اے جانِ عزیز!اس راہ میں سب کچھ پیرِ کامل ہے جس کے بغیر اس راہ میں قدم رکھنا گمراہی اور حسرت کا موجب ہے۔جب پیرِ کامل مریدِ صادق کا ہاتھ پکڑے تو پھر مرید اپنے پیرِ کامل کی خدمت خلوص کے ساتھ کرے۔ پیرِ کامل خود مرید میں اپنے تصرف سے اوہام کو جاری کردیتا ہے اور اس کے دِل میں صدق داخل کر دیتا ہے جس کے واسطہ سے طالبِ مولیٰ دائمی وھم کا اسیر ہو جاتا ہے اور پیرِ کامل اس کو ہمتِ مؤثرہ سے تمام مقامات طے کروا دیتا ہے۔’’اَصْبَحُوْا مَعَ اللّٰہِ وَاِنِ اسْتَطِیْعُوْا فَاصْبَحُوْا مَعَ اللّٰہِ مَنْ صَحَبَ اللّٰہِ ‘‘(ترجمہ: تم اللہ تعالیٰ کی صحبت اختیار کرو اور اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتے تو اللہ کے مصاحب (انسانِ کامل) کی صحبت اختیار کرو)۔جب مرشد کامل کی صحبت حاصل ہوتی ہے تو ابتدا میں مرشد کامل مرید کے دِل میں اپنے تصّرفِ اوہام سے ذکرِ خفی(ذکرِ سلطان الاذکار و تصورِ اسمِ اللہ ذات) جاری کرتا ہے اور مرید بغیر کسی تکلیف اور ریاضت کے ذاکر بن جاتا ہے جس کا ہر دم(سانس) اللہ کی یاد کے ساتھ نکلتا ہے کیونکہ ’’اَلْاَنْفَاسُ مَعْدُوْدَۃٍ کُلُّ نَفْسٍ یَخْرُجُ بِغَیْرِ ذِکْرِ اللّٰہِ فَھُوَ مَیِّتٌ ‘‘ (ترجمہ:سانس گنتی کے ہیں اورجو سانس ذکرِ اللہ کے بغیر خارج ہو وہ مردہ ہے )۔جب مرید کو اس بات کا پتہ چلتا ہے تو مرید کا دِل حق کے ساتھ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتا ہے۔ ’’اَلنَّاسُ یَنَامُوْا فَاِذَا مَاتُوْا فَانْتَبِھُوْا ‘‘ (ترجمہ: تمام انسان غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں پس بوقتِ موت بیدار ہوتے ہیں)۔ خوابِ غفلت دِل سے دور ہو جاتی ہے اور دِل زندہ ہو جاتا ہے۔اَوَ مَنْ کَانَ مَیْتًا فَاَحْیَیْنٰہُ (سورۃ الانعام۔ آیت122 ) (ترجمہ: بھلا ایک شخص جو کہ مردہ تھا پھر ہم نے اُسے زندہ کر دیا) اس بات کی تحقیق کرو اور نعمت جانو کہ ’’اَلشَّیْخُ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ اَیْ یُحْیِ الْقَلْبَ اَلْمَیِّتَ الْمُرِیْدُ بِذِکْرِاللّٰہِ ‘‘ (ترجمہ: شیخ ہی زندہ کرنے والا اور شیخ ہی مارنے والا ہے، شیخ مرید کے مردہ دِل کو اللہ کے ذکر سے زندہ کرتا ہے)۔ شیخ مرید کو معرفت عطا کرتا ہے، اس کے نفس کو موت دیتا ہے اور اسے شیخ اپنے مقام پر مقرر کر دیتا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم کے مطابق اَفْضَلُ الذِّکْرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اس کے دِل پر نقش ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر (مرشد کامل، پیرِ کامل) اپنے تصرف کے ساتھ مرید کے دِل میں پاس انفاس(ذکرِ سلطانُ الاذکار) کو جاری کر دیتا ہے، یعنی ذاکر کو وھم حاصل ہو جاتا ہے اور اس کا ہر خارج اور داخل ہونے والا سانس حق تعالیٰ کی یاد میں ہی مشغول ہوتا ہے اور اس کا کوئی سانس حق تعالیٰ کی یاد کے بغیر نہیں نکلتا ۔ اس طرح اس کا دِل زندہ ہوتا ہے۔ پس جب دم باہر آتا ہے تو ذکر لَآ اِلٰہَ سے باہر آتا ہے اور جمیع خواطر کو لَآ اِلٰہَ (نفی)کے جھاڑوسے دِل صاف کر دیتا ہے اور تمام اغیار اور گندگی کو باہر نکال دیتا ہے۔ یا پھر جب سانس اندر لے کر جاتا ہے تو اللہ کی یاد سے معمور ہوتا ہے جس کا باعث یہ قول ہے کہ مَنْ اَحَبَّ شَیْءًا اَکْثَرَ ذِکْرُہٗ (ترجمہ: جو جس شے سے محبت کرتا ہے اتنی ہی کثرت سے اس کا ذکر کرتا ہے )۔ ذکرِ خدا کی بنیاد مرید کے دِل میں اس حکم سے رکھی جاتی ہے کہ اَنَا جَلِیْسٌ مَنْ ذَکَرَنِیْ (ترجمہ: جوکوئی میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔) اس طرح وہ حق تعالیٰ کا ہم نشین ہوتا ہے اور حق تعالیٰ کا محب ہو جاتا ہے۔ مَنْ اَنَسَ بِاللّٰہِ مُتَوَحِّشُ عَنْ غِیْرُ اللّٰہ (ترجمہ: جو اللہ سے محبت کرتا ہے وہ غیر اللہ سے وحشت کرتا ہے)۔اس کے مطابق وہ ہر غیر سے منقطع ہوجاتا ہے۔ (اقتباس از سلطان الوھم۔ تصنیفِ لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُوؒ ۔مترجم حافظ حماد الرحمن سروری قادری)
مزید پڑھیں
Load/Hide Comments