صلح حدیبیہ Sulah Hudaybiyyah
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
دینِ اسلام صرف زبانی طور پر کلمہ پڑھ لینے کا نام نہیں ہے بلکہ اس کو خود پر نافذ کرنے کا نام ہے۔ خلقِ محمدیؐ کو اپنا لینے کا نام ہے۔ یعنی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے تمام تر اوصاف جیسا کہ صبر، شکر، علم، حلم، شجاعت، عفو و درگزر، تواضع و انکساری، تحمل و بردباری، سخاوت، محبت وغیرہ کو اپنایا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اطوار کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا جائے۔ اللہ کی رضا میں راضی رہا جائے، راہِ حق میں گھر بار چھوڑنا پڑے تو دریغ نہیں کرنا چاہیے، مال و دولت اور رشتے قربان کرنے پڑیں تو پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے کیونکہ یہ دنیا کی زندگی تو عارضی اور چند روز کی ہے۔ اس میں ہمیں وہ سب امور انجام دینے ہیں جو اللہ کی رضا اور اس کے محبوبؐ کی خوشنودی کا باعث بنیں۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتِ مطہرہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔ وہ جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے رنگ میں رنگ گئے تھے، جنہوں نے اپنی ہستیوں کو فراموش کر دیا تھا، جن کی زندگی کا ہر لمحہ سنتِ رسولؐ کا رنگ لیے ہوئے تھا، جن کا ہر عمل صبر و شکر کی صفات سے عبارت تھا،جو آپس میں حلم، تواضع اور عفو و درگزر کی عملی تفسیر تھے، جنہوں نے شجاعت اور بہادری سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر لمحہ اس طرح ساتھ دیا کہ تاریخ میں اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہر حکم پر لبیک کہا، تن من، دھن کی بازی لگانے سے کبھی پیچھے نہ ہٹے۔ دشمن کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو، بے سروسامانی کی حالت میں بھی سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ اللہ تعالیٰ سورۃ العنکبوت کی آیت نمبر 2میں واضح طور پر فرما چکا ہے ’’کیا لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف ان کے یہ کہنے پر کہ ہم ایمان لے آئے، چھوڑ دئیے جائیں گے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے گی؟‘‘
تاریخِ اسلام میں ایسے بیشمار واقعات موجود ہیں جن سے صحابہؓ کے عشقِ رسولؐ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف زبانی کلمہ گو نہیں تھے بلکہ ہر آزمائش میں سے کامیابی سے گزرے۔ انہی آزمائشوں میں ایک واقعہ’’ صلح حدیبیہ‘‘ کا ہے جو ماہِ ذیقعد 6ھ میں مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان ایک معاہدہ کی صورت میں حدیبیہ کے مقام پر ہوا۔
حدیبیہ مکہ کے نزدیک ایک کنویں کا نام تھا، اس کے اردگرد چند قبائل آباد ہو گئے جس کی وجہ سے وہ علاقہ ہی حدیبیہ کے نام سے مشہور ہو گیا۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً نو میل کے فاصلے پر ہے۔
پسِ منظر:
کافروں کے ظلم و ستم سے تنگ آکر اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اور مسلمان مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے۔ وہ شہر جہاں ان کی زندگی کے شب و روز گزرے تھے، جہاں ان کے عزیز و اقارب اور کاروبار و جائیداد تھی، وہ شہر جہاں بیت اللہ تھا جس کی حرمت جہاں بھر میں مشہور تھی۔ جس کی زیارت کے لیے طول و عرض سے لوگ جوق در جوق آیا کرتے تھے۔ جس کی حرمت اور شان و عظمت سے زمانہ آگاہ تھا۔ اس شہر کو چھوڑنا آسان تو نہ تھا لیکن عشق تو آزمائش سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ مکہ میں مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کی وجہ سے خاموش تھے، خود پر ہونے والے ہر ظلم و ستم اور زیادتی کو صبر و تحمل سے سہہ رہے تھے۔ مسلمانوں کی پسماندگی سے کفار کویک گونہ سکون حاصل ہوتا لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہجرت فرماتے ہی مکہ کے مسلمان بھی اپنا گھر بار چھوڑ کر مدینہ پہنچنے لگے جس سے مشرکینِ مکہ کے غصہ و طیش میں بے پناہ اضافہ ہو گیا۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ مسلمانوں کو کسی حال میں سکون سے رہنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے اپنی سازشیں جاری رکھیں جس کے نتیجہ میں غزوۂ بدر، غزوۂ اُحد اور غزوۂ خندق جیسی فیصلہ کن جنگیں بھی ہوئیں۔ ان جنگوں میں کفارِ مکہ کو شدید جانی و مالی نقصان بھی اٹھانا پڑا۔ مشرکین نے مسلمانوں کا مکہ میں داخلہ بند کر دیا۔
وہ بیت اللہ جس کے درو دیوار سے لپٹ کر دعائیں مانگا کرتے تھے، جس کے صدقے اپنی حاجات پوری ہونے کی التجائیں کرتے تھے، جس کے طواف سے جسم و روح کو فرحت پہنچاتے تھے، جس کے دیدار سے آنکھوں کی پیاس بجھاتے تھے، اس زیارت سے محرومی مسلمانوں کو ہر لمحہ بے چین و بیقرار رکھتی۔ شاید اس سے بھی مسلمانوں کی آزمائش مقصود تھی۔ جن کے ساتھ وہ ہستی ہو جو کائنات کی روحِ رواں ہے، جن کے دیدار کا اللہ خود مشتاق رہتا ہے، جو زمین و فلک کی ہر مخلوق کا مرکز و محور ہیں، اس ہستی کے ہوتے ہوئے کسی اور طرف نگاہیں جمانا عشاق کا طریق نہیں۔
ایک روز حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ کو بتایا کہ آپؐ نے خواب دیکھا ہے کہ سب مسلمان امن و سلامتی سے حرمِ کعبہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سن کر مسلمانوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ وہ جانتے تھے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ خواب یقینا سچ ہوگا، اس میں ذرّہ برابر بھی شک نہیں۔ لیکن یہ بھی خیال ستا رہا تھا کہ یہ ممکن کیسے ہوگا؟ کفارِ مکہ تو آسانی سے وہاں آنے نہیں دیں گے، کیا کوئی جنگ ہوگی؟ آقا کے حکم کی تعمیل کی خاطر بیشمار خدشات دماغ میں لیے مسلمان مکہ جانے کی تیاریوں میں مشغول تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مدینہ کے اردگرد کے مسلمان قبائل کو بھی اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔
یکم ذیقعد کو عاشقانِ رسولؐ کا قافلہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قیادت میں مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوا۔ ان کی تعداد 1400 سے 1500 کے درمیان تھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی اونٹنی پر سوار تھے۔ قربانی کے ستر اونٹ بھی ساتھ لے لیے گئے۔ مدینہ سے تقریباً 7 میل دور ذوالحلیفہ کے مقام پر پہنچ کر سب نے احرام باندھا۔ اس وقت سب کے پاس صرف ایک ایک تلوار تھی وہ بھی محض اپنی حفاظت کے لیے نہ کہ جنگ کے لیے۔ اس کے علاوہ مسلمانوں کے پاس کوئی ہتھیار نہ تھا کیونکہ ان کے پیشِ نظر صرف بیت اللہ کی زیارت تھی نہ کہ جنگ۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ترتیب یہ تھی کہ ہر سفر میں امہات المومنین ؓمیں سے کسی کو رفاقت اور ہمراہی کا شرف بخشتے۔ اس سفر میں اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا کے نام قرعہ نکلا اس لیے وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہمراہ تھیں۔
قریش کو جب مسلمانوں کے اس قافلہ کی روانگی کا علم ہوا تو ان کو وسوسوں اور اندیشوں نے گھیر لیا کہ بیت اللہ کی زیارت تو محض بہانہ ہے، مسلمان مکہ پر قبضہ کرنے آرہے ہیں۔ انہوں نے بھی آناً فاناً اپنا اجلاس بلایا، مشاورت کے بعد یہ طے پایا کہ گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں نے جس قدر انہیں جانی و مالی نقصان پہنچایا ہے، اب کسی صورت مسلمانوں کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔
جب قافلہ عسفان کے مقام پر پہنچا جو مکہ سے صرف دو دن کی مسافت پر تھا تو وہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بنی کعب کا ایک آدمی ملا۔ اس نے بتایا کہ کفارِ مکہ آپ کی آمد سے باخبر ہیں اور وہ مکہ سے باہر نکل کر ذوطویٰ کے مقام پر خیمہ زن ہیں تاکہ آپ کو مکہ میں داخل ہونے سے روک سکیں اور انہوں نے دو سو شہسواروں کا دستہ بھی خالد بن ولید کے ہمراہ عسفان کی قریبی بستی کراع غمیم کی جانب روانہ کیا ہے۔ (حضرت خالد بن ولید اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صحابہ کرامؓ سے مشاورت کی کہ یہ لوگ ہمیں خانہ کعبہ کی زیارت سے روکنا چاہتے ہیں۔ کیا ہم ان کے اہل و عیال کی طرف بڑھیں اور انہیں گرفتار کر لیں تو یہ یقینا ان کی مدد کو آئیں گے، ان کا گروہ ٹوٹ جائے گا، ہم انہیں مفلس کر کے چھوڑیں گے! حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ نے عرض کی ’’یارسولؐ اللہ! آپ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے نکلے ہیں، لڑائی کے لیے نہیں۔ اس لیے آپ کو خانہ کعبہ کا رخ ہی کرنا چاہیے۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تائید فرمائی اور مکہ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔
خالد بن ولید کے دستہ نے جب مسلمانوں کے کثیر لشکر کا غبار اڑتے دیکھا تو فوراً قریش کو مطلع کرنے بھاگے۔ مسلمانوں کا قافلہ چلتے چلتے اس پہاڑی کے پاس پہنچا جس سے مکہ کی جانب اترا جاتا تھا۔ اس مقام پر پہنچ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اونٹنی قصوا بیٹھ گئی۔ مسلمانوں نے خیال کیا کہ شاید تھک گئی ہے لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اِسے اُس ہستی نے آگے بڑھنے سے روکا ہے جس نے اصحابِ فیل کو آگے بڑھنے سے روکا تھا۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مکہ والے عظمتِ حرم برقرار رکھنے کے لیے مجھ سے جو بھی خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔‘‘
حدیبیہ کے مقام پر قافلہ رکا،پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ تک دستیاب نہیں تھا۔ مسلمانوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی کہ سارے کنویں خشک ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ترکش میں سے ایک تیر نکالا اور صحابہؓ کو دیا کہ کنویں میں ڈال دیں۔ جونہی حکم کی تعمیل ہوئی کنواں پانی سے بھر گیا۔ نہ صرف تمام لوگ بلکہ جانور بھی اس پانی سے سیراب ہو گئے۔
اسی اثنا میں بنی خزُاعَہ کا سردار بدُیل بن ورقاء خزاعی وہاں آیا جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا رازدار تھا۔ مکہ کی تمام خبریں وہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو پہنچایا کرتا تھا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے فرمایا ’’قریش کو مطلع کرو کہ ہم تو صرف بیت اللہ کی زیارت اور حج کے ارادہ سے آئے ہیں نہ کہ جنگ کے ارادہ سے۔ انہی لڑائیوں نے قریش کو کمزور کر دیا ہے۔ اگر وہ صلح کرنا چاہیں تو ایک مقررہ مدت تک ان سے صلح کر لیں گے جس دوران نہ وہ ہم سے لڑیں گے نہ ہم ان سے۔ نہ ہی دیگر قبائل اس میں دخل انداز ہوں گے۔ اس دوران اگر کافر ہم پر غالب آجائیں تو ان کی مراد پوری ہو جائے گی۔ اگر ہم کافروں پر غالب آجائیں تو قریش کو اختیار ہے کہ دینِ اسلام میں داخل ہونا چاہیں تو ہو جائیں اور مسلمان نہ ہونا چاہیں تو صلح نامہ کی بنا پر ان کو نقصان نہیں اٹھانا پڑے گا۔ اگر قریش ان تمام باتوں میں سے کسی بات کو نہ مانیں تو خدا کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میں دین کی خاطر تب تک ان سے لڑتا رہوں گا جب تک میری گردن تن سے جدا نہ ہو جائے۔ یہ یقینی امر ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے دین کو غلبہ عطا فرمائے گا۔‘‘
بدُیل بن ورقاء مکہ گیا اور قریش کو بتایا کہ مسلمان صرف بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، ان کا جنگ کا کوئی ارادہ نہیں۔ ان کا راستہ نہ روکو اور انہیں زیارت کرنے دو۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پیغام بھی ان کے سامنے پیش کر دیا لیکن قریش اسلام کے خلاف اپنی عداوت کی بنا پر راضی نہ ہوئے۔
قریش نے بنو عامر بن لوئی کے ایک آدمی مکرز بن حفص کو مسلمانوں کی جانب بھیجا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب اسے دیکھا تو صحابہ کو خبردار کیاکہ یہ مکار اور دھوکے باز انسان ہے۔ جب وہ قریب آیا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے بھی وہی بات کہی جو بدیل بن ورقاء سے کہی تھی۔ مکرز قریش کی طرف لوٹا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا بیان بتا دیا۔
اہلِ مکہ نے اردگرد کے کچھ قبائل کے ساتھ دوستی کے معاہدے کر رکھے تھے۔ اس وقت اہلِ مکہ کو ان کی مدد کی ضرورت تھی کیونکہ وہ بلا کے تیرانداز اور جنگجو تھے۔ قریش نے ان قبائل کے سردار حلس بن علقمہ کو اپنا نمائندہ بنا کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس بھیجا۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے آتے دیکھا تو صحابہؓ سے فرمایا کہ یہ آدمی ان لوگوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ کے حق اور حرمت کا پاس رکھتے ہیں، قربانی کے جانور اس کے سامنے سے گزارو۔ جب حلس نے قربانی کے جانور دیکھے تو بغیر کوئی گفتگو کیے واپس چلا گیا اور جا کر قریش کو بتایا ’’میں ایسی چیزیں دیکھ کر آیا ہوں جنہیں روکنا جائز نہیں۔ قربانی کے جانور ہیں، ان کی گردنوں میں قلادے ہیں، زیادہ دیر ٹھہرائے جانے کی وجہ سے ان کے تانت کھائے جا چکے ہیں۔‘‘ قریش اس پر ناراض ہو گئے اور اسے خوب برا بھلا کہا کہ تم بدو ہو تمہیں کسی بات کی کوئی خبر نہیں۔
اس کے بعد قریشِ مکہ نے عروہ بن مسعود ثقفی (جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے) کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس جانے کا کہا کہ انہیں واپس جانے پر آمادہ کرے۔ پہلے تو وہ انکار کرتا رہا کہ ایسا نہیں کرے گا کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے ہی حلس بن علقمہ کی بے عزتی کی گئی تھی تاہم قریش کے سرداروں نے اس کی فہم و فراست کا تذکرہ کر کے اسے اس بات پر راضی کر ہی لیا۔
عروہ بن مسعود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس حاضر ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے بھی وہی بات کہی جو پہلے والوں سے کہی تھی۔ عروہ نے کہا کہ مکہ آپ کی قوم کا مرکز ہے، اگر آپ جنگ کریں گے تو اپنی ہی قوم کی بیخ کنی کریں گے۔ کیا اس سے پہلے کبھی سنا ہے کہ کسی نے اپنی ہی قوم کی جڑ کاٹی ہو۔ اگر قریش غالب آگئے تو خدا کی قسم مجھے بہت سے چہرے ایسے نظر آرہے ہیں جو آپ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں گے (کیونکہ بہت سے صحابہؓ یعنی مہاجرینِ مکہ کے مختلف قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔)
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ جو پاس ہی کھڑے ہوئے تھے، انہوں نے عروہ کو کرارا جواب دیا کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہم حضور کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔
تھوڑی دیر مسلمانوں کے خیموں میں گزارنے کے بعد عروہ بن مسعود مکہ واپس پہنچا اور جا کر قریش سے کہا کہ مسلمان جنگ کے ارادے سے نہیں آئے بلکہ بیت اللہ کی زیارت کی نیت سے آئے ہیں۔ میں قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے درباروں میں بھی گیا ہوں لیکن ایسے جانثار عاشق میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے۔ وہ نہ تو محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے وضو کا ایک قطرہ نیچے گرنے دیتے ہیں اور نہ ہی تھوک۔ بلکہ اس تھوک اور وضو کے پانی کو اپنے چہروں اور جسموں پر مل لیتے ہیں۔ اگر وہ انہیں کسی کام کا حکم فرماتے ہیں تو ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کام کو کرنے میں سبقت لے جائے۔ جب وہ کلام کرتے ہیں تو اپنے پیغمبر کی عظمت کے پیشِ نظر اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں اور ادب کے طور پر اپنی نگاہیں نیچی رکھتے ہیں۔ اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ مسلمان اپنے نبی کو چھوڑ کر چلے جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا۔
قریش چونکہ مسلمانوں کو مکہ نہیں آنے دے رہے تھے انہیں اندیشہ تھا کہ اگر یہ خبر دوسرے قبائل اور علاقوں تک پہنچ گئی تو بہت بدنامی ہوگی کہ مسلمانوں کو بیت اللہ کی زیارت سے روکا ہوا ہے۔ قریش بیت اللہ کے خادمین نہیں بلکہ خود کو مالک ظاہر کر رہے ہیں۔ بیت اللہ کے تقدس کے پیشِ نظر قریش جنگ بھی نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن اس کوشش میں ضرور تھے کہ مسلمانوں کو مشتعل کر دیا جائے تاکہ وہ جنگ میں پہل کریں۔ انہوں نے رات کے اندھیرے میں اپنے کئی شریر بندے بھیجے جنہوں نے مسلمانوں کے خیموں پر پتھر پھینکے۔ مسلمانوں نے ان کو پکڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کر دیا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا۔
حالات کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ رہے تھے۔ قریش نے جتنے بھی سفیر بھیجے انہوں نے واپس جا کر یہی کہا کہ مسلمانوں کو زیارت کرنے سے نہ روکیں لیکن قریش کسی صورت مطمئن نہ ہو رہے تھے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کی طرف سے حضرت عمرؓ کوبطور سفیر مکہ بھیجنا چاہا تو حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ حضرت عثمان غنیؓ اہلِ مکہ کے نزدیک زیادہ معزز اور محترم ہیں چنانچہ حضرت عثمانؓ کو سفیر بنا کر بھیجا گیا جنہوں نے قریشِ مکہ کو مطمئن کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ ہم نے احرام باندھے ہوئے ہیں۔ ہم کسی غلط ارادے سے نہیں آئے۔ قریش کے سرداروں نے کہا کہ آپ آئے ہیں تو طواف کر لیں۔ لیکن عاشقِ رسول حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ نے یہ گوارا نہ کیا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بغیر طواف کریں۔جن کی روح کی غذا ہی دیدارِ مصطفیؐ ہو، جن کی نگاہوں کا مرکز و محور محبوبِ خدا ہو، وہ کس طرح اپنے محبوب کو چھوڑ کر بیت اللہ کا طواف کرتے، اس لیے انکار کر دیا۔
قریش کسی صورت اپنی ضد سے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ ان کا موقف یہ تھا کہ ہم نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو اس سال مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے لہٰذا اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آجائیں۔
اس دوران مسلمانوں کے قافلہ میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ کو شہید کر دیا گیا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو جمع کیا اور ان سے بیعت لی کہ اس وقت تک واپس نہیں جائیں گے جب تک حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کا بدلہ نہ لے لیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک درخت کے نیچے تشریف فرما تھے اور تمام جانثار شوقِ شہادت میں اپنے محبوب پر جان قربان کرنے کے منتظر تھے۔ ایسی حالت کہ سامانِ جنگ بھی پاس نہیں اور نہ ہی کسی طرف سے مدد کی کوئی امید ہے لیکن عشق کب ظاہری اسباب دیکھتا ہے۔عاشق تو بس اپنے معشوق کے حکم کی تعمیل کرنا جانتے ہیں۔ محبوب کی رضا اور چہرے کا تبسم دیکھنے کے لیے عاشق تو سر دھڑ کی بازی لگا دیتے ہیں، تمام صحابہؓ نے بھی عہد کیا کہ اب تو کسی صورت واپس نہ جائیں گے جب تک دامادِ رسولؐ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کا بدلہ نہ لے لیں۔
حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور اللہ کا پیغام دیا کہ جن لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اللہ ان سے راضی ہے۔ اسی لیے اس بیعت کو’’ بیعتِ رضوان‘‘ کہا جاتا ہے۔ دوسری طرف جب کفارِ مکہ کو اس بیعت کا پتہ چلا تو ان کے بھی ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ وہ پہلے ہی تین جنگوں اور کئی جھڑپوں میں مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کا مشاہدہ کر چکے تھے۔ انہوں نے صلح کے لیے سہیل بن عمرو کو بھیجا اور تاکید کی کہ صلح نامہ میں یہ شق ضرور رکھنا کہ مسلمان اس سال زیارت کیے بغیر واپس چلے جائیں تاکہ اہلِ عرب یہ نہ کہہ سکیں کہ محمدؐ زبردستی مکہ میں آگئے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہٗ بھی ان کے ہمراہ واپس آگئے۔ کافی دیر تک مختلف پہلوئوں پر بحث و مباحثہ کے بعد ایک معاہدہ طے پایا۔
معاہدہ کا آغاز ’’بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم‘‘ سے کیا گیا۔ لیکن سہیل نے کہا کہ ہم رحمن کو نہیں جانتے۔ آپ لکھیں بسمک اللھم۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم پر ایسا ہی لکھا گیا۔ اس کے بعد لکھا گیا ’’یہ وہ صلح نامہ ہے جس پر محمد رسول اللہ نے صلح کی ہے۔‘‘ اس پر بھی سہیل نے اعتراض کیا کہ ہم تو آپ کو اللہ کا رسول مانتے ہی نہیں، اگر مانتے تو پھر جھگڑا کس بات کا تھا۔ اس لیے ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھیں۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جو کہ معاہدہ تحریر کر رہے تھے، انہوں نے یہ الفاظ کاٹنے سے انکار کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے خود اپنے دستِ مبارک سے یہ الفاظ کاٹ دئیے کیونکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اس سے قبل فرما چکے تھے کہ بیت اللہ کی عظمت و حرمت کو برقرار رکھنے کے لیے مشرکین جو طلب کریں گے وہ انہیں دیں گے۔
معاہدہ کے نکات یہ تھے:
اگلے دس سال تک دونوں فریقین ایک دوسرے سے جنگ نہیں کریں گے اور کوئی بھی خفیہ یا اعلانیہ ایسی حرکت نہیں کرے گا جو امن میں خرابی پیدا کرے۔
اس عرصہ میں اگر مکہ سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر مدینہ چلا جائے گا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اسے واپس کر دیں گے لیکن اگر مدینہ سے کوئی شخص مکہ جائے گا تو مکہ والے اسے واپس نہیں کریں گے۔
عرب کے تمام بادیہ نشین قبائل آزاد ہیں، وہ مسلمانوں یا کفار میں سے جس کے ساتھ بھی دوستی کرنا چاہیں کر سکتے ہیں۔
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) اس سال واپس چلے جائیں اور اگلے سال آکر عمرہ کریں۔ انہیں مکہ میں تین دن ٹھہرنے کی اجازت ہوگی، اس دوران ان کے پاس تلوار کے سوا کوئی ہتھیار نہ ہوگا اور تلوار بھی میان میں رہے گی۔
اہلِ مکہ ان تین دنوں میں مکہ سے باہر چلے جائیں گے اور جب مسلمان مکہ سے واپس جانے لگیں گے تو اپنے ساتھ مکہ کے کسی شخص کو نہیں لے جائیں گے۔
ابھی یہ معاہدہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل بن عمرو کا بیٹا ابوجندلؓ جو کہ مسلمان ہو چکا تھا اور اسے زنجیروں میں جکڑ کر قید میں رکھا گیا تھا، وہ بھی اپنی زنجیروں کو گھسیٹتے ہوئے حدیبیہ کے مقام پر پہنچ گیا اور اپنی آزادی کے لیے فریاد کی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے صبر کی تلقین کی اور معاہدے کے مطابق واپس جانے کا حکم دیا اور فرمایا کہ جلد ہی اللہ تعالیٰ تمہاری نجات کا ذریعہ بنا دے گا۔
بظاہر ان شرائط سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ مسلمان ہر لحاظ سے کفار سے دب گئے ہیں اور کفار کی ہر شرط مانی گئی ہے اس لیے ان کے دل اس معاہدہ پر بے حد مضطرب تھے۔ ابوجندلؓ کو واپس بھیجنے پر بھی مسلمانوں کے دل بے حد افسردہ تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے اپنے اضطراب کا اظہار بھی کر دیا ’’یا رسولؐ اللہ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا ’’کیوں نہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے دوبارہ عرض کی ’’کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں؟‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے پھر جواب دیا ’’کیوں نہیں۔‘‘ حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ ہم دین میں کس طرح ذلت پیدا ہونے دے سکتے ہیں؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’میں اللہ کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ وہی میرا مددگار ہے۔‘‘
حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ سے بھی یہ سب کہا لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ مطمئن تھے، وہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی حکمتوں سے اس وقت مسلمان واقف نہیں۔ اللہ اور اس کا رسول ان حکمتوں کے متعلق بہتر جانتے ہیں۔ اس لیے انہوں نے حضرت عمرؓ کو بھی تسلی دی۔
صلح نامہ کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وہیں سب کو احرام کھولنے اور قربانی کرنے کا حکم دیا لیکن کوئی بھی شخص احرام نہیں کھول رہا تھا، ان سب پر شدید بے یقینی کی کیفیت طاری تھی کہ وہ تو بیت اللہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں، ایسا کس طرح ہو سکتا ہے! تین مرتبہ کہنے پر بھی کسی نے احرام نہیں کھولا تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے خیمہ میں تشریف لے گئے۔ اُمّ المومنین حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی ’’مسلمان شش و پنج کا شکار ہیں۔ آپ احرام کھولیں گے تو مسلمان بھی آپ کو دیکھ کر احرام کھول دیں گے۔‘‘ ایسا ہی ہوا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو احرام کھولتے دیکھ کر سب صحابہؓ نے احرام کھول دئیے۔ قربانی کے لیے مخصوص کیے گئے تمام جانور ذبح کیے گئے اور سب واپس مدینہ کی جانب لوٹ گئے۔ اس واپسی کے سفر میں اللہ تعالیٰ نے سورۃ فتح نازل فرمائی جس میں مسلمانوں کو شاندار فتح کی بشارت دی اور ان کے قلوب پر سکون نازل کرنے کا بھی تذکرہ فرمایا۔
اور واقعی ایسا ہوا۔ اللہ کی جانب سے اس فتح کے اعلان پر مسلمانوں کا اضطراب ختم ہو گیا۔ مکہ کے مشرکین جو اس بات سے خوش تھے کہ مسلمانوں سے اپنی شرائط پر معاہدہ کیا اور انہیں بیت اللہ کی زیارت بھی نہ کرنے دی،ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے سورۃ الفتح میں واضح کر دیاکہ جلد ہی ان کی یہ غلط فہمی دور کر دی جائے گی۔ آئندہ آنے والے سالوں میں اس معاہدہ کے درج ذیل فوائد بھی سامنے آگئے:
اس معاہدہ کا مطلب تھا کہ کفار نے مسلمانوں کی آزادانہ حیثیت کو قبول کر لیا ہے۔
اس معاہدہ سے پہلے ہر لمحہ جنگ کی صورتحال پیشِ نظر رہتی تھی، اور مسلمانوں کو ہر وقت یہی دھڑکا لگا رہتا تھا کہ کسی بھی وقت مشرکین حملہ کر سکتے ہیں، اس معاہدہ سے یہ کشمکش کی کیفیت ختم ہو گئی اور مسلمانوں کو سکون سے اسلام کی تعلیمات کے فروغ اور ترویج کا موقع ملا۔ جس کے نتیجے میں اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ گزشتہ 19 سالوں میں بھی نہ ہوئے تھے۔ پورے پورے قبیلے مسلمان ہونے کے لیے جوق در جوق حاضر ہو رہے تھے۔
جو علاقے اسلام کے زیر نگین ہو چکے تھے، وہاں اسلامی حکومت منظم اور مستحکم بنیادوں پر قائم کر دی گئی۔ اسلامی قوانین کے نفاذ سے مسلمان معاشرہ ایک نئی تہذیب و تمدن سے آشنا ہوا۔
صلح حدیبیہ کے بعد یہودیوں کے اہم مراکز خیبر، فدک، تبوک وغیرہ پر اسلامی پرچم لہرانے لگا۔
بادیہ نشین قبائل جو پہلے قریش کے حلیف تھے وہ بھی ایک ایک کر کے اسلام قبول کرنے لگے۔
ابو بصیرؓ جو کہ مسلمان ہو چکے تھے وہ مکہ میں قید تھے۔ ایک دن وہ قید سے بھاگ نکلے اور مدینہ پہنچ گئے۔ معاہدہ کے مطابق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے انہیں واپس کر دیا۔ لیکن ابوبصیرؓ راستے میں بھاگ نکلے اور بحرِاحمر کے پاس ڈیرا لگا لیا۔ مکہ میں جو دیگر مسلمان ظلم و ستم سہہ رہے تھے وہ بھی بھاگ کر ابوبصیرؓ کے پاس پہنچ گئے۔ اس طرح تقریباً ستر افراد وہاں جمع ہو گئے۔ انہوں نے قریش کے آتے جاتے قافلوں کو لوٹنا شروع کر دیا جس پر قریش نے خود ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے درخواست کی کہ آپ ان مسلمانوں کو اپنے پاس بلا لیں اور معاہدہ کی یہ شق ختم کر دیں۔ اس طرح مسلمانوں کو اس معاہدہ کے ذریعے اپنی فتح کا یقین ہو گیا۔
اگلے سال معاہدہ کے مطابق ماہِ ذیقعد میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عمرہ کی سعادت حاصل کی۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے چار عمرے کیے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے کلُ چار عمرے کیے اور اپنے حج والے عمرے کے علاوہ تینوں عمرے ذیقعد میں کیے۔ ایک عمرہ حدیبیہ کے وقت کا (جو عملاً تو نہ ہو سکا لیکن حکماً ہو گیا)، دوسرا صلح حدیبیہ کے اگلے سال ذیقعد میں، تیسرا عمرہ جعرانہ کے مقام سے آکر کیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حنین کے اموالِ غنیمت تقسیم فرمائے۔ یہ عمرہ بھی ذیقعد میں کیا اور چوتھا عمرہ آپ نے اپنے حج (حجتہ الوداع) کے ساتھ ذوالحجہ میں ادا کیا۔ (مسلم 3033)
طالبانِ مولیٰ یقینا اپنے مرشد کے امور اور احکامات کی حکمتوں سے واقف نہیں ہوتے لیکن مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ ان حکمتوں کو ظاہر کر دیتا ہے۔اس صلح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آزمایا۔ اس موقع پر وہ منافقین بھی سامنے آگئے جنہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ نہ جانے کے لیے اپنے اہل و عیال اور اپنے کاروبار کو بہانہ بنایا تھا۔ شاید وہ اس گمان میں تھے کہ مسلمان کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ سورۃ فتح میں اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے متعلق بھی واضح احکامات نازل فرما دئیے کہ ان کے کسی بھی عذر کو قبول نہ کریں۔ جہاں مسلمانوں کو جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہوتا ہے وہاں یہ ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں اور جہاں سے کثیر مالِ غنیمت ہاتھ آنے کی امید ہوتی ہے وہاں بھاگ کر آجاتے ہیں۔ اس لیے صلح حدیبیہ کے بعد ہونے والے معرکوں میں منافقین کو ساتھ نہ لے جایا گیا کیونکہ حق اور باطل واضح ہو چکا تھا۔ جو مسلمان اپنا گھر بار چھوڑ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہمراہ گئے تھے، انہی سے اللہ نے راضی ہونے کی نوید سنائی اور انہیں ہی دین و دنیا کی کامیابیوں سے ہمکنار فرمایا۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر طالب کو اپنے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
استفادہ کتب:
۱۔ تفسیر ضیا القرآن، جلد4
۲۔ ضیا النبی، جلد 4
نوٹ: اس مضمون کو آڈیو (Audio)کی صورت میں سننے کے لیے ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube) چینل کو وزٹ فرمائیں۔
مضمون لنک : Treaty of Hudaybiyyah – Turning Point in History | صلح حدیبیہ| Sulah Hudaibiya | Urdu/ Hindi Podcast
نوٹ: اس مضمون کو English میں پڑھنے کے لیے وزٹ فرمائیں۔
طالبانِ مولیٰ یقینا اپنے مرشد کے امور اور احکامات کی حکمتوں سے واقف نہیں ہوتے لیکن مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ ان حکمتوں کو ظاہر کر دیتا ہے۔اس صلح کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمام مسلمانوں کو آزمایا
خوبصورت تحریر
عمدہ تحریر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتِ مطہرہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
Very beautiful ❤️ and informative article.
بہترین مضمون ہے
بہترین مضمون ہے۔
بہترین معلوماتی مضمون ہے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مزید ارشاد فرمایا ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، مکہ والے عظمتِ حرم برقرار رکھنے کے لیے مجھ سے جو بھی خواہش کریں گے میں دے دوں گا۔‘‘
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر طالب کو اپنے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
This is so inspiring👍🏻
Behtareen blog❤️
زبردست مضمون ہے ❤👌
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر طالب کو اپنے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی سیرتِ مطہرہ ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے۔
اللہ تعالیٰ ہر طالب کو اپنے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
تاریخِ اسلام میں ایسے بیشمار واقعات موجود ہیں جن سے صحابہؓ کے عشقِ رسولؐ کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ صرف زبانی کلمہ گو نہیں تھے بلکہ ہر آزمائش میں سے کامیابی سے گزرے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہر طالب کو اپنے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
طالبانِ مولیٰ یقینا اپنے مرشد کے امور اور احکامات کی حکمتوں سے واقف نہیں ہوتے لیکن مقررہ وقت پر اللہ تعالیٰ ان حکمتوں کو ظاہر کر دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں اپںے مرشد کامل اکمل کی ہر پکار پر لبیک کہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
بہت عمدہ تحریر ہے