نظم وترتیب کی اہمیت وافادیت Nazm o Tarteeb ki Ahmiyat aur Ifaadiyat
تحریر: مسز فاطمہ برہان سروری قادری
لفظ’’ـ نظم‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ’’ایک لڑی میں پرونایا ایک سلسلے میں ترتیب دینا‘‘ کے ہیں ۔ لفظ نظم کو عمومی طور پر ضبط کے ساتھ ملا کر پڑھا جاتا ہے۔ ضبط بھی عربی زبان کا لفظ ہے۔ یہ بات چنداں دلائل اور وضاحت کی محتاج نہیں کہ دین ودنیا میں کامیابی کے لیے موزوں منصوبہ بندی، مخصوص ومتعین طریقہ کار، ترتیب، اصول وضوابط، حدود وقیود اور آداب ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں بیان کیا جائے تواصول وضوابط، حدود قیود، آداب کی پابندی اور منظم انداز میں کام کو سر انجام دینا نظم وضبط کہلاتا ہے۔
نظم کو وسیع معنوں میں سمجھا جا ئے تو اس کے دو حصے ہیں؛ ایک ترتیب و آہنگی اور دوسرا اتحاد۔
مجمو عی طور پر اس سے مراد اپنی ظاہری وباطنی شخصیت کو نظم کے رہنما اصولوں کے مطابق ڈھالنا، اپنی زندگی کو ایک خاص رُخ کی جانب ترتیب دینا،اپنی سوچ، فطرت اور عمل میںیگانگت اور ہم آہنگی پیدا کرناہے، اس سے مراد اتحاد قائم کرناہے خواہ وہ ظاہر وباطن کا ہو یا انفرادی و اجتماعی ہو۔
اسلام ہمیں زندگی کے ہر پہلو میں نظم و ضبط کے سنہری اصول اپنانے کی تربیت دیتا ہے۔کائنات اس نظم وضبط کی عظیم مثال ہے۔ سورج کا طلوع ہونا، رات کا دن میں تبدیل ہونا، چاند کا اُفق پرہلال کی صورت میں نمودار ہونا اور پھر ماہِ کامل کی صورت اختیار کرلینا۔ الغرض ہوائوں کا چلنا، مو سموں کا بدلنا، پہاڑوں پر جمی برف کا پگھلنا اور ندی نالو ں کا رواں دواں ہونا، ستاروں کا گردش کرنا۔۔۔ یہ سب نظم وضبط کے قوانین اور ضابطوں کے مظہر ہیں۔ کا ئنات کس حیرت انگیز ترتیب اور نظم سے رواںہے قرآنِ کریم خود اس کی شہادت دیتا ہے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَالشَّمْسُ تَجْرِیْ لِمُسْتَقَرِّلَّھَاط ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ (سورۃیسٓ۔38)
ترجمہ :اور سورج ہمیشہ اپنی مقررہ منزل کے لیے (بغیر رُکے) چلتا رہتا ہے، یہ بڑے غالب بہت علم والے (ربّ) کی تقدیر ہے ۔
وَالْقَمَرَ قَدَّرْنٰہُ مَنَازِلَ حَتّٰی عَادَ کَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِیْمِ (سورۃ یسٓ۔39)
ترجمہ:اور ہم نے چاند کی (حرکت وگردش کی)بھی منزلیں مقرر کر رکھی ہیں یہاں تک کہ (اس کا اہلِ زمین کو دکھائی دینا) گھٹتے گھٹتے کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح ہو جاتا ہے۔
لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَھَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّھَارِ ط وَکُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ (سورۃ یٰسٓ۔ 40)
ترجمہ:نہ سورج کی یہ مجال کہ وہ (اپنا مدار چھوڑ کر) چاند کو جا پکڑے اور نہ رات ہی دن سے پہلے نمودار ہو سکتی ہے اور سب (ستارے اور سیارے )اپنے (اپنے) مدار میں حرکت پذیر ہیں۔
اگر ہم خاتم النبییٖن حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا بغور جائزہ لیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو خواہ اس کا تعلق گھر کی چار دیواری کے اندر خلوت سے ہویا ریاست کے امور سے ہو یا جنگ کی حکمتِ عملی سے متعلق ہو، سب میں نظم وترتیب کا نمایاںاصول جھلکتا تھا ۔
سیدّ الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد سے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مکان پر تشریف لے جانے کے حالات دریافت کیے تو آپؓ نے فرمایا: ’’حضور اقدس صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مکان میں تشریف رکھنے کے وقت کو تین حصوں پر منقسم فرماتے تھے۔ ایک حصہ حق تعالیٰ شانہٗ کی عبادت میں خرچ فرماتے تھے یعنی نماز وغیرہ پڑھتے تھے۔دوسرا حصہ گھروالوں کے ادائے حقوق میں خرچ فرماتے تھے مثلاًان سے ہنسنا، بولنا، بات کرنا، ان کے حالات کی تحقیق کرنا۔ تیسرا حصہ خاص اپنی ضروریات اورراحت وآرام کے لیے رکھتے تھے، تاہم اس اپنے والے حصہ کو بھی دو حصوں پر اپنے اور لوگوں کے درمیان تقسیم فرما دیتے۔‘‘ (شمائل ترمذی۔ 314)
نظم کا تعلق وقت کی مناسب تقسیم وترتیب سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زندگی سے ہمیں یہ سبق سیکھنے کو ملتا ہے کہ دن کو کس طرح تقسیم کیا جائے، کھانے، سونے، جاگنے، میل جول سب میں مناسب نظم وترتیب کیا ہونی چاہیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کی ترتیب اس طرح فرماتے تھے کہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے مروی ہے ’’ نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم رات کے پہلے پہر میں سو جاتے تھے اور آخری پہر میں بیدار ہو تے تھے۔ ‘‘(مسند احمد۔ 25004)
نظم سے کام کی حسنِ ادائیگی بڑھتی ہے اور انسان کی شخصیت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں۔حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زندگی سے ہمیں کھانے کی مناسب ترتیب کے متعلق رہنمائی حاصل ہو تی ہے کیو نکہ شہوتِ معدہ دیگر تمام شہوات کی جڑہے ۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ بڑا نہیں بھرا۔ آدمی کے لیے چندلقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھ سکیں۔اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ کھانا کے لیے ،ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔ (جامع ترمذی 2380)
یہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ہی تربیت کا نتیجہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے عرب کی وحشی صفت قوم کو زندگی کے ہر معاملہ میں نظم وترتیب اور دیگر اخلاقی صفات سے مالامال کر کے دنیا کی مہذب و منظم ترین قوم بنادیاتھا۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے جنگی امور میں نظم وضبط اور حکمتِ عملی کی بات کریں تو غزوۂ بدر اور غزوۂ تبوک اس کی ایسی مثالیں ہیں جن کا تاریخ میں کوئی ثانی نہیں۔ غزو ۂ احد میں مسلمانوں کی شکست کی وجہ بھی جنگی نظم، جو خود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مرتب فرمائی تھی، کی خلاف ورزی تھی۔ نظم وضبط کی اہمیت و افادیت قرآن اوراحادیث کی رُو سے بیان کرنے کے بعد یہ جاننا ضروری ہے کہ شب و روز کے اوقات میں اور روز مرہ کے معا ملات میں کس طرح نظم وضبط جاری رکھا جائے ۔کسی بھی عمل میں نظم وضبط کی پختگی کے لیے ضروری ہے کہ اس عمل میں تسلسل کو بر قرار رکھا جائے ۔
مثال کے طور پر اگر نظم وضبط کے ساتھ تمام معاملات طے کرنے کا ارادہ کر لیا ہے اور مناسب ترتیب بھی بنائی ہے تو ضروری ہے کہ استقامت کے ساتھ اس ترتیب پر عمل کیا جاتا رہے۔عمل میں تسلسل جاری رکھنے کے متعلق ارشاد ہوا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ہا ں محبوب ترین کام وہ ہے جس پر ہمیشہ عمل کیا جائے، اگرچہ وہ قلیل ہو۔ ( صحیح مسلم 1830)
سیدّنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کا جب آخر ی وقت آیا تو آپؓ نے سیدّنا حسنؓ وسیدّ نا حسینؓ کو بلایا اور فرمایا:
أُوْصِیْکُمَا بِتَقْوَی اللّٰہِ وَالتَّثَبُّتُ فِی الْأَمْرِ
ترجمہ:میں تم دونوں کو اللہ سے ڈرنے اور معا ملات میں تسلسل وتثبت کی وصیت کرتا ہوں۔
مولائے کائنات سیدّنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی اس نصیحت پر غور و فکر کرنے سے یہ رازعیا ں ہوتاہے کہ کوئی بھی کام اس وقت تک فائدہ مند نہیں ہوتا جب تک مستقل مزاجی کے ساتھ منظم ہو کر اسے سر انجام نہ دیا جائے۔
کامیاب لوگ وہی ہوتے ہیں جو اپنے معاملات کو منظم کرنا جانتے ہیں۔ اگر کوئی شخص اپنی زندگی میں نظم وترتیب اور اعتدال وتوازن نہ کرتا ہو تو ایسا شخص کبھی معاشرے میں اپنی شخصیت بر قرار نہیں رکھ سکتا اور نہ اس کی قدر ومنزلت ہوتی ہے ۔
ریاستِ مدینہ کا نظم ونسق
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں نہ صرف انفرادی سطح پر منظم ہونے کے سنہری اصول سکھائے بلکہ ریاستِ مدینہ کی بنیاد ڈال کر ہمیں بحیثیتِ قوم ایک لڑی میں پرو دیا۔ جسمِ واحد کی طرح ایک سانچے میں ڈھال دیا اور ایک ہی جھنڈے تلے جمع کردیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے عطا کردہ دستور نے ریاستِ مدینہ کی صورت میں ایک اسلامی فلاحی مملکت کی تشکیل وتنظیم کر کے دنیا کو امن، بقائے باہمی اور خیرو فلاح کا درس دیا ہے۔ کتاب ’’دستورِ مدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور‘‘ میں ریاستِ مدینہ کے متعلق لکھا ہے:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تاریخِ انسانیت کی وہ پہلی اور عظیم شخصیت ہیں جنہوں نے دساتیر کی توضیع وتشکیل کے لیے بہترین اصول وضع فرمائے، جن میں مساوات، اظہارِ رائے کی آزادی، عدل وانصاف ،امن وسلامتی اور نظامِ شوریٰ شامل ہیں۔ آپؐ نے نہ صرف یہ اصول وضع فرما ئے بلکہ اپنی زندگی میں ہی انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔ یہ امور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی دور اندیشی، فقید المثال فہم وادراک اور فراست وبصیرت کو ظاہر کرتے ہیں۔ (دستورِمدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور )
حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے مسلمانوں کو متحد کرنے کے لیے بہترین ترتیب (management)کے ذریعہ ریاست کی بنیاد رکھی اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین نے اسے وہ عروج عطا کیاجو قابل تحسین ہے ۔ خلفائے راشدین میں خصوصاً با لخصوص حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے جس بہترین اورمنظم انداز میں ریاست کو مضبوط کیا، مختلف محکمے تشکیل دئیے، مختلف نظام متعارف کروائے، وہ رہتی دنیا کے لیے مثالی نمونہ ہیں۔
تحریک دعوتِ فقر کا نظم ونسق
تحریک اپنے قائد کی شخصیت کا عکس ہوتی ہے اور اس کی شخصیت کارکنوں کے لیے رول ماڈل (عملی نمونہ) ہوتی ہے۔ تحریک دعوتِ فقر کے بانی وسرپرستِ اعلیٰ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کو اللہ تعالیٰ نے بے بہا صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ نظم وضبط اور ہر کام کو مناسب ترتیب کے ساتھ سر انجام دینا یہ آپ مدظلہ الاقدس کی شخصیت کا نمایاں وصف ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس اپنے مریدین کی تربیت بھی اسی انداز میں فرماتے ہیں کہ ان میں بھی یہ صفت اجاگرہو جاتی ہے۔ تحریک دعوتِ فقر موجودہ دور میں بہترین management اور نظم وترتیب کی زندہ مثال ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس نے تحریک دعوتِ فقر کی بنیاد اور راہِ حق کی تبلیغ واشاعت کے لیے اپنے مریدین کی تربیت انہی اصولوںپر فرمائی ہے جس طرح حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تربیت فرمائی، ریاستِ مدینہ کی بنیاد رکھی اور فقر کا پیغام لوگوں تک پہنچایا۔ ریاستِ مدینہ کو قائم کرنے کا مقصد ہی یہی ہے تا کہ مسلمانوں کی اپنی ایک پہچان ہو، مسلمان دنیاوی اور اُخروی طور پر کامیاب ہوں اور دعوتِ فقر پوری دنیا میں عام ہو۔
موجودہ دور میں دعوتِ فقر کا فریضۂ حق سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے’’ تحریک دعوتِ فقر ‘‘کی بنیاد رکھ کرادافرمایاہے۔ تحریک دعوتِ فقر ایک غیر سر کاری، غیر سیاسی جماعت ہے جس کا فرقہ واریت سے کوئی تعلق نہیں۔ فقرِمحمدیؐ کے علمبردار، امام سلسلہ سروری قادری اوربانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس انتہائی منظم،دور اندیش اور اصول پسند انسان ہیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ مدظلہ الاقدس نے اللہ کی اس جماعت ’’تحریک دعوتِ فقر ‘‘کو کامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لیے روزِ اوّل سے ہی جماعت کے اغراض و مقاصد،عہدیداران اور شعبہ جات کے نظام کو وضع فرمادیا۔بلا شبہ آپ مدظلہ الاقدس اس امر سے بخوبی واقف تھے کہ آنے والے وقت میں یہ جماعت دنیا بھر میں فقرِ محمدیؐ کی تعلیمات کو عام کرنے کا فریضہ سر انجام دے گی اور لوگ جوق در جوق اللہ کی اس جماعت میں شامل ہو کر دین ودنیا کی فلاح و کامیابی حاصل کریں گے۔ جو افراد تحریک دعوتِ فقر کے شعبہ جات میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں وہ اس بات کے گواہ ہیںکہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سنتِ نبویؐ کے عین مطابق ہر کام کو منظم اور ترتیب وار سر انجام دینے پر کس قدر زور دیتے ہیں۔ آج تحریک دعوتِ فقر چند افرادسے بڑھ کر لاکھوں کی تعداد پر مشتمل ہے جس کا سہرا بلا شبہ بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے سر ہے کہ جنہوں نے بہترین حکمتِ عملی، نظم و نسق اور ترتیب کی بدولت اللہ کی جماعت کو ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ عطا کیا کہ ہر نیا شامل ہونے والا خوش نصیب بآسانی اپنی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق اس بات کا انتخاب کر سکتا ہے کہ وہ کس شعبہ میں شامل ہو کر پیغامِ فقر کو عام کرنے میں معاون و مددگارثابت ہو سکتا ہے۔ قارئین کے لیے ’’تحریک دعوتِ فقر‘‘ کے قیام کے اغراض و مقاصد، عہدیداران اور شعبہ جات کی سرسری سی تفصیل پیش کی جا رہی ہے تاکہ ہر شخص غور و فکر کرے کہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے وہ کس طرح اللہ کے پیغام کو عوام الناس تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔
تحریک دعوتِ فقر کے قیام کے اغراض و مقاصد
لقائے الٰہی اور معرفتِ الٰہی کے فریضہ کی ادائیگی
حضور علیہ الصلوٰۃالسلام کی مجلس کی حضوری اور ان سے بلاواسطہ فیض حاصل کرنا
تزکیۂ نفس
تصفیۂ قلب
تجلیۂ روح
روحانی پاکیزگی
دنیا اور آخرت میں اللہ کے ہاں کامیابی
عبادات میں قلب کی حضوری
اللہ کے سوا غیر کی محتاجی سے نجات
مقصدِحیات میں کامیابی
تحریک دعوتِ فقر کا دستوری ڈھانچہ
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کا قائم کردہ تحریک دعوتِ فقر کا دستوری ڈھانچہ مندرجہ ذیل ہے :
مجلسِ خلفا:
دستور کے آرٹیکل 31کے تحت سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مد ظلہ الاقدس کے خلفا پر مبنی ایک مجلس قائم کی گئی ہے جس کا مقصد تحریک کی راہنمائی ہے اور ہر خلیفہ کے ذمہ مختلف شعبہ جات کی نگرانی ہے۔
انتظامیہ کمیٹی :
دستور کے آرٹیکل 32کے تحت ایک انتظامیہ کمیٹی ہے جو تحریک دعوتِ فقر کا نظم ونسق چلاتی ہے۔ انتظامیہ کمیٹی دستور کے آرٹیکل 37کے تحت ہر سال دستور کے آرٹیکل 10,11,12,13,14,15,کے تحت منتخب ہونے والوں عہد یداروں منتظمِ اعلیٰ، صدر، نائب صدر، جنرل سیکرٹری، جوائنٹ سیکرٹری، ترجمان تحریک دعوتِ فقر امورِداخلہ اور ترجمان امور خارجہ پر مشتمل ہوتی ہے ۔
مجلسِ شوریٰ :
دستور کے آرٹیکل 33کے تحت تحریک کاکام مشاورت سے چلانے کے لیے مجلسِ شوریٰ کی بنیاد رکھی گئی ہے۔
جنرل کونسل :
جنرل کونسل کے ممبران کا انتخاب مجلسِ شوریٰ اپنے حلف کے بعد اہلیت کی بنا پر کثرتِ رائے سے کرتی ہے۔
تحریک دعوتِ فقر کے شعبہ جات
فقرِمحمدیؐ کے پیغام کو منظم انداز میںہر خاص و عام تک پہنچانے کے لیے بانی و سرپرستِ اعلیٰ تحریک دعوتِ فقر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے جماعت میں مختلف شعبہ جات قائم فرمائے ہیں تاکہ دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق دعوتِ فقر کو ہر سطح پر عام کیا جا سکے۔تحریک دعوتِ فقر کے اہم شعبہ جات کی تفصیل درج ذیل ہے:
سلطان الفقر پبلیکشنز
ماہنامہ سلطان الفقر لاہور
سلطان الفقر ڈیجیٹل پروڈکشنز
ویب سائٹ ڈو یلپمنٹ ونگ
شعبہ سوشل میڈیا
ویب سائٹ پروموشن ونگ
شعبہ دعوت و تبلیغ
شعبہ اطلاعات ونشریات
شعبہ ریسرچ اینڈڈویلپمنٹ
شعبہ سیکورٹی
شعبہ بیت المال
شعبہ لنگر
شعبہ بین الاقوامی امور
مرکزی رابطہ کمیٹی
تحریک دعوتِ فقر کے علاقائی دفاتر
حاصلِ کلام :
انسان کی کامیابی کے لیے نظم وضبط کی پا بندی کرنااور حضورعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی سنت کے مطابق تمام دینی و دنیاوی امورمناسب ترتیب سے انجام دینا ضروری ہے۔ جب تک بندہ اپنے معاملات میں اُلجھا رہتا ہے اس کی توجہ اللہ کی جانب مبذول نہیں ہو سکتی اس لیے پہلے اپنی سوچ اور عمل میں ہم آہنگی پیدا کرنی چاہیے۔جب طالبِ مولیٰ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے تو اُس کا اللہ کی جانب سفر کرنے کا راستہ آسان ہو جاتا ہے ۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کی سرپر ستی میں تحریک دعوتِ فقر کامیابی کے ساتھ رواںدواں ہے۔ طالبِ مولیٰ کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے تحریک دعوت فقر کے ڈسپلن اور نظم کو قائم رکھنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے ۔یہی دینی ودنیاوی کامیابی کی ضمانت ہے۔
استفادہ کتب:
سلطان العاشقین: ناشر سلطان الفقر پبلیکشنز
دستورمدینہ اور فلاحی ریاست کا تصور : ڈاکٹر حسن محی الدین قادری