طویل امیدیں | TAVEEL UMEEDAIN


Rate this post

طویل امیدیں  (Taveel  Umeedain)

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے فرمایا ’’تم پر مجھے سب سے زیادہ ڈر دو (باتوں) سے ہے ایک یہ کہ تم طویل امیدیں (Taveel Umeedain) باندھنا شروع کر دو اور دوسرے یہ کہ تم خواہشات کی پیروی شروع کر دو۔
اگر آدمی لمبی امید باندھ لے تو آخرت کو فراموش کر دیتا ہے اور نفسانی خواہش آدمی کو حق سے روک رکھتی ہے۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے فرمایا ’’تین کے واسطے تین کا یقین دلاتا ہوں۔ جو دنیا کا دلدادہ ہو اس کی طمع کرتا ہے، اس پر بخل کرتا ہو۔ اس کے بعد غنایت نہیں ہے۔ اتنی زیادہ مصروفیت کا جس سے فراغت نہیں اور اس قدر پریشانی کا جس کے ساتھ کوئی خوشی نہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے فرمایا ’’اس امت کی اصلاح زہد اور یقین سے شروع ہوتی ہے اور اس کی آخری ہلاکت کنجوسی اور لمبی امید رکھنا ہے۔
حضرت امِ منذر رضی اللہ عنہا نے روایت کیا ہے کہ ایک مرتبہ بوقتِ عشا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے لوگوں سے ارشاد فرمایا ’’تم اللہ تعالیٰ سے حیا نہیں رکھتے ہو۔‘‘ لوگوں نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam)! وہ کیسے؟‘‘ تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام(Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے ارشاد فرمایا ’’تم اتنا جمع کر لیتے ہو جو تم کھاتے نہیں اور ایسی امیدیں لگاتے ہو جو پوری نہیں کر سکتے اور اس طرح کے مکانات تعمیر کرتے ہو جن میں تم ہمیشہ نہیں رہ سکتے۔

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ ایک لونڈی کو حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہٗ نے ایک صد دینار پر ایک ماہ کا وعدہ کرتے ہوئے خریدا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا ’’اسامہؓ کی کتنی طویل امید (Taveel Umeedain) ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ میں میری جان ہے۔ میں آنکھوں کو کھولتا ہوں تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ آنکھوں کی پلکیں جھپکنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے۔ اگر اپنی آنکھ کو اٹھاتا ہوں تو یہ گمان ہوتا ہے کہ آنکھ نیچی کرنے تک موت واقع ہو جائے۔ ایک نوالہ جب اٹھاتا ہوں تو گمان ہوتا ہے کہ نوالے کو چبانے تک موت واقع ہو جائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) نے ارشاد فرمایا اے بنی آدم! اگر تم عقل رکھتے ہو تو خود کو مُردوں میں خیال کرو۔ مجھے اس ذات کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ وہ آنے والی ہے جس کا تمہارے ساتھ وعدہ ہے اور تم اس کو التوا میں نہیں ڈال سکتے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam) جب طہارت کے لیے باہر نکلا کرتے تھے تو مٹی میں اپنے ہاتھ مل لیا کرتے تھے۔ میں عرض کرتا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم (Hazrat Mohammad Sallallahu Alaihi Wa Aalihi Wa Sallam)! پانی تو نزدیک ہی موجود ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے تھے کیا معلوم کہ میں وہاں تک پہنچ بھی سکوں گا۔

حضرت مجاہدؓ نے فرمایا کہ مجھے حضرت ابنِ عمرؓ نے فرمایا کہ جب صبح کرو تو دل میں شام ہونے کا بہت نہ سوچو اور جب شام کرو تو دل میں صبح ہونے کا خیال مت لاؤ اور زندگی میں قبل از مرگ کچھ عمل کر لو اور مرض سے قبل دورانِ صحت کچھ عمل کر لو کیونکہ تم کو معلوم نہیں کہ کل تیرا حال کیا ہوگا۔

(امام غزالیؒ کی تصنیف مبارکہ مکاشفتہ القلوب سے انتخاب)


اپنا تبصرہ بھیجیں