بزمِ سلطان العاشقین Bazm-e-Sultan-Ul-Ashiqeen
قسط نمبر 1 تحریر: سلطان محمد عبداللہ اقبال سروری قادری
میرے دل میں 2023ء میں یہ خواہش شدت سے پیدا ہوئی کہ میرے مرشد سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس جو فرماتے ہیں اس کو لکھ لیا جائے اور پھر اسے کتابی صورت میں لایا جائے۔ لیکن اس ڈر سے کہ پتا نہیں اجازت ملے یا نہ ملے، میں چپ رہا۔ چند دن بعد جب لاہور سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضری دی توآپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا کہ ہم جو کہیں اس کو لکھ لیا کرو شاید تمہیں ضرورت پڑے۔ اس روز میں بے حد خوش ہوا کہ مجھے اجازت مل گئی۔ پھر جب بھی مجھے موقع ملا اور آپ مدظلہ الاقدس جو کچھ فرماتے میں تحریر کر لیتا۔ آپ مدظلہ الاقدس نے یہ بھی مہربانی فرمائی کہ جب آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں آتا تو آپ طویل گفتگو فرماتے۔ کئی بار میں حاضر نہ ہو سکا جس کی وجہ سے بہت کچھ قلمبند ہونے سے رہ گیا۔ اس کا مجھے بہت افسوس رہا اور ابھی تک ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی گفتگو قلمبند کرتے ہوئے میں نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ الفاظ و جملے تبدیل نہ ہوں کیونکہ فقیر ِکامل کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے ہر لفظ کے پیچھے حکمت ہے اور اسوقت اس لفظ سے زیادہ بہتر اور کوئی لفظ نہیں۔ اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ جس انداز سے آپ مدظلہ الاقدس گفتگو فرماتے اس کی تصویر کشی ممکن نہیں۔ اس وقت سب حاضرین پر ایک خاص کیفیت طاری ہوتی ہے۔ ایسے محسوس ہوتا کہ سب کچھ آنکھوں کے سامنے موجود ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں سب حاضرین جب اٹھتے تو جس سے پوچھو یہ کہتا کہ اس کو اس کے سوالوں کا جواب مل گیا گو کہ اس نے سوال کا اظہار نہیں کیا۔
’’بزمِ سلطان العاشقین‘‘ سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس کے ملفوظات کا مجموعہ ہے۔ یہ علم و معرفت کا ایک عمیق سمندر ہے جس کی گہرائی کسی عارف باللہ کو ہی سمجھ آ سکتی ہے۔ ان کے معانی پھول کی پتیوں کی طرح ہیں کہ ایک پتی اُتارو تو نیچے اور پتی اور اس کے نیچے ایک اور۔ ہر کسی پر اس کی استعداد کے مطابق معنی کھلتے ہیں۔ اس علمِ لدّنی کی مثال وہی ہے کہ امام عزالدین عبدالعزیز بن عبد السلام بہت بڑے عالم تھے اور صوفیا کے خلاف تھے۔ جب وہ پہلی بار اپنے مرشد کے پاس گئے تو مرشد کی بات سن کر پکار اٹھے یہ کلام آج ہی نازل ہوا ہے۔
جو راہِ تصوف پر چلنا چاہتا ہے اس کے لیے ان ملفوظات کا مطالعہ نہایت ضروری ہے۔ یہ ملفوظات متلاشیانِ حق کی رہبری کے لیے جمع کیے گئے ہیں۔ یہ ملفوظات اسمِ اعظم کا درجہ رکھتے ہیں۔ اس عاجز نے جس روز بھی ان پر کام کیا اس دن اللہ کی خاص رحمت رہتی ہے۔ آج بھی جب کوئی صفحہ پڑھتا ہوں تو اللہ مشکل آسان فرما دیتا ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے یہ ملفوظات سالک کے لیے راہِ فقر پر زادِ راہ ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ کس مقام پر ہے۔ آپ مدظلہ الاقدس کے ملفوظات میں ابتدائی طالب کے لیے بھی رہنمائی ہے اور عارف باللہ بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ مدظلہ الاقدس کی عارفانہ باتیں تصوف کی پیچیدگیوں کی گرہ کھولتی چلی جاتی ہیں۔
موجودہ دور میں امتِ مسلمہ اپنی منزل و مقام سے نا آشنا ہو چکی ہے۔ آج ہمارے اردگرد بدعات، مشرکانہ روایات اور لادینیت کا دور دورہ ہے۔ مادہ پرستی سوچ پر غالب آ چکی ہے۔ قربِ الٰہی اور فقر کی طلب ناپید ہے۔ ان حالات میں ضروری تھا کہ مسلمانوں کو بھولا ہوا سبق یاد کرایا جائے۔ اسی کے پیشِ نظر ملفوظات سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس تحریر کیے جا رہے ہیں۔ اکیسویں صدی کا حق تبھی ادا ہو سکتا تھا اگر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے جو فرمایا وہ بیان کیا جائے۔ اس دور میں جس ہستی نے روحِ اسلام کو حیاتِ نو بخشی ہے وہ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس ہیں۔
ان ملفوظات کو ترتیب دینے کے لیے سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کے تمام خلفا سے بھی مدد لی گئی ہے۔ سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس کی جو گفتگو میں نے نہیں سنی بلکہ دیگر خلفا نے سنی تھی اور اسے قلمبند کیا گیا تھا، اسے بھی نقل کر لیا اور اگر کسی نے مکمل روایت کے ساتھ زبانی بتایا تو اس کی بھی تصدیق کر لی گئی۔
سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس سے عاجزانہ درخواست ہے کہ مجھ پر اپنی رحمت فرمائیں اور یہ کام کرنے میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں ہوئیں انہیں معاف فرمائیں اور اس عاجزانہ کوشش کو اپنی بارگاہ میں قبولیت کے شرف سے نوازیں۔ آمین
توبہ
بات توبہ کی طرف چل نکلی توسلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمٰن مدظلہ الاقدس نے فرمایا:
وہ بے نیاز ذات ہے وہاں تو رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے۔ الرسالتہ الغوثیہ میں ہے کہ سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ نے اللہ پاک سے پوچھا ’’یااللہ! آپ کو کون سی توبہ زیادہ پسند ہے؟‘‘ فرمایا: ’’بے گناہ کی توبہ۔‘‘
آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم روزانہ ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے۔ جو بھی مانگنا ہے عاجزی سے مانگنا پڑے گا، وہ بے نیاز ذات ہے دے یا نہ دے۔ وصال طلب کریں یا جو بھی طلب کرناہے وہ رو رو کر ہی کرنا پڑے گا، اکڑ سے یا ضد سے حاصل نہیں کر سکتے۔ جو بھی حاصل کیا جاتا ہے عاجزی سے حاصل کیا جاتا ہے۔
’’اخبار الاخیار‘‘ میں ہے کہ مرید کے لیے ہر وقت توبہ و استغفار کرنا ضروری ہے اور توبہ و استغفار کے ہوتے ہوئے گناہ نہیں لکھا جاتا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ گناہ اس سے بالکل سرزد ہی نہ ہو۔ اسی وجہ سے مشائخ کرام اپنے مریدوں کو سوتے وقت استغفار کی تاکید کرتے ہیں تاکہ دن بھر کے وہ گناہ جو ابھی تک رحمتِ الٰہی کی وجہ سے نہیں لکھے گئے ہیں ، کتابت و ظہور میں نہ آئیں۔
مرید اپنی توبہ میں اس وقت راسخ اور قائم سمجھا جائے گا جب کہ اس کے بائیں طرف والے فرشتہ نے بیس سال تک اس کا ایک بھی گناہ نہ لکھا ہو۔ (اخبار الاخیار، ص 61)
فارسی کا شعر ہے:
اکنون باید اے خفت بیدار بود
جو مرگ اندر آرد ز خواست چہ سود
تو پیش از عقوبت در عضو کوب
کہ سودے ندارد فغاں زیر چوب
ترجمہ: اے سونے والے! ابھی جاگ۔ جب موت خواب سے بیدار کرے توکیا فائدہ۔سزا سے پہلے ہی معافی کا دروازہ کھٹکھٹا۔ ڈنڈے کے نیچے فریاد فائدہ نہ دے گی۔
فرمایا: انسان ضعیف ہے لیکن بیوقوف اتنا ہے کہ قوی کی نافرمانی کرتا ہے۔ اللہ فرماتا ہے:
وَ خُلِقَ الْاِ نْسَانُ ضَعِیْفًا (سورۃالنسا ۔28)
ترجمہ: اور انسان کمزور پیداکیا گیا ہے۔
پھر یہ ضعیف قوی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتا ہے۔
کسی نے پوچھا کہ توبہ کس کو کرنی چاہیے؟
فرمایا: قرآن میں ہے:
وَ تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ (سورۃالنور ۔31)
ترجمہ: اورتم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرواے مومنو!
اس لیے سب کے لیے توبہ کا حکم ہے۔ جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر روز توبہ کرتے تو باقی کون ہے جو اس سے مستثنیٰ ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے امر و نواہی کی تعمیل میں کوتاہی ہر شخص سے ہوتی ہے اس لیے سب کو توبہ کرنی چاہیے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا کہ تمام بنی آدم خطاوار ہیں اور خطاواروں میں سب سے اچھے توبہ کرنے والے ہیں۔ (الترمذی، ابنِ ماجہ، الدارمی)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ جب قرآن کی تفسیر سے فارغ ہوتے تو فرماتے کہ اس مجلس کو استغفار پر ختم کرو۔
فرمایا: ہاں! انسان سے جب غلطی ہو جائے تو تو بہ میں جلدی کرے۔ کیونکہ اللہ فرماتا ہے:
فَاسْتَبِقُوا الْخَیْرٰتِ (سورۃالبقرۃ۔ 148)
ترجمہ: تم نیکیوں کی طرف جلدی کرو۔
حضرت خواجہ حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے گیا تو رات کو میں حرم شریف میں قیام کرتا تھا تاکہ تمام رات عبادت میں گزر سکے اور میں ہر رات دیکھتا کہ ایک نیک ہستی تشریف لاتی اور وہ شخص صبح تک کعبہ کے دروازہ کے سامنے دعا کے لیے ہاتھ بلند کرتا اور نہایت پرُ سوز الفاظ میں دعا مانگتا ’’اے اللہ! میں تیرا عاجز بندہ ہوں، اے اللہ تعالیٰ میری مغفرت اور بخشش فرما۔‘‘
حضرت حسن بصریؓ فرماتے ہیں کہ ایک رات جب وہ دعا مانگ کر حرم سے باہر جانے لگے تو میں نے عرض کی حضور آپ کون ہیں؟ فرمایا: تم کون ہو؟
میں نے عرض کی کہ میرا نام حسن ہے، بصرہ کا رہنے والا ہوں۔
فرمایا: میرا نام بھی حسن ہے اور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نواسہ ہوں۔
میں نے عرض کیا کہ حضور آپؓ ایسے دعا مانگتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو گناہوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔
فرمایا: اے حسن بصریؓ ! کیا ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہ کریں؟ کیا تم نے سنا نہیں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم تمام رات عبادت میں مصروف رہتے اور پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ آپ تو معصوم ہیں، آپ کو اتنی عبادت کی کیا ضرورت ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ’’کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار بندہ نہ بنوں؟‘‘
فرمایا: ابلیس کے مردود ہونے کی بھی وجہ یہ ہے کہ اس نے نہ تو گناہ کا اقرار کیا اور نہ توبہ کی جبکہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کا اقرار کیا اور توبہ کی تواللہ تعالیٰ نے ان کو مقبول فرمایا۔حضرت کہمسؓ فرماتے ہیں کہ اللہ نے حضرت داؤد علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ اے داؤدؑ! بنی اسرائیل کوکہہ دیجئے کہ تم کو کس طریق سے یہ خبر پہنچی ہے کہ میں نے تمہارے گناہ بخش دئیے کہ تم نے گناہوں پر ندامت چھوڑ دی ہے ۔ مجھے اپنی عزت و جلالت کی قسم ہے کہ میں ہر گنہگار سے قیامت کے دن اس کے گناہ پر حساب لوں گا۔
کسی نے جوانی اور بڑھاپے کی توبہ کے بارے میں پوچھا تو فرمایا:
حضور سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے ہاں اگر نوجوان تو بہ کے لیے حاضر ہوتا تو فرماتے: تو نہیں آیا جب تک کہ تجھے بلایا نہیں گیا، مشکل سفر سے توخود نہیں لوٹا یہاں تک کہ تجھے لوٹایا گیا۔ ہم نے تجھے نہیں چھوڑا اس کے لیے جو تو نے ہمیں نہیں چھوڑااور ہم نے تجھے نہیں بھلایا اس کے لیے جو تم نے ہمیں نہیں بھلایا۔ تو اپنی عزت میں ہے ہم تیری حفاظت میں۔ پھر ہم نے تجھے اپنے قرب کے لیے متحرک کیا اور تیرے انس سے تیرے پاس آئے۔
اور جب آپؓ کے پاس کوئی بوڑھا توبہ کے لیے کھڑا ہوتا تو فرماتے : اے فلاں ! تو نے خطا کی یہاں تک کہ تو بوڑھا ہو گیا اور تیرا نفس سرکش ہو گیا۔ تو نے ہمیں بچپن سے چھوڑ دیا ہم نے تجھے معذور رکھا، تو ہم سے شباب میں دور رہا ہم نے تجھے مہلت دی۔ تو نے بڑھاپے میں ہم سے بغض رکھا ہم تجھ سے بیزار رہے۔ اگر تو اب واپس آگیا ہے تو ہم تجھے قبول کرتے ہیں۔
پھر سلطان العاشقین مدظلہ الاقدس نے فرمایا:
انسان کی جو بھی عمر ہو اللہ سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ شیطان مایوس ہو گیا تھا اور حضرت آدمؑ مایوس نہیں ہوئے۔
علامہ ابنِ عربی’’ فتوحات مکیہ ‘‘میں فرماتے ہیں کہ ہر حال میں اپنے ربّ سے اچھا گمان رکھ اور بد گمانی نہ کر۔ کیونکہ تو نہیں جانتا کہ تیرا جو سانس باہر آرہا ہے کہیں یہ تیرا آخری سانس تو نہیں؟ اگر تو مر گیا تو اللہ سے خوش گمانی پر ملاقات کرے گا، بد گمانی پر نہیں۔ تو نہیں جانتا، ہو سکتا ہے کہ اللہ اس کی طرف نکلے اسی سانس پر تیری روح قبض کرلے۔ اور ایسے شخص کی بات پر کان نہ دھر جو یہ کہتا ہے کہ زندگی میں بدگمان ہو جائے تو کوئی بات نہیں لیکن موت کے وقت اللہ سے اچھا گمان ہی رکھ۔ یہ عارف باللہ کے نزدیک غیر معلوم بات ہے کیونکہ وہ ہر دم اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اِس میں فائدہ اور علم باللہ ہے کہ تو نے اس بارے میں اُس کا حق ادا کیا۔ بیشک تجھ پر اللہ کا حق اُس کے اس قول پر ایمان لانا بھی ہے:
وَنُنْشِئَکُمْ فِیْ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (سورۃ الواقعہ ۔61)
ترجمہ: اور ہم تمہیں ایسی صورت میں پیدا کردیں جسے تم جانتے بھی نہ ہو۔
ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس سانس کے نکلتے وقت جس کے بارے میں تیرا یہ خیال ہو کہ وہ واپس آئے گا، تجھے نشانات موت میں تبدیل کر دے اور تو اُس وقت ربّ سے بدگمانی کی حالت پر ہو اور اسی حالت پر تیری اُس سے ملاقات ہو جائے۔ حدیثِ قدسی ہے کہ میں اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں لہٰذااسے مجھ سے اچھا گمان کرنا چاہیے۔
یہاں اللہ نے اچھے گمان کے لیے کوئی وقت مخصوص نہیں کیا۔ اللہ سے گمان کو اپنا یہ یقین بنا کہ وہ معاف کرتاہے، بخشتا ہے اور درگزر کرتا ہے۔ اس گمان کی دلیل اللہ کا یہ قول ہونا چاہیے:
یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلیٰٓ اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ (سورۃالزمر۔ 53)
ترجمہ: اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، تم اللہ کی رحمت سے نا امید مت ہونا۔
اس نے تجھے روکا ہے اور جس چیز سے اس نے تجھے روکا ہے تجھے اس سے رُک جانا چاہیے۔ پھر اس نے بتایا ہے اور اس کی بات سچی ہے جو منسوخ نہیں ہوتی۔ کیونکہ اگر یہ منسوخ ہوتی تو جھوٹی ہوتی جبکہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ ناممکن ہے۔ اس نے کہا ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذّْنْوْبَ جَمِیْعًا (سورۃالزمر۔ 53)
ترجمہ: بیشک اللہ تمام گناہ بخش دیتا ہے۔
یہاں اس نے کسی ایک گناہ کو دوسرے سے مخصوص نہیں کیا بلکہ اپنے قولِ تمام سے زور دیا پھر اس آیت کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا: بیشک وہ یہاں ایسی ضمیر استعمال کی جو اُسی کی جانب لوٹتی ہے غفور و رحیم ہے کہ اس کی رحمت اس کے غضب سے آگے ہے۔ اسی طرح فرمایا:
’’ جن لوگوں نے ظلم کیا‘‘ یہاں بھی کسی خاص ظلم کو متعین نہ کیا بلکہ ایک ایسا نکرہ اسم استعمال کیا جو تمام ظلموں کو شامل کیے ہوئے ہے، پھر بندوں کی اضافت خود اپنی جانب کی کیونکہ یہ اسی کے بندے ہیں جیسا کہ حق تعالیٰ نے نیک اور صالح بندے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول نقل کیا، آپ نے کہا: ِ
انْ تُعَذِّبْھُمْ فَاِنَّھُمْ عِبَادُکَ (سورۃالمائدہ۔118)
ترجمہ: اگر تو انہیں سزا دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں۔
آپ نے بھی بندوں کی نسبت اللہ تعالیٰ کی جانب کی اور کسی بندے کے لیے اللہ سے منسوب ہو جانے کا شرف ہی کافی ہے۔
مزید فرمایا: اللہ کو فضل عدل سے زیادہ پسند ہے۔
بات چل نکلی کہ انسان جدھر گناہ کرتا ہے وہ جگہ قیامت کے دن گواہی دے گی تو فرمایا: ابن ِ عربی فرماتے ہیں کہ اگر تو نے کسی جگہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اس وقت تک وہ جگہ نہ چھوڑ جب تک کہ وہاں کوئی نیک عمل اور عبادت نہ کر لے۔ لہٰذا گواہی طلب کیے جانے پر اگر وہ جگہ تیرے خلاف گواہی دے تو تیرے حق میں بھی گواہی دے۔ سو اس نیکی کے بعد ہی وہ جگہ چھوڑ۔ اسی طرح تیرے وہ کپڑے جن میں تو نے اللہ کی نافرمانی کی تو اُن میں بھی ویسا ہی کر جیسا کہ میں نے تجھے بتایا، ان میں اللہ کی عبادت کر۔ اسی طرح تیرے بدن کا جو حصہ تجھ سے جدا ہو، جیسے مونچھ کترنا، زیر ناف بال مونڈنا، ناخن کاٹنا، بال بنانا یا میل اتارنا وغیرہ۔ ان چیزوں میں سے کوئی بھی چیز جب تیرے بدن سے جدا ہو تو تجھے طہارت اور ذکر ِاللہ میں مشغول ہونا چاہیے۔ کیونکہ اِس سے تیرے بارے میں پوچھا جاتا ہے کہ اس نے تجھے کس حالت میں چھوڑا؟ اس بارے میں تیری سب سے کمتر عبادت یہ ہو سکتی ہے کہ تو اللہ سے یہ دعا کر کہ وہ اپنے حکم سے تیری توبہ قبول کرے تاکہ تو اللہ کے حکم کی بجا آوری میں ایک واجب ادا کر رہا ہو۔ یہ اس کا کہنا ہے :
وَقَالَ رَبُّکُمُ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (سورۃ مومن ۔ 60)
ترجمہ: اور تمہارے ربّ کا کہنا ہے مجھے پکارو، میں تمہیں جواب دوں گا۔
اْس نے تجھے یہ حکم دیا کہ تو اسے پکار ، پھر اس آیت کے آخرمیں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ (سورۃ مومن ۔ 60)
ترجمہ: جو لوگ میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں۔
یہاں عبادت سے مراد دعا ہے، یعنی جو کوئی میرے حضور عاجزی اور مسکنت سے تکبر کرے۔ اس نے دعا کو عبادت کہا اور عبادت ذلت، عاجزی اور مسکنت ہی ہے:
سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِینَ (سورۃ مومن ۔ 60)
ترجمہ: تو (ایسے لوگ) عنقریب جہنم میں ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوں گے۔
یعنی بے چارگی کی حالت میں خوار اور زبوں حال ہو کر۔ لیکن اگر انہوں نے وہ کیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تو اللہ تعالیٰ انہیں ان اعمال کا بدلہ جنت میں عزت و اکرام سے داخلے کی صورت میں دے گا۔
کسی نے پوچھا ’’توبۃالنصوح‘‘ کیا ہے؟
فرمایا:ارشاد ِباری ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا (سورۃالتحریم۔8)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو توبۃالنصوح ہو۔
امیر المومنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا کہ توبۃالنصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔
بے شک اللہ عَزَّ وَجَلَّ توبہ کرنے والے ،آزمائش میں مبتلا مومن بندے کو پسند فرماتا ہے۔
کسی نے پوچھا کہ کیا اللہ توبہ ضرور قبول کرتا ہے؟
فرمایا : ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوبَۃَ عَنْ عِبَادِہٖ (سورۃالشوریٰ۔ 25)
ترجمہ : اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے۔
توبہ اللہ ضرور قبول کرتا ہے لیکن موت کے فرشتے کو دیکھنے سے پہلے پہلے۔
وَ لَیْسَتِ التَّوبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ج حَتّٰٓی اِذَا حَضَرَ اَحَدَھُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَ لَا الَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَ ھُمْ کُفَّارٌ ط اُولٰٓئِکَ اَعْتَدْنَا لَھُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا (سورۃالنسا ۔18)
ترجمہ: اور ان لوگوں کی توبہ(کی قبولیت) نہیں جو گناہوں میں لگے رہتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہنے لگے اب میں نے توبہ کی اور نہ ان لوگوں کی (کوئی توبہ ہے) جو کفر کی حالت میں مریں۔ ان کے لئے ہم نے دردناک عذاب تیار کررکھا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ میں ’’قریب‘‘سے مراد گناہ کرنے اور ملک الموت کو دیکھنے کے درمیان کا وقت ہے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں کہ بندے کے لیے توبہ پھیلا دی گئی ہے جب تک اسے ہانکا نہ جائے۔ پھر یہی آیت تلاوت فرمائی۔
بندے کی توبہ اس وقت تک قابل ِقبول ہے جب تک موت کے فرشتوں کو نہ دیکھ لے۔
حضرت سید نابکر بن عبد اللہ مزنیؒ نے فرمایا : موت کے فرشتے کے آنے تک توبہ کا در کھلا رہتا ہے۔ جب بندہ فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے تو اس کی معرفت ختم ہو جاتی ہے۔ (لطائف المعارف)
سیدنا ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں: بندے کے لیے اس وقت تک توبہ کشادہ کر دی گئی ہے جب تک نزاع میں مبتلا نہ ہو جائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: سورج مغرب سے طلوع ہونے سے پہلے جو توبہ کرے اللہ اسکی توبہ قبول کرتا ہے۔ (مسلم)
کسی نے پوچھا ان لوگوں کے علاوہ بھی لوگ ہیں کہ جن کی توبہ قبول نہیں ہوتی؟ تو فرمایا: اللہ ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں کرتا جو:
کلمہ گو کو کافر کہے
صراطِ مستقیم پر چلنے والے کو گمراہ کرے
گناہ کو جان بوجھ کر کرے
اللہ فرماتا ہے:
اِنَّمَا التَّوَبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓئَ بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُوْلٰٓئِکَ یَتُوْبُ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ ط وَکَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا (سورۃ النسا ۔17)
ترجمہ:اللہ نے صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نادانی سے برائی کر بیٹھیں پھر جلد ہی توبہ کرلیں پس اللہ ایسے لوگوں پراپنی رحمت کے ساتھ رجوع کرتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
کسی نے آپ مدظلہ الاقدس کی بارگاہ میں حاضر ہو کر توبہ کی تو وہ کہنے لگا کہ حضور آپ مجھے اتنی دیر سے کیوں ملے کہ میں نے اپنی پچاس سالہ زندگی ضائع کر دی۔
آپ نے فرمایا: میں تمہیں بہت جلدی ملا ہوں کیونکہ موت سے پہلے تو توبہ بھی قبول ہے۔ انسان بھی عجیب ہے توبہ کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ بہت قریب ہے اور گناہ کے وقت سمجھتا ہے کہ اللہ بہت دور ہے۔
متفرق
کسی نے پوچھا کہ آزمائش کا ادراک نہ ہونا بھی فتنہ ہے؟
فرمایا: بالکل۔ طالب کی تو ہر لمحہ آزمائش ہوتی ہے۔ طالب رہتا ہی آزمائش میں ہے بشرطیکہ وہ طالب ہو۔
کسی نے پوچھا کہ اللہ سب کو وافر رزق کیوں نہیں دے دیتا کہ کوئی غریب ہی نہ ہو؟
فرمایا: اللہ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ:
وَ لَو بَسَطَ اللّٰہُ الرِّزْقَ لِعِبَادِہٖ لَبَغَوْا فِی الْاَرْضِ (سورۃ الشوریٰ 72)
ترجمہ: اگر اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی روزی فراخ کر دیتا تو وہ زمین میں فساد برپا کر دیتے۔
فرمایا: یہ ظاہری رزق کے ساتھ ساتھ باطنی رزق کے متعلق بھی ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ (سورۃالبقرہ ۔253)
ترجمہ: بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔
کسی نے پوچھا کہ سجادہ نشینی قرآن میں کہاں ثابت ہے؟
فرمایا: اللہ نے سورۃ الانفال میں فرمایا:
وَ مَا لَھُمْ اَلَّا یُعَذِّبَھُمُ اللّٰہُ وَ ھُمْ یَصُدُّوْنَ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَا کَانُوْا اَوْلِیَآئَہٗ ط اِنْ اَوْلِیَآئُوہٗٓ اِلَّا الْمُتَّقُوْنَ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَھُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ (سورۃالانفال۔ 34)
ترجمہ: اور انہیں کیا ہے کہ اللہ انہیں عذاب نہ دے حالانکہ یہ مسجدِحرام سے روک رہے ہیں اور یہ اِس کے اہل ہی نہیں،اس کے اہل تو پرہیزگار ہی ہیں مگر ان میں اکثر جانتے نہیں۔
اس آیت میں اللہ فرماتا ہے کہ کعبہ کے متولی متقی اور اولیا ہیں۔
کسی نے پوچھا ناصبی کون ہیں؟
فرمایا: جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شان کو (معاذاللہ) کم کرنے کی کوشش کرے اور اس کو دین کا حصہ سمجھے۔ اسی طرح رافضی وہ ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تنقیدکریں اور اس کو دین کا حصہ سمجھیں۔
فرمایا: اسی طرح لوگ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ نے جو معاہدہ کیا اس میں صرف وظیفہ کی بات کرتے ہیں حالانکہ پورا معاہدہ پڑھ کر دیکھیں۔ یہ تو معمولی سی بات تھی۔ حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے معاہدہ کی ایک وجہ یہ تھی کہ کوفی سپہ سالار ساتھ دینے سے انکاری ہو گئے تھے۔
مزید فرمایا: جو لوگ یہ حرکتیں کرتے ہیں یعنی الزامات لگاتے ہیں اور تنقید کرتے ہیں ان کی کوئی بنیاد نہیں۔ اگر کوئی صاحبِ علم ان کے سامنے آ جائے تو بھاگ جاتے ہیں۔
کوفیوں کے متعلق فرمایا کہ ان کی دھوکہ بازی مشہور ہے۔ انسان کو کھڑا کر کے مشکل وقت میں چپکے سے بھاگ جاتے تھے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے بھی دغا کیا، حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ سے بھی اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٗ سے بھی۔
حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کی آل پاک نے بہت کارنامے سر انجام دیے لیکن تاریخ میں ان کا ذکر کم ملتا ہے۔ اسی طرح جید صحابہ کرامؓ کا ذکر بھی تاریخ میں کم ملتا ہے۔
آپ مدظلہ الاقدس نے فرمایا کہ حضرت معروف کرخیؒ ابتدائے سلوک میں حضرت امام علی الرضا رضی اللہ عنہٗ کے پاس آئے۔ ان کے دروازہ مبارک پر کھڑے رہتے اور لوگوں کو آپ رضی اللہ عنہٗ سے ملاتے۔
ایک دفعہ مامون الرشید آیا اور حضرت معروف کرخی ؒسے کہا کہ حضرت امام علی الرضاؓ سے عرض کریں کہ میں نے سمندری سفر پر جانا ہے لیکن مجھے ڈر لگتا ہے۔ اس لیے کوئی وظیفہ عنایت فرمائیں۔
حضرت معروف کرخیؒ اندر گئے۔ حضرت امام علی الرضا رضی اللہ عنہٗ نے ایک پرچی پر کچھ لکھ کر دے دیا۔ حضرت معروف کرخیؒ نے باہر آ کر وہ پرچی مامون الرشید کے حوالے کر دی۔ وہ بحری سفر پر روانہ ہو گیا۔ راستے میں طوفان آ گیا۔ اس نے پرچی نکالی تا کہ وظیفہ شروع کرے۔پرچی کھولی تو اندر صرف ’’معروف کرخی‘‘لکھا ہوا تھا۔ اسے بہت دکھ ہوا کہ میں نے تو وظیفہ مانگا تھا اور مجھے یہ دیا گیا۔ اس نے پرچی پانی میں پھینک دی۔ جیسے ہی پھینکی تو طوفان تھم گیا۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ واپسی پر دوبارہ حضرت معروف کرخیؒ کے پاس آیا اور معاملہ بیان کیا اور استفسار کیا کہ آپ کا کب سے اتنا مقام ہو گیا۔ انہوں نے فرمایا کہ میرا کوئی کمال نہیں بلکہ حضرت امام علی الرضا رضی اللہ عنہٗ ہر روز کئی بار مجھے نام سے پکارتے ہیں جس کی برکت سے نام میں تاثیر آئی۔
فرمایا: ایک مرتبہ حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ نے حاضرِخدمت ہو کر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ عنہٗ سے عرض کیا کہ آپ چونکہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم میں سے ہیں اس لئے مجھ کو کوئی نصیحت فرمائیں۔ لیکن آپ خاموش رہے اور جب دوبارہ حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی کہ اہلِ بیت رضی اللہ عنہم ہونے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو فضیلت بخشی ہے اس لحاظ سے نصیحت کرنا آپ کے لئے لازم ہے۔
یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہٗ نے فرمایا: مجھے یہی تو خوف لگا ہوا ہے کہ قیامت کے دن میرے جد ِاعلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہاتھ پکڑ کر یہ سوال نہ کر دیں کہ تو نے خود میری اتباع کیوں نہیں کی؟
یہ سن کر حضرت داود طائی رحمتہ اللہ علیہ کو بہت عبرت ہوئی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ جب آلِ اہل بیت رضی اللہ عنہم پر خوف کے غلبہ کا یہ عالم ہے تو میں کس گنتی میں آتا ہوں اور کس چیز پر فخر کر سکتا ہوں!
فرمایا: حضرت مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں کہ جس کو مرشد کی خاموشی فائدہ نہیں دیتی اس کو مرشد کا کلام بھی فائدہ نہیں دے سکتا۔ ہمارے مرشد بھی خاموش رہتے تھے۔ ہم نے بھی ان کی خاموشی سے فیض حاصل کیا۔ مرشد باطن کی تربیت کرتا ہے جس کا زبان سے تعلق نہیں۔
علم کے متعلق فرمایا:
حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم علم کا شہر ہیں اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ علم کا دروازہ ہیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ شہید ہو گئے تو حضرت ابنِ مسعودؓ نے فرمایا علم کے دس حصوں میں سے 9 حصے اس دن چلے گئے جس دن حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ اس دنیا سے وصال فرما گئے۔
باقی علم کتنا علم بچا ہو گا۔ اس باقی علم میں بھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو ملا۔ اللہ فرماتا ہے:
وَ مَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا (سورۃ بنی اسرائیل۔85)
ترجمہ: تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔
اس تھوڑے سے علم کے ہوتے ہوئے اولیائے کاملین کا انکار نہیں کرنا چاہیے۔
جعلی پیروں نے پیرانِ حق کو بدنام کیا ہے۔ لوگ خالص لوگوں کو بھی جعلی پر محمول کر لیتے ہیں۔ اللہ نے رزق مقرر کر دیا ہے، طریقہ حلال یا حرام میں آزادی ہے۔ جعلی پیر غلط طریقے سے روزی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔
اولیا اللہ
کسی نے پوچھا کہ صوفی کون ہوتا ہے؟
فرمایا: صوفی اس کو کہتے ہیں جو اپنے تمام اَوصاف کو ختم کر کے اللہ کو پالے۔جیسا کہ حدیث ہے:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ
ترجمہ: اور اللہ کے اخلاق سے متخلق ہو جاؤ۔
اولیا اور صوفیا وہ ہیں جو اپنی پاکیزگی کے باعث قرآن کے اصل معانی کو پا لیتے ہیں جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَھَّرُوْنَ (سورۃ الواقعہ۔79)
ترجمہ:اس کتاب کو پاک لوگ ہی چھو سکتے ہیں۔
فرمایا: عارف کامل رموزِخداوندی سے آگاہ ہوتا ہے اور ایک مقام پر وہ خود راز بن جاتا ہے۔
اولیا کا ذکر طالبانِ مولیٰ کے لیے صراط ِمستقیم کا زاد ِراہ ہے۔ قرآن میں ہے:
لَقَدْ کَانَ فِیْ قَصَصِھِمْ عِبْرَۃٌّ لِاُولِی الْاَلْبَابِ(سورۃ یوسف۔111)
ترجمہ: بیشک ان کے واقعات میں اہلِ عقل کے لیے عبرت ہے۔
(جاری ہے)