قربِ دیدار
جان لے کہ طالبِ مولیٰ کے لیے فرضِ عین ہے کہ پہلے مرشد کامل تلاش کرے خواہ اسے مشرق سے مغرب اور قاف سے قاف تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ناقص مرشد کی راہ ناقص تقلید پر مبنی ہوتی ہے اور اس راہ کی تاثیر کے آثار خود اس کے ناقص ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مرشد کامل کی ابتدا اور انتہا ایک ہوتی ہے۔ وہ صراطِ مستقیم پر ہوتا ہے اور اسے حضوری، نورِ الٰہی کی تجلیات کا مشاہدہ، قربِ الٰہی، توحید کی معرفت اور سلک سلوکِ تصور کے تمام مراتب اور ان پر تصرف حاصل ہوتا ہے۔ ناقص مرشد کے مریدوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی وہ قرب اور معرفتِ الٰہی سے دور اور دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ مرشد کامل کے طالبوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے روز بروز قربِ الٰہی کے اعلیٰ درجات اور ظاہر و باطن میں ترقی حاصل ہوتی ہے اور وہ حق تعالیٰ کا مقرب ہوتا چلا جاتا ہے۔ ہاں یہ بات یقینی ہے کہ ایسے مرشد بے شمار ہیں جو اپنے طالبوں کو ذکر، فکر، مراقبوں اور مکاشفوں میں مصروف رکھتے ہیں۔ ایسے نفس پرست مرشد بھی بہت ہیں جو طالب کو (نقش اور تعویذات بنانے کے لیے) دائرے پرُ کرنے، جنوں اور مؤکلوں کو قابو کرنے، ورد وظائف، دعوت اور تلاوت میں مشغول رکھتے ہیں۔ ایسے مرشد نایاب ہیں جنہیں معرفت و قربِ الٰہی، جمعیت، مشاہدۂ نورِ ذات اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ اہلِ دیدار مرشد کامل وہ ہے جو ظاہر میں خود تربیت کرے اور باطن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں پہنچا کر تلقین و ارشاد سے سرفراز کروائے۔
تعلیم کیا ہے اور تلقین کسے کہتے ہیں؟ تعلیم سے علم ظاہری واضح ہو جاتا ہے اور تلقین سے روشن ضمیری حاصل ہوتی ہے جس سے طالب دونوں جہاں پر غالب آ جاتا ہے۔ حاضرات اسم اللہ ذات کے علم سے طالب کو چار طرح کی تعلیم حاصل ہوتی ہے اور ہر ایک تعلیم کے ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم باطن میں اسے چار قسم کی تلقین فرماتے ہیں۔ سب سے پہلے مرشد طالب کو حاضرات اسم اللہ ذات کے تصور کی تعلیم دیتا ہے اور اپنی توجہ سے باطن میں اسے مجلس محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری میں پہنچا دیتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسے تلقین سے سرفراز فرماتے ہیں جس سے اس کے وجود سے نفسانی و شیطانی حجابات اور دل پر پڑے تمام پردے مکمل طور پر اٹھ جاتے ہیں اور وہ ازل سے ابد تک کا تماشا عین بعین دیکھ سکتاہے۔ ظاہر میں طالبِ مولیٰ کو علمِ ظاہری پر قدرت حاصل ہوتی ہے اور باطن میں خلقِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تلقین، حلم، ظاہری علم کے مطالعہ کے لیے جمعیتِ خاطر، دانش مندی و شعور اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دائمی حضوری حاصل ہوتی ہے۔ یہ مراتب مبتدی قادری کے ہیں جو مرشد کامل سے طالب صادق کو حاصل ہوتے ہیں۔ دوسرے مرتبہ پر مرشد کامل طالبِ مولیٰ کو حاضراتِ اسم اللہ ذات کی تعلیم کے ساتھ تصورِ عظیم اور توجہ کے ساتھ قدیم مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کرتا ہے جہاں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسے تلقین فرماتے ہیں ’’خُذْ یَدِیْ‘‘ یعنی ’’میرا ہاتھ پکڑ‘‘۔ پھر باطن میں جو حکم اسے ملتے ہیں، حضوری کے ذریعے وہ ان کی وضاحت بھی پا لیتا ہے۔ان مراتب کے ظہور سے باطن معمور اور وجود مغفور ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی فتح صرف قادری طالب کو نصیب ہوتی ہے۔
تیسرے مرتبہ پر مرشد کامل طالبِ مولیٰ کو حاضرات اسم اللہ ذات سے تفکر اور تصرف کی تعلیم دیتا ہے اور باطن میں مجلسِ محمدی میں پہنچا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ و تلقین سے نوازتا ہے اور توحید کے دریا میں غرق کر دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی نگاہ و تلقین سے طالبِ مولیٰ کا نفس دائمی طور پر فنا ہو جاتا ہے، وہ دیدارِ الٰہی اور نورِ ذات کے مشاہدے سے مشرف ہو کر مطلق عارف باللہ بن جاتا ہے۔ فقیر اہلِ راز، لایحتاج اور بے نیاز ہوتا ہے۔
چوتھے مرتبہ پر مرشد کامل طالبِ مولیٰ کو توحید کی معرفت عطا کرتا ہے اورتوجہ کے ساتھ حاضراتِ اسم اللہ ذات کے کل الکلید تصور کی تعلیم دے کر باطن میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری سے مشرف کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اسے لطف و کرم اور التفات کے ساتھ بغل گیر کرتے ہیں یا نگاہ فرما کر اپنے فضل سے مراتب عطا فرما دیتے ہیں۔ پھر اسے بصد تصدیق، صدیق بالیقین کے مرتبہ سے نواز کر سلطان الفقرا کے حوالے فرما دیا جاتا ہے۔ پس طالبِ مولیٰ کو رحمتِ نور کا فیض اور حضوریٔ قربِ الٰہی حاصل ہوتی ہے اور وہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ ترجمہ ’’جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے‘‘ کے مراتب پا لیتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
رَبِّ اِنِّیْ لِمَآ اَنْزَلْتَ اِلَیَّ مِنْ خَیْرٍ فَقِیْرٌ (القصص۔24)
ترجمہ:اے میرے ربّ واقعی میں اس خیر و برکت کا جو تو نے میری طرف اتاری ہے، محتاج ہوں۔
فقیرِ کامل طالبِ مولیٰ کو ایک لمحہ میں ان چاروں مراتب، چاروں تعلیم و تلقین سے سرفراز کر دیتا ہے۔ ایسا ہی مرشد لائقِ ارشاد ہوتا ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو طالبِ مولیٰ کو فوراً اس سے جدا ہو جانا چاہیے کیونکہ خام مرشد فساد کا موجب ہوتا ہے۔ وہ قصہ و افسانہ خواں ہوتا ہے اور راہِ فقر اور باطنی معرفت سے بیگانہ ہوتا ہے۔ مرشدی اور طالبی کوئی آسان کام نہیں۔ مرشد اور طالب کے مراتب میں مشاہدۂ اسرارِ پروردگار کے عظیم راز ہیں۔
سنو اے تیلی کے بیل! کامل مکمل اکمل مرشد تمام جمعیتوں کا جامع اور کُل ہوتا ہے اور اس کے قبضۂ قدرت میں تمام مقاماتِ جز ہوتے ہیں۔ طالبانِ مولیٰ کے لیے ریاضت اور مجاہدہ راہزن کی طرح ہے کہ مرشد کامل اپنے ایک ہی سخن سے انہیں مشاہدۂ حضور، قربِ الٰہی اور معرفت کی ابتدا و انتہا کی تمامیت تک پہنچا دیتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ مرشد کامل اکمل کا سخن کنُ کی کنہ سے ہوتا ہے ’’فَیَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنَ‘‘ ترجمہ: ’’پس وہ حکم دیتا ہے ’ہو جا‘ اور وہ ہو جاتا ہے‘‘۔ مرشد بے شمار ہیں اور ان میں سے ہزاروں ایسے ہیں جو نام و ناموس اور شہرت کے خواست گار ہیں۔ مرشد کامل علما باللہ فقیر فی اللہ دنیا میں بہت نایاب ہوتے ہیں۔ سلک و سلوکِ تصور کی ابتدا و انتہا حضوری ہے۔ مرشد کامل صاحب تصور کل الکلید کو چاہیے کہ وہ ایک ہی لمحہ میں (طالب پر) ابتدا و انتہا منکشف کر دے۔ اگر مرشد ایسا کامل ہے توطالبِ مولیٰ کو مرشد پر کامل و درست یقین کرنا چاہیے۔ حدیث:
اَلطَّالِبُ عِنْدَ الْمُرْشِدِکَالْمَیِّتِ بَیْنَ یَدِّ الْغَاسِلِ
ترجمہ:مرشد کے ہاتھ میں طالب اس طرح ہوتا ہے جیسے مردہ غسل دینے والے کے ہاتھ میں۔
جان لے کہ اگر کسی کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی دنیاوی محبت ہو تو خواہ روئے زمین کے تمام اولیا کرام ایک جگہ جمع ہو جائیں تب بھی اس شخص کو معرفت اور محبتِ الٰہی کا ایک ذرّہ بھی نصیب نہیں ہو سکتا۔ پس معلوم ہوا کہ جس قدر کسی کے دل میں دنیاوی محبت ہو گی اسی قدر وہ نفاق، جھوٹ، طمع، خود پسندی، حرص، حسد، غرور اور نفسانی خواہشات سے لبریز ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ عَنِ الْکِبْرِ لَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ
ترجمہ: جس کسی کے دل میں ذرّہ برابر بھی کبر ہو گا وہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہو گا۔
دل کی پاکیزگی کیسے حاصل کی جائے اور صفاتِ قلب کیا ہیں؟ جو طالب مشقِ مرقومِ وجودیہ اور اسم اللہ ذات کا تصور ہمیشہ کرتا ہے اس کے وجود سے طمع، حرص، عجب و کبر اور تمام ناشائستہ خصائل کاخاتمہ ہو جاتا ہے اور خناس، خرطوم و خطرات مر جاتے ہیں۔ اسم اللہ ذات کے تصور کے غلبات سے جس کا قلب پاک ہو جاتا ہے، وہ خناس و خرطوم اور شیطان سے خلاصی پالیتا ہے اور اللہ کے ساتھ دائمی مخلص، روشن ضمیر اور نفس پر حاکم ہو جاتا ہے۔ یہ مشقِ مرقومِ وجودیہ کا فیض ہے جو طالب کو مرشد کامل سے ابتدا میں ہی حاصل ہو جاتا ہے۔ مطلب یہ کہ تصور اسم اللہ ذات کے حاضرات کی تعلیم سے طالبِ مولیٰ پر باطنی حقیقتیں واضح ہوتی ہیں اور وہ روشن ضمیر بن جاتا ہے۔ قلب کی مشق کرنے سے قبور کا عین العیان مشاہدہ ہوتا ہے اور عین العیان حضوری حاصل ہوتی ہے۔ طالب رحمتِ خداوندی سے اللہ کی نظر میں منظور ہو کر مطلق عارف باللہ ہو جاتا ہے، اس کے سامنے عرش سے تحت الثریٰ تک دنیا اور آخرت کے تمام خزانے ظاہر ہو جاتے ہیں لیکن اس کا دل دنیا و آخرت کے تماشوں سے بیزار ہو چکا ہوتا ہے، پس وہ لایحتاج ہوتا ہے۔ فقیر کو مردانِ خدا کا مرتبہ حاصل ہوتا ہے۔ دنیا کا طالب مخنث ہے، عقبیٰ کا طالب مؤنث اور مولیٰ کا طالب مذکر ہے۔ جب فقیرِ کامل کو مکمل جمعیت حاصل ہو جاتی ہے اور اس کے وجود سے نفسانی خصائل کا مکمل خاتمہ ہو جاتا ہے پھر اس کی توجہ رواں ہو جاتی ہے۔ دینی و دنیاوی معاملات میں وہ جس چیز پر بھی توجہ کرتا ہے اس کا کام روز بروز ترقی پذیر رہتا ہے اور یہ ترقی قیامت تک متواتر جاری رہتی ہے۔ اسی کو توفیق کلی کہتے ہیں۔ جس کو تحقیقی طریق سے روشن توجہ کا یہ طریقہ آتا ہے اسے کیا احتیاج کہ وہ درمِ دنیا اور اہلِ دنیا کے لیے دعا کرے یا دعوت پڑھے۔ یہ ولایت و ہدایت کا انتہائی مرتبہ ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالسَّلَامُ عَلٰی مَنِ اتَّبَعَ الْھُدٰی (طٰہٰ۔47)
ترجمہ:اور اس پر سلام ہو جو ہدایت کی اتباع کرے۔
ایسا شخص عارف باللہ ہوتا ہے۔ اللہ بس باقی ہوس۔بیت:
باھوؒ کاملان را نیست مشکل راز راہ
طالبان را میرسانند یک نگاہ
ترجمہ: اے باھوؒ! کامل مرشد کے لیے رازِ الٰہی کی راہ بالکل مشکل نہیں، وہ طالب کو ایک ہی نگاہ سے اس راہ کی منزل تک پہنچا دیتے ہیں۔
جان لے کہ فقیر کامل ولی اللہ عارف باللہ صاحبِ تصور اسم اللہ ذات عین بعین (اللہ کو) دیکھتا ہے۔ اسے چلہ کشی اور حجرے میں خلوت نشینی جیسے اعمال اختیار کرنے سے شرم آتی ہے کیونکہ چلہ کشی ریاکارانہ عمل ہے جس سے نفس مضبوط ہوتا ہے اور خلوت نشینی میں خطراتِ شیطانی کا خلل ہوتا ہے۔ منتہی کامل کو کیا ضرورت کہ وہ اس طرح کی کسی بھی چیز میں مشغول ہو کیونکہ وہ تو دنیا، نفس اور شیطان لعین پر غالب ہوتا ہے۔ ابیات:
خلوتی خلل است حجرہ باحجاب
عین بینا را نباشد این عذاب
ترجمہ: خلوت خلل ہے اور حجرہ حجاب ہے۔ جن کی باطنی آنکھیں روشن ہو جائیں وہ اس طرح کے عذاب میں مبتلا نہیں ہوتے۔
ہر کہ در توحید غرقش بانبیؐ
دل باحضوری خلوتش قرب از قوی
ترجمہ:جو طالب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ توحید میں غرق ہو جاتا ہے اس کا دل اللہ کی حضوری میں خلوت نشین رہتا ہے اور قربِ الٰہی کی بدولت قوی ہو جاتا ہے۔
بی حجابش خاصگان ہم بی حجاب
ہر کہ در زندان خلوت شد خراب
ترجمہ: خواص اللہ کو بے حجاب دیکھتے ہیں۔ جو خلوت کی قید میں گیا وہ خراب ہو گیا۔
باھوؒ! بہر از خدا ہمراز کن
ہم راز را آواز کن از کن سخن
ترجمہ: اے باھوؒ! خدا کے لیے کن کے راز کا محرم بنا دے۔ جو آوازِ کن کے راز کا محرم ہو جاتا ہے اس کا کلام کن کا کلام ہو جاتا ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یَقُوْلُ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْن (مریم۔35)
ترجمہ: وہ حکم دیتا ہے ’ہو جا‘ پس وہ ہو جاتا ہے۔
حدیث
اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہُ
ترجمہ: جہاں فقر مکمل ہوتا ہے وہیں اللہ ہے۔
فقیر کن کی کنہ سے کلام کرتا ہے یعنی وہ جس چیز کو بھی کہتا ہے ’ہو جا‘ وہ اللہ کے حکم سے ہو جاتی ہے بشرطیکہ فقیر صاحبِ سخن کو ’’کن‘‘ کے ہر مقام اور توحید کی معرفت حاصل ہو اور وہ قربِ الٰہی میں غرق فی النور اور فنا فی اللہ ہو۔ یا صاحبِ سخنِ کنُ فقیر حضورِ حق میں باعین العیان غرق ہو اور اپنی ہر عرض و التماس کا جواب باصواب پاتا ہو۔اس کا کلام جَفَّ الْقَلَمَ بِمَا ھُوَ کَآیِنٌ (ترجمہ: جو کچھ ہونے والا ہے اس کے متعلق قلم نے لکھ دیا ہے اور خشک بھی ہو چکا ہے) کی مثل ہوتا ہے۔ گویا قلم کی بات اس کے منہ نکلتی ہے۔ اس کے منہ کی دوات سے نکلنے والا ہر سخن ازل کی سیاہی سے لکھا گیا ہوتا ہے۔ وہ جو بھی بات کرتا ہے اس کی تاثیر روز بروز بڑھتی جاتی ہے اور قیامت تک یہ ترقی رواں رہتی ہے، کبھی نہیں رکتی۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:
لِسَانُ الْفُقَرَائِ سَیْفُ الرَّحْمٰنِ
ترجمہ: فقرا کی زبان اللہ تعالیٰ کی تلوار ہوتی ہے۔
کیونکہ تصور اسم اللہ ذات سے عالم باللہ فقیر فی اللہ کے منہ، قلب اور روح کی زبان ایک ہو کر سرّ کی زبان بن جاتی ہے، ان کا نفس فنا ہو چکا ہوتا ہے اور وہ ربّ العالمین کے دائمی دیدار سے مشرف ہوتے ہیں۔ مشاہدہ و معرفت کے سلک سلوک میں فقیر اہل تصوف کو مؤکلوں کی آوازیں سننے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ وہ عین بعین اللہ کا دیدار کرنے والا طالب ہوتا ہے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ قطعہ:
رزق دانی چیست برسد از خدا
بہر لقمہ چون بہر در این گدا
ترجمہ: تو جانتا ہے رزق کیا ہے؟ رزق اللہ تعالیٰ کی طر ف سے پہنچایا جاتا ہے۔ پھر یہ گدا ایک ایک لقمے کی خاطر ہر ایک کے دروازے پر کیوں جاتے ہیں؟
گر بر درش قدمی رود صاحب نظر
نظر عارف کیمیائے سیم و زر
ترجمہ:عارف کی نظر کیمیائے سیم و زر ہوتی ہے۔ وہ جس کسی کے در پر بھی قدم رکھتا ہے اسے صاحبِ نظر بنا دیتا ہے۔
خدا بگرداند مرا بہر از کرم
گر روم یا می نشینم نیست غم
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے۔ اب چاہے میں چلوں یا بیٹھوں (یعنی کسی بھی حال میں رہوں) مجھے کوئی غم نہیں۔
نفس را رسوا کنم بہر از گدا
بردرش قدمی برم بہر از خدا
ترجمہ: میں گدا بن کر اپنے نفس کو رسوا کرتا ہوں۔ میں لوگوں کے دروازے پر اللہ کی خاطر جاتا ہوں (یعنی انہیں اللہ کی طرف بلانے کی خاطر)۔
زیر قدم فقر گنج بیکران
قدم فقر برسر شاہ جہان
ترجمہ: فقر کے قدموں تلے عظیم خزانہ ہے۔ فقر کا قدم جہان کے بادشاہوں کے سر پر ہے۔
فقر راز حق بحق یابد بحق
در مطالعہ فقر لوح دل یک ورق
ترجمہ: فقر رازِ حق ہے اور فقر کے مطالعہ میں دل کی تختی ایک ورق ہے جس میں اگر حق لکھا ہو تو حق مل جاتا ہے۔
از تصور اسم اللہ جان صفا
از تصور اسم اللہ شد لقا
ترجمہ:تصور اسم اللہ ذات سے تصفیہ قلب اور دیدارِ الٰہی نصیب ہوتا ہے۔
کی تواند بست صورت بی مثال
ہر کہ صورت را بہ بندد در زوال
ترجمہ: کون ہے جو اس بے مثال کی صورت کو بیان کر سکے۔ جو بھی اسے صورت میں قید کرتا ہے وہ زوال میں ہے۔
باھوؒ! بانظر اللہ چو دل بیدار شد
بیدار دل را دائمی دیدار شد
ترجمہ: اے باھوؒ!جب دل اللہ کی نظرِ کرم سے بیدار ہو جاتا ہے تو اسے دائمی دیدار حاصل ہو جاتا ہے۔
(جاری ہے)