حضرت امام زین العابدین Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin


2.6/5 - (12 votes)

حضرت امام زین العابدین- Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری

حضرت امام زین العابدینؓ اہلِ بیتؓ سے چوتھے امام ہیں۔آپؓ کا اسمِ مبارک علیؓ بن حسینؓ اور کنیت ابو محمد، ابو بکر اور ابو الحسن ہے۔ آپؓ کے والد محترم حضرت امام حسینؓ ہیں۔ آپؓ کے بھائی علی اکبرؓ اور علی اصغرؓ کربلا میں شہید ہوئے۔آپؓ کی بہنیں سکینہؓ اور فاطمہؓ ہیں۔

القابات:

سجاد، زین العابدین، سیدالساجدین، ذوالثفنات، سیدالعابدین، امین، ذکی۔

 زین العابدینؓ

 امام مالکؓ فرماتے ہیں کہ آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہا جاتاہے۔ (نورالابصار)

علامہ عبد الرحمن جامیؒ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آپؓ نمازِ تہجد میں مصروف تھے کہ شیطان نے ایک اژدھا کے روپ میں آکر آپؓ کو اذیت دینا شروع کردی اور پاؤں کے انگوٹھے پر کاٹنا شروع کر دیا لیکن آپؓ عبادتِ خداوندی میں انہماک سے مشغول رہے۔شیطان آپؓ کو عبادتِ خداوندی سے ہٹانے میں ناکام رہا اور بالآخر عاجز آگیا۔ جب آپؓ نے نماز مکمل کر لی تو طمانچہ مارکر شیطان کو دور ہٹا دیا، شیطان شکست کھا کر چلا گیا۔ اس وقت غیب سے تین مرتبہ آواز آئی’’انت زین العابدین‘‘بیشک آپؓ عبادت گزاروں کی زینت ہیں۔ اس کے بعد سے آپؓ کا یہی لقب مشہور ہوگیا۔(شواہد النبوۃ)

سجاد

لقب ’’سجاد‘‘ کے بارے میں روایت ہے کہ آپؓ ہر معمولی سے معمولی نعمتِ خدا کے ملنے یا مصیبت کے دفع ہو جانے یا مومنین کے درمیان اصلاح ہو جانے پر سجدۂ شکر ادا کرتے۔ یوں آپؓ سجاد کے لقب سے یاد کیے جانے لگے۔ کربلا کی قیامت خیز شب میں بھی آپؓ نے سجدۂ الٰہی کو نظر انداز نہیں کیا اور جس طرح باپ نے زیر خنجر سجدہ کیا تھا اُسی طرح آپؓ نے خاکِ کربلا پر سجدہ کیا۔

آپؓ کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وضو شروع کرتے ہی چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا وقت آگیا۔ نماز میں بسا اوقات جسم بید کی مانند لرزتا تھا کہ مالک  یوم الدین کی بارگاہ میں کھڑے ہیں ایاک نعبد و ایاک نستعین   کہہ کر کبھی کبھی اس جملے کی تکرار فرمایا کرتے تھے کہ میں نے مدد طلب کی ہے تو ادھر سے مدد کا وعدہ بھی تو ہونا چاہیے۔ خشوع وخضوع کا یہ عالم تھا کہ فرزند کنویں میں گر گیالیکن آپؓ نماز میں مصروف رہے اور جب نماز تمام ہوگئی تو کنویں سے اپنی امانت کی واپسی کا مطالبہ کیا اور اس طرح بچے کو نکال لیا کہ دامن بھی تر نہ ہونے پایا۔ خوفِ خدا کی یہ کیفیت تھی کہ نماز میں مصروف تھے اور گھر میں آگ لگ گئی۔ نماز کو مختصر نہیں کیا بلکہ فرمایا میں تو جہنم کی آگ بجھانے میں مصروف تھا، مجھے یہاں کی آگ کی کوئی فکر نہیں تھی اسے تو محلے والے بھی بجھا سکتے تھے۔( امام زین العابدینؓ۔ مفتی غلام رسول جماعتی نقشبندی)

کس قدر بلند ہوگی وہ شخصیت جس کی زندگی سجدوں کی زیب و زینت سے جگمگاتی تھی۔ نعمت نازل ہوتی تھی تو سجدے کرتے، آفت نازل ہوتی تو سجدے کرتے، آیت پڑھتے تو سجدے کرتے، نماز ختم کرتے تو سجدے کرتے، خوف اور اندیشے سر اٹھاتے تو سجدے کرتے، مصیبت سے نجات پاتے تو سجدے کرتے۔ کوئی بھی حال ہو، رابطہ رکھتے تھے تو خداوندِعالم سے۔ رجوع کرتے تھے تو ذاتِ الٰہی کی طرف۔ اُسی کی پناہ مانگتے تھے، اُسی کی مدد چاہتے تھے اوراُسی کا شکر ادا کرتے تھے۔ خدا کی ہر رضا پر سرِتسلیم خم رکھتے تھے۔ ہر نماز سے ماتھے پر سجدے کا نشان اس کی اطاعت کی شہادت دیتا ہے۔ زین العابدین کی زندگی میں تو سجدوں کا تواتر اور تسلسل دیدنی تھا۔ تمام اعضائے سجود پر گٹھے پڑگئے تھے جنہیں سال میں دو بار ترشوایا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے آپؓ کا ایک لقب ’’ذوالثفنات‘‘ بھی ہے جس کا مطلب ہے ’’ گٹھوں والا‘‘۔

امام زین العابدینؓ کی ولادت کی پیش گوئی

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin.امام زین العابدینؓ کی پیدائش سے قبل ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرما دیا تھا کہ میرے بیٹے حسینؓ کے گھر امام زین العابدینؓ ہو گا۔ چنانچہ حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ابو الزبیر نے کہا کہ ہم جابر بن عبد اللہؓ کے پاس تھے وہاں علی بن حسینؓ (امام زین العابدینؓ)  تشریف لائے تو حضرت جابرؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تھے ۔پس آپؐ کے پاس امام حسین ؓ آئے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کا سراور منہ چومااور اپنے سینے سے لگایا پھر اپنے پاس بٹھایااور ارشاد فرمایا کہ ’’میرے اس بیٹے (حسینؓ) کو اللہ بیٹا دے گا جس کا نام علی ہو گا۔ قیامت کے دن حاملینِ عرش فرشتوں سے ایک فرشتہ آواز دے گا کہ سیدّ العابدین کھڑا ہو تو وہ (زین العابدین) کھڑا ہو گا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ ص ۶۰۱ج۹)

اس سے ثابت ہوا کہ امام زین العابدینؓ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے بتا دیا تھا کہ حضرت امام حسینؓ کے ہاں امام زین العابدینؓ پیدا ہوں گے اور قیامت کے دن ان کا لقب سیدّ العابدین ہوگا۔(امام زین العابدین۔مفتی غلام رسول جماعتی نقشبندی)

ولادت

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin.امام زین العابدینؓ نے15جمادی الثانی (بعض روایات کے مطابق 5شعبان) 38ہجری کو مدینہ منورہ میں نواسۂ رسولؐ حضرت امام حسینؓ کے پاکیزہ گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپؓ کی والدہ گرامی حضرت شہربانوؓ تاریخ کی عظیم ترین خواتین میں سے ایک ہیں جو آخری ساسانی بادشاہ یزد گرد دوم کی بیٹی تھیں۔ اس نسبت سے امام علی ابن الحسینؓ کا ددھیال سرورِ کائنات پیغمبر اسلام اور ننھیال نوشیرواں عادل سے تھا۔ حضرت امام زین العابدینؓ کا زمانہ ولادت مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دورِ خلافت تھا۔ اس طرح آپؓ نے زندگی کے تقریباًدو سال اپنے دادا کے زیر سایہ گزارے ہیں۔ آپؓ کی پیدائش کے وقت مسلمان واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم تھے۔ ایک تو وہ لوگ تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی دوستی میں مستحکم تھے۔ دوسری طرف ایسے عناصر باہم شیر و شکر ہو گئے تھے جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کا مطالبہ کر رہے تھے مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خلافت پر متمکن ہوتے ہی اپنی معاشی پالیسی کا واضح اعلان کیا۔ حضرت امام زین العابدینؓ ابھی خرد سال تھے کہ حضرت علیؓ کے مخالفین کا ایک اور گروہ منظر ِعام پر آگیا۔ یہ گروہ خوارج کا تھا۔ آخر اس گروہ کے ایک فرد عبدالرحمن ابنِ ملجم نے حضرت علیؓ کو کوفہ کی مسجد میں شہید کردیا۔ حضرت علیؓ کے بعد حضرت امام حسنؓ تختِ خلافت پر متمکن ہوئے۔ ایک بار پھر ان پر بھی ایک خارجی نے حملہ کیا حضرت امام حسنؓ نے مصلحت کے تحت صلح کرلی۔ امام حسنؓ کی شہادت 50ھ میں ہوئی۔اس وقت امام زین العابدینؓ کی عمر 12 سال تھی۔ 50 ہجری میں حضرت امام حسنؓ کی شہادت کے بعد دس سال اپنے والد محترم امام حسینؓ کے ساتھ گزارے اور دس محرم61 ہجری سے آپؓ کا اپنا دورِ قیادت شروع ہوگیا۔

بچپن کے واقعات

 روایت میں ہے کہ آپؓ بیمار ہوئے اور آپؓ کے پدر بزرگوار حضرت امام حسینؓ نے عیادت کرتے ہوئے پوچھا کہ فرزند کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔ آپؓ نے عرض کی’’ خواہش صرف یہ ہے کہ میں قضا و قدرِ الٰہی پر راضی رہوں اور اس کے علاوہ کوئی بھی خواہش نہیں ہے۔ جو وہ چاہتا ہے وہی بہتر ہے، اس سے بہتر میں کیا طے کرسکتا ہوں۔‘‘ حضرت امام حسینؓ نے اس جواب پر گلے سے لگا لیا اور فرمایا کہ میرے بیٹے تمہارا جواب بالکل ابراہیم خلیلؑ سے ملتا جلتا ہے جب ان سے امداد کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جس کا میں محتاج ہوں وہ میرے حالات کو خوب جانتاہے اور اس کے فیصلہ کے سامنے سرِتسلیم خم رکھنا ہی اپنی ذمہ داری ہے۔ (حیات امام علی بن الحسینؓ)

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin.حضرت امام زین العابدینؓ کربلا کے سانحہ کے وقت شدید بیمار تھے اس لیے حضرت امام حسین ؓ نے میدانِ جنگ میں جانے کی اجازت نہ دی۔ ابنِ زیاد نے بھرے دربار میں امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ کو قتل کرنا چاہا مگر سیدّہ زینب بنت علی مانع ہو گئیں۔ حضرت امام زین العابدینؓ نے امامت کی عملی ذمہ داریاں اور خاندان کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض اس وقت سے ادا کرنا شروع کر دیے جب روزِ عاشورہ امام حسینؓ شہید ہوچکے تھے اور بنو امیہ کے لشکری مال و اسباب لوٹ کر خیموں کو آگ لگا رہے تھے۔ امام زین العابدین ؓاس وقت بیمار تھے مگر ایسی صورت حال میں ان پر جو ذمہ داری تھی وہ اپنے اہل خاندان اور جانثارانِ حسینؓ کے اہلِ خاندان کی حفاظت تھی۔ آپؓ نے حکم دیا کہ عورتیں اور بچے جلتے ہوئے خیموں سے دوسرے خیموں میں جائیں حتیٰ کہ تمام خیمے جل کر خاکستر ہو گئے۔ امام زین العابدینؓ نے اس دن کے بعد سے بہت سی ذمہ داریاں سنبھالیں۔ اپنے خاندانی فرائض کی طرح شریعت کی حفاظت کرنی تھی جس طرح ان کے جد امجد حضرت ابو طالب نے دشمنانِ اسلام کے درمیان حضور نبی کریمؐ کی حفاظت کا حق ادا کیا تھا اُسی طرح امام زین العابدینؓ کو دشمنانِ شریعت کے درمیان رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پیغام کی حفاظت کرنا تھی۔ انہیں اپنے دادا علیؓ کی طرح اپنی علمی صلاحیتوں سے لوگوں کو پیغام قرآنی کے سچے اصولوں سے روشناس کروانا تھا۔ امام حسنؓ کی طرح صداقت کے اظہار میں بے خوف و خطر آگے بڑھنا تھا۔ سب سے اہم ذمہ داری جو امام زین العابدینؓ کو ادا کرنا تھی وہ حضرت امام حسینؓ کے پیغام کو عام کرنا تھا۔ لوگ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے امام حسینؓ کو شہید کر کے اہلِ بیتؓ کے موقف کو مٹا دیا ہے۔ اُدھر امام سجادؓ کا ارادہ تھا کہ وہ خلافت کے ضمن میں اہلِ بیتؓ کے اس موقف کو عام کر کے دم لیں گے کہ نبیؐ کی نیابت کسی جاہل،ظالم اور بددیانت شخص کا استحقاق نہیں ہے۔ امام زین العابدینؓ نے حسینی مشن کو عام کرنے کا تہیہ کر لیا اور اس سلسلے میں انہوں نے کربلا کے بازاروں، دربار ، قید خانے اور مدینہ منورہ واپسی میں کوئی موقع ایسا نہیں چھوڑاکہ جب انہوں نے لوگوں کو حضرت امام حسینؓ کی مظلومیت اور ان کی شہادت کے اسباب نہ بتائے ہوں۔

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin. امام زین العابدینؓ نے پوری زندگی ایک سمت تو سماجی اور معاشرتی اقتدار کو شریعت کے دائرے میں رکھنے کی سعی کی تو دوسری طرف حضرت امام حسینؓ کے ذکر کو اس طرح جاری رکھا کہ آج ذکرِحسینؓ عبادت ہے اور آپؓ کی شہادت کی تمام جزئیات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ یہ امام زین العابدینؓ اور حضرت زینبؓ کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے امام حسینؓ کی شہادت کے واقعہ کو تاریخ کے صفحات سے مسخ نہیں ہونے دیا۔

 حجرِ اسود کا فیصلہ

واقعہ کربلا میں امام عالی مقام حضرت امام حسینؓ کی شہادت کے بعد محمد بن حنفیہ حضرت امام زین العابدینؓ کے پاس آئے اور کہا’’ اے بیٹا! میں تمہارا چچا ہوں اور عمر میں بھی تم سے بڑا ہوں اس لیے امامت کا اوّلین حق میرا ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جنگی اوزار بھی دے دیں۔‘‘حضرت امام زین العابدینؓ نے فرمایا’’ اے میرے عم محترم ! خدا سے ڈرو اور جس چیز کے تم اہل نہیں ہو دعویٰ نہ کرو۔‘‘بعد ازاں محمدبن حنفیہ نے مبالغہ سے کام لیا تو امام زین العابدینؓ نے فرمایا’’ میرے محترم عم! آؤ حاکم کے پاس چلیں جو وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے بہتر ہو گا۔‘‘محمد بن حنفیہ نے کہا ’’ وہ کونساحاکم ہو گا جو ہمارے درمیان فیصلہ کرے گا؟‘‘حضرت امام زین العابدینؓ نے فرمایا ’’وہ حاکم حجرِ اسود ہے۔‘‘

جب دونوں حضرات وہاں پہنچے تو امام زین العابدینؓ نے محمد بن حنفیہ کو حجرِ اسود سے بات کرنے کو کہا۔محمدبن حنفیہ نے حجرِ اسود سے بات کی مگر کوئی جواب نہ ملا۔پھر حضرت امام زین العابدینؓ نے بارگاہِ الٰہی میں دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور ربّ تعالیٰ کو اس کے صفاتی نام سے یاد کیا تو حجرِ اسود گفتگو کرنے لگا۔ آپؓ نے اپنا چہرہ حجر ِ اسود کی طرف کر کے کہا:
’’تجھے اس ربّ کی قسم ہے جس نے اپنے بندوں کے وعدے تجھ پر رکھے ہوئے ہیں ہمیں اس بات سے مطلع کرو کہ حضرت امام حسینؓ کے بعد امام اور نابالغ کی سرپرستی کا حق کسے حاصل ہے؟‘‘

حجرِ اسود آپؓ کی بات سن کر کانپ اٹھا۔ قریب تھا کہ اپنی جگہ سے گر پڑتا لیکن نہایت فصیح و بلیغ زبان میں گویا ہوا:
’’اے محمد بن حنفیہ !یہ چیز مسلمہ ہے کہ حضرت امام حسینؓ کے بعد امامت کا حقدار علی بن حسینؓ ہی ہے۔‘‘( بارہ امام۔عبدالرحمن جامی)

اخلاق

آلِ محمدؐ میں ہر فرد کا اخلاق ایک انفرادی حیثیت رکھتا تھالیکن امام زین العابدینؓ نے اخلاقیات کے مظاہرہ کے ساتھ فلسفہ اخلاقیات کی بھی ایک دنیا آباد کی ہے جس سے انسان اپنے کردار کی بہترین تعمیر کر سکتا ہے۔ آپؓ کے سامنے کوئی طالبِ دین آ جاتا تو اس کی تعظیم کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور فرماتے تھے کہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وصیت ہے۔ گویا اس طرح اسلام میں علمِ دین کی عظمت و اہمیت کا اظہار بھی فرماتے تھے اور طالبِ دین کی حوصلہ افزائی بھی۔آپؓ کے سامنے کوئی سائل آجاتا تو اس کا استقبال فرمایا کرتے اور فرماتے تھے کہ یہ وہ شخص ہے جو میرے مال کودنیا سے آخرت تک پہنچاتاہے اور کسی اجرت کا مطالبہ بھی نہیں کرتا۔

امام زین العابدینؓ کے اخلاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کی چمک دمک نمایاں تھی۔ جس طرح نبی کریم ؐ نے کبھی کسی سائل کو لا (نہیں) کا لفظ نہیں کہا اسی طرح امام زین العابدینؓ نے بھی تمام عمر کبھی کسی سائل کے لیے لا (نہیں) کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

آپؓ نے جس ناقہ پر بیس حج فرمائے تھے اسے کبھی ایک تازیانہ بھی نہیں لگایا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپؓ کے وصال کے بعد وہ قبر مطہر پر تین روز تک مسلسل گریہ کر کے دنیا سے رخصت ہو گیا کہ ایسے شفیق ومہربان کے بعد زندگی کا کوئی مزہ نہیں ہے۔

آپؓ کی مادر گرامی جنہوں نے آپ کی تربیت فرمائی تھی، آپؓ ان کے سامنے بیٹھ کرکھانا تناول نہیں فرماتے تھے اور جب کسی نے دریافت کیا تو فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ انہیں میری وجہ سے کسی چیز کے کھانے میں تکلف ہو یا وہ کسی چیز کو پسند کرتی ہوں اور مجھ پر سبقت نہ کرنا چاہتی ہوں اور میں سبقت کر دوں۔

ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ محمد بن اسحاق نے کہا کہ مدینہ منورہ میں کئی گھرانے ایسے تھے جنہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کا رزق کہاں سے آتا تھا ۔ جب امام زین العابدینؓ کی وفات ہوئی ، ان کا رزق بند ہوا تب انہیں معلوم ہواکہ ان کا رزق امام زین العابدینؓ کے گھر سے آتا تھا۔ابنِ کثیر یہ بھی لکھتے ہیں کہ امام زین العابدینؓ نے دو مرتبہ اپنا تمام مال اللہ تعالیٰ کے راستے میں تقسیم کر دیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ)

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin. امام زین العابدینؓ کی وفات کے بعد جب آپؓ کو غسل دیا گیا تو لوگوں نے آپؓ کی پشت پر کچھ نشانات دیکھے ۔ پتہ چلا کہ آپؓ رات کے وقت آٹے کی بوریاں اپنی پشت مبارک پر لاد کر پوشیدہ طریقے سے مدینہ منورہ کے گھرانوں میںپہنچایا کرتے تھے۔ بعض نے یہ بھی کہا کہ ایک سو (100)غربا کے گھرانے تھے جن کی آپؓ مستقل کفالت کرتے تھے اور کھانے پینے کی اشیا خود اپنے جسم پر اٹھا کر ان کے گھرانوں میں پہنچایا کرتے تھے۔(البدایہ والنہایہ)

امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ کی کرامت

حجاج بن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہٗ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے تو ابنِ شہاب زہری اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا ’’میری تمنا ہے کہ میں آپؓ کی جگہ ہوتا کہ آپؓ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔‘‘ اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یادہے۔‘‘ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔

یہ اختیارات ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے انہیں عطا فرمائے گئے اور وہ صبر و رضا ہے کہ اپنے وجود اور آسائشِ وجود ، گھر بار،مال و متاع سب سے رضائے الٰہی کیلئے ہاتھ اٹھالیتے ہیں اور اس میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ ان کی ظاہری و باطنی برکات سے مسلمانوں کو متمتع اور فیضیاب فرمائے اور ان کی اخلاص مندانہ قربانیوں کی برکت سے اسلام کو ہمیشہ مظفرو منصور رکھے۔ (المنتظم، سنتہ اربع وتسعین، 530۔علی بن الحسین)

95ھ میں ولید بن عبدالملک نے آپؓ کو زہر دے دیا۔ امام مظلوم حضرت علیؓ ابنِ حسینؓ25 محرم سن 95 ھ کو درجۂ شہادت پرفائزہوئے۔ 

فرمودات حضرت زین العابدینؓ 

 اہلِ علم وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو پہچانا۔اسکی طرف رغبت کی اور نیک عمل کیا۔ گناہ کر کے اس دنیا میں بہتری تلاش نہ کرو۔
آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہو جائے اور باطن بگڑ جائے۔
بعض لوگ خوف کی وجہ سے عبادت کرتے ہیں یہ گویا غلاموں کی عبادت ہے۔ بعض جنت کی طمع میں عبادت کرتے ہیں یہ گویا سوداگروں کی عبادت ہے۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو محض خدا کے لیے عبادت کرتے ہیں یہ آزادوں کی عبادت ہے۔
جس نے اللہ کی معرفت حاصل کی وہ اس سے ڈرے گا بھی۔ اور یہ خوف اسکو عملِ نیک کی طرف لے جائے گا۔
 مجھے تعجب ہے اس آدمی کی عقل پر جو دارِ فنا کے لیے تو کام کرتا ہے اور دارِ بقا کا خیال چھوڑے ہوئے ہے۔
اللہ تعالیٰ کے زیادہ قریب وہ شخص ہے جو تم میں سے زیادہ اخلاق والا ہو اور تم میں سے اللہ تعالیٰ کے یہاں زیادہ پسندیدہ شخص وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کی بہترین پرورش کرنے والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے نجات پانے والا وہ شخص ہے جس کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف زیادہ ہے اور جو شخص زیادہ عمل کرنے والا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے اور تم میں سے اللہ تعالیٰ کے یہاں زیادہ مکرم و محترم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کا زیادہ خوف اور ڈر رکھتا ہو۔

جو شخص ہمارے (اہلِ بیت رسول کے )ساتھ اللہ کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کا سایہ عطا فرمائے گا اور جو ہمارے ساتھ اس لیے محبت کرتا ہے کہ آخرت میں جنت ملے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت مرحمت فرمائے گا اور جو شخص ہمارے ساتھ کسی دنیاوی غرض کے لیے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو وسیع رزق عطا فرمائے گا۔
مومن وہ ہے جو اپنا علم اپنی عقل میں سمو چکا ہے۔سوال کرتا ہے کہ سیکھے، خاموش رہتا ہے تاکہ سوچے سمجھے اور عمل کرے۔

پانچ قسم کے آدمیوں کی رفاقت سے پرہیز کرنا چاہیے:
۱۔ فاسق سے ،کیوں کہ وہ ہوس کار بنا دے گا یعنی لاحاصل چیزوں کی طمع پیدا کر دے گا۔
۲۔ بخیل سے، کیوں کہ وہ مال کو تم سے مقدم سمجھے گا۔
۳۔ جھوٹے آدمی سے، وہ بیگانوں کو عزیز اور عزیزوں کو بیگانہ بنا دے گا۔
۴۔ احمق سے ،کیونکہ وہ دوستی میں تم کو فائدہ پہنچانا چاہے گا مگر نقصان پہنچا دے گا۔
۵۔ قطع رحمی کرنے والے انسان سے کبھی تعلق نہ رکھنا۔
(امام زین العابدین۔مفتی غلام رسول جماعتی نقشبندی)

استفادہ کتب:
۱۔بارہ امام: عبدالرحمن جامی
۲۔بحار الانوار : علامہ باقر مجلسی
۳۔امام زین العابدینؓ، سیّد صفدر حسین نجفی
۴۔امام زین العابدینؓ،مفتی غلام رسول جماعتی نقشبندی

’’امام زین العابدین‘‘ بلاگ انگلش میں پڑھنے کے لیے  کلک کریں

Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin


34 تبصرے “حضرت امام زین العابدین Ali ibn Husayn Zayn al-Abidin

  1. امام زین العابدینؓ کی پیدائش سے قبل ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرما دیا تھا کہ میرے بیٹے حسینؓ کے گھر امام زین العابدینؓ ہو گا۔ چنانچہ حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں کہ ابو الزبیر نے کہا کہ ہم جابر بن عبد اللہؓ کے پاس تھے وہاں علی بن حسینؓ (امام زین العابدینؓ) تشریف لائے تو حضرت جابرؓ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے پاس تھے ۔پس آپؐ کے پاس امام حسین ؓ آئے،حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان کا سراور منہ چومااور اپنے سینے سے لگایا پھر اپنے پاس بٹھایااور ارشاد فرمایا کہ ’’میرے اس بیٹے (حسینؓ) کو اللہ بیٹا دے گا جس کا نام علی ہو گا۔ قیامت کے دن حاملینِ عرش فرشتوں سے ایک فرشتہ آواز دے گا کہ سیدّ العابدین کھڑا ہو تو وہ (زین العابدین) کھڑا ہو گا۔‘‘ (البدایہ والنہایہ ص ۶۰۱ج۹)

  2. امام زین العابدینؓ کے اخلاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کی چمک دمک نمایاں تھی۔

  3. جو شخص ہمارے (اہلِ بیت رسول کے )ساتھ اللہ کی رضا کے لیے محبت کرتا ہے قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت کا سایہ عطا فرمائے گا اور جو ہمارے ساتھ اس لیے محبت کرتا ہے کہ آخرت میں جنت ملے، تو اللہ تعالیٰ اسے جنت مرحمت فرمائے گا اور جو شخص ہمارے ساتھ کسی دنیاوی غرض کے لیے محبت کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو وسیع رزق عطا فرمائے گا۔

  4. بہت ہی خوبصورت بیان کہ میں اس کے الفاظ ، واقعات اور سحر میں گم ہوگیا۔

  5. امام زین العابدینؓ کی پیدائش سے قبل ہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرما دیا تھا کہ میرے بیٹے حسینؓ کے گھر امام زین العابدینؓ ہو گا۔

    1. امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ کی کرامت
      حجاج بن یوسف کے وقت میں جب دوبارہ حضرت زین العابدین رضی اللہ عنہٗ اسیر کئے گئے اور لوہے کی بھاری قید و بند کا بارِگراں ان کے تنِ نازنین پر ڈالا گیا اور پہرہ دارمتعین کردئیے گئے تو ابنِ شہاب زہری اس حالت کو دیکھ کر روپڑے اور کہا ’’میری تمنا ہے کہ میں آپؓ کی جگہ ہوتا کہ آپؓ پر یہ بارِمصائب دل پرگوارا نہیں ہے۔‘‘ اس پر امام زین العابدین رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا ’’کیاتجھے یہ گمان ہے کہ اس قیدو بند ش سے مجھے کرب و بے چینی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر میں چاہوں تو اس میں سے کچھ بھی نہ رہے مگر اس میں اجر ہے اور عذابِ الٰہی عزوجل کی یادہے۔‘‘ یہ فرماکر بیڑیوں میں سے پاؤں اور ہتھکڑیوں میں سے ہاتھ نکال دئیے۔

    1. بہت ہی خوبصورت بیان کہ میں اس کے الفاظ ، واقعات اور سحر میں گم ہوگیا۔

  6. حضرت امام زین العابدینؓ کی شان پر لاکھوں کروڑوں سلام ❤اللہ پاک ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے آمین

    1. حضرت امام زین العابدینؓ کی شان پر لاکھوں کروڑوں سلام ❤اللہ پاک ہمیں ان کے نقش قدم پر چلائے آمین

      1. اتنی خوبصورت تحریر آج تک نہ دیکھی اور نہ پڑھی

  7. روایت میں ہے کہ آپؓ بیمار ہوئے اور آپؓ کے پدر بزرگوار حضرت امام حسینؓ نے عیادت کرتے ہوئے پوچھا کہ فرزند کوئی خواہش ہو تو بیان کرو۔ آپؓ نے عرض کی’’ خواہش صرف یہ ہے کہ میں قضا و قدرِ الٰہی پر راضی رہوں اور اس کے علاوہ کوئی بھی خواہش نہیں ہے۔ جو وہ چاہتا ہے وہی بہتر ہے، اس سے بہتر میں کیا طے کرسکتا ہوں۔‘‘ حضرت امام حسینؓ نے اس جواب پر گلے سے لگا لیا اور فرمایا کہ میرے بیٹے تمہارا جواب بالکل ابراہیم خلیلؑ سے ملتا جلتا ہے جب ان سے امداد کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ جس کا میں محتاج ہوں وہ میرے حالات کو خوب جانتاہے اور اس کے فیصلہ کے سامنے سرِتسلیم خم رکھنا ہی اپنی ذمہ داری ہے۔ (حیات امام علی بن الحسینؓ)

  8. سبحان اللہ ۔۔بہت عمدہ اور بہترین انداز میں حضرت امام زین العابدینؓ کی شان بیان کی گئی ہے ۔۔

  9. اللہ پاک اہلِ بیتؓ کی غیر مشروط محبت اور غلامی عطا فرمائے ۔ آمین

  10. آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہو جائے اور باطن بگڑ جائے۔

  11. اہلِ علم وہی لوگ ہیں جنہوں نے اللہ کو پہچانا۔اسکی طرف رغبت کی اور نیک عمل کیا۔ گناہ کر کے اس دنیا میں بہتری تلاش نہ کرو۔
    آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ! میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ لوگوں کی نظر میں میرا ظاہر اچھا ہو جائے اور باطن بگڑ جائے۔

  12. امام مالکؓ فرماتے ہیں کہ آپ کو کثرت عبادت کی وجہ سے زین العابدین کہا جاتاہے۔ (نورالابصار)

  13. آپؓ کی ایک کیفیت یہ تھی کہ وضو شروع کرتے ہی چہرے کا رنگ بدل جاتا تھا کہ ربّ العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا وقت آگیا۔

  14. امام زین العابدینؓ کے اخلاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق کی چمک دمک نمایاں تھی۔ جس طرح نبی کریم ؐ نے کبھی کسی سائل کو لا (نہیں) کا لفظ نہیں کہا اسی طرح امام زین العابدینؓ نے بھی تمام عمر کبھی کسی سائل کے لیے لا (نہیں) کا لفظ استعمال نہیں کیا۔

  15. ماشااللہ بہترین آرٹیکل ہے اللہ پاک ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین 💯❤❤❤

  16. مجھے تعجب ہے اس آدمی کی عقل پر جو دارِ فنا کے لیے تو کام کرتا ہے اور دارِ بقا کا خیال چھوڑے ہوئے ہے۔(امام زین العابدین )

اپنا تبصرہ بھیجیں