تسلیم و رضا حضرت اسمٰعیل ؑ سے حضرت امام حسینؓ تک Tasleem-o-Raza Hazrat Ismail (a.s) say Hazrat Imam Husayn (r.a) tak


4.7/5 - (209 votes)

تسلیم و رضا  حضرت اسمٰعیلؑ سے حضرت امام حسینؓ تک

  Tasleem-o-Raza Hazrat Ismail (a.s) say Hazrat Imam Husayn (r.a) Tak

تحریر: سلطان محمد احسن علی سروری قادری

جتنے بھی انبیا اور فقرا کاملین اس دنیا میں تشریف لائے ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور ان کی ہمت اور عشق کی بنا پر انہیں بلند مقام و مرتبہ سے بھی نوازا۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہٗ نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے سوال کیا ’’یا رسولؐ اللہ! سب سے زیادہ آزمائشیں کس پر آتی ہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب دیا ’’انبیا و رسل پر، پھر جو مرتبہ میں ان کے بعد ہیں اور پھر وہ جو مرتبہ میں ان کے بعد ہیں۔‘‘ (ترمذی 2398۔مسند احمد 9344۔ السلسلۃ الصحیحہ3259)

حضرت مصعب بن سعد رضی اللہ عنہٗ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’جب بندہ صاحبِ ِایمان ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق اس کی آزمائش ہوتی ہے۔ چنانچہ جس کا دین مضبوط ہوگا اس کی آزمائش بھی سخت ہوگی اور جس کا دین کمزور ہوگا اس کی آزمائش بھی ہلکی ہوگی۔‘‘ (مستدرک 120۔ السلسلۃ الصحیحہ3270)

یعنی کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوتا جس کو آزمایا نہ جائے البتہ کمزور ایمان والوں کی آزمائش ہلکی ہوتی ہے اور اللہ کے نزدیک ان کا مقام و مرتبہ بھی کم ہوتا ہے۔ ان آزمائشوں میں سب سے کڑی آزمائش تسلیم و رضا کی ہے۔ اس مرتبہ پر بعض ثابت قدم رہتے ہیں اور بعض کے قدم متزلزل ہو جاتے ہیں۔ جو ثابت قدم رہتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ ایسا بلند مقام و مرتبہ عطا کرتا ہے جو وہم و گمان سے بھی بالاتر ہے۔ جن کے قدم لڑکھڑا جاتے ہیں اور تسلیم و رضا سے پھر جاتے ہیں وہ راہِ قرب و وِصال میں آگے نہیں بڑھ پاتے۔ راہِ حق پر ان کی منزل بس وہی مقام ہوتا ہے جہاں ان کی ہمت جواب دے دیتی ہے۔

تسلیم سے مراد ہے کہ زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آئے، خواہ تنگی ہو یا فراخی، مشکل ہو یا آسانی، دکھ ہو یا سکھ، اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے اس پر راضی رہا جائے۔

میرے مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس اپنی مایہ ناز تصنیف مبارکہ شمس الفقرا میں فرماتے ہیں:
رضا کی اصل حقیقت یہ ہے کہ سالک (طالب) اس امر پر یقینِ کامل رکھے کہ ہر چیز کی عطا یا مناہی اللہ کی مشیت اور ارادہ ہے۔ دنیاوی معاملات ہوں یا راہِ سلوک، طالبِ مولیٰ کے لیے بہتر یہی ہے کہ ہر بات میں خوف اور امید کے مابین رہے۔ اطاعت کے وقت اللہ کے سامنے فخر نہ کرے اور مصیبت کے وقت اس کے در سے مایوس نہ ہو جائے۔ ہیبت وپریشانی، دکھ اور سکھ، سکون اور اضطراب، آسانی اور تنگی، بیماری اور صحت، بھوک اور سیری الغرض ہر حالت میں اللہ پاک کی رضا پر راضی رہنا اور سرِتسلیم خم کردینا ہی اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول ومنظور ہے۔ (شمس الفقرا)

تاریخِ اسلام میں جب بھی تسلیم و رضا کا ذکر ہوتا ہے تو سب سے پہلے جو نام ذہن میں آتا ہے وہ ہے نواسۂ رسول، جگر گوشۂ بتول، امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی آنکھوں کی ٹھنڈک سیدّ الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ۔ آپؓ نے میدانِ کربلا میں جس تسلیم و رضا کا مظاہرہ کیا اگر ایک عام انسان اس کا تصور بھی کرے تو بدن کپکپا اٹھتا ہے، دل دہل جاتا ہے،روح لرز جاتی ہے اور عقل اس حیرت میں گم ہو جاتی ہے کہ اتنی عظیم قربانی کوئی کس طرح دے سکتا ہے کہ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنی آل اولاد اور عزیز و اقارب کو بے دردی سے شہید ہوتے دیکھنا اور آخر میں اپنا سر بھی قربان کر دینا۔ تسلیم و رضا کی ایسی مثال قائم کرنا کسی کے بس کی بات نہیں۔ لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی اور شہادت تو ان کی تقدیر میں ازل سے ہی لکھی جا چکی تھی۔ جسے قرآنِ مجید میں ذبحِ عظیم کے نام سے بیان کیا گیاہے۔ ہزاروں سال پہلے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی جو مؤخر کر دی گئی تھی وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت سے مکمل کی گئی۔

 واقعہ اس طرح سے ہے کہ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمر چودہ سال اور ایک روایت کے مطابق سات سال تھی،ایک روز حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے کہا ’’میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ اس میں تمہاری کیا رائے ہے۔‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا ’’ابا جان! جس کام کا آپ کو حکم دیا گیا ہے وہ فوراً کر لیں۔ اگر اللہ نے چاہا توآپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔‘‘ دونوں باپ بیٹا اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کے لیے صبح سویرے نکلے۔ اس مقام پر ابلیس نے بھی اپنی بھرپور چال چلنے کی کوشش کی۔ ایک شناسا کی صورت اختیار کر کے پہلے حضرت حاجرہ علیہا السلام کے پاس گیا اور پوچھا ’’کیا آپ جانتی ہیں کہ آپ کا شوہر اور بیٹا کدھر ہیں؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ باپ بیٹا سیر و تفریح کے لیے نکلے ہیں۔ شیطان نے کہا ’’ایسا نہیں ہے بلکہ آپ کا شوہر آپ کے بیٹے کو قتل کرنے گیا ہے۔‘‘ حضرت حاجرہ علیہا السلام نے جواب دیا ’’کبھی باپ اپنے بیٹے کو بھی قتل کرتا ہے، وہ بھی جب باپ بیٹے سے بے حد محبت کرتا ہو۔ اس لیے فضول گوئی نہ کرو۔‘‘ شیطان نے کہا کہ یقینا وہ ایسا ہی کریں گے کیونکہ ان کے ربّ نے انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضرت حاجرہ علیہا السلام نے اس بات کے جواب میں کہا کہ اگر میرے ربّ کا حکم ہے تو میں بھی اس کی رضا میں راضی ہوں۔ 

ایک ماں جو اپنے بچے کی چھوٹی سی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی اور اگر کوئی اس کے بچے کو تکلیف پہنچانے کی کوشش کرے اس کے سامنے ڈٹ جاتی ہے، شیطان نے بھی یہی گمان کیا کہ حضرت حاجرہ علیہا السلام بھی ایسی ہی ماں ہوں گی۔ لیکن جب ماں کے نرم دل کو قابو نہ کر سکا تو ناکام لوٹ کر حضرت اسماعیل علیہ السلام کے پاس پہنچا اور کہا ’’کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے والد آپ کو ذبح کرنے لے جا رہے ہیں۔ کبھی سنا ہے ایسا کہ ایک باپ نے اپنے جواں سالہ بیٹے کو ذبح کر دیا ہو۔‘‘ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے شیطان کو یہی دلیل دی کہ اللہ کی رضا کے سامنے سرِتسلیم خم ہے۔ یہاں بھی شیطان کو منہ کی کھانی پڑی۔ 

آخری کوشش کے طور پر شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ورغلانے کی کوشش کی کہ یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ بڑھاپے میں پیدا ہونے والی اولاد کو ذبح کرنے چل نکلے، بیٹا بھی اتنا حسین و جمیل جو آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ اللہ کو راضی کرنے کے اور بھی بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔ اتنے حسین و جمیل بیٹے کو ذبح کریں گے تو آپ کی نسل ہی ختم ہو جائے گی، آپ کا نام و نشان مٹ جائے گا۔ جسے آپ خواب سمجھ رہے ہیں، عین ممکن ہے کہ یہ شیطانی وسوسہ ہو۔ اگر یہ عمل منشائے ایزدی ہوتا تو اللہ تعالیٰ خواب میں ایسا کرنے کا حکم کیوں دیتا، اس نے جبرائیل علیہ السلام کو پیغام دے کر کیوں نہ بھیجا۔ الغرض شیطان جس قدر وسوسے پیدا کر سکتا تھے اس نے کیے، جو کہہ سکتا تھا اس نے کہا، جتنے حیلے استعمال کر سکتا تھے اس نے کیے، الغرض اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کے ارادہ سے باز رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی باتوں سے تنگ آکر پتھر اٹھایا اور اُسے دے مارا۔ آپؑ نے تین مرتبہ یہ عمل دہرایا۔ شیطان جان گیا کہ اس کی دال نہیں گلے گی کیونکہ آج اس کا واسطہ اللہ والوں سے پڑا ہے جو رضائے الٰہی کی خاطر سر قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، جو حکمِ الٰہی کی تعمیل میں کسی صلاح اور مشورے کو نہیں مانتے، جو بغیر نفع و نقصان کی فکر کے مشیتِ الٰہی پر سر جھکا دیتے ہیں۔

جب باپ اور بیٹا گوشہ تنہائی میں پہنچے تو اسماعیل علیہ السلام نے عرض کی ’’ابا جان! میرے ہاتھ پاؤں باندھ دیجئے، کہیں میں اپنی جان بچانے کے لیے ہاتھ پاؤں نہ ماروں اور آپ پر خون کے چھینٹے نہ پڑ جائیں۔ میرا منہ بھی زمین کی طرف کر دیجئے، کہیں ایسا نہ ہو کہ میرے چہرے پر نظر پڑے اور آپ کو ترس آجائے۔‘‘ گلے پر چھری چلانے کے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے آنکھوں پر پٹی باندھ لی کہ واقعی بیٹے کا چہرہ دیکھ کر دل میں رحم نہ آجائے۔ اللہ کا نام لیا اور چھری چلا دی۔ ابراہیم علیہ السلام تیزی سے چھری چلا رہے تھے اور چھری تھی کہ گردن کو کاٹنے سے انکاری تھی۔ بھلا حکمِ الٰہی کے سامنے چھری کی کیا مجال تھی کہ اسماعیل علیہ السلام کا گلا کاٹ سکتی۔ اگر اللہ کے حکم سے آتش ِنمرود گل و گلزار ہو سکتی ہے تو کیا اس کے حکم پر چھری گلا کاٹنے سے انکار نہیں کر سکتی تھی! اسی وقت ندا آئی:
اے ابراہیمؑ! آپ نے اپنا خواب سچ کر دکھایا۔ بیشک ہم محسنین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بیشک یہ ایک بڑی اور کھلی آزمائش تھی۔ اور ہم نے ایک بڑی قربانی کے ساتھ اسے بدل دیا۔ (سورۃ الصافات ۔ 104 تا 107)

 عام لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو دنبے کی قربانی سے بدل دیا گیا۔ بظاہر تو ایسا ہی ہوا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام ایک دنبہ لے کر حاضر ِخدمت ہوئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ اس دنبہ کی قربانی کی گئی۔ لیکن سوال یہ ہے کیا دنبے کی قربانی حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی سے زیادہ بڑی ہے جسے اللہ نے ذبحِ عظیم قرار دیا۔ کیا ایک دنبہ کا ایک نبی سے موازنہ کیا جا سکتا ہے؟

وہ ذبح عظیم حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی عظیم الشان قربانی ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ تھا کہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل سے ہوں گے، اگر اس وقت حضرت اسماعیل کی قربانی ہو جاتی تو ارادۂ خداوندی تکمیل نہ پاتا اس لیے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو بدل دیا گیا اور اسے ذبحِ عظیم قرار دیا گیا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لختِ جگر تھے تو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ امام الانبیا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لختِ جگر اور منظورِ نظر تھے۔ جن کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی شہادت کا موازنہ کیا جائے تو چند اہم نکات سامنے آتے ہیں:
 حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی خبر بذریعہ خواب دی گئی اور وہ بھی قربانی سے چند گھنٹے قبل، جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی کی خبر ان کے بچپن میں ہی دے دی گئی تھی اور وہ بھی بذریعہ جبرائیل علیہ السلام عالمِ شہود میں نہ کہ عالمِ خواب میں۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی ولادت ہوئی اسی وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو مطلع کر دیا گیا کہ نواسۂ رسول کو شہید کر دیا جائے گا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ خود اپنی شہادت کے سال سے بھی آگاہ تھے اور جائے شہادت سے بھی۔ آج اگر کسی کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کی زندگی کے چند روز باقی رہ گئے ہیں تو شاید یہ خبر سنتے ہی اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر جائے۔ لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے حوصلے اور ہمت کی داد کے لیے الفاظ بھی کم پڑ جاتے ہیں۔اسی طرح آپؓ کے والدین حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا جو اس وقوع پذیر ہونے والے سانحہ سے آگاہ تھے، اگر ایک مرتبہ بھی دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیتے یا ان کے دل میں بھی تقدیر کے ٹلنے کا خیال آجاتا تو اللہ تعالیٰ جو دل کے نہاں خانہ میں چھپی بات سے بھی آگاہ ہوتا ہے، وہ اس سانحہ کو ٹال دیتا لیکن ایسے بلند پایہ اور عظیم المرتبت والدین کے قربان جائیں جنہوں نے زندگی بھر کبھی بھی اس سانحہ کے ٹلنے کی دعا نہیں کی اور ہمیشہ تسلیم و رضا کا دامن تھامے رکھا۔ 

حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کے لیے گوشہ تنہائی میں لے جایا گیا جہاں ان کے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ اور کوئی موجود نہ تھا۔ جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی کے ہزاروں شاہد تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام نے خود کو قربانی کے لیے پیش کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انہیں ذبح کرنے سے قبل اپنی آنکھوں پر بھی پٹی باندھ لی تاکہ کہیں دل میں رحم نہ آجائے۔ ذبح ہونے کی صورت میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو صرف موت کی اذیت برداشت کرنی تھی کیونکہ موت کے بعد جسم ہر تکلیف و اذیت سے آزاد ہو جاتا ہے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے دکھ اور تکلیف کا اندازہ کون لگا سکتا ہے جنہوں نے اپنی شہادت سے قبل اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بیٹوں، بھائیوں، بھتیجوں، بھانجوں، دیگر عزیز و اقارب اور عقیدتمندوں کو بے دردی سے شہید ہوتے دیکھا۔ خود اپنے ہاتھوں سے اپنے جگر گوشوں اور پیاروں کے بے جان اور خون میں لتھڑے وجود سمیٹے۔ خاندانِ نبوت کی خواتین اور بچیوں کے بھوک،پیاس اور گرمی سے کملائے چہرے دیکھ کر قلبِ اطہر پر کیا بیتی ہوگی! اپنی اور دیگر تمام مردوں کی شہادت کے بعد ان مقدس خواتین کی یزیدیوں کے ہاتھوں بے حرمتی کا خیال دل پر کیسے چھریاں چلاتا ہو گا! ماں باپ جو اپنی اولاد کے خون کا ایک قطرہ بہتا نہیں دیکھ سکتے تو کیا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کے قلبِ اطہر کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے جنہوں نے اپنے پیاروں کو خون میں لت پت دیکھا۔ جان سے پیاروں کو قربان کرنے کے بعد آخر میں اپنا سرِ اقدس بھی دین کی بقا کے لیے قربان کر دیا۔

حضرت اسماعیل ؑکے پاس اپنی جان بچانے کا اختیار تھا جبکہ حضرت امام حسینؓ کے پاس تمام یزیدی لشکر کو نیست و نابود کر کے اپنے اور تمام اہلِ بیت ؓکی جان بچانے کا اختیار تھا کیونکہ آپؓ انسانِ کامل اور امام الوقت تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو کامل تصرفات اور اختیارات عطا کیے ہوئے تھے۔لیکن تسلیم و رضا تو یہی ہے کہ کامل تصرفات ہونے کے باوجود اللہ کی رضا کو مدنظر رکھا جائے اور اختیارات کے استعمال کی بجائے اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکا دیا جائے۔ لہٰذا اگر اختیارات کی قربانی کاموازنہ کیا جائے تو بھی امام حسینؓ کی قربانی عظیم تر تھی۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی سے روکنے کے لیے شیطان نے محض وسوسوں کا سہارا لیا لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی کے لیے شیطان ہزاروں یزیدی فوجیوں کو جمع کر لایا۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے وقت رضائے الٰہی سے روکنے کے لیے اس نے چکنی چپڑی باتوں کا سہارا لیا، حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کو مطیع کرنے کے لیے اس نے ظلم و ستم کا سہارا لیا۔ بھوک، پیاس، گرمی کے عالم میں امام الوقت کو ایک فاسق و فاجر کے سامنے جھکانے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا۔ مال و دولت کا لالچ بھی دیا گیا اور اپنے ساتھ ساتھ عزیز و اقارب کی جان بچانے کی پیشکش بھی کی گئی لیکن وہ سر جو محض اللہ کی بارگاہ میں جھکتا ہو وہ غیر اللہ کے سامنے کس طرح جھک سکتا تھا۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور آپ کے اصحابؓ کے ایمان اتنے کمزور نہ تھے کہ اللہ کی خوشنودی اور رضا کی بجائے دنیوی مال و دولت کو ترجیح دیتے۔ ابدی و دائمی زندگی کو چھوڑ کر عارضی و فانی دنیا کو بہتر بنانے کی لگن تو اُنہیں ہوتی ہے جو معرفتِ الٰہی سے محروم ہوں، جن کو آخرت میں اپنے ربّ کے دیدار اور ملاقات کی اُمید نہ ہو۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور آپ کے اصحاب کے قلوب تو نورِ معرفت سے لبریز تھے، ان کے قلب و باطن تو عشقِ حق سے سرشار تھے، ایک جان تو کیا اللہ کی رضا کی خاطر ہزاروں مرتبہ بھی اپنی جان قربان کر سکتے تھے۔ 

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا مقصود رضائے الٰہی تو تھا ہی لیکن اس قربانی سے کسی کو نہ کوئی نقصان پہنچنا تھا نہ نفع۔ جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی سے دینِ حنیف کو بقا ملی، بادشاہت و ملوکیت کو خلافت ظاہر کر کے جو لوگ دین سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے تھے ان کے مکروہ عزائم اور مقاصد کھل کر سامنے آگئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی سے ان لعین لوگوں کے عزائم پورے نہ ہو سکے۔ 

حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کو جس قربانی سے تبدیل کیا گیا اور جسے ذبحِ عظیم قرار دیا گیا وہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ ہی کی قربانی تھی۔ وہ خونِ نبی جو اس وقت اللہ کے حکم سے نہ بہا وہ خون آلِ اسماعیلؑ میں سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے بہا کر حق ادا کر دیا۔ اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکایا تھا توحضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے تسلیم و رضا کی انتہاؤں کو چھو لیا اور وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک کوئی قائم نہ کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

استفادہ کتب
۱۔ شمس الفقرا۔ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس
۲۔ سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ اور یزیدیت، تصنیف ایضاً
۳۔ تفسیر ضیاء القران از پیر کرم شاہ الازہری

 

نوٹ: اس مضمون کو  آڈیو کی صورت میں سننے کے لیے  ماہنامہ سلطان الفقر میگزین کے یوٹیوب (YouTube)    چینل کو وزٹ فرمائیں۔ 

یوٹیوب چینل  لنک

مضمون لنک :     Hazrat Ali ra k Dor-e-Khilafat | حضرت علیؓ کے دورِ خلافت کی مشکلات | Urdu / Hindi Podcast

 
 
 

21 تبصرے “تسلیم و رضا حضرت اسمٰعیل ؑ سے حضرت امام حسینؓ تک Tasleem-o-Raza Hazrat Ismail (a.s) say Hazrat Imam Husayn (r.a) tak

  1. کوئی بھی شخص ایسا نہیں ہوتا جس کو آزمایا نہ جائے البتہ کمزور ایمان والوں کی آزمائش ہلکی ہوتی ہے اور اللہ کے نزدیک ان کا مقام و مرتبہ بھی کم ہوتا ہے۔

  2. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
    حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔

  3. حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کا مقصود رضائے الٰہی تو تھا ہی لیکن اس قربانی سے کسی کو نہ کوئی نقصان پہنچنا تھا نہ نفع۔ جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی سے دینِ حنیف کو بقا ملی، بادشاہت و ملوکیت کو خلافت ظاہر کر کے جو لوگ دین سے اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتے تھے ان کے مکروہ عزائم اور مقاصد کھل کر سامنے آگئے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی قربانی سے ان لعین لوگوں کے عزائم پورے نہ ہو سکے۔

  4. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  5. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  6. حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
    حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔

  7. حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ اور آپ کے اصحاب کے قلوب تو نورِ معرفت سے لبریز تھے، ان کے قلب و باطن تو عشقِ حق سے سرشار تھے، ایک جان تو کیا اللہ کی رضا کی خاطر ہزاروں مرتبہ بھی اپنی جان قربان کر سکتے تھے۔ ❤

    1. امام الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی روح مبارکہ پر لاکھوں کروڑوں درود وسلام

  8. تسلیم سے مراد ہے کہ زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آئے، خواہ تنگی ہو یا فراخی، مشکل ہو یا آسانی، دکھ ہو یا سکھ، اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے اس پر راضی رہا جائے۔

  9. تسلیم سے مراد ہے کہ زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آئے، خواہ تنگی ہو یا فراخی، مشکل ہو یا آسانی، دکھ ہو یا سکھ، اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے اس پر راضی رہا جائے۔

  10. حق حسین یا حسین
    میرا آقا مولا میرا حسین
    سلام یا حسین

  11. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  12. اگر حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ کی رضا کے سامنے سر جھکایا تھا توحضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ نے تسلیم و رضا کی انتہاؤں کو چھو لیا اور وہ مثال قائم کی جو رہتی دنیا تک کوئی قائم نہ کر سکے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

  13. تسلیم سے مراد ہے کہ زندگی میں جو بھی معاملہ پیش آئے، خواہ تنگی ہو یا فراخی، مشکل ہو یا آسانی، دکھ ہو یا سکھ، اسے زندگی کا حصہ سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جائے اور اسے اللہ کی رضا سمجھتے ہوئے اس پر راضی رہا جائے۔

  14. اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ کی سیرت کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

    استفادہ کتب

  15. جتنے بھی انبیا اور فقرا کاملین اس دنیا میں تشریف لائے ان سب کو اللہ تعالیٰ نے مختلف آزمائشوں سے گزارا اور ان کی ہمت اور عشق کی بنا پر انہیں بلند مقام و مرتبہ سے بھی نوازا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں