کربلا حق اور باطل کا معرکہ Karbala Haq Aur Batil Ka Marka


4.7/5 - (146 votes)

کربلا  حق اور باطل کا معرکہ  (Karbala Haq Aur Batil Ka Marka)

تحریر:محترمہ امامہ رشید سروری قادری 

جب سے انسان کا وجود قائم ہوا ہے اُس وقت سے حق و باطل میں معرکہ آرائی ہو رہی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دنیا میں تشریف لانے سے آج تک ہزاروں ایسے محاذ ہوئے جن میں نظریاتی، فکری اور عملی طور پر حق و باطل ایک دوسرے کے مدمقابل آئے لیکن اللہ پاک نے ہر بارحق کو فتحِ مبین عطا فرمائی اور باطل جلد یا بدیر ہر بار  ذلیل و رُسوا ہوا۔ اِنہی معرکوں میں سے ایک بہت دردناک اور اسلام کی تاریخ کا ایک اہم ترین معرکہ’’ کربلا ‘‘کا ہے۔ یہ تاریخِ انسانیت کا وہ واحد معرکہ ہے جس کے امتیاز و برتری کی برابری دنیا کا کوئی بھی معرکہ نہیں کرسکتا۔ کربلا۔۔۔ عظیم مقصد کے لیے عظیم قربانی کا نام ہے جس کے اہداف و مقاصد، افکار و خیالات، حقانیت و صداقت اور روحانیت ومعنویت نے سب کو حیرت میں غرق کر رکھا ہے۔واقعہ کربلا حق و باطل کے درمیان امتیاز کی ایسی علامت بن گیا ہے جس کی مثا ل ہر معرکۂ حق و باطل کے لیے رہتی دنیا تک دی جائے گی۔ یہ معرکہ حق وباطل کا ایک ایسا معرکہ تھا کہ تب سے آج تک حق کے لئے حسینیت اور باطل کے لئے یزیدیت کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ 

یہ عظیم سانحہ 10 محرم الحرام 61 ؁ ھ (بمطابق 9 یا 10 اکتوبر 680ئ) کو موجودہ عراق میں مقامِ کربلا میں پیش آیا۔ حق وباطل کا یہ معرکہ نواسۂ رسولؐ، جگر گوشہ بتولؓ، حضرت امام حسینؓ اور یزیدی افواج کے مابین ہوا۔ یزیدی لشکر نے آپؓ اور آپؓ کے عزیز و اقارب کو نہایت بے دردی سے شہید کیا۔ حضرت امام حسینؓ نے افضل جہاد کی ایک مثال قائم کی۔ ظالم، جابر اور بے عمل بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہا اور دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے میدانِ عمل میں اُترے۔ دنیا کو بتایا کہ دینِ اسلام دینِ حق ہے اور کسی طور طوائف الملوکی، بادشاہت، آمریت اور اس سے مماثل کسی طریقہ کا داعی نہیں۔ کیونکہ یہ تمام اسلام کی روح کے قطعاًخلاف ہیں اوراس طرح آپؓ نے یہ واضح پیغام دیا کہ مومن ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے سامنے سرِ تسلیم خم نہیں کر سکتا۔

 یزید لعین فطرتاً بے دین، سرکش، متکبر، عیاش اور زانی تھا۔ حضرت امام عالی مقامؓ جہاں مظہرِ ذاتِ رحمن تھے وہیں یزید لعین مظہرِشیطان تھا۔ حضرت امام عالی مقامؓ اُمتِ محمدیہ کے لیے رحمت تھے تو یزید لعین اسی اُمت کے لیے زحمت تھا۔ آپ کی ذاتِ اقدس فقرِمحمدیؐ کو تاقیامت حیاتِ دوام بخشنے والی تھی تو یزید لعین کو فقر کے نام سے بھی واقفیت نہیں تھی۔

آپؓ نے یزیدی امارت، سلطنت اور طریقہ حکومت کا انکار کرتے ہوئے کسی طور یزیدی حکومت کی اطاعت قبول نہ کی، اسکی بیعت کو ٹھکرا دیا اور اعلان کر دیا کہ:

مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

آپؓ نے دینِ حق کی خاطر جان کی قربانی پیش کرنے میں ذرا سی بھی لچک نہ دکھائی۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ امام حسینؓ نے خود ہی اپنے قافلہ کے لوگوں کو اجازت مرحمت فرما دی تھی کہ جسے واپس جانا ہو وہ جا سکتا ہے مگر آپ کے رفقا نے آپؓ سے وفاداری کا ثبوت دیا، آپؓ کو اپنا مرشد کامل اکمل مانتے ہوئے آپؓ کا بھر پور وفاداری سے ساتھ نبھایا۔ حضرت امام حسینؓ نے یزیدی لشکر کے سپہ سالار اور اس کی فوج کے سامنے حجت کے طور پر ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
اے لوگو! رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم و بربریت کرتا ہے، اللہ کی حدود کو توڑتا ہے، سنتِ مصطفویؐ کی مخالفت کرتا ہے، سر کشی سے حکومت چلاتا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے باوجود بھی اس ظالم کی مخالفت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے روکتا ٹوکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں۔ دیکھو! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں، رحمان سے برسر پیکار ہیں، حدودِ الٰہی معطل ہیں، حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا جارہا ہے، میں ان کی اس سرکشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لیے سب سے زیادہ حق دار بھی ہوں۔ اگر تم میری بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لیے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے (یعنی بیعت کو باطل کرنا یا توڑنا عظیم گناہ ہے)۔ میں حسینؓ ابنِ علیؓ ہوں، ابنِ فاطمہؓ ہوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نواسہ ہوں مجھے اپنا قائد بنالو، مجھ سے منہ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم ہے۔

اس حقیقت پر مبنی خطبہ کا لوگوں پر بہت اثر ہوا مگر دنیاوی لالچ اور یزید کے خوف کی وجہ سے خاموش رہے۔

9محرم الحرام کی رات تھی۔ آپؓ رات بھر عبادتِ الٰہی میں مشغول رہے۔ دسویں محرم الحرام کا سورج طلوع ہوا۔ یزیدی افواج کی صف آرائی جاری تھی۔ بعد نمازِ فجر عمرو بن سعد اپنی فوج لیکر نکلا ۔اُدھر امام حسینؓ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔ آپؓ کے ساتھ 72 نفوسِ قدسیہ جن میں بچے، بوڑھے اور خواتین شامل تھیں، کا قلیل لشکر تھا۔ دوسری جانب یزیدی فوج کا لشکرِجرار تمام سامانِ حرب سے لیس تھا جس کی تعداد بائیس ہزار تھی۔ آپؓ اور آپؓ کے رفقا نے جس جوانمردی سے اس لشکر کا مقابلہ کیا اس کی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ حضرت امام حسینؓ کے دلیر سپاہی جس جانب رُخ کرتے یزیدی فوج بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگ کھڑی ہوتی۔ معاملہ بہت طول پکڑ گیا اور سنگین ہو گیا، حضرت امام حسین کے رفقا اپنے امام پر جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے۔ بھوکے پیاسے نواسۂ رسولؐ میدانِ کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر آخر تک جمے رہے اور پائے استقامت میں ذرا لغزش نہ آئی۔ یزیدی دور سے تیر برساتے رہے پھر ایک مرحلہ آیا کہ جب بدبخت شمر آپؓ کے قریب آیا توآپؓ نے پہچان لیا کہ یہی بدبخت سفید داغ والا ہے جس کے بارے میں سرورِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی ’’میں (محمدؐ) اپنے اہلِ بیتؓ کے خون سے اس(بدبخت) کے منہ کو رنگا دیکھتا ہوں‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی وہ پیش گوئی سچ ثابت ہوئی۔

 بدبختی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے شمر لعین کامقدر بن گئی۔ حضرت امام حسینؓ نواسۂ رسول، جگرگوشہ بتول تیروں سے نڈھال سجدہ میں گر گئے اور شمر لعین کی تلوار نے حضرت امام حسینؓ کے سر مبارک کو گردن سے جدا کر دیا۔ 

سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے

مولانا محمد علی جوہر نے کہا:

قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

حضرت امام حسینؓ نے کربلا میں اہلِ باطل کی شر انگیزی اور فتنہ پروری کو برملا ظاہر کیا اور ان کے چہرے سے منافقت اور فسق و فجور کا نقاب ہٹا کر نہ صرف دین کو حیاتِ نو بخشی بلکہ انسانیت کو وہ عزت و و قار عطا کیا جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔ حضرت اما م حسینؓ طالبِ ِمولیٰ تھے۔ اللہ کی رضا پر سرِ تسلیم خم کرنے والے، وصالِ یار اور دیدارِ الٰہی کے مشتاق۔ قصہ مختصر جان کی بازی لگانے والے طالب ہی طالبِ مولیٰ کہلاتے ہیں، عشق و وفا نبھانے والے طالبِ مولیٰ ہی ہوتے ہیں، محبوب کی رضا پر راضی رہنے والے طالبِ مولیٰ ہی ہوتے ہیں، عہدِوفا کا پاس رکھنے والے طالبِ مولیٰ ہی ہوتے ہیں۔ حضرت امام حسینؓ کی زندگی طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو واقعہ کربلا سے عشق و وفا کا سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 

استفادہ کتب:
۱۔سیدّاالشہداحضرت امام حسینؓ اور یزیدیت: تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔شانِ کر بلا:  مرتب محمد الیاس عادل
۳۔سانحہ کربلا:  خورشید احمد گیلانی

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Hazrat Ali ra k Dor-e-Khilafat | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات | Urdu / Hindi Podcast

 
 

21 تبصرے “کربلا حق اور باطل کا معرکہ Karbala Haq Aur Batil Ka Marka

  1. سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
    تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے

  2. حضرت امام حسینؓ کی زندگی طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو واقعہ کربلا سے عشق و وفا کا سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  3. مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
    سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

  4. قتلِ حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
    اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

  5. مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
    سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

  6. مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
    سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

  7. حضرت امام حسینؓ کی زندگی طالبانِ مولیٰ کے لیے مشعلِ راہ ہے

  8. حضرت امام عالی مقامؓ مظہرِ ذاتِ رحمن تھے❤️

  9. اللہ پاک ہم سب کو واقعہ کربلا سے عشق و وفا کا سبق سیکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  10. سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
    تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے

  11. مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
    سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

  12. سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
    تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے

  13. حضرت امام عالی مقامؓ اُمتِ محمدیہ کے لیے رحمت تھے

  14. اے لوگو! رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی بھی ایسے حاکم کو دیکھے کہ ظلم و بربریت کرتا ہے، اللہ کی حدود کو توڑتا ہے، سنتِ مصطفویؐ کی مخالفت کرتا ہے، سر کشی سے حکومت چلاتا ہے اور وہ اسے دیکھنے کے باوجود بھی اس ظالم کی مخالفت نہیں کرتا اور نہ ہی اسے روکتا ٹوکتا ہے تو ایسے آدمی کا اچھا ٹھکانہ نہیں۔ دیکھو! یہ لوگ شیطان کے پیرو کار ہیں، رحمان سے برسر پیکار ہیں، حدودِ الٰہی معطل ہیں، حلال کو حرام اور حرام کو حلال ٹھہرایا جارہا ہے، میں ان کی اس سرکشی کو حق اور عدل سے بدل دینا چاہتا ہوں اور اس کے لیے سب سے زیادہ حق دار بھی ہوں۔ اگر تم میری بیعت پر قائم رہو تو تمہارے لیے ہدایت ہے ورنہ عہد شکنی عظیم گناہ ہے (یعنی بیعت کو باطل کرنا یا توڑنا عظیم گناہ ہے)۔ میں حسینؓ ابنِ علیؓ ہوں، ابنِ فاطمہؓ ہوں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نواسہ ہوں مجھے اپنا قائد بنالو، مجھ سے منہ نہ موڑو، میرا راستہ نہ چھوڑو، یہ صراطِ مستقیم ہے۔

  15. سجدے تو سب نے کئے تیرا نیا انداز ہے
    تو نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے

  16. مردِ حق باطل سے ہرگز خوف کھا سکتا نہیں
    سر کٹا سکتا ہے لیکن سر جھکا سکتا نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں