تعمیر ِ مسجد عظیم سنت ِنبویؐ | Tameer e Masjid Sunnat e Rasool


3.3/5 - (3 votes)

تعمیر ِ مسجد  ۔عظیم سنت ِنبویؐ

تحریر: ناصر مجید سروری قادری (اسلام آباد)

دین ِاسلام میں مسجد کی بہت قدر و منزلت ہے کیونکہ مسجد مسلمانوں کے لیے ایک اجتماع گاہ، مرکز اور محور کے طور پر جانی جاتی ہے۔ مسجد کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو سب سے پہلا کام جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا وہ مسجد قبا کی تعمیر تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلمان تعداد میں بہت قلیل تھے جنہوں نے اللہ پر توکل کرتے ہوئے اپنا گھربار اور مال و متاع مکہ مکرمہ میں چھوڑا اور اپنے آقا و مولا راہبر و محبوب ہستی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہمراہی میں مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کی اور ان کے قول و فعل میں ذرا برابر بھی لغزش نہ آئی۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبردست روحانی راہنمائی حاصل تھی کیونکہ بغیر کسی زبردست روحانی راہنمائی کے ایسی قوت و ہمت اور بے خوفی سے قدم اٹھانا کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں۔ آقائے نامدار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا قافلہ مبارک ابھی مدینہ پہنچ نہیں پایا تھا کہ اسی بے سر و سامانی کے عالم میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر فکر، خوف اور غم سے آزاد ہوکر ولولہ انگیز طریقہ سے اپنے آقا و مرشد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حکم کو آناً فاناً بجا لائے۔ اس سے دو باتیں واضح ہوتی ہیں کہ اگر مسلمان ہجرت کرے توسب سے پہلا عمل جو کرے وہ مسجد تعمیر کرکے اسے آباد کرے اور دوسری بات جو بہت اہم ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے کیلئے مال و اسباب سے بڑھ کر پختہ دلیل، اخلاص اور ثابت قدمی کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے مسجد کی فضیلت کے بارے میں بے شمار آیات نازل فرمائیں۔

مساجد کے فضائل  قرآن پاک کی روشنی میں

اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہم السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اوراعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک (صاف) کر دو۔ (البقرہ 125) 

اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گے۔ (التوبہ18)

ان (ایمان والوں) نے کہا جنہیں ان کے معاملہ پر غلبہ حاصل تھا کہ ہم ان (کے دروازہ) پر ضرور ایک مسجد بنائیں گے (تاکہ مسلمان اس میں نماز پڑھیں اور ان کی قربت سے قرب الٰہی حاصل کریں)۔ (الکہف۔21)

(اے حبیب!) وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقویٰ پر رکھی گئی ہے، حقدار ہے کہ آپ اس میں قیام فرما ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو (ظاہراً و باطناً) پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں، اور اللہ طہارت شعار لوگوں سے محبت فرماتا ہے۔ (التوبہ108)

اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔ (البقرۃ 114)
بے شک مساجد (خاص) اللہ کے لیے ہیں تو خدا کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔ (جن 18)

مسجد کی اہمیت  احادیث کی روشنی میں 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احادیث ِمبارکہ میں مساجد کو آباد کرنے اور تعمیر کرنے والوں کے لیے بے شمار بشارتیں اور انعامات کی نوید سنائی ہے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی ایک چیل کے گھونسلے جتنی مسجد بنائے (یعنی کوئی مسجد کی تعمیر میں اگر اتنا بھی حصہ ڈالے) تو  اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔ (اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور ابن خزیمہ نے روایت کیا ہے) 

حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ کا بیان ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’جس شخص نے اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنائے گا۔‘‘ (یہ حدیث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔) 

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اللہ تعالیٰ (کی رضا) کے لیے چھوٹی یا بڑی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بنائے گا۔‘‘ (اس حدیث کو امام ترمذی اور ابو یعلیٰ نے روایت کیا ہے)

حضرت ابو قرصافہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ’’مسجدیں بناؤ اور انہیں صاف رکھو۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا گھر جنت میں بنا دیتا ہے۔‘‘ ایک آدمی نے عرض کیا: ’’یا رسول اللہ! ان مساجد کے بارے میں کیا خیال ہے جو راستے میں بنائی جاتی ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں (ان کا بھی یہی حکم ہے) اور ان کی صفائی حورعین کا حق مہر ہے۔‘‘ (اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو شہروں کی پسندیدہ ترین جگہ مساجد ہیں اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہیں۔‘‘ (ا س حدیث کو امام مسلم، احمد، ابن خزیمہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔) 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے محلوں میں مسجدیں بنانے اور انہیں صاف ستھرا اور خوشبودار رکھنے کا حکم دیا۔(اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ِماجہ نے روایت کیا ہے۔) 

حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا : جب کسی شخص کو دیکھو کہ وہ مسجد میں آنے جانے کا عادی ہے تو اس کے ایمان کی گواہی دو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اللہ کی مساجد کو صرف وہی شخص آباد کرتا ہے جو اللہ پر اور یومِ آخرت پر ایمان لایا‘‘۔ (اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا) 

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے مسجد کو پسند کیا اللہ تعالیٰ نے اسے پسند کیا۔‘‘ (اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد اپنے گھر کے تعمیر کی بجائے اللہ تعالیٰ کا گھر یعنی مسجد کی تعمیر فرمائی جب مدینہ تشریف لائے تو انصار کے ہر قبیلہ کی خواہش تھی کہ آقا  پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام انہیں میزبانی کا شرف عطا فرمائیں لیکن آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ اللہ کی طرف سے مامور ہے۔‘‘ چنانچہ اونٹنی ایک جگہ پر بیٹھ گئی۔ یہ جگہ سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان بچوں سے وہ جگہ خریدی اور مسجد نبویؐ تعمیر فرمائی۔ اس سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے جگہ جگہ پر مساجد کی تعمیر و آبادی کا عمل بے حد محبوب تھا کہ آپ کے پاس جو وفود آتے آپ ان کو بھی مساجد تعمیر کرنے کا حکم فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی یہی شعار رہا۔ اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مسجد تعمیر کرنیوالے کے لیے جنت کی بشارت دے دی۔

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی شان ہے کہ آپ نے اپنی امت کے لیے تھوڑے سے عمل کے صلے میں بھی اجر ِعظیم کی بشارتیں سنائی ہیں جیسا کہ مسجد تعمیر کرنیوالے شخص کو اللہ تعالیٰ صرف جنت ہی نہیں بلکہ جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین گھر عطا فرمائے گا اور اس سے ایک اور بات بھی واضح ہوتی ہے کہ اجتماعی طور پر بنائی جانیوالی مسجد میں اگر کوئی ایک اینٹ بھی لگائے گا یا چھوٹی سی مسجد بنائے گا تو اس کے لیے بھی جنت میں ایک پورے گھر کی بشارت ہے۔ 

ایک روایت ہے کہ بادشاہ ہارون الرشید نے مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اور کہا کہ میں یہ مسجد خود ہی بنواؤں گا۔ ایک غریب آدمی کا ادھر سے گزر ہوا اور اس نے اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے بادشاہ سے درخواست کی کہ میرے پاس چند اینٹیں ہیں آپ انہیں مسجد کی تعمیر میں شامل کرلیں تاکہ میرا حصہ بھی شامل ہو جائے لیکن بادشاہ نے یہ کہہ کرانکار کردیا کہ یہ مسجد میں خود ہی بنواؤں گا۔ پھر بھی غریب آدمی کی نیت تھی کہ یہ اینٹیں مسجد کی تعمیر میں استعمال ہوجائیں اور اللہ مجھ سے راضی ہوجائے بہر کیف وہ آدمی اینٹیں اٹھا کر چل پڑا اور جان بوجھ کر اینٹوں والی جگہ پر گر گیا اور اپنی اینٹیں انہی اینٹوں میں شامل کرکے چلا گیا۔ دورانِ تعمیر بادشاہ کو خواب آیا کہ اس نے جنت میں دو ایک جیسے محل دیکھے۔ بادشاہ نے فرشتوں سے پوچھا یہ کس کے ہیں؟ فرشتوں نے جواب دیا ایک آپ کا مسجد بنانے کے عوض اور ایک فلاں شخص کا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اس شخص کا گھر کس لیے جنت میں بنایاگیا تو فرشتوں نے کہا کہ اس نے اللہ کے گھر کی تعمیر میں چند اینٹیں اس طریقہ سے شامل کی تھیں اس لیے۔ 

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد فقرائے کاملین اور بالخصوص مشائخ سروری قادری بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اس سنت پر سختی سے کاربند رہے ہیں کہ جیسے انہوں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عظیم سنت ’ہجرت‘ کو ادا کیا اور جن علاقوں میں انہوں نے قدم رکھا سب سے پہلے مسجدیں تعمیر کیں اور اللہ تعالیٰ کے ان گھروں کی تعمیر اور آباد کاری انفرادی طور پر کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر لوگوں کو شمولیت کی دعوت دی۔ چونکہ فقرائے کاملین حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ورثہ فقر‘ جو کہ دین اسلام کی عین حقیقت ہے‘ کے امین و محافظ ہیں اور ان کے اختیار و تصرف کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
’’سروری قادری مرشد ہر قدرت پر قادر اور ہر مقام پر حاضر ہوتا ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)

لیکن ادھر ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ اتنا اختیار و تصرف ہونے کے باوجود سروری قادری مرشد اگر چاہے تو وہ پلک جھپکنے میں ہر کام کر دے کیونکہ اس کی نظر کی تاثیر کی یہ طاقت ہوتی ہے کہ وہ مٹی کو سونا بنا سکتا ہے لیکن پھر بھی وہ ہر خاص و عام کو اس میں شمولیت کی دعوت دیتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ سروری قادری مرشد قدمِ محمدؐ پر ہونے کی وجہ سے ہر خاص و عام کو صرف اور صرف فقر و معرفت، دیدارِ الٰہی اور مجلس ِ محمدیؐ کی حضوری کی طرف بلاتا ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر دنیا و آخرت کی کوئی حقیقت نہیں جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

 کوڑا تخت دنیا دا باھوؒ، تے فقر سچی شاھی ھُو

یعنی کہ فقر کے علاوہ انسان دنیا کے جس مرضی مقام و مرتبے پر پہنچ جائے اللہ تعالیٰ کی نظر میں یہ سب کچھ بیکار اور فضول ہے۔

اب جبکہ یہ بات واضح ہو گئی کہ فقر کے علاوہ باقی کسی بھی شے کی کوئی قدر و قیمت نہیں اور سروری قادری مرشد اس کا عینی شاہد ہوتا ہے۔ اس لیے وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے قدم پر ہونے کی وجہ سے مخلوق کا سب سے بڑا خیرخواہ اور مخلوق کے بارے میں بہت فکرمند اور محبت کرنے والا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ایک مہربان و شفیق استاد و راہبر کی مثل اپنی تمام عمر مختلف طریقوں سے مخلوقِ خداوندی کو فقر کے راستے پر لانے کے لیے کوشش کرتا رہتا ہے اور امت کے اسی غم میں مبتلا رہتا ہے جس سے اکثر لوگ ناواقف ہوتے ہیں۔ صرف چند خاصانِ خدا ہی اس حقیقت سے واقف ہوتے ہیں۔ 

تعمیر ِمساجد سروری قادری مرشد کی اوّلین ترجیح ہوتی ہے اور وہ اس سنت کو ہر حال میں بجا لاتا ہے چاہے اس کے لیے اسے ہزاروں رکاوٹوں اور مشکلات سے گزرنا پڑے۔ چاہے اس کے ساتھ کوئی کھڑا ہو یا نہ ہو۔ لیکن یہ مرشد کامل اکمل کی انتہائی مہربانی ہے کہ وہ اس کارِ خیر کو انفرادی طور پر کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ ہر خاص و عام کو جانی و مالی، ذہنی اور تکنیکی طور پر شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان اپنی استطاعت کے مطابق اس میں ایک روپیہ بھی دیتا ہے تو فقیر کامل اس روپے کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر اللہ کی بارگاہ میں عرض کرتا ہے  ــ’’یا اللہ! تیرے اس بندے نے تیری رضا کی خاطر تیرے گھر کی تعمیر کے لیے یہ پیسہ خرچ کیا ہے اسے اپنے قرب سے نواز دے‘‘۔ چاہے اس بندے کی خواہش دنیا و آخرت میں کوئی مقام و مرتبہ پانے کی کیوں نہ ہو فقیر کامل کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ باقی سب چیزوں کو چھوڑ کر صرف فقر، قرب و دیدار کی طرف آئے لیکن اس کے باوجود بھی اگر کوئی انسان یہی چاہے کہ اسے اس کے بدلے میں دنیا کی ہی دولت ملے تو وقت ِمقررہ پر فقیر کامل اسے ایسا اجر دلواتا ہے کہ جس کی مثال نہیں ہوتی۔ 

اس بارے میں ایک حکایت بھی ہے کہ ایک ولی اللہ لوگوں کو دعوت دے رہے تھے کہ مسجد کی تعمیر میں اپنا مال خرچ کرو اللہ آپ کو اور زیادہ دے گا چاہے ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔ ان ولی اللہ کا ایک غیرت مند مرید تھا۔ اس نے کہا مرشد آپ مجھے حکم کریں، مسجد کی تعمیر میں جتنے اخراجات آئیں گے میں ادا کر دونگا مجھے آپ کا یہ لوگوں سے ایک ایک پیسہ اکٹھا کرنا اچھا نہیں لگتا۔ ان بزرگ نے پاس پڑے ہوئے مٹی کے ڈھیر پر نگاہ ڈالی اور فرمایا ادھر دیکھو وہ سارے کا سارا ڈھیر سونے کا بن گیا۔ بزرگ نے فرمایا ’’یہ ہے فقیر کا اختیار! میں تو ان سے ایک ایک پیسہ ان کی بھلائی کے لیے اکٹھا کر رہا ہوں تاکہ میں اللہ کی بارگاہ میں ان پر مہربانی کروانے کا جواز پیش کرسکوں۔‘‘ 

یہی وجہ ہے کہ فقیر کامل مخلوقِ خدا کو اپنے خالق ِحقیقی کے قریب کرنے کے کئی اقدامات کرتا ہے کہ انسان کسی بھی بہانے اللہ کے نزدیک ہو جائے اور اپنے مقصد ِحیات میں کامیاب ہوکر اس دنیا سے رخصت ہو اس لیے فقیر ِکامل انفرادی طور پر کام کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر کام کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔

تعمیر مسجد زہراؓ

مو جودہ دور کے انسانِ کامل و مرشد کامل اکمل اور بانی و سرپرست اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس چونکہ عین قدم ِمحمد پر اور فقیر کامل کے مرتبہ پر فائز ہیں اس لیے آپ مدظلہ الاقدس نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے دین ِاسلام کی مزید سر بلندی اور امت کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرنے اور آپس میں جوڑنے کی خاطر مسجد کی تعمیر کا ارادہ فرمایا۔اس مقصد کے لیے اس جگہ کا انتخاب کیا جہاں قرب و جوار میں کوئی بھی وسیع و عریض جامع مسجد موجود نہ تھی جو مرکز ِ دین و فقر کا نمونہ بن سکے۔

مسجد کا سنگ ِبنیاد سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے اپنے دست ِمبارک سے رکھا اور تعمیر مسجد کا کام زور و شور سے جاری و ساری ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے پنجتن پاک بالخصوص سیدہ کائنات حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا سے والہانہ محبت کی وجہ سے اس مسجد کا نام مسجد ِزہراؓ رکھا کیونکہ آپ رضی اللہ عنہا ہی وہ واحد ہستی ہیں جن کا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم، حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کے درمیان وہی مقام ہے جو انگوٹھی میں نگینہ کا ہے کہ ان سب پاک ہستیوں کا آپؓ سے بلاواسطہ تعلق ہے یعنی آپ رضی اللہ عنہا ان ہستیوں کو جوڑنے والی تھیں۔ اسی نسبت سے آپ مدظلہ الاقدس نے آپ رضی اللہ عنہا کے پاک و مقدس نامِ گرامی پر اس مسجد کا نام مسجد زہراؓ رکھا کہ یہ دین ِاسلام کا ایسا مرکز و محور ہوگا جو تمام امت ِمسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر لے گا اور یہ مسجد نہ صرف موجودہ دور بلکہ آنے والے ادوار کے لیے ایک شاہکار اور نمونہ ہوگی انشاء اللہ۔ 

مسجد زہراؓ کی تعمیر کے لیے خطیر رقم کی ضرورت ہے اور اس تعمیر میں جو جتنا زیادہ خرچ کرے گا یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر بڑی مہربانی اور بڑا انعام ہوگا کہ اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لینا بہت بڑی سعادت کی بات ہے اور فقیر ِکامل اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
 جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے جیسی ہے جس میں سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں) اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے۔ (البقرہ۔261 ) 

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تن، من اور دھن سے مسجد ِزہراؓ کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

 
 

26 تبصرے “تعمیر ِ مسجد عظیم سنت ِنبویؐ | Tameer e Masjid Sunnat e Rasool

    1. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تن، من اور دھن سے مسجد ِزہراؓ کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

  1. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #masjid #tameer #sunnaterasool

  2. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #masjid #tameer #sunnaterasool

  3. سبحان اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #masjid #tameer #sunnaterasool

  4. ماشائ اللہ
    #sultanbahoo #sultanularifeen #sultanulashiqeen #tehreekdawatefaqr #tdfblog #blog #urdublog #spirituality #sufism #faqr #masjid #tameer #sunnaterasool

    1. اللہ ہم سب کو اس کار خیر میں شریک ہونے کی توفیق عطا فرمائے

  5. اس شخص سے بڑھ کر اور کون ظالم ہو گا جواللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔ (البقرۃ 114)

  6. بیشک مسجد تعمیر کرنا اور اس کی تعمیر میں حصہ لینا بہت ہی سعادت کی بات ہے.

    1. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہٗ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کو شہروں کی پسندیدہ ترین جگہ مساجد ہیں اور ناپسندیدہ ترین جگہ بازار ہیں۔‘‘

  7. ہ اللہ تعالیٰ ہمیں تن، من اور دھن سے مسجد ِزہراؓ کی تعمیر میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

  8. اللہ پاک ہمیں مسجدِ زہراؓ کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ حصہ ڈالنے کی توفیق عطا فرمائے۔(آمین)

  9. بیشک مسجد تعمیر کرنا اور اس کی تعمیر میں حصہ لینا بہت ہی سعادت کی بات ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں