دورِ فتن میں راہِ نجات Daur e Fitan mein Rah e Nijat


4.4/5 - (90 votes)

دورِ فتن میں راہِ نجات (Daur e Fitan mein Rah e Nijat)

تحریر: محترمہ نورین سروری قادری ۔سیالکوٹ

انسانی زندگی میں خیر و شر کی ابتدا اُسی روز ہو گئی تھی جب ابلیس نے حکمِ خداوندی سے انکار کرتے ہوئے حضرت آدمؑ کو سجدہ نہ کرکے اللہ پاک کے حکم کی نافرمانی کی تھی۔ اس حکم عدولی کے بارے میں اللہ پاک نے سورۃالکہف میں ارشاد فرمایا:
وہ (ابلیس) جنات میں سے تھا تو اپنے ربّ کی اطاعت سے باہر نکل گیا۔(سورۃالکہف۔50)

یوں اطاعت اور نافرمانی کی کشمکش کے ساتھ جب حضرت آدمؑ زمین پر تشریف لائے تو حیاتِ بنی آدم کو آزمائش اور زمین کو امتحان گاہ بنا دیا گیا اس طرح زمین پر خیر و شر کا آغاز ہوا۔ بنی نوع انسان کے سامنے دو راستے خیر و شر (نیکی اور بدی) رکھ دئیے گئے۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اور ہم نے اسے (خیر وشر کے) دو نمایاں راستے(بھی) دکھا دئیے۔ (سورۃ البلد ۔10)

اللہ پاک نے خیر و شر کی پہچان کو انسانی فطرت کا حصہ بنا کر ان دونوں راستوں سے آگاہ کر دیااور راستے کاانتخاب انسان پرچھوڑدیا۔ ہدایت اور گمراہی دونوں میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب انسان کی مرضی پر موقوف ہے جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے۔ (سورۃالکہف۔ 29)

خیر وشرکے تصادم میں شیطان فسق و نافرمانی، گمراہی و بے دینی، بداعتقادی، ظلم و استحصال، فحاشی و عریانی اور جبر کا علمبردار بن گیا اور انسان کو گمراہ کرنے کا اعلان کر دیا۔ ابلیس نے ساری انسانیت کو گمراہ کرنے کے لیے اللہ پاک سے مہلت طلب کی تو اسے مہلت مل گئی۔ لیکن وہ یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ اللہ پاک کے مخلص اور برگزیدہ بندوں کو اپنے مکر و فریب کے جال میں نہیں پھنسا سکے گا۔ لہٰذا اس بات کا اقرار اس نے ان الفاظ میں کیا:
ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا، میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوش نما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔ سوائے تیرے ان برگزیدہ بندوں کے جو ( میرے اور نفس کے فریبوں سے) خلاصی پا چکے ہیں۔ (سورۃالحجر40۔39)

اللہ پاک نے اپنے برگزیدہ بندوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
اللہ نے ارشاد فرمایا: یہ (اخلاص ہی) راستہ ہے جو سیدھا میرے در پر آتا ہے۔ بے شک میرے (اخلاص یافتہ) بندوں پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا۔ (سورۃالحجر 42۔41)

اللہ پاک کی اپنے مخلصین کی حفاظت کی ضمانت اور ابلیس کے اعلانِ بغاوت کے بعد انسان دو گروہوں میں منقسم ہو گیا۔ ایک گروہ رحمن کا تابع فرمان بن گیا تو دوسرا گروہ شیطان کا پیروکار بن گیا، ایک حق و ہدایت کا علمبردار تو دوسرا باطل و گمراہی کا پیامبر۔ خیر کے پیامبروں کی طاقت کا سرچشمہ رحمن ہے تو شر کے پیروکاروں کی پشت پناہی شیطان کرتا ہے۔

اللہ پاک نے پیغامِ ہدایت کو فروغ دینے والوں کے سروں پر ولایتِ رحمانی کا تاج سجا کر انہیں اہلِ حق کے گروہ میں شامل فرمایا جبکہ شر کے پیروکاروں کے سر پرظلمت و گمراہی کا تاج رکھ کر ان سب کے لیے جہنم میں ٹھکانہ مقرر فرما دیا۔

اللہ کی جماعت اور حزب الشیطان

اللہ پاک نے اپنی ولایت کی راہ اختیار کرنے والوں کو اپنی جماعت ’’اللہ کی جماعت‘‘ اور شیطانی راہ اپنانے والوں کو ’’حزب الشیطان‘‘ قرار دیا ہے۔
اللہ کی جماعت کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 اللہ کی جماعت(کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔ (سورۃالمائدہ۔56)

مندرجہ بالاآیتِ مبارکہ سے واضح ہوگیا کہ خیر و شر کی کشمکش میں فتح و کامرانی ہمیشہ حق اور اہلِ حق کے لیے ہی مقرر ہے۔ خیر ہمیشہ شر کی قوت پر غالب آتی ہے اور شر کو ہمیشہ ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حق کی کامیابی کا دارومدار حق تعالیٰ پرہے جبکہ باطل گروہ ابلیس سے مدد طلب کرتا ہے۔

خیر و شر کی جنگ قیامت تک جاری رہے گی۔ حزب الشیطان قیامت تک کفر و ظلمت کے غلبہ کی کوشش کرتا رہے گا۔نبوت و رسالت کے سلسلہ کے بعد ہدایت کے فروغ کے لیے اولیا و صلحا اور علمائے حق کا گروہ ہے جو حق کے پرچم کو بلند کرتے رہیں گے۔

موجودہ دورِ فتن اور حق و باطل

دورِ حاضر میں حق و باطل میں تصادم عروج پر ہے۔ برائی بڑھتی جا رہی ہے، شر اپنی انتہا پر ہے۔ سجدہ ریزیوں کی جگہ تکبر نے لے رکھی ہے، امن و سکون کی جگہ فتنہ و فساد لے چکا ہے۔ نمائش اور دکھاوا بڑھتا جا رہا ہے۔ عقیدہ و سوچ میں لادینیت نمایاں ہے۔ فحاشی و عریانی عروج پر ہے۔ برائی کے عوامل بڑھتے جا رہے ہیں۔ باطل کئی شکلوں میں امت کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے جس کی وجہ سے اخلاقی قدریں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔ قارونیت اور فرعونیت کا غلبہ ہوتا جا رہا ہے۔ تہذیب و ثقافت کو جنسی بے راہ روی نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ جہالت ہدایت کا بھیس بدل کر گمراہی کو عام کر رہی ہے۔ الغرض ہر طرح کے معاملات خواہ دینی ہو یا دنیوی، سب حزب الشیطان کے تابع ہیں۔

دورِ فتن کے حالات و واقعات کی نشاندہی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پہلے ہی فرما دی تھی۔ دورِ فتن کے اثرات کی تصدیق  اس حدیث ِمبارکہ سے ہوتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ روایت کرتے ہیں:
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: زمانہ قیامت قریب ہو جائے گا اور عمل کم ہو جائیں گے ، دلوں میں بخل ڈال دیا جائے گا، فتنے زیادہ ہونے لگیں گے اور ہرج بکثرت ہونے لگیں گے۔ صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! ہرج کیا ہے؟ فرمایا: قتل ہے، قتل ہے (یعنی بکثرت قتل ہوں گے)۔ (بخاری)

جب ہر طرف شر اپنے عروج پر ہو تو ایسے میں ایمان کے لٹ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ ایمان کی قدر مٹتی جاتی ہے، روحانی اقدار ختم ہو جاتی ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ مذہب میں نت نئے فتنے ظاہر ہونے لگتے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کے پرفتن دور میں اہلِ حق اپنا ایمان کیسے بچائیں؟؟؟ کیا ایسے پرُفتن دور میں بھی ’’اللہ کی جماعت‘‘ موجود ہے جس میں شمولیت  اختیار کر کے اپنے دین و ایمان کو بچایا جا سکے؟

جی ہاں! اللہ پاک کی جماعت ہر دور میں موجود ہوتی ہے۔ اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ (سورۃ آل عمران۔ 104)

حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے صحیح العقیدہ جماعت میں شمولیت کو اللہ پاک کے فضل و کرم کے حصول کے مترادف قرار دیتے ہوئے فرمایا:
اللہ تعالیٰ اس اُمت کو کبھی بھی گمراہی پر اکٹھا نہیں فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا دستِ قدرت جماعت پر ہوتا ہے۔ پس سب سے بڑی جماعت کی اتباع کرو اور جو اس جماعت سے الگ ہوتا ہے وہ آگ میں ڈال دیا جاتا ہے۔ (حاکم)

 ایمان کی سلامتی کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جماعت میں شمولیت کو ضروری قرار دیا ہے۔ چنانچہ جماعت میں شامل ہونے سے ہی راہِ نجات ممکن ہے۔ مادیت پرستی کے اس دور میں انفرادی طور پر جدوجہد سے ایمان کو بچانا ممکن نہیں۔ جس طرح شر کی طاقتیں متحد ہو کر اسلام کے خلاف حملہ آور ہوتی ہیں اسی طرح حق کی جماعت کو بھی اجتماعی طور پر جدوجہد کرنا ہو گی۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ قول سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آیا ہے ’’جب گمراہی عام ہو جائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا، فرقوں اور گروہوں کی بھرمار ہو گی، ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسروں کو گمراہ سمجھے گا اور گمراہ فرقوں اور گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھا کر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوارے پھوٹ پڑیں گے۔‘‘ 

اس قول سے مراد یہ ہے کہ گمراہی کے دور میں آپؒ کا کوئی غلام آپؒ کی باطنی رہنمائی میں آپؒ کی روحانی تعلیمات کو لے کر کھڑا ہو گا، گمراہی کو ختم کرے گا، دینِ حق کا بول بالا کرے گا اور دینِ حنیف پھر سے زندہ ہو جائے گا۔دورِ فتن میں راہِ نجات کا ذریعہ سرکارِ دو عالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تعلیماتِ فقر کی حقیقی ترجمان ’’تحریک دعوتِ فقر ‘‘ ہے۔ جس کے قیام کا مقصد دنیا بھر کے لوگوں کو راہِ فقر کی دعوت دینا ہے تاکہ وہ اللہ کا قرب حاصل کر سکیں اور وہ روحانی پاکیزگی حاصل کر سکیں جو لقائے الٰہی اور مجلسِ محمدیؐ کی حضوری حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے۔

سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس تحریک دعوتِ فقر کے بانی و سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اس پرفتن اور ظاہر پرست دور میں دین کی روح کو زندہ کرنے کے لیے اس جماعت کی بنیاد رکھی۔ تحریک دعوتِ فقر ایک غیر سرکاری و غیر سیاسی جماعت ہے۔ اس تحریک کا مقبول ترین نعرہ ہے ’’دنیا و آخرت میں کامیابی کے لیے سیاست نہیں بلکہ روحانی تربیت کی ضرورت ہے۔‘‘ اس جماعت کا مقصد طالبانِ مولیٰ کی روحانی تربیت ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے طالبوں کی روحانی تربیت فرما کر انہیں دین ِ محمدیؐ سے اس طرح منسلک کر دیتے ہیں کہ وہ ’’اللہ کی رسی مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو‘‘ کے مصداق بن جاتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے طالبوں کی روحانی تربیت اس انداز میں فرماتے ہیں جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے دورِ حیات میں صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے ایسی حلاوت نصیب ہوتی ہے کہ دل سے ہر طرح کے شکوک و شبہات دور ہوتے ہیں۔

جو لوگ اولیا اللہ اور فقرا کے مخالف ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں فقرا کاملین موجود نہیں وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوکرباطنی پاکیزگی کے لیے اسم ِاللہ ذات کا تصور، سلطان الاذکار ھوُ اور ظاہری پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ حاصل کریں اور اپنے دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو رفع کرکے فقرائے کاملین کی شان اور تصرف سے آگاہ ہوں۔

تحریک دعوتِ فقر عوام الناس کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی دعوت دیتی ہے کیونکہ اسی سے قلبی، نفسی اور روح کی بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ تزکیۂ نفس ، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح جیسے اعلیٰ ترین باطنی مقامات حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر منازلِ فقر ’’لقائے الٰہی‘‘ اور ’’مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری‘‘ کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذاہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ مقصدِ حیات میں کامیاب و کامران ہونے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بنیں۔

 

29 تبصرے “دورِ فتن میں راہِ نجات Daur e Fitan mein Rah e Nijat

  1. ہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ مقصدِ حیات میں کامیاب و کامران ہونے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بنیں۔

  2. تحریک دعوتِ فقر عوام الناس کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی دعوت دیتی ہے کیونکہ اسی سے قلبی، نفسی اور روح کی بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ تزکیۂ نفس ، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح جیسے اعلیٰ ترین باطنی مقامات حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر منازلِ فقر ’’لقائے الٰہی‘‘ اور ’’مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری‘‘ کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذاہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ مقصدِ حیات میں کامیاب و کامران ہونے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بنیں۔

  3. ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے۔ (سورۃالکہف۔ 29)

  4. جو لوگ اولیا اللہ اور فقرا کے مخالف ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں فقرا کاملین موجود نہیں وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوکرباطنی پاکیزگی کے لیے اسم ِاللہ ذات کا تصور، سلطان الاذکار ھوُ اور ظاہری پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ حاصل کریں اور اپنے دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو رفع کرکے فقرائے کاملین کی شان اور تصرف سے آگاہ ہوں

  5. تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں۔ (سورۃ آل عمران۔ 104)

  6. اللہ کی جماعت کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
    اللہ کی جماعت(کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔ (سورۃالمائدہ۔56)

  7. تحریک دعوتِ فقر عوام الناس کو ذکر و تصوراسمِ اللہ ذات کی دعوت دیتی ہے کیونکہ اسی سے قلبی، نفسی اور روح کی بیماریوں سے نجات حاصل ہوتی ہے۔ تزکیۂ نفس ، تصفیۂ قلب اور تجلیۂ روح جیسے اعلیٰ ترین باطنی مقامات حاصل ہوتے ہیں۔ ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات کے بغیر منازلِ فقر ’’لقائے الٰہی‘‘ اور ’’مجلسِ محمدیؐ کی دائمی حضوری‘‘ کا حصول ممکن نہیں۔ لہٰذاہر خاص و عام کو دعوت ہے کہ مقصدِ حیات میں کامیاب و کامران ہونے کے لیے تحریک دعوتِ فقر کا حصہ بنیں

  8. اللہ پاک سے دعا ہے کہ فقرا کاملین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی اور گستاخی سے محفوظ رکھے

  9. جو لوگ اولیا اللہ اور فقرا کے مخالف ہیں یا یہ سمجھتے ہیں کہ آج کے دور میں فقرا کاملین موجود نہیں وہ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہوکرباطنی پاکیزگی کے لیے اسم ِاللہ ذات کا تصور، سلطان الاذکار ھوُ اور ظاہری پاکیزگی کے لیے مشق مرقومِ وجودیہ حاصل کریں اور اپنے دلوں میں موجود شکوک و شبہات کو رفع کرکے فقرائے کاملین کی شان اور تصرف سے آگاہ ہوں۔

  10. اللہ پاک نے اپنی ولایت کی راہ اختیار کرنے والوں کو اپنی جماعت ’’اللہ کی جماعت‘‘ اور شیطانی راہ اپنانے والوں کو ’’حزب الشیطان‘‘ قرار دیا ہے۔

  11. سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مد ظلہ الاقدس تحریک دعوتِ فقر کے بانی و سرپرستِ اعلیٰ ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس نے اس پرفتن اور ظاہر پرست دور میں دین کی روح کو زندہ کرنے کے لیے اس جماعت کی بنیاد رکھی۔ تحریک دعوتِ فقر ایک غیر سرکاری و غیر سیاسی جماعت ہے۔

  12. آپ مدظلہ الاقدس اپنے طالبوں کی روحانی تربیت اس انداز میں فرماتے ہیں جس طرح حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنے دورِ حیات میں صحابہ کرامؓ کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی صحبت سے ایسی حلاوت نصیب ہوتی ہے کہ دل سے ہر طرح کے شکوک و شبہات دور ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں