حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دورِخلافت کی مشکلات
Hazrat Ali r.a kay Dor-e-Khilafat ki Mushkilat
قسط 8 تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
شہادتِ عثمانؓ اور فتنہ کا دروازہ
حضرت عثمانؓ کی شہادت کے وقت ایسے حالات وقوع پذیر ہو چکے تھے کہ فتنہ سر پر منڈلانے لگا تھا۔ فتنوں کا بارشوں کی طرح برسنا ایسا معاملہ تھا جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے واضح الفاظ میں پہلے ہی فرما دیا تھا۔ اس سلسلہ میں حدیثِ مبارکہ ہے:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ ہم حضرت عمررضی اللہ عنہٗ کی خدمت میں بیٹھے ہوئے تھے توآپؓ نے پوچھا کہ فتنہ سے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی کوئی حدیث تم میں سے کسی کو یاد ہے؟ میں بولا: مجھے (اسی طرح یاد ہے) جیسے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمایاتھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ بولے کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے فتن کو معلوم کرنے میں بہت بے باک تھے۔ میں نے کہا:
’’ انسان کے گھر والے، مال، اولاد اور پڑوسی سب فتنہ (کی چیز) ہیں۔ اور نماز، روزہ، صدقہ، اچھی بات کے لیے لوگوں کو حکم کرنا اور برُی باتوں سے روکنا ان فتنوں کا کفارہ ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ میں تم سے اس کے متعلق نہیں پوچھتا، مجھے تم اس فتنہ کے بارے میں بتلاؤ جو سمندر کی موج کی طرح ٹھاٹھیں مارتاہوابڑھے گا۔ اس پر میں نے کہا:
’’ یا امیرالمومنین! آپؓ اس سے خوف نہ کھائیے۔ آپؓ کے اور فتنہ کے درمیان ایک بند دروازہ ہے۔‘‘
پوچھا کیا وہ دروازہ توڑ دیا جائے گا یا (صرف) کھولا جائے گا؟
میں نے کہا کہ توڑ دیا جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ بول اٹھے’’ پھر تو وہ کبھی بند نہیں ہو سکے گا۔‘‘ شقیق بن سلمہ نے کہا کہ ہم نے حذیفہ رضی اللہ عنہٗ سے پوچھا کیا حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اس دروازہ کے متعلق کچھ علم رکھتے تھے؟ انہوں نے کہا’’ ہاں! بالکل اُسی طرح جیسے دن کے بعد رات کے آنے کا۔‘‘
میں نے تم سے ایک ایسی حدیث بیان کی ہے جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ ہمیں اس کے متعلق حذیفہ رضی اللہ عنہٗ سے پوچھنے میں ڈر ہوتا تھا (کہ دروازہ سے کیا مراد ہے)اس لیے ہم نے مسروق سے کہا(کہ وہ پوچھیں) انہوں نے دریافت کیا تو آپؓ نے بتایا کہ وہ دروازہ خود حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ ہی تھے۔ (بخاری 525)
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓہی دراصل فتنوں اور اُمت کے درمیان دروازہ تھے۔
یہ بات جاننا بھی ضروری ہے کہ فتنوں نے حضرت عمرؓ کے دور میں بھی سر اُٹھانے کی کوشش کی لیکن آپؓ نے اسے طاقت کے زور پر دبا دیا۔ اس کے متعلق مسلم شریف میں حدیث ہے:
حضرت عمرؓ نے جمعہ کے دن خطبہ میں کہا ’’اگر مجھے جلد موت آ جائے تو خلافت اُن چھ حضرات کے باہمی مشورے سے طے ہو گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے وصال کے وقت خوش تھے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ جن کو میں نے اسلام کی خاطر اپنے اس ہاتھ سے ماراہے، وہ اس امر (خلافت) پر اعتراض کریں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہوں گے۔‘‘ (مسلم 1258)
اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ نے طاقت کے بل بوتے پر فتنہ کو دبا دیا اور پھر ان کی ہمت نہ ہوئی کہ حضرت عمرؓکے دور میں سر اٹھائیں۔
بیہقی نے ابو ہدبہ حمصی سے روایت کیا ہے، کہا کہ جب حضرت عمرؓ کو خبر پہنچی کہ اہلِ عراق نے ان کے امیر پرکنکریاں پھینکی ہیں توآپؓ غصے سے نکلے پھر نماز پڑھی مگر نماز میں آپؓ سے سہو ہو گیا۔ پھر آپؓ نے سلام پھیرا تو دعا کی کہ یا اللہ! ان لوگوں(اہلِ عراق) نے مجھے شبہ میں ڈالا لہٰذآپ ان کو پریشان کیجیے اور جلد ان پر قبیلہ ثقفی غلام کو مسلط کیجئے جو ان پر دورِجاہلیت کی طرح حکومت کرے کہ اچھا کام کرنے والے کو قبول نہ کرے اور برا کام کرنے والے کو معاف نہ کرے۔ (بیہقی بحوالہ ازالتہ الخفا، جلد چہارم، ص ۸۰۱)
ان کے وصال پانے کے بعد ہی اس حدیث کے مصداق حالات نے کروٹ لینا شروع کی جس کی انتہا شہادتِ عثمانؓ بنی۔ تمام امرا اور حاکم جو حضرت عثمان ؓنے مقرر فرمائے تھے وہ حضرت عثمان ؓکے احکامات کو پسِ پشت ڈال کر اپنی مرضی کر رہے تھے بلکہ حضرت عثمانؓ کے خلاف بھی ہرزہ سرائی کر رہے تھے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ کو گرانے والے وہی لوگ تھے جن پر حضرت عثمانؓ نے بھروسا کیا تھا۔اس سلسلہ میں مختلف حوالے تاریخ کی مستند کتابوں سے دیے جا رہے ہیں۔
یہ بات بتانا ضروری ہے کہ یہاں حوالے دینے کا مقصدمحض حقائق کو سامنے لانا ہے، کسی صحابیؓ کی شان میں گستاخی کرناہرگزمقصد نہیں بلکہ صحابہ کرامؓ کے بارے میں ایک غلط خیال بھی انسان کو ایمان سے محروم کر دیتا ہے۔ البتہ صحابہ کرامؓ کے مابین مختلف امور میں اختلاف ہوتا تھا جوفطری امر ہے۔ ان کا اختلاف بھی باعثِ رحمت ہے جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
میرے اصحاب کا اختلاف تمہارے لیے باعثِ رحمت ہے۔ (کنزالعمال 1002)
اس طرح حضرت عمرو بن العاصؓ کا حضرت عثمانؓ سے اختلاف ہو گیا۔ حضرت عمرو بن العاصؓ کو حضرت عثمانؓ نے شکایات کی بنیاد پر معزول کیا۔ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
حضرت عمرو بن العاصؓ مصر سے مدینہ منتقل ہو گئے اور ان کے دل میں حضرت عثمانؓ کی طرف کبیدگی اور ناراضی پیدا ہو گئی اور جو بات دل میں تھی اسی کے مطابق انہوں نے حضرت عثمانؓ سے گفتگو کی۔ حضرت عمرو بن العاصؓ نے حضرت عثمانؓ کے مقابلے میں اپنے باپ پر فخر کیا اور کہا کہ وہ آپ(رضی اللہ عنہٗ) سے زیادہ معزز تھے۔
حضرت عثمانؓ نے کہا’’ ان باتوں کو چھوڑ دو یہ جاہلیت کی باتیں ہیں۔‘‘ حضرت عمروبن العاصؓ حضرت عثمانؓ کے خلاف لوگوں کو جمع کرنے اور متحد کرنے میں لگ گئے۔(تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 172)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا:
حضرت معاویہؓ حضرت عمر ؓبن خطاب سے اس قدر ڈرتے تھے کہ ان کا غلام بھی اس قدر نہ ڈرتا تھا اور آپ کے ساتھ جو حضرت معاویہؓ کا برتاؤ ہے وہ آپ پر خوب روشن ہے۔ امیر المومنین حضرت عثمانؓ نے اس کو تسلیم کیا۔
پھر حضرت علیؓ بولے ’’حضرت معاویہؓ آپؓ کی اجازت کے بغیر جو چاہتے ہیں کرتے ہیں اور اس کو آپؓ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور آپؓ سن کر خاموش رہ جاتے ہیں۔ ‘‘(ابن خلدون، جلد دوم، حصہ اول، ص 350)
یہ بات حق ہے اور حدیث کے مصداق بھی ہے کہ حضرت عمرؓ نے فتنوں کو روکا ہوا تھا۔ مؤرخین نے بھی کچھ ایسے حقائق درج کیے ہیں جن کی رُوسے ہر ذی شعور انسان مانتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے دور میں فتنے تھے لیکن آپؓ نے رعب و دبدبہ اور طاقت سے ان کو دبایا ہوا تھا۔ اس کا اعتراف حضرت عثمانؓ نے بھی اپنے خطبے میں کیا۔ جب باغی حضرت عثمانؓ کو شہید کرنے کی نیت سے مدینہ آئے تو آپؓ نے خطبہ دیا اور فرمایا:
اللہ کی قسم !تم نے مجھ پر ان باتوں کا عیب لگایا ہے جن کا تم نے حضرت عمرؓ کے لئے بھی اقرار کیا تھا (یعنی تمہیں کوئی نیا حکم نہیں دیا بلکہ سب احکامات حضرت عمرؓ والے ہی ہیں) لیکن انہوں نے تم کو پاؤں سے روندا، ہاتھ سے مارا، زبان سے ذلیل کیا، پس تم ان کے مطیع و فرمانبردار بن گئے۔(تاریخ ابنِ کثیر، جلد چہارم، حصہ ہفتم، ص 171)
پس ثابت ہوا کہ فتنے حضرت عمرؓ کے دور میں دبے ہوئے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں جب چھ سال گزر گئے توفتنے ظاہر ہونا شروع ہو گئے جو بالآخر شہادتِ حضرت عثمانؓ کاباعث بنے۔ احادیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پہلے ہی خبر دے چکے تھے کہ ایک امام مقتول ہو گا جس کے بعد فتنہ بہت سرعت سے سر اٹھائے گا۔
سیدّنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہیں کر وگے اور اپنی تلواریں نہیں نکال لو گے اور تم میں سے بد ترین لوگ تمہارے حکمران نہیں بن جائیں گے۔ ‘‘ (مسند احمد 23691)
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ امام حضرت عمرؓ تھے کہ آپ کو ملعون ابولولو نے شہید کیا لیکن اس کی وضاحت حضرت عثمانؓ فرما چکے ہیں کہ مقتول امام وہی ہیں۔
ابو عون انصاری کہتے ہیں کہ حضرت ابنِ مسعودؓ سے ایک مرتبہ حضرت عثمان غنیؓ نے کہا کہ آپ کے حوالے سے مجھے جو باتیں معلوم ہوئی ہیں، آپ ان سے رک جائیے۔ حضرت ابنِ مسعودؓ نے ان کے سامنے کچھ عذر پیش کئے، حضرت عثمانؓ نے فرمایا: افسوس! میں نے اس بات کو سنا بھی ہے اور محفوظ بھی کیا ہے خواہ آپ نے نہ سنا ہو کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا ’’ایک حکمران قتل کیا جائے گا اور شر پھیلانے والے اس میں جلد بازی کریں گے۔‘‘ یاد رکھو! وہ قتل ہونے والا امیر میں ہی ہوں، اس سے مراد حضرت عمرؓ نہیں ہیں کیونکہ انہیں تو صرف ایک آدمی نے شہید کیا تھا جب کہ مجھ پر یہ سب مل کر حملہ کرنے والے ہیں۔ (مسند احمد 449)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ بھی جانتے تھے کہ اگر حضرت عثمانؓ شہید کر دیے گئے تو فتنوں کا دروازہ کھل جائے گا۔ ابنِ خلدون لکھتے ہیں کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے حضرت عثمان ؓسے فرمایا:
میں آپ کو اس سے ڈراتا ہوں کہ آپ اس اُمت کے مقتول امام ہوں گے اور آپ کے قتل کے بعد اس اُمت پر قتل و قتال کا دروازہ قیامت تک کے لئے کھل جائے گا۔ (ابنِ خلدون، جلد دوم، حصہ اول، ص 349,350)
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حق پرستی
حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب امورِخلافت سنبھال لیے تو آپؓ کے سامنے حاکموں ا ور گورنروں کو لے کر دو راہیں تھیں:
اوّل: ان کو بحال رکھا جائے۔
دوم: ان کے متعلق موصول شکایات کے مطابق ان کے ساتھ سلوک روا رکھا جائے جس کا تقاضا تھا کہ ان کو فوری معطل کیا جائے۔
ان دونوں فیصلوں کے اپنے اپنے اثرات مرتب ہونے تھے۔ اگر اوّل الذکر فیصلہ کو زیرِبحث لایا جائے تو سیاسی لحاظ سے عمدہ فیصلہ تھا کہ اس سے انتظام بحال رہتا۔ تاآنکہ جب تمام اہم امور کی انجام دہی ہو چکے تو پھر ان کی طرف مرحلہ وار متوجہ ہوا جائے۔ اس فیصلہ میں سب کچھ مفید تھا سوائے یہ کہ دین نہ تھا اور گزرے ہوئے خلفا کی سنت نہ تھی۔
جہاں تک آخرالذکر فیصلہ کی بات ہے ،وہ دین کی اصل تھا اور دین ہی اصل خیر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت علیؓ شیرِخدا نے دوسرے فیصلے کو پہلے فیصلے پر ترجیح دی۔اس وقت اگر دیگر خلفائے راشدین میں سے بھی کوئی موجود ہوتے تووہی فیصلہ فرماتے جو مولیٰ علیؓ شیرِ خدا نے فرمایا۔ ایسی دوراہیں ہر خلیفہ کے دور میں آئیں۔ قارئین کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پہلے جو خلفا راشدین گزرے، ان کے ادوار سے ایک ایک واقعہ بیان کیا جارہا ہے جس سے مقصوداس امر کی وضاحت ہے کہ تمام خلفائے راشدین نے حق کو سیاست و حکومت پر ترجیح دی۔
حضرت ابوبکرؓصدیق کے دور میں زکوٰۃ کا معاملہ تھا۔ سب اس رائے پر متفق تھے کہ منکرینِ زکوٰۃ کے ساتھ ابھی سختی نہ کی جائے کیونکہ وہ کلمہ پڑھتے ہیں، اقرارِ وحدت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو آخری نبی مانتے ہیں اس لئے ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے۔ پہلے جھوٹے نبیوں کے ساتھ نپٹ لیا جائے اور بعد ازاں ان کا فیصلہ کیا جائے لیکن حضرت ابوبکرؓ صدیق نے وہی کیا جو دین کا تقاضا تھا۔ بخاری میں روایت درج ہے:
حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا وصال مبارک ہوا اور آپؐ کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ کو خلیفہ بنایا گیا اور عرب کے کئی قبائل مرتد ہو گئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے ان سے لڑنا چاہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپؓ لوگوں سے کس بنیاد پر جنگ کریں گے جب کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے یہ فرمایا تھا’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک وہ کلمہ لا الہ الا اللہ کا اقرار نہ کر لیں پس جو شخص اقرار کر لے کہ لا الہ الا اللہ تو میری طرف سے اس کا مال اور اس کی جان محفوظ ہے۔البتہ کسی حق کے بدل ہو تو وہ اور بات ہے (مثلاً کسی کا مال مار لے یا کسی کا خون کرے) اب اس کے باقی اعمال کا حساب اللہ کے حوالے ہے۔‘‘ لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہٗ نے کہا کہ واللہ! میں تو اس شخص سے جنگ کروں گا جس نے نماز اور زکوٰۃ میں فرق کیا ہے کیونکہ زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ واللہ! اگر وہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں گے جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیتے تھے تو میں ان سے ان کے انکار پر بھی جنگ کروں گا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے کہا پھر جو میں نے غور کیا مجھے یقین ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہٗ کے دل میں لڑائی کی تجویز ڈالی ہے تو میں نے جان لیا کہ وہ حق پر ہیں۔ (بخاری 7285)
اس حدیث سے واضح ہوتاہے کہ حضرت ابوبکرؓصدیق نے نظریۂ ضرورت کو کبھی نہ اپنایا بلکہ ہمیشہ وہ راستہ اپنایا جس کا حق متمنیّ تھا۔
اگر حضرت عمر ؓکی بات کی جائے تو حضرت عمرؓ کی شہرت تھی کہ آپ ؓنے کبھی نظریۂ ضرورت کو راستے کی دیوار نہ بننے دیا۔ یہاں تک کہ آپؓ نے بہت سے عمال کو معطل کیا کبھی یہ نہ دیکھا کہ اس کا عہدہ کیا ہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ اس سلسلے میں ایک واقعہ درج کیا جا رہا ہے:
اسلام کے نامور سپہ سالار کی معزولی کا واقعہ 17 ہجری میں وقوع پذیرہوا۔حضرت خالد بن ولیدؓ اپنے شجاعانی اور جان فروشانہ کارناموں کے ساتھ بعض معاملات میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے تھے۔ وہ کبھی فوجی مہمات کے مصارف کا حساب وکتاب دربارِ خلافت میں نہیں بھیجتے تھے۔
خلیفہ اوّل سیدّنا حضرت ابو بکرؓ صدیق نرم طبیعت کے مالک تھے۔ وہ ایسی چھوٹی موٹی باتوں سے چشم پوشی فرماتے تھے۔ دوسرے اس نازک وقت میں اسلام کو حضرت خالد بن ولیدؓ کی تلوار کی سخت ضرورت تھی، بایں وجہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی خدمات کے پیشِ نظر حضرت سیدّنا صدیقِ اکبرؓ نے چشم پوشی سے کام لیا لیکن حضرت عمرؓ فاروق کو حضرت خالد بن ولید ؓکی روش اسی زمانہ سے پسند نہ تھی۔
چنانچہ حضرت عمرؓ مسندِخلافت پر جلوہ افروز ہوئے تو خالد بن ولیدؓ نے تب بھی اپنی روش نہ بدلی۔ آپؓ نے ان کو تاکید کی کہ وہ آئندہ ان کی اجازت کے بغیر ایک بکری بھی کسی کو نہ دیں گے اور فوجی مہمات کے مصارف کا باقاعدہ حساب و کتاب دربارِخلافت میں بھیجا کریں گے۔ حضرت خالدبن ولیدؓ نے جواب دیا’’میں حضرت ابو بکرؓ کے زمانۂ خلافت سے ایسا کرتا چلا آرہا ہوں اب اس کے خلاف نہیں کر سکتا۔‘‘
حضرت عمرؓ فاروق نے فرمایا ’’آپ سپہ سالار اُسی صورت میں رہ سکتے ہیں کہ فوجی مہمات کے مصارف کا حساب وکتاب باضابطہ بھیجتے رہیں۔‘‘ لیکن حضرت خالد بن ولیدؓ نے ایسا نہ کیا۔ اس پر حضرت عمرؓ فاروق نے ان کو معزول نہیں فرمایا بلکہ حضرت ابو عبیدہؓ کے ماتحت کردیا۔ بعد میں حضرت عمرؓ فاروق کو اطلاع ملی کہ حضرت خالد بن ولیدؓ نے اشعث بن قیس نامی ایک شاعر کو دس ہزار کی گراں قدر رقم دی ہے۔ اس پر حضرت عمرؓ فاروق نے ابو عبیدہؓ کو لکھا ’’حضرت خالد بن ولیدؓ کو گرفتار کرکے پوچھا جائے کہ اس کو اتنی بڑی رقم کہاں سے دی گئی؟ اگر یہ رقم اپنی جیب سے دی ہے تو اسراف کیا ہے اگر بیت المال سے دی ہے توخیانت کی ہے۔ دونوں حالتوں میں وہ معزولی کے قابل ہیں۔‘‘
چنانچہ تعمیلِ حکم میں حضرت ابو عبیدہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلایا اور مجمع عام میں ان سے پوچھا:یہ رقم کہاں سے خرچ کی، اپنی جیب سے یا بیت المال سے؟
یہ سن کر حضرت خالد بن ولیدؓ خاموش رہے۔ اس پر حضرت بلال ؓ آگے بڑھے اور خالد بن ولیدؓ کا عمامہ کھول کر اس سے ان کو باندھ دیا اور ٹوپی اتار دی۔ (سیرت سیدّنا بلالؓ، ص ۲۷۵، ۳۷۵)
اس سے اندازہ لگا لیں کہ حضرت عمرؓ دین کے معاملے میں کس قدر سخت تھے اور کیسے نظریۂ ضرورت کو پاؤں تلے روندڈالا۔
اِسی طرح حضرت عثمانؓ نے بھی دین کو چنا۔ جب آپ ؓکے خلاف باغیوں نے تلواریں سونت لیں تو آپؓ اپنی حفاظت کر سکتے تھے مگر آپؓ نے اپنے غلاموں کو بھی کہا’’جو تلوار نیام میں کر لے وہ آزاد ہے۔‘‘
وجہ یہ تھی کہ حضرت عثمانؓ امت میں فتنہ و فساد نہ چاہتے تھے۔ اس لئے انہوں نے موت کو گلے لگا لیا لیکن دین کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا معاملہ ہے بلکہ ان کے بارے میں تو مورخین نے لکھا ہے کہ ان کا طرزِ خلافت حضرت عمرؓ کی طرح تھا۔ آپؓ اپنے اعمال کے معاملے میں نہایت سخت اور کمزور کا سہارا تھے۔ یہاں تک کہ بیت المال کا سب مال عام مسلمانوں میں تقسیم کر کے بیت المال میں صفائی کروا کر وہاں نماز ادا کرتے اور فرماتے کہ جن کا مال تھا ان کو لوٹا دیا گیا۔ حکیم محمود ظفر لکھتے ہیں:
سیدّنا علی کرم اللہ وجہہٗ اپنی خلافت کا نظام ان بنیادوں پر چلانا چاہتے تھے جو سیدّنا عمرؓ نے قائم کی تھیں۔(امیرالمومنین سیدّنا علیؓ، ص 459)
بہترین اور نہایت معلوماتی تحریر ہے
Behtreen mazmoon
بہترین آرٹیکل ہے
حضرت عمرؓ نے جمعہ کے دن خطبہ میں کہا ’’اگر مجھے جلد موت آ جائے تو خلافت اُن چھ حضرات کے باہمی مشورے سے طے ہو گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اپنے وصال کے وقت خوش تھے۔ میں جانتا ہوں کہ کچھ لوگ جن کو میں نے اسلام کی خاطر اپنے اس ہاتھ سے ماراہے، وہ اس امر (خلافت) پر اعتراض کریں گے۔ اگر وہ ایسا کریں گے تو وہ اللہ کے دشمن، کافر اور گمراہ ہوں گے۔‘‘ (مسلم 1258)
Very beautiful ❤️ and informative article
فتنے حضرت عمرؓ کے دور میں دبے ہوئے تھے۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں جب چھ سال گزر گئے توفتنے ظاہر ہونا شروع ہو گئے جو بالآخر شہادتِ حضرت عثمانؓ کاباعث بنے۔
سیدّنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہیں کر وگے اور اپنی تلواریں نہیں نکال لو گے اور تم میں سے بد ترین لوگ تمہارے حکمران نہیں بن جائیں گے۔ ‘‘ (مسند احمد 23691)
بہت بہترین مضمون ہے۔
سیدّنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا’’قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تم اپنے امام کو قتل نہیں کر وگے اور اپنی تلواریں نہیں نکال لو گے اور تم میں سے بد ترین لوگ تمہارے حکمران نہیں بن جائیں گے۔ ‘‘ (مسند احمد 23691)
Allah pak humay Usman ra jitna sabr dey Ameen
Ya Ali ra mushkil khusha shair e khuda🌹🌹
بہترین مضمون ہے۔
اسی طرح حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کا معاملہ ہے بلکہ ان کے بارے میں تو مورخین نے لکھا ہے کہ ان کا طرزِ خلافت حضرت عمرؓ کی طرح تھا۔ آپؓ اپنے اعمال کے معاملے میں نہایت سخت اور کمزور کا سہارا تھے۔ یہاں تک کہ بیت المال کا سب مال عام مسلمانوں میں تقسیم کر کے بیت المال میں صفائی کروا کر وہاں نماز ادا کرتے اور فرماتے کہ جن کا مال تھا ان کو لوٹا دیا گیا
چنانچہ تعمیلِ حکم میں حضرت ابو عبیدہؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو بلایا اور مجمع عام میں ان سے پوچھا:یہ رقم کہاں سے خرچ کی، اپنی جیب سے یا بیت المال سے؟
یہ سن کر حضرت خالد بن ولیدؓ خاموش رہے۔ اس پر حضرت بلال ؓ آگے بڑھے اور خالد بن ولیدؓ کا عمامہ کھول کر اس سے ان کو باندھ دیا اور ٹوپی اتار دی۔ (سیرت سیدّنا بلالؓ، ص ۲۷۵، ۳۷۵)
بہترین مضمون ہے
عمدہ تحریر
Nice article
مضمون کا یہ سلسلہ مجھے بہت پسند ہے۔ اللہ پاک جزا عطا کرے
This is very informative and guiding article
خلفائے راشدین امت کے لیے مینارۂ نور ہیں
A very great Saint♥️
Great article
Eye opening history
بہت اچھا مضمون ہے۔ اچھی تحقیق سے لکھا گیا ہے۔