سچائی کی اہمیت Sachchaai Ki Ahmiyat

Spread the love

Rate this post

سچائی کی اہمیت Sachchaai Ki Ahmiyat

تحریر: مسز فقیہہ صابر سروری قادری

حقیقت کے مطابق کی گئی بات سچ کہلاتی ہے جسے عربی میں ’’صدق‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن راہوں پر چلنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک راہ سچائی کی ہے۔ سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے۔ اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی اسی لیے شریعتِ محمدیؐ میں اس کی طرف خاص توجہ دلائی گئی ہے اور بار بار سچ بولنے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ     (سورۃالتوبہ۔ 119)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجائو۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں صدق جیسی عظیم صفت پیدا کی اور سچائی سے کام لینے کی ترغیب دی اور بتایا کہ جھوٹ فریب ہے، دھوکہ ہے اس سے آپس میں اعتماد کا خاتمہ ہوتا ہے اور انسان دوسروں کی نظروں میں گر جاتا ہے۔ سچ کا الٹ جھوٹ ہے جسے عربی میں ’’کذب‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جھوٹ اور سچ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ ہر انسان کے اندر یہ دونوں خصلتیں پائی جاتی ہیں۔ کسی میں سچ بولنے کی صفت غالب رہتی ہے تو کسی میں جھوٹ کی۔انسان تب جھوٹ بولتا ہے جب اسے کوئی معاملہ پھنستا نظر آتاہے اور عموماً اس کے پیچھے کوئی خوف کار فرما ہوتا ہے اور یہ ڈر اور خوف اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ انسان سے جانے انجانے میں کوئی ایسا عمل سرزد ہو جاتا ہے جس کا اظہار معیوب ہو یا اس کی وجہ سے کسی پریشانی یا دوسروں کی نظر میں گر جانے کا اندیشہ ہو، اِسی لیے انسان اپنے اس عمل کو چھپانے کے لیے ابتدا میں کوئی بہانہ تراشتا ہے جو جھوٹ کی جانب پہلا قدم ہوتا ہے۔ یہ پہلا قدم اتنا حسین اور آسان لگتا ہے کہ پھر بندہ اس راہ پر چل نکلتا ہے اور سچ سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نسبت سچ بولنا مشکل کام ہے اس لیے کہا جاتا ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے اور اس کی طرف دل مشکل سے مائل ہوتا ہے۔ دل میں ہزارقسم کے وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور پہلا قدم ہی اتنا دشوار لگتا ہے کہ انسان اس راہ کے انتخاب میں ہی دیر کر دیتا ہے۔ سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے لیکن اس کی تاثیر بہت میٹھی ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ سچ یاد رکھنا نہیں پڑتا جبکہ ایک جھوٹ چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔ 

مسلم معاشرے کا تشخص سچائی اور دیانت داری ہے لیکن جہاں ہماری دیگر بنیادی اخلاقیات تباہ ہو گئی ہیں وہیں ہمارے اندر سے سچائی، ایمانداری اور دیانتداری جیسے اعلیٰ اوصاف بھی ناپید ہو گئے ہیں۔ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں ہم جھوٹ اور بے ایمانی سے کام لینے لگے ہیں۔ اپنے ارد گرد دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ اور سچ آپس میں اس طرح گڈمڈ ہو گئے ہیں کہ انہیں جدا کرنا مشکل ہو گیا ہے۔ جھوٹ کو ہم نے مصلحت و حکمت کا خوبصورت نام دے دیا ہے جبکہ جھوٹ جھوٹ ہی ہے خواہ اسے کوئی بھی نام دیا جائے۔ جھوٹ اگر مصلحتاً جائز ہوتا تو یقینا ہمیں انبیا کرامؑ اور صحابہ کرامؓ کی زندگیوں سے کچھ مثالیں ضرور ملتیں لیکن چونکہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں سے ایک ہے اس لیے کسی صورت بھی جائز نہیں۔

اللہ تعالیٰ نے انبیا کرامؑ کی توصیف اسی صفتِ حسنہ سے کی ہے۔  ارشادِباری تعالیٰ ہے:
وَاذکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِبْرٰھِیْمَ ۵ط اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔  (سورۃ مریم۔ 41)
ترجمہ: اور آپ کتاب (قرآنِ مجید) میں ابراہیم (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔ 

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صفات کو بیان کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے:
وَاذکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ چ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا۔ (سورۃ مریم۔ 54)

ترجمہ: اور آپ (اس) کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا ذکر کریں، بیشک وہ وعدہ کے سچے تھے اور صاحبِ رسالت نبی تھے۔

 حضرت ادریس علیہ السلام کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے:
وَاذکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِدْرِیْسَ چ اِنَّہٗ کَانَ صِدِّیْقًا نَّبِیًّا۔ (سورۃ مریم۔ 56)
ترجمہ: اور (اس) کتاب میں ادریس (علیہ السلام) کا ذکر کیجئے، بیشک وہ بڑے صاحبِ صدق نبی تھے۔

صدق اللہ کے انبیا اور نیک بندوں کی صفات میں سے ہے۔ ہمارے پیارے نبی خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اعلانِ نبوت سے پہلے ہی صادق و امین کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا۔ اہلِ مکہ کافر تھے مگر یہ جانتے تھے کہ صادق و امین ہونا بہت اچھی صفات ہیں اسی لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی فضیلت کے طور پر کفارِ مکہ آپؐ کو اِنہی صفات سے یاد کرتے تھے۔ آپؐ کی یہ صفات بچپن سے نمایاں تھیںجبکہ آپؐ نے اعلانِ نبوت تو چالیس سال کی عمر میں کیا ۔

رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرب کے معاشرے میں سب سے پہلے جو بنیادی تعلیم لوگوں کو دی تھی اس میں سچائی بھی تھی۔ آپؐ کی دعوت پر جو لوگ ایمان لائے وہ عقیدہ کے پکے اور باتوں کے سچے تھے، وہ جان تو دے سکتے تھے مگر جھوٹ نہیں بول سکتے تھے۔ مومن کی شان یہی ہے کہ وہ اپنی زبان کو جھوٹ سے پاک رکھے۔

پاک رکھ اپنی زباں، تلمیذ رحمانی ہے تو
ہو نہ جائے دیکھنا، تیری صدا بے آبرو

سچ بولنے کا اعلیٰ مرتبہ یہ ہے کہ انسان کو ایسے لوگوں کے سامنے اور ایسے موقع پر سچ بولنا پڑے جب کہ سچ بولنے کے نتیجہ میں تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہو پھر بھی سچ بولنے سے گریز نہ کرے۔    

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
’’ظالم حکمران کے سامنے سچ بات کہنا بہترین جہاد ہے۔‘‘

سچائی صرف قول پر منحصر نہیں بلکہ قول کے ساتھ ساتھ فعل پر بھی منحصر ہے جو ہمیشہ قول وفعل میں سچا ہو وہ ’’صدیق‘‘ کہلاتا ہے اور ’’صدیق‘‘ اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں میں شامل ہوتا ہے۔ جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر 69 میں مذکورہ چار طبقات کا خصوصی طور پر تذکرہ موجود ہے جن کو اللہ تعالیٰ نے خود انعام یافتہ قرار دیا ہے۔

 ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّھَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ ج وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔ 
ترجمہ: اور جو کوئی اللہ اور رسولؐ کی اطاعت کرے تویہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔

قران و سنت میں ’’صادق‘‘،’’صدوق‘‘اور ’’صدیق‘‘ کے الفاظ موجود ہیں۔ ان کے معنی اور مفہوم میں فرق ہے وہ اس طرح کہ سچے شخص کو ’’صادق‘‘ بہت سچے کو ’’صدوق‘‘ جبکہ بہت ہی زیادہ سچے کو ’’صدیق‘‘ کہا جاتا ہے۔

حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تم مجھے چھ چیزوں کی ضمانت دے دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں: جب بھی بات کرو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو اسے پورا کرو، تمہیں امانت دی جائے تو اسے ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، نظریں جھکائے رکھو اوراپنے ہاتھوں کو (دوسروں کواذیت دینے سے)روکے رکھو۔ (مسنداحمد۔23137)

صدق کی اقسام

امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ نے صدق(سچ) کی چھ اقسام بیان کیں جوکہ حسب ِذیل ہیں:
(1)زبان کاصدق (2)نیت میں صدق (3)ارادہ میں صدق (4)ارادہ کو پورا کرنے میں صدق(5)عمل میں صدق (6)دین کے تمام مقامات کی تحقیق میں صدق۔ ان کی تفصیل حسب ِذیل ہے:

زبان کا صدق

پہلی قسم زبان کا صدق ہے اور یہ خبردینے یااُس کلام میں ہوتا ہے جو خبردینے کو اپنے ضمن میں لئے ہوئے ہو اور خبر کا تعلق زمانہ ماضی کے ساتھ ہوتا ہے یا زمانہ مستقبل کے ساتھ اور اس میں وعدے کو پورا کرنا اور اس کی خلاف ورزی کرنا بھی داخل ہے۔ ہر بندے پر لازم ہے کہ اپنے الفاظ کی حفاظت کرے اور صرف سچی گفتگو ہی کرے۔ صدق کی اقسام میں سے سب سے زیادہ مشہور اور ظاہر یہی قسم ہے۔

نیت میں صدق

صدق کی دوسری قسم کا تعلق نیت سے ہے اور اس کا مرجع اِخلاص ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اس کی حرکات و سکنات کا باعث صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے۔ اگر اس میں کسی نفسانی غرض کی آمیزش ہو جائے گی تو نیت میں صدق باطل ہوجائے گا اور ایسے شخص کو جھوٹا کہا جا سکتا ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے:
وہ شخص جس نے علم پڑھا، پڑھایا اور قرآن کی قرأت کی، اسے (اللہ کے سامنے) پیش کیا جائے گا۔ (اللہ تعالیٰ) اسے اپنے نعمتوں کی پہچان کرائے گا اور وہ شخص پہچان لے گا۔ اللہ پوچھے گا کہ تو نے ان نعمتوں کے ساتھ کیا کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم پڑھا اور پڑھایا اور تیری خاطر قرآن کی قرأت کی۔ (اللہ) فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا۔ تو نے علم اس لیے پڑھا کہ کہا جائے کہ یہ عالم ہے اور تو نے قرآن اس لیے پڑھا کہ کہا جائے کہ یہ قاری ہے۔ (صحیح مسلم 4923)

ارادہ میں صدق

صدق کی تیسری قسم ارادہ میں صدق ہے کیونکہ انسان کبھی عمل کا ارادہ کرتے ہوئے اپنے دل میں کہتا ہے ’’اگر اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا کرے تو میں تمام یا آدھا مال صدقہ کر دوں گا۔‘‘یہ عزم کبھی بندہ اپنے دل میں پاتا ہے اور یہ پختہ اور صادق ہوتا ہے اور کبھی اس کے عزم میں ایک قسم کا میل، تردد اور ضعف ہوتا ہے جو صدق فی العزم (عزم میں صدق)کے مخالف ہوتا ہے۔

 عزم(ارادہ) کو پورا کرنے میں صدق

صدق کی چوتھی قسم عزم کو پورا کرنے میں صدق ہے۔ نفس بعض اوقات فوری ارادہ کر لیتا ہے اس لئے کہ وعدہ اور ارادہ کرنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی اور اس میں خرچ بھی کچھ نہیں ہوتا لیکن جب وقت آتا ہے، قدرت حاصل ہوتی ہے اورشہوت بھڑکتی ہے تو عزم (ارادہ)کی گرہ کھل جاتی ہے، شہوت غالب آ جاتی ہے اور وہ عزم کو پورا نہیں کر سکتا اور یہ بات صدق (سچ) کی اس قسم کے خلاف ہے۔اِسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’مومنوں میں سے (بہت سے) مردوں نے وہ بات سچ کر دکھائی جس پر انہوں نے اللہ سے وعدہ کیا تھا۔‘‘(سورۃالاحزاب۔23)

عمل میں صدق

صدق کی پانچویں قسم اعمال میں صدق ہے۔ وہ یہ کہ بندہ اعمال میں کوشش کرے،یہاں تک کہ اس کے ظاہری اعمال اس کی کسی ایسی باطنی بات پر دلالت نہ کریں جو اس میں نہیں ہے۔مثلاًبہت سے لوگ نماز میں خشوع و خضوع کی حالت میں کھڑے ہوتے ہیں اور ان کا مقصد کسی کو دکھانا نہیں ہوتا لیکن ان کے دل نماز سے غافل ہوتے ہیں۔ تو جو شخص انہیں دیکھے گایہی سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہیں حالانکہ باطنی طور پر وہ بازار میں کسی خواہش کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں۔ تویہ اعمال زبانِ حال سے باطن کی خبر دیتے ہیں جس میں وہ جھوٹا ہوتا ہے اور اس سے اعمال میں صدق کی پوچھ گچھ کی جائے گی۔

تمام مقاماتِ دین کی تحقیق میں صدق

 صدق کی چھٹی قسم سارے درجاتِ صدق سے اعلیٰ اور نادر ہے اور اس کا تعلق مقاماتِ دین سے ہے جیسا کہ خوف، امید، تعظیم، رضا، توکل، محبت اور تمام امور ِطریقت میں صدق، کیونکہ ان امور کے کچھ مبادی ہوتے ہیں کہ جن کے ظاہر ہونے سے یہ نام لئے جاتے ہیں، پھر ان کی غایتیں اورحقائق ہوتے ہیں۔حقیقی صادق وہی ہے جو اِن کی حقیقت کو پالے اور جب کوئی شے غالب ہو اور اس کی حقیقت بھی کامل ہو تو اس کے ساتھ موصوف شخص کو صادق کہتے ہیں جیسے کہا جاتا ہے ’’فلاں لڑائی میں سچا ہے‘‘ اور کہتے ہیں ’’یہ خوف سچا ہے۔‘‘

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے پوچھا گیا: کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟آپؐ نے فرمایا ہاں ہو سکتا ہے،پھر پوچھا گیا کیا مومن  بخیل ہو سکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں!پھر پوچھا گیا کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا’’ نہیں !مومن جھوٹا نہیں ہو سکتا۔‘‘

اس سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ انسان کو ایمان سے دور کر دیتا ہے اور ایمان کے بعد کفر و گمرا ہی ہے اور گمراہی انسان کو جہنم لے جاتی ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا۔یہ بات یاد رہے کہ جھوٹ جیسا بھی ہو برا ہے لیکن اللہ اور رسولؐ پر جھوٹ باندھنا بہت برا ہے۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلَی اللّٰہِ وَ کَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِذْ جَآئَہٗ (سورۃ الزمر۔32)
ترجمہ: تواس سے بڑھ کر ظالم کون جو اللہ پر جھوٹ باندھے اورحق کوجھٹلائے جب وہ اس کے پاس آئے؟ 

 اسی طرح آقائے دوجہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کرنا یا کسی فعل شریعتِ محمدی کی جانب منسوب کرنا بھی نبی اکرمؐ پر جھوٹ باندھنے میں شامل ہے۔ اس کے متعلق حدیثِ نبویؐ ہے:
مجھ پر جھوٹ باندھنا کسی اور پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے ،جومجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے گا تو اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔ (صحیح بخاری۔1291)

حضرت رومیؒ نے گفتگو کے تین دروازے بتائے تھے ۔ آپؒ کہا کرتے تھے:
آپ کا کلام جب تک ان تین دروازوں سے نہ گزر جائے آپ اس وقت تک اپنا منہ نہ کھولیں۔ آپ اپنی گفتگو کو سب سے پہلے سچ کے دروازے سے گزاریں، اپنے آپ سے پوچھیں آپ جو بولنے لگے ہیں کیا وہ سچ ہے؟ اگر اس کا جواب ہاں آئے تو پھر آپ اس کے بعد اپنے کلام کو اہمیت کے دروازے سے گزاریں۔

آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ آپ جو کہنے جا رہے ہیں کیا وہ ضروری ہے؟ اگر جواب ہاں آئے تو آپ اس کے بعد اپنے کلام کو مہربانی کے دروازے سے گزاریں ۔

آپ اپنے آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ کے الفاظ نرم اور لہجہ مہربان ہے؟ اگر لفظ نرم اور لہجہ مہربان نہ ہو تو آپ خاموشی اختیار کریں خواہ آپ کے سینے میں کتنا ہی بڑا سچ کیوں نہ ہو اور آپ کا کلام خواہ کتنا ہی ضروری کیوں نہ ہو !

مولانا رومؒ کی ذات میں یہ تینوں دروازے حضرت شمس تبریزؒ نے کھولے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے مولانا رومؒ نے حضرت شمس تبریزؒ سے ملاقات کے بعد کبھی کوئی ایسا لفظ منہ سے نہیں نکالا تھا جو نرم نہ ہو، جو ضروری نہ ہو اور جو سچ نہ ہو ۔اس کے بعد وہ مولوی روم سے مولانا روم ؒبنے۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ سچ بولنے کی اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

استفادہ کتب:
۱۔سچائی مومن کا زیور: مفتی ڈاکٹر محمد کریم خان
۲۔مضمون: شیخ افلاق حسین
۳۔مضمون: مفتی محمد قاسم عطاری


Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں