مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi


4.8/5 - (174 votes)

مجلس ِمحمدیؐ (Majlis e Mohammadi)

حصہ اوّل                                                                                                      تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

انسان کی فلاح کا راز ہدایت میں مضمر ہے۔اگر وہ اس دنیا میں ہدایت نہیں پاسکے گا یا صراطِ مستقیم اختیار نہ کرے گا تو اس دنیا سے ناکام واپس لوٹے گا اور بروز قیامت اللہ کے حضور اپنی اس ناکامی کا کوئی جواز بھی پیش نہ کر سکے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اگر انسان کو اس دنیا میں بھیجا ہے تو اسے بے آسرا اور بے یار و مددگار نہیں چھوڑا کہ دنیا میں بھٹکتا رہے یا اس کی رنگینیوں میں گم ہو کر اللہ کی ذات سے غافل ہو جائے یا شیطان کی راہ پر چل پڑے بلکہ ہدایت کے لیے انبیا کرام علیہم السلام کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیا کرام بھیجے جو اس کرۂ ارض میں مختلف مقامات پر مختلف قوموں اور گروہوں کی طرف مبعوث کیے گئے جنہوں نے اپنی امت کے ہر فرد پر اپنی حجت تمام کی اور پیغامِ حق سنایا۔ 

جب ایک نبی وصال پا جاتا تو اُس کی جگہ اُسی اُمت میں سے نیا نبی مبعوث کر دیا جاتا تاکہ اتمامِ حجت ہو سکے۔ زمانہ اور اس میں موجود اُمتیں کبھی بھی نبی کے قرب اور اس کی دعوت و تبلیغ کی نعمت سے محروم نہ رہتیں۔ تمام انبیا و مرسلین نے اپنی اپنی قوم کو توحیدِالٰہی کی طرف بلایا، اللہ کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کرنے کی ترغیب دی، صراطِ مستقیم کی طرف راہنمائی فرمائی اور ازلی دشمن شیطان کی راہ اختیار کرنے سے روکا۔ جن خوش نصیب لوگوں نے ان کی دعوت پر لبیک کہا اور اللہ کے قرب و وصال کے طالب ہوئے، انبیا نے ان متلاشیانِ حق کے نفوس کا تزکیہ کیا، انہیں راہِ حق کے نشیب و فراز سے گزار کر حضورِ حق میں پہنچایا اور فلاح کے راستے پر گامزن کیا۔ اس سے ثابت ہوا کہ اللہ کی معرفت اور قرب کے لیے ایک استاد اور رہنما کی ہمہ وقت ضرورت ہوتی ہے جو لمحہ بہ لمحہ راہِ حق میں درپیش رکاوٹوں اور نفس و شیطان کی چالوں سے باخبر کرتا رہے۔ 

حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام خاتم النبیین ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ گرامی پر سلسلۂ نبوت ختم ہو گیا۔ اب قیامت تک آنے والی تمام اُمتوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ اور وسیلہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک ہے۔ آپؐ ہادی ہیں اور آپؐ ہی طالبانِ مولیٰ کا تزکیۂ نفس فرماتے اور انہیں قرب و وصالِ الٰہی کی منازل طے کرواتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مبارکہ کو اللہ تعالیٰ نے مومنین کے لیے احسان قرار دیا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
لَقَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْھِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیْھِمْ وَ یُعَلِّمُھُمُ الْکِتٰبَ وَ الْحِکْمَۃَ  (سورۃ آلِ عمران۔164)
ترجمہ: بیشک اللہ نے مومنین پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیات تلاوت کرتا ہے، ان (کے نفس) کا تزکیہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ 

قرآنِ کریم قیامت تک آنے والے ہر انسان کے لیے موجبِ ِہدایت ہے۔ اس کا ہر فرمان دائمی و ابدی ہے۔ اب اگر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپؐ تزکیہ کرتے ہیں اور کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں تو اس سے بلاشبہ واضح ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام موجود ہیں تبھی تو تزکیۂ نفس فرماتے ہیں اور طالبانِ مولیٰ کی لمحہ بہ لمحہ راہنمائی فرماتے ہوئے اپنی نگرانی میں راہِ سلوک طے کرواتے ہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہادی ہیں اور آپؐ ہی کے وسیلہ سے ہدایت پائی جا سکتی ہے۔ 

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جاننا چاہیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی ہدایت کے لیے پیدا فرمایا۔ شیطان ملعون کی کیا مجال کہ اپنا نام ہادی رکھے۔ (کلید التوحید کلاں)

زیارتِ رسولؐ

عاشقانِ رسول حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب رہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے رُخِ تاباں کے جلووں سے وہ اپنے قلب و باطن کو منور کرنے کے لیے بیقرار ہوتے ہیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ خواب میں ہی سہی لیکن حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی لمحہ بھر کے لیے زیارت ہو جائے۔ بیشمار لوگ مختلف قسم کے وظائف بھی کرتے ہیں، درود شریف کثرت سے پڑھتے ہیں تاکہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت سے فیضیاب ہو سکیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جن لوگوں کو اپنی زیارت سے بہرہ ور فرما دیں وہ ہمیشہ اپنی خوش بختی پر نازاں رہتے ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جان لو کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امت کے ہر خاص و عام پر اپنے لطف و کرم اور مہربانی کی بدولت دونوں جہان میں معرفتِ الٰہی کے سمندر کے خزانے اور فیض بخشنے والے ہیں۔ ان شفیع الامم کی زیارت اچھے وقت اور کامل ایمان کی علامت ہے۔ (کلید التوحید کلاں)

البتہ جب ان خوش نصیب افراد سے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے چہرۂ مبارک کے نقوش کے متعلق پوچھا جائے تو کچھ بھی بتانے سے قاصر رہتے ہیں۔ ان کا کہنایہی ہوتا ہے کہ وہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے موجود تھے۔ چہرۂ مبارک پر اس قدر نور تھا کہ کچھ بھی دکھائی نہ دیتا تھا۔محض حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی موجودگی کا احساس تھا۔ 

اس کے برعکس کچھ ایسے بھی خوش نصیب مرد و خواتین ہوتے ہیں جنہیں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ وہ جب چاہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں حاضر ہو جاتے ہیں۔ یہ کون لوگ ہیں، کس بنا پر انہیں مجلسِ محمدیؐ کی حضوری حاصل ہوئی، مجلسِ محمدیؐ میں پہنچانے کے لیے کس نے ان کی مدد کی، وہاں انہوں نے کیا دیکھا اور ان کے ساتھ کیا معاملات پیش آئے؟ ان تمام سوالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔

حیات النبیؐ

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری طالبانِ مولیٰ کو نصیب ہوتی ہے۔ طالبانِ مولیٰ جب تک حیات النبیؐ پر مکمل یقین نہیں رکھتے وہ کبھی بھی اللہ کی معرفت اور قرب نہیں پا سکتے۔ وہ خوش نصیب مرد و خواتین جن کا مقصدِحیات اللہ کی معرفت اور اس کا قرب و وصال پانا ہے، جنہیں نہ دنیا سے کچھ لگاؤ ہوتا ہے اور نہ ہی عقبیٰ کی تمنا، ان کی سوچ کا ہر رُخ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب سرورِ کائنات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جانب مبذول رہتا ہے۔ ان ازلی طالبانِ مولیٰ کو یہ خیال اور سوچ فطری طور پر ودیعت ہوتی ہے کہ کاش وہ بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانہ میں پیدا ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے صحابہؓ میں ان کا شمار ہوتا، آپؐ کے چہرۂ مبارک کی زیارت سے فیض یاب ہوتے، آپؐ کی خدمت میں کمربستہ رہتے، شب و روز آپؐ کی صحبت سے مستفید ہوتے، آپؐ کی نگاہِ کامل سے اپنے نفس کا تزکیہ کرواتے، اللہ کی معرفت اور قرب و وِصال سے بہرہ ور ہوتے۔ جب اس دنیا سے واپس لوٹتے تو فلاح یافتہ اور کامیاب ہو کر، اللہ کی بارگاہ میں پیش ہوتے تو سرخرو ہو کر۔ ان کا یہی نظریہ دل میں طلبِ مولیٰ کی چنگاری کو ہوا دیتا ہے، عشقِ حقیقی کی آتش کو بھڑکاتا ہے اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا پیش خیمہ بنتا ہے۔ 

مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم وہ بارگاہ ہے جہاں طالبانِ مولیٰ کی باطنی تربیت کی جاتی ہے، انہیں راہِ سلوک کی منازل طے کروائی جاتی ہیں، نفوس کا تزکیہ کیا جاتا ہے، منصب و مراتب سے نوازا جاتا ہے اور علومِ لدنیّ سے سرفراز کیا جاتا ہے، جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بارگاہ میں تمام انبیا، اصحابِ کبارؓ اور فقرا کاملین کی ارواح موجود ہوتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم قیامت تک کے لیے نبی ہیں اور تزکیۂ نفس کا فریضہ آپ کے علاوہ کوئی اور ادا نہیں کر سکتا۔ عاشقانِ رسولؐ وطالبانِ مولیٰ کا یہ پختہ عقیدہ ہوتا ہے کہ وہ ہستی جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات سجائی، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنا آئینہ اور اپنا مظہرِاُتم بنایا، جو کائنات کی روح اور اللہ کے حبیبؐ ہیں، ان کے وجود سے یہ کائنات کبھی بھی خالی نہیں ہو سکتی۔ معراج کی رات آپؐ کے اس کائنات سے نکلنے کی دیر تھی کہ وقت تھم گیا اور کائنات کی ہر شے ساکت ہو گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم واپس تشریف لائے تو وہیں سے وقت دوبارہ چل پڑا۔ طالبانِ مولیٰ ہمیشہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات سمجھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت کے لیے بے چین و بے قرار رہتے ہیں اور کبھی بھی آپؐ کو مردہ تصور نہیں کرتے۔ جبکہ کم فہم، احمق اور کم عقل لوگ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حیات پر سوال اٹھاتے ہیں۔ 

حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ حیات النبیؐ کے متعلق فرماتے ہیں:
پس ہر وہ شخص مومن و مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا، بے دین، منافق اور کذاب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلْکَذَّابُ لَا اُمَّتِیْ 
 ترجمہ: کذاب میرا اُمتی نہیں ہو سکتا۔ (کلید التوحید کلاں)
جو حیات النبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر یقین نہیں رکھتا معلوم ہوا کہ اس خبیث کا یقین اور دین ابلیس لے گیا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ہر وہ شخص مردہ سمجھتا ہے جس کا دل مردہ ہو اور اس کا سرمایۂ ایمان و یقین شیطان نے لوٹ لیا ہو۔ (کلید التوحید کلاں)

البتہ ایک ایسا بھی گروہ ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات تو مانتا ہے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات کو آپؐ کے روضہ مبارک تک محدود سمجھتا ہے۔ اس گروہ کے لوگ یہ عقیدہ تو رکھتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کے ہر عمل کے شاہد ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کا کہنا یہ بھی ہوتا ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام مدینہ منورہ میں اپنے روضہ مبارک میں حیات ہیں۔ مجلسِ محمدیؐ کی حضوری کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے۔ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نہ صرف باطنی طور پر منعقد ہوتی ہے بلکہ ظاہری طور پر بھی منعقد ہوتی ہے۔

ظاہری مجلسِ محمدیؐ

ظاہری مجلسِ محمدیؐ وہ ہوتی ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اور آپؐ کے تمام اصحابؓ اپنے ظاہری اجسام کے ساتھ اس عالمِ رنگ و بو میں موجود ہوتے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ اور فقرا کاملین اپنی ظاہری آنکھوں سے اس مجلس کی حضوری سے مشرف ہوتے ہیں۔ ذیل میں ظاہری مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری کا ایک واقعہ پیش کیا جا رہا ہے جو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ پیش آیا۔ واقعہ اس طرح سے ہے:
ایک دن دیدارِ الٰہی میں مستغرق حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ شورکوٹ کے نواح میں گھوم رہے تھے کہ اچانک ایک صاحبِ نور، صاحبِ حشمت اور بارعب سوار نمودار ہوا جس نے اپنائیت سے پکڑ کرآپ رحمتہ اللہ علیہ کو قریب کیا اور بڑے دلنشین انداز میں آگاہ کیا ’’میں علی ابن ابی طالب(رضی اللہ عنہٗ) ہوں۔‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے مولا علی کرم اللہ وجہہ کو دیکھا تو قریب تھا کہ خود کو آپ رضی اللہ عنہٗ پر نثار کردیتے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آپ رحمتہ اللہ علیہ پر توجہ مرکوز کی اور فرمایا ’’فرزند آج تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دربار میں طلب کیے گئے ہو۔‘‘

پھر جیسے وقت تھم گیا ہر شے ساکت ہوگئی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک لمحے میں خود کو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پایا۔ اس وقت اس بارگاہِ عالیہ میں حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ، حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ، حضرت عثمان  رضی اللہ عنہٗ اور تمام اہلِ بیت رضی اللہ عنہم حاضر تھے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھتے ہی پہلے حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہٗ نے مجلس سے ا ٹھ کر آپ رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات کی اور توجہ فرما کر رخصت ہوئے۔ بعدازاں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہٗ بھی توجہ کے بعد مجلس سے رخصت ہوگئے تو مجلس میں صرف اہلِ بیتؓ اور رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم  ہی رہ گئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میری بیعت حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے سپرد فرمائیں گے لیکن بظاہر خاموش تھے۔ مگر آنحضرت  صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنے دونوں دستِ مبارک میری طرف بڑھا کر فرمایا ’میرے ہاتھ پکڑو‘ اور مجھے دونوں ہاتھوں سے بیعت فرمایا۔‘‘

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ِ  تلقین فرمایا تو درجات اور مقامات کا کوئی حجاب نہ رہا۔ چنانچہ اوّل و آخر یکساں ہوگیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم   سے تلقین سے مشرف ہوا تو خاتونِ جنت سیدّۃ النسا حضرت فاطمتہ زہرا  رضی اللہ عنہا نے مجھے فرمایا’تو میرا فرزند ہے‘۔‘‘

آپ رحمتہ اللہ علیہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہِ عالیہ میں حاضری کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ’’جو کچھ میں نے دیکھا ان ظاہری آنکھوں سے دیکھا اور اس ظاہری بدن کے ساتھ دیکھا اور مشرف ہوا۔‘‘ (مناقبِ سلطانی)

باطنی مجلسِ محمدیؐ

باطنی مجلسِ محمدیؐ وہ ہوتی ہے جہاں طالبانِ مولیٰ جس وقت چاہیں باطن میں، مراقبہ میں یا دعوت پڑھ کر حاضر ہوتے ہیں اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صحبت اور دیدارِ پرُانوار سے مستفید ہوتے ہیں۔ ذیل میں سلسلہ سروری قادری کے موجودہ امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی مجلسِ محمدیؐ میں باطنی طور پر رسائی کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ واقعہ یوں ہے:
ایک رات نمازِ تہجد کے بعد آپ مدظلہ الاقدس درود پاک پڑھ رہے تھے کہ باطن کا دَر کھل گیا اور آپ نے خود کو باطنی طور پر مسجدِ نبوی میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں پایا۔ نورِ ازل آقا و مولا سیدّنا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام درمیان میں تشریف فرما تھے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دائیں جانب حضرت علی کرم اللہ وجہہ، حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ اور بائیں جانب حضرت ابوبکر صدیق، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہم اور چاروں سلاسل کے مشائخ کرام تشریف فرما تھے۔ اس محفل میں حاضر ہوتے ہی اور اہلِ محفل کی ہیبت و جلال کو دیکھ کر آپ گنگ رہ گئے اور قریب تھا کہ خوف سے بے جان ہوکر گر جاتے کہ مولائے کائنات حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے آگے بڑھ کر آپ مد ظلہ الاقدس کا ہاتھ اپنے دستِ مبارک میں لیا اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے پیش کرتے ہوئے آپ کے مبارک قدموں میں بٹھا دیا اور عرض کی ’’حضور! یہ نجیب الرحمٰن ہے اور آپؐ کا غلام ہے۔ یہ آپؐ کی نورِ نظر لختِ جگر (خاتونِ جنت رضی اللہ عنہا) کا نوری فرزند ہے اور اُنہوں نے اِس کو اپنا ورثہ عطا کرنے کے لیے منتخب فرمایا ہے اور اس مقصدکے لیے آپؐ کی بارگاہِ عالیہ میں بھیجا ہے۔‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس نے جب یہ سنا تو جلدی سے اپنی پیشانی اُن مبارک قدموں پر رکھ دی جن پر دونوں جہان نثار ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ہاں ہمیں سفارش پہنچ چکی ہے اور ہم نے اسے منظور بھی کر لیا ہے۔ اب یہ ہمارا بھی نوری حضوری فرزند ہے۔‘‘ (سلطان العاشقین)
عالمِ باطن کے علاوہ عالمِ خواب میں بھی طالبانِ مولیٰ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف ہو سکتے ہیں۔

(جاری ہے)

استفادہ کتب:
۱۔ شمس الفقرا تصنیف لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ سلطان العاشقین ناشر سلطان الفقر پبلیکیشنز
۳۔ کلید التوحید کلاں تصنیف لطیف سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ

 
 
 

7 تبصرے “مجلس ِمحمدیؐ Majlis e Mohammadi

  1. حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ حیات النبیؐ کے متعلق فرماتے ہیں:
    پس ہر وہ شخص مومن و مسلمان حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اُمت میں سے کیسے ہو سکتا ہے جو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حیات ہی نہیں مانتا۔ وہ جو کوئی بھی ہے جھوٹا، بے دین، منافق اور کذاب ہے۔

  2. بہترین آرٹیکل ہے اللہ پاک اسے سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے

  3. اللہ پاک ہمارے مرشد کریم کا سایہ ہم پر تا قیامت قائم رکھے۔ ( آمین )

  4. بہت اعلیٰ اور تحقیق شدہ تحریر ہے نوجوان نسل کے لیے پڑھنا بہت ضروری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں