کو چاہیے کہ ایسے مبارک ہاتھوں اور لبوں کے قریب ہو جائے جن کا طریقہ اتباعِ سنت ہو۔‘‘
اے عزیزم!
مردانِ خدا کا دامن پکڑ جن کے لمس سے کندن بن جاؤ گے۔
درسِ حیات:
جس نے حضرت محمدؐ سے تعلق پیدا کر لیا، اس کی نجات ہوگئی۔ یاد رکھو! آپؐ سے نسبت صرف اس صورت میں ہو سکتی ہے جب آپؐ کی کامل اطاعت کی جائے۔ کامل اتباع کے لیے ایسے مرشد کامل اکمل کی صحبت ضروری ہے جو قدمِ محمدؐ پر فائز ہو اور اپنے مریدین کی تربیت عین اسی طرح کرتا ہو جیسے آنحضرتؐ نے اپنے اصحابؓ کی تربیت فرمائی۔(حکایاتِ رومی رحمتہ اللہ علیہ سے انتخاب)