محبت ِ رسولؐ جزوِ ایمان Mohabbat e Rasool juzv-e-imaan


4.8/5 - (88 votes)

محبتِ رسولؐ جزوِ ایمان 

 Mohabbat e Rasool Juzv-e-imaan

تحریروترتیب:  محترمہ امامہ رشید سروری قادری۔ لاہور

اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرمایا:
قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ الرَّحِیْمِ۔  (آل عمران۔ 31)
ترجمہ:(اے حبیبؐ!) آپ فرما دیں: اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو تب اللہ تمہیں (اپنا) محبوب بنا لے گا اور تمہارے لیے تمہارے گناہ معاف فرما دے گا، اور اللہ نہایت بخشنے والا مہربان ہے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
لَایُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی اَکُوْنَ اَحَبَّ اِلَیْہِ مِنْ وَالِدِہٖ وَوَلَدِہٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِیْنَ (صحیح بخاری ۔15)
ترجمہ: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے والدین، اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔

یعنی والدین، اولاد، میاں بیوی،بہن بھائی، عزیز و اقارب، دوست احباب، خونی رشتوں، خاندانوں، مناصب اور دنیا کی کسی بھی شے کی محبت جو انسان کے دل کو مرغوب اور محبوب ہوتی ہے، جس کی طلب، رغبت اور محبت کی طرف انسان کا میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے، ان سارے میلانات اور رجحانات سے بڑھ کر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کرنا ایمان ہے۔ گویا جب تک کسی مسلمان کے دل میں کائنات اور عالمِ خلق کی ساری محبتوں سے بڑھ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت نہ ہو تب تک وہ مومن نہیں ہوسکتا۔ سیدّنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہٗ نے زبانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے جب یہ فرمان سنا تو آقا علیہ السلام کی بار گاہ میں عرض کیا:
یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ لِا َنْتَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ کُلِّ شَیْئٍ اِلاَّ مِنْ نَفْسِیْ (صحیح بخاری ۔6632)
ترجمہ:’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

یعنی یقینا کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے محبوب ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ساری محبتوں کے مجموعے سے بھی بڑھ گئی ہے مگر جو محبت مجھے اپنی جان سے ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے زیادہ لگتی ہے اور اپنی جان کے ساتھ میری محبت ابھی تک آپؐ کی محبت سے زیادہ اور مضبوط ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ نے اپنی دلی کیفیت کا اظہار جس طرح کیا، ہم لوگ اس طرح کا جملہ کہنے کی ہمت نہیں رکھتے کیونکہ ہم صداقت اور سچائی کے اس مرتبے پر نہیں ہیں۔ ہم باتوں کو چھپاتے ہیں، حقیقت کوغیر حقیقت میں خلط کرتے ہیں، اندر کی کیفیات کا ادراک نہیں کرتے اور جو سچائی اندر موجود ہے اس کا ایمانداری سے اظہار نہیں کرتے۔ صحابہ کرامؓ، خلفائے راشدینؓ اور پھر ان میں سیدّنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہٗ مرتبۂ ایمان میں اتنے بلند تھے کہ ان کے احساسات میں کوئی ملاوٹ نہیں تھی، ان کے ظاہر و باطن میں کوئی تضاد نہیں تھا، جو دل میں تھا وہی ان کے اظہار میں تھا۔ یہ ان کے ایمان کا کمال تھا کہ جو چیزانہوں نے محسوس کی اس کا برملا اظہار حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بارگاہ میں کردیا۔

مذکورہ بالا حدیث کے ذریعے یہ واضح کیا جارہاہے کہ بندہ نہ صرف زبان سے محبت کا اقرار کرے بلکہ محبت کی کیفیات، لذّات،  اثرات، احساسات اور اس کی حلاوتوں کا بھی ادراک حاصل کرے۔ 

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت عمر ِ فاروق رضی اللہ عنہٗ کی بات سن کر ارشاد فرمایا:
لَا وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ حَتّٰی اَکُوْنُ احَبَّ اِلَیْکَ مِنْ نَفْسِکَ  (صحیح بخاری ۔6632)
ترجمہ: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے! جب تک میں تمہیں اپنی جان سے بھی محبوب تر نہ ہو جائوں (تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے)۔

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ اے عمرؓ! اگر آپ کو میری محبت کے مقابلے میں اپنی جان کی محبت زیادہ عزیز ہے تو ابھی آپ کا ایمان کمال کے درجے پر نہیں پہنچا۔

آقا علیہ الصلوٰۃو السلام کے یہ کلمات حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ کے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر گئے اور ان کلمات کو سنتے ہی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں عرض گزار ہوئے:
فَاِنَّہٗ اَلْاٰنَ وَاللّٰہِ لَاَنْتَ اَحَبُّ اِلَیَّ مِنْ نَفْسِیْ (صحیح بخاری۔ 6632)
ترجمہ:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! اب آپؐ کی محبت میرے اندر میری جان، میرے نفس اور میری زندگی کی محبت سے بھی بڑھ گئی ہے۔

یہ سن کر آقا علیہ السلام نے فرمایا:
اَلْاٰنَ یَا عُمَرُ (صحیح بخاری ۔6632)
ترجمہ: ’’اے عمرؐ! اب تمہارا ایمان کامل ہوا ہے۔‘‘

گویا ایمان اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے مقابلے میں مغلوب ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہر ایک محبت پر غالب آجائے۔

آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبتِ کامل ایسی دولتِ بے بہا ہے کہ جس کے خانۂ دل میں جمع ہوجاتی ہے اْسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے ،وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوراورجلووں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذّت میں کھو کردنیااور آسائشِ دنیا سے بے نیازہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا ،محبوب کی مانتا اور اْسی کی چاہت پر چلتا ہے حتیٰ کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔

محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے کچھ تقاضے ہیں جن کو مکمل کیے بغیریہ کمال کونہیں پہنچتی۔جب محبت کا یہ عالم ہوجائے کہ وہ ہر چیز سے بڑھ جائے تو یہ محبت قربانی اور ایثار کا تقاضا کرتی ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ محبوب جو کہے محب اس کو مانتا ہے اور محبوب کے لئے اپنا آرام قربان کرتا ہے۔ اپنا ذوق، اپنی چاہت اور اپنی ترجیح کو ختم کر دیتا ہے اور محبوب کے لئے مر مٹتا ہے۔ جان دینی پڑے تو جان بھی دیتا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرتا جس سے محبوب نے منع فرمایا ہے یا جس سے محبوب کے ناراض ہونے کا ڈر ہو۔ وہ محبوب کے طرزِ زندگی کو اپناتا ہے۔۔۔ محبوب کی طرح کا لباس پہنتا ہے اور محبوب کی طرح کی نشست و برخاست رکھتا ہے۔۔۔ محبوب جن سے محبت کرتا ہے، وہ بھی ان سے محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ حسنؓ و حسینؓ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ وہ اہلِ بیتؓ، صحابہؓ اور صالحین رحمہم اللہ سے محبت کرتا ہے۔۔۔ حتیٰ کہ وہ غریب اور محتاج سے بھی محبت کرتا ہے۔۔۔ انسانیت اور اللہ تعالیٰ کی پوری مخلوق سے محبت کرتا ہے۔۔۔ اس لیے کہ وہ جانتا ہے کہ میرے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اِن تمام سے محبت کرتے ہیں۔ محبوب کی محبت جدھر جدھر جاتی ہے محب کی محبت اس کے پیچھے پیچھے جاتی ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ محبوب ایک چیز کو چاہے اور محب اس کے برعکس کسی اور چیز کو چاہے۔ دونوں محبتوں کے رُخ اگر مخالف سمت ہوں اور بندہ کہے کہ میں تو بڑا عاشق ہوں تو محبت و عشق کا یہ دعویٰ محبوب کی بارگاہ میں قبول نہیں۔

حضرت انس رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ثَلاَثٌ مَنْ کُنَّ فِیْہِ وَجَدَ حَلاَوَۃَ الْاِیْمَانِ (صحیح بخاری۔ 16)
ترجمہ: تین خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی حلاوت کو پا لیا۔

یعنی تین چیزیں ایسی ہیں کہ اگر کوئی شخص انہیں ایسا حاصل کرے اور اپنے باطن میں ایسا داخل کرے کہ اس کی پوری طبیعت، مزاج اور باطن کی کیفیت ان تین چیزوں پر استوار ہو جائے تو اس شخص نے ایمان کی حلاوت اور لذّت کو پا لیا۔ 

آقا علیہ الصلوٰۃ السلام لفظ ِ حلاوت فرما کر ایک محسوس کی جانے والی شے کی تشبیہ سے ایک غیر محسوس حقیقت کو سمجھارہے ہیں۔ اس اسلوب سے اشارہ اس سمت ہے کہ جس طرح اچھے اور خوش ذائقہ کھانوں، مشروبات اور پھلوں سے لوگوں کو حلاوت و لذّت ملتی ہے اور وہ اس حلاوت، ذائقہ اور لذّت کو محسوس کرتے ہیں اسی طرح ایمان کی حلاوت اور لذّت کو بھی اپنے اندر محسوس کیا کرو۔ جب آدمی ایمان کی لذّت و حلاوت کو اپنے اندر محسوس کرنے لگ جاتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اب اس کا ایمان محض تصدیق اور اظہار کے کلمات تک نہیں رہا بلکہ ایک زندہ حقیقت بن کر اس میں رچ بس گیا ہے۔

ایمان کو حلاوت و لذّت سے آشنا کرنے والی تین چیزیں درج ذیل ہیں:

1۔اَنْ یَکُوْنَ اللّٰہ وَرَسُوْلُہٗ اَحَبَّ اَلِیْہٖ مِمَّا سِوَاھُمَا
پہلی چیز یہ ہے کہ حلاوت و لذّتِ ایمان کے حصول کے لیے ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر اسے محبوب ہو جائیں‘‘۔ یعنی کائنات کی کوئی شے اللہ تعالیٰ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابلے میں اس کی زندگی میں عملاً ترجیح نہ رکھے۔ ہر چیز پیچھے چلی جائے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت اس کے اندر کائنات کی ہر شے سے بڑھ جائے۔

جس دنیا میں ہم رہ رہے ہیں، یہاں قدم قدم پر محبتیں ہیں جن کا ذکر زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ  (سورۃ آل عمران 14)(لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت خوب آراستہ کر دی گئی ہے)کے الفاظ میں قرآنِ مجید نے کیا ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ان محبتوں سے منع نہیں کیا بلکہ فرمایا کہ یہ محبتیں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت سے بڑھنے نہ پائیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ یہ ساری محبتیں ختم کر دو۔ کیوں منع نہیں فرمایا؟ اس لیے کہ اگر ماں باپ اولاد سے محبت ختم کر دیں تو پرورش نہیں کرسکتے۔۔۔ اولاد اگر ماں باپ سے محبت ختم کر دے تو ان کی عزت اور احترام و تکریم نہیں کر سکتے۔۔۔ بھائی، بہن اگر محبت ختم کر دیں تو صلہ رحمی نہیں ہوتی۔۔۔ دوست، دوست سے محبت ختم کر دے تو حقوق ادا نہیں ہوتے۔۔۔ مخلوق سے محبت ختم ہو جائے تو کسی پر احسان اور بھلائی نہیں ہوتی۔ اس لیے اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دنیا کی محبتیں رہیں، یہ درکار ہیں مگر اِن کا پیمانہ یہ ہے کہ جہاں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت، ان کا امر و نہی اور تعلیمات آجائیں تو وہاں یہ ساری محبتیں مغلوب ہوجائیں اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کائنات کی ساری محبتوں سے اعلیٰ، ارفع، قوی اور طاقتور ہوجائے۔

2۔ وَاَنْ یُحِبَّ الْمَرْئَ  لَا یُحِبُّہُ اِلَّالِلّٰہِ
حلاوتِ ایمان کے حصول کے لیے دوسری چیز کے متعلق رہنمائی فرمائی ’’جس شخص سے بھی بندہ محبت کرے تو اللہ کے لیے کرے۔‘‘ یعنی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کا اثر اس کی شخصیت، سیرت اور طبیعت و مزاج پر ایسا ہو کہ اب اس کے نزدیک دنیا کی محبتوں کا پیمانہ بدل جائے اور اب وہ جس سے بھی محبت کرے اللہ کے لیے کرے۔ دنیاوی محبتوں کو کسی نہ کسی طریقے سے خیر کے ساتھ جوڑ دے مثلاً اپنی اولاد سے محبت کرے تو اس میں اپنی نیت خیر کی رکھے کہ میں اولاد کی اچھی پرورش اس لیے کر رہا ہوں تاکہ یہ نیک اور خوش اخلاق انسان بن جائے۔ یہ اچھے مسلمان بنیں، انسانیت کی خدمت کریں، حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اُمت کے اچھے افراد بنیں، ایسے افراد بنیں کہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اِن سے راضی ہوں۔

الغرض جس سے بھی محبت کریں یا صحبت رکھیں تو اس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت، ان کا حکم، ہدایات اور تعلیمات کا کوئی نہ کوئی پہلو ضرور شامل کرلیں۔ اس سے فائدہ یہ ہوگا کہ یہ بظاہر دنیاوی محبت بھی اللہ کے لیے محبت قرار پائے گی۔ گویا دنیا کی ساری محبتوں کی نیت اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی رضاکے حصول کا ذریعہ بن جائے۔

3۔ وَاَنْ یَکْرَہَ اَنْ یَعُوْدَ فِی الْکُفْرِ کَمَا یَکْرَہُ اَنْ یُقْدَفَ فِی النَّارِ 
حلاوتِ ایمان کے حصول کے لیے تیسری چیز کی جانب متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر حلاوت و لذّتِ ایمان کے متمنی ہو تو کفر اور معصیت سے اتنی نفرت ہوجائے کہ مسلمان ہوجانے کے بعد کفر کی طرف پلٹ جانا، نیک و صالح ہوجانے کے بعدفسق و فجور کی طرف پلٹ جانا اور نیکو کار، عبادت گزار اور اللہ کی راہ پر چلنے کے بعد گمراہی کی راہ پر پلٹ جانا تمہارے لیے اس قدر نفرت کا باعث ہوجائے جیسے کوئی شخص آگ میں پھینکے جانے سے نفرت کرتا ہے۔

جس نے یہ تین چیزیں اپنے اندر پیدا کر لیں اور اپنی طبیعت اور مزاج کو اس پر استوار کر لیا تو دراصل اس نے ایمان کی حلاوت اور لذّت چکھ لی۔

اگر ہم اپنی زندگیوں کا جائزہ لیں تو افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہماری طبیعتیں ان تین چیزوں پر استوار ہی نہیں ہیں۔ اسی وجہ سے ہم ایمان کی لذّت و حلاوت سے محروم ہیں اور جب ایمان کی لذت میسر نہیں آتی تو ہماری عبادات، سجدوں، تلاوت، روزوں، طاعات، حسنات اور خیرات میں بھی کوئی حلاوت و لذّت نہیں رہتی۔ ہمیں اللہ کی طرف یکسوئی بھی نصیب نہیں ہوتی اور نہ ہی کوئی روحانی کیفیت مقدر بنتی ہے۔ 

اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں ایمان کی یہ حلاوت پیدا ہو تو آج کے اس مادیت پرستی کے دور میں وہ ہستی موجود ہے جن کی پاکیزہ صحبت سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم محسوس ہوتا ہے۔ شجرۂ فقر پر نظر دوڑائیں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ ہر فقیر اپنے دور میں اپنے انداز میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نمونہ بنا اور اس کا ہر عمل عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا درس دیتا رہا۔چونکہ فقرا فنا فی الرسول ہوتے ہیں اس لیے یہ طالبوں کی تربیت بھی حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے طریقہ کے مطابق ہی فرماتے ہیں۔میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس موجودہ دور کے امام اور شیخِ کامل ہیں اور آپ مدظلہ الاقدس کی ساری زندگی عشقِ مصطفیؐ کی عکاس ہے۔ 

عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حصول کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت ضروری ہے کیونکہ مرشد کے بغیر نہ تو عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلوں میں اجاگر ہوتا ہے اور نہ ہی طالب دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔ تمام طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وقت کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت میں آکر اپنے دلوں کو عشقِ رسولؐ سے منور کریں تاکہ ان کو ایمان کی حلاوت بھی محسوس ہو اور ایمان کامل بھی ہو۔

استفادہ کتب:

۱۔محبتِ رسول از ڈاکٹر محمد طاہرالقادری
۲۔فلسفۂ عشق ڈاکٹر طاہر القادری

 

16 تبصرے “محبت ِ رسولؐ جزوِ ایمان Mohabbat e Rasool juzv-e-imaan

  1. عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حصول کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت ضروری ہے کیونکہ مرشد کے بغیر نہ تو عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلوں میں اجاگر ہوتا ہے اور نہ ہی طالب دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔ تمام طالبانِ مولیٰ کے لیے دعوتِ عام ہے کہ وقت کے امام سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کی صحبت میں آکر اپنے دلوں کو عشقِ رسولؐ سے منور کریں تاکہ ان کو ایمان کی حلاوت بھی محسوس ہو اور ایمان کامل بھی ہو۔

  2. مرشد کے بغیر نہ تو عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلوں میں اجاگر ہوتا ہے اور نہ ہی طالب دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔

  3. عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حصول کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت ضروری ہے کیونکہ مرشد کے بغیر نہ تو عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلوں میں اجاگر ہوتا ہے اور نہ ہی طالب دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔

  4. یقینا کائنات کی ہر شے سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجھے محبوب ہیں

  5. ایمان اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے مقابلے میں مغلوب ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہر ایک محبت پر غالب آجائے۔

  6. اللہ پاک ہمارے مرشد کریم کا سایہ ہم پر تا قیامت قائم رکھے۔ ( آمین )

  7. ایمان اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے مقابلے میں مغلوب ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہر ایک محبت پر غالب آجائے۔

  8. گویا ایمان اور دین کی تکمیل اس وقت ہوتی ہے جب ساری محبتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت کے مقابلے میں مغلوب ہوجائیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبت ہر ایک محبت پر غالب آجائے۔

  9. عشقِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حصول کے لیے مرشد کامل اکمل کی صحبت ضروری ہے کیونکہ مرشد کے بغیر نہ تو عشقِ مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم دلوں میں اجاگر ہوتا ہے اور نہ ہی طالب دیدارِ الٰہی تک پہنچتا ہے۔

  10. آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبتِ کامل ایسی دولتِ بے بہا ہے کہ جس کے خانۂ دل میں جمع ہوجاتی ہے اْسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے ،وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوراورجلووں میں گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذّت میں کھو کردنیااور آسائشِ دنیا سے بے نیازہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب کی سنتا ،محبوب کی مانتا اور اْسی کی چاہت پر چلتا ہے حتیٰ کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کردیتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں