ظہورِ نورِ الٰہی Zahoor Noor e Elahi
تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
اللہ تعالیٰ نے جو چیز بھی پیدا کی وہ اپنے نور سے پیدا کی یعنی ہر شے میں اللہ تعالیٰ کے نور کا ظہور ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ (سورۃ النور۔35)
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وحدت سے کثرت میں نزول کا ارادہ فرمایا تو اپنے نور سے نورِ محمدی کو جدا کیا اور نورِ محمدی سے روحِ قدسی ظاہر ہوئی جس سے تمام انسانی ارواح کو تخلیق کیا گیا اور پھر تمام فرشتے اور دیگر مخلوقات کی ارواح تخلیق کی گئیں۔آخر میں یہ ناسوتی اور مادی کائنات تخلیق کی گئی اور یہ سب اللہ تعالیٰ کے نور سے تخلیق ہوا اور اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اشارہ کرتے ہوئے واضح طور پر فرما دیا:
اَنَا مَاْوٰی کُلِّ شَیْئٍ وَ مَسْکَنُہٗ وَ مَنْظَرُہٗ وَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ (الرسالۃ الغوثیہ)
ترجمہ: میں ہر شے کا ماویٰ، اس کا مسکن اور منظر ہوں اور ہر شے میری طرف ہی پلٹنے والی ہے۔
ماویٰ سے مراد ہے ٹھکانہ اور جائے قرار۔ اللہ تعالیٰ ہر شے کا ماویٰ ہے، اس سے مراد یہی ہے کہ اگر ہر شے کو قرار ہے تو اللہ تعالیٰ کی ذات کی وجہ سے۔ اگر ہر شے قائم اور اپنا وجود رکھتی ہے تو نورِ الٰہی کی بدولت۔ ہر شے میں اللہ تعالیٰ کا نور کارفرما ہونے کی بدولت اللہ ہی ہر شے کی پناہ گاہ اور ٹھکانہ ہے۔ جب اللہ ہر شے میں سے اپنا نور نکال لے گا تو کوئی بھی شے اپنا وجود برقرار نہ رکھ پائے گی اور قیامت قائم ہو جائے گی جیسا کہ اللہ سورۃ التکویر میں ارشاد فرماتا ہے:
اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ۔وَ اِذَا النُّجُوْمُ انْکَدَرَتْ۔(سورۃ التکویر۔1-2)
ترجمہ: جب سورج لپیٹ کر بے نور کر دیا جائے گا اور جب ستارے (بے نور ہو کر) گر پڑیں گے۔
مسکن سے مراد گھر یا جائے قیام اور جائے سکونت ہے۔ اس سے مراد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نور ہر چیز میں موجود ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں غور و فکر کرنے کی تلقین کی ہے کہ اس کائنات کی تخلیق میں غورو فکر کرو، اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لّاِوْلِی الْاَلْبَابِ۔ الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِھِمْ وَ یَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِج رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ھٰذَا بَاطِلًا (سورۃ آلِ عمران۔190-191)
ترجمہ: بیشک آسمان اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں کے بل اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر کرتے ہیں (پھر اس کی معرفت سے آشنا ہو کر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے ربّ! تو نے یہ سب بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔
جب انسان اس کائنات کی تخلیق میں غور و فکر شروع کرتا ہے تو اس پر سوچ کے نئے دَر وا ہوتے ہیں۔ انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ بیشک یہ وسیع و عریض اور لامحدود کائنات ایسے ہی تخلیق نہیں ہوگئی اور نہ ہی اس کائنات کا نظام خودبخود چل رہا ہے بلکہ اس لامحدود اور وسیع کائنات کو چلانے والی عظیم الشان اور صاحبِ قدرت ہستی موجود ہے۔ اس غور و فکر کے نتیجے میں انسان پر اللہ کی معرفت کے راز منکشف ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ ہر شے میں اللہ عزوجل کی کاریگری اور اس کا نور دیکھتا ہے اور جان لیتا ہے کہ بیشک اللہ ہر شے میں موجود ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’ہمہ اوست دَر مغز و پوست‘‘ یعنی ہر شے کے ظاہر و باطن میں ایک ہی ذات جلوہ گر ہے۔ آپؒ عین الفقر میں فرماتے ہیں:
یقین دانم دریں عالم کہ لاموجوداِلَّا ھُو
و لاموجود فی الکونین لامقصود اِلَّا ھُو
ترجمہ: یقین جان کہ کائنات میں ھوُ یعنی ذاتِ حق تعالیٰ کے سوا کوئی موجود نہیں بلکہ دونوں جہان میں ھوُ کے سوا کچھ موجود نہیں اور اس کے سوا کوئی مقصود نہیں۔ (عین الفقر)
انسان کو اللہ تعالیٰ نے اشرف المخلوقات بنایا۔ اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے حدیثِ قدسی میں فرمایا ’’میں نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا‘‘۔ ایک اور حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’میں جس قدر انسان میں ظاہر ہوا ہوں اتنا کسی شے میں ظاہر نہیں ہوا۔‘‘ اللہ تعالیٰ تو ہمارے اندر موجود ہے لیکن ہم ہی اس سے غافل اور حجاب میں ہیں۔ اسی لیے تمام صوفیا اور اولیا کرام نے انسان کو اپنے اندر غور و فکر کرنے اور اللہ تعالیٰ کی ذات کو کھوجنے کی ترغیب دلائی ہے۔
حضرت بو علی شاہ قلندرؒ فرماتے ہیں:
یار در تو پس چرائی بے خبر
ترجمہ: یار (اللہ) تیرے اندر موجود ہے تو اس سے بے خبر کیوں ہے؟
حضرت معین الدین چشتی اجمیری ؒ بھی اپنے اندر غور و فکر کرنے کی اہمیت نمایاں کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
بامعین گفت ہر سو تابہ کے خواہی دَوِید
ہم ز خود جو ہر چہ خواہی تا بدانی کیستی
ترجمہ: اس نے معین الدین سے کہا (یعنی خود سے کہا) تو کب تک ہر طرف دوڑتا پھرے گا؟ تجھے جو بھی چاہیے اُسے اپنے اندر تلاش کر تاکہ تجھے پتہ چلے کہ تو کون ہے۔
حضرت بلھے شاہؒ کے مطابق جس نے رازِ حق پایا ہے،راہِ باطن تلاش کرکے ہی پایا ہے اور جس نے یہ راز پالیا وہ آخر سکونِ حقیقی کا حقدار بن گیا اور خوشی و غم، گناہ وثواب، حیات وموت اور ہر طرح کے امتیاز سے آزاد ہوگیا۔
جس پایا بھیت قلندر دا
راہ کھوجیا اپنے اندر دا
اوہ واسی ہے سکھ مندر دا
جتھے کوئی نہ چڑھدی لہندی اے
مونہہ آئی بات نہ رہندی اے
ایتھے دنیا وچ انھیرا اے
ایہہ تلکن بازی ویہڑا اے
وڑ اندر ویکھو کیہڑا اے
کیوں خلقت باہر ڈھونڈیندی اے
مونہہ آئی بات نہ رہندی اے
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ
ترجمہ: جس نے خود کو پہچان لیا پس تحقیق اس نے اپنے ربّ کو پہچان لیا۔
یعنی جس نے اپنے اندر غور و فکر کیا بالآخر اس نے اپنے اندر اللہ تعالیٰ کی ذات کو پا لیا کیونکہ جب انسان اپنے نفس کے اندر غور و فکر شروع کرتا ہے اور اسے پہچانتا ہے تو نفس کی چالبازیوں اور سرکشیوں سے بخوبی واقف ہو جاتا ہے اور پھر جب وہ نفس کے تزکیہ کے لیے مرشد کامل اکمل کی طرف رجوع کرتا ہے تو تزکیۂ نفس کے بعد اپنے اندر اس ذاتِ حقیقی کا ادراک کر لیتا ہے کہ وہ ذات تو اس کے اندر موجود تھی لیکن وہ اسے دیکھنے سے قاصر تھا۔
امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ مَنْ عَرَفَ نَفْسَہٗ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّہٗ کی شرح میں فرماتے ہیں:
’’اے انسان! تجھ سے قریب ترین اگر کوئی چیزہے تو تیری اپنی ہی ذات ہے اس لیے اگر تو اپنے آپ کو نہیں پہچانتا تو کسی دوسرے کوکیونکر پہچان سکے گا؟ فقط یہ جان لینا کہ ’یہ میرے ہاتھ ہیں، یہ میرے پاؤں ہیں، یہ میری ہڈیاں ہیں اور یہ میرا جسم ہے‘ اپنی ذات کی شناخت تو نہیں ہے۔ اتنی شناخت تو اپنے لیے دیگر جانور بھی رکھتے ہیں۔ یا فقط یہ جان لینا کہ بھوک لگے تو کچھ کھالینا چاہئے، غصہ آجائے تو جھگڑا کر لینا چاہئے، شہوت کا غلبہ ہوجائے تو جماع کر لینا چاہئے یہ تمام باتیں تو جانوروں میں بھی تیرے برابر ہیں پھر تو ان سے اشرف و افضل کیونکر ہوا؟ تیری اپنی ذات کی معرفت و پہچان کا تقاضا یہ ہے کہ تو جانے کہ تو خود کیا ہے؟ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جائے گا؟ اور جو تو آیا ہے تو کس کام کے لئے آیا ہے؟ تجھے پیدا کیا گیا ہے تو کس غرض کے لئے پیدا کیا گیا؟ تیری نیک بختی و سعادت کیا ہے اور کس چیز میںہے؟ تیری بدبختی وشقاوت کیا ہے اور کس چیز میں ہے؟ اور یہ صفات جو تیرے اندر جمع کردی گئی ہیں اور ان میں سے بعض صفات حیوانی ہیں،بعض وحشی درندوں کی۔ بعض شیطانی بعض جناتی اوربعض ملکوتی ہیں،تو ذرا غور توکر کہ تو ان میں سے کون سی صفات کا حامل ہے؟ تو ان میں سے کون ہے؟ تیری حقیقت ان میں سے کس کے قریب تر ہے؟ اور وہ کون کون سی صفات ہیں جن کی حیثیت تیرے باطن میں غریب واجنبی اور عارضی ہے؟ جب تک تو ان حقائق کو نہیں پہچانے گا اپنی ذات کی شناخت سے محروم رہے گا اور اپنی نیک بختی وسعادت کا طلب گار نہیں بنے گا کیونکہ ان میں سے ہر ایک کی غذا علیحدہ علیحدہ ہے اورسعادت بھی الگ الگ ہے۔ چوپایوں کی غذا اور سعادت یہ ہے کہ کھائیں، پئیں، سوئیں اور مجامعت میں مشغول رہیں۔ اگرتو بھی یہی کچھ ہے تودن رات اسی کوشش میں لگارہ کہ تیرا پیٹ بھرتا رہے اور تیری شہوت کی تسکین ہوتی رہے۔ درندوں کی غذا اور سعادت لڑنے بھڑنے، مرنے مارنے اور غیظ وغضب میں ہے، شیطانوں کی غذا اور سعادت شر انگیزی اور مکروحیلہ سازی میں ہے اگر تو ان میں سے ہے تو ان ہی جیسے مشاغل اختیار کرلے تاکہ تو اپنی مطلوبہ راحت ونیک بختی حاصل کر لے۔ فرشتوں کی غذا اور سعادت ذکر وتسبیح وطواف میں ہے جبکہ انسان کی غذا اور سعادت قربِ الٰہی میں اﷲ تعالیٰ کے انوارِ جمال کا مشاہدہ ہے۔ اگر تو انسان ہے تو کوشش کر کہ تو ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچان سکے اور اس کے انوار و جمال کا مشاہدہ کر سکے اور اپنے آپ کو غصہ او ر شہوت کے ہاتھ سے رہائی دلاسکے اور تو طلب کرے تو اس ذاتِ یکتا کو کرے تاکہ تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے اندراِن حیوانی وبہیمی صفات کا پیدا کرنے والا کون ہے؟ اور تجھ پر یہ حقیقت بھی منکشف ہوجائے کہ پیدا کرنے والے نے ان صفات کو تیرے اندر جو پیدا کیا ہے تو کیا اس لیے کہ وہ تجھے اپنا اسیر بنالیں اور تجھ پر غلبہ حاصل کرکے خود فاتح بن جائیں؟یا اس لیے کہ تو ان کو اپنا اسیرو مسخر بنالے اور خود ان پر غالب آجائے او راپنے ان اسیروں اور مفتوحین میں سے کسی کو اپنے سفر کا گھوڑا بنالے اور کسی کو اپنا اسلحہ بنالے تاکہ یہ چند دن جو تجھے اس منزل گاہِ فانی میں گزارنا ہیں ان میں سے اپنے ان غلاموں سے کام لے کر اپنی سعادت کا بیج حاصل کرسکے اور جب سعادت کا بیج تیرے ہاتھ آجائے تو توُ ان کو اپنے پاؤں تلے روندتا ہوا اپنی اس قرار گاہِ سعادت میں داخل ہوسکے جسے خواص کی زبان میں ’’حضورِ حق ٗ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ تمام باتیں تیرے جاننے کی ہیں۔ جس نے ان کو نہ جانا وہ راہ ِدین سے دور رہا اور لامحالہ دین کی حقیقت سے حجاب میں رہا۔‘‘ (کیمیائے سعادت )
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اے طالب! تو پہچان اپنی ذات کو اور کون ہے تو اور کیا ہے حقیقت تیری اور کیا ہے تیری نسبت حق تعالیٰ کی طرف اورکس وجہ سے تو حق ہے اورکس وجہ سے تو عالم (جہان) ہے۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
ایہہ تن رَب سچے دا حجرا، وِچ پا فقیرا جھاتی ھوُ
ناں کر مِنت خواج خضر دی، تیرے اندر آب حیاتی ھوُ
شوق دا دِیوا بال ہنیرے، مَتاں لبھی وَست کھڑاتی ھوُ
مرن تھیں اگے مر رہے باھو،ؒ جنہاں حق دی رمز پچھاتی ھوُ
مفہوم: آپؒ فرماتے ہیں کہ تیرا دل ﷲ پاک کی قیام گاہ ہے۔تو اپنے دِل کے اندر جھانک کر تو دیکھ اور اس خضرؑ کا محتاج نہ بن جس نے آبِ حیات پی کر حیاتِ جاودانی حاصل کر لی ہے بلکہ تیرے اندر تو عشقِ الٰہی کا آبِ حیات موجود ہے۔ اپنے دل کے اندر عشق کا چراغ روشن کر شاید تجھے کھوئی ہوئی امانتِ حقیقی مل جائے جو تیرے دِل کے اندر ازل سے پوشیدہ ہے اور جنہوں نے اس راز کو پا لیا وہ موت سے پہلے مر گئے یعنی انہوں نے حیاتِ جاودانی حاصل کر لی۔ (ابیاتِ باھوؒ کامل)
پس اللہ تعالیٰ کا نور ہر شے خاص کر انسان میں موجود ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں ہر شے کا مسکن ہوں۔
اللہ تعالیٰ ہر شے کا منظر ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے سے دکھائی دیتا ہے کیونکہ وہ ہر شے میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اسی کے متعلق ارشاد فرمایا:
وَ لِلّٰہِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ ژ فَاَیْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْہُ اللّٰہ (سورۃ البقرہ۔115)
ترجمہ: اور مشرق و مغرب اللہ ہی کے لیے ہیں۔ پس تم جدھر بھی رُخ کرو گے اللہ کا چہرہ دیکھو گے۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی فرماتے ہیں ’’میں نے ہر شے میں اپنے ربّ کو دیکھا۔‘‘
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جب اللہ تعالیٰ کا جمال طالبِ مولیٰ کے دِل میں قائم ہو جاتا ہے تو وَھم طالبِ مولیٰ کی ولایتِ دل پر قابض ہو جاتا ہے اور اس کے دِل میں اس قدر گنجائش اور وسعت پیدا ہو جاتی ہے کہ کسی لمحہ بھی اس کا دِل تجلیٔ الٰہی اور مشاہدۂ حق تعالیٰ سے خالی اور بے بہرہ نہیں رہتا۔ طالبِ مولیٰ کے ظاہر و باطن پر حق غالب آ جاتا ہے۔ پھر وہ جس طرف بھی رُخ کرتا ہے اللہ تعالیٰ کو ہی دیکھتا ہے۔
بخیال تو از ہر سو کہ نظر میکردم
حق را پیش چشم در و دیوار متصور باشد
ترجمہ: میں تیرے خیال میں اس قدر محو ہو چکا ہوں کہ جس طرف بھی نظر کرتا ہوں ہر دَر و دیوار پر تیرا ہی جلوہ میری آنکھوں کے سامنے آتا ہے۔ (سلطان الوھم)
عارف واصل جس طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتا ہے سوائے اس (حق تعالیٰ) کے دیدار کے اُسے کچھ نظر نہیں آتا۔ (رسالہ روحی شریف)
تمام مظاہر میں اسے (یعنی طالبِ مولیٰ کو) حق ہی نظر آتا ہے اور ہر چیز میں وہ اسی کو پاتا ہے۔ جمیع اشیا میں وہ سریانِ حق کا ادراک کرتا اور اسی کو دیکھتا ہے۔
چنانچہ امیر خواجہ فرماتے ہیں:
کہ جہان صورتست و معنی دوست
در بمعنی نظر کنی ہمہ اوست
ترجمہ: یہ جہان ایک صورت ہے جس کی حقیقت ذاتِ حق ہے۔ اگر تو اس کے معنی پر نظر ڈالے تو سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس کے سوا کچھ موجود نہیں۔
پس سالک اس حدیث کی حقیقت سمجھ جاتا ہے:
اَرِنَا الْاَشْیَآئَ کَمَا ھِیَ
ترجمہ: (اے اللہ!) مجھے ہر شے کو اس کی اصل صورت میں دِکھا۔
اور اس ارشاد کے مطابق اسے ہر شے میں جلوۂ حق دکھائی دیتا ہے:
وَ مَا رَأَیْتُ اَشْیَآئً اِلَّا وَ رَأَیْتُ اللّٰہَ فِیْہِ
ترجمہ: میں جس چیز کو بھی دیکھتا ہوں اس میں اللہ ہی نظر آتا ہے۔ (سلطان الوھم)
اسرارِ حقیقی میں درج ہے کہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا ’’ذاتِ رحمن کیا ہے اور دیگر اشیا کیا ہیں؟‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جواب دیا ’’تمام اشیا مظہرِالٰہی ہیں۔ درحقیقت سب ایک ہی ہیں۔ ظہور کی صفات مختلف ہیں جیسا کہ ایک مطلب کو مختلف عبارتوں سے ادا کیا جاتا ہے اسی طرح ذات ایک ہی ہے لیکن اس کے مظاہر مختلف ہیں۔‘‘ (اسرارِ حقیقی)
اللہ تعالیٰ کے مندرجہ بالا فرمان اور دیگر تمام اقوال سے اس نظریہ کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر شے میں موجود ہے اور دکھائی دیتا ہے۔ ذیل میں چند شعرا کے اشعار تحریر کیے جا رہے ہیں:
امیر مینائی فرماتے ہیں:
لاکھ پردوں میں تو ہے بے پردہ
سو نشانوں میں بے نشاں تو ہے
تو ہے خلوت میں تو ہے جلوت میں
کہیں پنہاں کہیں عیاں تو ہے
رنگ تیرا چمن میں بو تیری
خوب دیکھا تو باغباں تو ہے
داغ دہلوی فرماتے ہیں:
آنکھ والا تیرے جوبن کا تماشا دیکھے
دیدۂ کور کو کیا نظر آئے کیا دیکھے
مولانا ظفر علی خان لکھتے ہیں:
وہ جس کی شان لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ
چھپا بھی ہے تو سرا پردہ ظہور میں
برنگِ دور قمر جلوہ اس کی قدرت کا
کبھی سنین میں ہے اور کبھی شہود میں
کبھی کبھی ہے اوجِ شعیر پر تاباں
کبھی کبھی وہ خراماں سوادِ طور میں ہے
حضرت بلھے شاہؒ وحدت الوجود کے متعلق نہایت منفرد انداز میں فرماتے ہیں:
سیو ہن میں ساجن پائیونی
ہر ہر دے وچ سمائیونی
احد احمد دا گیت سنائیو
ہر دے وچ اک میم رکھائیو
انا احمد ہوں پھر فرمائیو
پھر نام رسول دھرائیونی
فثم وجہ اللّٰہ نور تیرا
ہر ہر کے بیچ ظہور تیرا
ہے الانسان مذکور تیرا
ایتھے اپنا سر لوکائیونی
ہر مظہر وچ اوہا دِسدا
اندر باہر جلوہ جسدا
ترجمہ: سہیلیو مجھے ساجن مل گیا وہ ہر اِک میں سما گیا۔ اَحد کے پردے میں میم رکھ دیا۔ اَنا احمد کہہ کر پھر رسول کا سوانگ بھرا، ہر جگہ اُسی کا نور و ظہور ہے اُسی نے خود الانسان کہا اور اپنا راز مخفی رکھا اور ہر مظہر میں وہی نظر آتا ہے اندر باہر اُسی کا جلوہ ہے۔
ہر شے اسی کی طرف لوٹنے والی ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ہر شے میں سے جب اللہ کا نور نکل جاتا ہے تو وہ شے فنا ہو جاتی ہے تو اس کا نور واپس اللہ کے نور سے جا ملتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ ج وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ۔ (سورۃ ھود۔4)
ترجمہ: تمہیں اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے اور وہ ہر شے پر قادر ہے۔
اللہ تعالیٰ نے وحدت سے کثرت کی طرف نزول کرتے ہوئے اپنے نور سے عالمِ امر اور عالمِ خلق کو پھیلایا اور وسعت دی لیکن کسی بھی شے کو دوام اور بقا نہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
کُلُّ مَنْ عَلَیْھَا فَانٍ۔ وَّ یَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوالْجَلَالِ وَ الْاِکْرَامِ۔ (سورۃ الرحمٰن۔ 26-27)
ترجمہ: ہر شے فنا ہونے والی ہے۔ اور بقا ہے تو تیرے ربّ کے چہرے کو جو عظمت و جلال اور اکرام والا ہے۔
پس اللہ تعالیٰ نے جس طرح اس کائنات کو وسعت دی اور وحدت سے کثرت کی طرف نزول فرمایا اسی طرح جب اسے سمیٹنا شروع کرے گا تو ہر شے فنا ہوتی جائے گی اور اس کا نور واپس اللہ کے نور سے ملتا جائے گا اور بالآخر اللہ کی ذات واحد و تنہا باقی رہ جائے گی۔
استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا؛ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ الرسالۃ الغوثیہ؛ تصنیف لطیف سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ
۳۔ عین الفقر؛ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۴۔ سلطان الوھم؛ ایضاً
۵۔ کیمیائے سعادت؛ تصنیف لطیف حضرت امام غزالیؒ
۶۔ فصوص الحکم والایقان؛ تصنیف لطیف حضرت محی الدین ابن عربیؒ
۷۔ اسرارِ حقیقی؛ تصنیف لطیف خواجہ معین الدین چشتیؒ
![Zahoor Noor e Elahi](https://www.mahnama-sultan-ul-faqr-lahore.com/wp-content/uploads/2025/02/Zahoor-Noor-e-Elahi-.jpg)