مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi


4.8/5 - (151 votes)

مجلسِ محمدیؐ (Majlis e Mohammadi)

حصہ دوم (Part-2)

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

 

مجلسِ محمدیؐ کے مقامات

کیا مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کسی خاص مقام پرمنعقد ہوتی ہے؟ وہ کونسے مقامات ہیں جہاں مجلسِ محمدیؐ منعقد ہوتی ہے اور انسان اس مجلس میں کس طرح پہنچ سکتا ہے؟ 

جس طرح عالمِ ناسوت یعنی عالم ِظاہر ہے اسی طرح ایک عالمِ باطن ہے جو عام انسان کی نگاہ سے اوجھل ہے۔ ظاہری آنکھ سے اس عالم کو نہیں دیکھا جا سکتا اور نہ ہی ایک عام انسان کی رسائی اس عالم میں ہو سکتی ہے۔ مجلسِ محمدیؐ عالمِ ظاہرمیں بھی منعقد ہوتی ہے اور عالمِ باطن میں بھی۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے روحانی و جسمانی وجود کے ساتھ کہیں بھی کسی بھی مقام پر کسی بھی وقت میں حاضر ہو سکتے ہیں اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کہیں بھی منعقد ہو سکتی ہے۔ 

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مرشد کامل اکمل عارف باللہ کے متعلق فرماتے ہیں:
عارف کامل قادری بہر مقام حاضر و بہر قدرتے قادر۔ (رسالہ روحی شریف)

یعنی کامل قادری عارف ہر مقام پر حاضر اور ہر قدرت پر قادر ہوتا ہے۔ اگر ایک عارف باللہ مرشد کامل ہر مقام پر حاضر ہو سکتا ہے تو کیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جو کہ محبوبِ ربّ العالمین ہیں وہ ہر جگہ حاضر نہیں ہو سکتے؟ بلکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ظاہری وصال کے بعد بشری حدود و قیود سے پاک ہونے کی بنا پر مجلسِ محمدیؐ ہمہ وقت جاری رہتی ہے۔ مجلسِ محمدیؐ کون سے مقامات پر منعقد ہوتی ہے اس کے متعلق سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خاص نو مقامات پر ہوتی ہے جو ہر مرتبہ اور ہر مقام کے لحاظ سے ایک مکمل اور جامع مجلس ہوتی ہے۔ اوّل مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ازل پر ہوتی ہے، دوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ ابد پر ہوتی ہے، سوم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ میں حرمِ روضہ مبارک میں ہوتی ہے، چہارم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حرمِ کعبہ میں خانہ کعبہ کے اندر یا جبلِ عرفات پر ہوتی ہے جہاں حج کی دعائیں قبول ہوتی ہیں، پنجم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالائے عرش ہوتی ہے، ششم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ قابَ قوسین پر ہوتی ہے، ہفتم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ بہشت میں ہوتی ہے کہ اس مقام پر جو کچھ بھی کھایا پیا جاتا ہے اس سے تمام عمر بھوک اور پیاس نہیں لگتی نہ ہی نیند آتی ہے، ہشتم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مقامِ حوضِ کوثرپر ہوتی ہے جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے دستِ اقدس سے شرابِ طہور پلاتے ہیں جس کے پینے سے وجود پاک ہو جاتا ہے اور ترک و توکل کی صفات پیدا ہو جاتی ہیں اور مقامِ تجرید و تفرید سے گزر کر طالب مقامِ توحید تک پہنچ جاتا ہے اور حق کی رفاقت کی توفیق حاصل ہوتی ہے۔ نہم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس مقام پر ہوتی ہے جہاں طالب دیدار سے مشرف ہونے کے بعد انوارِ ربوبیت میں غرق ہوتا ہے۔ جو خود سے فنا ہو جائے وہ معرفت و فقر کی انتہا بقا باللہ پر پہنچ جاتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

مجلسِ محمدی سات مقامات پر میسر ہوتی ہے: اوّل مقامِ ازل، دوم مقامِ ابد، سوم مقامِ دنیا۔ نیز دنیا میں یہ چار مقامات پر میسر ہوتی ہے ایک مجلس مقامِ حرمِ مدینہ میں روضۂ رسول ؐ پر، دوسری حرمِ کعبہ میں، باقی دو آسمانوں سے اوپر عرشِ اکبر پر اور دوسری دریائے ژرف  پر ہوتی ہے۔ دریائے ژرف توحیدِمطلق کا وہ دریا ہے جس کی ہر موج معرفتِ الٰہی کے نور کی بدولت بے مثل ہے۔ ایک مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم لامکان میں قائم ہوتی ہے جس کی مثل کوئی چیز نہیں اور نہ ہی اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ ان تمام مذکورہ مقامات پر ذکرِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ  جاری رہتا ہے۔ یہ صاحبِ تصور طالب جس مجلس میں بھی حاضر ہونا چاہتاہے مراقبہ اور اللہ کے ذکر سے باطن میں اس مجلس کی حضوری میں پہنچ جاتاہے۔ (اس دوران) ظاہر میں ایسے لگتا ہے کہ وہ ایک بے جان مردہ ہے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہونے کا یہ طریقہ عام اور مبتدی طالب کا ہے۔ جب ظاہر اور باطن ایک ہو جاتے ہیں تو طالب انتہائی درجہ کا کامل عارف باللہ بن جاتا ہے۔ (شمس العارفین)

جس طرح دنیاوی مراتب کے اعتبار سے سب انسان ایک جیسے مرتبہ کے حامل نہیں ہوتے اسی طرح ہر طالبِ مولیٰ کا مقام و مرتبہ بھی ایک جیسا نہیں ہوتا۔ہر طالبِ مولیٰ اپنے منصب و مرتبہ کے اعتبار سے مجلسِ محمدیؐ کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے۔ علم چار ہیں: علم ِشریعت، علمِ طریقت، علمِ حقیقت اور علمِ معرفت۔ راہِ فقر اختیار کرنے پر ابتدا میں طالب عالمِ ناسوت کی قید میں ہوتا ہے جہاں علمِ ِشریعت لاگو ہوتا ہے، تزکیہ نفس کے بعد درجہ بدرجہ روحانی ترقی کرتے ہوئے طالبِ مولیٰ عالمِ ناسوت سے عالمِ ملکوت، پھر عالمِ ِجبروت اور بالآخر عالمِ لاھوت تک پہنچ جاتا ہے۔ عالمِ ناسوت اور عالمِ ملکوت کے درمیان طریقت کا طریق لاگو ہوتا ہے، عالمِ ملکوت اور عالمِ جبروت کے درمیان حقیقت کا طریق لاگو ہوتا ہے، عالمِ ِجبروت اور عالمِ لاھوت کے درمیان معرفت کا طریق لاگو ہوتا ہے۔ جو طالب جس بھی مرتبہ پر فائز ہو یا جس بھی عالم میں پہنچا ہو اسے اپنے سے اگلے درجہ کے طالب کے مقام و مرتبہ کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ 

چونکہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بھی مختلف مقامات پر منعقد ہوتی ہے اس لیے ہر طالب اپنے مرتبہ کے اعتبار سے اس مجلس کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے اور اس کے درجہ کے مطابق ہی اسرارِ الٰہی سے بہرہ ور ہو سکتا ہے۔ جب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج پر تشریف لے گئے تو واپسی پر آپؐ کی مجلس میں مختلف لوگوں نے آپؐ سے سوال کیے کہ آپؐ نے اللہ تعالیٰ کو کس صورت میں دیکھا۔ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں ہر طرح کے لوگ تشریف لاتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ہر ایک کو اس کے مرتبہ کے مطابق مختلف جواب دیا۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اس کے متعلق فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام معراج سے مشرف ہو کر واپس تشریف لائے تو سب سے پہلے عاشقوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟ فرمایا ہاں۔
مَنْ رَانِیْ فَقَدْ رَایَ الْحَقَّ 
ترجمہ:جس نے مجھے دیکھا پس تحقیق اس نے حق دیکھا۔

بعد ازاں علما نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا آپ نے اللہ تعالیٰ کو دیکھا؟ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَ مَا یَنْطِقُ عَنِ الْھَوٰی۔ (سورۃ النجم۔3)
ترجمہ: اور وہ (اپنی) خواہش سے کلام نہیں کرتے۔

اس لیے علما کے سوال کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
تَفَکَّرُوْا فِیْ نِعْمَآئِہٖ وَ لَا تَفَکَّرُوْا فِیْ ذَاتِہٖ 
ترجمہ: اس کی نعمتوں میں تفکر کرو، اس کی ذات میں تفکر نہ کرو۔ (محبت الاسرار)

یعنی جو عالمِ ناسوت میں قید ظاہری علمِ شریعت کے علما تھے یا وہ جن کی ذہنی استعداد ہی نہ تھی کہ وہ باطن کے اسرار کو سمجھ پاتے۔ ان کے لیے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا جواب کچھ اور تھا کیونکہ وہ اس راز کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے جو راز عاشقوں کے قلوب پر عیاں تھا۔ عالمِ ناسوت میں قید طالب کو عالمِ معرفت کے اسرار کی کیا خبر! حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

جو شخص حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اختیار کر کے مقامِ شریعت میں حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں داخل ہوتاہے اسے مقامِ طریقت میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہونے کے احوال کی کیا خبر ؟ جو کوئی مقامِ طریقت میں حضوری سے مشرف ہو کر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں داخل ہوتا ہے اُسے مقامِ حقیقت میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کی کیا خبر؟جو مقامِ حقیقت پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو اُسے مقامِ معرفت کے حقائق و احوال کی کیا خبر؟ جو مقامِ معرفت پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو اُسے مقامِ عشق کی حضوری کی کیا خبر؟ جسے مقامِ عشق میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہو اُسے مقامِ محبت کی حضوریات کی حقیقت کی کیا خبر؟ جو اللہ کے مدِنظر رہتا ہے دونوں جہان اُس کے مدِنظر رہتے ہیں۔ جسے مقامِ محبت کی حضوری حاصل ہوتی ہے وہ فنا فی اللہ کی حضوری کی حقیقت کو کیا جانے؟ پس ہر کسی کو درجہ بدرجہ (اپنے مرتبہ کے لحاظ سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں) عزت و مقام حاصل ہے مگر فقیر فنا فی اللہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے تمام مراتب کو اور ان مراتب کی حضوری رکھنے والوں کو جانتا پہچانتا ہے۔ (عین الفقر)

مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کے لیے مرشد کا کردار

کیا راہِ حق کے سالک اور طالبانِ مولیٰ کثرتِ مطالعہ سے یا کثرت کے ساتھ زہد و ریاضت اور ورد وظائف کرنے سے یا عباداتِ ظاہری سے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو سکتے ہیں؟

بذریعہ علم طالب کبھی بھی کسی بھی روحانی مقام و مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتے نہ ہی ان مراتب کا حقیقی ادراک کر سکتے ہیں بلکہ مرشد کامل اکمل کی صحبت کے بغیر زیادہ علم پڑھنے سے طالب گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ان کے اندر کثرتِ علم پر تکبر پیدا ہو جاتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْعِلْمُ حِجَابُ الْاَکْبَر 
ترجمہ: علم حجابِ اکبر ہے۔

راہِ سلوک کا سفر تو نفس کے حجاب کو ختم کرنے سے طے ہوتا ہے جبکہ کثرتِ مطالعہ سے نفس کا حجاب مزید موٹا ہو جاتا ہے۔ طالب بجائے اللہ کے قریب ہونے کے اس سے مزید دور ہو جاتا ہے۔ البتہ مرشد کی صحبت میں نفس کے تزکیہ کے ساتھ ساتھ صادق طالبانِ مولیٰ کے قلب پر علمِ حضوری یا علمِ لدنیّ منکشف کیا جاتا ہے جس کی بدولت وہ نہ صرف اسرارِ الٰہی سے بہرہ ور ہوتے ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا قرب و وصال بھی پاتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ فقہ و مسائل اور عربی کا علم سیکھنے اور ظاہری ریاضت و طاعت سے نفس کافی موٹا ہو جاتا ہے اور مخلوق میں شہرت اور نام و ناموس پا کر بہت خوش ہوتا ہے جس کے باعث اس میں انانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خود کو مخلوق کی نظر میں مزید نیک اور آراستہ ظاہر کرتاہے جبکہ تصوف، توحید، معرفتِ الٰہی اور وحدانیت کا علم پڑھنے سے نفس شرمندہ ہوتا ہے، ذکرِخفی کی بدولت گویا وہ اپنا گوشت خود کھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف کے باعث اس قدر آہ و زاری کرتا ہے کہ ہڈیوں سے مغز نکل آتا ہے۔ ایسی پوشیدہ اور بے ریا ریاضت کے ذریعے وہ ہمیشہ خونِ جگر پیتا ہے جس کے باعث نفس کمزور ہو کر خواہشاتِ نفس سے پاک ہو جاتا ہے اور نیست و نابود ہو کر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ یہ علمِ تصوف ہے جسے سیکھنا فرضِ عین اور انبیا کی سنت ہے، اسی کی بدولت انسان مراتبِ اولیا پر پہنچتا اور مجلسِ محمدیؐ میں داخل ہوتا ہے۔ اگر کوئی فقیہ اور عالم جنہوں نے تمام علوم حاصل کیے ہوں اور وہ ان علوم کو تمام عمر پڑھتے رہیں تو بھی دل سے سیاہی، زنگار، کدورت، حبِ دنیا اور خطرات دور نہیں ہوتے جب تک کہ قلب کو صاف کرنے والا علمِ تصوف نہ پڑھا جائے۔ (کلید التوحید کلاں)

ظاہری عبادات اور ورد وظائف کے ذریعے بھی طالب کبھی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف نہیں ہو سکتا خواہ دن رات عبادات کرتا رہے یا تسبیحات پڑھتا رہے سوائے مرشد کامل اکمل کی صحبت، تربیت اور نگاہِ کامل کے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل، توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھوُ

جہاں تک زہد و ریاضت کی بات ہے تو مرشد کامل اکمل کی ظاہری و باطنی نگرانی کے بغیر زہد و ریاضت کرنا انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:

مرشد باجھوں فقر کماوے، وچ کفر دے بڈے ھوُ

طالبِ مولیٰ ظاہری ورد وظائف اور اعمالِ ظاہر سے ہرگز باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچ سکتا اگرچہ تمام عمر ریاضت کی خاطر پتھر سے سر ٹکراتا رہے کیونکہ راہِ باطن صاحبِ باطن مرشد کامل سے حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعے طالب ایک لمحہ میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ سکتا ہے اور واصل بھی ہو سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

بہت سے لوگ جو کثرت کے ساتھ عبادت کرتے ہیں اور خاص طور پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کے لیے وظائف کرتے ہیں وہ اکثر خواب میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے مشرف ہو بھی جاتے ہیں لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ مبارک پر بہت زیادہ نور ہونے کی وجہ سے چہرۂ مبارک کی زیارت نہیں کر پاتے محض آواز مبارک سن پاتے ہیں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچنا توبہت دور کی بات ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ انور کی زیارت اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے لیے تزکیۂ نفس کے مرحلہ سے گزرنا بہت زیادہ ضروری ہے۔ جس قدر نفس کا میل دور ہوگا، آئینہ قلب جتنا زیادہ روشن ہوگا اتنی ہی جلدی نہ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواب میں زیارت ہوگی بلکہ ظاہری طور پر مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا شرف بھی حاصل ہوگا۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا۔‘‘ (مسلم5920)

 تزکیہ نفس کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت اور تربیت بہت زیادہ ضروری ہے۔ صرف مرشد کامل اکمل جامع نور الہدیٰ فقیر کامل جو خود بھی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے وہی اس مجلس میں پہنچانے کے لیے طالب کی تربیت کر سکتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ مرد مرشد وہ ہے جو بغیر ذکر و فکر اور بنا ریاضت و مشقت تصور اسمِ اللہ ذات کے ذریعے مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں لے جائے۔ اس میں شک نہ کر کیونکہ جو شک کرتا ہے کافر ہو جاتا ہے۔۔۔ جو مرشد خود صاحبِ حضور ہواس کے لیے اپنے طالبوں کو بھی حضوری میں پہنچانا کیا مشکل اور بعید ہے! (محبت الاسرار)

معرفتِ الٰہی، وصال اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال تک مرشد کامل کے بغیر پہنچنا محال ہے کیونکہ وہ پلک جھپکنے میں یہاں تک پہنچا سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں) 

جو ایک ہی بار میں نفسِ امارہ سے تعلق ختم نہیں کرتا وہ ہرگز قلبِ سلیم اور رضائے حق کو تسلیم کرنے کے مراتب حاصل نہیں کر سکتا اور نہ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے مشرف ہو سکتا ہے۔ مرشد کامل روزِ اوّل طالب کو یہ سبق دیتا ہے کہ نفس اور اس کی خواہشات کو ختم کرو تاکہ انبیا و اولیا کی مجلس میں ہر ایک سے ملاقات کر سکو۔ (کلید التوحید کلاں)

جس طرح استاد کے بغیر شاگرد علم ِقرآن کا محرم اور واقف نہیں ہو سکتا اسی طرح مرشد ہادی و باطنی رہبر کے بغیر طالب معرفتِ الٰہی حاصل نہیں کر سکتا نہ ہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

جو لوگ مرشد کامل اکمل کی صحبت سے مستفید نہیں ہوتے یا مرشد کامل اکمل کی ضرورت اور اہمیت کا انکار کرتے ہیں وہ کبھی بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں آپؐ کے دیدار اور صحبت سے مستفید نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی ان کا تزکیہ ہو سکتا ہے اور نہ ہی ان کے قلوب عشقِ حقیقی کے نور سے منور ہو سکتے ہیں۔ اس دنیا میں وہ بصیرت سے محروم رہتے ہیں۔ ان کے قلوب اللہ کی معرفت سے ناآشنا اور اس کی ذات سے غافل ہوتے ہیں۔ جبکہ جو طالب مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کی طلب لیے اور عشقِ مصطفیؐ سے سرشار مرشد کامل اکمل کے دامن سے وابستہ ہو جاتے ہیں وہی مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہوتے ہیں کیونکہ مرشد کامل اکمل پہلے ہی روز طالب کو مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کر سکتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرشد کامل وہ ہے جو معرفتِ  اِلَّا اللّٰہُ  اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کوئی دوسرا سلک سلوک نہیں جانتا اور طالب صادق وہ ہے جو مرشد سے معرفتِ  اِلَّا اللّٰہُ   اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرتا۔ (کلید التوحید کلاں)

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔ کلید التوحید کلاں۔ تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ
۲۔ عین الفقر۔ ایضاً
۳۔ شمس العارفین۔ ایضاً
۴۔ محبت الاسرار۔ ایضاً


19 تبصرے “مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi

  1. اللہ پاک ہمیں مرشد کریم سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے وسیلہ سے مجلس محمدیﷺ عطا فرماۓ آمین

  2. مرشد کامل وہ ہے جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کوئی دوسرا سلک سلوک نہیں جانتا اور طالب صادق وہ ہے جو مرشد سے معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرتا۔ (کلید التوحید کلاں)

  3. سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس قدمِ محمدﷺ پر ہیں جو اپنی نگاہ کاملہ سے زنگ آلود قلوب کو نور الہٰی سے منور فرماتے ہیں ❤❤🌷

  4. مرشد کامل وہ ہے جو معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کوئی دوسرا سلک سلوک نہیں جانتا اور طالب صادق وہ ہے جو مرشد سے معرفتِ اِلَّا اللّٰہُ اور مجلس ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کے علاوہ کچھ طلب نہیں کرتا۔ (کلید التوحید کلاں)

  5. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا۔‘‘ (مسلم5920)

  6. جو شخص حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری اختیار کر کے مقامِ شریعت میں حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں داخل ہوتاہے

  7. راہِ باطن صاحبِ باطن مرشد کامل سے حاصل ہوتی ہے

  8. باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل، توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھوُ

  9. بذریعہ علم طالب کبھی بھی کسی بھی روحانی مقام و مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتے نہ ہی ان مراتب کا حقیقی ادراک کر سکتے ہیں بلکہ مرشد کامل اکمل کی صحبت کے بغیر زیادہ علم پڑھنے سے طالب گمراہ ہو جاتے ہیں۔

  10. باجھوں مرشد کجھ نہ حاصل، توڑے راتیں جاگ پڑھیوے ھوُ

  11. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:’’جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں بھی دیکھے گا۔‘‘ (مسلم5920)

  12. جو لوگ مرشد کامل اکمل کی صحبت سے مستفید نہیں ہوتے یا مرشد کامل اکمل کی ضرورت اور اہمیت کا انکار کرتے ہیں وہ کبھی بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس میں آپؐ کے دیدار اور صحبت سے مستفید نہیں ہو سکتے۔

  13. معرفتِ الٰہی، وصال اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جمال تک مرشد کامل کے بغیر پہنچنا محال ہے کیونکہ وہ پلک جھپکنے میں یہاں تک پہنچا سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

  14. طالبِ مولیٰ ظاہری ورد وظائف اور اعمالِ ظاہر سے ہرگز باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تک نہیں پہنچ سکتا اگرچہ تمام عمر ریاضت کی خاطر پتھر سے سر ٹکراتا رہے کیونکہ راہِ باطن صاحبِ باطن مرشد کامل سے حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعے طالب ایک لمحہ میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچ سکتا ہے اور واصل بھی ہو سکتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

اپنا تبصرہ بھیجیں