کلید التوحید (کلاں) | Kaleed ul Tauheed Kalan
قسط نمبر32 مترجم: سلطان محمد احسن علی سروری قادری
جان لو کہ فقہ و مسائل اور عربی کا علم سیکھنے اور ظاہری ریاضت و طاعت سے نفس کافی موٹا ہو جاتا ہے اور مخلوق میں شہرت اور نام و ناموس پا کر بہت خوش ہوتا ہے جس کے باعث اس میں انانیت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خود کو مخلوق کی نظر میں مزید نیک اور آراستہ ظاہر کرتاہے جبکہ تصوف، توحید، معرفتِ الٰہی اور وحدانیت کا علم پڑھنے سے نفس شرمندہ ہوتا ہے اور ذکرِ خفی کی بدولت گویا وہ اپنا گوشت خود کھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے خوف کے باعث اس قدر آہ و زاری کرتا ہے کہ ہڈیوں سے مغز نکل آتا ہے۔ ایسی پوشیدہ اور بے ریا ریاضت کے ذریعے وہ ہمیشہ خونِ جگر پیتا ہے جس کے باعث نفس کمزور ہو کر خواہشاتِ نفس سے پاک ہو جاتا ہے اور نیست و نابود ہو کر فنا فی اللہ ہو جاتا ہے۔ یہ علمِ تصوف ہے جسے سیکھنا فرضِ عین اور انبیا کی سنت ہے اور اسی کی بدولت انسان مراتبِ اولیا پر پہنچتا اور مجلسِ محمدی میں داخل ہوتا ہے۔ اگر کوئی فقیہ اور عالم جنہوں نے تمام علوم حاصل کیے ہوں اور وہ ان علوم کو تمام عمر پڑھتے رہیں تو بھی دل سے سیاہی، زنگار، کدورت، حبِ دنیا اور خطرات دور نہیں ہوتے جب تک کہ قلب کو صاف کرنے والا علمِ تصوف نہ پڑھا جائے اور ذکرِ خفی اور کلیدِ کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ نہ جانتے ہوں تو دل زندہ نہیں ہوتا اور نہ ہی مردہ پن سے نجات حاصل کرتا ہے۔
اگر مردہ دل شخص علمِ توریت، علمِ انجیل، علمِ زبور اور علمِ تفسیر ِ قرآن پڑھتا رہے تو بھی دل زندہ نہیں ہوتا بلکہ اس کی تمام عمر برباد ہو جاتی ہے کیونکہ اس کی روح پریشان اور نفس خوش رہتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لِکُلِّ شَیْئٍ مُصْقِلَۃٌ و مُصْقِلَۃُ الْقَلْبِ ذِکْرُ اﷲِ تَعَالٰی لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
ترجمہ: ہر شے کو صیقل کرنے والی ایک شے ہے اور دلوں کو صیقل کرنے والی شے ذکرِ اللہ ہے۔ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
جان لو کہ اگر کوئی شخص مرتبۂ مومن اور مسلمان پر نہ پہنچاہو وہ عارف باللہ فقیر فنا فی اللہ اور درویش کیسے ہو سکتا ہے؟ جان لو کہ لفظ مسلمان کے چھ حروف ہیں م، س، ل، م، ا، ن۔ حرف ’م‘ سے مسلمان رحمٰن کے موافق اور شیطان کے مخالف ہوتا ہے، وہ علم کے موافق اور جہالت کے مخالف، روح کے موافق اور نفس کے مخالف، شریعت کے موافق اور بدعت کے مخالف، فقر کے موافق اور دنیا و اہلِ دنیا کے مخالف ہوتا ہے جو شہوات، حرص، طمع اور اس جیسی دوسری برائیوں کو ختم کرنے والا ہوتا ہے۔ حرف ’س‘ سے اس کا قلب سلیم ہوتا ہے جو حق کی رضا کو تسلیم کرنے والا ہوتا ہے اور مخلوق سے اچھے اخلاق سے پیش آتا ہے۔ حرف ’ل‘ سے اس کی زبان پر ہمیشہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ورد ہوتا ہے۔ حرف ’م‘ دوم سے وہ علمِ نص و حدیث، مسائلِ فقہ اور علمِ توحید و تصوف کا متکلم ہوتا ہے۔ حرف ’ا‘ سے اس کا ارادہ صادق ہوتا ہے جس کی بدولت وہ صدیق باتصدیق ہوتا ہے۔ حرف ’ن‘ سے وہ نیک نیت ہوتا ہے۔ یہ سب مسلمان کے مراتب ہیں۔ اے مسلمان تجھ پر سلامتی ہو۔ جو ان صفات کا حامل ہو وہی حقیقی مسلمان ہوتا ہے جو حق بردار، حق پر جان نثار کرنے والا اور باطل سے بیزار ہوتا ہے۔ جان لو کہ لفظ مومن کے بھی چار حروف ہیں م، و، م، ن۔ حرف ’م‘ سے مومن نفاق سے ہمیشہ کے لیے نجات حاصل کر لیتا ہے اور ہمیشہ قلب سے تصدیق کرتا ہے۔ مولیٰ کا طالب اور اس کی محبت میں بڑھنے والا ہوتا ہے۔ یہ باصفا دل رکھنے والے باادب اور باحیا مومن کے مراتب ہیں۔ حرف ’و‘ سے واحد اور ماسویٰ اللہ ہر شے کو ترک کر کے وحدانیت میں غرق ہوتا ہے۔ وہ مردہ دل والوں سے جدا صاحبِ توحید، صاحبِ ترک و توکل اور صاحبِ تجرید و تفرید ہوتا ہے۔ وہ بازید صفت روح کے ساتھ اخلاص رکھتا ہے اور یزید صفت نفس کا دشمن ہوتا ہے۔ مومن معرفتِ الٰہی کے علاوہ نہ کچھ طلب کرتا ہے نہ ڈھونڈتا ہے۔
بیت:
معرفت اندوز کہ با خود ببری
کہ نصابے دگراں است نصیب زر و سیم
ترجمہ: معرفت کو حاصل کر کہ یہی تو اپنے ساتھ (آخرت میں) لے جا سکتا ہے جبکہ دنیا دار کا نصیب تو مال و دولت ہی ہے۔
جوابِ مصنف:
آدمی را معرفت باید نہ جامہ از حریر
در صدف بنگر کہ او را سینہ پرُ از گوہر است
ترجمہ: آدمی کو چاہیے کہ وہ معرفت کا طلبگار ہو نہ کہ قیمتی لباس کا۔ سیپی کو دیکھو کہ اس کے اندر قیمتی موتی ہوتے ہیں۔
ابیات:
عارفاں در معرفت باشد چناں
ماہی اندر آب گم باشد نہاں
ترجمہ: عارفین کو معرفت میں اس طرح غرق ہونا چاہیے جیسے مچھلی پانی کے اندر گہرائی میں گم ہو جاتی ہے۔
ہر کہ گوید عارفم آں لافزن
عارفاں لب بستہ باحق ہم سخن
ترجمہ: جو خود یہ کہتا ہے کہ میں عارف ہوں وہ جھوٹا ہے۔ عارفین تو لب بستہ اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں۔
ہر کہ گوید عارفم آں سر ہوا
عارفاں غرق فی اﷲ شد فنا
ترجمہ: جو خود یہ کہتا ہے کہ میں عارف ہوں وہ خواہشِ نفس کا شکار ہے کیونکہ عارف تو اللہ کی ذات میں غرق اور فنا ہوتے ہیں۔
ہم عارفم ہم واصلم باحق قریب
ایں مراتب یافتم لطف از حبیبؐ
ترجمہ: میں عارف بھی ہوں اور واصل بھی اور حق تعالیٰ کے قریب بھی ہوں۔ میں نے یہ مراتب حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لطف و کرم سے پائے ہیں۔
حرف ’م‘ دوم سے مومن موذی نفس کو اس کی مراد اور لذت نہیں دیتا۔ حرف ’ن‘ سے مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے۔ مومن نیک بخت ہوتا ہے جو ہمیشہ نیک اعمال میں مشغول رہتا ہے۔ یہ مومن کے مراتب ہیں اے مومن تجھ پر سلامتی ہو۔ ازلی ہدایت کی عنایت کی بدولت مومن کا دل نورِ الٰہی اور رحمتِ الٰہی سے پرُ رہتا ہے۔ وہ دنیا میں ولی اللہ کی مثل صاحبِ ولایت اور صاحبِ فیض و فضل ہوتا ہے۔ مومن کے دو گواہ ہیں گناہ کو درگزر کرے اور وجود سے غصے کو پی جائے۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ ط وَاﷲُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ۔ (سورۃ آلِ عمران۔134)
ترجمہ: اور وہ (مومن) غصے کو ضبط کرنے والے ہیں اور لوگوں (کی خطائوں) سے درگزر کرتے ہیں۔ بے شک اللہ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
ابیات:
مومن آنمرد است دارد خشم باز
تارک و فارغ ز دنیا بے نیاز
ترجمہ: مومن ایسا مرد ہوتا ہے جو غصے کو قابو میں رکھتا ہے اور دنیا سے تارک فارغ اور بے نیاز ہوتا ہے۔
در ملک مومن درم باشد صد گناہ
مومنان را نظر باشد بر اِلٰہ
ترجمہ: مومن کی ملکیت میں مال و دولت ہونا صد گناہ ہے کیونکہ مومنوں کی نظر تو اللہ پر ہوتی ہے۔
ہر کہ گوید مومنم زان وصف دان
بر نام اﷲ مومنان بخشد جان
ترجمہ: جو یہ کہتا ہے کہ میں مومن ہوں تو اس کی یہ خوبی ایسے ثابت ہوگی کہ مومنین اللہ کے نام پر جان بخش دیتے ہیں۔
مومن و مسلمان ہونا آسان کام نہیں۔ مومن و مسلمان کے مراتب میں اسرارِ پروردگار کے عظیم مشاہدات ہیں۔ مومن دنیا مردار کی طرف نظر نہیں کرتا اگرچہ بیشمار روز فقر و فاقہ سے گزر جائیں۔ طالبِ دنیا کو مومن و مسلمان نہ سمجھ کیونکہ دنیا منافقوں اور کافروں کا نصیب ہے۔
جان لو کہ جیسے ہی قلب جنبش میں آتا ہے اور صاحبِ قلب تصور اسمِ اللہ ذات سے قلب پر اسمِ اللہ ذات کو درست نقش دیکھتا ہے تب اسمِ اللہ ذات کے ہر حرف سے آفتاب کی مثل شعلۂ نور قلب کے اردگرد ظاہر ہو کر روشنی بکھیرتا ہے جس سے قلب سر سے قدم تک نورِ ذات کی تجلیات سے مغلوب ہو جاتا ہے اور زبان یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کا ورد کرتی ہے۔ جتنی بار بھی قلب کلمہ طیب کے ساتھ اللہ کا نام لیتا ہے اسے ستر ہزار ختمِ قرآن کا ثواب ملتا ہے بلکہ اس کا ثواب تو اس سے بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا صاحبِ قلب ذاکر جب اسمِ اللہ ذات کا تصور کرتا ہے تو آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں یوں مستغرق ہوتا ہے کہ قلب کی طرف متوجہ ہونے پر تجلیٔ ذات میں غرق ہو جاتا ہے اور حضورِ حق میں نورِ ربوبیت کے مشاہدہ میں مشغول رہتا ہے۔ اللہ کے حکم، نورِ ذات کی برکت، اسمِ اللہ ذات کی عصمت اور کلمہ طیب لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کی برکت سے اس کے اَسی (80) سال کے گناہ کراماً کاتبین کے رجسٹر سے مٹا دئیے جاتے ہیں۔ یہ عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتا ہے اور پوشیدہ اور بے ریا ہونے کی وجہ سے ہمیشہ اللہ کی نگاہ میں ہوتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نظر دل پر ہوتی ہے۔ جان لو کہ جب صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات کلمہ طیب کو باترتیب اسمِ اللہ ذات کے ساتھ پڑھتا ہے تو محبوبِ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس کی حضوری سے مشرف ہوتا ہے اور آنکھیں بند کر کے مراقبہ کے دوران اپنے ہاتھ میں تصور اسمِ اللہ ذات کی تلوار پکڑتا ہے جس سے وہ تمام عمر کے صغیرہ و کبیرہ گناہوں کو قتل کر دیتا ہے اور شیطان و نفس کو اور خناس و خرطوم کو اور تمام خطرات کو بھی قتل کر دیتا ہے گویا کہ وہ روئے زمین پر موجود تمام دشمنوں کو قتل کر دیتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃوالسلام نے ارشاد فرمایا:
تَفَکَّرُ السَّاعَۃِ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ
ترجمہ: گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے افضل ہے۔
پس ایسے دائمی ذکر، کامل تفکر اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مجلس کی حضوری والے مراقبہ کو تمام نیکیوں کا مجموعہ کہتے ہیں جو کہ ان آیات کے مطابق ہے:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ ۔ (سورۃ ھود۔114)
ترجمہ: بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ ذاکرین کے لیے ذکر ہے۔
وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اﷲِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ م بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ ج فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ۔ (سورۃ الحج۔28)
ترجمہ: اور (قربانی کے) مقررہ دنوں میں اللہ نے جو مویشی چوپائے انہیں عطا فرمائے ہیں ان پر (قربانی کرتے وقت) اسمِ اللہ ذات پڑھیں۔ پس تم اس میں سے خود (بھی) کھاؤ اور خستہ حال محتاجوں کو (بھی) کھلاؤ۔
جان لو کہ جب ذکرِخفی کا ذاکر آنکھیں بند کر کے اور مراقبہ میں غرق ہو کر دل کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ بلند آواز سے مد کو کھینچ کر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَغْمِضْ عَیْنَکَ یَا عَلِیِّ وَ اَسْمَعُ فِیْ قَلْبِکَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحْمَدٌ رَّسُوُلْ اَللّٰہُ
ترجمہ: اے علیؓ! اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے قلب میں لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ سنیں۔
جو اس عظیم نعمت کو پا لے وہ ذاکر اور علومِ رحمانی کا حافظ بن جاتا ہے اور جو اس نعمت سے محروم رہے اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے اور خطراتِ شیطانی کے باعث خراب حال رہتا ہے۔ پس انسان اور حیوان کے درمیان فرق اسی قلب کا ہے۔ اگر قلبِ سلیم ذکر اور نورِ الٰہی سے پرُ ہو تو وہ روشن ضمیر انسان ہوتا ہے وگرنہ حیوان۔ انسان اُسے کہتے ہیں جو ظاہر میں بندگی میں مشغول ہو اور باطن میں اس کا دل معرفتِ الٰہی اور نورِ حضورِ ربوبیت کے مشاہدہ میں غرق ہو کیونکہ عبودیت کا تعلق ظاہری عبادات سے ہے جبکہ ربوبیت کا تعلق دل میں رازِ حضوری کے مشاہدہ سے ہے۔ سالک و عارف مومن کے لیے عبودیت اور ربوبیت دو بال و پرَ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ لَّمْ اَدَیْتَ فَرَضُ الدَّائِمِ لَمْ یَتَقَبَّلِ اللّٰہُ مِنْہُ فَرَضُ الْوَقْتِ وَمَنْ لَّمْ اَدَیْتَ فَرَضُ الْوَقْتِ لَمْ یَتَقَبَّلِ اﷲُ مِنْہُ فَرَضُ الدَّائِمِ
ترجمہ: جو دائمی فرض ادا نہیں کرتا اللہ اس کے وقتی فرض بھی قبول نہیں کرتا۔اور جو وقتی فرض ادا نہیں کرتا اللہ اس کے دائمی فرض بھی قبول نہیں کرتا۔
وقتی فرض پانچ وقت کی نماز ہے اور دائمی فرض دل میں دائمی خفی ذکر میں غرق ہونا ہے کہ دل سے آواز آتی ہےیَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ۔ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
فَاِذَا قَضَیْتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ قِیَامًا وَّ قُعُوْدًا وَّ عَلٰی جُنُوْبِکُمْ (سورۃ النسائ۔103)
ترجمہ: پس جب تم نماز ادا کر چکو تو اللہ کا ذکر کرو کھڑے اور بیٹھے اور اپنے پہلوؤں پر (لیٹے ہوئے)۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
لَا صَلٰوۃَ اِلَّا بِحُضُوْرِ الْقَلْبِ
ترجمہ: حضورِ قلب کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
حضورِ قلب سے مراد ایسا قلب جو ذکرِ الٰہی اور نورِ تجلیاتِ ذات سے پرُ رہتا ہے اور خطراتِ شیطانی سے نجات حاصل کر چکا ہوتا ہے۔ ایسا صاحبِ قلب ہمیشہ باطن میں انبیا اور اولیا سے ملاقات کرتا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ صاحبِ مراقبہ ذاکرِ دل اپنے دل میں دائمی نماز میں مشغول ہوتا ہے اور اس کا دل شرک، کفر اور نفاق سے نجات پا چکا ہوتا ہے۔ ایسا قلب دل اور آخرت میں زندہ اور حیات ہوتا ہے۔ ان کی شان یہ ہے کہ:
اَلصَّلٰوۃُ دَائِمُوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ
ترجمہ: وہ اپنے قلوب میں دائمی نماز ادا کرتے ہیں۔
ان کی روح جمعیت پا لیتی ہے جبکہ نفس پریشان رہتا ہے۔
اَجْسَامُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ قُلُوبُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ
ترجمہ: ان کے اجسام اس دنیا میں جبکہ قلوب آخرت میں ہوتے ہیں۔
ان کی راہ یہ ہے کہ وہ کلمہ طیب پر عمل کرتے ہیں اور ظاہر و باطن میں وقتی و دائمی فرض ادا کرتے ہیں۔ اور سخاوت کے ذریعے مسلمانوں کو نفع پہنچاتے اور ہدایت دیتے ہیں۔ یہ تینوں اعمال اللہ کی بارگاہ میں مقبول اور ان کے گواہ ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
اَلصَّلٰوۃُ یُذْھِبُ السَّیِّاٰتِ وَکَلِمَۃُ الطَّیِّبُ یُذْھِبُ السَّیِّاٰتِ وَالسَّخَاوَۃُ یُذْھِبُ السَّیِّاٰتِ
ترجمہ: نماز، کلمہ طیب اور سخاوت گناہوں کو مٹا دیتے ہیں۔
پس معلوم ہوا کہ مراقبہ دو قسم کا ہے اوّل مراقبۂ اہلِ حضور جو کہ محمود ہوتا ہے اور دوم مراقبۂ اہلِ خطرات جو کہ شیطانی و مردود ہے۔ مراقبہ محمود تین قسم کا ہے۔ مراقبہ کی ابتدا میں صاحبِ مراقبہ چھ سمتوں کا تماشا دیکھنے میں غرق ہوتا ہے۔ جو کوئی اس مراقبہ کو ہفت اقلیم کے لیے سات روز تک متواتر کرتا رہے تو مشرق تا مغرب تمام عالموں کو اپنے قبضہ و تصرف میں لے آتا ہے۔ متوسط مراقبہ یہ ہے کہ صاحبِ مراقبہ خاتم النبییٖن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی مجلس میں حاضر ہو کر انبیا، اصفیا اور مرسلین کی ارواح سے ملاقات کرتا ہے۔ اگر صاحبِ مراقبہ اس سات روزہ مراقبہ میں غرق ہو تو اس کے ساتوں اندام اس طرح پاک ہو جاتے ہیں جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا بچہ گناہوں سے پاک ہوتا ہے اور مراقبہ کی انتہا یہ ہے کہ صاحبِ مراقبہ نورِ توحید میں غرق ہوتا ہے۔ وہ ظاہر میں بے خبر جبکہ باطن میں باشعور اور باحضور ہو کر تفکرِ ذات میں غرق ہوتا ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
تَفَکَّرُ السَّاعَۃِ خَیْرٌ مِّنْ عِبَادَۃِ الثَّقَلَیْنِ
ترجمہ: گھڑی بھر کا تفکر دونوں جہان کی عبادت سے بہتر ہے۔
مصنف کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ نعمتِ عظمیٰ اور سعادتِ کبریٰ تمام مومن اور مسلمان بھائیوں کا نصیب کرے۔ توحید و معرفتِ الٰہی اور فقرِمحمدیؐ کا یہ طریق تحقیق شدہ ہے جو اس میں شک کرے وہ کافر و زندیق ہے۔ جو شخص ابھی مومن کے مرتبہ پر ہی نہ پہنچا ہو وہ عارف فقیر کیسے ہو سکتا ہے؟ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
مَنْ عَرَفَ اللّٰہَ لَمْ یَکُنْ لَہٗ لَذَّۃً مَعَ الْخَلْقِ
ترجمہ: جو اللہ کی معرفت حاصل کر لے وہ مخلوق سے کسی قسم کی لذت نہیں پاتا۔
حضرت شیخ محی الدین قدس سرہُ العزیز فرماتے ہیں:
اَ لْاُنْسُ بِاللّٰہِ وَالْمُتَوَحَّشُ عَنْ غَیْرِ اللّٰہِ
ترجمہ: اللہ سے انس رکھو اور غیر اللہ سے وحشت کھاؤ۔
(جاری ہے)