فقر
تحریر:مریم گلزار سروری قادری(لاہور)
جب ہمیں کہیں جانا ہوتا ہے یا کسی منزل تک پہنچنا ہوتا ہے، کسی سے ملنا ہوتا ہے تو اس کے لیے ہم راستہ اور رہبر منتخب کرتے ہیں کہ کون سا راستہ ہمارے لیے آسان رہے گا؟ اور جلدی سے اس مقام تک کون پہنچا دے گا؟ اسی طرح اللہ تک جانے کا بھی ایک راستہ ہے جس پرثابت قدمی سے چل کر اللہ تک پہنچا جا سکتا ہے وہ راستہ ’’فقر‘‘ ہے۔ راہِ فقر راہِ مولیٰ ہے اور اس پر چلنے کے لئے مرشد کامل اکمل کی رہنمائی بہت ضروری ہے کیونکہ مرشد کامل اکمل اس راستے میں حائل ہونے والی تمام رکاوٹوں کو دور فرما کر طالبِ مولیٰ کو اللہ تک پہنچاتا ہے بالکل اسی طرح جیسا کہ کوئی کہیں جگہ جائے اور اسے وہاں کے راستوں کا علم نہ ہو تو پھر اسے ایک راہنما کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ اسے ہر خطرے سے آگاہ کر سکے۔
جب ہم مصروف ہوتے ہیں تو ہم اپنی منزل تک جلدی پہنچنے کے لئے آسان راستہ اختیار کرتے ہیں اسی طرح اللہ تک جلدی پہنچانے والا راستہ صرف فقر ہی ہے جس کو خلوصِ دل سے اختیار کر کے اللہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ فقر کے متعلق سن کر یہ سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں کہ فقر کیا ہے؟ اس کا صحیح مطلب کیا ہے؟ اس کو کس طرح اختیار کیا جاسکتا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔ فقراللہ پاک کا وہ خزانہ ہے جس پر سرورِ کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فخر فرمایا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقَرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
مرشد کامل اکمل جامع نورالہدیٰ، فقیرِ کامل سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن سروری قادری مدظلہ الاقدس فرماتے ہیں:
’’ عرفِ عام میں فقر افلاس، تنگدستی اور عسرت کی حالت کو کہتے ہیں، اس کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں لیکن عارفین کے نزدیک فقر سے مراد منزلِ حیات ہے۔‘‘ (شمس الفقرا)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ’’ اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ‘‘ (فقر میرا فخر ہے) کے مطابق فقر کی پہلی اور جامع ترین تعریف کرتے ہوئے سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں:
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمان ’’ فقر میرا فخر ہے اور میرے لیے باعثِ افتخار ہے‘‘، سے مراد وہ فقر (غربت وا فلاس) نہیں جو عوام میں مشہور ہے بلکہ یہاں فقرِ حقیقی سے مراد ہے ’’اللہ کے سوا کسی اور کا محتاج نہ ہونا او راس ذاتِ کریم کے علاوہ تمام لذات و نعم کا بجان و دل ترک کردینا۔‘‘ جب انسان اس مرتبہ پر فائز ہوجاتا ہے تو یہی مقام فنا فی اللہ ہے کہ اس ذات وحدہٗ لا شریک کے سوا انسان کے وجود میں کسی اور کا تصور تک باقی نہ رہے اور اس کے دل میں ذاتِ خداوندی کے سوا کسی اور کا بسیرا نہ ہو۔‘‘
فقر اختیار کیے بغیر اللہ کو جاننا، پہچاننا ناممکن ہے۔ فقر اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان اس مضبوط رشتے کا نام ہے جو بندے کو مولیٰ سے جدا نہیں ہونے دیتا۔ یہی مضبوط رشتہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ’’میں‘‘اور ’’تو‘‘ کے فرق کو مٹا دیتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ فقر وصالِ الٰہی کی انتہا ہے، تو بجا ہوگا۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم فقر کے متعلق مزید فرماتے ہیں:
* اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقَرُ مِنِّیْ فَافْتَخِرُّ بِہٖ عَلٰی سَاءِرِ الْاَنْبِےَآءِ وَالْمُرْسَلِےْنَ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیا اور مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔ ( عین الفقر)
* اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کَنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے ۔
* اَلْفَقْرُ لَآ ےُحْتَاجُ اِلَّا اِلَی اللّٰہِ
ترجمہ: فقر اللہ کے سوا کسی کا محتاج نہیں۔
* ’’مومن کا دنیا میں تحفہ فقر ہے۔‘‘ (مکاشقتہ القلوب)
فقر کی وجہ سے ہی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اہمیت اور مرتبہ سب سے بلند ہے۔ حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* تمام پیغمبروں نے فقر کے مرتبے کی التجا کی لیکن نہیں ملا صرف سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو حاصل ہو اجو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی اُمت کے سپرد کیایہ فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم محض فیض ہے۔ (امیر الکونین)
صوفیا کرام رحمتہ اللہ علیہم ہمیشہ فقر کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین فرماتے ہیں اور عارفین اپنی تعلیمات کو ’’فقر ‘‘ کا نام دیتے ہیں۔
سیّدنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ رسالۃ الغوثیہ میں فرماتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا’’ اے غوث الاعظمؓ! اپنے اصحاب اور احباب سے کہہ دو کہ اگر وہ میری صحبت چاہتے ہیں تو فقر اختیار کریں۔‘‘
آپ رضی اللہ عنہٗ فقر کے متعلق مزید فرماتے ہیں:
* میری زینت فقر ہے۔
* اللہ کی رضا اور خوشنودی فقر ہے۔
* حقیقی فقر سے مراد اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کا محتاج نہ ہونا اور اس ذاتِ کریم کے علاوہ تمام چیزوں کو ترک کردینا ہے۔ (سرِّالااسرار۔ فصل نمبر 12 )
* فقروتصوف جدوجہد کا نام ہے اس میں کسی بیہودہ چیز کی آمیزش نہ کر اللہ ہمیں اور تمہیں اس کی توفیق عطا کرے۔ (فتوح الغیب، مقابلہ نمبر76 )
* اے اللہ کے بندے! تُو فقر اور صبروسلامتی کے ساتھ کسی چیز کو برابر نہ لیا کر تو اپنے فقر میں اللہ تعالیٰ کے قرب سے غنی بن، فقیر بن، فقیر بن کے بے نیاز ہو جا۔ ( ملفوظاتِ غوثیہ)
* تصوف کی انتہا فقر کی ابتدا ہے اور فقر پاکیزگی کی انتہا پر پہنچ کر اللہ تعالیٰ کو پالینا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
* جان لے کہ طلبِ فقر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طلب ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طلب ہے، اولیا اللہ کی طلب ہے۔ ( محک الفقر کلاں)
نظر فقرش گنج قدمش گنج بر
فقر لایحتاج شُد صاحبِ نظر
ترجمہ: فقر کی نظر بھی خزانہ ہوتی ہے اور اس کے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے لیکن فقر اس کے باوجود لا یحتاج رہتا ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
فقر کی ابتدا اور انتہا بیان کرتے ہوئے سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ترجمہ: ابتدائے فقر اشک ہے اور انتہائے فقر عشق ہے، ابتدائے فقر تصور ہے اور انتہائے فقر تصرف ہے۔ (عین الفقر)
راہ فقر فیض است فیض عام
راہ دنیا شرک است مطلق تمام
ترکِ دنیا دہ بیا راہِ خدا
فقر راہِ ہدایت ہادی مصطفیؐ
ترجمہ:راہِ فقر فیضِ ربانی ہے بلکہ فیضِ عام ہے جبکہ راہِ دنیا مطلق شرک ہے۔ راہِ دنیا کو تر ک کر کے راہِ فقر اختیار کر لے کہ راہِ فقر ہدایت ہے جس کے ہادی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
فقر سورج کی طرح ہے۔ جس طرح سورج کی روشنی پودوں کو طاقت اور غذا مہیا کرتی ہے اور زمین کے اس حصے کو روشن کرتی ہے جو سورج کے قریب ہوتا ہے ۔اسی طرح فقر کے بغیر دین و شریعت روشن نہیں ہیں۔ اس بارے میں حضرت سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
* گر آفتاب گم شود عالم خراب
فقر فیض و فضل بخش آفتاب
ترجمہ: آفتاب اگر چُھپ جائے تو سارے عالم میں خرابی آجاتی ہے اور فقر وہ آفتاب ہے جو فیض و فضل بانٹتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
* فقرمیں ہر دن حشر ہوتا ہے ۔(کلید التوحید کلاں)
* فقر کیا ہے؟ فقر کسے کہتے ہیں؟ اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے ؟ فقر نورِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ تمام عالم کا ظہور نورِ فقر سے ہوا ہے، فقر ہدایت ہے، فقر نورِ حق کی ایک صورت ہے جو اس درجہ خوبصورت ہے کہ دونوں عالم اس کے شیدا اور اس پر فریفتہ ہیں مگر فقر کسی پر توجہ نہیں کرتا مگر حکمِ الٰہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے۔ ( توفیق الہدایت )
* آپ ؒ فقر کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
واضح رہے کہ فقر دو قسم کا ہے ایک اختیاری دوسرا اضطراری۔ فقرِ اختیاری اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ (فقر میر ا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے)ہے اس کے دو مراتب ہیں ایک خزانہ دل کا تصرف اور غنایت اور تمام دنیاوی خزانوں کا تصرف۔ دوسرا ہدایت، معرفت اور قربِ الٰہی۔ فقرِ اضطراری والا در بدر بھیک مانگتا پھرتا ہے (اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی بجائے لوگوں سے مال اکٹھا کرتا ہے) اور عنایتِ حق سے محروم رہتا ہے فقرِ اضطراری ہی فقر مُکب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے۔نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فَقْرِ الْمُکِبّ۔ (ترجمہ: میں منہ کے بل گرانے والے فقر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں) فقرِ اختیاری اسمِ d ذات اور قربِ حضور پر مبنی ہے۔(امیر الکونین)
آپ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
علموں باجھ فقر کماوے، کافر مرے دیوانہ ھُو
سَے وَرہیاں دی کرے عبادت، دِل جاہل بت خانہ ھُو
غفلت کنوں نہ کُھلیس پردے، دل جاہل بت خانہ ھُو
میں قربان تنہاں توں باھُوؒ ، جنہاں ملیا یار یگانہ ھُو
حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے اس بیت کے پہلے مصرعہ میں تلقین و ارشاد کی مسند کے فرائض کو بیان کیا ہے۔ آج کل یہ رواج اور دستور بن گیا ہے کہ ہر کوئی تلقین و ارشاد کی مسند پر بیٹھ کر ذکر اور تصور اسمِ d ذات عطا کرنا شروع کر دیتا ہے۔ راہِ فقر میں یہ دستور ہے کہ جب مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ کا اس عالمِ ناسوت سے رخصت کا وقت قریب آتا ہے تو وہ اپنے تمام طالبانِ مولیٰ میں سے سچے اور اعلیٰ طالب کو باطن میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کرتا ہے آپ چونکہ خزانۂ فقر کے مختارِ کُل ہیں آپ طالب (دل کا محرم) کو علمِ لدنیّ عطا فرماتے ہیں اور مرشدِ کامل اکمل نور الہدیٰ کو اجازت عطا فرماتے ہیں کہ اب وہ طالب کی تربیت تلقین و ارشاد کی مسند پر بیٹھنے کے لیے کرے۔ اب مرشد باطن میں اس طالب کی تربیت کا آغاز کرتا ہے جب طالب کی تربیت مکمل ہوجاتی ہے تو مرشد اس عالمِ ناسوت سے چلا جاتا ہے اور اپنی مسندِ تلقین و ارشاد طالب کے حوالے کر دیتا ہے تب لوگوں کو تعلیم و تلقین کرنا اور ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات عطا کرنا اس طالب پر فرض ہو جاتا ہے۔ جو اس طریقہ کار کے علاوہ خود بخود یہ کام شروع کر دیتا ہے وہ آخر کار دیوانہ، مرتد اور کافر ہو کر مرتا ہے اور اس کا انجام بڑا بھیانک ہوتا ہے۔ ہمارے اردگرد ایسی بہت سی مثالیں بکھری پڑی ہیں اور پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص خواہ سینکڑوں سال عبادت کرتا رہے لیکن یہ عبادت و ریاضت اس کے دل کے حجابات دور نہیں کر سکتی کیونکہ اس نے اپنی خواہشات کو اپنا الٰہ بنا رکھا ہے (راہِ فقر تو ماسویٰ اللہ ہر خواہش ترک کردینے کا نام ہے) اور اس نے تو لوگوں سے دولت و مال اکٹھا کرنے کے لئے راہِ فقر اختیار کر رکھا ہے اور مسندِ تلقین و ارشاد سجا رکھی ہے آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں ایسے طالبا نِ مولیٰ کے قربان جاؤں جن کو وصالِ الٰہی نصیب ہو گیا ہے اور وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔
دوسری شرح اس بیت کی یہ ہے جو شخص علم کے بغیر راہِ فقر پر سفر جاری رکھتا ہے وہ کافر اور دیوانہ ہو جاتا ہے اگر کوئی مرشد کے بغیر سو سال تک بھی عبادت کرتا رہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں ہو گی، تمام عبادات کے باوجود اس کے دل سے حجابات دور نہیں ہوں گے او ر وہ جاہل کاجاہل ہی رہے گا۔ آخری مصرعہ میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں ایسے طالبانِ مولیٰ کے قربان جاؤں جن کو وصالِ الٰہی نصیب ہوگیا ہے اور وہ اپنی منزل تک پہنچ گئے ہیں۔
فقر کے متعلق دیگر اولیا کرام کے اقوال
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فقر کے متعلق بیان فرماتے ہیں :
* فقر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حقیقی ورثہ ہے اور آپ کا حقیقت میں وہی وارث ہے جو اس وراثت کا وارث ہے۔
* فقر راہِ عشق ہے۔
* فقر دراصل اللہ تعالیٰ کے دیدار اور مجلسِ محمدی صلی الہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا علم ہے۔
* فقر اللہ کا سِرّ (راز) ہے جس نے اس کو فاش کر لیا وہ رازِ پنہاں سے باخبر ہوگیا اور اس راز کا محرم ہوگیا۔
* فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے سب سے اعلیٰ خزانہ ہے۔ اور یہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تقسیم فرماتے ہیں۔
* فقر کی منزل پر دنیاوی مال و دولت ‘ منصب و تکریم‘ شان و شوکت‘ آرام و آسائش ‘ خواہشاتِ دنیا و عقبیٰ اور عزت و جان اللہ تعالیٰ کے عشق میں ختم ہوجاتے ہیں اور بندہ اللہ کی محبت میں دونوں جہانوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
* راہِ فقر میں تمام منازل و مقامات مرشد کامل اکمل کی نگاہ ‘ باطنی توجہ‘ ذکر ‘ تصور اور مشقِ مرقوم وجودیہ اسمِ اللہ ذات سے طے ہوتے ہیں اس کے علاوہ فقر کی انتہا تک پہنچنے کا کوئی اور راستہ نہیں ہے۔ (شمس الفقرا)
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر کے متعلق فرماتے ہیں:
* فقر صبر ہے۔
* فقر قربانی ہے۔
* فقر رضائے الٰہی پر سرِ تسلیم خم کرنا ہے۔
* راہِ فقر اپنے آپ کو مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کے سپرد کرنے اور ہر حالت و حاجت میں اسی پر بھروسہ کرنے کی راہ ہے۔
* حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ذات پاک اوران کا چہرہ مبارک ہی فقر ہے۔
* فقر وہ راہ ہے جواللہ سے ملا دیتی ہے۔
* فقر میں نسب کا کوئی کام نہیں۔
* اللہ پاک اگر بے حجاب ہے تو فقر میں ہے۔
* راہِ فقر میں مومن کی نیت اعلیٰ سے اعلیٰ تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
* فقر رازوں کا سفر ہے اس کا سالک انتہا پر خود صاحبِ فقر ہو جاتا ہے۔
* فقر ہر ذرّۂ کائنات کا عشقِ الٰہی میں فنا ہو کر اس ذات کے دیدار اور قُرب کا طالب بننا ہے۔ (شمس الفقرا)
* شیخ ابراہیم الخواص رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا ’’فقر شرف اور بزرگی کی چادر ہے، انبیا کرام کا لباس اور نیکیوں کے اوڑھنے کی چادر ہے۔‘‘ ( عوارف المعارف)
* حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ فقر کے متعلق فرماتے ہیں ’’فقر دل (باطن ) کو توہمات ( غیر اللہ) سے خالی رکھنے کا نام ہے۔‘‘ ( معالی الہمم)
* حضرت خواجہ نظام الدین اولیاؒ فقر کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’ فقر دنیا و آخرت سے فنا کی چابی ہے۔‘‘
* حضرت ابو علی دقاق رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں’’ فقر اللہ تعالیٰ کا سِرّ (راز، بھید) ہے اور اللہ تعالیٰ اپنا سِرّ اس شخص کو عطا نہیں کرتا جو اس راز کو جہاں چاہے بیان کرتا پھرے۔‘‘ اور مزید فرمایا ’’ فقر اشرف ترین خصلت ہے۔‘‘ ( رسالہ قشیریہ)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ اصل دین فقر کو ہی قرار دیتے ہیں آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نزدیک حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اصل میراث ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی شاعری کے ذریعے لوگوں کو غفلت سے بیدار فرمایا اور فقر کی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچایا ۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
جب مسلمانوں نے فقر کی دولت گنوادی تو ان کا زوال شروع ہوگیا۔
کیا گیا ہے غلامی میں مبتلا تجھ کو
کہ تجھ سے ہو نہ سکی فقر کی نگہبانی
یہ فقر مردِ مسلماں نے کھو دیا جب سے
رہی نہ دولت سلمانیؓ و سلیمانیؑ
پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر جہانبانی حاصل کرنی ہے تو پہلے فقر کی دولت حاصل کرنا پڑے گی۔
ہمت ہو اگر تو ڈھونڈ وہ ’’فقر‘‘
جس ’’فقر‘‘ کی اصل ہے حجازی
اُس فقر سے آدمی میں پیدا
اللہ کی شان بے نیازی
*****
یہ ’’فقرِ غیور‘‘ جس نے پایا
بے تیغ و سناں ہے مردِ غازی
مومن کی اسی میں ہے امیری
اللہ سے مانگ یہ فقیری
مومن فقر کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہٗ اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی صفات کا حامل نہیں ہوجاتا۔
سوچا بھی ہے اے مردِ مسلمان کبھی تو نے
کیا چیز ہے فولاد کی شمشیر جگر دار
اس بیت کا مصرع اوّل ہے کہ جس میں
پوشیدہ چلے آتے ہیں توحید کے اسرار
ہے فکر مجھے مصرع ثانی کی زیادہ
اللہ کرے عطا تجھ کو ’’فقر کی تلوار
قبضے میں یہ تلوار بھی آجائے تو مومن
یا خالدؓ جانباز ہے یا حیدرِ کرارؓ
فقر کے بغیر مومن میں شجاعت ، ہمت ، عشقِ الٰہی ، صبر وشکر ، تسلیم و رضا کی صفات کا پیدا ہونا ناممکن ہے۔ شجاعت کا وصف فقر کے اعلیٰ اوصاف میں سے ایک ہے۔ وارثِ فقر صفاتِ الٰہیہ کا کامل مظہر ہوتا ہے اوراللہ کی صفاتِ قہرو جبر اس کی ذات میں شجاعت کی صورت ظاہر ہوتی ہیں قوتِ بازوئے حیدر اسی وصف کی بدولت ہے۔
فقر علمِ الٰہی کی صورت کانام ہے ۔ جس پر علم معرفتِ الٰہی کی تکمیل ہوجائے وہی ذاتِ الٰہی کا دنیا میں مظہر اور فقر کا وارث ہے۔ چنانچہ فقر کے اوّلین وارث حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے علم کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’ میں علم کا شہر اور علی کرم اللہ وجہہ اس شہرِ علم کا دروازہ ہیں۔‘‘
صبر اور تسلیم و رضا فقر کا امتیاز ہے۔ زندگی کی آزمائشوں اور اذیتوں میں جس صبر کا مظاہرہ وارثینِ فقر ہستیوں نے کیا وہ کائنات میں کسی اور ہستی سے ظاہر نہ ہوسکا ۔ اللہ تعالیٰ بھی ان ہستیوں کو ایک طرف تو فقر کے انتہائی اعلیٰ مقامات پر فائز کر دیتا ہے اور دوسری طرف ایسے حالات پیدا کر دیتا ہے کہ ان کے کمالِ صبر کی اچھی طرح آزمائش ہو سکے ۔ یوں یہ ہستیاں اپنے صبرکی بدولت نہ صرف اپنی آزمائشوں سے گزر کر مزید اعلیٰ مقامات پر فائز ہوتی ہیں بلکہ فقر کے آئندہ وارثین کے لیے بھی مثال بن جاتی ہیں اور انہیں بھی اپنی آزمائشوں میں ان ہستیوں سے صبر کی قوت حاصل ہوتی ہے۔ فقر اور دنیا کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے ۔ فقر تو اس دنیا سے نکل جانے اور اپنے ربّ تک پہنچنے کا نام ہے۔ دنیا سے نکلے بغیر آج تک کوئی اللہ تک نہیں پہنچ پایا۔ سورۃ الاحزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ترجمہ: اللہ نے کسی انسان کے سینے میں دو دل نہیں بنائے‘‘ یعنی انسان کے سینے میں ایک ہی دل ہے اس دل میں یا تو اللہ کی محبت رہ سکتی ہے یا دنیا کی یااس کے مال اور رشتوں کی۔ اگر کوئی اللہ کی محبت کا اور رشتوں کی محبت کا بھی دل میں دعویٰ کرتا ہے تو وہ پکا جھوٹا اور مکار ہے۔ فقر میں ترکِ دنیا سے مراد رہبانیت ہرگز نہیں کیونکہ یہ سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے خلاف ہے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان دنیا میں رہے، اپنے تمام رشتوں اور تعلقات کو احسن طریقے سے نبھائے لیکن اس کے دل میں اللہ کی محبت کے سوا کسی شے کی محبت اور خواہش موجود نہ ہو۔ وہ دنیا کے تمام امور بھی صرف اللہ کی رضا کے لیے سر انجام دے۔
حاصل تحریر کہ فقر ہی انسان کی روحانی معراج کی راہ اور اللہ تعالیٰ سے قرب اور وصال کا ذریعہ ہے۔ صرف ظاہری شریعت اور تصوف اختیار کر کے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنا ناممکن ہے۔ مگر افسوس آج کل کے دور میں وہ لوگ بھی فقر کے اعلیٰ مقام کا دعویٰ کر بیٹھتے ہیں جنہیں فقر تو دور کی بات شریعت کا بھی صحیح علم نہیں ہوتا۔
* فقر ایک فیضِ تربیت ہے یہ ایک پاکیزہ جذبہ ہے اور یہ کسی فرقہ، جماعت یا خاندان کی میراث نہیں۔
ان لوگوں کو چاہیئے فقر کا دعویٰ کرنے سے پہلے ایک بار حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اولیا کرام کی زندگیوں کا مطالعہ تو کر کے دیکھیں انہوں نے کس طرح اپنی زندگیاں گزاریں، انہوں نے کیا خدمات سر انجام دیں۔
آفتابِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس فقر کی ذات موجودہ دور میں فقر کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس فقر محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حامل اور سلسلہ سروری قادری کے موجودہ شیخِ کامل ہیں جنہوں نے فقر کو اپنی تصانیف، کردار اور تعلیماتِ فقر کے فروغ کے لیے کی جانے والی کاوشوں سے ظاہر کر کے دکھایا ۔ آپ سب کو بھی دعوت ہے کہ فقر جو راہِ حق ہے، پر چل کر اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کریں اور اس راستہ (فقر) کے موجودہ شیخِ کامل کو اپنا رہبر بنا کر فقر کی منازل طے کرتے ہوئے قربِ حق اور وصالِ حق کی طرف خود کو گامزن کر کے اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کریں۔
اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں فقرِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور منہ کے بل گرانے والے فقر (فقرِ اضطراری ) سے پناہ میں رکھے۔ (آمین)